’’"پاکستان اُس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک اس پر سے فیوڈل ازم (جاگیرداری) کی گرفت ختم نہ ہو۔ قائداعظم کی رحلت اورلیاقت علی خان کے افسوس ناک قتل کے بعد ملک کی سیاسی حالت خراب سے خراب تر ہوتی گئی۔ ان حادثات کے بعد پاکستان اُن امیر کبیر (FILTHY-RICH) اور بدعنوان جاگیرداروں کا صحن بن کر رہ گیا… جو سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں کا تارا رہے ہیں۔‘‘
آپ کا کیاخیال ہے یہ کس نے کہا ہے؟
آیئے! جنوب مغرب سے شروع کرتے ہیں۔ کیا یہ جمہوری وطن پارٹی کی آواز ہے؟ کیا شاہ زین بگٹی یا طلال بگٹی نے ایساکہا ہوگا؟ نہیں۔ کوئی بلوچ سردار اپنے پائوں پر کلہاڑی نہیں مارسکتا۔ کچھ عرصہ قبل طلال بگٹی لاہور آئے تھے۔ انہوں نے میاںنوازشریف سے ملاقات بھی کی تھی۔ اکبر بگٹی کے قتل کا مقدمہ ضرور چلنا چاہئے اور انصاف ہونا چاہئے لیکن افسوس! طلال بگٹی کے اس بیان پر کسی نے توجہ نہیں دی جو انہوں نے پنجاب کے دارالحکومت سے جاری کیا اور جس کا لبِ لباب یہ تھا کہ سردا ری نظام کا کوئی نعم البدل نہیں!
جنوب مغرب سے ہم سندھ میں داخل ہوتے ہیں۔ کیا یہ بات پاکستان پیپلز پارٹی کے کسی بطلِ جلیل نے کہی ہے؟ آپکا کیاخیال ہے جناب مخدوم امین فہیم، جناب سید یوسف رضا گیلانی، جناب شاہ محمود قریشی یا خود جناب آصف زرداری فیوڈل ازم کیخلاف بیان دے سکتے ہیں؟ یہ تو خود جدی پشتی زمیندار ہیں اور صدر زرداری کو چھوڑ کر…سب حضرات جاگیرداری کے صدقے ہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور جاگیرداری کے راستے ہی سے انکی آئندہ نسلیں بھی حکمرانی کرسکتی ہیں۔ تو پھر کیا پیپلز پارٹی کے وہ رہنما جو فیوڈل نہیں ہیں، کیا ان میں سے کسی نے یہ کہا ہوگا؟ جناب جہانگیر بدر، جناب راجہ پرویز اشرف، جناب بابر اعوان یا ہمارے بہت ہی محترم لکھاری دوست جناب فرحت اللہ بابر…؟ نہیں۔ ان میں سے کوئی ایسا نہیں جو جاگیرداری کو للکارسکے۔ انکے زندگی بھر کے بیانات، تحریریں دیکھ لیجئے…ایں خیال است و محال است و جنوں
پیپلز پارٹی کے حوالے سے ہم پہلے ہی پنجاب میں داخل ہو چکے ہیں کیونکہ یہ ایک ملک گیر جماعت ہے۔ قاف لیگ آٹھ سال تک اقتدار کے گھوڑے کی زین اور لگام رہی۔ آپکا کیا خیال ہے یہ جھرجھری قاف لیگ کے کسی شہزادے نے لی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب حامد ناصر چٹھہ یا جناب ہمایوں اختر یا جناب سلیم سیف اللہ یا خود جناب چوہدری شجاعت حسین نے جاگیرداری کے خلاف اتنی بڑی بات کردی ہو؟ آپ خود سوچیں کیا ایسا ہوسکتا ہے؟ کیا قاف لیگ کے کسی رہنما نے گزشتہ آٹھ برس میں کوئی ایسی بات…کوئی ایسالفظ…یا کوئی ایسا حرف ہی کہا ہے جو اس معاشرے میں کسی بنیادی تبدیلی کے حوالے سے قابل ذکر ہو؟ اونٹ سوئی کے سوراخ سے گزر سکتا ہے‘ بال ہتھیلی پر اُگ سکتے ہیں‘ بلی انڈے دے سکتی ہے‘ سورج قیامت سے پہلے مغرب سے نکل سکتا ہے‘ ایورسٹ کی چوٹی سمندر میں ڈوب سکتی ہے‘ اوقیانوس اور بحرالکاہل سُوکھ سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ قاف لیگ سے وابستہ کوئی دانش ور کوئی کھرب پتی، کوئی جوڑ توڑ کا ماہر، کوئی ڈرائنگ روم سیاست کا بازی گر، فیوڈل ازم…یا نظام تعلیم یا سماجی ڈھانچے کے بارے میں گہرائی والی بات کرسکے!
تو پھر ہوسکتا ہے نون لیگ کے کسی صاحبِ قضا و قدر نے یہ بات کی ہو؟ لیکن کیا جنوبی پنجاب کے طاقت ور کھوسے نون لیگ میں کسی کو ایسی بات کرنے دینگے؟ کبھی نہیں!ہاں! نون لیگ کے جناب شہباز شریف سے ایسی باغیانہ بات کی توقع ضرور کی جاسکتی ہے لیکن وہ ذہنی طور پر پنجاب سے بالعموم اور لاہور سے بالخصوص باہر نہیں نکل سکتے۔ویسے بھی مسلم لیگ قاف ہو یا نون…سین ہو یا شین… فنکشنل ہو یا نان فنکشنل۔ اس بڑی مسلم لیگ کی پسلی سے نکلی ہے جس نے یونینسٹ پارٹی کو سالم و ثابت…مسلم لیگ میں داخل کرلیا تھا…وہ یونینسٹ پارٹی جو جاگیرداروں کا کچھار تھی! تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ مسلم لیگ یا اسکا کوئی رہنما فیوڈل ازم کیخلاف کچھ کہے…
؎سُموں تلے روند دے خوشی سے مگر یہ سُن لے
گناہ اے شہسوار! میں نے نہیں کیا تھا
یہ بیان الطاف حسین کا ہے! الطاف حسین پاکستان کے واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے کھربوں روپے کے قرضے ہڑپ کر جانیوالے مکروہ مگرمچھوں کو پکڑنے کی بات کی ہے اور چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ وہ ازخود کارروائی کریں
۔یہ بے بضاعت کالم نگار بعض اوقات سوچتا ہے کہ قدرت کے کام نرالے ہیں۔ کچھ انسان لازوال عظمت کے بالکل قریب سے گزر جاتے ہیں۔ چپ چاپ‘ بے خبر۔حالانکہ وہ آسانی سے لازوال عظمت کو چھُو سکتے تھے۔اسے لیکر اپنے سینے پر آویزاں کرسکتے تھے! شورش کاشمیری نے ہفت روزہ ’’چٹان‘‘ کا اجرا کیا تھا تو کسی نے کہا تھا کہ چٹانوں کو پاش پاش کرنیوالا شورش چٹان کا سہارا لیکر بیٹھ گیا۔ جناب الطاف حسین سندھ کے چند بڑے شہروں کے لسانی دائرے میں اپنے آپکو مقید نہ کرتے اور فیوڈل ازم کیخلاف ایک ٹھوس پروگرام لیکر نکل پڑتے تو وہ آج گلگت سے لے کر کراچی تک سب سے بڑے لیڈر ہوتے۔ خدا کی قسم! اس ملک کانجات دہندہ وہ ہوگا جو حقیقی معنوں میں زرعی اصلاحات نافذ کریگا۔آج سندھ ،پنجاب ،سرحد، بلوچستان، آزاد کشمیر اور شمالی علاقوں کی مجبور اور بے بس مڈل کلاس کسی ایسے شخص کا شدت سے انتظار کر رہی ہے جو اُسے جمالیوں، جاموں، لغاریوں، مزاریوں جتوئیوں، مخدوموں، کھوسوں، ٹوانوں‘ ملکوں ‘ سیف اُلّوں، قیوموں، عتیقوں، چوہدریوں، گیلانیوں، قریشیوں اور گلے میں پڑے ہوئے کئی دوسرے پھندوں سے نجات دلا سکے۔ جو احمدی نژاد کی طرح چھوٹے گھر میں رہے، جو پرانی کار میں سفر کرے اور جو مزارعوں اور مریدوں کی بیساکھیوں کے بغیر چل سکے!
یہ کہنا کہ متحدہ قومی موومنٹ ملک گیر جماعت ہے ایک سیاسی بیان تو ہوسکتا ہے لیکن حقیقت کے طور پر اسے تسلیم نہیں کیا جاسکتا! دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے… بہت بڑی حقیقت… کہ الطاف حسین واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے آج کے منظر نامے پر کھڑے ہو کر جاگیردارانہ نظام کو للکارا ہے! شاید ہی کوئی باشعور پاکستانی ایسا ہو جس کا دل اس للکار پر زور سے دھڑکا نہ ہو… جس نے یہ نہ کہا ہو کہ… ہاں! اسی میں پاکستان کی بقا ہے!!
بھارت نے آزادی کے بعد جو اولین اقدامات کئے ان میں ریاستوں اور جاگیروں کا خاتمہ تھا۔ اس کا نتیجہ دیکھئے! آج بھارتی پنجاب جو پاکستانی پنجاب سے کئی گنا چھوٹا ہے پورے بھارت کیلئے گندم پیدا کر رہا ہے اور پاکستانی بزرجمہروں پر اُس وقت بھی گھڑوں تو کیا ایک پیالہ پانی نہ پڑا جب ایک بھارتی مہمان ہنسی مزاج میں انہیں یہ کہہ کر طعنہ دے گیا کہ صرف فیصل آباد کا ضلع ہمارے حوالے کردو، ہم اسی سے پورے پاکستان کو گندم مہیا کریں گے!آج بھارت کی اسمبلیوں میں وراثت کی بنیاد پر کوئی رکن نہیں آسکتا۔یہ اعزاز جدید دنیا میں صرف مملکت خداداد کو حاصل ہے کہ دادا کے بعد بیٹا، پھر پوتا، پھر پڑپوتا اسی نشست پر’’منتخب‘‘ ہوتے چلے آرہے ہیں! زمین کی ملکیت کا ڈھانچہ ایک بار تبدیل ہو جائے تو ساری قدریں بدل جاتی ہیں۔ عبدالکلام بھارت کا صدربنا اور جب ایوان صدر سے رخصت ہوا تو وہی دو اٹیچی کیس لیکر گیا جو لایاتھا! وزیراعظم من موہن سنگھ کے گھر میں فیکس مشین نہیں ہے اور انکی بیٹی اپنی پڑھائی کے نوٹس بازار سے فیکس کراتی ہے!!
الطاف حسین نے فیوڈل ازم کو للکارا ہے۔ مرحبا… لیکن سوال یہ ہے کہ اس خونخوار بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟؟
1 comment:
janaab zara ALTAF HUSSAIN KI HISTORY MALOOM KAR LEIN 1984-------2009 JULY TAKK PHIRR KUCH LIKHTTE ISS KHONI DARENDE KEE BARRE MEIN
Post a Comment