افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں!
وہ اکیلا ہے، نہتا ہے۔ اُس کے چاروں جانب اُس کے دشمن ہیں۔ وہ گھِر چکا ہے۔ اُس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں نظر آرہا…ہاں! معجزوں کا انکار کفر ہے! معجزہ رونما ہوسکتا ہے! رونما نہیں بھی ہوسکتا!
مکروہ اتحاد عمل میں آچکا ہے۔ دستاویز پر دستخط کردیئے گئے ہیں۔ دستخط کرنے والوں نے اُٹھ کر ہاتھ بھی ملا لئے۔ وہ جو موجود تھے انہوں نے تالیاں بھی بجا لیں۔ فوٹو کھینچنے والوں نے بجلیوں کی طرح چہروں پر روشنیاں گرائیں۔ کلک کلک کی آوازیں آئیں۔ تقریب ختم بھی ہو چکی، آہ! دستاویز پر دستخط کردیئے گئے۔ سب فریقوں نے معاہدہ کرلیا۔ افسوس! اُس کے خلاف سب اکٹھے ہو چکے۔ اُس کی زندگی خطرے میں ہے۔کوئی ہے جو اُسے بچائے؟ اُسے آواز دے؟ اُسے خبردار کرے؟
افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں۔ اُس کا بیٹا جس سکول میں پڑھ رہا ہے، اتحاد کی دستاویز پر دستخط کرنے والوں نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ اس سکول کے فارغ التحصیل طلبہ کو کبھی بڑے عہدے پر نہیں لگایا جائے گا۔ وہ جس آبادی میں رہتا ہے، اتحاد کرنے والوں نے طے کرلیا ہے کہ یہ آبادی کبھی ترقی نہیں کرے گی۔ اس کی سڑکیں ٹوٹی رہیں گی، اس کی گلیاں نیم پختہ اور راتوں کو اندھیروں میں ڈوبی رہیں گی، اس آبادی میں کبھی کوئی ایسا شخص نہیں آئے گا جو اس کی حالت بدلنے پر قادر ہو۔
اُسے سب سے زیادہ امید مذہبی رہنمائوں سے تھی، لیکن انہوں نے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں، اُن کے لہجے میں رعونت اور مزاج میں فرعونیت آچکی ہے۔ وہ پولیس کے پہروں میں سفر کرتے ہیں، وہ ملنے جائے تو وہ اُس کی رسائی سے کوسوں دور ہیں، مذہبی رہنما فروخت ہو چکے۔ اُن کی توندوں نے اُن کے ایمان کو ہڑپ کرلیا۔
اُسے صحافیوں سے امید تھی۔ شائع ہونے والے اور ٹیلی ویژن پر آنے والے صحافیوں، ٹاک شو کے میزبانوں اور تجزیے پیش کرنے والے بزرجمہروں سے اُسے خیرخواہی کی توقع تھی، لیکن ٹاک شو کے میزبانوں نے اُس کے دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا۔ یہ میزبان نہ اُس کے مطابق ہیں نہ سچائی کے مطابق ہیں! یہ تو اپنے مطابق ہیں اور مطابق ہی مطابق ہیں۔ یہ میزبان… یہ تجزیے پیش کرنے والے مشینی روبوٹ اُن سیاست دانوں کو بُلاتے ہیں جو ہار چکے ہیں۔ جو غداریوں کے مرتکب ہوئے۔ جو نفرتوں کا شکار ہیں۔ جن کے چہرے مکروہ ہیں اور جن کی باتیں فریب اور جھُوٹ سے بھری ہوئی ہیں۔ آہ! ٹیلی ویژن کے میزبانوں نے بھی دستاویز پر دستخط کرکے مکروہ اتحاد میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ اُس کے خلاف متحد ہونے والوں میں وہ میڈیا ماہرین بھی شامل ہوگئے ہیں جو پردۂ سیمیں پر عبداللہ بن ابی بن کر ابھرتے ہیں اور حسن بن صباح کا کردار ادا کرتے ہیں۔
اُسے اُن سیاست دانوں سے امید تھی جو حزبِ اختلاف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن افسوس! حزبِ اختلاف کا سُرخ پَر اپنی قیمتی ٹوپی پر لگانے والے سیاست دان دستاویز پر دستخط کرکے اُس کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ سی این جی پچاس روپے کلو ہوگئی، اُس کی موٹر چلنا بند ہوگئی، اُس کی محدود آمدنی میں سبزی اور دال کاآنا ناممکن ہوگیا۔ اُس کا گھر اندھیرے میں ڈوب گیا۔ بجلی کا بِل اُس کی کمر توڑنے لگ گیا…اُس کا سانس لینا دوبھر ہوگیا لیکن حزبِ اختلاف نے چُوں تک نہ کی۔ کسی نے اُس کی حمایت میں ایک لفظ نہ کہا اور کیوں کہیں؟ کیا یہ حزبِ اختلاف وہی نہیں ہے جسے حکومت سے کوئی اختلاف نہیں؟ جس کا طرزِ زندگی اُن سے مختلف نہیں جو سرکاری محلّات میں رہتے ہیں۔ حزبِ اختلاف کے رہنمائوں کے محلّات تو سرکاری محلات سے بھی کئی گُنا بڑے ہیں۔ یہ حزبِ اختلاف کے ارکان لندن دبئی پیرس اور نیویارک اِس طرح جاتے ہیں جیسے گلبرگ سے مال روڈ… جیسے کلفٹن سے صدر…جیسے حیات آباد سے قصہّ خوانی بازار یہ وہ حزبِ اختلاف ہے جسے اُس کے کسی مسئلہ سے کوئی غرض نہیں
!اُسے سابق جرنیلوں سے امیدیں تھی کہ اُس نے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کاٹ کر ٹیکس دے کر اُن کی سابق اور موجودہ زندگیوں کو آرام دہ بنایا لیکن سابق جرنیلوں نے تو اُسے منہ تک نہیں لگایا، ان میں سے کچھ نے اُسے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو ’’جہاد‘‘ میں بھیجے۔ جب اُس نے جواب میں اُن کے اپنے بچوں کے بارے میں پوچھا تو جواب ملا کہ وہ تو کاروبار کریں گے اور کچھ سابق جرنیلوں کا معیارِ زندگی ایسا ہے کہ بین الاقوامی صحافیوں نے اُسے لاطینی امریکہ کے آمروں کی ہر آسائش اور طلسمی زندگیوں سے تشبیہ دی! بین الاقوامی جریدوں نے انہیں ملک کے دولت مند ترین لوگوں میں نمایاں قراردیا۔ لیکن یہ ملک جو مجرموں کی جنت بن چکا ہے، یہاں کسی کی مجال نہیں کہ انہیں پوچھے۔ یہاں جو جتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے، اتنی ہی عزت کا مستحق ٹھہرتا ہے! جو جتنا بڑا ڈاکہ ڈالتا ہے، اتنے ہی بڑے ہار اُس کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔ یہاں جس کے جسم سے بدبُو کے بھبکے اُٹھتے ہیں اُس پر بیش بہا خوشبو چھڑکی جاتی ہے!
افسوس! اُس کے خلاف سب متحد ہوگئے ہیں۔ دستاویز پر دستخط ہو چکے ہیں۔ ہاتھ ملائے جا چکے ہیں۔ کیمروں کی کلک کلک سنائی دی جا چکی ہے۔ شکنجہ کسا جارہا ہے! ابھی تو اُس کا گھرہی اندھیرے میں ڈوبا ہے! ابھی تو اُس کے بیٹے کو بے روزگار رکھنے ہی کا منصوبہ بنا ہے، ابھی تو اُس کا چولہا ہی ٹھندا کیا گیا ہے۔ لیکن یہ تو آغاز ہے! ابھی تو اُس کے جسم سے کپڑے نوچے جائیں گے! ابھی تو اُس کی بیوی کی باہوں سے چوڑیاں اتاری جائیں گی! ابھی تو وہ پانی کی ایک ایک بوند کو ترسے گا۔ ابھی تو اُسے آکسیجن کے لالے پڑیں گے! ابھی تو اُسے اُس قبر پر بھی ٹیکس ادا کرنا ہوگا جس میں دفن ہونے کیلئے وہ بے تاب ہے!
وہ کون ہے؟
وہ سیاہ بخت کون ہے جس کے خلاف مذہبی رہنما، سیاست دان، سابق خاکی اور سول بیوروکریٹ۔ سب متحد ہو چکے ہیں۔ جس کے دشمنوں کو ٹی وی پر بُلا کر معزز ثابت کیا جارہا ہے۔
. وہ عام آدمی ہے!
No comments:
Post a Comment