Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, April 28, 2010

زمین کا بوجھ

اٹھارویں ترمیم کی رو سے سیاسی پارٹیوں کے اندر انتخابات کرانے کی شق ختم کر دی گئی ہے۔ اب سیاسی پارٹیاں ہمیشہ کیلئے چند مخصوص خاندانوں کی جاگیریں بن کر رہ گئی ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی میں جو ایک ’’پڑھے لکھے دانشور قسم کے کارکن ہیں جیسے مشاہد حسین، احسن اقبال، اعتزاز احسن وہ اِن مالک خاندانوں کا پڑھائی لکھائی کا کام کرتے رہیں گے۔ لیکن یہ وہ مسئلہ نہیں جو اِس وقت ملک اور قوم کو درپیش ہے۔

پنجاب میں ان دنوں جاگیرداری کے حوالے سے بہت باتیں ہو رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فیوڈل سسٹم صرف نعروں سے ختم ہو گا یا اس مقصد کیلئے ٹھوس ہوم ورک کی ضرورت ہے؟ کیا وہ سیاسی جماعتیں جو ایک طویل عرصہ سے سندھ اور مرکز کی سطح پر ہر حکومت کا حصہ رہی ہیں۔ آج تک زرعی اصلاحات کیلئے کچھ کام کر سکی ہیں؟ کیا سندھ اسمبلی میں یا قومی اسمبلی میں اس سلسلے میں کوئی بِل پیش کیا گیا ہے؟ اس سے بھی زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس تھنک ٹینک ہیں؟ اور کیا اپوزیشن کے پاس SHADOW- CABINET ہے؟ لیکن آپ اس سارے جھنجٹ میں نہ پڑیں۔ قوم کو جو مسئلہ اس وقت درپیش ہے، وہ اور ہے۔

پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بیک وقت کئی نظام ہائے تعلیم چل رہے ہیں؟ اکثریت ٹاٹ پر یا زمین پر بیٹھ کر ان سکولوں میں ’’تعلیم‘‘ حاصل کر رہی ہے جہاں دیواریں ہیں نہ چھتیں نہ اساتذہ۔ شہروں میں کچھ نیم سرکاری سکول قدرے بہتر ہیں۔ پھر وہ تعلیمی ادارے ہیں جن کی فیس ہزاروں میں ہے اور چند خالص امریکی نسل کے سکول بھی ہیں جہاں فیس ڈالروں میں لی جاتی ہے۔لاکھوں مدارس بھی ہیں۔ کیا کسی سیاسی جماعت نے آج تک اس پہلو پر کوئی ہوم ورک کیا ہے؟ اور کوئی متبادل نظام پیش کیا ہے؟ سچی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی مسلم لیگ کی متعدد شاخوں، ایم کیو ایم، پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی سمیت کسی سیاسی جماعت نے اس ضمن میں کوئی پروگرام نہیں پیش کیا۔ نہ ان جماعتوں کو اس مسئلے کی گہرائی، گیرائی اور سنگینی کا ادراک ہے۔ لیکن اس موضوع کو بھی یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ آج پاکستان کو جو مسئلہ درپیش ہے، وہ تو ایک اور ہی مسئلہ ہے۔

مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل نہیں ناممکن ہوتا جارہا ہے۔ قیمتیں ہر ہفتے نہیں، ہر روز بڑھ رہی ہیں۔ کبھی چینی غائب ہے اور کبھی آٹے کیلئے لمبی قطاروں میں گھنٹوں کھڑا رہنا پڑتا ہے، پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ اس زرعی ملک میں گوشت ہزار روپے میں مشکل سے دو کلو گرام آتا ہے۔ خالص دودھ، خالص شہد، خالص اناج اور خالص مکھن نوادرات میں شمار ہوتے ہیں۔ پھل افراط سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خریدنے کی استطاعت سو میں سے ایک آدھ خوش قسمت ہی کو ہے، مکان تعمیر کرنا اذیت سے کم نہیں۔ تعمیر کی لاگت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ دوسری طرف پلاٹوں کی خریدوفروخت مکمل طور پر بند ہے۔ ایک کروڑ کا رہائشی پلاٹ ساٹھ لاکھ میں بھی نہیں بِک رہا۔ اور پچاس لاکھ والا پلاٹ تیس میں مشکل سے بِک رہا ہے۔ بازار سے خریدار غائب ہیں۔ ان سارے مسائل کا تجزیہ کون کرے گا؟ اس بحران۔ اس معاشی تاریکی کے اسباب کیا ہیں اور حل کیا ہے؟ چھوڑیے، رہنے دیجئے، مٹی ڈالیے، اصل مسئلہ جو اس وقت قوم کو درپیش ہے، اور ہے!

قومی جرائم کا ارتکاب کرنے والے، پاکستان کو گروی رکھ کر دوسروں کی غلامی کرنے والے، بڑے بڑے مجرم ملک سے باہر بھاگ گئے ہیں۔ جنرل مشرف سے لے کر پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز تک لٹیرے لندن اور واشنگٹن میں کروڑوں میں کھیل رہے ہیں۔ ناچ رہے ہیں۔ تھرک رہے ہیں۔ مدہوش ہو کر مٹک رہے ہیں۔ طبلے بجا رہے ہیں لیکن اس وقت جو نازک مسئلہ پہاڑ جیسا منہ کھولے کھڑا ہے، وہ اس سے بھی زیادہ اہم ہے!

اس وقت مملکتِ خداداد جس حساس اور قومی نوعیت کے مسئلے میں الجھی ہوئی ہے، وہ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی شادی ہے۔ شعیب ملک ہمارا ہیرو ہے۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ مسلسل یہی کہتا رہا کہ اس کی عائشہ سے شادی تو کیا، کبھی کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ اور پھر اس نے عائشہ کو طلاق دے دی! ہاں اُس نے جب کہا کہ وہ عائشہ کو نہیں جانتا، اُس وقت بھی سچ بول رہا تھا اور جب اُس نے طلاق دی، اُس وقت بھی ہمارا ہیرو تھا۔ ہمارا ہیرو شعیب ملک ہے۔ ہمارا ہیرو گیند کو دانتوں سے کاٹنے والا بُوم بُوم آفریدی ہے، ہمارا ہیرو قدیر خان ہے نہ عبدالسلام۔ ہم تماش بین لوگ، ہم تماش بینوں کی قوم! ہمارا دانش وروں، سکالروں اور اہلِ علم سے کیا تعلق؟

اس وقت قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ شعیب ملک صبح کس وقت اُٹھے، انہوں نے جس میز پر ناشتہ کیا، وہ میز کہاں کا بنا ہوا تھا؟

ناشتے میں کیا کیا آئٹم تھے؟ کیا ثانیہ مرزا کی چائے کی پیالی میں شعیب نے چینی ڈالی اور ملائی یا ثانیہ کو خود یہ زحمت کرنا پڑی؟ دن میں ثانیہ کتنی بار مسکرائی؟ شعیب کو دن میں کتنی بار غصہ آیا؟ کیا ثانیہ مرزا کی والدہ محترمہ دوبارہ تو … میرے منہ میں خاک … نہیں گریں اور کیا ثانیہ مرزا اُن کے کندھے پر سر رکھ کر صرف ایک بار اشک بار ہوئیں؟ یہ جوڑا دن میں کتنی بار لباس بدلتا ہے؟ اُن کے جوتے کون پالش کرتا ہے؟ اور وہ جو ملک صاحب کا منصوبہ تھا کہ شادی کی تقریب کی کوریج کے حقوق میڈیا کو ساڑھے تین کروڑ روپے میں بیچیں تو کیا یہ معصوم خواہش پوری ہوئی ہے یا نہیں؟ نصیب دشمناں کہیں ثانیہ مرزا کو کھانسی تو نہیں آئی؟ کہیں شعیب ملک چھینکے تو نہیں؟ قوم زندہ ہے۔ قوم پائندہ ہے، انقلاب دستک دے رہا ہے۔ شعیب ملک اور ثانیہ مرزا کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے گھنٹوں نہیں، پہروں کھڑے رہنے والے، چلچلاتی دھوپ میں انتظار کرنے والے اور پولیس سے ڈنڈے کھا کر بھی ثابت قدم رہنے والے انقلاب لا کر رہیں گے۔ تماشہ زندہ باد۔ تماش بین پائندہ باد

2 comments:

Abdullah said...
This comment has been removed by the author.
Abdullah said...

ایسے ایوینٹ سے بار بار عوام کو چیک کیاجاتا ہے کہ کہیں ان میں
مرض انقلاب کے جراثیم پیدا ہونا شروع تو نہیں ہوگئے!
اور جب ارباب اقتدار دیکھ لیتے ہیں کہ نہیں قرض کی مے پینے والے مدہوش ہیں تو وہ مزید اطمئنان سے ان مدہوشوں کے نام پر مزید قرض کی وصولی شروع کردیتے ہیں!

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com