Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, August 18, 2009

وطن اور تارکینِ وطن

میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہوں اور ناخوش ہوں۔
ٹورنٹو آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔انٹاریو صوبے کا یہ دارالحکومت جھیل انٹاریو کے کنارے ایک سرسبز کھیت کی طرح لہلہا رہا ہے۔اس شہر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسکے تقریباََ پچاس فی صد باشندے کینیڈا سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ٹورنٹو کو دنیا کے ان چند شہروں میں سرِ فہرست قرار دیا گیا ہے جو رہنے کیلئے بہترین ہیں۔اس امتیاز کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جرائم کی شرح کم ہے،ماحول صاف ستھرا ہے، معیارِزندگی بلند ہے اور مختلف رنگوں،نسلوں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم شِیر و شکر ہو کر رہ رہے ہیں۔
ٹورنٹو پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد نمازِجمعہ کا وقت ہو گیا۔میزبان ایک مسجد میں لے گئے۔مولانا جو مملکتِ خداداد سے درآمد کیے گئے تھے استعمار سے کئی سو سال کی غلامی کا بدلہ یوں لے رہے تھے کہ اُن کی زبان کی ایسی تیسی کر رہے تھے۔انگریزی میں خطبہ دیتے وقت وہ گرامر،لغت،لہجہ ہر شے سے اپنے بنیادی اختلاف کا اظہار کر رہے تھے لیکن افاقہ مجھے اُس وقت آیا جب انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالب،تمام مفاہیم اور تمام تشریحات کا اطلاق حضرت نے اُس چندے پر کیا جو اُنکے مرکز کے حوالے کیا جائیگا !
لیکن یہ افاقہ وقتی تھا۔ مسجد سے باہر آ کر ساری خوشی کافور ہو گئی۔باہر ہر طرف جو کچھ ہو رہا تھا میری طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ میزبانوں کے ساتھ ٹورنٹو کی شاہراہوں پر گھومتے جب دو دن ہو گئے تو میرے سر میں درد ہونے لگا۔معزّز مہمان کی ناسازیٔ طبع دیکھ کر میزبان پریشان ہونے لگے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہا ۔میں نے انکار کر دیا۔سر درد کی گولی کھلانا چاہی ۔میں نہ مانا۔ اس سے پیشتر کہ اُنکے دل ٹوٹ جاتے میں نے اصل سبب کی نشاندہی کی اور پوچھا کہ کیا کینیڈا کے گورنر اور وزیراعظم شہر سے نہیں گزرتے؟کیا یہاں کے فرما ں روائوںنے اپنے لیے شاہراہیں تک الگ بنوا لی ہیں ؟ مجھے بتایا گیا کہ ایسی بات نہیں۔یہ سب وی آئی پی حضرات شہر کی سڑکوں سے گزرتے رہتے ہیں۔تو رُوٹ کیوں نہیں لگائے جا رہے؟ ٹریفک بلاک کیوں نہیں کی جا رہی؟ اسی لیے تو میرے سر میں درد ہو رہا ہے !میزبانوں نے بتایا کہ وزیراعظم اور گورنر نے کہیں آنا جانا ہو تو رُوٹ لگتا ہے نہ ٹریفک روکی جاتی ہے۔شاہراہوں پر سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا رہتا ہے۔یاد رہے کہ گورنر یہاں تقریباََ اُسی حیثیت کا مالک ہے جو ہمارے ہاں صدر ِ مملکت کی ہوتی ہے۔وہ ریاست کا آئینی سربراہ ہے اور ملکہ کی نمائیندگی کرتا ہے۔تو کیا یہاں کے لوگ اُن نعمتوں سے محروم ہیں جو ہم پاکستانیوں کو حاصل ہیں ؟ میں نے احساسِ تفاخر سے سوال کیا۔ کیا انکے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں دم نہیں توڑتے؟ کیا گورنر اور وزیراعظم کی سواری کے گزرنے کی وجہ سے ان کی ٹرینیں اور جہاز چھُوٹ نہیں جاتے؟اور کیا انکی حاملہ عورتیں اُس وقت موت کے گھاٹ نہیں اتر جاتیں جب وزیراعظم اور صدر مملکت ۔۔نہیں معاف کیجیے گا۔۔۔۔ گورنر کی سواری نے گزرنا ہوتا ہے اور کیا ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح شاہراہوں سے ہٹا نہیں دیا جاتا ؟جواب نہیں میں تھا ۔ سر کے درد میں اضافہ ہو گیا۔یوں لگتا تھا کوئی گرم گرم شے کنپٹیاں پھاڑ کر باہر نکلنا چاہتی ہے !دوسرے دن ایک شاہراہ سے گزرتے وقت متلی کا دورہ پڑا۔میزبان پھر ڈاکٹر کے پاس لے جانے پراصرار کرنے لگے لیکن میں نے ایک بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لکھا تھا ـ۔۔یہ شاہراہ فلاں دن سے لے کر فلاں دن تک مرمّت کی وجہ سے بند رہے گی۔ میں نے بتایا کہ متلی کا واحد علاج یہ ہے کہ اس بورڈ کو ہٹایا جائے۔میں تہذیب کے ان مظاہر کا عادی نہیں ہوں۔آخر عوام کو کیا حق ہے کہ ایسے پروگراموں کے بارے میں انہیں بروقت بتایا جائے ؟
چوتھے دن میں نے بازار جانے سے انکار کر دیا اور بستر پر دراز ہو گیا ۔میزبان پھر پریشان ہو گئے۔کوئی نبض دیکھتا اور کوئی ماتھے پر ہاتھ لگا کر حرارت کا اندازہ لگاتا۔ایک بچے کو دوڑایا گیا کہ بلڈپریشر ماپنے والا آلہ لائے ۔کافی دیر کے بعد جب میرے حواس بحال ہوئے ،سانس دوبارہ روانی سے چلنے لگا اور میں بات کرنے کے قابل ہؤا تو میں نے تقریباََ روہانسا ہو کر بتایا کہ تم لوگوں کے بازار مجھے راس نہیں آ رہے۔کسی دکان پر وہ مشہور و معروف اعلان نہیں نظر آرہا جس کا میں بچپن سے عادی ہوںکہ۔۔خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔۔ کیا یہاں کے دکاندار اس درجہ بداخلاق ہیں کہ گاہکوں کو یہ بتانا تک پسند نہیں کرتے کہ خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔مجھے بتایا گیا کہ اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ خریدا ہؤا مال واپس بھی ہو سکتا ہے اور تبدیل بھی ہو سکتا ہے بلکہ دکاندار یہ بھی بتاتے ہیں کہ خریدا ہؤا مال دس دن یا پندرہ دن یا اتنے دن بعد واپس کیا جا سکتا ہے ۔میرے میزبان کا خیال تھا کہ اس قسم کا اعلان کہ خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ گاہک کی توہین ہے اور دکاندار کی بد تہذیبی کا ثبوت ہے۔پوری مہذّب دنیا میں صارف کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بغیر وجہ بتائے مال واپس کردے اور اداکردہ پوری قیمت واپس لے لے۔ایک ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ مجھے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ حالت اس قدر خراب تھی کہ بقولِ جان ایلیا حالتِ حال کا گماں تھا۔جب ڈاکٹر نے بتایا کہ سارے ٹیسٹ ٹھیک ہیں اور کوئی ظاہری سبب بیماری کا نظر نہیں آرہا تو مجھے بتانا پڑا کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک ہفتہ ہو گیا کسی منتخب نمائندے کا کوئی کارنامہ پریس میں نہیں نظر آ رہا۔کوئی ایم پی اے کسی پولیس والے کی وردی نہیں پھاڑ رہا۔کسی کے گن مَین شاہراہوں پر دندناتے نہیں نظر آ رہے۔ کوئی چوری کرتے پکڑے جانے پر یہ نہیں کہہ رہا یا کہہ رہی کہ یہ سازش ہے یہاں تک کہ یہ بھی کوئی نہیں کہہ رہا کہ میری بیٹی یا بیٹے کو مقابلے کا امتحان پاس کیے بغیر کسی ولائتی ملک میں ڈپلومیٹ مقرّر کر دیا جائے !میں ٹورنٹو میں ہوں اور ناخوش ہوں۔میری مثا ل تو اُس شہزادے کی ہے جسے بچپن میں شیرنی اغوا کر کے لے گئی تھی اور اُسی نے اُسکی پرورش کی تھی۔جوان ہو کر وہ شہر واپس آیا تو اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔لباس سے وہ بے نیاز تھا۔گفتگو اُسکی غرّاہٹ پر مشتمل تھی۔گوشت وہ کچّا کھاتا تھا اور شہر اُسے کھاتا تھا۔دشت سے آئے ہیں اور شہر عجب لگتا ہےیہی ہم لوگوں کے رونے کا سبب لگتا ہےرومی نے مثنوی میں حکایت بیان کی ہے کہ ایک خاکروب کا عطرفروشوں کے بازار سے گزر ہؤا تو وہ بے ہوش ہو گیا۔عطر فروش اُسے قیمتی خوشبو ؤں کے لخلخے سُنگھانے لیکن اُس کی حالت خراب تر ہوتی گئی ۔ ایک عقلمند کا گزر ہؤا تو کہنے لگا ۔۔۔بے وقوفو ! اسے گندگی کا وہ ٹوکرا سنگھاؤ جو اس کے سر پر رہتا ہے اور جس کا یہ عادی ہے !
٭٭٭پاکستانی تارکینِ وطن پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں ہم نے گزشتہ کالم میں اُن کا دفاع کیا تھا اور کچھ شکوے بھی کیے تھے۔اس کا جواب تارکینِ وطن نے اس طرح دیا ہے کہ شکاگو اور ٹورنٹو سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ پاکستان ٹائمز… اپنے سات اگست کے اخبار (شمارہ ۱۸۳ ) میں نوائے وقت سے سرقہ کر کے ایک کالم کسی اور نام سے چھاپا ہے۔۲۳جولائی ۹۰۰۲ کے نوائے وقت میں محمد اظہارالحق کا کالم۔۔دستاویز پر دستخط کر دئیے گئے ہیں۔۔شائع ہؤا تھا۔ کینیڈا کی اِس ہفتگی نے یہی کالم کسی شوکت علی کے نام سے چھاپا ہے۔ ان ملکوں کے اردو اخبار کسی اجازت کے بغیر پاکستانی اخبارات سے کالم نقل کرتے رہتے ہیں لیکن یہ غالباََ پہلی دفعہ ہؤا ہے کہ اصل کالم نگار کا نام ہٹا کر دوسرا نام لگا دیا گیا ہے۔ اخبار کی چیف ایڈیٹر ہما ندیم اور سارق شوکت علی کے خلاف کینیڈا کی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے لیکن ظفر اقبال کا شعر ایک بار پھر یاد آ گیا ہے…؎
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی

Thursday, August 13, 2009

مری خصلت بیابانی رہے گی

غصہ مجھے بھی بہت آتا ہے جب تارکین وطن اپنے انتہائی آرام دہ اپارٹمنٹوں میں یا بڑے بڑے محلات میں یا جہاز سائز کی کاروں میں بیٹھ کر ملک کیلئے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں‘ میرا بھی دل چاہتا ہے انہیں کہوں کہ اتنی ہی تشویش ہے تو چھوڑ کرکیوں آئے؟ میں بھی انہیں طعنہ دینا چاہتا ہوں کہ
آپ کو جانا ہے تو جائیں ایسی کوئی بات نہیں
بیت ہی جائے گی آخر تکلیف کی پہلی رات نہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ غصہ جائز ہو گا‘ اور کیا یہ طعنہ زنی حق بجانب ہوگی؟
نظرآتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے
اسی لئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دعا مانگی تھی کہ پروردگار! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جس طرح اصل میں ہیں‘ اس طرح نہیں جیسے نظر آتی ہیں!
اگر کوئی صرف اس لئے جاتا ہے کہ مچھر پریشان کرتے ہیں‘ سیوریج ٹھیک نہیں ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو اس کا جانا نا جائز ہے۔ تکلیف آئے تو مل کر کاٹنی چاہئے۔ بھوک پیاس گرمی سردی سب کیلئے برابر ہو تو کوئی یہ ملک چھوڑ کر نہ جائے لیکن جب لوڈشیڈنگ سے خلق خدا بے حال ہو رہی ہو‘ ساٹھ ساٹھ گھنٹے لوگ بجلی کے بغیر رہیں اور اسی ملک میں ایک اقلیت ایسی بھی ہے جس کیلئے جون جولائی کو دسمبر اور جنوری کی طرح سرد کر دیا جائے‘ جو راہ سے گزریں تو لوگوں کو غلاموں کی طرح روک دیا جائے اور انکے مریض رکی ہوئی ٹریفک میں موت کے گھاٹ اتر جائیں اور ایسے لوگ بھی ہوں جن پر کسی ملکی قانون کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو پھر شکوہ جائز نہیں کہ لوگ ماں دھرتی کو چھوڑکر دساور کیوں سدھار گئے؟کیا ہم نہیں جانتے کہ کئی سائنس دان ڈاکٹر انجینئر اور پروفیسر باہر سے واپس آئے۔ لیکن انہیں اس قدر اذیت پہنچائی گئی کہ دوبارہ واپس جائے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ اسی کالم نگار کے پاس ملک کی ایک معروف شاعرہ اپنے عزیزوں کو لیکر آئیں جو کینیڈا یا امریکہ میں مستقل مقیم تھے اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں پھل محفوظ کرنے کا کارخانہ لگانا چاہتے تھے۔ بساط بھرکوشش کی لیکن سیکشن افسروں نے اتنا زچ کیا کہ وہ بلبلا اٹھے واپس گئے اور لوٹ کر کبھی نہ آئے‘ بیسیوں نہیں سینکڑوں مثالیں ایسی موجود ہیں‘ رہی یہ بات کہ وہ باہر ہی نہ جاتے تو کیوں نہ باہر جاتے؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہاں ملازمتیں کس طرح ملتی ہیں؟ اور تو اور پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹربیونل جیسے مقدس اداروں میں ممبر کس طرح تعینات کئے جاتے ہیں؟ بیرون ملک تعیناتیاں کیسے کی جاتی ہیں؟ ضیاء الحق نے پھر میاں نوازشریف نے پھر بے نظیر بھٹو نے اور پھر جنرل مشرف نے باہر کی اسامیاں کن ’’ضابطوں‘‘ کیمطابق پر کیں؟ اب اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ملک ظلم سے بھرا رہے‘ کاروبار بھی صرف وہ کریں جو حکمرانوں کے منظور نظر ہیں اور ملازمتیں بھی صرف انہیں ملیں جو رسائی رکھتے ہیں اور لوگ باہر بھی نہ جائیں تو حافظ شیرازی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
آپ اگر چاہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی دوسرے ملکوں کے بجائے مادر وطن کی خدمت کریں تو نظام درست کیجئے۔یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک صاحب کو فرانس میں سفیر تعینات کیا گیا‘ بجائے اسکے کہ انصاف اور منطق سے معاملے کو دیکھا جاتا‘ ناجائز تعیناتی کی حمایت میں اخبارات کے صفحوں کے صفحے اس لئے سیاہ کر دئیے گئے کہ وہ صاحب ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ طرف داریوں‘ دھڑے بندیوں‘ سفارشوں رشوتوں‘ رشتہ داریوں اور دھاندلیوں سے اٹے ہوئے معاشرے میں ہمیشہ یہی ہو گا کہ جسکے پاس بیساکھیاں نہیں ہونگی وہ باہر چلا جائیگا۔ بھوک پیاس جاڑے اور گرمی کی بات نہیں‘ عزت نفس کا معاملہ ہے۔ عزتیں محفوظ نہیں‘ دیانت دار اور ہنر مند کی عزت نفس کچل دی جاتی ہے اور باہر جانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا‘ نائن الیون نہ آتا تو آج اس ملک میں اسمبلیوں کے جاگیردار اور نودولتیے ممبروںکے علاوہ کوئی بھی باقی نہ بچا ہوتا۔ ہو کا عالم ہوتا اور مرزے ڈنڈے بجا رہے ہوتے!
فرانسیسی انگریز ہسپانوی اور لندیزی سب نے برے وقتوں میں ہجرتیں کیں۔ امریکی کون ہیں؟ کینیڈا میں کون لوگ بستے ہیں؟ برازیل میکسیکو اور ارجنٹائن میں آبادیاں کہاں سے آئیں؟ یہ یورپ ہی کے تو لوگ ہیں یہ کہنا درست نہیں کہ کسی اور ملک سے ہجرت نہیں ہوئی‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سارے مہاجر ہیں‘ یہ درست ہے کہ آسٹریلیا میں پہلے پہل صرف مجرموں کو بھیجا جاتا تھا لیکن یہ پرانی بات ہے گذشتہ ڈیڑھ دو سو سالوں کے درمیان لوگ اپنی مرضی سے وہاں جا کر آباد ہوئے۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے ملکوں میں لبنان شام اور مصر سے بے شمار عرب ہجرت کر کے گئے۔رہی یہ بات کہ یورپ کے لوگ اپنی نو آبادیوں میں مستقل طور پر کیوں نہیں آباد ہوئے تو مسئلہ نظام کا تھا۔ اگر یہاں بھی امریکہ اور آسٹریلیا جیسا انصاف ہوتا تو گوری چمڑی والے آ کر آباد ہو جاتے۔ دور کیوں جائیں‘ کیا برصغیر میں ایک ہزار سال تک عرب ایران اور وسط ایشیا سے لوگ آ کر آباد نہیں ہوتے رہے؟ ہمایوں کے عہدے سے لیکر نظام حیدرآباد کے زمانے تک ایران سے تانتا بندھا رہا‘ ہزاروں لاکھوں ایرانی خاندان آ کر آباد ہوئے۔ حیدرآباد دکن میں آج بھی ایرانی گلی موجود ہے۔ ولیم ڈال رمپل جس کی پڑدادی برصغیر سے تعلق رکھتی تھی
۔میں لکھتا ہے کہ سلطان ٹیپوجب WHITE MUGHALS
آخری جنگ لڑ رہا تھا تو انگریز حملہ آوروں کی مدد کیلئے
نظام حیدرآباد نے جو فوج بھیجی ‘ اس کی کمانڈ ایک ایرانی کر رہا تھا! ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے کروڑوں افراد ہجرت کر کے مغربی ملکوں میں گئے۔ کون نہیں جانتا کہ یورپ اور امریکہ میں بھارتی تارکین وطن کا پلڑا پاکستانی تارکین وطن سے بھاری ہے۔ آج بھارت کی معیشت بہتر ہوئی ہے۔ ادارے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں تو بھارتی واپس آ رہے ہیں اور
Reverse Brain-Drain
شروع ہو گیا ہے۔!
تارکین وطن سے یہ شکوہ بے جا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کیوں گئے۔ ان سے شکوے اور ہیں جن میں دو بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ مانا جب ساٹھ ستر کی دہائیوں میں یہ لوگ گئے اس وقت خود ان پڑھ تھے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اگلی نسلوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کیا۔ بالخصوص وہ پاکستانی جو ہسپانیہ برطانیہ اور ناروے میں رہ رہے ہیں۔
آج بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں برطانوی شہریت اختیار کرنیوالے پاکستانیوں کی اولادیں ٹھیلے لگاتی ہیں اور کھوکھوں پر بیٹھتی ہیں جہالت کا یہ عالم ہے کہ تعویز فروشوں اور جادو ٹونے کرنے والوں نے ٹی وی کے کئی چینل صرف ان پاکستانیوں کی وجہ سے کھولے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی جو ان پاکستانیوں کے ساتھ ہی گئے تھے۔‘ کہیں سے کہیں جا پہنچے ہیں۔ انکے بیٹے اور بیٹیاں آج صحافت وکالت تعلیم اور کئی شعبوں میں اعلیٰ ترین مقامات پر فائز ہیں دوسرا شکوہ تارکین وطن سے یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ان سیاستدانوں کی ہمیشہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی جو سیاسی پارٹیوں میں جمہوری عمل کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپی ملکوں میں بسنے والے پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں ترقی کی اصل وجہ وہاں کا حقیقی جمہوری نظام ہے۔ بجائے اسکے کہ یہ لوگ اپنے سیاستدان مہمانوں سے دو ٹوک مطالبہ کرتے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری عمل پروان چڑھایا جائے‘ انہوں نے نا اہل اور بدعنوان سیاستدانوں کے راستوں پر سرخ قالین بچھائے‘ آج جو تارکین وطن پیپلزپارٹی ‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے ملک میں عہدیدار ہیں‘ انہیں اس امر کا احساس تک نہیں کہ وہ شخصی پارٹیوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔اس بات پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ امریکہ کینڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں سالہا سال زندگی گزارنے کے باوجود یہ تارکین وطن اس سیاستدانوں کی بلائیں لیتے ہیں جو وراثت کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں یا اندھی دولت ان کی واحد اہلیت ہے اور وہ اپنی پارٹیوں میں الیکشن کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے! شاید ظفر اقبال نے تارکین وطن بھائیوں ہی کیلئے کہا ہے …؎ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی

Tuesday, August 11, 2009

اقتدار کا قاف

چاچے غلام محمد نے گھوڑی پر زین رکھی اور نوار کی اُس چوڑی پٹی کو جسے ’’تنگ‘‘ کہاجاتا ہے، گھوڑی کے پیٹ سے دوسری طرف لا کر زین کسَی۔ پھر اُس نے وسیع و فراح حویلی میں گھوڑی کو کئی چکر لگوائے جب کہ خود اُسکے آگے آگے لگام پکڑ کر چلتا رہا۔ وہ گھوڑی کو وارم اَپ کررہاتھا! پھر وہ اُسے حویلی سے نکال کر دوسری حویلی کی طرف لایا جس میں رہائشی حصے تھے اور دروازے کے باہر چبوترے کے نزدیک انتہائی جچے تُلے حساب کتاب کیساتھ اس طرح کھڑا کیا کہ چبوترے پر کھڑے ہو کر سوار ہونیوالی خاتون کو ذرا بھی دقت نہ ہو۔خاتون سوار ہوئی اور فراخ زین پر جو جگہ باقی تھی وہاں، خاتون کے آگے بچے کو بٹھا دیا گیا۔اس بچے کو چاچا غلام محمد آج بھی کل کی طرح یاد ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ جس دن بچے نے چاچے کو صرف غلام محمد کہہ کر پکارا تھا، دادا نے تھپڑ رسید کیا تھا کہ یہ غلام محمد نہیں چاچا ہے۔ اور دوسری وجہ یہ ہے کہ چاچے نے دانت کبھی بھول کر بھی صاف نہیں کئے تھے۔ ویسے تھپڑ بچے کو اُس دن بھی پڑا تھا جس دن اُس نے خود کُشی کو خود کَشی کہا تھا اور تھپڑ مارنے والے نے تھپڑ مار کر کہا تھا کہ لوگ کیا کہیں گے کہ یہ جھنڈیال والے بابے کا پوتا ہے جس کے پاس چار دانگِ عالم سے لوگ فارسی ادب اور ترکیب (گرامر) پڑھنے آتے ہیں!
گھوڑی روانہ ہوئی۔ آگے آگے لگام پکڑ کر چلنے والا چلا، ساتھ ایک بزرگ نے چلنا شروع کیا۔ چبوترے پر…جہاں سے سواری روانہ ہوئی تھی، ایک بوڑھی خاتون کھڑی ہوگئیں اور اُس وقت تک دیکھتی رہیں جب تک کہ جانیوالے نظروں سے اوجھل نہ ہوگئے۔ بزرگ گھوڑی کیساتھ ساتھ چلتے رہے، اپنی خوبصورت سمارٹ کھُنڈی(لاٹھی) ٹیکتے، پھر گائوں سے کافی باہر جا کر…وہ مقام آگیا جہاں سے رخصت کرنیوالے واپس چلے جاتے تھے اور سفر کرنیوالے آگے روانہ ہوجاتے تھے۔
کوئی ڈیڑھ یا دو گھنٹے گھوڑی چلتی رہی۔ کھیتوں اور میدانوں سے گزرتی وہ ایک گھاٹی سے نیچے اتری، ندی پار کی اور پھر اوپر چڑھی، ذرا سا دور، سامنے بستی تھی۔ مسجد کا مینار نظر آرہا تھا۔ معبدوں کا اپنا جلال ہوتا ہے، آج بھی اس بچے کے ذہن پر، دُور سے نظر آنے والی بستی اور بلند مینار ثبت ہے۔ بستی سے باہر، ایک اور بزرگ کھڑے تھے۔ بچے کے انتظار میں۔انہوں نے بچے کو گھوڑی سے اتارا اور اٹھا لیا۔
پچاس باون سال گزر گئے۔
موٹر وے ٹول پلازاکے باہر بہت سی گاڑیاں کھڑی ہیں۔ ایک گاڑی سے ایک ادھیڑ عمر شخص باہر نکلتا ہے، گھڑی دیکھتا ہے اور ٹہلنا شروع کردیتا ہے۔ پھروہ موبائل فون پر کسی سے بات کرتا ہے۔ ایک بار پھر گھڑی دیکھتا ہے اور ٹہلنے لگتا ہے۔ بہت دیر بعد ایک کار موٹروے ٹول پلازا کو پار کرتی ہے اور اسکے پاس آ کر رُکتی ہے۔ وہ لپک کر آگے بڑھتا ہے اور کار سے ایک دو سالہ بچی کو اٹھالیتا ہے۔ اُسے چُومتا ہے۔ اچھالتا ہے، اور اپنی گاڑی میں بٹھا لیتا ہے۔ تین دن بعد وہ اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہے۔ ایک گاڑی کھڑی ہے۔ وہ روتی ہوئی بچی کو گاڑی میں اُسکی ماں کی گود میں بٹھاتا ہے۔ روتی ہوئی بچی کہتی ہے۔’’ نانا ابو آپ بھی گاڑی میں بیٹھیں نا‘‘ وہ دروازے کے باہر بے حس و حرکت کھڑا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ گاڑی نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے
…؎تارا اور مستول دکھائی دیتے رہے
ڈوب گئی پھر پانی میں پہچان اُس کی

ہماری زندگیوں میں منظر اور پیش منظربدلتے رہتے ہیں۔ گھوڑی کی جگہ کار لے لیتی ہے۔ چبوترے کی جگہ پورج بن جاتا ہے۔ کبھی بھی دانت صاف نہ کرنیوالے چاچے غلام محمد کی جگہ صاف ستھرا ڈرائیور لے لیتا ہے۔ پگڈنڈیوں اور گھاٹیوں کے بجائے تارکول سے بنی ہوئی پکی سڑکیں بل کھانے لگتی ہیں لیکن اچھلتا دل، بھیگتی پلکیں، راہ تکتی نظریں، ہمکتے بازو، ننھے ننھے رخسار چومتے ہونٹ، رخصت ہوتے وقت نانا اور دادا سے چمٹتے بچے اور انہیں پکڑ کر ساتھ لے جانے والے ماں باپ… یہ سب کچھ اُسی طرح رہتا ہے۔ وہ بچہ جسے اُس کے نانا بستی سے باہر آ کر، گھوڑی سے اُچک لیتے تھے، آج وہی بچہ موٹروے ٹول پلازا کے باہر انتظار کرتا ہے اور کار سے اپنی نواسی کو اٹھا لیتا ہے‘ اس لئے کہ سارے منظر اور سارے پیش منظر بدل جاتے ہیں لیکن انسان کے جذبات وہی رہتے ہیں۔ یہ دنیا اسکے بدلتے مناظر، اس کی ایجادات سب کچھ انسان کے جذبات کے ارد گرد پھرتا ہے۔ لٹنے والے قافلے، حادثوں کا شکار ہونے والی ٹرینیں اور جہاز، سارے منظر آنکھوں سے آنسو لاتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ بندرگاہوں پر لنگرانداز ہونے والے بحری جہازوں کی راہ دیکھتے تھے، کہ کوئی مسافر اُن کے نام لکھا ہوا خط لائے گا۔ وہ ایک خط کیلئے… چند سطروں کیلئے، ہر روز بندرگاہ کا چکر لگاتے تھے۔آج صبح اٹھتے ہی ای میل دیکھی جاتی ہے، بحری جہاز سے آنیوالا خط جن آنسوئوں کو چھلکاتا تھا، وہ آنسو ای میل پڑھ کر بھی اُسی طرح چھلک اٹھتے ہیں۔تعجب ہوتا ہے اُن لوگوں کی بات پر جو کہتے ہیں، یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے، آج کے زمانے میں ادب اور شاعری کا کیا کام؟ لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کمپیوٹر کے زمانے میں بھی جدائیاں اور ملاپ اُسی طرح پیش آتے ہیں۔ کیا کسی کی ماں اُس سے ہمیشہ کیلئے چھن جائے تو وہ یہ کہہ کر آنسو روک لے گا کہ یہ کمپیوٹر کا زمانہ ہے۔ اُسکے منہ سے اپنی ماں کیلئے جو بلکتے فقرے نکلتے ہیں وہی تو ادب ہے۔ وہی تو شاعری ہے۔ کوئی محض فقرے کہہ کر آنسو پونچھ لیتا ہے۔ کوئی ان فقروں کو مرثیے میں ڈھال لیتا ہے، کوئی رنگوں والی تصویر پر تخلیق کرلیتا ہے اور کوئی ناول لکھ لیتا ہے۔ جب تک انسان کے سینے میں جذبات موجود ہیں، جب تک اُسکی پلکوں پر چراغ جلتے ہیں، جب تک اسکی نظریں راستہ دیکھتی ہیں، جب تک وصال اور فراق کے مواقع پر اُسکے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں، شاعری ہوتی رہے گی اور ادب اور مصوری زندہ رہے گی۔
نہیں! جناب! کمپیوٹر نہیں، انسانی جذبات کا قاتل اگر کوئی ہے تو وہ اقتدار ہے! جس زمانے میں کمپیوٹر تھا نہ جہاز، گاڑی تھی نہ پکی سڑک، اُس زمانے میں بھی سگے بھائیوں اور بیٹوں کی آنکھوں میں سلائیاں پھروائی گئیں، آنکھیں نکلوائی گئیں، پنیر میں زہر ملائے گئے، چھتیں گرائی گئیں، کشتیوں کی تہہ میں سوراخ کئے گئے اور آج بھی وہی کچھ ہورہا ہے۔ کل تخت کیلئے قتل ہوتے تھے اور آج اسمبلیوں کی نشستوں کیلئے ہوتے ہیں۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ الیکشن کے دن کیا ہوتا ہے۔ فائرنگ سے کتنے لوگ مرتے ہیں۔ سونے چاندی سے بنا ہوا تخت ہو یا امریکی اطالوی طرز کی بنی ہوئی کرسی ہو، وہی بے وفائیاں اور وہی قتل۔ہمایوں نے اپنے بھائیوں سے کابل چھیننے کیلئے شہر پر حملہ کیا تو اکبر چچا کے پاس تھا۔انہوں نے تین سالہ اکبر کو فصیل پر بٹھا دیا۔ ہمایوں کو گولہ باری روکنا پڑی، شہر فتح ہوگیا تو نرم دل ہمایوں بھائیوں سے گلے ملا، مدتوں بعد چاروں بھائیوں نے قالین پر ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا لیکن چند ہی دنوں میں خواہش اقتدار، جذبات پر پھر غالب آگئی۔ اقتدار میں قاف وہی ہے جو قتل میں ہے۔ اور اقتدار کیلئے قتل صرف دوسروں کو نہیں اپنے ضمیر کوبھی کیا جاتا ہے۔

Thursday, August 06, 2009

شیر شاہ سوری

دو ہزار نو کی جولائی کا دسواں دن تھا۔ اس دن بھی مملکتِ خداداد میں لوڈشیڈنگ زوروں پر تھی۔ اس دن بھی صدر، وزیراعظم، وزرائ، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے محلات میں اس قدر ٹھنڈک تھی کہ مکینوں کو کمبل اور رضائیاں کرنا پڑی تھیں۔ خدا کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں اس دن بھی آقاؤں اور غلاموں کی زندگیاں الگ الگ بسر ہو رہی تھیں۔ انکے محلے الگ الگ تھے، ان کے بچوں کے تعلیمی ادارے الگ الگ تھے۔ انکی خریداری کے بازار الگ الگ تھے۔ یہاں تک کہ غلاموں اور آقاؤں کے لباس بھی الگ الگ تھے۔ جولائی کا دسواں دن تھا۔ گرم اور حبس آلود موسم میں وہ وزارتِ خارجہ میں چار بجے تک بیٹھا کام کرتا رہا۔ اس وزارت کا سارا حساب کتاب اسکے ذمے تھا۔ ایک تھکا ہوا دن کاندھوں پر لادے وہ اٹھا، چھوٹی پرانی گاڑی میں بچے کھچے پیسوں سے سی این جی ڈلوائی اور لاہور کی طرف چل پڑا۔ اس دن بھی شاہراہوں پر غلاموں کو روکا گیا تھا جہاں بھی وہ تھے اور جس حال میں بھی وہ تھے، خواہ وہ ہسپتال کی طرف دم توڑتے مریضوں کو لے جا رہے تھے یا ٹرینوں اور جہازوں کو پکڑنے کیلئے دوڑ رہے تھے یا اپنے بیمار بچوں کو دوا جلد پہنچانے کیلئے بے تاب تھے۔ وہ جہاں بھی تھے اور جس حال میں بھی تھے، انہیں بندوقیں دکھا کر روک لیا گیا تھا۔ آقاؤں کی سواریاں گزرنے والی تھیں اور جب آقاؤں کی سواریاں گزرنے والی ہوں تو داروغے کسی بیمار کسی بچے کسی مسافر کا لحاظ نہیں کرتے۔ وہ رات دس بجے لاہور پہنچا۔ کچھ دوستوں کو ملا، کچھ تھکاوٹ اتاری، کچھ زادِ راہ لیا اور رات گیارہ بجے… جب جولائی کا گیارہواں دن شروع ہونے میں ایک گھنٹہ رہتا تھا، لاہور سے آگے نکل پڑا۔ اس نے بیوی اور بچوں کو بتایا ہوا تھا کہ وہ تیار رہیں۔ وہ انہیں اسلام آباد واپس لانے کیلئے آئے گا۔ ٹھوکر نیازبیگ کے قریب پولیس کے ایک داروغے نے اس سے لفٹ لی اور تھوڑی دیر کے بعد اُتر گیا۔ گاڑی پُراسرار خاموشی سے بھر گئی۔ کیا داروغے نے نوٹ کر لیا تھا کہ مسافر اکیلا ہے؟ پانچ ڈاکوؤں اور حکومتِ پاکستان کے ایک افسر پر مشتمل یہ قافلہ لاہور کی طرف رواں تھا۔ مطالبہ بالکل سادہ تھا۔ ایک لاکھ روپے درکار تھے اور اسی وقت درکار تھے۔ شکیل جاذب نے ڈاکوؤں کو بتایا کہ اس کی تنخواہ کتنی ہے اور اس میں سے جو کچھ بھی اے ٹی ایم کے ذریعے اس وقت نکلوایا جا سکتا ہے۔ وہ انہیں پیش کرنے کیلئے تیار ہے لیکن انہوں نے ایک لاکھ روپے سے کم کسی صورت میں قبول نہ کرنے کا اعلان کیا اور ریوالور کی ٹھنڈی فولادی نالی اس کے چہرے سے لگائی اور پھر اسے زور سے دبایا اور حکم دیا کہ اپنے دوستوں سے کسی ایمرجنسی کا بہانہ کرکے رقم منگواؤ اور صبح سے پہلے منگواؤ۔ اس دن بھی لاہور کے اردگرد ناکوں کا جال بچھا تھا جس پر پولیس کے سینکڑوں داروغے ٹارچیں اور بندوقیں اور ریوالور اور ڈھالیں لئے کھڑے تھے۔ تصوف کا یہ باریک نکتہ سمجھ میں نہیں آتا کہ جن دو گاڑیوں کا قافلہ پانچ ڈاکوؤں پر مشتمل تھا، اسے کسی ناکے پر نہیں روکا گیا۔ کسی ٹارچ نے گاڑی کے اندر پچھلی سیٹ پر لٹائے گئے شکیل جاذب پر روشنی نہیں پھینکی۔ کسی پولیس والے نے نہیں پوچھا کہ رات کے دو بجے تم لوگ کہاں سے آ رہے ہو؟ پچھلی سیٹ پر کون لیٹا ہوا ہے؟ کہاں جا رہے ہو؟ کیا کرتے ہو؟اس دن بھی پولیس کے افسروں کے گھروں کے باہر نصب خیموں میں پولیس کے پہریداروں کی شفٹیں بدلی تھیں۔ ٹیکس ادا کرنیوالے غلاموں کے خون پسینے کی کمائی سے رکھے گئے یہ پولیس کے جوان اپنے افسروں کے گھروں کی حفاظت پر مامور تھے۔ انہی خیموں میں اس رات بھی انہوںنے کھانا کھایا، پیڈسٹل پنکھوں کی ہوا میں سوئے اور سوچا کہ ہماری زندگی خیموں میں گزر رہی ہے اور ہم اپنے افسروں کی حفاظت پر مامور ہیں۔ حالانکہ ہمارے افسر عوام کی حفاظت پر مامور کئے گئے تھے۔ رمضان کی ستائیسویں رات کو حاصل کئے گئے اس ملک میں اس دن بھی سیاستدانوں اور اسمبلیوں کے ارکان اور وزیروں اور امیروں نے تھانیداروں کو فون کئے تھے اور اپنی ترجیحات واضح کی تھیں اور اپنے دشمنوں کے نام لکھائے تھے اور اپنے دوستوں کے پتے بتلائے تھے۔ ٹھوکر نیازبیگ سے وہ ملتان روڈ پر چڑھا۔ رات نصف اس طرف تھی اور نصف اس طرف تھی جب مانگامنڈی کے قریب وزارتِ خارجہ کے اس لائق اور دیانت دار افسر کو ایک گاڑی نے روکا۔ اس گاڑی سے پانچ افراد نکلے۔ انہوں نے اسے اپنی کار سے باہر آنے کا حکم دیا۔ اسے دوسری کار کی پچھلی سیٹ پر لٹایا۔ اس کے اوپر کپڑا دیا یہاں تک کہ اس کا منہ اور سر اور جسم پیروں تک سارا چھپ گیا۔ ایک شخص اس کی گاڑی میں ڈرائیور کی نشست پر بیٹھ گیا اور یوں یہ قافلہ جو پانچ ڈاکوؤں، حکومتِ پاکستان کے ایک افسر اور دو کاروں پر مشتمل تھا۔ مانگا منڈی سے واپس لاہور کی طرف روانہ ہوا۔ اس دن بھی پنجاب کے اَن تھک وزیراعلیٰ نے اپنے آپ کو خادمِ پنجاب لکھا اور لکھوایا تھا۔ پولیس کے ریٹائرڈ افسروں نے اس دن بھی حکمرانی کی تھی۔ پورے صوبے کیلئے مختص بجٹ کا بیشتر حصہ اس دن بھی صوبائی دارالحکومت پر خرچ کیا گیا تھا اور اس دن بھی پنجاب کے دُور افتادہ اضلاع کمزور نظروالوں کو نظر نہیں آئے تھے! ان گاڑیوں کے مالک کون ہیں اور کہاں ہیں؟ شاید اس راز سے وہ ریٹائرڈ افسر پردہ اٹھا سکیں جنہیں منفعت اندوز عہدوں پر بغیر کسی CRITERIONکے لگایا گیا ہے۔ ٹھوکر نیازبیگ سے لفٹ لینے والا داروغہ کون تھا؟ اور کیا ان پانچ ’’افراد‘‘ کو ناکوں پر مامور پولیس کے داروغے پہچانتے تھے؟ آخر ان کیلئے کوئی رکاوٹ بھی رکاوٹ کیوں نہیں تھی؟ نوجوان افسر، شکیل جاذب کے دوستوں نے رات چار بجے ایک لاکھ روپے پہنچائے۔ پانچ ’’معزز افراد‘‘ اس کی اکلوتی کار بھی لے گئے۔ جونفسیاتی دھچکا اسے، اس کی اہلیہ اور اس کے ننھے بچوں کو لگا ہے شاید حاکم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ محلات رائیونڈ میں ہوں یا جدہ میں، دبئی میں ہوں یا لندن میں، لاہور میں ہوں یا اسلام آباد میں، ملتان میں ہوں یا کہیں اور… ان کے مکین ایک جیسے ہوتے ہیں اور ان سب کے درمیان ایک چیز مشترک ہوتی ہے اور وہ یہ کہ وہ اپنی دنیا میں رہتے ہیں اور باہر کی دنیا سے بے خبر اور بے نیاز رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ گھڑی پہنچ جاتی ہے جب وہ پکار اٹھتے ہیں (ترجمہ) کچھ کام نہ آیا میرے میرا مال۔ چھن گیا مجھ سے میرا اقتدار! شکیل جاذب! شیر شاہ سوری ایک ہی تھا اور اسے رخصت ہوئے صدیاں بیت گئیں۔ برطانوی راج ہوتا تب بھی شاید تمہارے آنسو پونچھے جاتے لیکن خدا کے نام پر حاصل کی گئی اس مملکت میں تم کسی خوش فہمی میں نہ رہنا!
 

powered by worldwanders.com