میں کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں ہوں اور ناخوش ہوں۔
ٹورنٹو آبادی کے لحاظ سے کینیڈا کا سب سے بڑا شہر ہے۔انٹاریو صوبے کا یہ دارالحکومت جھیل انٹاریو کے کنارے ایک سرسبز کھیت کی طرح لہلہا رہا ہے۔اس شہر کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اسکے تقریباََ پچاس فی صد باشندے کینیڈا سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ٹورنٹو کو دنیا کے ان چند شہروں میں سرِ فہرست قرار دیا گیا ہے جو رہنے کیلئے بہترین ہیں۔اس امتیاز کی وجہ یہ ہے کہ یہاں جرائم کی شرح کم ہے،ماحول صاف ستھرا ہے، معیارِزندگی بلند ہے اور مختلف رنگوں،نسلوں اور مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ باہم شِیر و شکر ہو کر رہ رہے ہیں۔
ٹورنٹو پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد نمازِجمعہ کا وقت ہو گیا۔میزبان ایک مسجد میں لے گئے۔مولانا جو مملکتِ خداداد سے درآمد کیے گئے تھے استعمار سے کئی سو سال کی غلامی کا بدلہ یوں لے رہے تھے کہ اُن کی زبان کی ایسی تیسی کر رہے تھے۔انگریزی میں خطبہ دیتے وقت وہ گرامر،لغت،لہجہ ہر شے سے اپنے بنیادی اختلاف کا اظہار کر رہے تھے لیکن افاقہ مجھے اُس وقت آیا جب انفاق فی سبیل اللہ کے تمام مطالب،تمام مفاہیم اور تمام تشریحات کا اطلاق حضرت نے اُس چندے پر کیا جو اُنکے مرکز کے حوالے کیا جائیگا !
لیکن یہ افاقہ وقتی تھا۔ مسجد سے باہر آ کر ساری خوشی کافور ہو گئی۔باہر ہر طرف جو کچھ ہو رہا تھا میری طبیعت سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ میزبانوں کے ساتھ ٹورنٹو کی شاہراہوں پر گھومتے جب دو دن ہو گئے تو میرے سر میں درد ہونے لگا۔معزّز مہمان کی ناسازیٔ طبع دیکھ کر میزبان پریشان ہونے لگے۔ ڈاکٹر کے پاس لے جانا چاہا ۔میں نے انکار کر دیا۔سر درد کی گولی کھلانا چاہی ۔میں نہ مانا۔ اس سے پیشتر کہ اُنکے دل ٹوٹ جاتے میں نے اصل سبب کی نشاندہی کی اور پوچھا کہ کیا کینیڈا کے گورنر اور وزیراعظم شہر سے نہیں گزرتے؟کیا یہاں کے فرما ں روائوںنے اپنے لیے شاہراہیں تک الگ بنوا لی ہیں ؟ مجھے بتایا گیا کہ ایسی بات نہیں۔یہ سب وی آئی پی حضرات شہر کی سڑکوں سے گزرتے رہتے ہیں۔تو رُوٹ کیوں نہیں لگائے جا رہے؟ ٹریفک بلاک کیوں نہیں کی جا رہی؟ اسی لیے تو میرے سر میں درد ہو رہا ہے !میزبانوں نے بتایا کہ وزیراعظم اور گورنر نے کہیں آنا جانا ہو تو رُوٹ لگتا ہے نہ ٹریفک روکی جاتی ہے۔شاہراہوں پر سب کچھ معمول کے مطابق ہوتا رہتا ہے۔یاد رہے کہ گورنر یہاں تقریباََ اُسی حیثیت کا مالک ہے جو ہمارے ہاں صدر ِ مملکت کی ہوتی ہے۔وہ ریاست کا آئینی سربراہ ہے اور ملکہ کی نمائیندگی کرتا ہے۔تو کیا یہاں کے لوگ اُن نعمتوں سے محروم ہیں جو ہم پاکستانیوں کو حاصل ہیں ؟ میں نے احساسِ تفاخر سے سوال کیا۔ کیا انکے مریض رُکی ہوئی ٹریفک میں دم نہیں توڑتے؟ کیا گورنر اور وزیراعظم کی سواری کے گزرنے کی وجہ سے ان کی ٹرینیں اور جہاز چھُوٹ نہیں جاتے؟اور کیا انکی حاملہ عورتیں اُس وقت موت کے گھاٹ نہیں اتر جاتیں جب وزیراعظم اور صدر مملکت ۔۔نہیں معاف کیجیے گا۔۔۔۔ گورنر کی سواری نے گزرنا ہوتا ہے اور کیا ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح شاہراہوں سے ہٹا نہیں دیا جاتا ؟جواب نہیں میں تھا ۔ سر کے درد میں اضافہ ہو گیا۔یوں لگتا تھا کوئی گرم گرم شے کنپٹیاں پھاڑ کر باہر نکلنا چاہتی ہے !دوسرے دن ایک شاہراہ سے گزرتے وقت متلی کا دورہ پڑا۔میزبان پھر ڈاکٹر کے پاس لے جانے پراصرار کرنے لگے لیکن میں نے ایک بورڈ کی طرف اشارہ کیا۔ اس پر لکھا تھا ـ۔۔یہ شاہراہ فلاں دن سے لے کر فلاں دن تک مرمّت کی وجہ سے بند رہے گی۔ میں نے بتایا کہ متلی کا واحد علاج یہ ہے کہ اس بورڈ کو ہٹایا جائے۔میں تہذیب کے ان مظاہر کا عادی نہیں ہوں۔آخر عوام کو کیا حق ہے کہ ایسے پروگراموں کے بارے میں انہیں بروقت بتایا جائے ؟
چوتھے دن میں نے بازار جانے سے انکار کر دیا اور بستر پر دراز ہو گیا ۔میزبان پھر پریشان ہو گئے۔کوئی نبض دیکھتا اور کوئی ماتھے پر ہاتھ لگا کر حرارت کا اندازہ لگاتا۔ایک بچے کو دوڑایا گیا کہ بلڈپریشر ماپنے والا آلہ لائے ۔کافی دیر کے بعد جب میرے حواس بحال ہوئے ،سانس دوبارہ روانی سے چلنے لگا اور میں بات کرنے کے قابل ہؤا تو میں نے تقریباََ روہانسا ہو کر بتایا کہ تم لوگوں کے بازار مجھے راس نہیں آ رہے۔کسی دکان پر وہ مشہور و معروف اعلان نہیں نظر آرہا جس کا میں بچپن سے عادی ہوںکہ۔۔خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔۔ کیا یہاں کے دکاندار اس درجہ بداخلاق ہیں کہ گاہکوں کو یہ بتانا تک پسند نہیں کرتے کہ خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔مجھے بتایا گیا کہ اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیوں کہ خریدا ہؤا مال واپس بھی ہو سکتا ہے اور تبدیل بھی ہو سکتا ہے بلکہ دکاندار یہ بھی بتاتے ہیں کہ خریدا ہؤا مال دس دن یا پندرہ دن یا اتنے دن بعد واپس کیا جا سکتا ہے ۔میرے میزبان کا خیال تھا کہ اس قسم کا اعلان کہ خریدا ہؤا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ گاہک کی توہین ہے اور دکاندار کی بد تہذیبی کا ثبوت ہے۔پوری مہذّب دنیا میں صارف کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ بغیر وجہ بتائے مال واپس کردے اور اداکردہ پوری قیمت واپس لے لے۔ایک ہفتہ نہیں گزرا تھا کہ مجھے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ حالت اس قدر خراب تھی کہ بقولِ جان ایلیا حالتِ حال کا گماں تھا۔جب ڈاکٹر نے بتایا کہ سارے ٹیسٹ ٹھیک ہیں اور کوئی ظاہری سبب بیماری کا نظر نہیں آرہا تو مجھے بتانا پڑا کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں ایک ہفتہ ہو گیا کسی منتخب نمائندے کا کوئی کارنامہ پریس میں نہیں نظر آ رہا۔کوئی ایم پی اے کسی پولیس والے کی وردی نہیں پھاڑ رہا۔کسی کے گن مَین شاہراہوں پر دندناتے نہیں نظر آ رہے۔ کوئی چوری کرتے پکڑے جانے پر یہ نہیں کہہ رہا یا کہہ رہی کہ یہ سازش ہے یہاں تک کہ یہ بھی کوئی نہیں کہہ رہا کہ میری بیٹی یا بیٹے کو مقابلے کا امتحان پاس کیے بغیر کسی ولائتی ملک میں ڈپلومیٹ مقرّر کر دیا جائے !میں ٹورنٹو میں ہوں اور ناخوش ہوں۔میری مثا ل تو اُس شہزادے کی ہے جسے بچپن میں شیرنی اغوا کر کے لے گئی تھی اور اُسی نے اُسکی پرورش کی تھی۔جوان ہو کر وہ شہر واپس آیا تو اُسے کچھ بھی اچھا نہیں لگتا تھا۔لباس سے وہ بے نیاز تھا۔گفتگو اُسکی غرّاہٹ پر مشتمل تھی۔گوشت وہ کچّا کھاتا تھا اور شہر اُسے کھاتا تھا۔دشت سے آئے ہیں اور شہر عجب لگتا ہےیہی ہم لوگوں کے رونے کا سبب لگتا ہےرومی نے مثنوی میں حکایت بیان کی ہے کہ ایک خاکروب کا عطرفروشوں کے بازار سے گزر ہؤا تو وہ بے ہوش ہو گیا۔عطر فروش اُسے قیمتی خوشبو ؤں کے لخلخے سُنگھانے لیکن اُس کی حالت خراب تر ہوتی گئی ۔ ایک عقلمند کا گزر ہؤا تو کہنے لگا ۔۔۔بے وقوفو ! اسے گندگی کا وہ ٹوکرا سنگھاؤ جو اس کے سر پر رہتا ہے اور جس کا یہ عادی ہے !
٭٭٭پاکستانی تارکینِ وطن پر جو الزامات لگائے جاتے ہیں ہم نے گزشتہ کالم میں اُن کا دفاع کیا تھا اور کچھ شکوے بھی کیے تھے۔اس کا جواب تارکینِ وطن نے اس طرح دیا ہے کہ شکاگو اور ٹورنٹو سے شائع ہونے والے اردو ہفت روزہ پاکستان ٹائمز… اپنے سات اگست کے اخبار (شمارہ ۱۸۳ ) میں نوائے وقت سے سرقہ کر کے ایک کالم کسی اور نام سے چھاپا ہے۔۲۳جولائی ۹۰۰۲ کے نوائے وقت میں محمد اظہارالحق کا کالم۔۔دستاویز پر دستخط کر دئیے گئے ہیں۔۔شائع ہؤا تھا۔ کینیڈا کی اِس ہفتگی نے یہی کالم کسی شوکت علی کے نام سے چھاپا ہے۔ ان ملکوں کے اردو اخبار کسی اجازت کے بغیر پاکستانی اخبارات سے کالم نقل کرتے رہتے ہیں لیکن یہ غالباََ پہلی دفعہ ہؤا ہے کہ اصل کالم نگار کا نام ہٹا کر دوسرا نام لگا دیا گیا ہے۔ اخبار کی چیف ایڈیٹر ہما ندیم اور سارق شوکت علی کے خلاف کینیڈا کی عدالت میں قانونی چارہ جوئی کی جا رہی ہے لیکن ظفر اقبال کا شعر ایک بار پھر یاد آ گیا ہے…؎
ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
No comments:
Post a Comment