آنکھیں چمک دار،ناک بلند، داڑھی خشخشی، مونچھیں بڑی، لباس وہی جو محمد شاہ رنگیلے کے زمانے میں دہلی میں رائج تھا۔ یعنی کھڑکی دار پگڑی، گاڑھے کا انگرکھا، نیچے کرتا، ایک بَر کا پاجامہ، انگلیوں میں فیروزے اور عقیق کی انگوٹھیاں۔
یہ حُلیہ اُس شخص کا ہے جس سے بڑا شاید ہی نظم کا کوئی شاعر گزرا ہو اور جو کچھ نظم کیا، عملی طور پر کرکے دکھایا۔ یہاں تک کہ ریچھ اور بندر نچائے، کبوتر اُڑائے، چوسر اور شطرنج کھیلی، آم، جامن کے ٹوکرے سر پراٹھائے، دال اور پاپڑ کی دکان لگائی، عید پر میلوں ٹھیلوں میں گئے۔ ہولی پر رنگ پھینکے، بسنت آئی تو پتنگ اُڑاتے۔ شبِ برات پر پٹاخے چھوڑے۔ یہ تھے نظیر اکبر آبادی جن کی نظموں میں آج تک برصغیر کی عوامی زندگی اُسی طرح تازہ ہے جیسے اڑھائی سو سال پہلے نظر آتی تھی۔ اٹھارھویں صدی عیسوی کا آگرہ ہے۔ وہ دیکھئے، نظیر اکبر آبادی ٹٹو پر سوار آرہے ہیں۔ ٹٹو ایسا سدھایا ہے کہ کسی نے سلام کیا تو خود ہی ٹھہر گیا۔ راہ چلتے لوگ نظموں کی فرمائش کر رہے ہیں۔ کنجڑا ملا تو کہہ رہا ہے کہ میاں ککڑی پر کچھ کہہ دو۔ فقیر ملا کہ کوئی قصہ کہہ دیجئے کہ اس کے ذریعے بھیک مانگ کھائوں۔ ایک بار کھانا کھا رہے تھے۔ بیسنی روٹی بھی تھی۔ اچار کو دل چاہا۔ بھولا رام پنساری کالڑ کا سبق پڑھنے کیلئے پاس بیٹھا تھا۔ اسے کہا جا، چاچا سے کہو میاں نے اچار منگایا ہے۔ وہ لے آیا۔ کھول کر دیکھا تو اچار کے مصالحے میں مرا ہوا چوہا لٹ پت پڑا تھا۔ کمال کی زُود گوئی تھی۔ فوراً طبیعت رواں ہوگئی اور ایسی نظم کہی جو اردو شاعری میں کبھی مر نہیں سکتی۔ ایک بند دیکھئے…
پھر گرم ہوا آن کے بازار چوہوں کا
ہم نے بھی کیا خوانچہ تیار چوہوں کا
سر پائوں کُچل کُوٹ کے دوچار چوہوں کا
کیا زور مزیدار ہے آچار چوہوں کا
زندگی کا شاید ہی کوئی شعبہ ہو جس کے بارے میں انہوں نے نظم نہ کہی ہو۔ حمد، نعت، اور حضرت علیؓ کے معجزے سے لے کر شبِ برات اور ہولی تک، ریچھ کے بچے سے لے کر گلہری اور اژدہے کے بچے تک، لطفِ شباب اور لذتِ وصال سے لے کر موت تک، عاشقوں کی بھنگ سے لے کر تربوز، آندھی، چپاتی، جوگن، مہادیو کے بیاہ، آٹے دال کی فلاسفی، برسات، جاڑے، کنجوسی، سخاوت، شطرنج کی بازی اور شبِ مہتاب تک۔ ہر موضوع پر انہوں نے لکھا اور لکھنے کا حق ادا کردیا۔
شیخ رشید پر کسی بدبخت نے قاتلانہ حملہ کیا تین افراد کی قیمتی زندگیاں ختم ہوگئیں، سیاسی افق پر آندھی اُٹھی اور دیکھتے دیکھتے سارے آسمان پر چھا گئی، نون لیگ، قاف لیگ، پیپلز پارٹی، پنجاب حکومت، مرکز، سب نے الزام اور جوابی الزامات کا طومار باندھ دیا۔ میں پریشان ہوگیا۔
کس کا یقین کیجئے، کس کا یقین نہ کیجئے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
میں نے فیصلہ کیا کہ نظیراکبر آبادی کے پاس جاتا ہوں۔ سو میں نے سفر کی تیاری کی۔ اسباب باندھا، نیک بخت بی بی نے پراٹھے لگا کر کپڑے میں باندھے۔ سامان کی پوٹلی میں نے لاٹھی کے سرے پر لٹکائی۔ پھر وقت کے گھوڑے پر زین ڈالی، گھوڑے کو پَر لگائے، زمانے کو رکاب بنایا۔ دو صدیوں کا لگام گھوڑے کے منہ میں ڈالا۔ جادو کا سرخ پٹکا کمر کے گِرد کَسا اور آگرہ جا پہنچا۔ وہی آگرہ جسے اکبر آباد کہتے ہیں۔ یہ 1795ء ہے۔ نظیر کی عمر ساٹھ سال ہے۔ میں بازاروں میں انہیں ڈھونڈنے لگا۔ بالآخر ایک دکاندار نے بتایا کہ نظیر کی ان دنوں طبیعت ٹھیک نہیں۔ تم محلہ تاج گنج جائو، وہاں سے …کا پتہ کرو۔ نظیر اپنے مکان میں ہوں گے۔ میں پوچھتا پوچھتا پہنچ گیا۔ کنڈی کھٹکھٹائی۔ امام بخش چھوکرے نے دروازہ کھولا۔ دیکھا تو دالان کے سامنے صحن میں نیم اور بیری کے درختوں کے درمیان بوریا اور بوریے پر کمبل بچھائے بیٹھے ہیں اور کھانا تناول کر رہے ہیں۔ مجھے ساتھ بٹھا لیا۔ میٹھے چاول، کھچڑی، لیموں کا اچار اور گلگلے تھے۔ اوپر سے آم اور شریفہ بھی کھایا اور کھلایا۔ پھر مجھ سے بات کی اور دو سو سال پیچھے کی طرف سفر کا سبب پوچھا۔ میں نے اُن کے ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور بتایا کہ پراگندہ خاطر ہوں۔ شہر کے قد آور سیاسی لیڈر پر گولیاں چلی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں گتھم گتھا ہو رہی ہیں۔ آپ پیرَمغاں ہیں۔ حافظ شیرازی بھی پیرَمغاں کے پاس اپنی مشکل لے گیا تھا…؎
مشکل خویش برَ پیرِ مغاں بُردم دوش
کو بتائیدِ نظر حلِ معّما می کرد
نظیر ہنسے۔ کہنے لگے، جس نے بھی گولیاں چلائی ہیں اور جس نے بھی چلوائی ہیں اسے کچھ حاصل نہیں ہوا، خدانخواستہ شیخ رشید راستے سے ہٹ جاتے تو کیا ہوتا؟ ایک قیمتی جان ضائع ہوتی۔ صدمہ ہوتا، بچ گئے، اچھا ہوا، خدا شیخ صاحب کو عمرِ خضر عطا کرے اور ان کا سایہ اپنے عزیزوں پر دیر تک سلامت رکھے، رہے تم، اور تمہاری قوم اور تمہارا ملک اور تمہارے عوام۔ تو کسی سیاست دان کے مرنے، زندہ رہنے، کسی پارٹی کے ہارنے یا جیتنے کا تمہیں کیا فائدہ؟
کی وصل میں دلبر نے عنایات تو پھر کیا
یا ظلم سے دی ہجر کی آفات تو پھر کیا
غصّہ رہا یا پیار سے کی بات تو پھر کیا
گر عیش سے عشرت میں کٹی رات تو پھر کیا
اور غم میں بسر ہوگئی اوقات تو پھر کیا
نظیر اکبر آبادی نے حقے کا کش لگایا۔ میں اُن کے پائوں دبا رہا تھا۔ اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد اُن کے ہاتھ چومتا تھا۔ اُن کے ماتھے پر خال تھا اور کانوں پر پٹے تھے۔ انہوں نے بات جاری رکھی۔
فرض کرو شیخ رشید جیت جاتے ہیں۔ تو وہ تو پہلے بھی کئی بار جیتے ہیں۔ تم لوگوں کو کیا فرق پڑا؟ وہ ضیا کے ساتھ تھے یا مشرف کے ساتھ۔ چوہدریوں کے ساتھ تھے یا اُس سے پہلے نوازشریف کے ساتھ، جس کے بھی ساتھ تھے، کبھی نہ بدلنے والی صورت حال (STATUS_QUO) ہی کے نمائندے رہے، اب جیت جائیں تو کیا اُن کی ذہنی سطح بدل جائے گی؟ کیا وہ زرعی اصلاحات کیلئے لڑیں گے؟ کیا وہ سرداری نظام ختم کرنے کیلئے جہاد کریں گے؟ کیا انہیں ادراک ہے کہ تمہارے ملک میں بیک وقت چار تعلیمی نظام چل رہے ہیں جو تمہیں ایک ہزار سال بھی ترقی نہیں کرنے دیں گے؟ کیا شیخ رشید وزارت کے بغیر زندہ رہ سکیں گے؟ اور کیا وزیر بن کر وہی لباس پہنا کریں گے جو اِن دنوں انتخابی مہم کے دوران پہنتے ہیں؟
اور فرض کرو شیخ رشید ہار جاتے ہیں اور ملک شکیل اعوان جیت جاتے ہیں۔ تو پھر کیا ہوگا؟
گر شاہ سر پہ رکھ کر افسر ہوا تو پھر کیا
اور بحرِ سلطنت کا گوہر ہوا تو پھر کیا
نوبت، نشاں، نقارہ در پر ہوا تو پھر کیا
ملک و مکاں خزانہ لشکر ہوا تو پھر کیا
دارا و جَم، سکندر، اکبر ہوا تو پھر کیا!
کیا ملک شکیل اعوان منتخب ہو کر اسمبلی میں مطالبہ کریں گے کہ سیاسی پارٹیوں کو مخصوص خاندانوں کے قبضے سے آزاد کرو۔ کیا ملک شکیل اعوان نون لیگ کے پارلیمانی اجلاس میں آواز اٹھائیں گے کہ ایک ہی خانوادے کی اگلی نسل کو لیڈر بنانے کے بجائے پارٹی میں انتخابات کرائو، آخر چوہدری نثار علی خان، احسن اقبال، خواجہ آصف اور جاوید ہاشمی، میں کس چیز کی کمی ہے؟ وہ تین تین سال کیلئے پارٹی کے صدر کیوں نہیں بن سکتے؟ نہیں، کبھی نہیں، شکیل اعوان کبھی نہیں کہیں گے۔ کوئی بھی نہیں کہے گا۔ سیاسی پارٹیوں میں کسی رکن میں ہمت نہیں کہ پارٹی کے اندر الیکشن کا مطالبہ کرے۔
میاں اظہار الحق! تم نے مفت میں دو سو سال کا پینڈا کیا اور راستہ کھوٹا کیا۔ شیخ رشید جیتیں یا شکیل اعوان کامیاب ہوں، نون لیگ ڈھول بجائے یا قاف لیگ بھنگڑا ڈالے یا پیپلزپارٹی ٹھمکا لگائے، تمہاری قوم کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کوئی ہارا تو کیا ہوا اور کوئی جیت گیا تو کیا ہوا؟
گر بادشہ ہو کر عمل مُلکوں ہوا تو کیا ہوا
دو دِن کا نرسنگا بجا، بھوں بھوں ہوا تو کیا ہوا
غُل شور ملک و مال کا کوسوں ہوا تو کیا ہوا
یا ہو فقیر آزاد کے رنگوں ہوا تو کیا ہوا
گر یُوں ہوا تو کیا اور وُوں ہوا تو کیا ہوا
2 comments:
No doubt its great poetry
Very apt selection of Nazeer Akbar Abadi for comments on the current affairs.
Jamal Nasir Usmani
Post a Comment