لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کو میں اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ کرنل تھے۔ دیندار تو وہ ہمیشہ سے تھے۔ بریگیڈیئر بننے کے بعد انہوں نے وضع قطع بھی متشرع کر لی۔ پھر وہ میجر جنرل بنے‘ شعبۂ چشم پوشی کے سربراہ تو وہ ہسپتال میں تھے ہی‘ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بن کر تینوں مسلح افواج کے شعبہ ہائے طب کے سربراہ بنے اور سرجن جنرل کہلائے۔ میرے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جس اخبار میں میرا کالم شائع ہوتا وہ ضرور لگواتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ آپ اخبار کیوں بدل لیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ اخبار ہی بدلتا ہوں نا‘ دوست تو وہی رہتے ہیں۔ یہ فقرہ انہیں اس قدر پسند آیا کہ جب بھی ملتے ضرور دہراتے۔ شاید ہی انہیں کسی نے غصے میں دیکھا ہو۔ مریضوں کے ہجوم اور سرکاری ذمہ داریوں کے دبائو میں بھی مسکرا کر ہی بات کرتے۔ اگر وہ وردی میں نہ ہوتے تو ایک اجنبی کو بالکل عالم دین دکھائی دیتے۔ علما کرام سے‘ طلبہ سے‘ اساتذہ سے اور بے شمار دوسرے لوگوں سے فیس نہیں لیتے تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی شہادت کے دو تین دن بعد جمعہ تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ہمارے محلے کی مسجد کے مولانا نماز کے بعد جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کیلئے دعا کرائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ چند دن پیشتر فوج کے نوجوانوں کے جو سوات کے شدت پسندوں کی قید میں تھے‘ سر قلم کئے گئے ہیں۔ سوات کے شدت پسند ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے انتہا پسندانہ خیالات اور اقدامات اُس مکتبِ فکر کے کھاتے میں جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُس مکتبِ فکر کے علماء کرام کا اس سارے قضیے میں کیا کردار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام … بالخصوص وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اور مذہب کا علم رکھتے ہیں۔ اُس مکتبِ فکر کے علما کرام کی طرف دیکھ رہے ہیں جس مکتبِ فکر کا دعویٰ طالبان کے روپ میں سوات کے شدت پسند کر رہے ہیں۔ ان معزز اور موقر علما کرام کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہو جائیں اور ذہن میں صرف ایک بات رکھیں کہ یہ لوگ جیسے بھی ہیں‘ جو کچھ بھی ہیں اور جو کچھ بھی کر رہے ہیں ہمارے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ہرحال میں ان کی حمایت کریں گے اور ان کے نظریات کو اپنے مکتبِ فکر کے نظریات کا درجہ دیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس مکتبِ فکر کے علما کرام فرقہ وارانہ اور گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر انکے طرز عمل کا جائزہ لیں اور پھر جہاں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ افراط و تفریط کا شکار ہو رہے ہیں‘ نشان دہی کریں۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جو ان علماء کرام کے سر پر وقت نے آن ڈالی ہے۔ آج عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس مکتبِ فکر کے علما کرام کے وہی نظریات ہیں جو مقامی طالبان کے ہیں یا معاملہ مختلف ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک گھر سے باہر جانیوالی خواتین کا قتل جائز ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک سکول نذر آتش کر دینے کا عمل اسلام سے مطابقت رکھتا ہے؟ یہ جو پشاور کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ پتلون پہننا چھوڑ دیں ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جائیں‘ کیا یہ اس مکتبِ فکر کے علما کا مطالبہ ہے؟ اس مکتبِ فکر کے علما کرام میں مولانا جسٹس تقی عثمانی صاحب کی علمی خدمات اُنکے مقام کو نمایاں کرتی ہیں۔ لال مسجد کے بحران کے دوران جید علما کرام میں سے وہ واحد عالم دین تھے جنہوں نے برملا کہا تھا کہ فلاں صاحب عالم دین نہیں ہیں۔ اسلامی بینکاری کے ضمن میں انہوں نے قابل ذکر فکری خدمات سرانجام دی ہیں اور اُن ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی دستگیری کی ہے جو مغربی ممالک میں سود سے بچنے کیلئے گھر تک نہیں خرید سکتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اُنکے اپنے مکتبِ فکر کے علما ہی نے انکی مخالفت بھی کی۔ روایت یہ ہے کہ ایک مجلس میں جب جسٹس تقی عثمانی نے مخالفت کرنیوالے ان علما کرام سے کہا کہ اگر اسلامی بینکاری کے بارے میں میرا موقف غلط ہے تو اس سلسلے میں آپ کوئی نعم البدل تجویز کیجئے تو جواب میں معترضین کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ سنجیدہ حلقے جسٹس صاحب سے بجا طور پر یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اس نازک وقت میں اپنا موقف واضح طور پر بیان کرینگے اور دیگر علماء کرام کو بھی قائل کرینگے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب سے بلند تر ہو کر سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہیں اور ان سوالات کے واضح جوابات سے عوام کے ذہنوں کو مطمئن کریں۔ آج اگر اس مکتبِ فکر کے علما کرام بوجوہ خاموش رہتے ہیں اور اپنے واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے تو کل جب یہ لوگ ساری دنیا میں اس مکتبِ فکر کی علامت بنیں گے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کر سکیں گے۔ انہیں اعتراض کرنے بھی کوئی نہیں دیگا۔ انکے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے ہرگز اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی مکتبِ فکر کے علما کو ان کا جائز مقام دینگے۔ مولانا صوفی محمد ان علما کرام پر اپنے خوفناک اعتراضات کر چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے معروف اینکر پرسن نے کچھ ہفتے پہلے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ سوات میں تبلیغی جماعت کے ارکان کو ان لوگوں نے ’’بہنوں‘‘ کا خطاب دیا کیونکہ بندوقیں نہ پکڑنے والے مرد اُنکے نزدیک بھائی نہیں‘ بہنیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قال اللہ اور قال الرسول پڑھنے اور پڑھانے والے معزز او جید علما کرام کو … جو بندوقوں کے بجائے‘ پوری پوری عمر قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ یہ لوگ بہنوں کا درجہ دیں گے یا بھائیوں کا یا انہیں بزرگ سمجھیں گے لیکن اس سے پہلے کہ حد سے زیادہ تاخیر ہو جائے‘ علماء کرام عوام کی رہنمائی فرمائیں اور اپنے واضح موقف کا اعلان کریں۔
Friday, May 22, 2009
علماء کرام دو راہے پر
لیفٹیننٹ جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کو میں اُس وقت سے جانتا تھا جب وہ کرنل تھے۔ دیندار تو وہ ہمیشہ سے تھے۔ بریگیڈیئر بننے کے بعد انہوں نے وضع قطع بھی متشرع کر لی۔ پھر وہ میجر جنرل بنے‘ شعبۂ چشم پوشی کے سربراہ تو وہ ہسپتال میں تھے ہی‘ آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ لیفٹیننٹ جنرل بن کر تینوں مسلح افواج کے شعبہ ہائے طب کے سربراہ بنے اور سرجن جنرل کہلائے۔ میرے ساتھ ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جس اخبار میں میرا کالم شائع ہوتا وہ ضرور لگواتے۔ ایک دفعہ کہنے لگے کہ آپ اخبار کیوں بدل لیتے ہیں۔ میں نے جواب دیا کہ اخبار ہی بدلتا ہوں نا‘ دوست تو وہی رہتے ہیں۔ یہ فقرہ انہیں اس قدر پسند آیا کہ جب بھی ملتے ضرور دہراتے۔ شاید ہی انہیں کسی نے غصے میں دیکھا ہو۔ مریضوں کے ہجوم اور سرکاری ذمہ داریوں کے دبائو میں بھی مسکرا کر ہی بات کرتے۔ اگر وہ وردی میں نہ ہوتے تو ایک اجنبی کو بالکل عالم دین دکھائی دیتے۔ علما کرام سے‘ طلبہ سے‘ اساتذہ سے اور بے شمار دوسرے لوگوں سے فیس نہیں لیتے تھے۔ خودکش دھماکے میں ان کی شہادت کے دو تین دن بعد جمعہ تھا۔ توقع کی جا رہی تھی کہ ہمارے محلے کی مسجد کے مولانا نماز کے بعد جنرل ڈاکٹر مشتاق بیگ کیلئے دعا کرائیں گے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ چند دن پیشتر فوج کے نوجوانوں کے جو سوات کے شدت پسندوں کی قید میں تھے‘ سر قلم کئے گئے ہیں۔ سوات کے شدت پسند ایک خاص مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے انتہا پسندانہ خیالات اور اقدامات اُس مکتبِ فکر کے کھاتے میں جا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُس مکتبِ فکر کے علماء کرام کا اس سارے قضیے میں کیا کردار ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ آج عوام … بالخصوص وہ لوگ جو تعلیم یافتہ ہیں اور مذہب کا علم رکھتے ہیں۔ اُس مکتبِ فکر کے علما کرام کی طرف دیکھ رہے ہیں جس مکتبِ فکر کا دعویٰ طالبان کے روپ میں سوات کے شدت پسند کر رہے ہیں۔ ان معزز اور موقر علما کرام کے سامنے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ یہ ہے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب کا شکار ہو جائیں اور ذہن میں صرف ایک بات رکھیں کہ یہ لوگ جیسے بھی ہیں‘ جو کچھ بھی ہیں اور جو کچھ بھی کر رہے ہیں ہمارے مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر ہرحال میں ان کی حمایت کریں گے اور ان کے نظریات کو اپنے مکتبِ فکر کے نظریات کا درجہ دیں گے۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس مکتبِ فکر کے علما کرام فرقہ وارانہ اور گروہی تعصب سے بالاتر ہو کر انکے طرز عمل کا جائزہ لیں اور پھر جہاں جہاں وہ سمجھتے ہیں کہ افراط و تفریط کا شکار ہو رہے ہیں‘ نشان دہی کریں۔ یہ ایک بھاری ذمہ داری ہے جو ان علماء کرام کے سر پر وقت نے آن ڈالی ہے۔ آج عوام جاننا چاہتے ہیں کہ کیا اس مکتبِ فکر کے علما کرام کے وہی نظریات ہیں جو مقامی طالبان کے ہیں یا معاملہ مختلف ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک گھر سے باہر جانیوالی خواتین کا قتل جائز ہے؟ کیا اس مکتبِ فکر کے نزدیک سکول نذر آتش کر دینے کا عمل اسلام سے مطابقت رکھتا ہے؟ یہ جو پشاور کے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ پتلون پہننا چھوڑ دیں ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جائیں‘ کیا یہ اس مکتبِ فکر کے علما کا مطالبہ ہے؟ اس مکتبِ فکر کے علما کرام میں مولانا جسٹس تقی عثمانی صاحب کی علمی خدمات اُنکے مقام کو نمایاں کرتی ہیں۔ لال مسجد کے بحران کے دوران جید علما کرام میں سے وہ واحد عالم دین تھے جنہوں نے برملا کہا تھا کہ فلاں صاحب عالم دین نہیں ہیں۔ اسلامی بینکاری کے ضمن میں انہوں نے قابل ذکر فکری خدمات سرانجام دی ہیں اور اُن ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کی دستگیری کی ہے جو مغربی ممالک میں سود سے بچنے کیلئے گھر تک نہیں خرید سکتے تھے۔ یہ الگ بات کہ اُنکے اپنے مکتبِ فکر کے علما ہی نے انکی مخالفت بھی کی۔ روایت یہ ہے کہ ایک مجلس میں جب جسٹس تقی عثمانی نے مخالفت کرنیوالے ان علما کرام سے کہا کہ اگر اسلامی بینکاری کے بارے میں میرا موقف غلط ہے تو اس سلسلے میں آپ کوئی نعم البدل تجویز کیجئے تو جواب میں معترضین کے پاس خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ سنجیدہ حلقے جسٹس صاحب سے بجا طور پر یہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ اس نازک وقت میں اپنا موقف واضح طور پر بیان کرینگے اور دیگر علماء کرام کو بھی قائل کرینگے کہ وہ فرقہ وارانہ تعصب سے بلند تر ہو کر سفید کو سفید اور سیاہ کو سیاہ کہیں اور ان سوالات کے واضح جوابات سے عوام کے ذہنوں کو مطمئن کریں۔ آج اگر اس مکتبِ فکر کے علما کرام بوجوہ خاموش رہتے ہیں اور اپنے واضح موقف کا اظہار نہیں کرتے تو کل جب یہ لوگ ساری دنیا میں اس مکتبِ فکر کی علامت بنیں گے تو وہ اس پر اعتراض نہیں کر سکیں گے۔ انہیں اعتراض کرنے بھی کوئی نہیں دیگا۔ انکے طرزِ فکر اور طرزِ عمل سے ہرگز اس بات کی توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اپنے ہی مکتبِ فکر کے علما کو ان کا جائز مقام دینگے۔ مولانا صوفی محمد ان علما کرام پر اپنے خوفناک اعتراضات کر چکے ہیں۔ ٹیلی ویژن کے معروف اینکر پرسن نے کچھ ہفتے پہلے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ سوات میں تبلیغی جماعت کے ارکان کو ان لوگوں نے ’’بہنوں‘‘ کا خطاب دیا کیونکہ بندوقیں نہ پکڑنے والے مرد اُنکے نزدیک بھائی نہیں‘ بہنیں ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ قال اللہ اور قال الرسول پڑھنے اور پڑھانے والے معزز او جید علما کرام کو … جو بندوقوں کے بجائے‘ پوری پوری عمر قرآن و حدیث کی تعلیم دیتے رہے ہیں۔ یہ لوگ بہنوں کا درجہ دیں گے یا بھائیوں کا یا انہیں بزرگ سمجھیں گے لیکن اس سے پہلے کہ حد سے زیادہ تاخیر ہو جائے‘ علماء کرام عوام کی رہنمائی فرمائیں اور اپنے واضح موقف کا اعلان کریں۔
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment