Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, April 20, 2010

بسم اللہ

فرض کریں میاں محمد شہبازشریف یا امیر حیدر ہوتی یا سید قائم علی شاہ نے اپنی فیکٹری چلانی ہے اور اس کیلئے وہ ایک لائق فائق منیجر تعینات کرتے ہیں۔ منیجر اپنے فرائض کے بارے میں پوچھتا ہے اور اسے اس کا کام سمجھایا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ سہولیات کے متعلق استفسار کرتا ہے۔ اسے بتایا جاتا ہے کہ اسے ایک گھر اور ایک گاڑی مہیا کی جائیگی۔ اب وہ منیجر کتنا ہی لائق کیوں نہ ہو، اسے ایک کے بجائے دو یا تین یا چار گھر رکھنے کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ نہ ہی اسے کئی گاڑیاں رکھنے دی جائیں گی۔ وجہ ظاہر ہے۔ فیکٹری کے قانون میں یہی لکھا ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر منیجر کو کھلی چھٹی دے دی گئی تو اس کے ماتحت بھی اسی رویے کی توقع کریں گے اور توقع نہ پوری ہوئی تو بددلی پھیلے گی۔ کارکردگی متاثر ہوگی اور فیکٹری کی پیداوار کم ہو جائے گی۔

یہ نجی شعبے کا عمومی رویہ ہے۔ یہ فرد کا رویہ بھی ہے۔ میاں شہبازشریف یا سید قائم علی شاہ فرد کی حیثیت میں، غیر سرکاری حیثیت میں، اپنے ذاتی نجی کاروبار کے ضمن میں جو فیصلہ بھی کریں گے، نپا تُلا اور جچا ہوا ہوگا۔ کسی کو اس کے حق سے زیادہ دیں گے نہ کم۔ مہذب ملکوں میں اس اصول کا فرد سے آگے بڑھ کر حکومتوں پر بھی اطلاق کردیا گیا ہے۔ حکومت اس طرح چلانی ہے جیسے اس کا نقصان ذاتی نقصان ہے اور اس کا فائدہ ذاتی فائدہ ہے۔ جو احتیاط ذاتی کاروبار میں ملحوظِ نظر رکھی جائے گی، بالکل وہی احتیاط حکومت کے کاموں میں برتی جائے گی۔ اگر میں اپنے کاروبار کا نقصان نہیں برداشت کرسکتا اور اپنے منیجر کو صرف ایک گھر دیتا ہوں تو میں خودبطور وزیراعلیٰ کتنے گھر رکھ سکتا ہوں؟ کیا یہ جائز ہے کہ تین گھروں کو وزیراعلیٰ کا گھر قرار دیا جائے اور تینوں پر پولیس کی بھاری نفری متعین کی جائے اور سارے گھروں میں پڑوسیوں کی،گلی والوں کی، محلے والوں کی زندگیاں اجیرن کردی جائیں؟ اور اگر میں بطور وزیراعلیٰ اپنے لئے یہ سب جائز سمجھتا ہوں تو پھر میرے وزیروں کیلئے بھی یہی اصول ہونا چاہئے اور پھر چیف سیکرٹری اور دوسرے اہلکاروں کو بھی اسی ڈگر پر چلنے دیا جائے۔

یہ پہلا اصول ہے کاروبار حکومت کو دیانت داری سے چلانے کا۔کہ حکومت کے مال کواسی احتیاط سے خرچ کیا جائے جس احتیاط سے ذاتی رقم صرف کی جاتی ہے دیانت اور میرٹ کے وہی اصول بروئے کار لائے جائیں جو ذاتی کاروبار میں لائے جاتے ہیں۔ذاتی کاروبار میں جعلی ڈگری پکڑی جائے تو وہ شخص زندگی بھر کیلئے نااہل قراردیا جائے گا بلکہ اس کی اولاد کیلئے بھی کوئی ہمدردی نہیں رکھی جائے گی۔ ذاتی جہاز باہرجائے گا تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو اس میں بٹھا کر بیرون ملک کی سیریں نہیں کرائی جائیں گی۔ اپنے گھر میں بجلی کا استعمال بھی کم ہوگا اور نوکر بھی حساب کتاب سے رکھے جائیں گے۔ مہمان آئے تو ان کی خاطر داری میں حد سے نہیں گزرا جائے اور اتنی ہی مہمانداری کی جائے گی جس کی استطاعت ہے۔

افسوس! یہ اصول جو سارے ترقی یافتہ ملکوں میں حکومت کرنے کی بنیاد ہے، پاکستان کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا۔ دوسرے ملکوں میں کابینہ کی تعداد دیکھئے، سرکاری وفود کا سائز دیکھئے، صدر وزیراعظم اور دوسرے وزیروں کو دی گئی مراعات کا جائزہ لیجئے اور پھر پاکستان سے مقابلہ کیجئے، ایک اور پچاس کا تناسب ہے۔ دور کیوں جایئے، بھارت ہی کو لے لیجئے، بھارت میں اسمبلی کے سپیکر اور سینیٹ کے سپیکر کا موازنہ اپنے سپیکروں سے کیجئے اور سر دُھنیے…ع

ببین تفاوتِ رہ از کجاست تابہ کجا!

دوسرا اصول جو ترقی یافتہ ملکوں میں رائج ہے یہ ہے کہ جو کاغذ پر تحریر کردیا جائے گا، اس پر ہرحال میں عمل کیا جائے گا۔ لکھے ہوئے حرف کی حُرمت کا ان ملکوں میں کیا کہنا! کسی کا باپ ہو یا کسی کا نورِ نظر… اس کیلئے لکھے ہوئے لفظ میں رد و بدل کرنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ یہ اصول صرف حکومت کے شعبے میں نہیں، نجی زندگیوں پر بھی چھایا ہوا ہے۔ اگر دعوت کے کارڈ پر کھانے کا وقت نوبجے ہے تو اس کا مطلب نو بجے ہے۔ اس کامطلب نو بج کر ایک منٹ بھی نہیں۔ برات گیارہ بجے پہنچنی ہے تو گیارہ بجے ہی پہنچے گی۔ تقریب آٹھ بجے شروع ہونی ہے تو صدارت وزیر نے کرنی ہے یا ایم این اے نے، آٹھ بجے ہی شروع ہوگی۔الیکشن کمیشن کے قوانین میں لکھا ہے کہ تین لاکھ سے زیادہ انتخابی مہم پر خرچ کرنے والے کو نااہل قرار دیا جائے گا تو ایسے امیدوار کو نااہل ہونے سے سرکوزی بچا سکتا ہے نہ اوباما۔ نوکری میں آنے کی عمر اٹھائیس سال ہے تو صدر یا وزیراعظم بھی اٹھائیس سال ایک ہفتہ والے کو اجازت نہیں دے سکتے۔ قانون میں لکھا ہے کہ نشے کی حالت میں گاڑی چلانے والے کو گرفتار کیا جائے گا تو وزیراعظم کا بیٹا ہے یا چیف جسٹس کی صاحبزادی، رعایت نہیں دی جاسکتی۔ میڈیکل کالج میں داخلے کی شرائط نہیں پوری ہو رہیں تو صدر کا بیٹا بھی داخل نہیں کیا جائے گا۔ شاہراہوں کی ٹریفک وزیراعظم کیلئے بھی نہیں روکی جائے گی۔ طیارہ سپیکرہو یا اس کی بیگم ا، ایک منٹ بھی مقررہ وقت سے زیادہ انتظار نہیں کرے گا، اور انکم ٹیکس، حکمرانوں سے بھی ایک ایک پیسے کا حساب کرکے لیا جائے گا۔

اس کے مقابلے میں پاکستان کو دیکھئے، لکھا ہوا قانون صرف عام آدمی کیلئے ہے۔ صدر، وزیراعظم، کابینہ کے ارکان، اسمبلیوں کے ممبر، بیورو کریسی کے سرخیل…سب لکھے ہوئے قانون کو پیروں تلے روندتے ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں۔ پولیس ان کے سامنے بے بس ہے۔ انکم ٹیکس کے اہلکار کچھ نہیں کرسکتے۔ ٹریفک پر مامور سپاہی مٹھیاں بھینچ کر انہیں گندی گالیاں تو دے سکتے ہیں، سزا نہیں دے سکتے۔ ان کے غیر قانونی پلازے نہیں گرائے جاسکتے۔ ان کیلئے طیارے اور ٹرینیں تین تین گھنٹے لیٹ کی جاتی ہیں۔ ان سے قرضے نہیں واپس لئے جاسکتے۔ ان کے اسلحہ خانوں کے معائنے نہیں کئے جاسکتے۔ یہاں تک کہ ان کے نجی جیلیں بھی قانون سے ماورا ہیں۔

جب تک یہ دو اصول پاکستان کے سرکاری شعبے پر نافذ نہیں کئے جاتے، دنیا کی کوئی طاقت اس ملک کو ترقی کے راستے پر نہیں ڈال سکتی۔بے شک اٹھارہویں ترمیم کے ایک ہزار ایک جشن منا لیجئے، لیڈروں کی سالگرہوں پر ایک ایک ہزارمن کے کیک کاٹ لیجئے، امریکی لیڈروں سے ملاقات کرنے پر غبارے اور کبوتر چھوڑ لیجئے چار صوبوں کے چار سو صوبے بنا لیجئے، قوم کو لاکھوں مژدے سنا لیجئے، جب تک یہ ان دو اصولوں پر عمل نہیں ہوگا، آپ ایک ہزارسال کے بعد بھی جہاں کھڑے ہیں، وہیں کھڑے ملیں گے۔ ہاں اگر صرف وقت گزاری کا ارادہ ہے اور صرف عیاشی کرنی ہے اور صرف محلات کی تعداد میں اضافہ کرنا ہے اور صرف تجوریوں کی توندیں بڑی کرنی ہیں اور صرف شکم کے تنوروں میں آگ جلانی ہے تو بسم اللہ۔ شوق پورا کرلیجئے

1 comment:

Anonymous said...

bohat achi baten karte hen aap magar me aaj 32 sa ka hogy hon yehi baten sunte sunte kia baton se aage koi bhi shakhs apne aap ko model bana kr nahi pesh kar sakta.

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com