Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, April 10, 2010

کلی سے صبا تک

تمہیں جہاز پر بٹھا کر ائر پورٹ سے واپس گھر پہنچا تو میں بالکل نارمل تھا۔ نیند کی گولی تو میں نے بس یونہی کھا لی تھی۔ لاؤنج والے بڑے صوفے پر آنکھیں مُوندے دو دن تک بے سُدھ نہ جانے میں کیوں پڑا رہا۔ رات کو لاؤنج کا وہ حصہ جس میں تمہارا لیپ ٹاپ اور اس سے ملحق تاروں کے گچھے بکھرے رہتے تھے‘ خالی لگ رہا تھا لیکن بار بار آنکھوں سے جو آنسو نکل آتے تھے جنہیں میں کبھی قمیض کے دامن سے اور کبھی قیمض کے کف سے پونچھتا تھا‘ اُن کا تمہارے جانے سے تو کوئی تعلق نہیں تھا! تمہارے جانے پر رونے کا یوں بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ تمہارے بھائی نے بلایا تو میں نے خود ہی اجازت دی تھی جسکے بعد تم نے یونیورسٹی میں درخواست دی اور تمہیں داخلہ مل گیا۔ گویا دوسرے ملک میں بھی تم میرے ہی گھر میں ہو۔ تمہاری بڑی بہن کی رخصتی پر میں ایک ماہ بستر سے لگا رہا تو اس کا تو جواز تھا کہ وہ بابل کا گھر چھوڑ کر پیا کے گھر سدھار گئی تھی مگر تم تو بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے گئی ہو! لیکن میں اس کا کیا کروں کہ تمہارے جانے کے بعد گھر کاٹ کھانے کو دوڑتا ہے۔ جسم سے لگتا ہے تب و تاب رخصت ہو گئی ہے۔ جہاں بیٹھ جاؤں‘ وہیں بیٹھا رہتا ہوں‘ جہاں لیٹ جاؤں وہیں پڑا رہتا ہوں۔ کوئی مجھ سے مخاطب ہو کر کچھ کہے تو اس کا ابلاغ کافی دیر کے بعد ہوتا ہے۔ تم یہاں تھیں تو میں رات گئے تک لکھتا تھا یا ٹیلی ویژن دیکھتا تھا یا کمپیوٹر پر کام کرتا تھا۔ تم تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد پوچھتی رہتی تھیں‘ ابو چائے؟ ابو کھانے کیلئے کچھ لاؤں؟ لیکن اب تو میں کچھ بھی نہیں کرتا‘ بس بے سُدھ لیٹا رہتا ہوں۔ تمہاری امی کہیں لے جانے کی کوشش بھی کرتی ہے تو اس حالت میں مجھ سے گاڑی ہی کہاں ڈرائیو ہوتی ہے!

مجھے بیٹیاں اچھی لگتی ہیں۔ تم دونوں بہنوں کو میں نے اللہ سے دعائیں مانگ مانگ کر التجائیں کر کر کے حاصل کیا تھا۔ مجھے اُن لوگوں پر ہمیشہ ترس آتا ہے جو بیٹیوں کو بیٹوں کے مقابلے میں کم تر سمجھتے ہیں۔ ایسے ذہنی معذور اور دماغی مفلس کرۂ ارض کے اس حصے میں جہاں ہم رہتے ہیں بہت ہیں اور ان کا کوئی علاج ممکن نہیں۔ فیض احمد فیض سے کسی نے کہا تھا کہ آپ کی نرینہ اولاد نہیں ہے تو اس نے جواب میں کہا تھا کہ نرینہ کیا ہوتی ہے؟ اولاد تو اولاد ہے‘ جو بھی ہو۔ مجھے تو اتنا معلوم ہے کہ دنیا میں جو نعمتیں بیش بہا ہیں‘ مثلاً سخت پیاس میں ٹھنڈا پانی‘ تپتی دھوپ میں ٹھنڈی چھاؤں‘ حبس میں خوشگوار ہَوا کے جھونکے‘ ساحل سے نظر آنیوالے نیلے پانیوں کا منظر‘ سرما کی رات کو باہر نکلنے پر چودھویں کے چاند کا نظارہ‘ کسی پیارے کے موت کے چنگل سے بچ نکلنے کی خبر‘ دل کی بند دھڑکن کا دوبارہ جاری ہو جانا‘ ان تمام نعمتوں میں سب سے زیادہ دلکش اور سب سے زیادہ شیریں نعمت بیٹی کا وجود ہے اور یہ نعمت اُن چار نعمتوں میں سے ایک ہے جو کائنات کے خالق نے اپنے بندوں کیلئے خصوصی انعام کے طور پر پیدا کی ہیں۔ رخسار پر ماں کا بوسہ‘ سر پر باپ کا ہاتھ‘ بخار میں سلگتی پیشانی پر بیوی کا لمس اور گھر میں بیٹی کا وجود ۔۔ اکبر نے بیربل سے پوچھا کہ اس دنیا میں انسان کیلئے سب سے بڑی تسکین کیا ہے۔ بیربل نے ایک آہ بھری اور بولا! جہاں پناہ جب بیٹا باپ کے سینے سے لگ جائے لیکن اُس مردانہ معاشرے میں بیربل کو اپنی غلطی کا احساس تک نہ ہوا‘  بیٹا نہیں‘جب اولاد باپ سے لپٹ جائے‘ بیٹا ہو یا بیٹی!
 اللہ کے آخری رسولؐ کو اپنے سب اعزّہ سے پیار تھا لیکن سفر پر تشریف لے جاتے اور واپس آتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے پاس جاتے اور واپس آتے تو سب سے پہلے وہی باریاب خدمت ہوتیں۔ تشریف لاتیں تو جہانوں کے سردار کھڑے ہو جاتے‘ پیشانی چومتے اور اپنی نشست گاہ پر بٹھاتے۔ کیا زندگی بھر رسولؐ کی نشست گاہ پر ان کی بیٹی کے علاوہ کوئی بیٹھا؟ مسجد نبوی میں تشریف لائے تو ننھی امامہ (نواسی) کندھے پر تھیں‘ اسی حالت میں نماز پڑھائی۔ رکوع میں جاتے تو اتار دیتے۔ کھڑے ہوتے تو پھر اپنے اوپر بیٹھا لیتے۔ اسی طرح پوری نماز ادا کی۔

انسان بھی کن کن آزمائشوں سے دوچار ہوتا ہے اور کیسے کیسے ادوار سے گزرتا ہے۔ پہلے تو اس سے یہ گتھی نہیں سلجھتی کہ ماں باپ بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں؟ وہ حیران ہوتا ہے کہ جس ماں اور باپ نے اُس کٹھن وقت میں دست گیری کی جب وہ اپنی ناک سے مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تھا‘ منہ میں لقمہ تو کیا پانی کا قطرہ بھی نہیں ڈال سکتا تھا۔ بول و براز کا ہوش تو کیا احساس تک نہ تھا اور بدن ڈھانپنے کیلئے ایک تارِ پیراہن تک حاصل نہ تھا۔ اس کٹھن وقت میں جنہوں نے ربوبیت بہم پہنچائی‘ اسکے منہ میں دودھ اور پانی کے قطرے ٹپکائے‘ اُسے غلاظتوں سے پاک کیا‘ اُسے موسموں کی سختیوں اور عناصر کی بے مہریوں سے بچایا ۔۔ وہ دونوں ہستیاں خود بوڑھی ہو گئیں
 انکے قویٰ مضمحل ہو گئے‘
انکے دل رقیق ہو گئے‘
 انکی نظریں کمزور ہو گئیں۔
 انکے چہرے جھریوں سے اٹ گئے‘
 انکی یادداشتیں مدہم پڑ گئیں‘
 انکے اعصاب پر ضعف طاری ہو گیا
 وہ ماں جو بچے کے رونے کے باوجود اطمینان سے اپنا کام کرتی رہتی تھی‘ جو اس کی چیخ و پکار کے باوجود اُسے نہلا کر چھوڑتی تھی ۔۔ جو اُس کے منہ کو دونوں ہاتھوں سے زبردستی کھول کر کڑوی دوا پلا کر رہتی تھی‘ وہ ماں اب ذرا سی تکلیف دیکھ کر آنسوؤں کو ضبط نہیں کر سکتی اور اسکے اعصاب جواب دے جاتے ہیں۔
 وہ باپ جو بچے کو سکول نہ جانے پر یا کہا نہ ماننے پر تھپڑ مار دیتا تھا اب اُس بچے کی جو اب بہت کچھ سہ سکتا ہے‘ ذرا سی پریشانی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور بات بات پر آبدیدہ ہو جاتا ہے۔

کیا کوئی تکلیف ماں باپ کے بڑھاپے
اور ضُعف
اور رقتِ قلب
 اور کم گوئی اور کم خوری
 اور بیماری سے زیادہ بھی دل کو مٹھی میں جکڑنے والی اور روح کو کرب میں ڈالنے والی ہوتی ہے ؟ انسان اپنے ماں باپ پر آہستہ آہستہ چھا جانے والے بڑھاپے کے سامنے بے بس ہو جاتا ہے!
 انسان بچوں سے محبت کرتا ہے اور بچے اُس سے ۔۔ بچے کی کل کائنات ماں اور باپ ہوتے ہیں لیکن پھر وہ وقت آتا ہے جب اُس بچے کے مشاغل میں تنوع پیدا ہوتا ہے۔ وہ ماں باپ کو اب بھی اتنا ہی پیار کرتی ہے یا کرتا ہے لیکن اب اُس نے اپنی دنیا بنانی ہے‘ کیرئر ہے‘ ازدواجی زندگی ہے‘ پھر اُسکے اپنے بچے ہیں۔ اب وہ چڑیا کا ایسا بچہ ہے جسے گھونسلے سے نکلنا ہی نکلنا ہے۔
فراق اے   ماں   کہ میں لمحہ بہ لمحہ
کلی ہوں گُل ہوں خوشبو ہوں صبا ہوں
کلی صبا ہو جائے  تو کہاں ہاتھ آتی ہے۔ 
رات آدھی آگے ہے اور آدھی پیچھے‘ لاؤنج میں صرف میں ہوں‘ سب سو چکے ہیں۔ وہ گوشہ جہاں تم اپنے لیپ ٹاپ پر رات ڈھلے تک کام کرتی تھیں‘ خالی ہے۔ میں کچھ کھانا چاہتا ہوں‘ چائے پینا چاہتا ہوں لیکن تم لاؤنج میں نہیں ہو‘ کئی ٹائم زون دور‘ تم اپنے ابو سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہو لیکن یہ کیا ؟
 تم مجھے سامنے نظر آ رہی ہو‘
 مسکراتی ہوئی
 مذاق کرتی ہوئی‘
انگریزی کے بے حد مشکل الفاظ کا مطلب اور سپیلنگ ایک سیکنڈ میں بتاتی ہوئی۔
میرا اس عقیدے پر ایمان بالکل نہیں کہ موت کے بعد  انسان دوسرے روپ میں ظاہر ہوتا ہے‘ لیکن اگر حلول کرنیوالا نظریہ درست ہے تو پھر یہ بھی درست ہو گا کہ ماں کی شفقتیں اور محبتیں بیٹی میں حلول کر جاتی ہیں۔

2 comments:

Anonymous said...

superb!!!
Mahwash.

HJ said...

This is perhaps the most touching article over here.

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com