ٹرین کے ڈبے میں ایک صاحب نے سامنے بیٹھے ہوئے بزرگ سے پوچھا ’’آپ کی تعریف؟‘‘
’’برخوردار! میرا نام حفیظ ہے‘‘! بزرگ نے بتایا۔ پوچھنے والے کے چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ بزرگ نے دوبارہ بتایا ’’میں حفیظ ہوں۔ شاہنامہ اسلام کا خالق‘‘ برخوردار کی رگِ شناخت اب بھی نہ پھڑکی۔ بزرگ نے ایک بار پھر زور سے کہا
’’ارے بھئی! میں حفیظ ہوں۔ وہی حفیظ جس نے پاکستان کا قومی ترانہ لکھا ہے‘‘ لیکن یوں لگا جیسے برخوردار نے قومی ترانہ کبھی سنا ہے نہ … اس کی اہمیت کا اسے احساس ہے۔ تھک ہار کر حفیظ نے کہا ’’ارے میاں! میرا نام حفیظ جالندھری ہے‘‘ بس یہ سننا تھا کہ برخوردار کو جیسے بجلی کا کرنٹ لگ گیا۔ وہ اٹھا، حفیظ صاحب کو پکڑ کر سیٹ سے اٹھایا اور اپنے سینے سے بھینچتے ہوئے بولا۔ اچھا تو آپ بھی جالندھر کے ہیں!
معلوم نہیں یہ واقعہ ہے ‘ یا محض لطیفہ! لیکن یہ جو کچھ بھی ہے ہماری قومی نفسیات کی مکمل تشریح کرتا ہے! ہم تحسین بھی کرتے ہیں تو برادری کی بنیاد پر اور تنقیص بھی کرتے ہیں تو اسلئے کہ جس میں برائی ہے وہ ہماری برادری سے نہیں ہے!
تعلیم یافتہ اصحاب انتہائی درد سے دیہی علاقوں کے ان پڑھ لوگوں پر تنقید کرتے ہیں کہ وہ برادری کی محبت میں اندھے ہیں اور ووٹ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ محض اس بنیاد پر کرتے ہیں کہ امیدوار کس برادری سے تعلق رکھتا ہے لیکن کیا اس جرم کا ارتکاب کرنیوالے صرف ان پڑھ ہیں؟اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ ایک ملازمہ مبینہ طور پر تشدد سے ہلاک ہوتی ہے۔ ملزموں پر مقدمہ چلتا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ملزم وکیل ہے۔ عدالت میں پیشی کے دن ملزم کی ’’برادری‘‘ کے لوگ اکٹھے ہو کر ہنگامہ کرتے ہیں۔ وہ پورے شہر سے امڈ کر آتے ہیں وہ مقتولہ کے پسماندگان کو کمرہ عدالت میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے اور میڈیا کے نمائندوں کو ایک کونے میں دھکیل دیتے ہیں۔ ملزم کی ’’برادری‘‘ کے لوگ بلند آواز سے گالیاں دیتے ہیں اور میڈیا کیخلاف نعرے لگاتے ہیں۔
انہیں اس بات کا غم ہے کہ ملزم لاہور بار ایسوسی ایشن کا سابق صدر ہے، اسکے باوجود میڈیا کی یہ جرأت کہ اسکے بارے میں خبر نشر کر دی! چاہئے تو یہ تھا کہ ’’برادری‘‘ اپنے آدمی کا عدالت میں دفاع کرتی، دلائل دیتی اور ثبوت سے عدلیہ کو قائل کرتی لیکن افسوس! اہم بات یہ نہیں کہ سچ کیا ہے، اور اخلاق اور قانون کیا کہتا ہے؟
اہم بات یہ ہے کہ ہم نے ہر حال میں اپنے دوست، اپنے رشتہ دار، اپنے رفیق کار، اپنے لیڈر، اپنے پیر، اپنے پیر بھائی، اپنے ہم مذہب کی حمایت کرنی ہے۔ انصاف بھاڑ میں جائے!’’وفاداری‘‘ کا یہ جاگیردارانہ تصور پاکستان کے ان پڑھوں ہی میں نہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں بھی موجود ہے اور یہی اس ملک کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ وفاداری کا جاگیردارانہ تصور یہ ہے کہ اگر آپکا دوست، رشتہ دار یا برادری کا کوئی شخص کسی مسئلے سے دوچار ہے تو یہ نہ دیکھیں کہ وہ غلط ہے یا صحیح، مجرم ہے یا مظلوم، بس آنکھیں بند کرکے اسکی حمایت کریں‘ یہی ہمارا فرض ہے اور یہی وفاداری کا تقاضا ہے! اگر بارہ سالہ بچی کے بے جان جسم پر اٹھارہ زخم ہیں تو کیا ہوا!
اور صرف وکیل برادری کو کیوں مطعون کیا جائے؟ ڈاکٹروں کا طرز عمل بھی یہی رہا ہے! جب بھی کسی ڈاکٹر پر مقدمہ چلا ہے، یا کسی مریض کے لواحقین نے کسی ڈاکٹر کی سنگدلی یا غفلت کیخلاف آواز بلند کی ہے تو ڈاکٹر اپنے ساتھی کی حمایت میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہو گئے ہیں۔ ہڑتال کر دی گئی ہے۔ مریض ہسپتالوں کے برآمدوں میں ذلیل و خوار ہو گئے ہیں۔ کیا کسی مہذب ملک میں ایسا ہوا ہے؟ امریکہ اور یورپ میں آئے دن ڈاکٹروں کیخلاف مقدمے قائم ہوتے ہیں، مریض اور انکے لواحقین عدالتوں میں جاتے ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ڈاکٹروں نے ’’برادری‘‘ کی بنیاد پر ہنگامہ کھڑا کیا ہو۔ تاجر برادری اس کارِخیر میں کسی سے پیچھے نہیں۔
بارہا ایسا ہوا کہ پولیس نے کسی جرم کی بنیاد پر ایک دکاندار کو گرفتار کیا۔ آن کی آن میں مارکیٹیں بند ہو گئیں۔ شٹر ڈائون ہو گئے، یہ کسی نے نہ پوچھا کہ گرفتار ہونیوالے کا کیا جرم ہے؟ کس نے شکایت کی اور کیا گرفتاری بلاجواز ہے؟ ہمارے منتخب نمائندے تو اس رجحان کے معماروں سے ہیں! جب بھی مراعات کا معاملہ ہوتا ہے، حزب اختلاف اور حزب اقتدار باہم متحد ہو جاتے ہیں۔ جب بھی زرعی اصلاحات کے حوالے سے کوئی آواز اٹھتی ہے، جو کتنی ہی نحیف کیوں نہ ہو، سارے طرے اور سارے شملے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اقبال کا یہ شعر بے اختیار یاد آ جاتا ہے…؎
باطل کے فال و فر کی حفاظت کے واسطے
یورپ زرہ میں ڈوب گیا دوش تا کمر
ان گنہگار آنکھوں نے بڑے بڑے فقیر اور حق گو پارلیمانی ارکان کو مراعات کے حق میں تقریریں کرتے اور دلائل دیتے سنا ہے۔ یہی حال ’’استحقاق‘‘ کا ہے۔ ’’ہمارے‘‘ فون کیوں نہ سنے گئے؟ ہماری سفارشیں کیوں نہ مانی گئیں اور تو اور جہاز میں ہمیں فلاں نشست کیوں نہ دی گئی؟ حالانکہ پوری دنیا میں جہاز کی اگلی نشستیں ان خواتین کیلئے مختص ہوتی ہیں جن کی گود میں بچے ہوں! ان گنہگار آنکھوں نے یہ بھی دیکھا کہ گود میں بچہ اٹھائی ہوئی خاتون سے کہا گیا کہ آپ پیچھے چلی جائیں، یہاں وزیر یا کسی بڑے صاحب نے بیٹھنا ہے! ساقی فاروقی کا شعر ہے…؎
ان موذیوں پہ قہر الٰہی کی شکل میں
نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم
اس معاشرے میں، مجھ سمیت، ہر شخص چاہتا ہے کہ معاشرہ درست ہو جائے لیکن افسوس! مجھ سمیت ہر شخص چاہتا ہے کہ درستی کا آغاز مجھ سے نہ ہو۔ مجھے کچھ نہ کہا جائے! اصلاح کا کام دوسروں سے شروع ہوا اور دوسروں ہی پر ختم ہو۔
کل کے اخبار میں ہمارے دوست سعید آسی نے اپنے کالم میں یہ ہوشربا خبر دی ہے کہ صوبائی وزیر قانون اپنا غیر قانونی پلازا گرانے پر تیار ہیں لیکن انہوں نے شرط یہ عائد کی ہے کہ پہلے صدر زرداری استعفیٰ دیں ‘ یہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے تاجر برادری سے ٹیکس پورا مانگا جائے تو وہ مطالبہ کرتی ہے کہ پہلے یہ بتایا جائے کہ ٹیکس استعمال کہاں ہو رہا ہے اور ہمیں ٹیکس کے بدلے میں کیا مل رہا ہے یا کیا ملے گا؟ انصاف اس معاشرے میں موجود ہے لیکن صرف اس شرط پر کہ انصاف کے کٹہرے میں مجھے نہ کھڑا کیا جائے اور میری برادری کے کسی رکن کو بھی کچھ نہ کہا جائے۔
یہ کارِ خیر کسی اور طرف سے شروع ہو تو بہتر ہے! مانا کہ کرنل کی ہلاکت میں چیف سیکرٹری کا کوئی قصور نہیں، لیکن چیف سیکرٹری کا ساتھ آتی ہوئی خالی کار میں بیٹھ کر جائے حادثہ سے کمال بے نیازی کیساتھ رخصت ہو جانا کیا قصور نہیں! اندازہ لگائیے، جس ملک میں لوگ پٹرول کی ایک ایک بوند اور سی این جی کے ایک ایک کلوگرام کیلئے ترس رہے ہیں چیف سیکرٹری کی کار کیساتھ ساتھ دوسری کاریں بھی محوِ خرام ہیں، واہ! واہ! سبحان اللہ! حادثہ ہوتا ہے، صاحب کار سے اترتے ہیں اور دوسری کار میں سوار ہو کر سفر جاری رکھتے ہیں۔
اگر خادم پنجاب اس بے نیازی پر (چلئے، بے حسی کی جگہ بے نیازی کا لفظ ہی سہی!) اس رجلِ رشید کو چیف سیکرٹری کے عہدے سے ہٹا دیتے تو یہ اقدام بالکل جائز اور منطقی ہوتا لیکن بات برادری کی ہے، چیف منسٹر ہو یا چیف سیکرٹری! چیف کا سابقہ تو مشترک ہے! کیا کوئی ایسی صبح طلوع ہو گی جب ہم بھی مہذب ملکوں کی طرح برادری کو بھاڑ میں جھونک کر صرف انصاف کی بات کرینگے؟ انصاف ‘سو فیصد انصاف! لیکن شاید ابھی نہیں! ابھی کچھ دیر ہے…؎
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں ذرا اور اسے تھام ابھی
No comments:
Post a Comment