Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 23, 2010

آسان اسلام

کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی سننے والا اسکے سحر میں گرفتار تھا، وہ پوری طرح اس میں ڈوبا ہوا تھا، اچانک ایک بدقسمت تلاوت بند کر دیتا ہے۔ جو آیت پڑھی جا رہی تھی، مکمل بھی نہ ہوئی تھی۔ آدھی تلاوت ہو چکی تھی، بقیہ آدھی رہتی تھی، سننے والا آنکھیں بند کر کے سُن رہا تھا۔ درمیان میں نعوذ بااللہ کاٹ دی گئی۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ کے رسول کی شانِ اقدس میں نعت پڑھی جا رہی ہو، آپؐ کی تعریف ہو رہی ہو، سننے والا بے خود ہو، اتنے میں کوئی بدبخت نعت کو درمیان میں کاٹ دے ابھی تو جو شعر پڑھا جا رہا تھا، مکمل بھی نہ ہوا تھا، ایک مصرع پڑھا گیا تھا دوسرا پڑھا جانا تھا کہ نعت سنانی بند کر دی گئی، سننے والا چاہتا تھا کہ رسالت مآبؐ کی شان میں نعت ہوتی رہے، اور وہ سنتا رہے۔

کلامِ پاک کی شان میں یہ گستاخی اور نعتِ رسول کی یہ بے ادبی ہمارے اردگرد مسلسل ہو رہی ہے، صبح و شام، رات دن اسکا ارتکاب ہو رہا ہے لیکن گستاخانہ خاکوں پر اپنے ہی ملک کی ٹریفک جام کرنے والوں اور اپنی ہی گاڑیوں کے شیشے توڑنے والوں کو اس کا شعور ہے نہ پرواہ۔ آپ کسی کو موبائل پر ٹیلی فون کرتے ہیں، جواب میں نارمل گھنٹی کے بجائے تلاوت سنائی دیتی ہے۔ آپ تلاوت میں کھو جاتے ہیں اچانک بدقسمت انسان بٹن دباتا ہے، تلاوت جہاں تھی وہیں ختم ہو جاتی ہے اور وہ ہیلو کہہ کر آپ سے مخاطب ہوتا ہے۔ آپ کچھ دیر کے بعد ایک اور صاحب کو فون کرتے ہیں جواب میں گھنٹی کے بجائے نعتِ رسولؐ سنائی دیتی ہے۔ محمدؐ کا روضہ قریب آ رہا ہے، آپ کا دل عقیدت اور محبت سے بھر جاتا ہے، آپکی آنکھیں بند ہونے لگتی ہیں۔ ’’بلندی پہ اپنا‘‘ لیکن ابھی مصرع پورا نہیں ہوتا کہ نعت ختم کر دی جاتی ہے اور آپ کو ایک کرخت، بدبخت قسم کی ’’ہیلو‘‘ سے سابقہ پڑتا ہے۔ اگر آپ ان بدبختوں کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ موبائل فونوں پر تلاوت اور نعتِ رسولؐ کا استعمال نہ کرو تو وہ آپ کو ایک ہی جواب دیں گے۔ ’’تم ہمیں تلاوت اور نعت سننے اور سنانے سے منع کرتے ہو؟‘‘

آپ اس سارے معاملے پر غور کریں تو آپ ایک ہی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ ہم مذہب کے نام پر ہر وہ کام کرتے ہیں جس کی ضرورت ہے نہ فائدہ اور نہ ہی حکم دیا گیا ہے۔ دوسری طرف ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اسلام ہماری زندگیوں میں عملی طور پر داخل نہ ہو، یعنی جو ضروری ہے وہ ہم نہیں کر رہے اور جو قطعاً غیر ضروری ہے وہ ہم کر رہے ہیں اور نہ صرف کر رہے ہیں بلکہ احمقانہ طور پر یہ بھی سمجھ رہے ہیں کہ یہ اسلام ہے اور عین اسلام ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام مسجد میں مقفل ہے۔ وہ وہاں سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ہم پانچ وقت مسجد میں حاضر ہوتے ہیں۔ اسلام کو گلے سے لگاتے ہیں۔ پھر اُسے وہیں بٹھا کر مسجد سے نکل آتے ہیں۔ مسجد سے باہر اسلام سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ اب ہم ظہر کی نماز تک اسلام کے تقاضوں سے اسلام کی عائد کردہ پابندیوں سے آزاد ہیں۔ اب ہمیں جھوٹ بولنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ظہر تک ہم نے وعدہ خلافی کرنی ہے۔ کم تولنا ہے، ماپتے وقت کمینگی کا ثبوت دینا ہے۔ جعلی دوائیں بنانی ہیں اور فروخت کرنی ہیں۔ کوئی ملنے والا آجائے تو اُس شخص کی جو موجود نہیں، زور و شور سے برائی کرنی ہے، دفتر میں سائل یا دکان میں گاہک آ جائے تو سرد مہری سے پیش آنا ہے، کسی رشتہ دار کی مدد کرنے کا معاملہ ہو تو بیس سال پہلے والا واقعہ یاد کر کے رشتہ دار کو بُرا ثابت کرنا ہے اور گھر والوں کو قائل کرنا ہے کہ ہم اس مصیبت میں مدد نہیں کر سکتے نہ اُسکے غم یا خوشی میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اتنے میں ظہر کی اذان سنائی دیتی ہے، ہم ٹوپی ڈھونڈتے ہیں، سر پر رکھ کر مسجد کی طرف دوڑتے ہیں۔ مسجد میں بند اسلام کو پندرہ منٹ کیلئے گلے سے لگاتے ہیں، نماز پڑھتے ہیں، مولوی صاحب کو تکبر سے یوں سلام کرتے ہیں جیسے وہ ہمارے ذاتی ملازم ہوں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ مسجد کیلئے ایک نیا پنکھا اور دو نئی قالینی صفیں شام تک پہنچا دی جائینگی۔ اسلام کو مسجد میں عصر تک کیلئے بند کرتے ہیں اور عصر کی نماز تک کھُل کھیلنے کیلئے باہر آتے ہیں اور آتے ہی ’’بھِڑ کوڈی بھڑ کوڈی‘‘ کا نعرہ لگانے لگ جاتے ہیں۔

حلیم بیچنے والے نے کھوکھے پر آیت لکھائی ہوئی ہے ’’اللہ سب رازقین سے بڑا رازق ہے‘‘۔ اُس سے پوچھیں کہ تم حلیم میں ٹشو پیپر کیوں ڈالتے ہو تو مسکین شکل بنا کر جواب دیگا کہ خالص حلیم بیچوں تو نفع کم ہوتا ہے‘ اُسکے نزدیک کھوکھے کی پیشانی پر آیت لکھوا کر اُس نے اسلام کے سارے تقاضے پورے کر دیئے ہیں۔ محلے کی بیگمات نے آج شام جمع ہو کر آیت کریمہ کا ورد کرنا ہے۔ وہ مطمئن ہیں کہ یہی اسلام ہے، رہے شوہر کے بچوں کے اور عزیز و اقارب کے حقوق، یا اسراف و تبذیر سے احتراز تو یہ تو سب کہنے کی باتیں ہیں۔ ملک صاحب نے جمعرات کی شام دیگیں پکائی ہوئی ہیں۔ ایک ہزار لوگ کھانے پر آرہے ہیں جن میں غریب غربا بھی شامل ہیں۔ ملک صاحب خوش ہیں کہ اسلام پر عمل پیرا ہیں، رہے وہ ایک سو سرکاری مکان جو انہوں نے تعمیر کئے ہیں اور ان میں ملاوٹ والا سیمنٹ، غیر معیاری لوہا، تھرڈ کلاس کھڑکیاں اور جلد ٹوٹ جانیوالے دروازے لگائے ہیں اور غسل خانوں کے پائپ ابھی سے بند ہو رہے ہیں اور سیوریج میں پیا جانیوالا پانی مِکس ہو رہا ہے تو اس کا اسلام سے کیا تعلق ہے؟ یہ تو دنیاوی معاملات ہیں!

ہم لوگ سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ شہد کو اسلامی شہد، بیکری کو مدینہ بیکری، نہاری ہائوس کو محمدی نہاری ہائوس کہہ کر ہم اسلامی تقاضوں سے عہدہ برآ ہو گئے ہیں۔ محل کے اوپر ’’ماشاء اللہ‘‘ لکھ کر، دکان پر ’’ہذا من فضلِ ربی‘‘ کا بورڈ لگا کر ویگن پر سیاہ کپڑے کا جھنڈا لگا کر ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ سب وہ کام ہیں جو ضروری ہیں نہ جن کا حکم ہے، حساب تو اُس مال کا ہو گا جو کمایا جا رہا ہے اور پرسش اُس خرچ کی ہو گی جو کیا جا رہا ہے۔ ایک ایک رشتہ دارکے حق کا جواب دینا ہو گا۔ والدین کو کہے جانے والے ایک ایک لفظ کا سامنا کرنا ہو گا‘ وہاں یہ نہیں پوچھا جائیگا کہ تمہاری دکان کا نام کیا تھا اور ناجائز مال سے بنائے گئے محل کے اوپر تم نے یہ کیوں نہیں لکھا تھا اور وہ کیوں نہیں لکھا تھا۔

ہمارا المیہ اور زیادہ المناک ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ منبر و محراب پر اسلام کی تلقین کرنے والے اس صورتحال سے یکسر بے نیاز ہیں۔ ان حضرات کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کہیں وہ مخیر حضرات ناخوش نہ ہو جائیں جو مسجدوں اور مدرسوں کو نقد اور اجناس کی صورت میں خطیر امداد دیتے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے جو مسجدوں کو ’’پرائیویٹ‘‘ بنا کر اس ملک کو لاحق کی گئی ہے۔ ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب، یو اے ای، قطر اور کئی دوسرے اسلامی ملکوں میں مسجدیں ریاست کی ملکیت ہیں اور نسل در نسل ایک ہی خاندان کی جاگیر نہیں بنتیں۔

پھر وہ ’’روحانی شخصیات‘‘ ہیں جو بالائی طبقات کو خوش کرنے کیلئے میدان میں موجود ہیں‘ ان حضرات کی ’’پی آر‘‘ کا سلسلہ اتنا وسیع و عریض ہے کہ اخبارات انکی مدح و توصیف میں اٹے پڑے ہیں۔ اس مکتب فکر کے بانی قدرت اللہ شہاب تھے۔ اسکے بعد لائن لگ گئی، اللہ دے اور بندہ لے، یہ اپنے امیر کبیر ’’ملاقاتیوں‘‘ کو کبھی یہ نہیں کہیں گے کہ اکِل حلال، فرائض کی سرانجام دہی اور کبائر سے اجتناب لازم ہے، یہ صرف اتنا کہتے ہیں کہ یہ اسم اتنی بار پڑھ لو، ’’ملاقاتی‘‘ کو نفسیاتی تسکین حاصل ہوتی ہے کہ ہاں! میرا بھی اسلام سے تعلق ہے اور ’’روحانی شخصیت‘‘ کا شہرہ بھی مسلسل پھیلتا رہتا ہے۔ واہ کیا آسان اسلام ہے۔ جس کا عملی زندگی سے دُور کا تعلق بھی نہیں!

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

9 comments:

Anonymous said...

Very nice column. Jazaak Allah!!

Asgha said...

spot on , we have adopted short cuts in our lives as a whole and we have done same with Islam.

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

محترم!

بدقسمتی سے چودہ صدیوں بعد بھی ہم بحیثیت قوم اسلام سے اتنےہی دُور ہیں جتنے عرب کے بدؤ اور منافقین شروع اسلام کے دور میں دین اسلام سے دور تھے۔

ریاست پاکستان میں پچھلے تریسنٹھ سالوں سے جو حکومتیں وجود میں آئیں وہ بھی قصور وار ہیں ۔ حکومتیں جو پاکستانی قوم سے قوم ہونے کے دام تو پورے سے بھی بڑھ کو وصول کرتی رہیں مگر بدلے میں ان حکومتوں نے قوم کا کوئی حق پورا نہیں کیا ۔ یہ حکومتیں پاکستانی قوم کا مزاج تعمیر کرنے میں زبردست ناکام رہی ہیں۔ اور موجودہ حکومت پاکستان میں رائج فیشن جس میں ہر نئی حکومتوں پچھلی تمام ناہل حکومتوں سے بڑھ ناہل اور کرپٹ واقع ہوتی ہے ۔پاکستان میں رائج اس فیشن کے عین مطابق پچھلی حکومتوں سے بڑھ کر نااہل اور نالائق ثابت ہوئی ہے۔

پاکستان اور پاکستانی قوم کو دنیا بھر میں یہ منفرد امتیاز حاصل ہے ۔ کہ اس ملک قوم نے ایک ہی دن جنم لیا ۔ دنیا کی تاریخ میں ایک ہی ساتھ وجود میں آئے۔ نہ پاکستانی قوم پہلے سے موود تھی نہ پاکستان نام کے کسی ملک کا ماضی میں پتہ ملتا ہے۔ ایسے میں قوم ملک کے بزرجمہروں پہ بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوجاتی ہیں ۔ کہ وہ عام قوموں کے رہنماؤں سے بڑھ کر اپنے پورے اخلاص کے ساتھ سخت محنت اور دیانتداری سے قوم کا ایک مزاج تعمیر کرتے ۔ ایک ایسا مزاج جس پہ ساری قوم فخر کرتی۔ دیانتداری اور راست بازی کو رواج دیا جاتا ۔ ریڈیو، ٹی ویِ ، اخبارات ، مسجد ومنبر، کالج اور اسکول جات۔ نیز ہر ہر شعبے اور محکمے سے پاکستانی قوم کی تربیت کی جاتی ۔ صدیوں پرانی کجی دور کی جاتی۔ نئے اخلاق اور نیک اطور سے روشناس کیا جاتا۔ زیر و زبر کا فرق ختم کیا جاتا۔ اٹھنے بیٹھنے اور گھر کی صفائی ستھرائی سے لیکر تعلیم و تربیت ، صنعت و حرفت ، زراعت، سائینس و ٹیکنالوجی نیز پاکستان میں رائج اور جدید ہر قسم کے علوم کی آگاہی کا بندوبست کیا جاتا ۔لسانی، فرقہ وارانہ ،صوبائی ، قبائلی اور علاقائی اور تعصبات سے نمٹنے کے لئیے اسلامی اقدار و اسلامی اخلاق اپنانے کی اہمت کو اُجاگر کیا جاتا ۔ ایمان ، اتحاد اور نظم وضبط کو پیدا کیا جاتا ۔یعنی ہر قدم اور ہر شعبے میں قوم کی رہنمائی کی جاتی تو ان تریسنٹھ سالوں میں پاکستان میں بسنے والے لوگوں کا ایک قومی مزاج کبھی کا تشکیل پا گیا ہوتا ۔پاکستان اور پاکستانی قوم اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے معاملات طے کرنے میں خود کفیل ہوتی۔ آج ہم دنیا کی باوقار قوموں میں شمار ہوتے۔ کسی کو جرائت نہ پڑتی کہ وہ پاکستان کو ڈکٹیشن دے۔خطے میں بہت سی تبدیلیوں میں پاکستان کی خواہش و مرضی کو مقدم سمجھا جاتا۔ صرف مڈل ایسٹ کی کسی ائر لائن کو ہی نہیں بلکہ دنیا کی کسی ائر لائن کو یوں پاکستانی مسافروں کو بے یارو مددگار سمجھتے ہوئے خوار کرنے کی جرائت نہ پڑتی۔

آپ، ہم اور سب جانتے ہیں کہ یوں ہوا نہیں بلکہ جو ہوا وہ اسکے برعکس ہوا۔ یعنی پچھلے تریسنٹھ سالوں سے متواتر جعلی رہنماء طرح طرح کے کرتب دکھا کر ، جھوٹ بول کر۔ سہانے سپنے دکھا کر ۔ قوم کو بے وقوف بنا کر۔ اس نوزائیدہ ملک اور قوم کو لُوٹنے لگ گئے ۔ جو راہزن تھے انہوں کچھ اسطرح شعبدے بازی دکھائی کہ آج وہ اس بے بس اور مجبور قوم کو نہ صرف لُوٹ رہے ہیں۔ بلکہ غریب عوام کی نچڑی ہوئی ہڈیوں سے ماس بھبنوڑ رہے۔کاٹ رہے ہیں اور ایک دوسرے پہ غرا رہے ہیں کہ کس کو موقع پہلے ملنا چاہئیے۔ اس لؤٹ کھسوٹ کا اولیں حقدار کون ہے۔محکمے آزاد ہوگئے۔ بجٹ خردبرد۔ اصول دریا بُرد ۔ دیانت کی جگہ خیانت۔ امن وآتشی کی جگہ فساد۔ خیر کی جگہ شر۔شرافت کی جگہ فریب اور دغابازی۔برکت کی جگہ بے برکتی۔عمل کی بجائے منافقت۔آدرش اور اصولوں کی بجائے چالبازی۔محبت کی بجائے نفرت ۔ ملی یکجہتی کی بجائے قسم قسم کا تعصب الغرض ہر برائی ہر لعنت کو عیار حکمرانوں اور انکے ایستادوں و ہرکاروں نے اپنا نصب العین بنا لیا۔ ملک کا چہرہ کیا بنتا ۔ قومی مزاج کیسے وجود میں آتا اور پروان چڑھتا؟ ۔ جب زور آور طبقے اور حکمرانوں نے اپنے آپ خود بخود یہ طے کر لیا کہ وہ ناقابل احتساب اور "اَن ٹچ" ہیں۔ جیسے پاکستان مملکت خداد ریاست نہ ہوئی انکے باوا جی کی جاگیر اور قوم انکی رعایا ٹہری۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

گذشتہ سے منسلک۔۔۔
مولوی کا منبر سے واعظ و نصیحت کی بجائے سارا زور مخالف فرقے کے خلاف خونی جذبات ابھارنے میں لگانا۔ اساتذہ ، ڈاکٹرز اور وکلاء کا اپنے پیشوں کے تقدس سے قطع نظر صرف مالی مفاد پہ نظر رکھنی کہ عام آدمی اتنے مقدس پیشوں کو کسی بیسوا پیشے سے زیادہ معتبر نہ جانے تو حلیم بیچنے والے غریب اور گلی گلی مانگنے والے غریب کا تو ذکر ہی کیا۔ ایسے میں جب پہلے ہی سے وہ انپڑھ اور ناخواندہ افراد جنکے لئیے اور جنکا قومی مزاج بنانا مقصود تھا وہ مزید جہالت کو بروءے کار لاتے ہوئے ہر وہ حرکت کرتے ہیں جسے وہ اپنی جہالت کے ہاتھوں درست سمجھتے ہیں۔ اسمیں انکا اتنا قصور نہیں جتنا قصور پاکستان کے عیار حکمرانوں ۔ بد دیانت انتظامیہ اور کم ظرف اشرافیہ اور سفاک اہل علم کا ہے۔ جو شروع دن سے ریاست ِ پاکستان کے مفادات کی قیمت پہ اپنے گھٹیا اور ذاتی مفادات کو ترجیج دیتے آئے ہیں۔ جو پاکستانی قوم کو ایک قومی مزاج دینے کی بجائے پارہ پارہ کر رہے ہیں تانکہ انکی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں انکی امامت اور نوکری پکی رہے۔ یہ ہیں وہ اصل مجرم جن کے خلاف پوری قوم کو اپنی ایف آئی آر کٹوانی چاہئیے اور آئیندہ کے لئیے ایسے طبقات اور اسباب کا سدباب کرنا چاہئیے ورنہ جو شواہد ہیں وہ اگلے پچاس سال تک اس بھی بدتر حالات کی پشین گوئی کرتے ہیں اور وہ بھی اس صورت میں اگر خاکم بدہن ریاست پاکستان کے وجود اور سلامتی کو کوئی گزند نہ پہنچے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مبارک ہے کہ "کفر کے ساتھ ریاست قائم رہ سکتی ہے ظلم کے ساتھ ریاست قائم نہیں رہ سکتی" کیونکہ کسی ریاست کا وجود اورظلم دو متضاد صورتیں ہیں ۔جبکہ نہلے پہ دہلا کے مصداق ریاست پاکستان کو ہر طرف سے کثیر الملکی دشمنوں نے گھیر رکھا۔
قوم کے کرتا دھرتا ہوش کے ناخن لیں

Anonymous said...

What we can addin, this is, what we all say. Who will listen to who.
It is getting late for all of us to share norms of life.
The writer has expressed his view, to respect Quran and teaching of Islam.
Mobile phone, will go far as nudism, this will be crash in civilisation.

افتخار اجمل بھوپال said...

ہماری قوم کی اکثريت اسلام پسند ہے مُسلم نہيں ۔ اللہ کو مانتی ہے ليکن اللہ کی کوئی بات نہيں مانتی

TariqRaheel said...

aap ki batain waqai sachi hain pr.....

amal kon kary

yahan ZAN ZAR or ZAMEEN k liye hi to sab ho raha hai

or phr yahan log apna haal badalna b kahan chahty hain

Anonymous said...

A.o.A

I read your column first time in Naw-E-Waqat Dated '23rd,Nov,2010'. Assan Islam. its very nice what you write, Now a days we need these kind of

knowldge which are provided by Media (Just like you) because we belive on Media not on Quran or Hadeess.Our Molvi did not give us real Islam.

Thank you very much for write such kind of Column.

Mian Anees Rasool.

Anonymous said...

I have read your column twice. You abstracted the things very nicely. I was unable to have any message from the column; in fact it does not have any.
You have adopted the usual trend of writing that plays with others sentiments only. It is just as an emotional writing to fill the space in the paper as a column. There are still many issues to have a pen on that.
The style of irony and criticism made by you is, in fact, instead of making remedy of this fault, making people to hate anyone who use Islamic words in his social life. We should not hate ourselves or any other offender but to his deeds or sins only.
Our society needs remedial writings not the full of hatred and irony.
Lastly, experience writers are expected to give some solutions of such things made in the column with their point outs.

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com