Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, November 10, 2012

اگر رومنی میں عقل ہوتی

مٹ رومنی میں عقل ہوتی تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں نے اسے پورا پلان بنا کر دیا تھا اور ایک ڈالر لیے بغیر فی سبیل اللہ یہ کام کیا تھا۔ افسوس! اس نے میری محنت پر پانی پھیر دیا۔

اس نے پہلی غلطی یہ کی کہ جن جن علاقوں میں اس کی مقبولیت کم تھی وہاں اس نے الیکشن کے دن توجہ نہیں دی۔ اسے چاہئے تھا کہ پولنگ سٹیشنوں کے باہر مسلح جتھے بٹھاتا اور ووٹروں کو گاڑیوں میں بھر بھر کر لاتا۔ یہ ووٹر کسی بھی ریاست سے لائے جا سکتے تھے۔ ضروری نہیں تھا کہ ان کے پاس اصلی شناختی کارڈ ہی ہوتے۔ مسلح حمایتی پولنگ سٹیشنوں کے اندر داخل ہو کر ہوائی فائرنگ کرتے اور دوسر وں کو عبرت دلانے کے لیے ایک آدھ بندہ پھڑکا بھی دیتے۔ یوں کسی کو جرات نہ ہوتی کہ ووٹ رومنی کو نہ ڈالے۔

اس کے بعد رومنی نے غلطی پر غلطی کی۔ اگر وہ ہار گیا تھا تو اسے اپنی شکست تسلیم نہیں کرنی چاہئے تھی۔ اس نے اوباما کو فاتح مان کر اپنے پاﺅں پر خود کلہاڑی ماری۔ وہ ری پبلکن پارٹی کا خفیہ اجلاس بلاتا اور وہاں پوری منصوبہ بندی کرتا۔ اس کے بعد وہ ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں دھاندلی کا الزام لگاتا۔ یہ دھاندلی کا الزام اس لیے درست لگتا کہ حکومت تو اس کے مخالف اوباما کی تھی۔ وہ الزام لگاتا کہ پوری سرکاری مشینری اوباما کے لیے کام کر رہی تھی۔ سرکاری گاڑیاں، سرکاری جہاز اور سرکاری فنڈ۔ سب اسے شکست دینے کے لیے استعمال کئے گئے۔ وہ مطالبہ کرتا کہ الیکشن کے نتائج کالعدم قرار دیئے جائیں اور از سر نو انتخابات کرائے جائیں۔ وہ یہ تجویز بھی پیش کرتا کہ نئے الیکشن فوج یا عدلیہ کی نگرانی میں منعقد ہوں۔

ظاہر ہے ڈیموکریٹک پارٹی اس کے الزامات رد کر دیتی اور اوباما اصرار کرتا کہ کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ یہاں رومنی یہ نکتہ پیش کرتا کہ الیکشن سے چند دن پہلے سینڈی کا تباہ کن طوفان آیا تھا اور یہ کہ اس کے پاس اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ جو لوگ طوفان کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے تھے ان کے جعلی ووٹ بھگتائے گئے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اوباما کے جیتنے کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا۔

اس کے بعد کا کام آسان تھا۔ پورے امریکہ میں مظاہرے کرانے تھے۔ پیشہ ور مظاہرین میں فنڈ تقسیم کرنے تھے۔ بسوں میں لوگوں کو بھر بھر کر لانا تھا۔ دیہات اور قصبوں میں جو فارغ لوگ دن بھر بسوں کے اڈوں پر بیٹھے رہتے ہیں یا کھیل تماشوں میں لگے رہتے ہیں انہیں شہر کی مفت سیر کا لالچ دینا تھا۔ انہیں مفت کھانا کھلایا جانا تھا پھر ان میں رومنی کی بڑی بڑی تصویریں تقسیم کرنا تھیں۔ یوں بڑے بڑے شہروں میں مظاہرے ہوتے اور ٹریفک روک دی جاتی۔ ان مظاہروں میں کچھ لوگ مسلح ہوتے۔ پہلے بسیں کاریں اور عمارتیں جلائی جاتیں۔ لوٹ مار کی جاتی پھر فائرنگ ہوتی اور کچھ لوگوں کو ہلاک کر دیا جاتا۔ اس کے بعد۔ اللہ دے اور بندہ لے۔ یہ آگ پورے امریکہ میں پھیل جاتی۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے۔ جو بند نہ ہوتے ان پر حملہ کرکے زبردستی بند کرا دیئے جاتے۔ دفتروں میں حاضری خال خال رہ جاتی۔ ایک یا دو نجی اداروں پر گرنیڈ پھینکے جاتے۔ باقی خود بخود بند ہو جاتے۔ کارخانے ٹھپ ہو جاتے۔ دکاندار شٹر ڈاﺅن ہڑتال کرتے۔ عوام کو اشیائے خوردونوش ملنا بند ہو جاتیں۔ یوں لوگوں کے جذبات حکومت وقت کے خلاف ہو جاتے۔

اگلا مرحلہ حلف اٹھانے کی تقریب کو کینسل کرانے کا ہوتا۔ اگر ان سارے ہنگاموں کے باوجود امریکی حکومت اصرار کرتی کہ نومنتخب صدر اگلے چار سال کے لیے صدارت کا حلف اٹھائے گا تو رومنی لانگ مارچ کا اعلان کر دیتا۔ یہ لانگ مارچ ملک کے مختلف حصوں سے شروع ہوتا اور واشنگٹن ڈی سی پہنچ کر ختم ہوتا۔ چاروں کونوں سے یلغار ہوتی۔ ایک گروہ لاس اینجلز سے چلتا۔ دوسرا سیاٹل سے، تیسرا فلوریڈا سے اور چوتھا امریکہ کی اس شمال مشرقی سرحد سے جو کینیڈا سے ملتی ہے۔ یہ لانگ مارچ ٹرینوں، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کے ذریعے پیش قدمی کرتا۔ جوں جوں لانگ مارچ میں شامل مظاہرین دارالحکومت کی طرف بڑھتے، عوام کی سراسیمگی میں اضافہ ہوتا۔ لوگ واشنگٹن ڈی سی میں اپنے گھروں کو مقفل کرتے اور دوسری ریاستوں میں پناہ لینے چل پڑتے۔

اس موقع پر رومنی کو رات کے اندھیرے میں بری فوج کے ہیڈ کوارٹر میں جا کر آرمی چیف کو ملنا تھا۔ ایسی ملاقاتیں دو یا تین ہوتیں۔ لانگ مارچ جاری رہتا۔ جب مظاہرین واشنگٹن کی حدود کے باہر آ کر جمع ہو جاتے اور شہر محصور ہو جاتا تو فوج کی کچھ جیپیں وائٹ ہاﺅس میں داخل ہوتیں۔ اوباما کے سامنے ایک کاغذ رکھا جاتا۔ اسے کہا جاتا کہ اس پر دستخط کر دے۔ وہ اگر ہچکچاہٹ سے کام لیتا تو اسے مجبور کیا جاتا۔ یوں صدارت سے اس کی چھٹی ہو جاتی۔ ٹیلی ویژن پر آ کر آرمی چیف قوم سے خطاب کرتا۔ یہ خطاب ”میرے ہم وطنو“ سے آغاز ہوتا۔ وہ تفصیل سے بتاتا کہ کس طرح سیاست دانوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا تھا۔ وہ کتنے بدعنوان تھے۔ الیکشن میں کس کس طرح دھاندلی ہوئی اور یہ کہ حب الوطنی کا تقاضا تھا کہ فوج عوام کی مدد کو پہنچتی اور اپنا فرض ادا کرتی۔ آرمی چیف خدا کو حاضر ناظر جان کر بائبل پر ہاتھ رکھ کر قوم سے وعدہ کرتا کہ وہ نوے دن کے اندر اندر نئے انتخابات کرائے گا اور یہ کہ نئے انتخابات مکمل طور پر صاف اور شفاف ہوں گے۔

ابھی رومنی کا کام ختم نہ ہوتا۔ اب وہ ایک نئی تحریک چلاتا۔ یہ تحریک فوجی آمریت کے خلاف ہوتی۔ ظاہر ہے نوے دن کے بعد کس نے انتخابات کرانے تھے اور کون سے انتخابات کرانے تھے! آرمی چیف کے منہ کو سول اقتدار کے خون کا مزا لگ چکا ہوتا اور وہ آئے دن اقتدار کو طول دینے کے بہانے پیش کرتا۔ رومنی جمہوریت کا چمپئن بن کر سامنے آتا۔ ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ایک بار پھر مظاہرے شروع کرائے جاتے۔ ہڑتالیں ہوتیں۔ بسیں کاریں اور املاک کو نذر آتش کیا جاتا۔ حکومت کچھ علاقوں کو ”ریڈ زون“ قرار دیتی۔ مظاہرین ان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے۔ گولی چلتی اور یوں تحریک زور پکڑتی۔

بالآخر فوجی حکومت گھٹنے ٹیک دیتی۔ مارشل لاءایڈمنسٹریٹر قوم سے ایک بار پھر خطاب کرتا اور رومنی کو عبوری حکومت کا سربراہ بنانے کا اعلان کرتا۔ یہ عبوری حکومت آٹھ سال کے عرصہ پر محیط ہوتی۔ یوں رومنی قصر صدارت میں داخل ہو جاتا اور اپنا ہدف حاصل کر لیتا۔

لیکن رومنی نے میرے پیش کردہ منصوبے پر عمل نہ کرکے اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی ماری اور اپنی شکست کو تسلیم کر لیا!

Facebook.com/izharulhaq.net

2 comments:

Faisal said...

واہ استاد، مان گئے

محمد احمد said...

بہت خوب۔۔۔۔! اچھی ترجمان کی ہے آپ نے ہمارے سیاسی کلچر کی۔ شاید یہی فرق ہے پاکستان اور امریکہ میں۔

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com