آخر بادشاہی اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟
ہندوستان کے بادشاہ کو ابن بطوطہ پسند آ گیا تو اُسے اپنے ملک کی عدلیہ سونپ دی۔ کوئی چُوں بھی نہ کر سکا۔ حالانکہ اُس وقت ہندوستان میں جس پائے کے فقہا موجود تھے‘ پوری اسلامی دنیا میں اُن کے برابر کا کوئی نہیں تھا۔ پھر ابن بطوطہ مالکی تھا اور یہاں کے مسلمان احناف تھے۔ لیکن بادشاہی بادشاہی تھی۔ خود ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں لکھتا ہے کہ وہ ملتان سے دہلی جا رہا تھا کہ راستے میں اس نے ایک زندہ آدمی کی کھال اترتے دیکھی۔ بادشاہ کا حکم تھا۔ وہ بتاتا ہے کہ زمین میں چھوٹا سا گڑھا کھود کر ’’مجرم‘‘ کو اُوندھا لٹایا جاتا تھا اور منہ گڑھے پر رکھا جاتا تھا تاکہ سانس لے سکے۔ ’’مجرم‘‘ جس کی زندہ کھال اتاری جا رہی تھی‘ بار بار جلّاد کی منت کرتا تھا کہ تلوار سے ایک بار ہی میرا خاتمہ کر دو لیکن جلّاد جواب دیتا تھا کہ میں نے تمہاری کھال نہ اتاری تو میری اپنی کھال اتاری جائے گی۔
آخر بادشاہت اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟ سوال یہ نہیں ہے کہ ڈی ایم جی کا وہ افسر جسے فرانس میں سفیر مقرر کیا جا رہا ہے‘ لائق ہے یا نہیں۔ یہ صاحب ضرور لائق ہوں گے۔ دیانتدار بھی ہوں گے‘ نابغہ بھی ہو سکتے ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس ملک میں ہمیشہ بادشاہت رہے گی یا ادارے بھی مضبوط ہو سکیں گے؟ افسوس! ہمارے جو کالم نگار دوست (میں ان سب کا دل سے احترام کرتا ہوں) ہمیشہ یہ رونا روتے رہے کہ فردِ واحد کا حکم چلتا ہے اور یہ کہ ادارے تباہ و برباد ہو گئے‘ اِس تقرری کی حمایت میں طرح طرح کے دلائل دے رہے ہیں‘ اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ اُن کی کارکردگی بطور ’’افسرِ تجارت‘‘ (کمرشل قونصلر) کامیاب رہی اس لئے انہیں سفیر مقرر کیا جانا درست ہے تو پھر اس اصول کی رُو سے کسی ڈیفنس اٹیچی یا کسی پریس قونصلر کو بھی اچھی کارکردگی کی بنیاد پر سفیر لگنے کا حق حاصل ہو گا! جب آپ کوئی فیصلہ کرتے ہیں یا کسی فیصلے کی تائید یا تردید کرتے ہیں تو اِس کے نتیجہ میں کچھ اصول وضع ہوتے ہیں۔ تہذیب اور دانش کا تقاضا ہے کہ یہ اصول سب پر منطبق کئے جائیں!
مولانا مودودی نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’سنت کی آئینی حیثیت‘‘ میں ایک فقرہ کمال کا لکھا ہے (کیا آج کی جماعت اسلامی نے اس کتاب کا نام سنا ہے؟) انکارِ حدیث کے ضمن میں وہ لکھتے ہیں کہ اِس فتنے کا آغاز فلاں زمانے میں ہوا‘ پھر فلاں صاحب نے اس میں حصہ ڈالا اور پھر فلاں صاحب نے۔ اور پھر ہمارے زمانے میں غلام احمد پرویز نے اِس کام کو ذلالت کی انتہا پر پہنچا دیا۔ (کالم نگار کو ان کی تحریر حرف بہ حرف یاد نہیں)۔ آج جب ہم اداروں کی شکست و ریخت‘ اداروں کی تذلیل و تضحیک اور اداروں کی ذلت و رسوائی دیکھتے ہیں تو یہ فقرہ یاد آتا ہے۔ اداروں کی تذلیل و تضحیک کا کام ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں شروع ہوا اور پھر فوجی آمر جنرل ضیاء الحق نے اِسے ذلالت کی انتہا تک پہنچا دیا۔ جو شخص پسند آیا‘ اُسے پلاٹ دیدیا‘ جو اُردن میں تقرری کے دوران قریب سے بھی گزرا تھا‘ اُسے آسمان کی رفعتوں تک پہنچایا۔ ہر رمضان کی ستائیسویں کو غریبوں کے ٹیکس سے نچوڑے ہوئے خزانے کو باپ کا ورثہ سمجھ کر جہاز بھرے اور سعودی عرب پہنچا دئیے۔ وزارت ثقافت کے ایک سابق افسر بتاتے ہیں کہ انہیں رات کو حکم ملا کہ فلاں بھارتی گانے والی کو پاکستان آنے کا اجازت نامہ (NOC) جاری کیا جائے جبکہ وہ گانے والی ایوانِ صدر میں پہنچ بھی چکی تھی۔ ایک صاحب مسلسل نو برس تک سعودی عرب تعینات رہے۔ کوئی قاعدہ کوئی قانون کوئی ضابطہ کوئی آئین… کچھ بھی نہیں… ادارے ذلیل و خوار ہو گئے‘ آمریت اور ایسی آمریت کہ چنگیزی سے بھی کئی ہاتھ آگے‘ اور آج اُس کے نتیجے میں ملک خون تھوک رہا ہے۔ ہم کہیں کے نہ رہے۔ جو افسر آج انگریزی اور اردو پریس میں وعظ نما مضامین جھاڑ رہے ہیں‘ یہ اُس وقت وزارت داخلہ اور دوسری اہم جگہوں پر یس سر‘ یس سر کے وظیفے پڑھ رہے تھے۔ تحریکِ پاکستان کے دوران انگریزی حکومت کے وفادار مولویوں کے بارے میں ایک گیت عام ہوا تھا‘ وہ یاد آ رہا ہے۔
اُچّے اُچّے وعظ کریندا
اےمُلّا سرکاری اے
ڈی ایم جی کے جن صاحب کو فرانس میں سفیر مقرر کیا گیا ہے‘ وہ پہلے وہاں پانچ سال کمرشل قونصلر رہ چکے ہیں۔ کیا کسی نے پوچھا ہے کہ جب ایک باقاعدہ سروس‘ ’’کامرس اینڈ ٹریڈ‘‘ نام سے موجود ہے جو وزارتِ تجارت کا حصہ ہے تو ڈی ایم جی کے افسر کیوں کمرشل قونصلر لگائے جاتے ہیں؟ اس لئے کہ ادارے ذلیل و رسوا ہو کر رہ گئے ہیں‘ ذرا اعداد و شمار معلوم کیجئے کہ پچھلے چالیس پچاس برسوں میں ڈی ایم جی کے کتنے افسر کمرشل قونصلر‘ اٹیچی اور منسٹر رہے ہیں اور راولپنڈی اسلام آباد کے کتنے ڈپٹی کمشنر باہر تعینات کئے گئے‘ اس لئے کہ جو ڈپٹی کمشنر دن میں دو بار ائرپورٹ پر صدر‘ وزیراعظم‘ صوبائی گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کا استقبال کرے گا‘ وہ سب سے زیادہ لائق اور سب سے بڑھ کر اہل ہو گا!یہ بھی کہا گیا کہ صدر پاکستان جب فرانس گئے تو کسی نے انہیں وہاں اِس تقرری کی درخواست کی‘ کیا مہذب ملکوں کے صدر پاکستان آتے ہیں تو اپنی حکومت چلانے کے مشورے یہاں سے لے کر جاتے ہیں؟ غالباً امریکی صدر جانسن تھا جسے پشاور میں کسی قبائلی خان نے اپنے بیٹے کو تحصیلدار لگوانے کی درخواست کی تھی۔ اور پھر وہ تحصیلدار لگایا گیا!
؎بسی نادیدنی را دیدہ ام من
مرا ای کاشکی مادر نہ زادی
اس متنازعہ اور شور انگیز تقرری کے حق میں ایک دلیل شدومد سے یہ بھی دی جا رہی ہے کہ جب آغا شاہی‘ سیاستدان اور جرنیل فارن سروس میں آئے تو یہ لوگ کیوں خاموش رہے؟ یہ دلیل آدھی تو لاعلمی پر مشتمل ہے۔ انڈین سول سروس کے ارکان باقاعدہ عدلیہ اور فارن سروس میں ضم کئے گئے تھے۔ جیسے ایم آر کیانی اور آغا شاہی‘ رہے سیاست دان اور فوجی افسر‘ تو کیا ایک غلط روایت کی بنیاد پر آپ مزید غلط روایات قائم کرنا چاہتے ہیں؟ فوجی افسر تو خود اداروں کی تذلیل کا شکار ہوئے۔ رہی یہ بات کہ فارن سروس کے ارکان نے غلطیاں کیں یا بدعنوانیوں کے مرتکب ہوئے‘ تو یقیناً یہ بات درست ہو گی لیکن کیا اس سے یہ اصول وضع کر لینا چاہئے کہ یہ ادارہ ہی شکست و ریخت کا حقدار ہے؟ اس کالم نگار کا کوئی عزیز فارن سروس میں نہیں‘ لیکن معاف کیجئے گا‘ پتھر وہ مارے جس نے خود گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو۔ اس حمام میں سب ننگے ہیں‘ قدرت اللہ شہاب کی باقاعدہ دست بستہ تصویر اخبارات میں چھپی کہ ’’میں اس طرح ایوب خان کے سامنے کھڑا ہوتا تھا‘‘۔ الطاف گوہر آمریت کے معمار رہے۔ ایک اور صاحب نے بھٹو کی مخبری کی اور جنرل ضیا سے وہ انعامات پائے کہ بلند ترین چوٹیوں پر پہنچے۔ ’’پولیٹیکل ایجنٹ‘‘ کی پوسٹیں ہاتھ سے نکلیں تو ’’ٹرائبل ایریا گروپ‘‘ جو الگ سروس تھی‘ ڈی ایم جی میں شامل کر لیا گیا۔ اگر سفیر بھی ڈی ایم جی کے افسروں نے لگنا ہے‘ وفاقی محتسب بھی انہوں نے چلانا ہے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کو بھی انہوں نے ناکام کرنا ہے تو اداروں کے ڈھکوسلوں کی کیا ضرورت ہے؟ ساری سروسز ختم کر دیجئے۔ کسٹم‘ انکم ٹیکس‘ پولیس‘ آڈٹ اکائونٹس‘ فارن سروس‘ سب کچھ ان کے سپرد کر دیجئے۔ کابینہ میں بھی ان کے ارکان بٹھا دیجئے۔ آج ملک جس گرداب میں پھنسا ہے اس کا ذمہ دار کبھی مسلح افواج کو ٹھہرایا جاتا ہے اور کبھی سیاستدانوں کو لیکن اصل مجرم ابھی تک بچا ہوا ہے۔ فوج برسرِ اقتدار تھی یا اہلِ سیاست۔ ایک گروہ ایسا بھی تھا جو اپنا اُلّو سیدھا کرنے کے لئے دونوں کو گمراہ کرتا رہا۔ ایوب خان اور ضیاء الحق کے دستِ راست کون تھے؟ اور وہ گروہ کون سا تھا جو اپنی تقاریب میں جنرل مشرف کو بلا کر رقص و سرود کی راتوں کو صبح کی روشنیوں تک کھینچتا رہا۔ سرکاری خرچ پر بنگلہ دیش سے مغنیہ بلائی جاتی رہی۔ عبداللہ یوسف تو رقص کر کے مفت میں قربانی کا بکرا بنا‘ محفلیں سجانے والے کون تھے؟جناب والا! اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ کیا فارن سروس اور کیا ڈی ایم جی۔ پوتڑے سرِ بازار دُھلیں گے تو تعفن سے ناک پر رومال رکھنا پڑے گا۔ یہ قصہ رہنے ہی دیں۔ خدا کے لئے اس ملک کے اداروں کو زندہ رہنے دیں۔ یہ ادارے پہلے ہی آخری دموں پر ہیں‘ فارن سروس کو اپنا کام کرنے دیں‘ ڈی ایم جی کو اپنے دائرۂ کار کے اندر لیاقت دکھانے کا موقع دیں۔ پولیس اور مسلح افواج کو سیاسی یا نادر شاہی مداخلت کے بغیر اپنے پیشہ ورانہ فرائض سرانجام دینے دیں‘ عربی کا محاورہ ہے لِکلِّ فنٍرجال’‘ ہر شعبے کے لئے تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں۔ جس کا کام اُسی کو ساجھے۔ اداروں کو آزادی سے کام کرنے دیجئے۔ خدا کے لئے اداروں کو مزید تذلیل و تضحیک اور شکست و ریخت سے بچائیے‘؟ آخر بادشاہی اور جمہوریت میں کیا فرق ہوتا ہے؟
No comments:
Post a Comment