استعمار اور آمریت دو جڑواں بہنیں تو نہیں' لیکن چھوٹی بڑی سگی بہنیں ضرور ہیں۔ اگر آپ غور سے دیکھیں تو آپکو برصغیر کی اور پاکستان کی تاریخ میں دلچسپ مماثلتیں نظر آئیں گی۔ آپ کو جنرل ایوب خان کی شخصیت میں لارڈ کلائیو کے کردار کی جھلکیاں دکھائی دیں گی۔ وہی فریب کاری وہی منہ میں ہڈی ڈال کر کام نکلوانا۔ جنرل ضیاء کو آپ ویلزلے کی بریکٹ میں ڈال سکتے ہیں۔ 1800ء سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریزوں کے دلوں میں مقامی لوگوں کے خلاف نفرت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہ ہندوستانی عورتوں سے شادیاں کرتے' مقامی لباس پہنتے اور گھل مل کر رہتے۔ ایسے انگریزوں کیلئے مشہور مصنف ولیم ڈال رمپل نے وائٹ مغل کی اصطلاح نکالی ہے لیکن 1800ء میں ویلزلے آیا تو اس نے انگریزوں پر واضح کیا کہ یہ محکوم ہیں اور تم حاکم ہو۔ اسکے بعد انگریز اور ہندوستانی کبھی دوست نہ بن سکے۔ ضیاء الحق نے ایک طرف تو واضح کیا کہ پاکستانی فوج اور پاکستانی سویلین سمیت حاکم اور محکوم رہیں گے' دوسرا کام اس نے استعمار کے تتبع میں یہ کیا کہ اقتدار کو طول دینے کیلئے مذہب کو بے تحاشا استعمال کیا اور اس بری طرح استعمال کیا کہ پاکستانی مارشل لا کے ساتھ ساتھ مذہب سے بھی بدظن ہو گئے۔ اس کارخیر میں ایک مذہبی (سیاسی) جماعت کے علاوہ ان ''اسلام پسند'' صحافیوں نے بھی ضیاء الحق کا پورا پورا ساتھ دیا جنہوں نے برآمدات کے ٹھیکے لئے اور کٹھ پتلی قسم کے ادارے قائم کرنے کیلئے سرکار سے زمینیں لیں اور پھر یہ سلسلہ انہوں نے شوکت عزیز کے زمانے تک جاری رکھا۔
رہے جنرل مشرف … تو آپ انہیں ماؤنٹ بیٹن سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔
یہ دو سگی بہنیں … استعمار اور آمریت … اپنی یادگاریں ضرور چھوڑ جاتی ہیں۔ ایچی سن کالج اور مسلم لیگ کے لباس میں یونیسٹ پارٹی … یہ استعمار کی یادگاریں ہی تو ہیں۔ پاکستان کی پولیس انگریزی عہد کی سب سے بڑی یادگار ہے' بعض اوقات تو دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ پولیس کے ہر سپاہی اور ہر افسر کے سینے پر جلیانوالہ باغ کا نشان آویزاں ہونا چاہئے۔ وکیلوں کی تحریک کے دوران ماشاء اللہ پاکستانی پولیس نے جلیانوالہ باغ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ استعمار کی طرح آمریت بھی باقیات چھوڑ جاتی ہے۔ گذشتہ ہفتے دارالحکومت کے ایک ثقافتی ادارے میں ثریا ملتانیکر اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی کہ ایک سابق سیکرٹری اطلاعات تشریف لے آئے۔ انہیں دیکھ کر حاضرین کو مشرف کی آٹھ سالہ آمریت یاد آ گئی۔ موصوف' تقریباً پورے آٹھ سال اطلاعات کے تخت پر آمر کا دیا ہوا تاج پہنے متمکن رہے۔ اب بھی آمریت کی خدمت کی فضا ان کے ارد گرد پھیلی ہوئی تھی۔ کیا پاکستان ان لوگوں کیلئے بنا تھا؟ خدمت آمر کی اور مراعات ٹیکس دہندگان کی خون پسینے کی کمائی سے' اور کیا کبھی ان مراعات کا حساب بھی ہو گا؟ یا اہل پاکستان نے سب کچھ آخرت پر چھوڑا ہوا ہے؟
پاکستان کی تاریخ کا نصف سے زیادہ عرصہ فوجی آمروں کے منحوس پنجے میں نہ گزرتا تو آج ہمارے پاس ایسے سیاستدان نہ ہوتے جو ایف اے کا امتحان دینے یا نہ دینے کے سکینڈلوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ اندازہ لگایئے! مملکت خداداد پاکستان کی بدبختی کا کہ قومی اسمبلی کا ممبر بارہویں جماعت کا امتحان دے رہا ہے اور پرچہ' کمرۂ امتحان میں اسکی جگہ کوئی اور دیتا ہے اور پکڑا جاتا ہے۔ پکڑنے والا کہتا ہے کہ اسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ نون لیگ نے جو کمیٹی بنائی ہے' اس نے ابھی اپنی رپورٹ دینی ہے۔ اسمبلی کے ممبر کا کہنا ہے کہ یہ اس کیخلاف سازش ہے۔ اصل حقیقت کا کسی کو علم نہیں۔ ہم یہاں بطور خاص اس واقعہ کا ذکر نہیں کر رہے اور صرف نون لیگ کے اس رکن اسمبلی کو کیوں مطعون کیا جائے؟ کیا باقی سیاستدان فرشتے ہیں۔ ہم تو ان سطور میں رونا ہی یہی رو رہے ہیں کہ آمریت اور مسلسل آمریت نے ہمارے اہل سیاست کی تربیت ہی نہ ہونے دی۔ وگرنہ مسلسل انتخابات ہوتے اور ہوتے رہتے تو ووٹ مانگنے والوں کی اور ووٹ دینے والوں کی بھی مسلسل تربیت ہوتی رہتی۔ ایک سیاسی عمل جاری رہتا اور دو نمبر سیاستدان صفحۂ سیاست سے مٹ جاتے۔
سیاسی عمل میں بار بار تعطل آنے کا پوری قوم کو تو نقصان پہنچا ہی ہے' سب سے زیادہ نقصان خود سیاستدانوں کو ہوا ہے۔ کیا اس سے بڑا نقصان اہل سیاست کو ہو سکتا ے کہ آج اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانی بالخصوص اور متوسط طبقہ بالعموم سیاستدانوں سے نفرت کرتا ہے اور شدید نفرت کرتا ہے۔ متوسط طبقہ میں اور اعلیٰ تعلیم یافتہ پاکستانیوں میں آخر کون لوگ شامل ہیں؟ ان میں پروفیسر ہیں اور ڈاکٹر' چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں اور سول سروس کے ارکان' سنجیدہ طالب علم ہیں اور بنکاری کے ماہرین' اصول پسند صحافی ہیں اور پیشہ ورانہ امور میں محنت کرنیوالے فوجی افسر… یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیوں میں سخت محنت کی ہے اور طویل دورانیے کے بعد ایک بلند مقام پر پہنچے ہیں۔ آپکا کیا خیال ہے کہ تیس سال رات دن محنت کرنیوالا چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ' ڈاکٹر' بنکار' فوجی یا سول افسر… اس سیاستدان کی عزت کرے گا جو ہر بہار اور ہر خزاں میں پارٹی تبدیل کرتا ہے' جو ٹیلیویژن پر آ کر کمال دیدہ دلیری سے آمریت کا دفاع کرتا ہے' جو قانون کو پامال کرتا ہے' جو فوجی جرنیل کو دس بار ''منتخب'' کرانے کا اعلان کرتا ہے' جو ٹیکس چوری کرتا ہے جو مجرموں اور مفروروں کو پناہ دیتا ہے جو اس پنچایت یا جرگے کی صدارت کرتا ہے جو ونی' کاروکاری یا سوارہ کا حکم دیتا ہے' جو عورتوں کو زندہ دفن کرنے کے گھناؤنے جرم کا دفاع کرتا ہے' جو بڑے سے بڑے جرم پر مٹی ڈالنے کا مشورہ دیتا ہے! اور جو مذہب کے نام پر' ہر حکومت کا ساتھ دیکر مراعات کیلئے چار خانے والا رومال کندھے سے اتار کر زمین پر بچھاتا ہے اور بھکاری ہونے کے باوجود تاویل کا بادشاہ بن جاتا ہے۔
جس دن اس ملک میں سروے کرنیوالے اداروں نے اس بات کا سروے کیا کہ عوام اور خاص کر پڑھے لکھے پاکستانی کن لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں تو اس میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں کہ سیاستدان ان میں سرفہرست ہوں گے۔ ان میں اکثریت تو ان سیاستدانوں کی ہے جو تعلیم یافتہ نہیں' ذہنی طور پر ڈیروں کی سطح سے کبھی اوپر نہیں اٹھے اور ''مقرر'' اور ''حاضر جواب'' بننے کیلئے مسخرے بن کر رہ گئے ہیں' لیکن المیہ یہ ہے کہ کچھ ایسے سیاست دان بھی نفرت کی علامت بن گئے ہیں جو خود متوسط طبقے سے آئے تھے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ اس گروپ میں جناب مشاہد حسین سید کی شمولیت ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ شاہ صاحب اپنی محنت اور ذہانت سے مشہور ہوئے۔ نوجوانی میں انگریزی اخبار مسلم کے ایڈیٹر ہوئے' کالم ایسے لکھتے کہ ہم جیسے طالب علم ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتے۔ ان کی بیگم کا تعلق سجاد حیدر یلدرم اور قرۃ العین حیدر کے خاندان سے ہے۔ یہ خاندان پوری اردو دنیا میں عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ انکے سسر جناب جری احمد سید' سول سروس سے تھے اور راولپنڈی چھاؤنی میں کنٹرولر ملٹری اکاؤنٹس تھے لیکن جنرل مشرف کے نو سال مشاہد حسین سید نے جس طرح قاف لیگ میں گزارے' اس سے تعلیم یافتہ پاکستانیوں کے دل میں ان کا وہ مقام نہ رہا جو پہلے تھا۔ ہو سکتا ہے انکے پاس انکی اپنی VERSION ہو' اور یقیناً ہو گی' انکو اپنے سیاستدان بھائیوں اور پارٹیوں کے قائدین سے جائز شکایات بھی ہونگی لیکن اس سب کچھ کے باوجود … اس بات کا کوئی جواز نہیں تھا کہ مشاہد حسین سید جیسا ذہین اہل قلم … ان لوگوں کا نفس ناطقہ بن کر رہ جاتا جن کے پاس علم تھا نہ ذہانت اور جن کی واحد اہلیت ان کی بے پناہ دولت تھی۔
تو پھر ناخواندہ اور نیم خواندہ سیاستدانوں سے کیا شکوہ؟ لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں کبھی محمد علی جناح' لیاقت علی خان' مولوی تمیزالدین اور حسین شہید سہروردی جیسے سیاستدان میسر آئیں گے؟ اور کیا ہمیں ڈان کے الطاف حسین اور نوائے وقت کے حمید نظامی جیسے صحافی ملیں گے؟ یہ کہیں گے کہ ''میں سیاہ کو سفید کہنے سے انکار کرتا ہوں'' اس دن ہمارے اہل سیاست بھی مٹی کے بجائے سونا ہو جائیں گے۔ آخر میں الطاف حسین بھی حکومت کو پیارے ہو گئے۔
Tuesday, May 05, 2009
سیاہ کو سفید کہنے سے انکار
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
1 comment:
A Great Column
Post a Comment