وینس کے تاجر انتونیو نے یہودی ساہوکار سے قرض لیا تھا، اس یہودی ساہوکار کا نام شائی لاک تھا۔ شائی لاک نے معاہدے میں یہ شق لکھوائی تھی کہ اگر رقم وقت پر واپس نہ کی گئی تو شائی لاک انتونیو کے جسم سے ایک پونڈ (تقریباً آدھا کلو) گوشت کاٹ لے گا اور جسم کے جس حصے سے بھی چائے گا کاٹ سکے گا!
وینس کے تاجر کی یہ کہانی شیکسپیئر نے چار سو سال سے زیادہ عرصہ ہوا لکھی تھی۔ ان چار صدیوں میں یہ ضرب المثل بن گئی ۔ مظلوم کو انتونیو اور ظالم کو شائی لاک کہا جاتا ہے، لیکن آج ہم آپ کی ملاقات جس مظلوم سے کرا رہے ہیں اس کے مقابلے میں انتونیو پر تو کوئی ظلم ہوا ہی نہیں تھا اور ہم آپ کی ملاقات جس ظالم سے کرا رہے ہیں اس کے مقابلے میں شائی لاک آپ کو رحم و کرم کا پُتلا لگے گا۔ انتونیو کے جسم سے صرف ایک شائی لاک گوشت کاٹنے کے درپے تھا، ہم جس مظلوم کو آپ کی عدالت میں پیش کر رہے ہیں اس کے پیچھے شائی لاک نہیں، کہ وہ تو پھر بھی ایک انسان تھا درندوں اور وحشیوں کا ایک غول چلاتا، دھاڑتا، چلا آ رہا ہے! یہ مظلوم پاکستانی صارف ہے۔!
اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے پیچھے صرف دولت کی پرستش کرنے والے سیاست دان، بددیانت بیورو کریٹ اور لالچی مولوی پڑے ہوئے ہیں تو آپ غلطی پر ہیں۔ اگر آپ کا خیال یہ ہے کہ صرف ناجائز نفع کمانے والے آتش خور تاجر پاکستانی صارف کا گوشت کاٹنے کے درپے ہیں تو آپ حقائق سے بے خبر ہیں اور آپ کی لاعلمی قابلِ رحم تو ہے، قابل معافی نہیں۔
پاکستانی صارفین کے جسموں سے اپنی پسند کا گوشت کاٹنے میں اس وقت موبائل ٹیلی فون کمپنیاں سرِ فہرست ہیں یہ موبائل ٹیلی فون کمپنیاں وہ منہ زور گھوڑے ہیں جو بے لگام سرپٹ دوڑتے چلے جا رہے ہیں اور راستے میں آنے والے ہر ذی روح کو کچل رہے ہیں۔ یہ موبائل ٹیلی فون کمپنیاں وہ مست ہاتھی ہیں جو اپنی سونڈیں فضا میں لہرائے بجلی کی رفتار سے بھاگتے آ رہے ہیں اور انسان تو انسان، چوپائے بھی الامان و الحفیظ کہہ کر چھپتے پھر رہے ہیں!
آپ کو یاد ہو گا کہ موبائل ٹیلی فون کا رواج اس ملک میں 2000ء سے کچھ عرصہ پہلے زیادہ ہونا شروع ہوا۔ اس وقت ملک میں ایک دو کمپنیاں ہی تھیں ۔ پاکستانی صارف کے ساتھ اس زمانے میں جو سلوک ہوا دنیا میں کسی کے ساتھ نہ ہوا ہو گا۔ ٹیلی فون کال کرنے کی قیمت تو ادا کرنا ہی تھی، ظلم یہ تھا کہ کال وصول کرنے کے بھی دام تھے اور بھاری دام تھے۔ کروڑوں اربوں روپیہ ’’کمایا‘‘ گیا اور یہ کمائی کچھ تو کاروبار کرنے والوں کے حصے میں آئی اور باقی کمپنی کے اصل ملک کو بھیجی جاتی رہی۔ کال وصول کرنے کی قیمت اتنی زیادہ تھی کہ لوگ اپنے پیاروں سے اپنا ٹیلی فون نمبر چھپاتے پھرتے تھے اور کال کرنے والا زہر لگتا تھا خدا خدا کر کے بربریت کا یہ دور ختم ہوا اور آنے والی کال جیسا کہ دنیا کے تمام مہذب ملکوں میں ہوتا ہے۔ مفت ملنے لگی یا کم از کم بظاہر مفت ملنے لگی پھر موبائل کمپنیوں کی بھرمار ہو گئی ایک کے بعد دوسری، دوسری کے بعد تیسری چین سے لے کر دبئی سے ہوتے ہوئے ناروے تک سب نے یہاں کاروبار سنبھال لیا۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں ہر شخص موبائل فون چاہتا ہے اور کچھ ’’عقل مند‘‘ تو ایسے ہیں کہ کئی کئی موبائل فون اور کئی کئی کنکشن رکھنے کے شوقین ہیں (ان ’’عقل مندوں‘‘ کے بارے میں خصوصی کالم کچھ دنوں بعد!) ان پڑھ نو دولتیوں نے چھوٹے بچوں کو بھی فون لے کر دینے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ یہ ساری کمپنیاں اربوں روپے کما رہی ہیں لیکن المناک بات یہ ہے کہ مزید کمانے کی ہوس ختم نہیں ہو رہی۔ اس ’’مزید‘‘ چکر میں یہ اپنے صارفین کو نئی نئی اذیتوں سے دوچار کر رہی ہیں اور اذیت دہی کے اس عمل میں سب متحد اور متفق ہیں۔ یہ سب موبائل کمپنیاں صارفین کے جسموں سے زیادہ سے زیادہ گوشت کاٹنا چاہتی ہیں اور اسی ظلم کے خلاف ہم ان سطور میں ماتم کرنا چاہتے ہیں۔
آپ بیمار ہیں ڈاکٹر نے مکمل آرام کا مشورہ دیا ہے، آپ کو رات کے وقت یوں بھی نیند نہیں آ رہی ہزار دقت سے آنکھ لگی ہے اتنے میں آپ کا موبائل فون پیغام آنے کی گھنٹی دیتا ہے۔ آپ کی آنکھ کھل جاتی ہے دل دھک سے رہ جاتا ہے۔ یہ پیغام آپ کی بیمار والدہ کی طرف سے یا امریکہ میں رہنے والے بھائی کی طرف سے تو نہیں؟ آپ گھبرا کر اٹھ بیٹھتے ہیں اور پیغام پڑھتے ہیں۔ پیغام یہ ہے:
پیارے صارفین! کھانا پکانے کی ترکیبیں، کہانیاں اور لطیفے سننے کے لئے 1310 ڈائل کیجیئے اور فروری کی فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک ہر منٹ پر ایک منٹ مفت حاصل کیجئے‘‘ آپ سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ نیند اڑ جاتی ہے آپ حیران ہیں کہ رات ایک بجے یہ پیغام بھیجنے میں کیا حکمت ہے؟ آپ اپنے موبائل فون کی کمپنی کی ہیلت لائن (Help Line) پر فون کرتے ہیں۔ آدھا گھنٹہ آپ کو انتظار کرانے کے بعد ایک صاحب یا صاحبہ آپ کی بات سنتی ہیں۔ آپ کی شکایت نوٹ کرتی ہیں اور وعدہ کرتی ہیں کہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ آپ دوبارہ سونے کے جتن کرتے ہیں صبح چار بجے کے قریب کروٹیں بدل بدل کر آپ کی آنکھ لگتی ہے کہ پھر پیغام کی گھنٹی بجتی ہے اب کے پیغام یہ ہے۔
’’پیارے صارفین! آپ فلاں نمبر پر فون کر کے دوست بنا سکتے ہیں اور ان نئے دوستوں سے بات چیت کر سکتے ہیں اگر آپ نئے دوست بنائیں تو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک ہر دو منٹ کے بعد مفت کے دو منٹ مل سکتے ہیں‘‘
آپ پھر سر پیٹتے ہیں۔ کیا بہنوں، بیٹیوں، بیویوں، ماؤں کو نئے دوست بنانے کے پیغام بھیجنا ہمارے کلچر اور ہماری اخلاقیات میں مستحسن ہے؟ آپ دوبارہ ہیلپ لائن پر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھے ان صاحب یا صاحبہ سے بات کرنی ہے جن سے چند گھنٹے پہلے شکایت کی تھی لیکن اب کے جو صاحب یا صاحبہ آپ سے محوِ گفتگو ہیں وہ رعونت سے بتائی ہیں کہ آپ ان سے بات نہیں کر سکتے!
دوسرے دن آپ کو ایک اور پیغام ملتا ہے۔
’’معزز صارفین! اگر آپ نے اپنی کمپنی کے لئے اشتہار دینا ہے یا ٹریڈ مارک حاصل کرنا ہے یا ٹیکس کے سلسلے میں کوئی مسئلہ حل کرنا ہے تو مندرجہ ذیل نمبروں پر رابطہ کیجئے‘‘
اس کے بعد دو تین نمبر درج ہیں۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ آپ کی کمپنی ہے نہ کاروبار، آپ کو یہ اشتہار کیوں بھیجا گیا ہے۔ ابھی آپ حیران ہونے کے دردناک عمل سے گزر ہی رہے ہیں کہ تین چار تابڑ توڑ اشتہار مزید وصول ہوتے ہیں۔ کوئی آپ کو کہہ رہا ہے کہ اپنی ویب سائٹ ہم سے بنوائیں۔ کوئی سبز باغ دکھاتا ہے کہ اپنی این جی او کا کام ہم سے کرائیں، کوئی وعدہ کرتا ہے کہ اگر یہ کریں گے تو قرعہ اندازی میں آپ کی قسمت کا ستارہ چمک اٹھے گا اور کوئی آپ کو متنبہ کرتا ہے کہ اگر فلاں فائدہ اٹھانا ہے تو فلاں کام فلاں سے نہ کرائیں بلکہ ہم سے کرائیں۔
یوں لگتا ہے کہ اگر موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کی ہوس زر اسی طرح بڑھتی رہی تو بہت جلد وہ وقت بھی آئے گا کہ دیواروں پر لکھے ہوئے غیر اخلاقی جنسی اشتہار بھی ایس ایم ایس کے ذریعے چادر اور چار دیواری کی حدیں پھلانگ لیں گے۔ ہاتھ دیکھنے والے، طوطے سے فال نکالنے والے، زائچے بنانے والے، تعویذ فروخت کرنے والے، کپڑے کو بالشت سے ماپ کر جادو کا اثر ’’زائل‘‘ کرنے والے اور کُشتوں سے شرطیہ جوانی واپس لانے والے سب آپ کے موبائل فون پر اپنے اپنے کمالات کے اعلان کریں گے جن کو کبھی آپ کی بیٹیاں پڑھیں گی اور کبھی ان سے آپ کے پوتے اور نواسے اپنے علم میں ’’اضافہ‘‘ کریں گے۔
پاکستانی عوام کو یہ جاننے کاحق ہے کہ موبائل ٹیلی فون کمپنیاں ایک سال میں کتنا منافع کما رہی ہیں اور ہر سال کتنے کروڑ اور کتنے ارب روپے ان کمپنیوں کے صدر دفاتر (Head offices) کو بھیجے جاتے ہیں۔ معصوم پاکستانی صارفین کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ترقی یافتہ ملکوں میں کسی موبائل ٹیلی فون کمپنی کی مجال نہیں کہ آدھی رات کو اشتہار بھیج کر لوگوں کی نیند خراب کرے۔ اگر وہ ایسا کرے تو عدالتیں مار مار کر کمپنی کا بھرکس نکال دیں۔ نہ ہی دوسرے ملکوں میں اشتہاری کمپنیاں صارفین کو اس طرح مشق ستم بناتی ہیں جس طرح پاکستان میں انہیں زِچ کیا جا رہا ہے۔ پاکستانی صارفین کے جسموں سے ہر کوئی گوشت کاٹ رہا ہے۔ دنیا بھر میں کریڈٹ کارڈ مفت ملتے ہیں یہاں کریڈٹ کارڈ کی سالانہ ’’فیسیں‘‘ لی جاتی رہیں! مہذب ملکوں میں رات کو ہوائی اڈوں پرجہاز اترتے ہیں نہ روانہ ہوتے ہیں تاکہ اردگرد کی آبادیوں میں لوگوں کی نیند میں خلل نہ پڑے۔ پاکستان میں تمام غیر ملکی ہوائی کمپنیوں کے جہاز آدھی رات کو یا سحری سے پہلے پہنچتے ہیں یا روانہ ہوتے ہیں۔یہی حال موبائل ٹیلی فون کمپنیوں کا ہے۔ آخر یہ موبائل فون کمپنیاں کتنی دولت مزید اکٹھی کرنا چاہتی ہیں اور صارفین کے جسموں سے گوشت کے مزید کتنے ٹکڑے کاٹنا چاہتی ہیں؟
No comments:
Post a Comment