غصہ مجھے بھی بہت آتا ہے جب تارکین وطن اپنے انتہائی آرام دہ اپارٹمنٹوں میں یا بڑے بڑے محلات میں یا جہاز سائز کی کاروں میں بیٹھ کر ملک کیلئے پریشانی کا اظہار کرتے ہیں‘ میرا بھی دل چاہتا ہے انہیں کہوں کہ اتنی ہی تشویش ہے تو چھوڑ کرکیوں آئے؟ میں بھی انہیں طعنہ دینا چاہتا ہوں کہ
آپ کو جانا ہے تو جائیں ایسی کوئی بات نہیں
بیت ہی جائے گی آخر تکلیف کی پہلی رات نہیں
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ غصہ جائز ہو گا‘ اور کیا یہ طعنہ زنی حق بجانب ہوگی؟
نظرآتا ہے جو کچھ اصل میں ایسا نہیں ہے
مگر تم نے میری جاں! مسئلہ سمجھا نہیں ہے
اسی لئے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے دعا مانگی تھی کہ پروردگار! مجھے چیزیں اس طرح دکھا جس طرح اصل میں ہیں‘ اس طرح نہیں جیسے نظر آتی ہیں!
اگر کوئی صرف اس لئے جاتا ہے کہ مچھر پریشان کرتے ہیں‘ سیوریج ٹھیک نہیں ہے‘ بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے تو اس کا جانا نا جائز ہے۔ تکلیف آئے تو مل کر کاٹنی چاہئے۔ بھوک پیاس گرمی سردی سب کیلئے برابر ہو تو کوئی یہ ملک چھوڑ کر نہ جائے لیکن جب لوڈشیڈنگ سے خلق خدا بے حال ہو رہی ہو‘ ساٹھ ساٹھ گھنٹے لوگ بجلی کے بغیر رہیں اور اسی ملک میں ایک اقلیت ایسی بھی ہے جس کیلئے جون جولائی کو دسمبر اور جنوری کی طرح سرد کر دیا جائے‘ جو راہ سے گزریں تو لوگوں کو غلاموں کی طرح روک دیا جائے اور انکے مریض رکی ہوئی ٹریفک میں موت کے گھاٹ اتر جائیں اور ایسے لوگ بھی ہوں جن پر کسی ملکی قانون کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو پھر شکوہ جائز نہیں کہ لوگ ماں دھرتی کو چھوڑکر دساور کیوں سدھار گئے؟کیا ہم نہیں جانتے کہ کئی سائنس دان ڈاکٹر انجینئر اور پروفیسر باہر سے واپس آئے۔ لیکن انہیں اس قدر اذیت پہنچائی گئی کہ دوبارہ واپس جائے بغیر کوئی چارہ نہ رہا۔ اسی کالم نگار کے پاس ملک کی ایک معروف شاعرہ اپنے عزیزوں کو لیکر آئیں جو کینیڈا یا امریکہ میں مستقل مقیم تھے اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں پھل محفوظ کرنے کا کارخانہ لگانا چاہتے تھے۔ بساط بھرکوشش کی لیکن سیکشن افسروں نے اتنا زچ کیا کہ وہ بلبلا اٹھے واپس گئے اور لوٹ کر کبھی نہ آئے‘ بیسیوں نہیں سینکڑوں مثالیں ایسی موجود ہیں‘ رہی یہ بات کہ وہ باہر ہی نہ جاتے تو کیوں نہ باہر جاتے؟ کیا ہمیں نہیں معلوم کہ یہاں ملازمتیں کس طرح ملتی ہیں؟ اور تو اور پبلک سروس کمیشن اور فیڈرل سروسز ٹربیونل جیسے مقدس اداروں میں ممبر کس طرح تعینات کئے جاتے ہیں؟ بیرون ملک تعیناتیاں کیسے کی جاتی ہیں؟ ضیاء الحق نے پھر میاں نوازشریف نے پھر بے نظیر بھٹو نے اور پھر جنرل مشرف نے باہر کی اسامیاں کن ’’ضابطوں‘‘ کیمطابق پر کیں؟ اب اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ملک ظلم سے بھرا رہے‘ کاروبار بھی صرف وہ کریں جو حکمرانوں کے منظور نظر ہیں اور ملازمتیں بھی صرف انہیں ملیں جو رسائی رکھتے ہیں اور لوگ باہر بھی نہ جائیں تو حافظ شیرازی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ
درمیان قعر دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
آپ اگر چاہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی دوسرے ملکوں کے بجائے مادر وطن کی خدمت کریں تو نظام درست کیجئے۔یہاں تو یہ حال ہے کہ ایک صاحب کو فرانس میں سفیر تعینات کیا گیا‘ بجائے اسکے کہ انصاف اور منطق سے معاملے کو دیکھا جاتا‘ ناجائز تعیناتی کی حمایت میں اخبارات کے صفحوں کے صفحے اس لئے سیاہ کر دئیے گئے کہ وہ صاحب ایک مخصوص گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ طرف داریوں‘ دھڑے بندیوں‘ سفارشوں رشوتوں‘ رشتہ داریوں اور دھاندلیوں سے اٹے ہوئے معاشرے میں ہمیشہ یہی ہو گا کہ جسکے پاس بیساکھیاں نہیں ہونگی وہ باہر چلا جائیگا۔ بھوک پیاس جاڑے اور گرمی کی بات نہیں‘ عزت نفس کا معاملہ ہے۔ عزتیں محفوظ نہیں‘ دیانت دار اور ہنر مند کی عزت نفس کچل دی جاتی ہے اور باہر جانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا‘ نائن الیون نہ آتا تو آج اس ملک میں اسمبلیوں کے جاگیردار اور نودولتیے ممبروںکے علاوہ کوئی بھی باقی نہ بچا ہوتا۔ ہو کا عالم ہوتا اور مرزے ڈنڈے بجا رہے ہوتے!
فرانسیسی انگریز ہسپانوی اور لندیزی سب نے برے وقتوں میں ہجرتیں کیں۔ امریکی کون ہیں؟ کینیڈا میں کون لوگ بستے ہیں؟ برازیل میکسیکو اور ارجنٹائن میں آبادیاں کہاں سے آئیں؟ یہ یورپ ہی کے تو لوگ ہیں یہ کہنا درست نہیں کہ کسی اور ملک سے ہجرت نہیں ہوئی‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں سارے مہاجر ہیں‘ یہ درست ہے کہ آسٹریلیا میں پہلے پہل صرف مجرموں کو بھیجا جاتا تھا لیکن یہ پرانی بات ہے گذشتہ ڈیڑھ دو سو سالوں کے درمیان لوگ اپنی مرضی سے وہاں جا کر آباد ہوئے۔ جنوبی امریکہ کے ہسپانوی بولنے والے ملکوں میں لبنان شام اور مصر سے بے شمار عرب ہجرت کر کے گئے۔رہی یہ بات کہ یورپ کے لوگ اپنی نو آبادیوں میں مستقل طور پر کیوں نہیں آباد ہوئے تو مسئلہ نظام کا تھا۔ اگر یہاں بھی امریکہ اور آسٹریلیا جیسا انصاف ہوتا تو گوری چمڑی والے آ کر آباد ہو جاتے۔ دور کیوں جائیں‘ کیا برصغیر میں ایک ہزار سال تک عرب ایران اور وسط ایشیا سے لوگ آ کر آباد نہیں ہوتے رہے؟ ہمایوں کے عہدے سے لیکر نظام حیدرآباد کے زمانے تک ایران سے تانتا بندھا رہا‘ ہزاروں لاکھوں ایرانی خاندان آ کر آباد ہوئے۔ حیدرآباد دکن میں آج بھی ایرانی گلی موجود ہے۔ ولیم ڈال رمپل جس کی پڑدادی برصغیر سے تعلق رکھتی تھی
۔میں لکھتا ہے کہ سلطان ٹیپوجب WHITE MUGHALS
آخری جنگ لڑ رہا تھا تو انگریز حملہ آوروں کی مدد کیلئے
نظام حیدرآباد نے جو فوج بھیجی ‘ اس کی کمانڈ ایک ایرانی کر رہا تھا! ہمارے پڑوسی ملک بھارت سے کروڑوں افراد ہجرت کر کے مغربی ملکوں میں گئے۔ کون نہیں جانتا کہ یورپ اور امریکہ میں بھارتی تارکین وطن کا پلڑا پاکستانی تارکین وطن سے بھاری ہے۔ آج بھارت کی معیشت بہتر ہوئی ہے۔ ادارے زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں تو بھارتی واپس آ رہے ہیں اور
Reverse Brain-Drain
شروع ہو گیا ہے۔!
تارکین وطن سے یہ شکوہ بے جا ہے کہ وہ ملک چھوڑ کر کیوں گئے۔ ان سے شکوے اور ہیں جن میں دو بہت اہم ہیں۔ ایک یہ کہ مانا جب ساٹھ ستر کی دہائیوں میں یہ لوگ گئے اس وقت خود ان پڑھ تھے۔لیکن افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی اگلی نسلوں کو بھی زیور تعلیم سے آراستہ نہیں کیا۔ بالخصوص وہ پاکستانی جو ہسپانیہ برطانیہ اور ناروے میں رہ رہے ہیں۔
آج بریڈ فورڈ اور مانچسٹر میں برطانوی شہریت اختیار کرنیوالے پاکستانیوں کی اولادیں ٹھیلے لگاتی ہیں اور کھوکھوں پر بیٹھتی ہیں جہالت کا یہ عالم ہے کہ تعویز فروشوں اور جادو ٹونے کرنے والوں نے ٹی وی کے کئی چینل صرف ان پاکستانیوں کی وجہ سے کھولے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف بھارتی جو ان پاکستانیوں کے ساتھ ہی گئے تھے۔‘ کہیں سے کہیں جا پہنچے ہیں۔ انکے بیٹے اور بیٹیاں آج صحافت وکالت تعلیم اور کئی شعبوں میں اعلیٰ ترین مقامات پر فائز ہیں دوسرا شکوہ تارکین وطن سے یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کے ان سیاستدانوں کی ہمیشہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی جو سیاسی پارٹیوں میں جمہوری عمل کا راستہ روکے ہوئے ہیں۔ کینیڈا‘ امریکہ اور یورپی ملکوں میں بسنے والے پاکستانی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان ملکوں میں ترقی کی اصل وجہ وہاں کا حقیقی جمہوری نظام ہے۔ بجائے اسکے کہ یہ لوگ اپنے سیاستدان مہمانوں سے دو ٹوک مطالبہ کرتے کہ سیاسی جماعتوں میں جمہوری عمل پروان چڑھایا جائے‘ انہوں نے نا اہل اور بدعنوان سیاستدانوں کے راستوں پر سرخ قالین بچھائے‘ آج جو تارکین وطن پیپلزپارٹی ‘ نون لیگ‘ قاف لیگ‘ اے این پی اور دوسری سیاسی جماعتوں کے اپنے اپنے ملک میں عہدیدار ہیں‘ انہیں اس امر کا احساس تک نہیں کہ وہ شخصی پارٹیوں کو مضبوط کر رہے ہیں۔اس بات پر حیرت بھی ہوتی ہے کہ امریکہ کینڈا اور برطانیہ جیسے ملکوں میں سالہا سال زندگی گزارنے کے باوجود یہ تارکین وطن اس سیاستدانوں کی بلائیں لیتے ہیں جو وراثت کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں یا اندھی دولت ان کی واحد اہلیت ہے اور وہ اپنی پارٹیوں میں الیکشن کرانے کا سوچ بھی نہیں سکتے! شاید ظفر اقبال نے تارکین وطن بھائیوں ہی کیلئے کہا ہے …؎ظفر میں شہر میں آ تو گیا ہوں
مری خصلت بیابانی رہے گی
No comments:
Post a Comment