لاہور میں جرمن سیاح کے ساتھ پیش آنے والے سانحے کا جیسے ہی علم ہؤا، میں شیر شاہ سوری کو ملنے نکل پڑا۔
میری منزل سہسرام تھی جہاں شیر شاہ کی جاگیر تھی۔ معلوم ہؤا وہ بابر کے دربار میں گیا ہؤاہے۔ اس پر میں آگرہ گیا۔ وہاں پہنچنے پر پتہ چلا کہ بابر تو کب کا انتقال کر چکا۔ شیر شاہ سوری ہمایوں کو شکست دینے کے بعد اس کا تعاقب کر رہا تھا۔ پھر خبر پہنچی کہ ہمایوں ایران بھاگ گیا اور شیر شاہ سوری کو تخت پر بیٹھے دو سال ہو چلے ہیں۔ میں اس کے پایۂ تخت پہنچا۔ اب اسے بادشاہ بنے پانچ سال ہونے کو تھے۔ وہاں پہنچا تو معلوم ہؤا وہ کالنجر کے قلعے کو فتح کرنے گیا ہؤا ہے۔ اب میں منزلوں پر منزلیں مارتا کالنجر پہنچا۔ کالنجر کے قلعے کا محاصرہ کیے، شیر شاہ سوری کو چھ ماہ ہو چکے تھے اور ابھی محاصرہ ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔ بادشاہ کے سٹاف نے بتایا کہ اس کے پاس تو کان کھجلانے کا وقت نہیں، مجھ سے کیسے ملے گا۔ بہر طور میں نے کئی ہفتے انتظار کیا۔ بالآخر مجھے بادشاہ کے حضور پیش ہونے کا موقع مل گیا۔
دست بستہ عرض کیا کہ جہاں پناہ نے صرف پانچ سال کی قلیل مدت میں ہندوستان کے طول و عرض میں امن قائم کر کے دکھا دیا۔ یوں تو بہت سے شعبوں میں انقلابی قدم اٹھائے۔ شاہراہیں اور سرائیں تعمیر کیں ، ڈاک کا نظام بنایا مگر اصل کارنامہ یہ ہے کہ ملک کے باشندوں کو ڈاکؤوں ، چوروں، لٹیروں اور قاتلوں سے نجات دلائی۔ اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ پنجاب میں ایک بی بی مریم نامی حکمران ہے۔ یوں تو وہ دن رات محنت کر رہی ہے اور عوام کی فلاح کے لیے کوشاں ہے مگر صوبے میں ڈاکؤوں اور چوروں کا زور نہیں ٹوٹ رہا۔ میری یہ بات سنتے ہی شیر شاہ نے اپنے ایک سٹاف افسر سے کچھ کہا۔ چونکہ اس نے بات پشتو میں کی تھی اس لیے میں سمجھ نہ پایا۔ سٹاف افسر مجھے خیمے سے باہر لے آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ بادشاہ کے خیال میں میرا پیش کردہ مسئلہ طویل نشست کا متقاضی ہے ۔وہ تفصیل سے بات کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اگلے منگل کے دن، رات کو طلب کیا ہے۔ اگلے منگل تک میں کیمپ ہی میں رہا۔ مجھے شاہی مہمان کا رتبہ دیا گیا۔ سبز رنگ کا وسیع خیمہ میرے لیے نصب کیا گیا۔سبز رنگ کے خیمے کا مطلب تھا کہ میں سرکاری مہمان ہوں۔ ایک خادم چوبیس گھنٹے میری دیکھ بھال پر مامور تھا۔خیمے کے دروازے پر شمشیر بردار پہریدار مقرر تھا۔ بادشاہ کے خاص مصاحب مجھے کھانا اپنے ساتھ کھلاتے۔ مصاحبان خاص کا دسترخوان اس قدر وسیع تھا کہ دوسرا سرا نظر ہی نہیں آتا تھا۔ انواع و اقسام کے پکوان صبح شام حاضر کیے جاتے۔ کبھی ہرن کا بریاں گوشت، کبھی مسلّم دنبے، کبھی بھُنے ہوئے خرگوش، کبھی تیتر اور چکور کا گوشت۔پلاؤ میں اتنا گوشت ہوتا کہ چاول ڈھونڈنے پڑتے۔ مشہور افغان نان بھی ہوتی۔بنگال سے لے کر کابل تک کے پھل پیش کیے جاتے۔ خیر! مقررہ دن اور مقررہ وقت پر مجھے شاہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس کے سامنے دیوار پر قلعے کے قرب و جوار کے بڑے بڑے نقشے آویزاں تھے ۔ وہ اپنے کمانڈروں کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ اس وقت بات فارسی میں ہو رہی تھی اس لیے تھوڑی بہت میرے پلّے بھی پڑ رہی تھی۔ جب بادشاہ اس کام سے فارغ ہؤا اور اس کے جرنیل آداب بجا لا کر رخصت ہو گئے تو وہ میری طرف متوجہ ہؤا! مجھے کاغذ اور قلم فراہم کیے گئے تا کہ میں ضروری نکات لکھ سکوں ۔ پھر ایک طرف بادشاہ کے سٹاف افسر دست بستہ کھڑے ہو گئے۔ دوسری طرف مجھے بٹھا یا گیا۔ درمیان میں سلطنت کا میر منشی ( چیف سیکرٹری ) بیٹھا ہؤا تھا۔ بادشاہ ایک سنہری مرصع کرسی پر براجمان تھا۔ دو خادم اس کے پیچھے کھڑے مورچھل ہلا رہے تھے۔ساتھ ساتھ افغان قہوے کا دور چلتا رہا۔خیمے میں گہرا سناٹا تھا۔ بادشاہ نے بولنا شروع کیا !
“” میں نے سنا ہے کہ یہ بی بی ، جس کا نام مریم ہے، پنجاب کے امور سلطنت چابکدستی اور مہارت سے چلا رہی ہے اور، اپنے بزرگوں کے بر عکس ، کوشش کر رہی ہے کہ کام میرٹ پر ہوں مگر کامیاب حکمرانی کا بنیادی اصول یہ ہے کہ سیاسی مداخلت کا درازہ مکمل طور پر بند کر دیا جائے۔ نہ صرف بند کر دیا جائے بلکہ تالہ لگا کر کُنجی دریا میں پھینک دی جائے۔ جہاں تک میری سلطنت میں ڈاکؤوں اور مجرموں کے خاتمے کا تعلق ہے تو میرا طریقہ بہت آسان اور سادہ ہے۔ کسی شہر میں کوئی ڈاکہ پڑے یا چوری ہو یا قتل ہو جائے تو میں پولیس کے متعلقہ داروغے کو مجرم ڈھونڈنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت دیتا ہوں۔ اس عرصہ میں اگر داروغہ مجرم کو پیش نہیں کرتا تو ٹھیک آٹھویں دن اُس کی گردن اُڑا دی جاتی ہے۔ ۔ رہا گاؤں کا مسئلہ ، تو وہاں نمبر دار کا فرض ہے کہ ایک ہفتے کے اندر اندر مجرم کو پیش کرے ورنہ آٹھویں دن اسے جلاد کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ مگر مجھے احساس ہے کہ آج کی دنیا میں ایسا کرنا ممکن نہیں۔ ڈاکؤوں ، قاتلوں اور لٹیروں کے خاتمے کے لیے میری چند ہدایات ہیں جو بی بی مریم کو پہنچا دی جائیں۔ پہلی بات —- یہ نکتہ سمجھ لیا جائے کہ بر صغیر کی پولیس ، خاص طور پر پنجاب کی پولیس، اگر چاہے تو ساتویں زمین کے نیچے سے بھی مجرم کو ڈھونڈ نکالنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ مگر سیاسی مداخلت کی وجہ سے پولیس کے سربراہ کا مورال ڈاؤن ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے افسر اور عملہ، اس کی اجازت کے بغیر ، کسی اور کے حکم سے تبدیل ہو تے ہیں تو آئی جی کی دلچسپی کام میں ختم ہو جاتی ہے۔ وہ یہ کہہ کر کہ “ ایسا ہے تو پھر ایسا ہی سہی “ ایک طرف ہو جاتا ہے۔ دوسری بات ۔ — آئی جی کو یقین دلایا جائے کہ اس کی اقلیم میں کوئی مداخلت نہیں ہو گی ۔ اس کے بدلے میں اسے کار کردگی دکھانا ہو گی۔ چھ ماہ یا سال کے بعد وزیر اعلی اس کی کارکردگی کا جائزہ لے اور اگر معاملہ اطمینان بخش نہیں تو اسے منصب سے فورا” ہٹا دیا جائے اور ایسی سزا دی جائے کہ اس کے کیریر ، تنخواہ اور مراعات پر گہری ضرب پڑے۔ تیسری بات—- یہ جو لاہور میں جرمن سائیکل سوار سیاح کے خیمے پر رات کے اندھیرے میں حملہ کر کے اسے زدو کوب کیا گیا ہے، اس سے پانچ لاکھ روپے چھین لیے گئے ہیں اور اس کا سامان اور کیمرے لوٹ لیے گئے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ علاقے کا پولیس افسر اور اس کا سٹاف سب رات کو سوتے رہے۔ وزیر اعلی کو چاہیے کہ علاقے کے پولیس افسر کو ایک ہفتے کی مہلت دے۔ اگر اس عرصہ میں وہ مجرموں کو پیش نہ کر سکے تو اصولی طور پر تو اس کی گردن اڑا دینی چاہیے مگر میں جانتا ہوں کہ اب ایسا کرنا ممکن نہیں۔ اس کا متبادل یہ ہے کہ اس کے رینک کو گھٹا دیا جائے ، اس کی پیٹی اتروا دی جائے اور اسے کسی دور افتادہ مقام پر بھیج دیا جائے ۔ وہاں وہ کسی افسر کے ماتحت کام کرے۔ اس کی رپورٹ میں اس کی ناکامی کا ذکر کر کے اسے آئندہ کی ترقی سے محروم رکھا جائے۔ خاتون وزیر اعلی کو میری طرف سے یقین دلایا جائے کہ اگر صرف تین چار افسروں کو ایسی سزا ملے گی تو باقی سب عبرت پکڑیں گے، راتوں کو عوام کے مال اور جان پر پہرا دیں گے اور یہ تو میں بتا ہی چکا ہوں کہ پنجاب پولیس چاہے تو مجرم کا بچ نکلنا ممکن ہی نہیں ۔
بادشاہ نے خلعتِ خاص عنایت کر کے مجھے بہت عزت کے ساتھ رخصت کیا۔
………………………………………………………………………
No comments:
Post a Comment