Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, August 29, 2024

سارہ خان سے لے کر موٹر وے ٹول پلازا تک

ُ

کروڑوں افراد میں سے ایک آواز اُٹھی! صرف ایک آواز!
یہ تنہا آواز معروف ٹی وی ڈرامہ ایکٹریس سارہ خان کی ہے۔ کراچی میں جو باپ بیٹی گاڑی کے نیچے کچل دیے گئے ہیں‘ اس حوالے سے سارہ خان نے کہا ہے کہ جو صنعتی ایمپائر ملزمہ کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے! بنیادی حقوق کے نام پر بڑی بڑی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں‘ مگر اس جرأت مند پکار کا کریڈٹ ایک اداکارہ کی قسمت میں لکھا تھا:
کامل اس فرقۂ زُہاد سے اٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
مہذب معاشروں میں پُرامن احتجاج روزمرہ کا معمول ہے۔ بائیکاٹ اسی پُرامن احتجاج کا حصہ ہے۔ جب مروجہ نظام مایوس کر دے تو امن اور قانون کے دائرے میں رہ کر احتجاج کیا جاتا ہے۔ جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے اس کے خلاف یورپ اور امریکہ میں لوگ احتجاج ہی تو کر رہے ہیں۔ ہمارے احتجاج کے برعکس وہاں کے احتجاج میں املاک جلائی جاتی ہیں نہ بسیں! راہ گیروں کے لیے راستے اور گاڑیوں کے لیے ٹریفک بھی بند نہیں کی جاتی!
احتجاج تو ہمارے ہاں بھی ہوتے ہیں۔ دھرنے بھی دیے جاتے ہیں‘ مگر ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ان احتجاجی جلوسوں‘ جلسوں اور دھرنوں کی پشت پر مذہبی تنظیمیں یا سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ یا کچھ اور قوتیں! عوام سے یعنی سول سوسائٹی سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ عوام میں اتنا شعور ہے نہ ہمت کہ خود احتجاج کریں! شاید دو تین سال پہلے کی بات ہے۔ رمضان میں کچھ باہمت افراد نے مہم چلائی کہ پھلوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ نہیں معلوم یہ بائیکاٹ کس درجے کا ہوا۔ (ہم نے اور ہمارے گھر والوں نے بہرحال بائیکاٹ کیا تھا) ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر شہر میں صارفین کی انجمن ہو۔ جیسے ہی کسی آئٹم کی قیمت نامعقول حد تک زیادہ ہو جائے تو یہ انجمن بائیکاٹ کی کال دے اور صارفین اس کال پر لبیک کہہ کر بائیکاٹ کردیں!
مگر اوپر اشارہ کیا گیا ہے کہ اتنا شعور ہم میں نہیں ہے۔ ایک مثال دیکھیے۔ ہر عید سے پہلے ملبوسات اور جوتوں کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ خاص کر بچوں کے حوالے سے۔ اس کی وجہ معاشی نہیں ہوتی۔ منڈی کی طاقتیں (مارکیٹ فورسز) اس بڑھاوے میں کردار نہیں ادا کرتیں بلکہ ایسا فقط تاجروں کی لالچ اور چیرہ دستی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ایک سال بچوں کے لیے عید پر نئے ملبوسات اور جوتے نہ خریدے جائیں تو اس جوابی کارروائی سے تاجروں کی اصلاح ہو سکتی ہے مگر اس کے لیے اعلیٰ درجے کا شہری شعور اور ایک خاص معاشرتی رویہ چاہیے! صارفین کو اپنی طاقت کا احساس نہیں۔ وہ چاہیں تو بائیکاٹ کرکے ان بے رحم تاجروں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ صارفین کے بغیر کاروباری سرگرمیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ صفر سے بھی کم حیثیت ہے!
غور کیجیے کہ جب کوئٹہ میں ٹریفک کی ڈیوٹی دینے والے اہلکار حاجی عطااللہ کو ایک با اثر آدمی نے گاڑی کے نیچے دے کر کچل ڈالا اور پھر وہ آدمی انگلیوں سے فتح کا نشان بناتا ہوا پتلی گلی سے نہیں‘ سب کے سامنے قانون کے شکنجے سے نکل گیا تو عوام کا کیا ردِ عمل تھا؟ عوام کا یعنی سول سوسائٹی کا ردِعمل مجہول تھا اور سخت مایوس کن! اسی طرح ایک طاقتور بی بی سے تعلق رکھنے والی گاڑی نے اسلام آباد میں چار نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ایک اور بڑے صاحب کی صاحبزادی نے بھی دو یا تین سال پہلے رات کو دو غریب‘ جوان‘ محنت کشوں کو کچل دیا۔ اس کیس میں تو طاقت کا استعمال اس قدر پُر زور تھا کہ پولیس والوں کی تحویل سے گاڑی تک نکال لی گئی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ان اور ایسے تمام معاملات میں مروجہ نظام‘ انصاف دینے سے یا انصاف حاصل کرنے سے یکسر قاصر رہا ہے۔ اگر ہم عوام میں شہری شعور ہوتا تو ہم احتجاج کرتے۔ پُرامن احتجاج! جلوس نکالتے۔ جلسے کرتے۔ سوشل میڈیا پر قیامت برپا کر دیتے! طاقتوروں کو جتا دیتے کہ ہم زندہ ہیں! مر نہیں گئے!! مگر ایسا نہیں ہوا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ انصاف دلوانے کے لیے فرشتے آسمان سے نہیں اتریں گے۔ یہ کام ہم عوام ہی کو کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے پُرامن جدو جہد کرنا ہو گی۔ مسئلے کو یعنی ناانصافی کو عوام کے ذہنوں میں زندہ رکھنا ہو گا۔ خواہ جتنا عرصہ بھی لگ جائے۔ ایران کے ملک الشعرا بہار نے حکایت بیان کی ہے کہ ایک چشمہ پہاڑ سے پھوٹا اور بہنے لگ گیا۔ راستے میں ایک بڑا پتھر رکاوٹ بن گیا۔ چشمے نے اس سے راستہ مانگا مگر پتھر نے ٹکا سا جواب دیا۔ چشمے نے ہمت نہ ہاری۔ مسلسل کوشش کرتا رہا۔ کھودتا رہا اور کاٹتا رہا اور بالآخر راستہ بنا لیا۔ شکیب جلالی نے بھی کہا تھا کہ:
کیا کہوں دیدۂ تر! یہ تو مرا چہرا ہے
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
احتجاج‘ پُر امن احتجاج اور مسلسل احتجاج واحد راستہ ہے۔ ثابت قدمی کو بڑی سے بڑی طاقت بھی شکست نہیں دے سکتی۔ امریکہ کے مقبول کولڈ ڈرنک کا صرف ایک نئے فارمولے کی مدد سے ذائقہ بدلا گیا تھا۔ بائیکاٹ اور احتجاج نے اتنی بڑی عظیم الجثہ‘ طاقتور کمپنی کو چند دن میں فیصلہ واپس لینے پر مجبور کر دیا۔ ہم نہ جانے کس مٹی سے بنے ہیں! آج کی خبر ہے کہ اسلام آباد تا لاہور موٹر وے کا ٹول ٹیکس ایک مرتبہ پھر بڑھا دیا گیا ہے۔ اب یہ 1210 روپے کر دیا گیا ہے۔ متعلقہ اتھارٹی نے جو گھٹنا مسافروں کے گلے پر رکھا ہوا ہے اسے مسلسل دبا رہی ہے تا کہ گلے کی رگوں پر زور پڑے اور سانس لینے میں دقت ہو۔ جس رفتار سے یہ ٹول ٹیکس بڑھ رہا ہے‘ اس رفتار سے دوسری اشیا کی قیمتیں نہیں بڑھ رہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ صرف رونے اور کُڑھنے سے متعلقہ حکام کا دل پسیج جائے گا۔ آپ شدید غلط فہمی کا شکار ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مسافروں کی کوئی باڈی‘ کوئی تنظیم ہونی چاہیے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ تنظیم یا کوئی اور‘ یاد دلائے کہ ایک متبادل راستہ جی ٹی روڈ موجود ہے۔ صرف چار پانچ دن کی تکلیف برداشت کی جائے۔ موٹر وے کا بائیکاٹ کیا جائے۔ دو دن میں ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ یہ بائیکاٹ سو فیصد قانونی حدود کے اندر ہو گا۔ قانون کی رو سے موٹر وے چھوڑ کر جی ٹی روڑ پر سفر کرنا کوئی جرم نہیں!! اخباروں اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس بائیکاٹ کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ چند باہمت افراد کا مختصر سا گروہ یہ کام کر سکتا ہے۔ جہاں جہاں اور جب جب عوام کا کردار صارف کا ہوتا ہے‘ یوں سمجھیے کہ اصل طاقت عوام کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔ ملبوسات اور جوتے ایک عید پر نہ خریدنا‘ کسی موقع پر ٹماٹر اور کسی موقع پر مرغی نہ خریدنا اور ضرورت پڑے تو لاہور موٹر وے کے بجائے جی ٹی روڈ سے جانا‘ یہ سب وہ طاقتور ہتھیار ہیں جو تاجروں کے ہاتھ میں ہیں نہ نیشنل ہائی وے کے اختیار میں! یہ ہتھیار‘ یہ اختیار صرف اور صرف صارفین کے ہاتھ میں ہے۔ ہاں اس کے لیے شعور‘ باخبری اور آگہی لازم ہے! اب ہمیں اس کہانی سے باہر آنا ہو گا جس میں بادشاہ کے حکم سے دریا پار کرنے والوں کو کوڑے مارے جاتے تھے اور لوگوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کوڑے مارنے کے لیے سپاہیوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ کوڑے کھانے کے لیے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے! بہت کوڑے کھائے جا چکے۔ بہت اطاعت ہو چکی۔ اب دریا پار کرنے کے لیے متبادل راستہ تلاش کرنا ہو گا۔
اُٹھو وگرنہ حشر نہیں ہو گا پھر کبھی!!

Tuesday, August 27, 2024

پاکستانی تارکینِ وطن… ایک تجزیہ

پاکستانی تارکینِ وطن کی تین قسمیں ہیں۔ دولت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ اپنے کلچر‘ اپنی زبان اور اپنی جڑوں کے حوالے سے ان کا کیا کردار ہے۔
پہلی قسم میں وہ تارکینِ وطن ہیں جو ''ہر چہ بادا باد‘‘ کے قائل ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی آئندہ نسل اپنے آبائی وطن سے‘ اپنی زبان سے یا اپنی تہذیب سے مربوط ہے یا دور ہو رہی ہے۔ یہ بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ بچے کیا کر رہے ہیں‘ کہاں جا رہے ہیں‘ کہاں سے آرہے ہیں‘ انہیں اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس نوع کا کوئی دردِ سر وہ نہیں پالتے۔ زندگی خوش و خرم گزارتے ہیں۔ نوکری یا کاروبار کرتے ہیں۔ اچھا مکان‘ اچھی گاڑی‘ سیرو تفریح‘ سیاحت‘ پارٹیاں‘ یہی ان کی ترجیحات ہیں۔ فخر سے بتاتے ہیں کہ بچہ آکسفورڈ میں ہے یا بیٹی کیمرج میں یا ہاورڈ میں! اگر آپ انہیں کچھ بتانے کی جسارت کریں تو ان کا جواب کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ترقی کا یہی راستہ ہے۔ ہم پیچھے کی طرف نہیں جا سکتے۔ اپنی دانست میں وہ درست ہیں۔ ایک بار اپنی جڑوں کا خیال دل سے نکال دیں تو موجاں ہی موجاں! زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ کون جھنجھٹ میں پڑے۔ بہاؤ کے ساتھ بہنے میں آسانی ہے۔ زور نہیں لگانا پڑتا! ذہن پر کوئی دباؤ ہے نہ ٹینشن! ایک تقریب میں ایک صاحب نے اپنے صاحبزادے سے ملوایا۔ بیس بائیس برس کے تھے۔ ان سے اردو میں باتیں کی گئیں۔ وہ ہر بات کا جواب انگریزی میں دیتے۔ ان کے والد محترم سے پوچھا کہ بچوں کے ساتھ کون سی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے ایک شانِ بے نیازی سے جواب دیا کہ انگریزی! حالانکہ میاں بیوی خود آپس میں اردو بولتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم ایسے لوگوں کو 

Vegetable 

کہنا چاہیے یا نہیں! ایک بار ایک سینئر بیورو کریٹ سے کہا کہ کتنی زیادتی ہے ایوانِ صدر میں چوبدار‘ ویٹر اور بٹلر شیروانی اور پگڑی پہننے پر مجبور ہیں۔ اس کا جواب تھا کہ کیا حرج ہے؟ اچھی تو لگتی ہیں! چنانچہ ضروری نہیں کہ ہر شخص خوبصورت قالین کے نیچے بھی دیکھے!
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں احساس تو ہے مگر عملاً کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کی قوتِ ارادی کمزور ہے۔ زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔ ایک ہے زمانہ با تو نسازد‘ تو با زمانہ بساز۔ کہ زمانہ تمہارے طور اطوار نہیں پسند کرتا تو تم مدافعت نہ کرو بلکہ زمانے کے ساتھ نباہ کرو۔ دوسرا فارمولا اس کے اُلٹ ہے۔ بقول علامہ اقبال:
حدیثِ بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد‘ تو با زمانہ ستیز
(زمانے کی ہاں میں ہاں ملانا بے خبر لوگوں کا وتیرہ ہے۔ زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کرتا تو تم زمانے کا مقابلہ کرو)
لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بہاؤ کے ساتھ بہنا آسان ہے اور مخالف سمت تیرنا مشکل! یہ جو قسم ہے تارکینِ وطن کی‘ یہ چاہتے تو ہیں کہ بچے اپنے کلچر سے جڑیں مگر اہتمام اور التزام ان کے بس کی بات نہیں۔ بھاری پتھر کو اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے!
تیسری قسم ان باہمت تارکینِ وطن کی ہے جنہوں نے بچوں کو اپنی زبان‘ کلچر اور اپنے وطن سے وابستہ رکھنے کے لیے محنت کی ہے۔ یہ بچوں کے ساتھ گھر میں اردو بولتے ہیں۔ التزام کرتے ہیں کہ بچے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اردو بولیں جو سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ تارکینِ وطن کے جو بچے ماں باپ کے ساتھ اردو بولتے ہیں‘ وہ بھی آپس میں‘ یعنی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ زیادہ تر انگریزی ہی بولتے ہیں۔ انہیں بار بار کہنا پڑتا ہے اور یاد دلانا پڑتا ہے کہ آپس میں اردو بولیں! تعداد میں بہت کم سہی مگر ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا بھی سکھائی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اتنا بڑا کہ ایک پوری نسل کو سنبھال لینے والا کام ہے۔ بعض حضرات ایک حوصلہ شکن نکتہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اس نسل کو ہم نے اردو بولنا اور لکھنا پڑھنا سکھا بھی دیا تو کیا فائدہ! اس کے بعد کی نسلوں کو کون سکھائے گا! اور یہ کہ آئندہ نسلوں نے تو مقامی رنگ میں ڈھلنا ہی ہے۔ یہ ایک شکست خوردہ‘ گھِسا پٹا پوائنٹ ہے۔ آپ اس نسل پر کام کریں گے تو یہ نسل اپنے سے بعد والی نسل کو خود ہی سنبھال لے گی۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں وہ تو کیجیے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ آپ اپنے حصے کا چراغ جلائیے‘ اس یقین کے ساتھ کہ یہ آخری چراغ نہیں ہو گا۔ ان سطور کا لکھنے والا جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ہمارے ساتھ سنگا پور کے ایک صاحب تھے جو ایم بی بی ایس کر رہے تھے۔ (جی ہاں! ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سنگاپور اور کئی دوسرے ملکوں کے طلبہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے تھے)۔ ان صاحب کا نام شمس تھا۔ ان کے آباؤ اجداد گوجرانوالہ سے سنگا پور گئے تھے۔ اس وقت ان کے خاندان کو گئے ہوئے سو سال ہو چکے تھے۔ شمس ہمارے ساتھ فصیح و بلیغ پنجابی میں بات کرتے تھے۔ ان کا خاندان‘ سو سال سے سنگا پور میں رہتے ہوئے بھی پنجابی زبان سے جڑا ہوا تھا۔
گھر میں بچوں کے ساتھ اردو بولنے کے بعد اپنی مٹی سے مر بوط رکھنے کے لیے دوسرا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ہر سال بچوں کو پاکستان لایا جائے۔ یہ عرصہ کم سے کم ایک مہینہ ضرور ہونا چاہیے۔ دو ماہ ہو تو کیا ہی کہنے! اس قیام کے دوران بچے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں! اردو بولنے کی خوب مشق ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غیرمحسوس طریقے سے بچے اپنی بنیادوں سے بھی آشنا ہوں گے۔ یہاں کے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور پاکستانی ماحول ان کے اندر سماتا رہے گا۔ ورنہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والی بات ہو جائے گی! میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے والے تارکینِ وطن پوری دنیا کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ہر سال دو ماہ کے لیے پاکستان میں جانا ان کے لیے ہر گز مشکل نہیں! میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جن کا پاکستان میں کوئی قریبی عزیز نہیں بچا مگر وہ اکثر و بیشتر لاہور میں آکر قیام کرتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کے بچے پاکستان کے ماحول سے واقف ہو جائیں اور یہاں رہنا سیکھ جائیں!! 
بنیادی طور پر ہر پاکستانی نژاد بچہ پاکستان کے لیے محبت بھرے جذبات رکھتا ہے۔ اس کا مظاہرہ کرکٹ میچوں کے مواقع پر دیکھنے میں آتا ہے۔ بہت سے بچوں نے اپنے کمروں میں پاکستانی جھنڈے یا جھنڈے کی تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ اب یہ ان کے بڑوں کا کام ہے کہ اس چنگاری کو بجھنے نہ دیں! پاکستان کی روشنی ان بچوں کے دلوں میں ہمیشہ رہنی چاہیے۔ بیرونِ ملک رہنے والا ہر پاکستانی اپنی ذات میں پورا پاکستان ہے۔ تارکینِ وطن پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی بحران پاکستان کو اپنی گرفت میں لیتا ہے‘ تارکینِ وطن کی جان سولی پر لٹک جاتی ہے۔ پاکستان کی محبت ان کی رگوں میں‘ رگوں کے اندر بہتے خون میں‘ ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر بھرے گودے میں رچی بسی ہے۔ ان سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر ان کی پاکستان دوستی پر شک کرنا ظلم ہی نہیں‘ شاید گناہ بھی ہے۔ اس محبت اور وابستگی کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ان پر فرض ہے‘ خواہ اس کے لیے کتنی ہی مشقت کیوں نہ کرنی پڑے!! ہم پاکستان سے باہر ہوں تو ہوں‘ پاکستان ہمارے اندر ہونا چاہیے۔
اے خاک پاک تجھ سے ہم آغوش ہوں کہ دور 
ہر آن تیرا چاند ستارا ہو سامنے

Monday, August 26, 2024

ہے کوئی جو عبرت پکڑے

حامد کو یقین تھا کہ چوہدری بے گناہ ہے! 
وہ ذاتی طور پر جانتا تھا کہ مقتول کو قتل چوہدری نے نہیں کیا۔ وہ اس کی بے گناہی کا عینی شاہد تھا۔ جس رات مقتول قتل ہوا‘ چوہدری اور حامد جائے واردات سے کئی سو کلومیٹر دور‘ ایک سرکاری ڈاک بنگلے میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ چوہدری سارا وقت اس کی آنکھوں کے سامنے رہا۔ ایک لمحے کے لیے بھی کمرے سے باہر نہیں گیا۔ یہ لوگ شکار کے لیے آئے تھے اور رات اس ڈاک بنگلے میں ٹھہرے تھے۔ صبح انہوں نے قتل کی خبر سنی۔ اب یہ سوئے اتفاق تھا کہ مقتول کے خاندان سے چوہدری کی پرانی دشمنی تھی۔ خدا ہی جانتا ہے کہ یہ سازش کس طرح کی گئی۔ قصہ مختصر‘ ایک سال کے بعد پولیس پکڑ کر چوہدری کو لے گئی۔ اُس پر اِس قتل کا الزام تھا۔ تجوریوں کے منہ کھل جائیں تو اس دنیا میں ناممکن ممکن ہو جاتا ہے۔ بہت ''ثقہ‘‘ قسم کے گواہ بھی میسر آ گئے۔ چوہدری کا خاندان دولت میں مقتول کے خاندان کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے وکیلوں نے بہت زور لگایا۔ مگر طاقت جیت کر رہی۔ چوہدری کو سزائے موت ہو گئی۔ بدقسمتی یہ بھی ہوئی کہ ادھر چوہدری گرفتار ہوا‘ اُدھر حامد کو بیٹی کے علاج کے لیے امریکہ جانا پڑ گیا۔ وہاں حالات نے ایسی کروٹ لی اور زمانے نے زندگی کو ایسی مجبوریوں میں ڈالا کہ حامد واپس نہ آ سکا۔ تب دنیا وڈیو لنک سے آشنا نہ تھی۔ یوں وہ عدالت میں چوہدری کی بے گناہی کی گواہی دینے سے محروم رہا۔ مقتول کے خاندان کی بے پناہ دولت اور بلند روابط کے سامنے اُس کی گواہی ہو بھی جاتی تو کچھ نہ کر پاتی۔
امریکہ کی ایک سرد‘ بے رحم‘ برفانی صبح تھی جب حامد کو اطلاع ملی کہ چوہدری کی رحم کی اپیل مسترد کر دی گئی اور اب کسی بھی وقت پھانسی کا دن مقرر کیا جا سکتا ہے۔ چوہدری کے ساتھ اس کی دوستی اتنی پرانی تو نہ تھی مگر گہری ضرور تھی۔ اس کا دل بیٹھ گیا۔ کئی دن اسے ڈھنگ کی نیند آئی نہ بھوک لگی۔ دن جوں توں گزر جاتا مگر رات جاگتے اور کروٹیں لیتے گزرتی۔ اس سے زیادہ کسے معلوم تھا کہ یہ قتل چوہدری نے نہیں کیا تھا۔ بالآخر اس نے وطن واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ چوہدری سے موت کی اُس کوٹھڑی میں ملنا چاہتا تھا جس میں وہ زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا۔ 
چند دن اجازت لینے میں گزر گئے۔ پھر ایک دن حامد چوہدری کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ چوہدری موت کے خوف سے جسمانی طور پر کمزور پڑ گیا ہو گا مگر ایسا نہ تھا۔ چوہدری کی صحت ٹھیک تھی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ چوہدری کے چہرے پر اطمینان کی جھلک تھی۔ اس نے اپنے رنج اور بے پناہ دکھ کا اظہار کیا مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب چوہدری نے درد بھرے لہجے میں ایک عجیب بات کی۔ اس نے کہا: دوست! بظاہر میں بے گناہ ہوں۔ یہ قتل میں نے نہیں کیا۔ مگر سزا مجھے درست مل رہی ہے۔ حامد کا سر یہ سن کر جیسے گھوم ہی تو گیا۔ ''کیا کہہ رہے ہو چوہدری؟ آخر مطلب کیا ہے تمہارا؟ تم اس رات میرے ساتھ تھے۔ جائے قتل سے میلوں دور! ساری رات تم کمرے میں موجود رہے۔ یہ بھی ممکن نہ تھا کہ تم جا کر قتل کرتے اور صبح تک واپس بھی آ جاتے! پھر تم کیوں کہہ رہے ہو کہ سزا درست ہے؟‘‘۔ حامد کی بات سن کر اس کے چہرے پر ایک عجیب مسکراہٹ آئی۔ ایک بے بس‘ زرد‘ موت جیسی مسکراہٹ!! حامد تھرموس میں اس کے لیے اس کی پسندیدہ کافی لے کر گیا تھا۔ چوہدری نے کہا ''کافی پیالے میں ڈالو پھر میں تمہیں وہ داستان سناتا ہوں جس سے تم مکمل طور پر ناواقف ہو‘‘۔ دونوں نے کافی کے پیالے پکڑے ہوئے تھے اور فرش پر بیٹھے تھے۔ ان کی پیٹھیں دیوار کے ساتھ لگی تھیں! حامد نے کچھ تِگڑم لڑا کر اور چکر چلا کر زیادہ دیر چوہدری کے ساتھ رہنے کا بندو بست کیا ہوا تھا۔ اس نے بولنا شروع کیا:
''یہ تمہاری اور میری دوستی سے بہت پہلے کی بات ہے۔ میری شادی ایک بہت امیر خاندان میں ہوئی۔ یہ لوگ ملکی صنعت میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔ ان کے کئی کارخانے تھے اور ملکی برآمدات میں وافر حصہ ڈالتے تھے۔ اس خاندان میں شادی ہوئی تو یوں سمجھو میری قسمت نے پلٹا کھایا اور میں زمین سے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ گاڑیوں کی ریل پیل‘ رہنے کے لیے محل‘ بٹالین در بٹالین خُدّام‘ دنیا بھر کی سیر وتفریح ! آج سوئٹزرلینڈ میں ہیں تو کل لاس اینجلس میں اور پرسوں جاپان میں! میری گویا پانچوں گھی میں تھیں اور سر کڑاہی میں! تاہم یہ سب کچھ میرے نظامِ انہضام سے بہت زیادہ تھا۔ جلد ہی میں آپے سے باہر ہو گیا اور معقولیت کی حدیں پار کر لیں۔ میری سمت غلط ہو گئی۔ معاملہ شراب نوشی سے شروع ہوا اور منشیات تک جا پہنچا۔ مگر سسرال کے پاس دولت بے انتہا تھی۔ بے احتیاطیوں پر پردے ڈالے جاتے رہے۔ وفادار ملازم میرا بھرم نہ ٹوٹنے دیتے۔
یہ ایک عجیب دن تھا۔ میرا موڈ نہ جانے کیوں اُس دن صبح ہی سے خراب تھا۔ میں نے شام کے بجائے اس دن صبح ہی شراب پی لی۔ اس سے بھی اطمینان نہ ہوا تو نشہ دو آتشہ کرنے کا بھی انتظام کر لیا۔ پھر میں نے پجارو نکالی۔ ملازم پیچھے بھاگے مگر میں ان کے آنے سے پہلے ہی باہر سڑک پر تھا۔ میں نے شاہراہوں پر گاڑی دوڑانا شروع کی۔ دولت کا نشہ! شراب کا نشہ! پھر نشہ در نشہ! میں زمین پر نہ تھا‘ بادلوں پر تھا۔ ایک گاڑی کو میری پجارو نے ٹکر ماری۔ رکنے کے بجائے میں نے گاڑی کی رفتار تیز کر دی۔ اب میں ہوا میں اُڑ رہا تھا۔ سامنے موٹر سائیکل پر ایک بوڑھا آ رہا تھا۔ پیچھے ایک لڑکی بیٹھی تھی۔ میری پجارو کے سامنے ان کی حیثیت ہی کیا تھی۔ دونوں کئی فٹ اوپر ہوا میں اچھلے اور زمین پر آن گرے۔ ان کے بچنے کا امکان صفر تھا۔ میں نے رفتار مزید تیز کی۔ تین چار موٹر سائیکل اور پھڑ کائے۔ مرے نہیں تو زخمی خوب ہوئے ہوں گے۔ کوئی عام شہری ہوتا تو فوراً گرفتار ہو جاتا اور ٹیسٹ کے بعد نشے میں ہونا بھی ثابت ہو جاتا مگر میں تو شہزادہ تھا۔ پولیس جیب کی گھڑی تھی اور قانون ہاتھ کی چھڑی۔ پبلک نے رَولا بہت ڈالا لیکن میرا بال تک بیکا نہ ہوا۔ وکیلوں کو منہ مانگے پیسے دیے گئے اور وکیل تو جادوگر ہوتے ہیں۔ ان کا سحر کون توڑ سکتا ہے۔ دولت اور سٹیٹس نے مجھے بچا لیا۔ مگر اس کے بعد پتا نہیں کیا ہوا۔ بہت آہستگی کے ساتھ میرے سسرال کا بزنس الٹی گنتی گننے لگا! کوئی پُراسرار سی دیمک اندر ہی اندر اس ایمپائر کو کھانے لگی! چند برس میں ہم آسمان سے زمین پر آ گئے۔ اور میری حالت یہ ہوئی کہ جیسے ہی آنکھ لگتی وہ باریش بوڑھا اور اس کے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی خواب میں آجاتے اور عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھنے لگتے۔ میں ان کی نظروں کی تاب نہ لاتے ہوئے چیخ اٹھتا۔ نیند ٹوٹ جاتی۔ جیسے جیسے جیسے وقت گزرتا گیا‘ ڈراؤنے خوابوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت سر مارا مگر وہ کیا کر سکتے تھے۔ بیماری تو میرے ضمیر کے اندر تھی۔ جب مجھے اس قتل کے جرم میں پکڑا گیا جو میں نے نہیں کیا تھا تو میں نے آرام کا سانس لیا۔ مجھے دو اور دو چار کی طرح یقین ہو گیا کہ قدرت کے انصاف کا وقت آ گیا ہے۔ پھانسی کی سزا مجھے درست مل رہی ہے۔ کاش! اُس وقت میں دولت کا سہارا نہ لیتا اور اپنے آپ کو ایک عام خطاکار کی طرح قانون کے حوالے کر دیتا‘‘

Thursday, August 22, 2024

ہم دنیا میں کیوں بے توقیر ہیں؟


جہاز میں بیٹھا تو ہانگ کانگ یاد آ گیا۔
یہ کچھ برس پہلے کی بات ہے۔ ہانگ کانگ سے کراچی جانا تھا۔ سامنے ایئر پورٹ پر جہاز کھڑے تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ایک اُڑتا تھا تو ایک اور آجاتا تھا۔ سارے جہازوں کے ساتھ جیٹ برِج لگے تھے۔ جیٹ برِج اس سرنگ نما راستے کو کہا جاتا ہے جس سے گزر کر جہاز میں بیٹھتے ہیں۔ یہ نہ ہو تو ٹرمینل سے بس میں بٹھاتے ہیں یا پیدل چل کر جہاز کے پاس پہنچتے ہیں اور سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں سوار ہوتے ہیں۔ ہانگ کانگ ایئر پورٹ پر ہر جہاز جیٹ برِج کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ ہم پاکستان جانے والے مسافر سامنے کھڑے ہوئے جہازوں کو دیکھ کر سوچ رہے تھے کہ انہی میں سے ایک جہاز کراچی جانے والا ہے۔ بس اعلان ہو گا اور ہم جیٹ برِج سے ہوتے ہوئے جہاز کے اندر چلے جائیں گے‘ مگر جب اعلان ہوا تو ہمیں ایک بس میں بٹھایا گیا۔ یہ بس کافی دیر تک چلتی رہی۔ ایئر پورٹ کے آخری ویران کونے میں پہنچے تو ہمیں بس سے اُتارا گیا۔ تھوڑی دور تک پیدل چلے۔ پھر جہاز سے لگی سیڑھیاں چڑھ کر جہاز میں داخل ہوئے۔ یہ سلوک کسی اور کے ساتھ نہیں ہوا۔ صرف ہم پاکستانی اس کے مستحق ٹھہرائے گئے!
جہاز میں بیٹھتے ہی ہانگ کانگ میں پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہی سلوک یاد آ گیا۔ اسلام آباد سے بنکاک تک غیرملکی ایئر لائن نے جو جہاز مخصوص کیا تھا وہ خان روڈ سروس کی بس یاد دلاتا تھا۔ دنیا بھر میں اس سے زیادہ چھوٹی اور تنگ سیٹیں کسی جہاز کی نہ ہوں گی۔ ہانگ کانگ والوں کی طرح اس ایئر لائن کو بھی معلوم تھا کہ پاکستان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرنا ہے اور ایسا برتاؤ پاکستان ہی کے ساتھ کرنا ہے! بقول ناصر کاظمی:
کتنی مردم شناس ہے دنیا
منحرف بے حیا ہمی سے ہوئی
بنکاک سے آگے جو جہاز ملا وہ اسی ایئر لائن کا تھا اور باغ و بہار تھا۔ کھلی آرام دہ نشستیں اور جہاز کی ہر شے چمکتی ہوئی‘ نئی نویلی سی!! ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستانیوں کے ساتھ کیسا سلوک کرنا ہے۔ جب پاکستان کی اپنی ریاست اور اپنی حکومت پاکستانیوں کے ساتھ سوتیلی ماں والا سلوک کرے تو دوسروں کو کیا پڑی ہے کہ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں۔ آج کل سوشل میڈیا پر لکھا جاتا ہے کہ ''جن لوگوں کو گھر میں دوسری بار سالن کوئی نہیں دیتا وہ بھی سیاست اور مذہب پر لیکچر دیتے پھرتے ہیں‘‘۔ ہمارا بھی یہی حال ہے۔ ہمارے اپنے حکمران ہم عوام کے وجود ہی کو تسلیم نہیں کرتے تو بیرونی ممالک‘ ان کے ادارے اورکمپنیاں ہمیں کیا گھاس ڈالیں گی؟ ہمارے حکمران کھرب پتی ہیں۔ سچ یہ ہے کہ کھربوں کی دولت سے بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔ ان کے اصل مستقر 
(Bases)
 بیرونِ ملک ہیں۔ اس ملک سے ان کی صرف ایک ہی دلچسپی ہے‘ اقتدار! صرف اقتدار!! اقتدار نہ ہو تو یہاں رہ ہی نہیں سکتے جیسے مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی! اقتدار کے بغیر تڑپتے ہیں۔ خاک پر لوٹتے ہیں اور اگر اور کوئی راستہ نہ ہو تو کسی دوسرے ملک ہی کے راستے فرار ہو کر لندن جا پہنچتے ہیں! ان کی دنیا ہی اور ہے۔ یہ جو حکمران جماعتیں ہیں‘ یہ جو باری باری حکومت میں آتی ہیں‘ مسلم لیگ (ن)‘ پی پی پی‘ تحریک انصاف‘ جے یو آئی‘ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے ان میں سے عوام کے ساتھ کس کا تعلق ہے؟ کیا آپ نے ان جماعتوں کے سربراہان کو‘ ان خاندانوں کے معزز اراکین کو‘ کبھی بازار میں سودا سلف لیتے دیکھا ہے؟ کیا کبھی یہ آپ کو ان ہسپتالوں میں نظر آئے ہیں جہاں آپ اور آپ کے اہلِ خانہ دھکے کھاتے ہیں؟ کیا ان کے بچے‘ پوتے پوتیاں‘ نواسے نواسیاں ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہیں جہاں آپ کے اور ہمارے بچے پڑھتے ہیں؟ کیا ان کے گھروں میں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے؟ یہ جس پاکستان میں رہتے ہیں اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں اور جس پاکستان میں ہم آپ گزر بسر کر رہے ہیں‘ اس کے قریب سے بھی یہ کبھی نہیں گزرے!
پاکستانیوں کو غیرملکی ایئر لائنیں کیوں نہ خوار کریں اور پاکستانیوں کے پاسپورٹ کی غیرملکی ہوائی اڈوں پر کیوں نہ تذلیل ہو جب پاکستان کے حکمران خود پاکستانی عوام کو کیڑے مکوڑے سمجھیں؟ کیاکبھی کسی حکمران نے‘ کسی منتخب ایوان نے‘ اُن غریبوں کے لیے آواز اٹھائی ہے جو بڑے لوگوں کی گاڑیوں کے نیچے آکر کچلے جاتے ہیں؟ کوئٹہ کے اُس سپاہی کو تو چھوڑ دیجیے جسے ایک سردار نے یوں کچلا جیسے وہ چیونٹی ہو۔ ریاست نے چُوں بھی نہیں کی! ان چار خاک نشینوں کو بھی بھول جائیے جنہیں ایک طاقتور بی بی کی گاڑی نے دارالحکومت میں ہلاک کر دیا۔ یہ تو ماضی کی خونریزیاں ہیں! صرف ان ظالمانہ وارداتوں کو دیکھیے جو آج کل ہو رہی ہیں! دارالحکومت کی شاہراہ پر جس طاقتور لڑکی نے دو نوجوانوں کو مار دیا اس کے خلاف کیا ہوا؟ حادثے میں استعمال ہونے والی گاڑی تو پولیس کے قبضے سے بھی چھین لی گئی تھی! اور دو دن پہلے کراچی میں ایک بوڑھے کو اور اس کی جواں سال بیٹی کو جس طاقتور خاتون نے موت کے گھاٹ اتار دیا اور کچھ کو زخمی کر دیا‘ کس کی ہمت ہے کہ اسے پکڑے اور مقتولوں اور زخمیوں کو انصاف دلوائے؟ یہ ہیں ہمارے حکمران جن کی آنکھوں کے سامنے آئے دن پاکستانی شہری بلیوں چوہوں کی طرح مارے جا رہے ہیں اور گاجر مولی کی طرح کاٹے جا رہے ہیں مگر انہیں احساسِ فرض ہے نہ انہیں رحم آتا ہے! یہ انسان کیا فرات کے کنارے مرنے والے اس کتے سے بھی کم حیثیت ہیں جس کی فکر میں دنیا کے طاقتور ترین حکمران کی راتوں کی نیند اُڑ جاتی تھی؟؟ جس ملک میں انسانوں کی جان محفوظ نہ ہو وہ ملک‘ ملک نہیں‘ بُچڑ خانہ ہوتا ہے‘ جہاں آدم کے بیٹوں اور بیٹیوں کی ہڈیاں کھائی‘ چوسی اور بھنبھوڑی جاتی ہیں!! خدا کی پناہ!! منہ زور طبقہ قانون کے چہرے پر رات دن طمانچے رسید کر رہا ہے اور اس طبقے کے کانوں میں اس طمانچے کی آواز موسیقی کا رَس گھول رہی ہے!!
ان حکمرانوں سے کوئی پوچھے کہ جن ملکوں میں ان کے بچے پولو اور گالف کھیلتے ہیں اور جہاں ان کے محل‘ اپارٹمنٹ اور جائیدادیں ہیں‘ کیا اُن ملکوں میں بھی انصاف کا ایسا ہی نظام ہے؟ یہ ہمیں کیوں کہتے ہیں کہ یہ ملک ترقی کرے گا؟ کیا کسی ترقی یافتہ ملک میں طاقتور افراد قانون اور پولیس سے بچ سکتے ہیں؟ کیا کوئی ایک بھی ایسا ترقی یافتہ ملک اس زمین پر ہے جہاں قاتل انگلیوں سے فتح کے نشان بناتے ہوں اور ہسپتالوں میں فائیو سٹار زندگی گزارتے ہوں؟؟ کیا اس ملک میں کوئی ظاہر جعفر کبھی تختۂ دار پر لٹکا ہے؟ آخر ہر بڑے خانوادے کے مجرم مرد پر اور ہر بڑے خاندان کی مجرم عورت پر نفسیاتی مرض کی چھتری کیوں تان دی جاتی ہے؟ جب تک یہ صورتحال بدلتی نہیں‘ اس ملک کے عام شہریوں کو غیرملکی ایئر لائنیں خوار کرتی رہیں گی! اس ملک کے پاسپورٹ کی بے توقیری جاری رہے گی! شاہراہوں پر متکبر امرا عوام کو کچلتے رہیں گے! جب تک سیاسی پارٹیوں کے مالکان‘ عوام کے بازاروں‘ عوام کے ہسپتالوں اور عوام کے سکولوں سے کوسوں دور رہیں گے یہ پاکستان دو پاکستانوں میں بٹا رہے گا! ایک سسکتا پاکستان! ایک چہکتا پاکستان! ایک طاقتور پاکستان! ایک کم حیثیت پاکستان! پارلیمنٹ کی عمارت کو چوہوں کی دستبرد سے بچانے کے لیے لاکھوں روپے مختص کیے جا رہے ہیں! سوال یہ ہے کہ نظامِ انصاف کو کون کتر رہا ہے؟؟

Tuesday, August 20, 2024

اولمپک ڈپلومیسی؟؟


ہم نے کرکٹ ڈپلومیسی بھی دیکھی اور مینگو (آم) ڈپلومیسی بھی دیکھ لی۔ اب ''اولمپک ڈپلومیسی‘‘ بھی آزما لی جائے تو کیا مضائقہ ہے؟
مینگو ڈپلومیسی تو ایک عام سی بات تھی اور شاید ہے۔ یہاں کا انور رٹول اور سفید چونسہ وہاں جاتا ہو گا اور وہاں کا الفانسو ہمارے بڑے لوگوں کے گھروں میں لینڈ کرتا ہو گا۔ رہی کرکٹ ڈپلومیسی تو جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اس کے ذریعے کوشش کی کہ تعلقات سرد مہری سے اُتر کر نارمل سطح پر آ جائیں! مگر یہ ساری ڈپلومیسیاں حکمرانوں کے درمیان تھیں‘ ان کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا! پاکستانی عوام سے نہ بھارتی عوام سے!
تین چار جنگیں ہو چکیں! سال ہا سال سے تجارتی مقاطعہ ہے۔ اس مقاطعہ کا رمق بھر فائدہ مقبوضہ کشمیر کو ہوا نہ ہمیں! یوں بھی تجارت کا فائدہ پاکستان کو زیادہ ہو گا کیونکہ اسے بھارت جیسی بڑی منڈی ملے گی اور بھارت کو چھوٹی!! تعلقات کی ویرانی کا یہ حال ہے کہ کتابیں اور رسالے بھی نہیں آ جا سکتے۔ اردو کے ایک نامور استاد کو کتاب بھیجی‘ سات ماہ کے بعد ملی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بھارت میں کتابیں زیادہ شائع ہوتی ہیں۔ اس پابندی کا زیادہ نقصان پاکستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو ہے۔ مثال کے طور پر ابو الفضل کی تصنیف ''اکبر نامہ‘‘ اُس زمانے کا ایک انسائیکلو پیڈیا ہے جو برصغیر کا بہت بڑا تاریخی‘ علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرمایہ ہے۔ بھارت نے اسے اس طرح شائع کیا ہے کہ ایک صفحے پر فارسی متن ہے اور سامنے والے صفحے پر انگریزی ترجمہ! پہلے دو حصے کسی نہ کسی طرح پاکستان میں پہنچ گئے۔ اس کے بعد مکمل پابندی کی وجہ سے بقیہ حصے نہیں پہنچ رہے۔ اسی طرح ابراہام ایرالی اور ولیم ڈالرمپل کی کتابیں بھی‘ جو ہمارے ہاں بہت مقبول ہیں‘ نہیں آ رہیں! 2013ء میں بھارت میں نوّے ہزار کتابیں شائع ہوئیں۔ (اس تعداد میں صرف پہلے ایڈیشن شامل ہیں!) اس میں سے 24 فیصد یعنی 21 ہزار 600 کتابیں انگریزی کی ہیں! پاکستان کے اعداد وشمار ایک سال پہلے کے ہیں‘ یعنی 2012ء کے۔ اُس سال پاکستان میں چھپنے والی کتابوں کی تعداد 3811 تھی جس میں 868 انگریزی زبان میں اور باقی اردو میں تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حمل ونقل کی بندش سے نقصان پاکستان کو ہو رہا ہے‘ بھارت کو نہیں! ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ پوائنٹ آئے کہ انگریزی کتابیں یورپ اور امریکہ سے بھی تو منگوائی جا سکتی ہیں مگر آپ بھول رہے ہیں کہ ان کی ٹرانسپورٹیشن پر کئی گنا زیادہ اخراجات آتے ہیں جبکہ بھارت اور ہم ایک ہی گلی میں رہ رہے ہیں اور دروازے ساتھ ساتھ ہیں۔ ہر سال چھپنے والی کتابوں کا ذکر چھڑا ہے تو لگے ہاتھوں اپنا موازنہ ایران سے بھی کر لیجیے۔ آٹھ نو کروڑ کی آبادی والے ایران میں ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ کتابیں شائع ہوتی ہیں!
حکومتوں کو دیکھ لیا۔ کیوں نہ اب عوام کو آزمایا جائے؟ دونوں طرف کے عوام کی غالب اکثریت تعلقات کو نارمل کرنے کے حق میں ہے۔ انتہا پسندوں کا معاملہ اور ہے اور انتہا پسند دونوں ملکوں میں موجود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ملکی پالیسیاں انتہا پسندوں کی مرضی اور خواہش سے بنیں گی؟ ارشد نعیم کی والدہ نے کہا ہے کہ وہ نیرج چوپڑا اور اس کی ماں کو پاکستان آنے کی دعوت دے گی۔ اس سے پہلے نیرج کی ماں نے کہا تھا کہ جسے سونے کا تمغہ ملا ہے وہ بھی اس کا بیٹا ہے۔ یہ دو طرفہ جذبات جنوبی ایشیا کے صدیوں پرانے کلچر کے عین مطابق ہیں۔ یوں بھی تمام ماؤں کے جذبات یکساں ہوتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو اگر وزیراعظم پاکستان‘ نیرج چوپڑا اور اس کی والدہ کو پاکستانی عوام کی طرف سے پاکستان آنے کی دعوت دیں! اگر بھارتی حکومت انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں دیتی تو دنیا بھر میں بھارت کی بدنامی ہو گی۔ اگر اجازت دے دیتی ہے اور نیرج چوپڑا اور اس کی ماں پاکستان کا دورہ کر لیتے ہیں تو یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو ہو گا جس کا سہرا پاکستان کے سر ہو گا۔ یہ ایک سنگِ میل ہو گا جس کے بعد کھلاڑی دونوں ملکوں میں آ جا سکیں گے۔ کھلاڑیوں کے بعد تاجروں‘ ڈاکٹروں‘ طلبہ‘ اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین کے لیے بھی راستے کھل سکتے ہیں! سچ یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں اتنے کمزور نہیں کہ راستے کھلنے سے انہیں نقصان پہنچ جائے۔ ابھی چند ماہ پہلے کراچی کی 19 سالہ عائشہ روشان کے دل کی پیوند کاری چنئی میں ہوئی ہے۔ وہ کئی سال سے دل کی بیماری میں مبتلا چلی آ رہی تھی۔ بالآخر بھارت ہی سے اس کے لیے دل کے عطیے کا انتظام ہوا۔ اس نازک‘ خطرناک اور بڑے آپریشن کے لیے مالی امداد کا انتظام بھی بھارت کی این جی او اور وہاں کے ڈاکٹروں نے کیا۔ بھارت سے دل کا علاج کرانے والے پاکستانیوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔ پیوند کاری کے لیے ایسے انسان کا دل نکالا جا سکتا ہے جو ابھی مرا نہ ہو لیکن اس کا دماغ ناکارہ ہو چکا ہو! پاکستان میں ابھی تک دل کی پیوندکاری نہیں ہوئی۔ مستقبل قریب میں لاہور میں اس سلسلے میں ایک کانفرنس ہو رہی ہے جس میں امریکہ کے پاکستانی ڈاکٹر بھی حصہ لے رہے ہیں۔ کانفرنس دل کی پیوندکاری کے مسئلے پر ہی غور کرے گی‘ تاہم مستقبل قریب میں پاکستان میں دل کی پیوند کاری شروع ہونے کا امکان کم ہی ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ جنوبی بھارت اس وقت آئی ٹی کے میدان میں بہت آگے ہے۔ یہ عملاً پوری دنیا میں آئی ٹی کا مرکز 

(Hub)

 بن چکا ہے۔ تعلقات نارمل ہونے کی صورت میں بے شمار پاکستانیوں کو وہاں کی کمپنیوں میں ملازمتیں مل سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد امریکی کمپنیوں کے لیے پاکستان میں رہ کر کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں رہ کر بھارتی کمپنیوں کے لیے بھی کام کیا جا سکتا ہے۔ خود بھارت کو پاکستان کے آئی ٹی ماہرین سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔
دونوں ملک دشمنی کر کے دیکھ چکے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا! ہمیں نہ انہیں! بھارت دشمنی کے باوجود چین سے تجارت کیے جا رہا ہے۔ بھارت اور چین دونوں اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ دونوں کی باہمی تجارت میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ 2015ء اور 2022ء کے درمیان چین اور بھارت کی دو طرفہ تجارت میں 90 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔ چین تائیوان کی الگ حیثیت کو کسی صورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں مگر تجارت دونوں کی خوب پھل پھول رہی ہے۔ گزشتہ برس تائیوان نے چین کو 69 ارب ڈالرز کی مشینری اور الیکٹریکل سامان بیچا ہے۔ دنیا کسی اور ڈگر پر چل رہی ہے۔ زندہ رہنے اور عزت سے زندہ رہنے کے لیے جذبات کی نہیں‘ زنبیل میں درہم ودینار کی ضرورت ہے۔ چین نے ایک گولی چلائے بغیر پوری دنیا کو اپنی معاشی کالونی بنا لیا ہے۔ بھارت ہم سے کوسوں آگے نکل چکا ہے اور تیزی کے ساتھ مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ سنگاپور‘ مکاؤ‘ تائیوان‘ ہانگ کانگ ہمارے ایک ایک ضلع کے برابر ہیں مگر جا کر دیکھیے‘ آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور دماغ چکرا جاتا ہے۔ تھائی لینڈ کے لوگ قد میں بالشت برابر ہیں مگر صرف بنکاک کے ہوائی اڈے سے ہر روز کروڑوں روپے کما رہے ہیں۔ ایئر پورٹ کے اندر ٹرینیں چل رہی ہیں۔ ہمیں نہ جانے کس کی بددعا ہے کہ ہم اپنے پیروں پر کھڑے ہی نہیں ہو رہے۔
انجم غریبِ شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے

Thursday, August 15, 2024

ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟؟


منیر صاحب روم کے پاکستانی سفارت خانے میں تعینات تھے۔ وہ بہت بڑے افسر نہ تھے مگر ایک تو ان کے کام کی نوعیت اہم تھی‘ دوسرے وہ اخلاق کے بہت اچھے تھے۔ سفارت خانے کے سب لوگ‘ سفیر سے لے کر ڈرائیور تک‘ ان کا احترام کرتے تھے۔ مجھے چند ماہ کے لیے اٹلی میں رہنا تھا۔ یہ تقریباً 40 سال پہلے کی بات ہے۔ روم پہنچ کر دوسرے دن میں نے اپنے سفارت خانے میں رپورٹ کیا۔ قیام کے اخراجات اطالوی حکومت نے ادا کرنے تھے اور یہ کام سفارت خانے کی وساطت سے طے پانا تھا اس لیے میں کئی دن سفارت خانے جاتا رہا۔ سفیر صاحب نے کہا کہ آپ منیر صاحب ہی سے رابطہ رکھیں‘ وہی سارا کام کریں گے۔
منیر صاحب سے پہلے دن ہی دوستی ہو گئی۔ وہ نرم گفتار تھے اور خوش اخلاق! کئی بار اپنے گھر لے گئے جو انہیں سفارت خانے کی طرف سے ملا ہوا تھا۔ میں ہوٹل میں رہ رہا تھا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ میں ان کے گھر قیام کروں مگر میں نے معذرت کی۔ یہ اور بات کہ دن ان کے ساتھ‘ ان کے دفتر ہی میں گزرتا تھا۔ ان دنوں پاکستان میں چینی کی شدید قلت تھی۔ دو تین کلو چینی کے لیے بھی لوگ دھکے کھاتے پھرتے تھے۔ ایک دن منیر صاحب نے ایک ڈبہ دکھایا کہ اس میں ایک کلو چینی ہے اور ایسے ڈبے جتنے چاہیں بازار سے لے سکتے ہیں۔ مجھے اطالویوں پر رشک آیا۔ ان کا بیٹا تھا‘ تین چار سال کا‘ میرے بڑے بیٹے جتنا‘ اور بیٹی دس بارہ برس کی تھی۔ ایک شام سفارت خانے کے ایک افسر کے گھر دعوت تھی جس میں بہت سے پاکستانی مدعو تھے۔ منیر صاحب نے اصرار کیا اور مجھے ساتھ لے کر گئے۔ الغرض منیر صاحب کا برتاؤ انتہائی مشفقانہ اور دوستانہ تھا۔
مالی مسائل طے ہو گئے تو میں نیپلز (اطالوی میں ناپُلی) چلا گیا جہاں یہ عرصہ مجھے گزارنا تھا اور جو روم سے تین گھنٹوں کی مسافت پر تھا۔ نیپلز‘ روم اور میلان کے بعد اٹلی کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ یہ دنیا کے ان قدیم ترین شہروں میں سے ہے جو مسلسل آباد چلے آ رہے ہیں۔ اس کی بنیاد قبل از مسیح میں یونانیوں نے رکھی تھی۔ یہ شہر قلعوں اور محلات کے لیے مشہور ہے۔ پِزا‘ جو آج پوری دنیا کا مقبول اور محبوب کھانا ہے‘ نیپلز ہی میں ایجاد ہوا تھا۔ یہ جو مشہور پِزا مارگریٹا ہے‘ یہ ملکہ مارگریٹا کے نام پر ہے جو اٹلی کی ملکہ تھی۔ یہ پِزا 1889ء میں بنا تھا۔ ملکہ نیپلز آئی تو والیٔ شہر نے اس کے لیے بہترین باورچی سے تین اقسام کے پِزا بنوائے۔ تینوں میں سے جو اسے پسند آیا اس کا نام ملکہ ہی کے نام پر مار گریٹا پڑ گیا۔ سمندری خوراک کے لیے بھی نیپلز مشہور ہے۔
نیپلز بد قسمتی سے زلزلوں کی آماجگاہ ہے۔ ارد گرد کا سارا علاقہ فالٹ لائن کے عین اوپر ہے۔ ستر عیسوی (70ء) کے لگ بھگ پومپی آئی نامی شہر میں بہت بڑا زلزلہ آیا تھا اور شہر لاوے کے نیچے دفن ہو گیا تھا۔ یہ پومپی آئی نیپلز کے قریب ہی ہے۔ اس علاقے میں کئی خوابیدہ آتش فشاں پہاڑ ہیں جو بیدار ہوتے ہیں تو تباہی لاتے ہیں۔ مجھے بھی یہاں زلزلے کا تجربہ ہوا۔ نومبر کی ایک سرد‘ ٹھٹھرتی شام تھی۔ میں اور میرا پاکستانی ( پختون) رُوم میٹ کھانا کھا رہے تھے۔ ہمارا اپارٹمنٹ ایک کثیر المنزلہ عمارت کی تیسری منزل پر تھا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ فرش پر گڑھا سا پڑ گیا۔ میرے ساتھی کے منہ سے نکلا ''زلزلہ‘‘۔ ہم باہر کی طرف بھاگے۔ اور سیڑھیاں اترتے باہر گلی میں پہنچے۔ تمام لوگ اُس کھلے میدان کا رُخ کر رہے تھے جو قریب ہی تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو میدان لوگوں سے بھر چکا تھا۔ یہ علاقہ جدید تھا اور اونچی عمارات پر مشتمل۔ یہ عمارات زلزلے سے بچاؤ کے لیے جدید ترین تکنیک سے بنائی گئی تھیں اور ان میں لچک تھی۔ اسی لیے گرنے سے بچ گئیں۔ جاپان میں بھی ایسی ہی عمارتیں بنائی جاتی ہیں۔ زلزلے کا مرکز صرف 28 میل دور تھا۔ ارد گرد کی بستیوں میں تباہی بہت ہوئی تھی۔ ہم اور دوسرے لوگ رات بھر اس میدان میں رہے۔ ہم ایشیائی اور افریقی تو چند گھنٹوں کے بعد زمین پر بیٹھ گئے۔ اطالوی مرد اور عورتیں صبح تک کھڑے ہی رہے۔ درخت کاٹے گئے اور میدان کے درمیان میں ساری رات آگ جلائی گئی۔
صبح ہوئی تو زلزلے کی وجہ سے شہر ازمنۂ وسطیٰ میں پہنچ چکا تھا۔ بجلی‘ ٹیلی فون‘ ٹرانسپورٹ اور دیگر سروسز تلپٹ ہو چکی تھیں۔ میں نے سوچا روم چلا جاؤں۔ خوش قسمتی سے روم جانے کی ٹرین مل گئی۔ سفارت خانے میں منیر صاحب کے پاس گیا۔ بہت تپاک سے پیش آئے۔ تسلی دی‘ کہنے لگے: چھٹی تو شام کو ہو گی آپ کو میں گھر چھوڑ آتا ہوں۔ میں نے کہا: مجھے گھر کا راستہ معلوم ہے۔ میں بس میں بیٹھا اور ان کے گھر پہنچ گیا۔ گھر والے منتظر تھے۔ کھانا کھایا۔ پاکستانی سٹائل کی چائے پی۔ جان میں جان آئی۔ تین چار دن منیر صاحب کے گھر میں رہا۔ یوں لگا جیسے اپنا ہی گھر ہو! سادگی‘ پیار‘ خلوص‘ بچوں کی چہل پہل! پاکستانی چپاتیاں اور پاکستانی سالن! چوتھے دن نیپلز واپس چلا گیا۔ معطل سروسز بحال ہو چکی تھیں۔ زندگی معمول پر آگئی تھی۔ یہ اور بات کہ زلزلے کے جھٹکے (آفٹر شاکس) کئی ہفتے آتے رہے۔ ہم اوور کوٹ پہن کر سوتے کہ کسی بھی وقت باہر نکل سکیں۔ ایک رات باہر موسلا دھار بارش تھی۔ زلزلے کے جھٹکے شروع ہوئے‘ کافی تیز اور ٹھیک ٹھاک جھٹکے تھے۔ ہم نے اللہ کا نام لے کر فیصلہ کیا کہ باہر بارش اور شدید سردی میں جانے سے بہتر ہے کمرے ہی میں رہیں۔ اللہ نے کرم کیا اور جھٹکے ختم ہو گئے۔
واپس پاکستان پہنچ کر منیر صاحب کا پتا کرتا رہا۔ روم میں ان کی مدتِ ملازمت باقی تھی۔ پھر وہ واپس آگئے۔ کچھ تھوڑی بہت بچت‘ جو باہر رہ کر کر سکے تھے‘ اس سے سیکٹر جی نائن میں‘ کراچی کمپنی کے نزدیک‘ ایک چھوٹا سا گھر انہوں نے بنوا لیا۔ کچھ عرصہ ہماری ملاقاتیں جاری رہیں۔ پھر وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ میں زمانے کی تہہ در تہہ گردشوں میں پھنس گیا۔ کبھی سفر! کبھی قیام کی مصروفیات۔ کبھی ملک کے اندر! کبھی باہر! نوکری! بچے! گھر کے کام! والدین کی صحت کے مسائل۔ گاؤں۔ شاعری کی لت اور بہت سی دیگر مصروفیات اور ذمہ داریاں! منیر صاحب سے رابطہ ٹوٹ گیا اور ایسا ٹوٹا کہ پھر ملنا ہی نہ ہوا۔
اب جب خود نوشت لکھنا شروع کی تو کئی ابواب لکھ چکنے کے بعد قلم اٹلی کے قیام پر پہنچا۔ خطوط جو وہاں سے گھر والوں کو لکھتا رہا‘ محفوظ تھے۔ انہیں نکالا اور 40 برس بعد پڑھنا شروع کیے۔ منیر صاحب کا ذکر کئی خطوں میں تھا۔ ان کی یاد آئی اور شدت سے آئی۔ ایک صبح گاڑی میں بیٹھا اور اس گلی میں جا پہنچا جہاں ان کا گھر تھا۔ تین چار گھروں سے پتا کیا۔ یہ لوگ انہیں نہیں جانتے تھے۔ ایک گھرمیں گھنٹی دی تو ساتھ والے گھر سے ایک معمر خاتون نمودار ہوئیں۔ کہنے لگیں: یہ لوگ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ پوچھا :کیا یہاں‘ ارد گرد‘ کوئی منیر صاحب رہتے ہیں جو وزارتِ خارجہ میں کام کرتے تھے؟ بولیں‘ اسی گھر میں رہتے تھے۔ گزشتہ سال انتقال کر گئے!
لوٹ کر گھر پہنچا تو زبان گنگ تھی۔ ٹانگوں میں جیسے جان نہیں تھی۔ کسی سے بات کیے بغیر کمرے میں گیا اور لیٹ گیا۔ کاش ان سے رابطہ نہ ٹوٹتا۔ کاش ہم ملتے رہتے۔ کاش ان کے آخری دنوں میں مَیں ان کا خیال رکھتا جیسے غریب الوطنی میں انہوں نے میرا خیال رکھا تھا! منیر نیازی نے کہا تھا ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں! ہم ہمیشہ دیر کر دیتے ہیں! آخر ہم ہمیشہ دیر کیوں کر دیتے ہیں؟؟

Tuesday, August 13, 2024

یار ارشد ندیم۔ !!

یار ارشد ندیم! یہ تم نے کیا کیا؟ 

اگر ہمیں ہارٹ اٹیک ہو جاتا تو؟ ہم تو خوشیوں کے عادی ہی نہیں! ہم نے تو برسوں سے کیا‘ دہائیوں سے کوئی خوشی نہیں دیکھی! مثنوی رومی میں حکایت بیان کی گئی ہے کہ خاکروب عطر فروشوں کے بازار میں چلا گیا تھا اور بے ہوش ہو گیا تھا۔ تم تو ہمیں عطر فروشوں کے بازار میں لے گئے! ہمیں تو خوشبو لگائے ہوئے‘ خوشبو سونگھے ہوئے‘ زمانے ہو چکے تھے! ہم تو چیتھڑوں کے عادی تھے۔ تم نے ہمیں ریشمی پوشاک پہنا دی!
اور یہ قومی اسمبلی میں تم نے کیا کرا دیا۔ وہ تو اکھاڑہ تھا۔ وہاں تو سر پھٹول کے مناظر ہوا کرتے تھے۔ وہاں تو فریقین تیر برساتے تھے۔ توپیں چلاتے تھے۔ ایک دوسرے کو للکارتے تھے۔ تم نے حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار کو اکٹھا کر دیا۔ تم وہ عظیم لمحہ لے کر آئے جس میں سارا ایوان تمہاری دی ہوئی مسرت منانے میں متحد تھا۔ تمہاری کامیابی نے ہمیں یاد دلایا کہ وطن کی عزت میں‘ وطن کی خوشی میں سب شریک ہیں۔ تم نے ہمیں وہ لمحہ دیا جب کوئی مسلم لیگ تھی نہ تحریک انصاف‘ نہ پی پی پی۔ کوئی سندھی تھا نہ پنجابی نہ پختون نہ بلوچ نہ بلتستانی نہ کشمیری! بلکہ سب پاکستانی تھے! صرف اور صرف پاکستانی!! 
تم نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ بڑا آدمی بننے کے لیے بڑے گھر میں پیدا ہونا ضروری نہیں! تم ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ ایک عام سے گھر میں! مٹی اور اینٹوں سے بنے ہوئے نیم پختہ گھر میں پلے بڑھے! تم ناشتہ کرنے کے لیے ڈائننگ روم میں بچھے ہوئے ٹیبل پر نہیں بیٹھتے تھے! بٹلر تمہارے گلاس میں جوس نہیں انڈیلتا تھا۔ تمہیں سکول لے جانے کے لیے جہازی سائز کی کار کیا‘ چھوٹی گاڑی بھی نہیں میسر تھی! تم تو ماں کے پاس‘ فرشِ زمین پر بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے تھے۔ پھر پیدل سکول جاتے تھے۔ ایسا سکول جو صرف ہماری بستیوں اور قریوں میں ہوتا ہے‘ شہروں میں نہیں! تمہارا باپ ایم این اے تھا نہ جرنیل‘ سی ایس پی تھا نہ وزیر‘ فیوڈل تھا نہ ٹائیکون! سیٹھ تھا نہ شیخ الاسلام! تمہاری کوئی لابی تھی نہ پی آر! سلام ہے تمہاری ماں کو جس نے ماتھے کے اوپر تک دوپٹے سے سر ڈھانپا ہوا تھا! جس کے مقدس ہاتھوں سے پکی ہوئی روٹیوں اور اینٹوں کے بنے ہوئے چولہے پر پکائے گئے سالن سے تم نشوونما پاتے رہے! تمہاری عظیم ماں نے ثابت کر دیا کہ ملک کو ہیرے جیسا بیٹا دینے کے لیے ''بیگم صاحبہ‘‘ کہلانا لازم نہیں! دن اور رات فیس بُک پر گزارنا ضروری نہیں! گُچی کا ہینڈ بیگ لٹکانا اور اونچے برانڈ کا چشمہ پہننا کافی نہیں! برانڈڈ ملبوسات کی دکانوں میں‘ سیل کے مواقع پر دوسری عورتوں سے گتھم گتھا ہونے سے اولاد کامران اور ظفریاب نہیں ہوتی! اکل حلال کھلا کر اچھی تربیت دینے سے بچے وطن کا اثاثہ بنتے ہیں اور اپنی دھرتی کا‘ اپنی مٹی کا قرض چکاتے ہیں! تم لندن میں پولو کھیلے نہ ابوظہبی میں گالف! تمہارے باپ کا لندن میں فلیٹ تھا نہ دبئی میں محل! تمہارا باپ ایک مزدور ہے! تم نے ثابت کر دیا کہ کچھ لوگ وطن کو کھانے اور چوسنے والے ہیں اور کچھ وطن پر اپنا خون پسینہ نچھاور کرنے والے! کچھ وطن کو دینے والے ہیں اور کچھ وطن سے چھیننے والے! کچھ اثاثہ ہیں اور کچھ بوجھ! کچھ وطن کی آنکھیں نیچی کرتے ہیں اور کچھ کی وجہ سے وطن کا سر فخر سے بلند ہوتا ہے!
کامل اس فرقۂ زہّاد میں اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
اور ڈر ہے کہ تم کہیں ہماری عادتیں نہ خراب کر دو! ہم تو بڑی اور عظیم شخصیتوں کے اُن بیٹوں کے عادی ہیں جو خواتین کو موت کے گھاٹ اتار کر زندانوں میں بیٹھے ہیں اور اُس رہائی کے منتظر ہیں جو یقینی ہے! ہم تو ان نوجوانوں کے عادی ہیں جو پیدائش سے پہلے ہی ارب پتی ہو تے ہیں اور ہوش سنبھالتے ہی ایوانوں میں پہنچ جاتے ہیں! ہم تو اُن شاہ رخوں کے عادی ہیں جو قتل کر کے انگلیوں سے فتح کا نشان بناتے ہیں! تم نے ہمیں بتایا کہ فتح کا نشان بنانے کیلئے عالمی میدان میں مقابلہ کر کے سونے کا تمغہ جیتنا پڑتا ہے!
اور یہ تعلیمی ادارے جو طبقاتی امتیاز کی علامت ہیں‘ جن میں امرا کے بچے پڑھتے ہیں‘ جن کے کلاس روم ایئر کنڈیشنڈ ہیں‘ جن کی فیسیں لاکھوں کروڑوں میں ہیں‘ انہوں نے کتنے ارشد ندیم پیدا کیے ہیں؟ ہاں وہاں سے حکمران ضرور نکلتے ہیں۔ یہ حکمران اپنے‘ اپنے خاندان کے اور اپنے متعدد محلات کے اخراجات قومی خزانے سے پورے کرتے ہیں۔ جائدادوں میں اضافے کرتے ہیں۔ بادشاہوں کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ اور آخر میں وہاں جا پہنچتے ہیں جہاں حکمرانی کا نشان تک نہیں ملتا۔
ارشد ندیم میاں چنوں کا ہے۔ یہ جو میاں چنوں جیسی ہزاروں بستیاں گلگت سے لے کر حیدرآباد تک اور کوئٹہ سے لے کر قصور تک پھیلی ہوئی ہیں‘ بنیادی سہولتوں سے محروم‘ دھول میں لپٹی ہوئی‘ کہیں پانی نہیں ہے تو کہیں بجلی نہیں‘ سڑکیں ٹوٹی ہوئیں‘ سکولوں کی چھتیں ہیں تو دیواریں نہیں اور دیواریں ہیں تو اساتذہ نہیں‘ جہاں پینے کا صاف پانی ہے نہ ماسٹر صاحب کے لیے سالم کرسی! جہاں ہسپتال ہیں نہ دواؤں کی دکانیں! ارشد ندیم جیسے موتی انہی خاک اڑاتی بستیوں میں گرد وغبار میں چھپے پڑے ہیں! اے اہلِ اقتدار! اے صاحبانِ اختیار! ان گرد آلود قریوں پر توجہ دو! ان موتیوں کو سنبھالو! یہی وطن کا سب سے قیمتی سرمایہ ہیں! اس ملک میں صرف لاہور‘ اسلام آباد‘ کراچی‘ پشاور اور کوئٹہ نہیں ہیں۔ اس ملک میں ہزاروں بستیاں بہترین افرادی قوت سے بھری ہوئی ہیں! ان بستیوں میں ملک کے بہترین دماغ ہیں اور بلند ترین آئی کیو ہیں! ان نظر انداز شدہ بستیوں میں کئی سائنسدان‘ کئی ڈاکٹر کئی کھلاڑی‘ کئی انجینئر چھپے ہوئے ہیں جو اس ملک کا نام آسمانوں تک لے جا سکتے ہیں مگر افسوس! صد افسوس! ہمارے اربابِ اختیار کاپاکستان صرف نصف درجن شہروں تک محدود ہے! کون سا حکمران‘ وفاقی یا صوبائی‘ کبھی کسی گاؤں کے سرکاری سکول کو دیکھنے گیا ہے؟
اور ہاں! یار ارشد ندیم! دست بستہ گزارش ہے کہ بھول کر بھی سیاست کے خارزار میں قدم نہ دھرنا! قدرت نے جو عزت بخشی ہے اسے قائم رکھنا! آج تم پورے ملک کی اور اُن تمام پاکستانیوں کی جو کرۂ ارض پر پھیلے ہوئے ہیں‘ آنکھوں کا تارا ہو! بے شمار آنکھوں سے تمہاری بے مثال کامیابی پر خوشی کے آنسو چھلکے ہیں! اپنے شیدائیوں کے دلوں کو ٹھیس نہ پہنچانا‘ اس لیے کہ سیاست کی بے رحم قینچی سب سے پہلے محبت کو کاٹتی ہے۔ سیاست اتحاد کو پارہ پارہ کرتی ہے اور پھر یہ ہر کسی کے بس کی بات بھی نہیں! ہم سیاست کے سوراخ سے ایک بار ڈسے جا چکے ہیں اور دوسری بار ڈسے جانا عقلمندی نہیں! ہم ایک ہیرے کو سیاست کے کیچڑ سے آلودہ کر چکے ہیں! اگر وہ ہیرا سیاست کی بھینٹ نہ چڑھتا تو اس وقت تک ملک اعلیٰ درجے کی یونیورسٹیوں سے بھر چکا ہوتا اور شہر شہر ہی نہیں‘ قصبے قصبے بھی ہسپتال بن چکے ہوتے! تم نے ملک کی بہت بڑی خدمت کی ہے! دعا ہے کہ جب تک تم ریٹائر نہیں ہوتے‘ طلائی تمغے جیتتے رہو اور پاکستان کا سبز پرچم افق افق لہراتے رہو۔ اور جب ریٹائر ہو جاؤ تو ان گرد اڑاتی بستیوں اور قریوں میں اپنے جیسے ہیروں کو تلاش کر کے انہیں تراشنے کا کام کرو! ٹیلنٹ رکھنے والے نوجوانوں کو ڈھونڈو اور ان کی رہنمائی کرو! ایک جوہرِقابل ہی دوسرے جوہرِ قابل کو پہچان سکتا ہے!!

Monday, August 12, 2024

بنگلہ دیش… اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟؟


بوڑھا چینی قلاش تھا۔ پوشاک میسر نہ پیٹ بھر کر روٹی۔ پھر بھی بادشاہ اس پر رشک کرتے۔ اس لیے کہ اس کے پاس ایک ایسا سفید گھوڑا تھا جو اُس وقت کی ساری دنیا میں بے مثال تھا۔ گھوڑا کیا تھا بادل کا سفید ٹکڑا تھا۔ چلتا نہیں تھا تیرتا تھا۔ بادشاہ نے منہ مانگی قیمت دینے کی بات کی۔ زمین جائداد بھی دینے کے لیے تیار تھا مگر بوڑھے نے ہمیشہ ایک ہی بات کی کہ گھوڑا اس کا فیملی ممبر ہے۔ بیچنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ایک صبح بوڑھے نے دیکھا کہ گھوڑا غائب ہے۔ اب گاؤں کے لوگوں نے لعن طعن کی کہ جب دولت اور جاگیریں مل رہی تھیں اُس وقت گھوڑا بیچ دیتا۔ بدقسمتی کہ گھوڑا چوری ہو گیا۔ بوڑھے نے جواب دیا کہ بات اتنی سی ہے کہ گھوڑا موجود نہیں۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ بدقسمتی ہے۔ کچھ ہفتے گزرے تھے کہ گھوڑا واپس آ گیا اور وہ اکیلا نہیں تھا۔ ا س کے ساتھ بارہ خوبصورت جنگلی گھوڑے تھے۔ اب گاؤں کے لوگ مبارک دینے آئے اور کہنے لگے یہ تو خوش قسمتی ہے۔ بوڑھا ہنسا اور کہنے لگا: سچ صرف یہ ہے کہ گھوڑا چلا گیا تھا‘ واپس آیا تو ساتھ بارہ گھوڑوں کو لے کر آیا۔ یہ ایک جزو ہے‘ کُل نہیں۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ خوش بختی ہے یا بدقسمتی! بوڑھے کا ایک بیٹا تھا‘ نوجوان اور خوبصورت۔ بوڑھے کی گویا اس میں جان اٹکی ہوئی تھی۔ بیٹے نے جنگلی گھوڑوں کو سدھانا شروع کر دیا۔ ایک دن ایک اَتھرے گھوڑے نے اسے زمین پر پھینک دیا۔ اس کی ٹانگ کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی۔ اب لوگ آئے افسوس کرنے۔ انہوں نے بوڑھے کو کہا: تم بے سہارا ہو گئے۔ تمہاری قسمت خراب ہے۔ بوڑھے نے وہی جواب دیا کہ حقیقت صرف یہ ہے کہ میرے بیٹے کی ٹانگ فریکچر ہو گئی ہے‘ آگے کیا ہو گا ہمیں نہیں معلوم! اس اثنا میں بوڑھے کے ملک پر دشمن نے حملہ کر دیا۔ جنگ چھڑ گئی۔ ملک پر جبری بھرتی کا قانون نافذ کر دیا گیا۔ سرکاری کارندے گاؤں میں بھی آئے اور تمام جوان مردوں کو پکڑ کر لے گئے۔ گاؤں میں کہرام مچ گیا۔ بوڑھے باپ اور مائیں رونے لگ گئیں۔ کچھ نوجوانوں نے چھپنے کی کوشش کی مگر پکڑے گئے۔ بوڑھے کا بیٹا بچ گیا کیونکہ اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی۔ وہ چل ہی نہیں سکتا تھا۔ اب گاؤں کے لوگوں نے بوڑھے کو خوش قسمت قرار دیا مگر بوڑھے نے کہا کہ خوش قسمتی یا بدقسمتی کا فیصلہ اس مرحلے پر نہیں کیا جا سکتا۔
یہ کہانی اشفاق احمد نے لکھی ہے۔ انہیں ابن انشا نے سنائی تھی۔ میری رہنمائی اس کہانی تک جناب عامر ہاشم خاکوانی نے کی ہے۔
بنگلہ دیش کے واقعات پر یہ جو بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں‘ یہ سب قبل از وقت کی بیکار باتیں ہیں! خاص طور پر جو لوگ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی ایسا ہو‘ انہیں خدا کا خوف کرنا چاہیے۔ وہاں سینکڑوں افراد مارے گئے ہیں۔ پولیس نے کام کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ چیف جسٹس اور مرکزی بینک کا سربراہ مستعفی ہو گئے ہیں۔ ملک میں انارکی ہے۔ خدا نہ کرے پاکستان میں ایسی قتل و غارت ہو۔
سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہوا‘ کیا بنگلہ دیش کے لیے اچھا ہے یا برا؟ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ہی رائے دی جا سکے گی۔ 1975ء میں شیخ مجیب الرحمان کو سارے خاندان سمیت قتل کر دیا گیا سوائے حسینہ اور ان کی بہن ریحانہ کے‘ جو ملک سے باہر تھیں۔ کیا اُس وقت کوئی سوچ سکتا تھا کہ اسی مجیب الرحمان کی بیٹی پندرہ سال تک متواتر ملک پر حکومت کرے گی؟ مگر یہ انہونی ہو کر رہی۔ جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ شیخ حسینہ واجد کی کہانی ختم ہو گئی ہے‘ انہیں بوڑھے چینی کی بات یاد کرنی چاہیے۔ کل مجیب الرحمان مارا گیا۔ اس کی بیٹی وزیراعظم بن گئی۔ آج بیٹی ہٹا دی گئی۔ کل کون جانے اس کا بیٹا آ جائے۔ بیٹے کی اس بات میں وزن ہے کہ حسینہ نے استعفیٰ نہیں دیا۔کل معاملہ عدالت میں گیا تو کیا ہو گا؟
بنگالی ایک جذباتی قوم ہے۔ ان کی نفسیات ہجوم گردی سے عبارت ہے۔ مغربی پاکستان اور پاکستان کی وفاقی حکومت نے ان کے ساتھ چوبیس برس تک اتنی ناانصافیاں کیں کہ من حیث القوم وہ چڑچڑے اور سفاک ہو چکے ہیں۔ رہی سہی کسر مارچ 1971ء کے آرمی ایکشن نے نکال دی۔ یوں بھی کہاوت ہے کہ ایک بنگالی مظاہرہ کرتا ہے‘ دو ہو جائیں تو تحریک برپا کر دیتے ہیں اور تین ہوں تو وہ ہجوم بن جاتا ہے۔ احراریوں کے بارے میں بھی اسی قسم کی بات کی جاتی تھی کہ احراری تعداد میں تین ہوں اور ان کے پاس آٹھ آنے ہوں تو اگلی صبح وہ تحریک چلا دیں گے۔ موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی سماجی اور سیاسی حرکیات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ نفسیات بھی الگ الگ ہیں۔ بنگلہ دیش ایک لسانی اور نسلی اکائی پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں کئی زبانیں ہیں اور کئی نسلیں! کئی صوبے ہیں! جس طرح بنگالی سڑکوں پر آئے‘ مشکل ہے کہ پاکستانی نکلیں۔ بجلی کے بل جس طرح آ رہے ہیں‘ نکلنا ہوتا تو اس موقع پر نکل آتے۔
نوبیل انعام یافتہ محمد یونس نے نئی حکومت کی سربراہی قبول کر کے غلطی کی ہے۔ وہ کانٹوں بھری سیج پر بیٹھ گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں وہ ایک متنازع شخصیت بن جائیں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ان کی مخالفت نہ ہو۔ وہ لائق انسان ہیں مگر ملک کے سیاسی پُرپیچ راستوں سے ناواقف ہیں۔ انہیں حکومت چلانے کا پہلے سے تجربہ نہیں۔ بینک چلانے اور ملک چلانے میں بہت فرق ہے۔ پھر‘ بنگلہ دیش کی معیشت بھی پہلے جتنی طاقتور نہیں رہی۔ چھبیس چھبیس سال کے سٹوڈنٹس کو کابینہ میں لے کر جھگڑوں کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ اللہ کرے کہ اس عاشقی میں عزتِ سادات قائم رہے۔ اسی لیے عقل مند لوگوں نے ترپن سال پہلے کہا تھا کہ بے وقوفو! شیخ مجیب الرحمان کو حکومت دے دو۔ ایک آدھ سال ہی میں بنگالی ان سے ناراض ہو جائیں گے۔ عوامی لیگ آج بھی ایک سیاسی حقیت ہے۔ بہت جلد جب بنگلہ دیشی غیظ وغضب کی حالت سے نکل آئیں گے اور جب گرد بیٹھ جائے گی تو سوچیں گے کہ انہیں الگ ملک دلانے میں اہم ترین کردار تو شیخ مجیب ہی کا تھا۔ ورنہ بابائے قوم کون ہو گا؟ کچھ بزرجمہر بنگلہ دیش کے ان واقعات کو عرب بہار سے تشبیہ دے رہیں۔ عرب بہار کے جو پھول مصر‘ لیبیا اور شام میں کِھلے ہیں‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انارکی ایک ایسی ماں ہے جس نے کبھی تندرست بچہ جنم نہیں دیا!
شیخ حسینہ واجد میں عقل ہوتی اور مستقبل بینی کی صلاحیت‘ تو دس سال حکومت کرنے کے بعد ریٹائر ہو جاتیں اور عزت سے ڈھاکہ میں زندگی گزارتیں۔ مگر ایسا کرنے کے لیے بڑا دل اور اس سے بھی بڑادماغ چاہیے اور یہ دونوں چیزیں نیلسن منڈیلا میں تھیں۔ اس نے اقتدار کو وقت پر خیرباد کہہ دیا اور بے پناہ عزت پائی۔ کسی نے پوچھا: ادب کن سے سیکھا؟ جواب ملا: بے ادبوں سے کہ جو کچھ بے ادب کرتے رہے‘ اس سے اجتناب کیا گیا۔ ہمارے حکمرانوں کو اُن کاموں کی فہرست بنانی چاہیے جو حسینہ واجد نے کیے اور جن کی وجہ سے لوگ بپھر گئے۔ پھر حکمرانوں کو ان تمام کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ورنہ ایسے کاموں کا انجام وہی ہو گا جو ہوا ہے اور ہوتا آیا ہے!!!! نوشتۂ دیوار وقت پر پڑھ لینا چاہیے!!!

Thursday, August 08, 2024

ہیروں کی کان جو آپ کے قدموں تلے ہے


''پاکستان چھوڑ کر کیوں نہیں گئے؟‘‘ پاکستان چھوڑ کر نہیں گیا کیونکہ پاکستان نے مجھے تعلیم دی۔ جو بھی میں نے زندگی میں کیا ہے وہ پاکستان کی دی ہوئی تعلیم سے کیا ہے۔ میں نے بھی ٹاٹ سکول سے زندگی سٹارٹ کی تھی۔ اب جب میں کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو کیا یہ کہوں کہ یار! یہ ملک میرے لیے ٹھیک نہیں ہے؟ کیا میں کہیں اور پیدا ہوا تھا؟ میرا تو وطن یہی ہے اور جس کا وطن نہیں ہے‘ جیسے کسی افغانی سے پوچھیں جو یہاں آیا ہوا ہے اور جدوجہد کر رہا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اللہ نے ملک دیا ہے‘ آپ سکون کے ساتھ اس میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ناشکری سے اللہ تعالیٰ بچائے۔ پاکستان نے مجھے بہت کچھ دیا ہے۔ میں نہ تو امیر آدمی کا بیٹا تھا نہ مجھے آؤٹ آف لائن ایسے پیسے ملے ہیں جو جائز نہیں تھے۔ یہیں کام کیا ہے۔ یہیں محنت کی ہے۔ جو پروڈکٹ میں بنا رہا ہوں وہ جرمن مجھ سے خریدنے میں خوش ہیں۔ لیکن جب میں پاکستان میں کام کر رہا ہوں تو پاکستان کے لیے کر رہا ہوں! ہزار ہا لوگ میری فیکٹری میں آئے جن کی میں نے ٹریننگ کی۔ پھر انہیں مختلف اداروں میں نوکریاں ملیں۔ میں اگر امریکہ چلا جاؤں تو میرا دال دلیا تو ٹھیک ہو جائے گا مگر یہاں جو کام کر رہا ہوں وہ ختم ہو جائے گا۔ اللہ نے میرا دال دلیا بھی یہاں ٹھیک کر دیا ہے۔ اور یہ صرف میری سٹوری نہیں ہے۔ بے شمار لوگوں کی ہے۔ اصل میں کچھ لوگ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ انہوں نے فلمیں دیکھی ہوتی ہیں جن میں ایک دن بندہ مزدور ہوتا ہے اور دوسرے دن سیٹھ بنا ہوتا ہے۔ نوکر آگے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں۔ ایسا بس فلموں ہی میں ہوتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ 
Easy money comes only in movies
۔ حقیقی زندگی میں کچھ کرنا ہے تو محنت کرنا ہو گی۔ کوشش کرنا پڑے گی۔ بد قسمتی سے ہمارا نوجوان اس ذہنیت میں پڑ گیا ہے کہ فوراً امیر ہو جائے اور کہتا ہے ''پاکستان میں کچھ نہیں رکھا ہوا میں سپین جا رہا ہوں‘‘۔ میں سپین میں تھا۔ وہاں لاکھوں زیتون کے درخت ہیں۔ انہیں پاکستان سے لیبر چاہیے۔ تو وہ لیبر آپ یہاں بھی کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں بہت مثالیں ہیں۔ بہت سوں نے پاکستان ہی میں قسمت بنائی ہے اور حق حلال سے بنائی ہے۔ نپولین ہِل کی ایک کتاب ہے: 
Think and grow rich
۔ اس کا پہلا باب ہے ''ہیروں سے بھرے ہوئے ایکڑ‘‘۔ اس میں بتایا ہے کہ امریکہ میں ایک شخص کے پاس زمین تھی مگر بنجر تھی۔ اس میں اُگتا کچھ نہیں تھا۔ کسی نے مشورہ دیا کہ آگے چلے جاؤ فلاں زمین ہے جو زرخیز ہے اور سستی بھی۔ جتنے میں یہ بیچو گے اس میں وہاں کئی گنا زیادہ زمین مل جائے گی۔ چنانچہ اس نے وہ زمین بیچی اور چلا گیا۔ جس نے یہ زمین خریدی وہ اسی زمین میں ایک چشمے سے گھوڑے کو پانی پلا رہا تھا۔ گھوڑے کے پینے سے پانی میں ارتعاش پیدا ہوا۔ پانی ہِلا تو وہاں کوئی چمکدار شے نظر آئی۔ اس نے پانی میں ہاتھ ڈال کر اسے نکالا تو اسے لگا کہ وہ کوئی قیمتی پتھر ہے۔ وہ اسے جوہری کے پاس لے گیا۔ جوہری نے پوچھا: یہ تم نے کدھر سے لیا ہے؟ یہ تو ہیرا ہے اور بہت مہنگا ہے۔ زمین کے اس نئے مالک نے وہاں کھدائی شروع کر دی۔ وہ جگہ امریکہ کی بہت بڑی ہیروں کی کان ثابت ہوئی‘‘۔
یہ طویل اقتباس‘ امتیاز رستگار صاحب کے ایک انٹرویو کا حصہ ہے۔ رستگار صاحب ایک سیلف میڈ آدمی ہیں۔ صنعتکار ہیں۔ ایکسپورٹر ہیں اور کنسلٹنٹ! پاکستان میں وزیر رہے۔ نیدرلینڈز حکومت کے مشیر رہے۔ بے شمار کمپنیوں کو ٹریننگ دی۔ انڈونیشیا‘ فلپائن‘ ویتنام‘ مراکش اور مصر کے کاروباری افراد کی بھی تربیت کی۔ ایک کتاب بھی لکھی جس کا عنوان ہے: 
Stand Up & be Counted with a Global Mindset
۔ یہ کتاب چھوٹی اور درمیانی سطح کا کاروبار کرنے والوں (SME) کو رہنمائی مہیا کرتی ہے۔
ہم میں سے بہت سوں کو امتیاز رستگار صاحب کی مندرجہ بالا باتوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو باہر گئے ہیں‘ وہ زر مبادلہ بھیج رہے ہیں۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جن تارکین وطن کے قریبی رشتہ دار پاکستان میں نہیں ہیں وہ زرمبادلہ نہیں بھیج رہے اور صرف اُس ملک کو بنا سنوار رہے ہیں جہاں رہ رہے ہیں۔ رستگار صاحب کا بنیادی نکتہ ہے کہ ''اب جب میں کسی کام کے قابل ہوا ہوں تو یہ کہوں کہ یار! یہ ملک میرے لیے ٹھیک نہیں ہے؟‘‘۔ جس ماں نے پال پوس کر بڑا کیا ہوتا ہے‘ پڑھایا ہوتا ہے‘ جب وہ بیمار ہو جائے تو کیا اسے ہم چھوڑ کر چلے جاتے ہیں؟ یہ دھرتی ہماری ماں ہے۔ یہ آج کل بیمار ہے‘ حالات ٹھیک نہیں۔ تو کیا ہم اسے چھوڑ کر بھاگ جائیں؟ میرے پڑھنے والے اکثر مجھے طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے تو اپنے بچے ملک سے باہر ہیں۔ تو گزارش ہے کہ میرے دو بچے اگر باہر ہیں تو تین‘ یہیں‘ اسی ملک میں محنت کر کے کما بھی رہے ہیں اور ملک کو دے بھی رہے ہیں۔ بے شمار لوگ جنہیں باہر بہت اچھی نوکریاں مل سکتی ہیں‘ نہیں جانا چاہتے اور کہتے ہیں کہ ہم نے یہیں رہنا ہے! ان میں سے کوئی بھی بھوکا نہیں مر رہا! یہ جو بیس بیس‘ چالیس چالیس لاکھ روپے دھوکے باز نام نہاد ایجنٹوں کو دے کر کشتیوں میں ڈوب رہے ہیں یا ٹرالوں کے سامان میں چھپے مر رہے ہیں‘ یہ اسی بیس یا چالیس لاکھ سے اپنے ہی ملک میں روٹی کما سکتے ہیں اور اچھی روٹی کما سکتے ہیں!
کسی کو یہ بات بری لگے یا اچھی‘ سچ یہ ہے کہ ہمارا ملک یہی ہے۔ اس نے ان شاء اللہ قائم ودائم رہنا ہے۔ قائداعظم چلے گئے‘ ملک باقی ہے۔ عمران خان‘ زرداری‘ شریف برادران‘ چودھری‘ مولانا‘ سب چلے جائیں گے‘ ملک باقی رہے گا۔ دنیا کی تاریخ پڑھیے‘ اس سے کئی گنا زیادہ خراب حالات میں ملکوں نے جدوجہد کی اور بحرانوں سے نکل آئے۔ ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ملک شخصیات سے نہیں‘ اداروں سے چلتے ہیں۔ جس دن ہمارے ہاں سول ادارے مضبوط اور خودکار ہو گئے ہم بھی شخصیات سے بے نیاز ہو جائیں گے اور شخصیت پرستی سے نجات پا لیں گے۔ نکسن‘ ریگن‘ بش اور جو بائیڈن میں سے کوئی بھی جینئس نہ تھا‘ نہ ہی جان میجر! نہ ہی کیئر سٹارمر کوئی نابغہ یا عبقری ہے۔ یہ سب اوسط درجے کی ذہانت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں۔ یہ ملک کو نہیں بلکہ خود انہیں ادارے چلاتے ہیں۔ کسی شخصیت پر انحصار کرنے والے ملک کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ آپ اس پوائنٹ کے جواب میں کہہ سکتے ہیں کہ سنگاپور کا لی اور ملائیشیا کا مہاتیر بھی تو شخصیات ہی تھیں مگر آپ بھول رہے ہیں کہ لی اور مہاتیر نے اپنے اپنے ملکوں کو سسٹم دیے جو آج‘ ان کے جانے کے بعد بھی‘ چل رہے ہیں! جبکہ حسنی مبارک اور قذافی قسم کے سربراہوں نے سسٹم نہیں بنائے اور حسینہ واجد نے جو سسٹم موجود تھا‘ اسے بھی تہس نہس کر دیا اور اپنی ذات کو لائل پور کا گھنٹہ گھر بنا دیا۔ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم ایسی شخصیات کے سحر میں تو نہیں مبتلا جو سسٹم بنا سکتے ہیں نہ لیڈرشپ پیدا کر سکتے ہیں۔ جو رہنما دو دو‘ تین تین دہائیوں میں اپنی اپنی جماعت میں اپنے جانشین نہیں پیدا کر سکے اور اپنی اپنی پارٹی کو کوئی سسٹم نہیں دے سکے وہ ملک کو کیا سسٹم دیں گے۔ یہ تو وہ رہنما ہیں جو اپنی پارٹی میں کسی لائق اور فعال شخص کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
مت بھولیے کہ آپ کے قدموں تلے ہیروں کی کان ہے۔

Tuesday, August 06, 2024

شیر شاہ سوری بنام مریم نواز




لاہور میں جرمن سیاح کے ساتھ پیش آنے والے سانحے کا جیسے ہی علم ہؤا، میں شیر شاہ سوری کو ملنے نکل پڑا۔



میری منزل سہسرام تھی جہاں شیر شاہ  کی جاگیر تھی۔ معلوم ہؤا وہ بابر کے دربار میں گیا ہؤاہے۔ اس پر میں آگرہ گیا۔ وہاں پہنچنے پر پتہ چلا  کہ بابر تو کب کا انتقال کر چکا۔ شیر شاہ سوری ہمایوں کو شکست دینے کے بعد اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ پھر خبر پہنچی کہ ہمایوں ایران بھاگ گیا اور شیر شاہ سوری کو تخت پر بیٹھے دو سال ہو چلے ہیں۔ میں اس کے پایۂ تخت پہنچا۔ اب اسے بادشاہ بنے پانچ سال ہونے کو تھے۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہؤا وہ کالنجر کے قلعے کو فتح کرنے گیا ہؤا ہے۔  اب میں منزلوں پر منزلیں مارتا کالنجر پہنچا۔ کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کیے، شیر شاہ سوری کو چھ ماہ ہو چکے تھے اور ابھی محاصرہ ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ بادشاہ کے سٹاف نے  بتایا کہ اس کے پاس تو کان کھجلانے کا وقت نہیں، مجھ سے کیسے ملے گا۔ بہر طور میں نے کئی ہفتے انتظار کیا۔ بالآخر مجھے بادشاہ کے حضور پیش ہونے کا موقع مل گیا۔



دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ نے صرف پانچ سال کی قلیل مدت میں ہندوستان کے طول و عرض میں امن قائم کر کے دکھا دیا۔ یوں تو بہت سے شعبوں میں انقلابی قدم اٹھائے۔ شاہراہیں اور  سرائیں تعمیر کیں ،   ڈاک  کا نظام بنایا مگر  اصل کارنامہ یہ ہے کہ ملک کے باشندوں  کو ڈاکؤوں ، چوروں،  لٹیروں اور قاتلوں سے نجات دلائی۔ اس کے بعد میں  نے عرض کیا کہ پنجاب میں ایک بی بی مریم نامی حکمران ہے۔ یوں تو وہ  دن رات محنت کر رہی ہے اور عوام کی فلاح  کے لیے کوشاں ہے مگر  صوبے میں ڈاکؤوں اور چوروں کا زور نہیں ٹوٹ رہا۔ میری یہ بات سنتے ہی  شیر شاہ نے اپنے ایک سٹاف افسر سے کچھ کہا۔ چونکہ اس نے بات پشتو میں کی تھی  اس لیے میں سمجھ نہ پایا۔ سٹاف افسر مجھے خیمے سے باہر لے آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ بادشاہ کے خیال میں میرا پیش کردہ مسئلہ طویل نشست کا متقاضی ہے ۔وہ تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اگلے منگل کے دن، رات کو طلب کیا ہے۔ اگلے منگل تک میں کیمپ ہی میں رہا۔  مجھے شاہی مہمان  کا رتبہ دیا گیا۔ سبز رنگ کا وسیع خیمہ میرے لیے نصب کیا گیا۔سبز رنگ کے خیمے کا مطلب تھا کہ میں  سرکاری مہمان ہوں۔ ایک خادم چوبیس گھنٹے میری دیکھ بھال پر مامور تھا۔خیمے کے دروازے پر شمشیر بردار پہریدار مقرر تھا۔ بادشاہ کے خاص مصاحب مجھے کھانا اپنے ساتھ کھلاتے۔ مصاحبان خاص کا دسترخوان  اس قدر وسیع تھا کہ دوسرا سرا نظر ہی نہیں آتا تھا۔  انواع و اقسام کے پکوان صبح شام حاضر کیے جاتے۔ کبھی ہرن کا بریاں گوشت، کبھی مسلّم دنبے، کبھی بھُنے ہوئے خرگوش، کبھی تیتر اور چکور کا گوشت۔پلاؤ میں اتنا گوشت ہوتا کہ چاول ڈھونڈنے پڑتے۔ مشہور افغان نان بھی ہوتی۔بنگال سے لے کر کابل تک کے پھل پیش کیے جاتے۔ خیر! مقررہ دن اور مقررہ وقت پر مجھے شاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کے سامنے دیوار پر قلعے کے قرب و جوار کے بڑے بڑے نقشے  آویزاں تھے ۔ وہ اپنے کمانڈروں کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ اس وقت بات فارسی میں ہو رہی تھی  اس لیے تھوڑی بہت میرے پلّے بھی پڑ رہی تھی۔ جب بادشاہ اس کام سے فارغ ہؤا  اور اس کے جرنیل آداب بجا لا کر رخصت ہو گئے تو وہ میری طرف متوجہ ہؤا! مجھے کاغذ اور قلم فراہم کیے گئے تا کہ میں ضروری نکات لکھ سکوں ۔ پھر ایک طرف بادشاہ کے سٹاف افسر  دست بستہ کھڑے ہو گئے۔  دوسری  طرف مجھے بٹھا یا گیا۔ درمیان میں سلطنت  کا میر منشی ( چیف سیکرٹری ) بیٹھا ہؤا تھا۔ بادشاہ ایک سنہری مرصع کرسی پر براجمان تھا۔ دو خادم اس کے پیچھے کھڑے مورچھل ہلا رہے تھے۔ساتھ ساتھ افغان قہوے کا دور چلتا رہا۔خیمے میں گہرا سناٹا تھا۔ بادشاہ نے بولنا شروع کیا ! 


“” میں نے سنا ہے کہ یہ بی بی ، جس کا نام مریم ہے، پنجاب کے امور سلطنت چابکدستی اور مہارت سے چلا رہی ہے اور،  اپنے  بزرگوں کے بر عکس ،  کوشش کر رہی ہے کہ کام میرٹ پر ہوں مگر کامیاب حکمرانی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سیاسی مداخلت کا درازہ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ نہ صرف بند کر دیا جائے بلکہ تالہ لگا کر کُنجی دریا میں پھینک دی جائے۔ جہاں تک  میری سلطنت میں ڈاکؤوں اور مجرموں کے  خاتمے کا تعلق ہے تو میرا طریقہ بہت آسان اور سادہ ہے۔ کسی شہر میں کوئی  ڈاکہ پڑے یا چوری ہو یا قتل ہو جائے تو میں پولیس کے  متعلقہ  داروغے کو  مجرم ڈھونڈنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیتا ہوں۔ اس عرصہ میں اگر داروغہ مجرم کو پیش نہیں کرتا تو ٹھیک آٹھویں  دن اُس کی گردن اُڑا دی جاتی ہے۔ ۔   رہا گاؤں کا مسئلہ ، تو وہاں نمبر دار کا فرض ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر مجرم کو پیش کرے ورنہ آٹھویں دن اسے جلاد کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔  مگر مجھے احساس ہے کہ آج کی دنیا میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ڈاکؤوں ، قاتلوں اور لٹیروں کے خاتمے کے لیے میری چند ہدایات ہیں جو بی بی مریم کو پہنچا دی جائیں۔ پہلی بات  —- یہ نکتہ سمجھ لیا جائے کہ بر صغیر کی پولیس ، خاص طور پر پنجاب کی پولیس،  اگر چاہے تو ساتویں زمین کے نیچے سے بھی مجرم کو ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس کے سربراہ کا مورال ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے افسر اور عملہ، اس کی اجازت کے بغیر ، کسی اور کے حکم سے تبدیل ہو تے ہیں تو آئی جی کی دلچسپی کام میں ختم ہو جاتی ہے۔ وہ یہ کہہ کر کہ “ ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی “ ایک طرف ہو جاتا ہے۔ دوسری بات ۔ — آئی جی کو یقین دلایا جائے کہ اس کی اقلیم میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی ۔ اس کے بدلے میں اسے کار کردگی دکھانا ہو گی۔ چھ ماہ یا سال کے بعد وزیر اعلی اس کی کارکردگی  کا جائزہ لے اور اگر معاملہ اطمینان بخش نہیں تو اسے  منصب سے فورا” ہٹا دیا جائے اور ایسی  سزا دی جائے کہ اس کے  کیریر ، تنخواہ اور مراعات پر گہری ضرب پڑے۔ تیسری بات—- یہ جو لاہور میں جرمن سائیکل سوار سیاح کے خیمے پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے اسے زدو کوب کیا گیا ہے، اس سے پانچ لاکھ روپے چھین لیے گئے ہیں اور اس کا سامان اور کیمرے لوٹ لیے گئے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ علاقے کا پولیس افسر اور اس کا سٹاف سب  رات کو سوتے رہے۔ وزیر اعلی کو  چاہیے کہ علاقے کے پولیس افسر کو ایک ہفتے کی مہلت دے۔ اگر اس عرصہ میں وہ مجرموں کو پیش نہ کر سکے تو  اصولی طور پر تو اس کی گردن اڑا دینی چاہیے مگر میں جانتا ہوں کہ اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ  اس کے رینک کو گھٹا دیا جائے ، اس کی پیٹی اتروا دی جائے اور اسے کسی دور افتادہ مقام پر بھیج دیا جائے ۔ وہاں وہ کسی افسر کے ماتحت کام کرے۔ اس کی رپورٹ میں اس کی ناکامی کا ذکر کر کے اسے  آئندہ کی ترقی  سے محروم رکھا جائے۔ خاتون وزیر اعلی کو میری طرف سے یقین دلایا جائے کہ اگر صرف تین چار افسروں کو ایسی سزا ملے گی تو باقی سب عبرت پکڑیں گے، راتوں کو عوام کے مال اور جان پر پہرا دیں گے اور یہ تو میں بتا ہی چکا ہوں کہ پنجاب پولیس چاہے تو مجرم کا بچ نکلنا ممکن ہی نہیں ۔


بادشاہ نے خلعتِ خاص عنایت کر کے مجھے بہت عزت کے ساتھ رخصت کیا۔ 

………………………………………………………………………

Monday, August 05, 2024

جناب احسن اقبال کی خدمت میں


منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر جناب احسن اقبال نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ( سی ڈی اے ) کو ہدایت کی ہے کہ دارالحکومت کے لیے عمودی (ملٹی سٹوری) تعمیرات کے حوالے سے پالیسی فریم ورک تیار کر کے پیش کریں! مزید کچھ لکھنے سے پہلے ہم احسن اقبال صاحب کے اس آئیڈیا کی تحسین کرتے ہیں۔ خدا خدا کر کے پالیسی سازوں میں سے کسی کو یہ خیال تو آیا۔ بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
وہ جو عام مقولہ سنتے آئے ہیں‘ لگتا ہے‘ اب پرانا ہو چکا ہے۔ مقولہ یہ تھا کہ ہندو وقت سے پہلے سوچتا ہے اور پیش بندی کر لیتا ہے۔ مسلمان عین وقت پر سوچتا ہے اور سکھ وقت یا موقع گزر جانے کے بعد سوچتا ہے۔ لیکن اب ہم سکھ برادری کا نمبر کاٹ گئے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی بنیاد 1960ء کے لگ بھگ پڑی تھی۔ عمودی تعمیرات بھی اسی وقت شروع ہو جانی چاہیے تھیں۔ تقریباً پون صدی گزرنے کے بعد اب ہمیں خیال آیا ہے کہ شہر کی توسیع افقی نہیں‘ عمودی ہونی چاہیے۔ یہ پون صدی محلات اور وسیع و عریض فارم ہاؤسز بنانے میں کٹ گئی۔ ذرا مارگلہ روڈ پر مکان دیکھیے۔ مشرقی کنارے سے مغربی سرے تک۔ شاید رباط اور ریاض میں بھی اتنے بڑے‘ وسیع وعریض محل نہ ہوں! یہ شہر جو بنیادی طور پر سرکاری ملازموں کے لیے بنا تھا‘ سب سے زیادہ سرکاری ملازموں کے لیے ہی ظالم نکلا۔ قیس کے محمل سے لیلیٰ کو اٹھا لیا گیا۔ سرکاری کوارٹر کا انتظار کرتے کرتے ریٹائرمنٹ آ جاتی ہے۔ پھر پارک روڈ پر ذرا فارم ہاؤسز دیکھیے۔ جرنیلوں‘ سیاستدانوں اور دیگر امرا کے ایکڑوں پر پھیلے ہوئے محلات!! الامان والحفیظ!! کاغذوں پر ان فارموں کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ شہر کی سبزی اور پھلوں کی ضرورت پوری ہو گی مگر عملاً یہ ہوا کہ شہر کا یہ حصہ طبقاتی امتیاز کا نشان بن گیا۔ اس احمقانہ پالیسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہر ایک طرف سے ٹیکسلا کو چھو رہا ہے اور دوسری طرف سے فتح جنگ کو‘ مگر رہائشی ضروریات پھر بھی پوری نہیں ہو رہیں!
جناب احسن اقبال کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس نیک کام کا انہوں نے بیڑہ اٹھایا ہے تو سب سے پہلے ایف سکس اور جی سکس سیکٹروں میں وسیع و عریض سرکاری مکانوں کو ملٹی سٹوری اپارٹمنٹس میں تبدیل کرنے کی صورت نکالیں۔ منہ زور بیورو کریسی اس قسم کے منصوبے میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالے گی لیکن حکومت اگر پُرعزم ہو تو نوکر شاہی پر غالب آ سکتی ہے۔ صدر غلام اسحاق کے عہد میں کوشش ہوئی تھی مگر ناکام رہی۔ یہ سلسلہ کب تک چلے گا کہ کچھ سرکاری ملازم ایک کمرے کے مکان کو ترس رہے ہیں اور کچھ ایکڑوں میں رہ رہے ہیں۔ حتیٰ کہ سینئر افسر بھی مکان کی امید میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ اگر جی سکس اور ایف سکس کے سرکاری محلات کو ملٹی سٹوری گھروں میں تبدیل کر دیا جائے تو بیس گنا زیادہ خاندانوں کو رہنے کی جگہ مل سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے عزم صمیم اور ثابت قدمی درکار ہو گی! یہ کام مرحلہ وار کیا جا سکتا ہے۔ وفاقی حکومت یہ پابندی بھی لگا سکتی ہے کہ دارالحکومت میں کوئی مکان دس یا بارہ مرلے سے بڑا نہیں ہو گا۔ اسلامی فقہ میں ایک قانون‘ قانونِ تحدید (Limitation) بھی ہے جس کی رُو سے ریاست ملکیت کی حد مقرر کر سکتی ہے۔ دولت کا بے تحاشا استعمال عام افراد کی نفسیات پر حوصلہ شکن اثرات ڈالے تو ریاست اس پر قبضہ بھی کر سکتی ہے۔ اپنے مال کو غلط استعمال کرنے والا مفسد قرار دیا جائے گا۔ اس کے خرید وفروخت اور انتقالِ ملکیت کے حق پر پابندی عائد کی جائے گی۔ چاروں فقہی مکاتب اس پر متفق ہیں۔ امیر المومنین عمر فاروقؓ نے کوفہ بستے وقت حکم دیا کہ کوئی ایک فرد تین سے زیادہ مکان تعمیر نہ کرے۔ اگر ریاست اسلحہ رکھنے پر یا کوئی چیز درآمد کرنے پر پابندی لگا سکتی ہے تو مکانوں کا سائز بھی متعین کر سکتی ہے۔ حکومت اگر اسلام آباد میں عمودی ہاؤسنگ کی پالیسی اپنانا چاہتی ہے تو اسے سنگاپور کی ہاؤسنگ پالیسی کا مشاہدہ اور مطالعہ کرنا چاہیے۔ کلچر کے لحاظ سے بھی سنگاپور کی مثال امریکہ اور یورپ کے مقابلے میں ہمیں زیادہ راس آئے گی۔
احسن اقبال صاحب نے سی ڈی اے کے سربراہ کو یہ حکم بھی دیا ہے کہ ایک جدید ''سٹیٹ آف دی آرٹ‘‘ نیشنل لائبریری تعمیر کی جائے۔ اس ضمن میں ہم تین ٹھوس تجاویز پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ 
1۔ احسن اقبال صاحب کو یاد ہو گا کہ پاکستان کونسل برائے قومی یکجہتی کی لائبریریاں ہر بڑے شہر میں موجود تھیں اور کام کر رہی تھیں۔ وہ لاکھوں کتابیں کیا ہوئیں؟ کہاں گئیں؟ سب سے پہلے تفتیش کر کے ان کتابوں کی بازیافت کی جائے۔ اگر ہڑپ کر لی گئی ہیں تو مجرموں کو بے نقاب کیا جائے۔ پاکستان کونسل کا ادارہ وزارت اطلاعات کے ماتحت تھا مگر اب تو اس ادارے کا وجود ہی نہیں۔ اس لیے نوکر شاہی کا ممکنہ موقف کہ یہ بازیافت وزارت اطلاعات کی ذمہ داری ہے‘ غلط ہو گا۔
2۔ نیشنل لائبریری پہلے سے موجود ہے۔ اس کی عمارت بھی ہے۔ صرف اس کا محل وقوع عام شہری کی رسائی میں نہیں۔ یہ لائبریری ریڈ زون کے بالکل وسط میں‘ وزیراعظم آفس کی بغل میں واقع ہے۔ جس نے بھی فیصلہ کیا تھا کہ نیشنل لائبریری ایسے مشکل اور ممنوعہ علاقے میں بنے‘ اس کی عقل پر ماتم کرنا چاہیے۔ جس نئی عمارت کی تعمیر کا وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی نے سی ڈی اے چیئرمین کو حکم دیا ہے‘ وہ شہر کے کسی مرکزی اور آسان مقام پر بنانی چاہیے۔ اس کے لیے بہترین جگہ زیرو پوائنٹ کے ارد گرد ہو گی۔ یا آب پارہ اور میلوڈی مارکیٹ کے قرب و جوار میں! تاکہ عام پاکستانی‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے‘ وہاں آسانی سے پہنچ سکے۔
3۔ ترقی یافتہ ملکوں کے ہر شہر میں ایک نہیں کئی لائبریریاں ہوتی ہیں! ہر سیکٹر میں‘ ہر محلے میں! مثلاً جیلانگ آسٹریلیا کا ایک قصبہ ہے‘ اس میں اٹھارہ لائبریریاں ہیں۔ کسی ایک لائبریری کا ممبر بننے سے تمام لائبریریوں تک دسترس ہو جاتی ہے۔ تیس کتابیں بیک وقت جاری کرائی جا سکتی ہیں۔ یہ سب کچھ تو ہمارے ہاں نہیں ممکن۔ مگر لائبریریوں کے لحاظ سے اسلام آباد کو ایک ماڈل سٹی تو بنایا جا سکتا ہے۔ ہر سیکٹر میں نہیں تو کم از کم ہر چار سیکٹر ز کے لیے ایک لائبریری قائم کی جائے۔ اہلِ قلم اور اہلِ علم خوشی سے کتابیں عطیّے میں دیں گے۔ یہ لائبریریاں نئی نسل کے لیے روشنی کا کام دیں گی اور سوشل میڈیا کی مکروہات کا بہتر نعم البدل ثابت ہوں گی۔ انہی لائبریریوں میں تعلیمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں بھی منعقد کی جاسکیں گی۔
ہم سب جانتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ مغرب کی ترقی یونیورسٹیوں اور کتابوں کی بدولت ہوئی ہے۔ یہ علم اور تحقیق ہے جس کے سبب وہ دنیا پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ کاش علامہ اقبال کا یہ فرمان ہر پاکستانی کو ازبر ہوتا
قوتِ افرنگ از علم و فن است ؍ از ہمین آتش چراغش روشن است
علم و فن را ای جوانِ شوخ و شنگ ؍ مغز میباید نہ ملبوسِ فرنگ
کہ اہلِ مغرب کی طاقت کا راز علم و فن میں ہے۔ اسی آگ سے ان کا چراغ جل رہا ہے۔ اے چنچل جوان! علم و فن کے لیے مغز کی ضرورت ہے نہ کہ فرنگی ملبوس کی!
ہم کب تک قرطبہ‘ بغداد‘ بو علی سینا اور جابر بن حیان پر فخر کرتے رہیں گے؟ پچھلے پانچ سو سال کے دوران ہم نے صرف خود کُش جیکٹ ایجاد کی ہے اور وہ بھی ہم نے نہیں ایجاد کی! سنتے ہیں کہ آئر لینڈ والوں نے کی ہے۔

Thursday, August 01, 2024

صورتِ حال… ملک کے اندر اور ملک سے باہر


یو اے ای کے بعد اب اگلی باری‘ یوں لگتا ہے سعودی عرب کی ہے۔
سرگودھا میں ریسکیو عملے کو اطلاع ملی کہ ایک شخص سڑک پر بے ہوش پڑا ہے۔ ریسکیو والوں نے اسے ہسپتال منتقل کیا۔ تلاشی لینے پر اس کی جیب سے ساڑھے پانچ لاکھ روپے نکلے اور پاسپورٹ بر آمد ہوا۔ پاسپورٹ پر سعودی عرب کے ویزے لگے ہوئے تھے جن پر وہ کئی بار سعودی عرب کا سفر کر چکا تھا۔ علاقے کے لوگوں نے بتایا کہ یہ بھیک مانگتا ہے اور اس کا تعلق بھکاریوں کے کسی گروہ سے ہے۔ اس خبر کا آخری حصہ ذرا غور سے سنیے۔ ہسپتال سے یہ بین الاقوامی بھکاری ڈسچارج ہوا تو ریسکیو عملے نے اس کے ساڑھے پانچ لاکھ روپے تو واپس کیے ہی‘ ساتھ ہی پاسپورٹ بھی واپس کر دیا۔ شاید ریسکیو والوں سے غلطی ہوئی ہے۔ انہیں چاہیے تھا کہ پورے پروٹوکول کے ساتھ اسے ایئر پورٹ لے جاتے۔ گارڈ آف آنر دیتے۔ اور سعودی عرب جانے والے جہاز پر بٹھاتے۔ حال ہی میں یو اے ای نے پاکستانیوں کیلئے ویزہ پالیسی سخت کی ہے۔ اس کی متعدد وجوہ بتائی گئیں۔ ایک بڑی وجہ پاکستان سے بھکاریوں کا کثیر تعداد میں ورود تھا۔ سعودی عرب بھی ہمارے ہم وطن بھکاریوں کی زد میں ہے۔ کیا عجب‘ وہاں کیلئے بھی پاکستان کے گرد سرخ نشان لگا دیا جائے۔ کون سا ملک ہے جو ہم پاکستانیوں کے ''کارناموں‘‘ سے متاثر نہیں ہوا۔ کچھ عرصہ سے پاکستانی کثیر تعداد میں پرتگال جا رہے تھے۔ وہاں جا کر ''کارنامے‘‘ دکھائے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ پرتگال نے پاکستانیوں کیلئے ویزا پالیسی کا ڈھکنا کَس کر بند کر دیا ہے۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
تاشقند میں سوویت یونین کے زمانے میں جرائم نہ ہونے کے برابر تھے۔ سزائیں سخت تھیں۔ 1992ء میں یہ ریاستیں آزاد ہوئیں اور راستے کھلے تو ہفتے میں تین تین پروازیں پاکستان سے جاتی تھیں۔ کچھ تجارت کیلئے جاتے تھے‘ کچھ سیاحت کیلئے اور کچھ بادہ نوشی کیلئے۔ انہی دنوں کی بات ہے میں تاشقند کے ہوٹل ''چار سو‘‘ میں قیام پذیر تھا۔ آدھی رات کو دستک ہوئی۔ دروازہ کھولا تو ہوٹل کا سٹاف کھڑا تھا۔ کہنے لگے: سیڑھیوں پر ایک پاکستانی نشے میں دُھت گرا پڑا ہے۔ اسے انگریزی نہیں آتی‘ آکر اس سے پوچھ دیں کہ کس کمرے میں رہ رہا ہے۔ پاکستانیوں کا ازبک ہنی مون کچھ عرصے کے بعد ختم ہو گیا۔ ایک تو مذہبی گروہوں کی یلغار نے کام خراب کیا۔ دوسرے کافی ''غیر پاکستانی‘‘ بھی پاکستانی پاسپورٹ پر وہاں جا رہے تھے۔ کچھ دھماکے بھی ہوئے۔ یہ غالباً ازبکستان ہی کا واقعہ ہے کہ ہمارے تبلیغی بھائی وہاں کی مسجد میں داخل ہوئے تو جوتے اتار کر اندر لے گئے۔ مقامی افراد نے حیرت کا اظہار کیا کیونکہ وہاں جوتے مسجد کے باہر ہی ہوتے ہیں۔ جب انہیں بتایا گیا کہ پاکستان میں جوتے ساتھ‘ اندر لے کر جانے کا رواج ہے کیونکہ باہر چوری ہو نے کا خدشہ ہے تو انہوں نے کہا کہ پھر تبلیغ کی ضرورت پاکستان میں زیادہ ہے۔ ترکیہ نے بھی چند برس پہلے ایک تطہیری مہم چلائی اور بہت سے ناپسندیدہ پاکستانیوں کو نکال دیا۔
آپ اندازہ لگائیے۔ اتنی بڑی حکومتی مشینری اور لاتعداد ایجنسیوں کے با وجود بھکاریوں کی ''برآمد‘‘ کو روکا نہیں جا رہا۔ اس کی وجہ ہمارا رویہ ہے۔ سرگودھا والے واقعہ ہی سے معاملہ سمجھ جائیے۔ بجائے اس کے کہ ریسکیو والے متعلقہ حکام کو آگاہ کرکے بھکاری کا پاسپورٹ ضبط کراتے‘ اس کا پاسپورٹ اسے واپس دے دیا گیا۔ یہی وطن دشمن رویہ ہے جس کی وجہ سے ناجائز پاسپورٹ بھی جاری ہوتے ہیں اور ناجائز شناختی کارڈ بھی!! مقتدر حضرات مجرموں کی سفارش کرتے ہیں۔ خاندان‘ برادری‘ پارٹی اور قبیلے کا مفاد سامنے ہو تو میرٹ کو ذبح کرنے میں دیر نہیں کی جاتی۔ رُول آف لاء کی بات بہت کی جاتی ہے مگر سچ یہ ہے کہ رُول ہے نہ لاء! نتیجہ یہ ہے کہ افراد بھی بھکاری بن کر دوسرے ملکوں کو جا رہے ہیں اور حکومتیں بھی‘ کشکول بدست‘ جون ایلیا کے بقول ''اللہ ہی دے گا‘ مولا ہی دے گا‘‘ کا راگ الاپتی ہیں!
جڑواں شہروں کے باشندے جماعت اسلامی کے دھرنے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ مشہور شاعر انوری نے کہا تھا:
ھر بلایی کز آسمان آید؍ گرچہ بر دیگران قضا باشد
بر زمین نارسیدہ می گوید؍ خانۂ انوری کجا باشد
آسمان سے جو بلا بھی اُترتی ہے‘ اسے کسی اور پر بھی ٹوٹنا ہو تو زمین پر پہنچنے سے پہلے ہی انوری کے گھر کا پتا پوچھنے لگتی ہے۔ پنڈی اسلام آباد کے مکینوں کا بھی یہی حال ہے۔ ایک دھرنا ختم ہوتا ہے تو دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ دھرنے کے شرکا مبینہ طور پر پلاؤ اور حلوہ پوری سے اور مری کی سیر سے حظ اٹھاتے ہیں اور جڑواں شہروں کے رہنے والے اذیت کے مزے لوٹتے ہیں۔ راستے بند ہونے کا بھی اپنا مزا ہے۔ بندہ ہسپتال پہنچ سکتا ہے نہ کام پر‘ ایئر پورٹ پر نہ ریلوے سٹیشن پر۔ دھرنے کی تکلیف حکومتی عمائدین کو ہوتی ہے نہ آئی پی پی کے مالکان کو! برق گرتی ہے تو بیچارے عام شہریوں پر!! حافظ نعیم الرحمن کے آنے سے خوابیدہ جماعت اسلامی جاگ اٹھی ہے۔ فرشتے تو اس کے اراکین بھی نہیں‘ مگر پھر بھی نیک نامی میں جماعت کا ٹریک دوسروں سے بہتر ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت آنے سے پہلے عمران خان کے حق میں سب سے بڑی دلیل یہی تھی کہ سب کو آزمایا ہے اور کئی بار آزمایا ہے تو عمران خان کو بھی ایک بار آزمانا چاہیے۔ وہ تو قسمت تھی کھوٹی۔ روکھی تھی روٹی! ہم نے چار ڈکٹیٹروں کو بھی آزمایا تو حافظ نعیم الرحمن کو آزمانے میں کیا حرج ہے؟ اور کچھ نہیں تو بہت سے خرچے تو کم کریں گے! حافظ صاحب ان لوگوں سے یقینا بہتر ہیں جو خود کسی اور پارٹی میں ہوتے ہیں اور ان کے بچے کسی اور پارٹی میں! یوں بھی جماعت کے حوالے سے کراچی کا ریکارڈ پنجاب سے بہتر ہی رہا ہے۔ منور حسن صاحب کے نظریات انتہا پسند تھے مگر ان کی دیانت اور سادہ زندگی مثالی تھی۔ پروفیسر غفور احمد‘ نعمت اللہ خان‘ عبدالستار افغانی یہ سب قابل لوگ تھے اور کراچی سے تھے۔ یہ اور بات کہ جماعت کے بڑے بڑے لکھاری زیادہ تر پنجاب سے تھے۔ ملک غلام علی‘ خلیل حامدی‘ نعیم صدیقی‘ عبد الحمید صدیقی‘ سب Genius افراد تھے اور پنجاب سے تھے۔ مگر یہ سب ماضی کی باتیں ہیں۔ ان رفتگاں کے مقابلے میں جماعت کے موجودہ منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو فرق صاف ظاہر ہے۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے:
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے نا گفتہ رہ گئے
حافظ نعیم الرحمن صاحب کی افتادِ طبع ہنگامہ پرور ہے۔ کراچی کی سیاست میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو خوب نمایاں کیا۔ یہ تو ظاہر تھا کہ امارت سنبھالنے کے بعد وہ جماعت کے جامد خاکے میں جارحانہ رنگ بھریں گے مگر جڑواں شہروں میں دھرنا دینے کے بعد جماعت بھی پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کی سطح پر آگئی ہے اور سیاسی تاریخ میں انہی کی صف میں کھڑی ہو گئی ہے۔ حافظ صاحب اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں تو انتخابات جیتنے کے لیے کوئی نئی اور تازہ حکمت عملی اپنائیں۔ اس امر پر تحقیق اور تجزیہ کرائیں کہ بہت سے مثبت پہلوؤں کے باوجود جماعت کو ووٹ کیوں نہیں ملتے۔ جماعت کی ذیلی تنظیم کی جو منفی شہرت تعلیمی اداروں کے حوالے سے پھیل چکی ہے اس کی اصلاح پر توجہ دیں! جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ اسوۂ مبارک کی پیروکار ہے۔ مگر اسوۂ مبارک میں تو کسی کو تکلیف پہنچانے کے آثار دور دور تک نہیں۔

 

powered by worldwanders.com