اللہ کے بندو! اب تو اس لاش پر رحم کرو!
یہ ملک اس لاش کی طرح ہو چکا ہے جسے ہر طرف سے کھایا جا رہا ہے! کوئی سر کی طرف سے بھنبھوڑ رہا ہے' کوئی پیروں کو کھانے کی کوشش کر رہا ہے' کوئی بدبخت پسلیوں کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے اور کوئی اس کی آنکھوں میں چھری کی نوک مارے جا رہا ہے اور دعویٰ سب کا یہ ہے کہ وہ علاج کر رہے ہیں۔
اللہ کے بندو! اب تو عام آدمی کو انصاف دو! اب تو سرداروں' چودھریوں' وزیروں اور میروں کو عوام کی گردن سے اتارو! یہی تو تمہارا طرز حکومت ہے جس سے لوگ تنگ آ کر طالبان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لو! قانون کو سب کیلئے برابر کرو… ورنہ جو ہو گا وہ تمہارے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔
وزیر دو رہائشی مکانوں پر قابض ہو جاتا ہے' غیر قانونی حکم نہ ماننے پر ماتحتوں کو سزاؤں پر سزائیں دیتا ہے' یہ سب کچھ اخبار میں شائع ہوتا ہے' اس اخبار میں جو سرکاری محلات میں پڑھا جاتا ہے' لیکن کسی کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی۔ آخر وزیراعظم ایسا کیوں نہیں کر سکتے کہ کسی وزیر کی ذرا سی غیر قانونی حرکت کا بھی نوٹس لیں اور عوام کو باور کرائیں کہ وہ ''اشرافیہ'' کے نمائندے نہیں' قانون کے محافظ ہیں۔ بیسیوں ریٹائرڈ سرکاری ملازموں میں سے کسی ایک کو وہ کس بنیاد پر الگ کر کے ٹھاٹھ والی شاندار نوکری دے دیتے ہیں؟ کیا ان کیلئے سب برابر نہیں؟ اگر ایسا وہ کسی کی سفارش پر یا کسی کی درخواست پر کرتے ہیں تو انہوں نے خود ہی تو کتاب لکھی ہے۔ آ رہی ہے چاہِ یوسف سے صدا … تو وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ع
دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت!
سیدزادے کو حشر کے دن جواب تو خود دینا ہو گا۔
پلاسٹک کے وزیراعظم جناب شوکت عزیز بھی تو یہی کرتے تھے۔ ایک وزیر کے صاحبزادے نے کراچی ائرپورٹ پر شریف شہری کو مار مار کر لہولہان کر دیا' پلاسٹک کے وزیراعظم کیلئے یہ خبر… کوئی بات ہی نہیں تھی۔ الٹی گنگا یوں بہائی کہ جس خاتون افسر نے وزیر کا غلط حکم ماننے سے انکار کیا' اس خاتون افسر پر فرد جرم عائد کر دی۔ عباس تابش نے خوب کہا ہے…؎
اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
اللہ کے آخری رسولؐ کی عزیز از جان دختر نیک اختر کے شوہر' امیرالمومنین علی ابن طالبؓ کے اس فرمان پر اشرافیہ کے ارکان کیوں نہیں ایمان لا رہے کہ ''کفر کی حکومت باقی رہ سکتی ہے' ظلم کی نہیں۔'' اللہ کے بندو! ظلم کرنا بند کرو۔ کلرک' پٹواری' سکول ٹیچر' نائب قاصد' ویگن ڈرائیور اور کھوکھے والے کو سزا دیتے ہیں لیکن وزیر اور امرا اور عمائدین اور رؤسا اور زمیندار اور محلات تک رسائی رکھنے والے دولت مندوں کو قانون پامال کرنے پر کچھ نہیں کہتے۔ خدا کیلئے ہوش کے ناخن لو۔ قانون کو سب کیلئے برابر کرو… ورنہ جو ہو گا وہ تمہارے تصور میں بھی نہیں آ سکتا۔
بیسیوں گواہ اس واقعہ کے راولپنڈی شہر میں موجود ہیں۔ چکوال سے بچہ اغوا ہوتا ہے۔ اغوا کرنیوالے منگل باغ کے علاقے میں پائے جاتے ہیں' بچے کے متعلقین منگل باغ کے ڈیرے پر جا کر فریاد کرتے ہیں۔ وہ مجرموں کو پکڑتا ہے اور ایک پائی… ایک کھوٹا سکہ لئے بغیر بچہ والدین کو واپس کرواتا ہے' کیا اس واقعہ میں نشانیاں موجود نہیں؟ کیا دیوار پر لکھا ہوا پڑھا نہیں جا رہا؟ تم اشرافیہ کے ارکان ' خدا کی قسم … اس جُوں کی مثال ہو جس کی بھوک مٹتی ہی نہیں تھی۔ جُوں اور مرغ دوست تھے اور سفر پر نکلے تھے۔ دونوں کے پاس سات سات روٹیاں تھیں' جُوں نے ایک ایک کر کے اپنی ساتوں روٹیاں کھا لیں' پھر مرغ کی کھا گئی' پھر بھی بھوک ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی۔ اس نے اپنے ہم سفر مرغ کی پہلے ایک ٹانگ' پھر دوسری اور پھر سارا مرغ کھا گئی' بھوک سے جُوں کا برا حال تھا' اسے بھیڑ نظر آئی' اس نے بھیڑ کو بتایا کہ وہ اسے کھانا چاہتی ہے' بھیڑ نے حیرت کا اظہار کیا کہ اپنے آپ کو دیکھو اور میرا حجم دیکھو' لیکن جُوں نے کہا کہ
''سات روٹیاں اپنی کھا چکی ہوں
سات مرغ کی کھا چکی ہوں
اس مرغ کو جو اذان دیتا تھا' چٹ کر چکی ہوں' تو تمہیں کیسے چھوڑ دوں؟''
وہ بھیڑ کو کھا جاتی ہے' پھر اسے بکری نظر آتی ہے۔ یہ سارا مکالمہ بکری سے دہراتی ہے اور اسے بھی چٹ کر جاتی ہے۔ اسی طرح گائے بھینس' گھوڑا اور اونٹ ملتے ہیں اور ایک ایک کر کے سب کو ہڑپ کر جاتی ہے' اب اسے پیاس ستاتی ہے وہ دریا کو دھمکی دیتی ہے کہ میں تمہارا سارا پانی پی کر تمہیں خشک کر دوں گی۔ دریا ہنستا ہے اور اسے آئینے میں اپنی شکل دیکھنے کا مشورہ دیتا ہے لیکن جُوں اسے بتاتی ہے کہ میں نے سات اپنی اور سات مرغ کی روٹیاں کھائیں' اذان دینے والا مرغ ہڑپ کیا' بھیڑ' بکری' گائے' بھینس' ہنہناتا گھوڑا اور بلبلاتا اونٹ سب کو کھا چکی ہوں' تم کیا چیز ہو' وہ دریا کا پانی ایک سانس میں چڑھا جاتی ہے' اس کا پیٹ پھول کر کرۂ ارض جتنا ہو جاتا ہے' وہ آرام کرنے درخت کے نیچے لیٹتی ہے' اوپر سے خاردار پتہ گرتا ہے اور کانٹا چبھنے سے زوردار پٹاخہ چلتا ہے اور جُوں کا پیٹ پھٹ جاتا ہے۔
باسٹھ سالوں میں سب کچھ کھا لیا گیا' ہڑپ کر لیا گیا' چٹ کر لیا گیا' زرعی اصلاحات ہوئیں نہ موروثی گدیاں ختم ہوئیں' دادا کی جگہ منتخب اداروں میں پوتا براجمان ہے! سلطنتیں قائم ہیں' جاگیروں کا طول عرض ہی نہیں معلوم۔ یہ واحد ملک ہے جسکے سیاستدان … حکومتی ہوں یا غیر حکومتی … نجی دوروں پر یورپ اور امریکہ اس طرح جاتے ہیں کہ پوری دنیا میں اس کی مثال نہیں۔ ٹیکس کوئی نہیں دیتا' کھرب پتیوں کے گوشوارے دیکھو' غربت دیکھ کر آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں' نوکریوں ملازمتوں پر میرٹ اور اہلیت کی بات مجذوب کی بڑ لگتی ہے' خلق خدا نے ہاتھ میں کانٹا لے لیا ہے اور جُوں کے پھولے ہوئے پیٹ میں چبھونے کیلئے تیار ہے۔
اللہ کے بندو! اس سے پہلے کہ پٹاخا چلے اور تمہارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں' ضابطے اور ترتیب کو جاری کرو' دھاندلیوں والے احکام واپس لو' ظلم کرنیوالوں کو قانون کیمطابق سزا دو اور سزا دیتے وقت اسکا سماجی مرتبہ نہ دیکھو۔ یہ درست ہے کہ طالبان کا فہم اسلام ناقص ہے' یہ بھی درست ہے کہ وہ علاقائی تمدن کو اسلام کا نام دیتے ہیں' لیکن انصاف کیلئے ترستے عوام کو ان باریکیوں سے کوئی غرض نہیں' فقہ کی باریکیاں دھری کی دھری رہ جائیں گی' اس سے پہلے کہ پٹاخہ چلے اور تمہارے کانوں کے پردے پھٹ جائیں' اللہ کے بندو! مادر پدر آزاد اشرافیہ کو ' قانون کے گلے پر پاؤں رکھنے والی اشرافیہ کو قانون کے دائرے کے اندر لے آؤ! خلق خدا نے ہاتھ میں نوکیلا کانٹا لے لیا ہے۔
Thursday, May 07, 2009
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment