Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, November 30, 2023

ایک دلکش دنیا جو صرف آپ کی ہو گی!


اِدھر اُدھر دیکھیے۔ کتنے ہی افراد جو پرائمری اور ہائی سکول میں آپ کے ساتھ تھے‘ آج دنیا میں نہیں ہیں۔ جو کالج‘ یونیورسٹی میں ساتھ تھے‘ ان میں سے بھی کچھ جا چکے ہیں۔ اگر آپ شادی شدہ ہیں تو غور کیجیے‘ کتنے ہی آپ کے ہم عمر تھے جو کنوارے اس جہان سے رخصت ہو گئے۔ اگر آپ پوتوں‘ نواسیوں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو آپ پر پروردگار کا خاص کرم ہے! اس نے آپ کو اتنی مہلت دی کہ آپ ان شیریں میووں سے حظ اٹھا سکیں! کتنے ہی آپ کے دوست آخرت کو سدھار چکے! آپ آج بھی موجود ہیں! اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی سانسوں میں اضافہ کیا اور وہ دعائیں بھی قبول ہوئیں جو آپ کے بزرگ آپ کو دیتے رہے۔ وہ دعائیں جو روٹین لگتی ہیں‘ اصل میں قیمتی نسخے ہیں! ''اللہ حیاتی دے‘ اللہ سلامت رکھے‘ جُگ جُگ جیو‘‘ اور بہت سی اور بھی!! بڑی بوڑھیاں یہ بھی کہتی تھیں ''اللہ کرے کھُنڈی پر چلو‘‘ یعنی اتنی طویل عمر ہو کہ عصا کے سہارے چلو! 
آپ کی مصروفیت کا احساس ہے! ازراہِ کرم پانچ منٹ مزید عنایت فرمائیے! اپنے جسم پر غور کیجیے۔ آپ کے دل کی مشین برابر چل رہی ہے۔ گردوں کی چھلنیاں ڈیوٹی دے رہی ہیں۔ خون کی صفائی ہو رہی ہے۔ جگر صحت مند ہے۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔ سُن سکتے ہیں! چل سکتے ہیں! پلکیں جھپک سکتے ہیں! گھٹنے ٹھیک کام کر رہے ہیں! کسی ہسپتال جا کر اُن افراد کو دیکھیے جو ڈائیلسز پر ہیں۔ ہر چند روز کے بعد ان کا خون ایک مشین سے گزرتا ہے تب صاف ہوتا ہے۔ گردے کی پیوندکاری کس قدر مشکل ہے‘ اس کا تصور ہی خوفناک ہے۔ پہلے تو کوئی اپنا گردہ دینے کے لیے آمادہ ہو۔ پھر اس کا گردہ مریض کے جسم سے مناسبت رکھتا ہو۔ آپریشن کامیاب ہو جائے تو پیوندکاری کے بعد ساری زندگی دوائیں کھانا پڑتی ہیں! لاکھوں کا خرچ الگ ہے! مصنوعی گھٹنے لاکھوں میں لگتے ہیں! اس سرجری کے بعد بے پناہ درد ہوتا ہے۔ اس قدر کہ کوئی پین کلر 
(Pain killer) 
کام نہیں کرتا! جگر کی پیوند کاری از حد مشکل ہے۔ میں ایک ڈاکٹر صاحب کو جانتا ہوں جو اپنی بیگم کو جگر کی پیوندکاری کے لیے چین لے کر گئے مگر وہ جانبر نہ ہو سکیں! بہرے پن کا علاج بظاہر آسان لگتا ہے۔ آلۂ سماعت بازار میں دستیاب ہے! مگر کم لوگوں کو راس آتا ہے۔ اکثر شکایت کرتے ہیں کہ سر پر دھمک لگتی ہے۔ جسم کے ایک دانت کا‘ ایک انگلی کا‘ ایک پور کا‘ یہاں تک کہ پلکوں کے ایک بال کا بھی نعم البدل کوئی نہیں! اگر آپ کے سب اعضا سلامت ہیں‘ اگر آپ کو بھوک لگتی ہے‘ اگر آپ کو نیند آجاتی ہے تو آپ امیر بھی ہیں اور خوش بخت بھی!! سوال یہ ہے کہ اس امارت پر‘ اس خوش بختی پر‘ آپ شکر کتنا ادا کرتے ہیں؟ 
آپ کے بچے نارمل ہیں تو یہ آپ کی ایک اور خوش قسمتی ہے! ان والدین کی اذیت کا سوچئے جن کے بچے‘ سپیشل بچے ہیں! کوئی جسمانی طور پر اپاہج ہے تو کوئی ذہنی طور پر! ماں باپ ان کے علاج کے لیے کیا کیا جتن نہیں کرتے! جو آسودہ حال ہیں وہ انہیں علاج کے لیے بیرونِ ملک لے جاتے ہیں۔ یہ سپیشل بچے جب بڑے ہو جاتے ہیں تو ماں باپ کہیں جا نہیں سکتے! ساری زندگی آزمائش میں گزرتی ہے! خون کے آنسو روتے ہیں! آپ نے اپنے بچوں کے نارمل ہونے پر کتنی بار شکر ادا کیا ہے؟ 
پھر آپ ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئے جہاں آپ کو تعلیم دلوائی گئی! آج آپ تعلیم یافتہ ہیں۔ ارد گرد دیکھیے۔ ہزاروں افراد ناخواندہ ہیں! آپ کا صوفہ ساز‘ آپ کا پلمبر‘ آپ کا سینیٹری ورکر‘ آپ کے دفتر میں آپ کا نائب قاصد‘ ڈھابوں میں گاہکوں کو چائے اور روٹی پیش کرنے والے‘ ریستورانوں میں برتن مانجھنے والے‘ ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ کر ان کی مرمت کرنے والے‘ تنوروں کی حدت میں لہو کو پسینہ کرنے والے نانبائی اور بے شمار دوسرے لوگ جو تعلیم سے محروم رہے‘ آپ سے کم ذہین نہیں! مگر قسمت نے ان کا نہیں‘ آپ کا ساتھ دیا! آپ کے ماں باپ گاؤں سے شہر آگئے تو آپ پڑھ لکھ گئے! آپ کے والدین تعلیم یافتہ تھے تو آپ پڑھ لکھ گئے۔ آپ کے والدین استطاعت رکھتے تھے تو آپ پڑھ لکھ گئے! آپ کو قدرت نے ذہانت‘ لیاقت‘ اہلیت‘ استعداد اور مواقع دیے تو آپ پڑھ لکھ گئے! بے شمار امیر زادے اس لیے تعلیم یافتہ نہ ہو سکے کہ پڑھائی کا رجحان نہیں رکھتے تھے! ان کے کروڑ پتی والدین کو حسرت ہی رہی کہ ان کی اولاد تعلیم یافتہ ہوتی! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ اس حوالے سے آپ کس قدر خوش نصیب ہیں؟
اب ایک اور زاویے سے اپنے آپ کو دیکھیے!! اپنا موازنہ اُن قابلِ رحم افراد سے کیجیے جو آپ جیسے ہی ہیں مگر پتھر کے بتوں کے آگے جھکتے ہیں! کچھ قبروں کو سجدہ کرتے ہیں! کچھ جرائم پیشہ‘ نشہ باز ملنگوں اور بابوں کو کارساز سمجھتے ہیں۔ کبھی کسی کے پاؤں چاٹتے ہیں‘ کبھی کسی سے مار کھاتے ہیں‘ کبھی کسی کے کہنے پر ناچتے ہیں‘ کبھی کرنٹ لگانے والے کسی جعلی پِیر کے آگے دست بستہ کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی کسی پامسٹ کو ہاتھ دکھاتے ہیں! کبھی کسی سے فال نکلواتے ہیں! کبھی زائچہ بنواتے ہیں! یہ سب احتیاج کی صورتیں ہیں! اگر آپ ان سب مکروہات سے بچے ہوئے ہیں اور کسی کو اپنی قسمت کا مالک نہیں سمجھتے تو آپ صاف ستھری زندگی گزار رہے ہیں! کسی کے دروازے پر ذلیل ہو رہے ہیں نہ عزتِ نفس کو مجروح کر رہے ہیں! کیا آپ نے کبھی شکر ادا کیا ہے کہ آپ ان سب آلائشوں سے اور گندگی کی ان تمام صورتوں سے بچے ہوئے ہیں؟ 
بجائے اس کے کہ ہم ان تمام خوش بختیوں پر خوش ہوں‘ شکرگزاری کریں اور ایک اطمینان بھری زندگی گزاریں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے نالاں ہیں! شاکی رہتے ہیں! کبھی کسی رشتہ دار کی ذرا سی غلطی پر برا مان کر قطع تعلقی کے مرتکب ہوتے ہیں! کبھی کسی چھوٹی سی بات پر گھر میں تلخی پیدا کر لیتے ہیں! کبھی یہ فکر کھائے جاتی ہے کہ گاڑی ٹھیک نہیں‘ بدلنی ہے۔ کبھی کسی اور کی خوشحالی دیکھ کر حسد کی آگ میں جل اٹھتے ہیں! اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر کُڑھتے ہیں اور سڑتے ہیں! اپنے سے نیچے والوں کو نہیں دیکھتے! مضطرب رہتے ہیں! سکون سے محروم! 

Non issues 
کو سر پر سوار کیے رہتے ہیں! اپنی محدود سوچ اور منفی مائنڈ سیٹ کے سامنے نَکّو بنے رہتے ہیں! آپ آج سے یہ چار کام کیجیے۔ اوّل: کسی نے آپ سے زیادتی کی ہے تو بے شک تعلقات میں گرم جوشی نہ رکھیے‘ مگر بدلہ لینے کا خیال دل سے نکال دیجیے۔ دوم: گھر کے اندر یا باہر‘ کوئی عزیز‘ رشتہ دار‘ دوست‘ ناراض ہے تو آپ‘ خواہ آپ بے قصور ہیں‘ اس سے تعلقات کی تجدید کیجیے اور جو کچھ ہو چکا اسے اپنے تئیں بھلا دیجیے۔ سوم: اپنے بچوں کو بتائیے کہ جو سہولتیں انہیں میسر ہیں‘ ان پر شکر ادا کریں۔ انہیں یہ بھی بتائیے کہ جن بچوں کو یہ آسانیاں میسر نہیں وہ ان سے یعنی آپ کے بچوں سے کم لا ئق نہیں! بس وہ مواقع سے محروم رہے۔ اور چہارم: اگر آپ کو قدرت نے اتنی استطاعت دی ہے کہ آپ نے کُل وقتی یا جُز وقتی ملازم رکھا ہوا ہے یا رکھے ہوئے ہیں تو ان کی مقررہ تنخواہ کے علاوہ بھی ہر ممکن مدد کیجیے۔ وہ ایک لحاظ سے آپ کی ذمہ داری میں شامل ہیں۔ اشیائے خور و نوش‘ لباس‘ علاج‘ ان کے بچوں کی تعلیم میں جتنا حصہ آسانی سے ڈال سکتے ہیں‘ ڈالیے اور ڈالتے رہیے!! زیادہ نہیں‘ یہ چار کام ہی کر لیجیے! اس کے بعد دیکھیے گا آپ ایک خوبصورت دنیا میں رہ رہے ہوں گے! ایسی دنیا جسے کوئی اور دیکھ ہی نہیں سکے گا!!

Tuesday, November 28, 2023

پھل یا نقد رقم ؟؟

یونیورسٹی ہوسٹل میں میں بیمار پڑ گیا۔دوست عیادت کے لیے آتے تو پھل لاتے۔ان دوستوں میں ایک شیر خان بھی تھے۔بعد میں وہ انگریزی زبان و 


ادب کے پروفیسر بنے۔ چند سال پہلے داغِ مفارقت دے گئے۔ان کا تعلق ضلع اٹک کے قصبے بسال سے تھا۔ وہ عیادت کے لیے آئے تو پھل نہ لائے۔ 

اس کے بجائے انہوں نے نقد رقم دی۔ اُس وقت یعنی 1969-70ء میں یہ خطیر رقم دس روپے تھی۔ یاد رہے کہ روزانہ ناشتے پر تب ایک روپیہ خرچ 


ہوتا تھا۔پنڈی اسلام آباد میں انگور ڈیڑھ روپے سیر تھا۔ ڈھاکہ میں دس روپے سیر تھا یعنی قوتِ خرید سے باہر ! چنانچہ بنگالی بھائی اسلام آباد آتے تو انگور 

اتنا زیادہ کھاتے کہ اسہال کا شکار ہو جاتے۔انڈے آٹھ آنے میں چار ملتے۔ ہوسٹل میں کمرے کاکرایہ‘ جس میں صرف میں رہتا تھا‘ ماہانہ سولہ روپے تھا

۔ 

میس میں دو وقت کے کھانے کا ماہانہ بل ستر روپے تھا۔تازہ نیوز ویک اور ٹائم دو دو روپے کے ملتے تھے اور ہم خرید کر پڑھتے تھے۔

شیر خان نے عیادت کے دس روپے تکیے کے نیچے رکھے۔کچھ دوست بھی اس وقت موجود تھے۔ وہ متعجب ہوئے۔ شیر خان نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں‘ ضلع اٹک میں‘ رواج ہے کہ کسی کی عیادت کے لیے جائیں تو نقد رقم پیش کرتے ہیں! یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی کی پوسٹ پڑھ رہا تھا۔اس میں اپیل کی گئی تھی کہ بیمار کو ملنے جائیں تو پھلوں کے بجائے نقد رقم دینی چاہیے کہ جو شے ضرورت ہو وہ خریدی جا سکے۔ ہمارے علاقے میں یہ دستور نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ ( اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ضلع اٹک کے لوگ بہت عقلمند ہیں۔ عقلمند ہوتے تو شوکت عزیز کو وہاں سے الیکشن لڑا کر وزیر اعظم نہ بننے دیتے ) دس روپے سے یہ رقم پچاس‘ پھر سو ہوئی۔ ابھی تک یاد ہے کہ گاؤں سے ہمارا چاچا مظفر خان مرحوم آیا۔ گھر میں کوئی فرد بیمار تھا۔ اس نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ انگلی کو زبان سے تر کیا ‘ سو روپے کا نوٹ کھینچ کر نکالا اور ابا جی کو پیش کیا کہ یہ ''پوچھا‘‘ ہے۔ بیمار کو پوچھنے آتے ہیں تو جو رقم دیتے ہیں اسے ''پوچھا ‘‘کہتے ہیں۔ یوں بھی جب کہتے ہیں کہ بیمار کو پوچھنے جانا ہے تو یہ خالص پنجابی طرزِ اظہار ہے! اُردو میں حال پوچھنا کہتے ہیں یا عیادت کرنا! مومن نے کہا تھا ؎
بہرِ عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ 
دم ہی نکل گیا مرا آوازِ پا کے ساتھ 
اور حکیم فصیح الدین رنج نے کہا تھا ؎
اک بار اور میری عیادت کو آئیے 
اچھی طرح سے میں ابھی اچھا نہیں ہوا
لگے ہاتھوں اس مضمون کا لالہ مادھو رام جوہر کا شعر بھی سن لیجیے ؎
وہ عیادت کو نہ آیا کریں ‘ میں در گزرا 
حالِ دل پوچھ کے اور آگ لگا جاتے ہیں 
ویسے جو ہمارا عیادت کا کلچر ہے اس کے پیش نظر ہر بیمار ‘ زبانِ حال سے‘ یہی کہتا ہے کہ حضرات! ازراہ کرم عیادت کو نہ تشریف لایا کیجیے! میں آپ کی عیادت سے در گزرا! 
چند کلو سیب یا چند درجن مالٹے لے جا کر ہم مریض کے ساتھ کرتے کیا ہیں ؟ پہلے تو ہم اٹھنے کا نام نہیں لیتے! دیکھ رہے ہیں کہ وہ بے چین ہے ‘ ڈاکٹر کو بلایا جا رہا ہے‘پھر بھی بیٹھے ہیں! اور بعض تو ہم میں سے اتنے احمق ہوتے ہیں کہ چائے یا کولڈ ڈرنک کی توقع بھی رکھتے ہیں! پھر عیادت کے لیے آنے والوں کی بھاری تعداد مریض کو یہ مشورہ ضرور دیتی ہے کہ فلاں ڈاکٹر کو دکھائیے یا فلاں ہسپتال میں جائیے‘ جیسے مریض اور اس کے لواحقین کو تو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں! مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو جو لوگ عیادت کرنے آئے ان میں ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ نہیں کہا کہ فلاں ڈاکٹر کو دکھاؤ یا فلاں دوا کھاؤ! کچھ تو مریض کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس بیماری میں آپ مبتلا ہیں اسی بیماری میں مبتلا فلاں صاحب وفات پا گئے ہیں! مریض سے غیر ضروری سوالات بھی نہیں پوچھنے چاہئیں! میں نے ایک بار دو صاحبان کو ایک مریض کے کمرے میں شد و مد سے سیاسی بحث کرتے دیکھا۔ ماشاء اللہ دونوں عیادت کرنے آئے تھے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے مجھے کمرے سے باہر جا کر‘ ہسپتال کے عملے کے ساتھ مل کر'' سازش ‘‘ کرنا پڑی! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو ایک اعلیٰ افسر تعزیت کے لیے والد صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اتفاق سے اسی وقت ایک معروف مذہبی سکالر بھی آگئے۔ ان دونوں حضرات نے ایک صاحب کی غیبت شروع کر دی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی۔ میں اور والد صاحب دونوں حیران ہو رہے تھے۔ ان دونوں صاحبان نے ہم دونوں باپ بیٹے کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا ‘ جیسے ہم وہاں موجود ہی نہیں تھے! جب بہت دیر ہو گئی تو ‘ مجبوراً ‘ میں والدِ گرامی مرحوم کو ڈرائنگ روم سے اٹھا کر اندر لے گیا کیونکہ انہیں بہت زیادہ کوفت ہو رہی تھی۔ 
مریض آسودہ حال ہے یا مالی طور پر کمزور‘ دونوں صورتوں میں نقد رقم اس کے لیے زیادہ مفید ہے۔ پہلی صورت میں وہ پھل اپنی مرضی اور ذوق کے مطابق منگوائے گا۔ دوسری صورت میں رقم اس کے علاج میں ممد ثابت ہو گی! یوں بھی ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ معاشی لحاظ سے ہم سے کمتر رشتہ دار اور دوست بیمار پڑیں تو ان کی مدد ضرور کریں اور اس طرح کریں کہ عزتِ نفس کے آبگینے کو ٹھیس نہ پہنچے! 
بڑوں سے سنا ہے کہ پہلے جب کوئی شخص کسی دوسرے شہر سے آکر کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور قیام اس کا دور ہوتا تھا تو وہ بزرگ کھانے کے لیے مدعو کرنے کے بجائے اسے نقد رقم دیتے تھے کہ اس سے کھانا کھا لے۔مقصد یہ تھا کہ مہمان کو دور سے آنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعض اوقات اتنی دور جانا پڑتا ہے کہ دعوت بلائے جان بن جاتی ہے اور تکلیف کا باعث ہوتی ہے! یہ رواج تو اپنے بچپن اور لڑکپن میں خود دیکھا ہے کہ دعوت کرنے والے خشک راشن بھیج دیتے تھے۔ میں گرما کی تعطیلات میں گاؤں جاتا تھا تو اپنے ایک دوست کو پڑھاتا بھی تھا۔ ہم دونوں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس کے گھر والوں نے میری دعوت کی۔ شام کو دیکھا کہ اس کے گھر سے بڑے بڑے ٹرے آرہے ہیں۔ ان میں چینی‘ سوجی‘ گھی‘ آٹا اور اسی قبیل کی دیگر اشیا تھیں۔ ساتھ ایک مرغی بھی بھیجی گئی تھی جو باقاعدہ زندہ تھی اورکُڑ کُڑ کر رہی تھی! آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں تکلف اور فیشن زیادہ ہے اور آرام کم !! فیشن ایبل بیکریوں نے کیک کی قیمت آسمان پر پہنچا دی ہے! ساتھ ہی ہر تیسرا چوتھا انسان ذیا بیطس کا مریض ہے۔ دعوت کا مقصد یہ رہ گیا ہے کہ پکوان ( ڈشیں ) زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہوں! میز کھانوں سے بھری ہوئی ہو! اگر خواتین کو مشورہ دیا جائے کہ مہمانوں کے لیے نان یا چپاتی کے علاوہ صرف تین چیزیں تیار کریں۔ بریانی‘ قورمہ اور میٹھا! تو وہ اسے میزبانی کی توہین قرار دیتی ہیں! اگر آپ نے مجھے مدعو کرنا ہے تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جتنی بھی ڈشیں ہوں‘ میں صرف ایک چیز کھاتا ہوں! کئی پکوان چکھنے یا کھانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کسی شے سے بھی لطف اندوز نہ ہو!!

Monday, November 27, 2023

ہم ازلی وفادار !!

موسم بدل گیا ہے۔ رُت نئی ہے! مسافر پرندے آرہے ہیں۔ غول کے غول! پروں کو پھڑ پھڑاتے ہوئے !! (ن) لیگ کی جھیل پر اُتر رہے ہیں! 

کچھ سادہ لوح اس تازہ ہجرت پر جز بز ہورہے ہیں! کچھ حیرت میں مبتلا ہیں! کچھ نفرین بھیج رہے ہیں اور طعنہ زن ہیں! یہ سب غلط ہیں! یہ اپنی تاریخ سے 
نابلد ہیں!یہ ہجرتیں تو صدیوں سے ہورہی ہیں! بر صغیر کی مسلم آبادیاں انہی ہجرتوں میں پروان چڑھیں! یہ مسافرت تو ہماری گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ یہ ہماری رگوں میں خون بن کر دوڑ رہی ہے! ہم جب وفاداری بدلنے پر آتے ہیں تو بدل کر رہتے ہیں۔ پھر ہم اپنا قبیلہ‘ اپنا خون‘ اپنا محسن‘ اپنا وعدہ‘ اپنا حلف ‘ اپنا دین‘ اپنا ایمان ‘ اپنی آخرت کچھ بھی نہیں دیکھتے! ہم صرف مفاد دیکھتے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے چڑھتے سورج کے پجاری رہے ہیں!ہم ہمیشہ ایک جھیل سے دوسری جھیل کو اور ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ کو نقل مکانی کرتے رہے ہیں! مفادات کی اس دوڑ میں کوئی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ بنگال تھا یا یوپی‘ کراچی تھا یا پشاور‘ پشتون تھا یا پنجابی‘ سندھی تھا یا بلوچی‘ کشمیر سے تھا یا دکن سے‘ کابل سے تھا یا جونپور سے ‘ سب میں دو صفات مشترک تھیں۔ مسلمان تھے اور وفاداریاں بدلنے کے ماہر! 
یہ ایک سرد شام تھی۔کابل کے ارد گرد ‘ پہاڑوں پر برفباری ہو رہی تھی۔ ظہیر الدین بابر ایک مہم سے لوٹا تو محل کے دروازے پر ہی اسے اطلاع ملی کہ دریائے سندھ کے اُس پار سے ‘ جہاں پنجاب کی اقلیم ہے‘ مہمان آئے بیٹھے ہیں۔ ایک تو عالم خان تھا سلطنتِ دہلی کے حکمران ابراہیم لودھی کا چچا۔ دوسرا دلاور خان تھا‘ پنجاب کے گورنر دولت خان کا فرزند! دولت خان کو ابراہیم لودھی نے پنجاب کا گورنر مقرر کیا تھا۔ کچھ چھوٹی موٹی رنجشیں تھیں۔ حل یہ نظر آیا کہ ابراہیم ہی کا صفایا کر دیا جائے۔ چنانچہ عالم خان اور دلاور خان ‘ دونوں غدار کابل آئے اور بابر کو ترغیب دی کہ آؤ ! ہندوستان پر حملہ کرو ! بابر کو اور کیا چاہیے تھا۔ چڑھ دوڑا! ابراہیم لودھی سلاطینِ دہلی کے تین سو اٹھارہ سالہ دور میں واحد بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں بہادری سے لڑتا ہوا مارا گیا! 
عہد شکنی سے ہماری تاریخ اَٹی پڑی ہے۔ ہمایوں کا ستارہ گردش میں آیا تو راتوں کو اس کے عمائدین‘ اس کے حریف شیر شاہ سوری کے کیمپ میں چھپ چھپ کر جاتے تھے۔جب بھی کوئی مغل شہزادہ باپ کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتا تو اس کی فتح کی امید میں خان اور سردار اس کے ساتھ ہو جاتے۔ جیسے ہی وہ کمزور پڑتا ‘ اسے چھوڑ جاتے۔ شاہجہان کے فرزند جب باہم بر سر پیکار ہوئے تو غداری اس قدر عام ہوئی کہ ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ دارا شکوہ اورنگ زیب کی تلوار سے بچ کر ایران کا رُخ کر رہا تھا۔ سہون شریف کے قریب اس نے دریا عبور کیا اور درۂ بولان کی طرف بڑھا۔کوئی لڑاکا فوج ساتھ نہ تھی‘ چند خواجہ سرا اور ملازم ساتھ رہ گئے تھے۔ ایک شخص جیون خان کی جاگیر کے پاس سے گزرا۔یہ وہی جیون خان تھا جسے شاہ جہان نے ہاتھی کے پَیروں تلے روند دینے کا حکم دیا تھا۔ دارا نے سفارش کی اور اس کی جان بچ گئی۔ اس سے بڑا احسان کیا ہو سکتا تھا۔ دارا نے فیصلہ کیا کہ دو تین دن اس کے ہاں ٹھہر کر آرام کرے اور اپنے منتشر حواس مجتمع کرے۔ خواتین نے منع کیا مگر دارا نہ مانا۔ نمک حرام جیون خان نے تین دن خوب خدمت کی اور اس کے بعد پکڑ کر اورنگ زیب کی فوج کے حوالے کر دیا۔ جو کچھ ''وفاداروں ‘‘ نے ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ کے ساتھ کیا وہ ہماری تاریخ کا'' سنہری اور روشن‘‘ باب ہے۔ اس کے بعد 1857ء کی جنگ ِآزادی کا حال دیکھ لیجیے۔ جس جس گدی نشین نے‘ جس جس کھڑ پینچ نے‘ مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ‘ اس کا نام تاریخ میں محفوظ ہے۔ وہی خاندان ہیں جو آج بھی اسمبلیوں میں براجمان ہیں! ہمارے شرفا انگریزوں نے مار دیے اور ٹوڈی ہم پر مسلط کر دیے!! پاکستان بنتا دکھائی دیا تو یونینسٹ مسلم لیگ میں آگھسے! قیام پاکستان کے بعد کی تاریخ سب کچھ ہو سکتی ہے‘ باعثِ عزت نہیں ہو سکتی۔ پنجاب میں ممدوٹ دولتانہ مخاصمت کے دوران ساری حدیں عبور کر لی گئیں! پھر دولتانہ اور فیروزخان نون کے درمیان رسہ کشی شروع ہو گئی۔ نومبر 1953ء میں دولتانہ نے اپنی قیام گاہ پر پنجاب اسمبلی کے اُن ارکان کا اجلاس منعقد کیا جو اس کا ساتھ دے رہے تھے۔ ان ارکان کی تعداد چھیاسی تھی۔ مقابلے میں ملک فیروز خان نون نے بھی اپنے حمایتی ارکان کا اجلاس بلا لیا۔ یہ تعداد میں ستاسی تھے۔ شرمناک حقیقت یہ تھی کہ کچھ ارکان نے دونوں اجلاسوں میں شرکت کی اور دونوں کے ساتھ وفاداری کا عہد کیا۔ اگر اس وقت ایسے دوغلے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچایاجاتا اور نشانِ عبرت بنایا جاتا تو کیا عجب وفاداریاں بدلنے کی مؤثر حوصلہ شکنی ہو جاتی!! 
ری پبلکن پارٹی میں اور پھر ایوب خان کی کونسل مسلم لیگ میں چہچہانے والے پرندے سب مسافر تھے۔ یہ ایک سیاستدان ہی تو تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کا مشورہ دیا تھا۔ جنرل ضیا الحق نے مجلس شوریٰ بنائی تو ہم سب جانتے ہیں کہ کس کس کے اباجان نے ساتھ دیا اور خوب ساتھ دیا! سیاستدان اپنی اپنی پار ٹیوں کو چھوڑ کر یوں بھاگے جیسے پارٹیاں نہ تھیں‘ سانپ تھے! جن صاحب کو جنرل نے ریوالور کا تحفہ دیا‘ انہوں نے جس طرح چوہدری شجاعت حسین کی (ق) لیگ کو چھوڑا وہ کہانی عبرتناک بھی ہے اور زیادہ پرانی بھی نہیں ہوئی۔ ایک معروف سابق صحافی جو پرویز مشرف کے عہد میں چوہدریوں کے ساتھ تھے آج بھی ایوان بالا کے رکن ہیں مگر (ن) لیگ کے کوٹے پر!! 
عمران خان کی کابینہ کے ارکان کی بہت بڑی تعداد مرغانِ باد نما پر مشتمل تھی! مستقبل کی کابینہ میں کم و بیش یہی چہرے ہوں گے! میاں نواز شریف بلوچستان گئے تو تیس سیاستدان ان کے کیمپ میں داخل ہو گئے! کل پرسوں ایک اور مشہور شخصیت ان کی ویگن میں سوار ہوئی! زبانِ خلق نقارۂ خدا ہے! سب کو نظر آرہا ہے کہ ہما کس کے سر پر بیٹھنے کے لیے پر تول رہا ہے! پرندے دور دور سے آرہے ہیں اور (ن) لیگ کی جھیل پر اُتر رہے ہیں! کل جہاں ویرانی تھی آج وہاں چہل پہل اور گہما گہمی ہے! کل جس حویلی کے دروازے پر ہاتھی جھومتے تھے اور نوبت بجتی تھی‘ آج وہاں خاک اُڑ رہی ہے!! کل رائیونڈ سنسان تھا۔ آج بنی گالہ اجاڑ پڑا ہے۔ چراغ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو گئے! کیسی وفاداری ؟ کون سی جاں نثاری ؟ کوئی جی دار شخص ایک فہرست اس لحاظ سے بھی ترتیب دے کہ کون کون سا سیاستدان کس کس پارٹی میں کتنا عرصہ رہا۔ہر سیاستدان کے نام کے ساتھ لکھا جانا چاہیے کہ موصوف کتنی پارٹیاں بدل چکے ہیں۔
ان مسافر پرندوں کو خوش آمدید اور جی آیاں نوں کہنے والے بھی اتنے سادہ نہیں! انہیں معلوم ہے کہ یہ صدقے قربان ہونے والے حضرات جوق در جوق کیوں آرہے ہیں؟ یہ دل سے نہیں‘ دماغ سے ساتھ دے رہے ہیں۔ انہوں نے حساب کتاب کیا ہوا ہے اس لیے تشریف لا رہے ہیں! استقبال کرنے والا بھی دل ہی دل میں ان سے نفرت کر رہا ہے! مذاق اُڑا رہا ہے! مگر استقبال اس لیے کر رہا ہے کہ بر سر اقتدار آنے کے لیے اس کمبخت کی ضرورت ہے! آنے والے کے دل میں بھی محبت کا کوئی جذبہ نہیں! اس نے ایک بار پھر اقتدار میں شریک ہونا ہے! ہماری ساری نفسیات اس ایک محاورے میں بند ہے کہ جج کی ماں مری تھی تو سارا شہر جنازے میں شریک تھا۔ جج خود مر گیا تو کوئی نہ آیا!

Thursday, November 23, 2023

بلدیاتی ادارے‘ اسلام آباد اور میئر

''اس وقت سب شہروں کے بلدیاتی ادارے ڈی ایم جی افسران کے پاس ہیں۔ آپ کسی شہر میں چلے جائیں وہاں گندگی کی حالت دیکھ لیں‘‘ یہ ماتمی مگر مبنی بر صداقت فقرہ دوستِ عزیز جناب رؤف کلاسرا کا ہے! 

دو تین ہفتے پہلے جب خبر چلی کہ اسلام آباد کے دو سرکاری ہسپتالوں کے سربراہ فوج سے لیے جائیں گے تو مجھے یہ خبر بالکل نہ بھائی۔ سول محکمے سول افراد ہی کے چارج میں رہنے چاہئیں۔ یہ ایشو کچھ صحافی دوستوں اور کچھ دیگر اصحاب سے شیئر کیا۔ ان میں سے کچھ دوست ثقہ ہیں اور سچ بولنے کے لیے مشہور!
امید یہ تھی کہ میرے نقطۂ نظر کی تائید ہو گی اور وہ اس فیصلے کی مخالفت کریں گے‘ مگر تعجب ہوا کہ زیادہ تر کی رائے اس فیصلے کے حق میں تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ان دونوں شفا خانوں میں مریض رُل رہے ہیں‘ انتظارگاہوں میں بیٹھ بیٹھ کر گل سڑ رہے ہیں اور بدنظمی نے ان ہسپتالوں کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے‘ اس کے پیش نظر فوجی افسر ہی آکر کچھ کریں تو کریں۔ اس پر اپنا ذاتی تجربہ یاد آگیا۔ چند سال پہلے ایک نیفرالوجسٹ سے ملنا تھا جو بظاہر اسلام آباد کے بڑے سرکاری ہسپتال سے وابستہ تھا۔ کئی دن جاتا رہا۔ مالیات کا سربراہ پروٹوکول بھی دیتا اور چائے بھی پلاتا مگر ڈاکٹر دستیاب نہ ہوا۔ پانچویں دن شام کو اس کے نجی مطب میں گیا‘ نذرانہ پیش کیا تب حضرت کی ''زیارت‘‘ ہوئی۔
برادرم کلاسرا صاحب کا قول سب سے زیادہ خود وفاقی دارالحکومت پر صادق آتا ہے۔ یہ شہر جو کبھی شہرِ دلبراں تھا‘ یوں لگتا ہے اب زاغ و زغن کا مسکن ہے اور 

Slums 

کی آماجگاہ! شہر کا دل میلوڈی مارکیٹ ہے اور خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ کسی تھرڈ کلاس قصبے سے بھی زیادہ کثیف ہے۔ لاری اڈے ٹائپ کے ڈھابوں سے اٹا ہوا یہ مقام پیر ودھائی کا بھائی لگتا ہے۔ نیشنل بینک والی سائیڈ ہے یا فوڈ پارک‘ یا اندر والا حصہ‘ گندگی سے بھرا ہے۔ نالیوں سے تعفن زدہ پانی باہر نکل رہا ہے اور ساتھ بیٹھ کر لوگ کھانے کھا رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ سی ڈی اے کے کسی سربراہ نے آخری بار اس غلاظت کدے کا دورہ کب کیا؟ 
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام شہری کیوں چاہتا ہے کہ کسی ادارے کا سربراہ فوجی افسر ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فوجی افسر سے رابطہ کیا جائے تو وہ 

Respond

کرتا ہے۔ جواب دیتا ہے۔ فون کریں گے تو واپس فون کرے گا۔ خط لکھیں گے تو جواب دے گا۔ ملنے کے لیے جائیں گے تو خواہ چند منٹ ہی دے‘ ملے گا ضرور! میرا تجربہ ہے اور کسی مصلحت اور خوف کے بغیر اپنا تجربہ بتا رہا ہوں کہ 95 فیصد آج کے سول افسر فون کال کا جواب دیتے ہیں نہ چٹھی کا۔ اور 95 فیصد فوجی افسروں کا ردِ عمل اس کے بر عکس ہے۔ دو سال پہلے ملٹری لینڈز اینڈ کنٹونمنٹ کے محکمے میں ایک کام پڑا۔ اس محکمے کے افسر سی ایس ایس سے آتے ہیں۔ محکمے کا سربراہ ڈی جی کہلاتا ہے۔ پہلے سربراہ اسی محکمے سے ہوتا تھا یعنی سی ایس ایس کا افسر! کچھ عرصے سے سربراہ جرنیل ہونے لگا ہے۔ بظاہر یہ نا انصافی ہے‘ مگر ان سی ایس ایس کے افسروں کا برتاؤ دیکھیے تو انسان مجبوراً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ سربراہ کے علاوہ نیچے بھی فوجی افسر آجائیں تو لوگوں کا بھلا ہو۔ کام پڑا تو سوچا کہ سربراہ تو جرنیل ہے۔ اس کا نائب (ڈپٹی ڈی جی) اپنا سی ایس ایس کا پیٹی بند بھائی ہے‘ اسی سے بات کی جائے۔ فون کیا تو معلوم ہوا کہ صاحب لنچ کر رہے ہیں‘ فارغ ہو کر فون کرتے ہیں۔ یہ فون کبھی نہ آیا۔ پھر سوچا کہ نائب سربراہ کے نیچے ڈائریکٹر ہے‘ وہ بھی سی ایس ایس سے ہے‘ اس سے بات کر تے ہیں۔ یہ ایک خاتون تھیں‘ انہوں نے بھی بات کرنا گوارا نہ کیا۔ پانچویں دن ڈی جی کو یعنی جرنیل کو فون کیا۔ پی اے نے نام نمبر نوٹ کر لیا۔ اسی دن شام کو جرنیل کا جوابی فون آ گیا۔ (اب ان کا نام یاد نہیں) حال احوال بھی پوچھا‘ کام بھی کرایا۔ قومی نوعیت کے ایک مسئلے پر پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کے سربراہ سے بات کرنا تھی۔ یہ بھی جرنیل تھے۔ فوراً بات ہو گئی۔ تجویز کو بھی انہوں نے سراہا۔ جن دنوں جنرل قمر جاوید باجوہ تھری سٹار جنرل کی حیثیت سے جی ایچ کیو میں IGT (انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایویلیو ایشن ) تھے‘ غالباً یہ 2015 ء یا 2016ء کی بات ہے۔بیرون ملک سے آئے ہوئے چند مہمانوں کے لیے شمالی علاقوں میں اُس گیسٹ ہاؤس کی ضرورت پڑی جو آرمی کے زیر انتظام تھا۔ جنرل باجوہ صاحب کے سٹاف سے بات کی۔ جواب میں انہوں نے خود فون کیا۔ گیسٹ ہاؤس چند حساس وجوہ کی بنا پر فنکشنل نہیں تھا۔ انہوں نے پیشکش کی کہ اس کے علاوہ جہاں بھی چاہیں‘انتظام ہو جائے گا۔ جس زمانے میں میں دفاع کے حسابات اور مالیات کے شعبے میں کام کر رہا تھا‘ تھری سٹار جرنیل خود فون کر کے کہتے تھے کہ فلاں سپاہی ان کی یونٹ کا ہے اور اس کا یہ مسئلہ ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کوئی وفاقی یا صوبائی سیکرٹری اپنے کسی نائب قاصد یا کلرک کے لیے ایسا کرے گا؟ 
اب دوسری انتہا دیکھیے۔ وفاقی دارالحکومت کے عین وسط میں ‘ جی سکس فور کی سٹریٹ 63 میں مسجد قطب شہید ہے۔ مسجد کی بغل میں کوڑے کرکٹ کاڈپو ہے جہاں ایک چھکڑا نما چیز غلاظت سے اٹی رہتی ہے۔ مسجد جانے والوں کا سابقہ بدبو کے بھبکوں سے پڑتا ہے۔ اس پر کالم لکھا اور سی ڈی اے کے سربراہ کی توجہ مبذول کی۔ کوئی ایکشن نہ ہوا۔ پھر کالم ‘ چیئرمین سی ڈی اے کے نام کوریئر کے ذریعے بھیجا۔ کچھ نہیں ہوا۔ سیکرٹری داخلہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ بات نہ ہوئی۔ اب اس مسئلے کو وزیر داخلہ جناب سرفراز بگتی کے گوش گزار کرنا ہے۔ ان سے یقینا بات ہو جائے گی کیونکہ وہ سیاستدان ہیں ‘ افسر نہیں! بات تو وزیراعظم صاحب سے بھی ہو جائے گی مگر کسی سول افسر سے بات نہیں ہو سکتی کیونکہ جو لاٹ اب آرہی ہے وہ اُس اخلاقیات اور آداب سے محروم ہے جو کسی زمانے میں سول سروس کا طرۂ امتیاز تھا۔ طارق عزیز مرحوم جب جنرل پرویز مشرف کے پرنسپل سیکرٹری تھے تب بھی‘ شدید مصروفیت کے باوجود‘ فون کال کا جواب دیتے تھے۔ اب امتیازی صفت ایک ہی رہ گئی ہے اور وہ ہے شدید احساس کمتری۔ الّا ماشاء اللہ !
بلدیاتی اداروں کی بہتری کا ایک ہی حل ہے۔ مقامی حکومتیں یعنی لوکل گورنمنٹس! گندگی ہے یا کچھ اور ‘ ان افسروں کی بلا سے! انہوں نے کون سا اس شہر میں ہمیشہ رہنا ہے۔ کچھ اس کوشش میں ہیں کہ کوئی بہتر سٹیشن مل جائے۔ کچھ ترقی کی امید میں ہیں! بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوں کو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے یہیں جینا ہے اور یہیں مرنا ہے۔ کام کریں گے تو ووٹ مانگنے کی حالت میں ہوں گے! سیاسی مخالف الگ کیمرے لگائے بیٹھے ہیں! یہ صوبائی حکومتوں کی آمرانہ روش ہے جو مقامی حکومتوں کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ وزرائے اعلیٰ کو مقامی حکومتیں نہ ہونے کے دو بہت بڑے فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ مقامی حکومتوں کو فنڈز نہیں دینے پڑتے۔ منتخب مقامی حکومتیں مالی خود مختاری مانگتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ بلدیاتی ادارے بیورو کریسی کی تحویل میں ہوں گے تو ہر حکم کے جواب میں یس سر‘ یس سر کی گردان موصول ہو گی۔ سیاستدان تو سوال جواب کرے گا!! ہمیں یہی جمہوریت راس آتی ہے جس میں ضلع اور تحصیل تو دور کی بات ہے اسلام آباد جیسا مرکزی اور اہم شہر بھی منتخَب میئر سے محروم ہو !!

Tuesday, November 21, 2023

خیمہ اور اونٹ …( 2)


مشرق وسطیٰ کے کھرب پتی ممالک جو مسلمان بھی ہیں کسی بھی غیر ملکی مسلمان کو شہریت نہیں دیتے خواہ وہ وہاں پیدا ہوا ہو یا پچاس سال سے رہ رہا ہو !! مگر پاکستان کو یہ کہا جا رہا ہے کہ جو بھی سرحد پار کر کے آئے اسے شہریت دے دی جائے! اعزاز صاحب کا کہنا ہے کہ '' جو افغان یہاں پر موجود ہیں ہمارا بازو ہو سکتے ہیں ہماری طاقت ہو سکتے ہیں‘‘! افغان تاریخ سے واجبی واقفیت رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ افغانوں کی وفاداریاں خود افغانستان کے اندر کبھی مستحکم اور قابلِ اعتماد نہیں رہیں۔ افغان آزاد روحیں ہیں۔ 

Maverick 

‘موڈی اور کسی بھی نظم و ضبط سے آزاد !! ولیم ڈالرمپل کی تصنیف 

'' ریٹرن آف اے کنگ‘‘ افغانوں کی نفسیات سمجھنے کیلئے تازہ سورس ہے۔ دنیا کا پیچیدہ ترین قبائلی نظام! جو کسی اصول کا پابند نہیں! خونی رشتوں کے اندر بھی ہولناک دشمنیاں! شاہ شجاع کے عمائدین میں سے ایک نے اپنے ساٹھ رشتہ داروں کی دعوت کی۔ مہمانوں کے کمرے کے نیچے پہلے ہی بارود بھری بوریاں رکھ دی گئیں۔کھانے کے دوران میزبان کسی بہانے باہر چلا گیا۔ ساٹھ کے ساٹھ رشتہ دار بھک سے اُڑا دیے گئے۔ یہ مہاجرین چالیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ آبادی انکی بڑھ کر کیا عجب کروڑ تک پہنچنے والی ہو۔ ( درست مردم شماری ان کی ناممکن ہے ) کتنی ہی نسلیں جوان ہو چکیں۔ یہاں کے پانی‘ اناج‘ دھوپ اور چاندنی سے تمتع اٹھایا۔ اب تک آپکے بازو اور آپکی طاقت کیوں نہیں بنے ؟ میں حرمین سے لے کر کینیڈا‘ امریکہ اور آسٹریلیا تک بے شمار افغانوں سے ملا ہوں جو پاکستان میں پیدا ہوئے‘ یہیں بڑے ہوئے۔ پاکستان ہی کے پاسپورٹ پر باہر گئے‘ مگر پاکستان کے شدید مخالف ہیں۔ کئی واقعات ہیں! کالم کی تنگ دامانی مانع ہے۔ اگر اعزاز صاحب نے ان افغانوں کے انٹرویو کیے ہیں یا انکے پاس پاکستان کا دست و بازو بننے کیلئے تیار افغانوں کے اعداد و شمار موجود ہیں تو ازراہِ کرم ہمارے علم میں اضافہ کریں ! 1920-21ء میں جب '' ہندوستان چھوڑ دو ‘‘ کی تحریک چلی تھی اور ہندوستان کے مسلمان ہجرت کر کے افغانستان گئے تھے تو ان کیساتھ وہاں جو سلوک ہوا ‘ تاریخ کا حصہ ہے !! 
رہی یہ بات کہ '' افغان بھائیوں اور بہنوں کو گلے سے لگانے کی ضرورت ہے ‘‘ اور یہ کہ '' ہم نے انہیں عزت نہیں دی۔‘‘ اس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے! ایران نے افغان مہاجرین کو خاردار تاروں کے حصار سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اسکے بر عکس افغان مہاجرین سارے پاکستان میں پھیل گئے۔ نصف صدی سے کاروبار کر رہے ہیں۔ جائدادیں خرید لیں۔ لاکھوں نے ناجائز راستے سے پاسپورٹ اور شناختی کارڈ لے لیے۔منشیات اور اسلحہ سے پاکستان بھر گیا۔ سب سے زیادہ قربانیاں ان مہاجرین کیلئے خیبر پختونخوا نے دیں۔یہاں مہاجرین نے مزدوریاں چھین لیں۔ مکانوں کے کرائے آسمان تک پہنچ گئے۔ مقامی لوگ ٹرانسپورٹ کے کاروبار سے محروم ہو گئے۔ میں ا ٹک سے ہوں۔ مقامی تاجر وں کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ کراچی سے لے کر گلگت تک مہاجرین کی پانچوں گھی میں سر کڑاہی میں ہے۔ صرف بارہ کہو اور ترنول ہی کی ڈیمو گرافی کا تجزیہ کر کے دیکھ لیجیے۔ اگر اب بھی گلہ ہے کہ عزت نہیں دی اور گلے سے نہیں لگایا تو پھر ایک ہی حل ہے کہ پاکستانیوں کو جلاوطن کر دیجیے۔ ابو سعید ابو الخیر سے منسوب رباعی یاد آرہی ہے
گفتی کہ فلان زیاد ما خاموش است/از بادۂ عشقِ دیگران مدہوش است 
شرمت بادا ہنوز خاکِ درِ تو /از گرمئی خونِ دلِ من در جوش است 
تمہیں گلہ ہے کہ ہم تمہاری یاد سے غافل ہیں اور کسی اور کی محبت میں گرفتار ! کچھ تو خیال کرو۔ تمہارے دروازے کی مٹی ہمارے خونِ دل کی گرمی سے ابھی تک جوش کھا رہی ہے! 
جو مہاجرین پڑھے لکھے ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر ہیں انہیں پاکستان کی شہریت دے کر ہم افغانستان کے ساتھ نیکی کریں گے یا دشمنی ؟ افغانستان کی معیشت اور سوشل سٹرکچر پارہ پارہ ہو چکا ہے۔ وہاں تعلیم یافتہ لوگوں اور ہنر مندوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے ان سپوتوں کو اپنے ملک جا کر اس کی خدمت کرنی چاہیے! پہلے '' جہاد ‘‘ کے نام نہاد پاکستانی علم بردار اپنے بچوں کو تو امریکہ میں تعلیم دلاتے رہے اور انہیں بزنس مین بناتے رہے مگر افغان بچوں کے ہاتھوں میں بندوقیں دے دیں۔ جہاد کے علم بردار خود جہاد میں نہیں گئے۔ اپنے آراستہ ایوانوں میں متمکن رہے۔ افغانوں کو جہاد پر اکساتے رہے۔ اوجڑی کیمپ نے سرکاری ملازموں کی اولاد کو کھرب پتی بنا دیا۔ اب ہم چاہتے ہیں کہ قابل اور ہنرمند افغان مہاجر افغانستان نہ جائیں اور اپنے ملک کیلئے کچھ نہ کریں ! یہ خیر خواہی نہیں!! 
اعزاز صاحب کی یہ بات درست ہے کہ افغانستان کے معاملات میں پاکستان کا رول رہا مگر جب وہ یہ کہتے ہیں کہ '' چار دفعہ افغانستان کی زمین تہِ تیغ ہوئی اور چاروں دفعہ پاکستان کا رول تھا ‘‘ تو یہ پاکستان کے خلاف ایک گمبھیر چارج شیٹ ہے !وہ یہ تاثر دیتے ہیں کہ ہمارے رول کی وجہ سے مہاجرین کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا۔ ایسی بات نہیں۔ پہلی مثال وہ سوویت حملے کی دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ '' ہم نے پیسے لیے اور جنگ افغانستان کے اندر لڑی اور بہت سارے افغان مہاجرین یہاں پر آئے‘‘ جب جنرل ضیا نے پاکستان کو ملوث کیا تو مہاجرین تو اس سے پہلے آچکے تھے۔ سوویت یونین کے حملے میں پاکستان کا رول کیسے ہو سکتا ہے !! طالبان پہلی بار حکومت میں آئے تو درست ہے کہ پاکستان نے ان کی حمایت کی مگر مہاجرین اسلئے تو نہیں آئے کہ پاکستان مدد کر رہا تھا!! پھر جب امریکہ چڑھ دوڑا اور مہاجرین کے مزید ریلے آئے تو اس میں پاکستان کا کیا قصور تھا؟ پاکستان امریکہ کا ساتھ نہ دیتا تو کیا امریکہ نہ آتا ؟امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا۔ افغانوں کو ان حملوں کی وجہ سے ملک چھوڑنا پڑا۔ اس میں پاکستان کہاں سے قصوروار ہو گیا ؟ چیزوں کو 

Oversimplify

 کرنے سے تاریخ بدلتی تو نہیں ہاں اس کی شکل مسخ ضرور ہو جاتی ہے۔ 
اعزاز صاحب کا مؤقف ہے کہ خود کش حملہ آور افغان سرحد پار سے آئے تھے‘ یہاں رہنے والے افغان عام طور پر کسی قسم کی برائی میں یا قانون کی وائلیشن میں ملوث نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہے تو اچھی بات ہے‘مگر ہم یہ عرض ضرور کریں گے کہ اس معاملے میں محترم اعزاز صاحب نے جو تحقیق کی ہے اور جن اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خود کش حملہ آور سرحد پار سے آئے اور یہاں رہنے والے افغان قانون کی پامالی میں ملوث نہیں ہوتے تو ازراہِ کرم ہمیں اس تحقیق اور ان اعدادو شمار سے آگاہ ضرور فرمائیں! 
آخر میں ہم اعزاز صاحب کی توجہ کچھ تلخ حقائق کی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کی حمایت اور وکالت پاکستان نے پوری دنیا میں کی۔اپنی بساط سے بڑھ کر تعاون کیا مگر بار بار کی یاد دہانیوں اور درخواستوں کے باوجود افغانستان کی زمین پاکستان پر حملوں کیلئے مسلسل استعمال ہو رہی ہے۔ افغانستان کیلئے پاکستان کے خصوصی نمائندے جناب آصف درانی نے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو سر حد پار کر کے پاکستان میں حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ذرائع کے مطابق ٹی ٹی پی کے تمام بڑے گروپ افغان حکومت کی طرف سے کسی مزاحمت کے بغیر افغانستان سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے مختلف علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز قائم کر رکھے ہیں۔ آئے دن سرحد پر افغانستان کے فوجیوں کی طرف سے جھڑپیں اس کے علاوہ ہیں۔ اس صورتحال سے اغماض برت کر پوری قوت کیساتھ یہ کہنا کہ تمام افغانوں کو جنہیں پاکستان نے پناہ دی‘ شہریت دی جائے‘ تھپڑ مارنے والے کو دوسرا رخسار پیش کرنے کے مترادف ہے

Monday, November 20, 2023

خیمہ اور اونٹ


''یہ بڑی غلط پالیسی ہے۔ غلط وقت پر ہے۔غلط انداز میں ہے۔ ان افغان مہاجرین کو پاکستانی تصور کیاجانا چاہیے۔جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جو پڑھے لکھے لوگ ہیں انہیں سٹیزن شپ دینی چاہیے۔ جن کے پاس کوئی سکل ہے‘ کوئی ڈاکٹر ہے‘ کوئی انجینئر ہے اُسے بھی پرییارٹی پر پاکستان کی سٹیزن شپ دیں۔ پاکستان کو اپنی ویزا پالیسی کو بہتر کرنا چاہیے۔ جو افغان یہاں انویسٹ منٹ کر سکتے ہیں‘ انویسٹ منٹ کی رقم متعین کر دیں‘ چار لاکھ ڈالر‘ پانچ لاکھ ڈالر تو اُن کو فیملی سمیت ویزا دیں۔اُن کو اس سسٹم میں انٹی گریٹ کریں اور پاکستان کی پاور بنائیں۔اگر آپ کو اپنی نیشنل سکیورٹی کے بارے میں زیادہ پریشانی ہے تو ان سے افغانستان کی جو سٹیزن شپ ہے اس کی 

Renounce

 کروالیں یا کوئی پیپر سائن کروالیں۔پھر جو دوسری آرگومنٹ دی جاتی ہے کہ چودہ یا پندرہ دہشت گرد سال یا دو سال یا چھ مہینے میں خود کْش حملہ آور جو افغان تھے یہ زیادہ تر وہ افغان تھے جو سرحد پار سے آئے ہیں۔ یہاں رہنے والے جو افغان ہیں وہ عام طور پر کسی قسم کی برائی میں یا قانون کی وائلیشن میں ملوث نہیں ہوتے۔غریب لوگ ہیں۔ زیادہ تر پڑھے لکھے لوگ ہیں‘ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے۔وہ افورڈ بھی نہیں کر سکتے۔کچھ 

Criminal element 

ہوتے ہیں ان کے خلاف آپ کارروائی کیجیے لیکن ان کو جب آپ ڈاکومنٹ میں لے آئیں گے تو بڑا بہتر ہو جائے گا۔جو لیبر کلاس ہے افغان مہاجرین کی ان کے لیے آپ کوئی ٹائم فریم طے کر دیں کہ پانچ سال کے اندر وہ اتنا ٹیکس جمع کراتے ہیں تو ان کو پاکستان کی سٹیزن شپ دیجیے۔ جو افغان بھائی ہیں‘ افغان بہنیں ہیں‘ انہیں گلے سے لگانے کی ضرورت ہے۔اس لیے کہ چار دفعہ افغانستان کی زمین تہہ تیغ ہوئی‘ اور چاروں دفعہ پاکستان کا رول تھا۔اور ہمارا رول تھا۔ پہلی دفعہ سوویت یونین کے خلاف جنگ ہوئی پاکستان کا رول یہ تھا کہ ہم نے پیسے لیے اور جنگ افغانستان کے اندر لڑی۔ بہت سارے افغان مہاجرین یہاں پر آئے۔ نمبر دو جب سوویت یونین یہاں سے چلا گیا تو نائن ٹیز کی ابتدا میں‘ 95‘96میں طالبان نے عروج پکڑا تو طالبان کے عروج پکڑنے میں پاکستان نے بھی اُس وقت سپورٹ کی۔ پاکستان نے طالبان کی سپورٹ کی تھی۔یہ ریکارڈ کا حصہ ہے۔پاکستانی بھی مانتے ہیں۔ساری دنیا بھی مانتی ہے۔ اس وقت جب طالبان گورنمنٹ آئی تھی‘ بہت سارے لوگ پاکستان میں آگئے تھے۔ دوسری دفعہ لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی۔کیونکہ طالبان کا جو سخت سسٹم تھا اس پر لوگ ناراض تھے۔عورتوں پر‘ بچیوں پر تعلیم کی پابندی تھی‘ بدھا کے مجسمے توڑ دیے گئے تھے۔امن ضرور لائے تھے۔ پوست کی کاشت بند کر دی تھی‘لیکن لوگوں کے چہروں سے خوشی ختم ہو گئی تھی۔یہ دو واقعات ہو گئے۔ پھر تیسرا واقعہ نائن الیون کا ہوا۔ نائن الیون جب ہو گیا تو اس کے بعدامریکہ ایک دفعہ پھر افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ تو ایک دفعہ پھر پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا اور پھر وہاں سے لوگوں کو نکلنا پڑا۔ اور چوتھی دفعہ یہ ہوئی کہ جب دوحہ پیس پروسیس ہوا تو پاکستان نے پہلے خفیہ طور پر اور بعد میں سرعام طالبان کی حمایت کی۔ اور سوچا کہ ہم اشرف غنی کی حکومت کو ہٹا دیں گے کہ وہ مخالف ہے اور پرو انڈیا ہے۔تو پھر چوتھی دفعہ ہم نے افغان بھائیوں کے ساتھ‘ میں یہ کہوں گا کہ ہمارا بھی رول تھا۔افغان طالبان وہاں پر آگئے اب ہمارے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک نہیں۔ ٹیررازم پہلے کی نسبت زیادہ ہو رہا ہے۔ اشرف غنی کے دور میں ٹیررازم اتنا نہیں تھا جتنا اب ہورہا ہے۔ تو اب اس کے جواب میں ہم نے افغان طالبان سے نمٹنے کے لیے جو افغان یہاں پر موجود ہیں جو ہمارا بازو ہو سکتے ہیں‘ جو ہماری طاقت ہو سکتے ہیں‘ ہم ان کو دھکا دے رہے ہیں اور وہ لوگ پریشان ہیں کیونکہ وہ یہاں پر چار جنریشن‘ چار نسلیں پیدا ہو چکی ہیں‘ جو یہاں کی زبان جانتے ہیں‘ یہاں کا کلچر جانتے ہیں۔ ہم نے انہیں قبول نہیں کیا‘ ہم نے انہیں عزت نہیں دی کہ انہیں یہاں سٹیزن شپ دے دیتے یا ان کو قبول کرتے۔ وہ بلیک مارکیٹ میں کام کرتے رہے۔کیوں ہم نے ایسا کیا؟ ہماری غلطیاں تھیں۔ اور ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے بجائے کہ ہم اپنی امیگریشن پالیسی ٹھیک کریں‘ ویزا پالیسی ٹھیک کریں‘ اب ہم ایک اور بڑی غلطی کر رہے ہیں کہ یہ جو موجود ہیں‘ ان کو بھی اپنے خلاف کر رہے ہیں۔یہ وطن جو ہے ان لوگوں کا بھی ہے جو یہاں پر پیدا ہوئے ہیں۔ بے شک ان کے ماں باپ افغان تھے۔ ان افغانوں نے جو یہاں پر تیس سال‘ بیس سال‘ پندرہ سال گزار دیے یہ وطن اب ان کا بھی ہے۔باہر ہم جاتے ہیں تو پانچ سال بعد سٹیزن شپ مانگتے ہیں‘ ان کو بھی دے دیں‘ کھلے دل کا مظاہرہ کریں‘‘ 
یہ طویل پالیسی بیان افغان کابینہ کا ہے نہ افغانی سفیر کا ! یہ معروف صحافی اعزاز سید صاحب کا ہے۔ اعزاز صاحب کا رپورٹنگ میں بڑا نام ہے۔ وہ ایک وی لاگ بھی کرتے ہیں۔ اس میں عمر چیمہ بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ عمر چیمہ بھی رپورٹنگ کے میدان میں معتبر مقام رکھتے ہیں بلکہ مشکل مقامات سے بھی گزرے ہیں۔ عام طور پر یہ دونوں ثقہ حضرات نئی خبروں تک محدود رہتے ہیں مگر چند روز پہلے‘ جس دن عمر چیمہ موجود نہیں تھے‘ اعزاز صاحب نے افغان مہاجرین کے حوالے سے یہ طویل تقریر کی۔ ہم ان کے خیالات کا احترام کرتے ہیں۔ انہیں اپنی رائے دینے کا پورا حق حاصل ہے۔ یہی حق استعمال کرتے ہوئے کچھ گزارشات ہم بھی پیش کرنے کی جسارت کرتے ہیں! 
اعزاز صاحب کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ جو افغان یہاں پیدا ہوئے ہیں انہیں شہریت ملنی چاہیے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وہ خاص وقت یہاں گزار چکے ہیں۔جیسے پانچ سال کا عرصہ‘ جو کچھ دوسرے ملکوں میں رائج ہے‘ انہیں بھی شہریت دینی چاہیے۔ دوسرے لفظوں میں جو آئے ہیں انہیں بھی اور جو یہاں پیدا ہوئے انہیں بھی‘ شہریت ملنی چاہیے۔ اس ضمن میں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ امریکہ میں جو بھی پیدا ہو‘ اسے شہریت مل جاتی ہے۔ برطانیہ میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کی پالیسی یہ نہیں ہے کہ جو بھی یہاں پیدا ہو‘ اسے شہریت مل جائے۔ کوئی بھی ملک کسی ایک قومیت کے لیے پالیسی نہیں بدلتا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان صرف افغانوں کے لیے پالیسی کیوں بدلے؟دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر ایک بار آپ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ افغان مہاجرین کو پاکستانی شہریت دیں گے تو یاد رکھیے یہ سلسلہ لا متناہی ہے۔ یہ مہاجر غزنوی عہد سے آرہے ہیں۔ مسعود سعد سلمان سے لے کر قطب الدین ایبک اور ناصر الدین قباچہ تک سب انہی علاقوں سے آئے تھے جو آج افغانستان کہلاتے ہیں۔ اُس وقت یہاں کی '' شہریت‘‘انہوں نے بزورِ شمشیر حاصل کی تھی۔ افغانستان میں صرف ایک انڈسٹری کام کرتی ہے اور وہ جنگ ہے اور قتل و غارت۔ جب بھی وہاں حکومت بدلتی ہے اور جب بھی کوئی نام نہاد انقلاب آتا ہے‘ مہاجرین کا ایک نیا ریلا پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ افغانستان میں کسی حکومت کو ماضی میں کوئی قرار تھا نہ آئندہ ہو گا۔ اعزاز صاحب ہم سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے رابرٹ نکولس

 (Robert Nichols)

کی مشہور زمانہ کتاب '' اے ہسٹری آف پشتون مائیگریشن‘‘ ضرور پڑھی ہو گی

۔مہاجرین کے ریلے آتے رہیں گے۔ ہمیشہ آتے رہیں گے۔ طالبان حکومت کی سخت گیر پالیسیوں سے جو اضطراب سینوں میں پل رہا ہے‘ اس کا نتیجہ کسی بھی وقت‘ کچھ بھی نکل سکتا ہے۔ تو پھر کیا مہاجرین کے ہر نئے ریلے کو آپ پاکستانی شہریت پیش کرتے رہیں گے ؟ ( جاری )

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights rese

Thursday, November 16, 2023

نہیں ! جنابِ وزیر اعلیٰ ! نہیں

اگر یہ قتلِ عام نہیں تو کیا ہے ؟ 

یہ قتلِ عام ایک چودہ سالہ بچے نے کیا جو ڈیفنس لاہور فیز سات میں کار چلاتے ہوئے کرتب دکھا رہا تھا۔ انتہائی تیز رفتاری سے وہ زگ زیگ کھیل رہا تھا۔ جو قارئین زگ زیگ کے مطلب سے نا آشنا ہیں ان کی اطلاع کے یے عرض ہے کہ زگ زیگ کامطلب گاڑی کو سڑک کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے اور پھر دوسرے کنارے سے پہلے کنارے لانا ہے اور اسی طرح کرتے جانا ہے‘ یعنی پہلے سڑک کے دائیں طرف کرنا پھر برق رفتاری سے بائیں طرف کرنا ! اس کھیل کے دوران اس کی گاڑی دوسری گاڑیوں سے ٹکرائی۔ ایک بدقسمت خاندان کے چھ افراد اس بچے کے کھیل کی بھینٹ چڑھ گئے۔ان مقتولوں میں ایک چار سالہ بچی اور ایک چار ماہ کا بچہ بھی شامل ہیں۔ تین شدید زخمی ہوئے۔ پورے کا پورا خاندان اُجڑ گیا۔ یہ وحشت ناک قتلِ عام کسی دور افتادہ بستی یا گاؤں میں نہیں کیا گیا۔ یہ لاہور شہر کے سب سے زیاد ماڈرن اور مہنگے علاقے میں رونما ہوا۔ 
جیسا کہ ہر حادثے کے بعد ہوتا ہے‘ صوبے کے گورنر اور وزیر اعلیٰ کی طرف سے بیانات جاری ہوئے۔ دونوں نے واقعہ پر گہرے دکھ اور افسوس کااظہار کیا۔ رپورٹ طلب کی اورغفلت کے ذمہ دار ڈرائیور کے خلاف قانونی کارروائی کا حکم بھی دیا۔ مگر ہم بصد احترام نگران وزیر اعلیٰ جناب محسن نقوی سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا غفلت کا ذمہ دار صرف ڈرائیور ہے؟ اصولی طور پر عوام کے جان و مال کی ذمہ داری حکمران پر عائد ہوتی ہے۔فرات کے کنارے مرنے والے جانور والی بات ہر حکمران کو معلوم ہے۔شیر شاہ سوری کا فرمان تھا کہ جس گاؤں میں قتل ہو گا‘ وہاں کا مکھیا قاتل کو تلاش کرے گا ورنہ موت کی سزا پائے گا۔خلجیوں کے دور میں بھی انصاف کا نظام مثالی تھا۔کم تولنے والے تاجر کے جسم سے اتنا گوشت کاٹ دیا جاتا تھا جتنا کم اس نے تولا ہوتا تھا۔ کہا جائے گا یہ ظلم اور سفاکی ہے۔ مگر مکھیا اور کوتوال راتوں کو سوتے نہیں تھے‘ پہرا دیتے تھے۔ جدید سنگا پور کے معمار‘ لی کؤان یئو سے امریکیوں نے پوچھا تھا کہ صرف گولی چلانے والے کو‘ جس نے کسی کو مارا نہ زخمی کیا‘ سزائے موت دینا کہاں کا انصاف ہے؟ لی نے جواب دیا تھا تم مجرم کو جرم سرزد ہونے کے بعد سزا دیتے ہو‘ ہم جرم سرزد ہونے سے پہلے سزا دیتے ہیں! سفاکی کا انسداد سفاکی ہی سے کیا جا سکتا ہے‘ چونچلے اٹھانے سے نہیں کیا جا سکتا ! اس ملک میں قاتلوں کی جس طرح ناز برداریاں کی جاتی ہیں ‘ اس کے بعد انسانی جان کی وقعت یہاں اتنی بھی نہیں رہی جتنی فرش پر رینگنے والی کیڑی کی ہے!
نہیں ! جناب وزیر اعلیٰ! نہیں ! چھ بے گناہ انسانوں کے قتل کی ذمہ داری سب سے پہلے ٹریفک پولیس پر عائد ہوتی ہے۔ اگر چودہ سال کا بچہ گاڑی چلا رہا ہے تو اس کا مطلب ایک پاگل شخص کو بھی معلوم ہے کہ ٹریفک پولیس اپنا کام نہیں کر رہی! ٹریفک پولیس کا ڈر ہوتا تو بچہ گاڑی چلاتا نہ بچے کے بڑے اسے گاڑی چلانے کی اجازت دیتے! کوئی بھی ایسا ملک ہوتا جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو ایسے دلخراش حادثے کے بعد سب سے پہلے ٹریفک پولیس کے متعلقہ ہیڈ کو ذمہ دار قرار دیا جاتا اور سزا دی جاتی! ذرا ٹریفک پولیس پر قومی خزانے سے ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگائیے! ان کی تنخواہیں‘ ان کی گاڑیاں‘ ان کے ٹیلیفون‘ ان کی مراعات‘ ان کے پروٹوکول! ان کی قیام گاہوں کے باہر تنے ہوئے خیموں میں شفٹوں پر پہرہ دینے والے پولیس کے جوان !! اور اس کا حاصل ! چودہ سال کا بچہ گاڑی چلاتے ہوئے اٹھکیلیاں کرتا ہے اور چشم زدن میں چھ آدم زادوں کو ہلاک اور تین کو زخمی کر دیتا ہے!! اور ٹریفک پولیس کے سربراہ کو کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جاتا!! یا وحشت ! یہ لاہور کا شہر ہے یا جنگل ؟ اور یہ ڈیفنس کے فیز ہیں یا کسی قتل گاہ کے فیز ؟ جس شہر میں چار سال کی بچی اور چار ماہ کا بچہ محفوظ نہیں‘ وہ پاکستان کا شہر ہے یا غزہ کا؟ 
اور دوسرا ذمہ دار اس قتل عام کا اُس بچے کا سرپرست ہے‘ خواہ اس کا باپ ہے یا ماں یا کوئی اور!! کیا اس بچے کا والد کوئی بہت بڑی شخصیت ہے؟ کوئی بہت بڑا سرکاری منصب دار ؟ یا کوئی امیر کبیر تاجر یا وڈیرہ یا صنعت کار یا کوئی سیاسی زعیم؟ جس کے برخوردار کو ٹریفک پولیس نے کھلی چھٹی دے رہی ہے اور وہ خود اتنا بے نیاز ہے کہ بچے کی جان کو خطرے میں ڈال کر اسے گاڑی دے رہا ہے! یہ تو قسمت اچھی تھی کہ بچہ بچ گیا۔ و رنہ اس کے سرپرست نے تو بچے کی زندگی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی تھی ! چھ انسانوں کی موت اس بچے کو ساری زندگی یاد رہے گی! یہ اس کے لیے ایک نفسیاتی مسئلہ بھی بن سکتا ہے! انصاف یہ ہے کہ بچے کو نہیں‘ اس کے سرپرست کو سزا دینی چاہیے 
یہ کوئی فخر کی بات نہیں مگر سچ یہ ہے کہ اس لکھنے والے نے بارہااُس قتلِ عام کی طرف توجہ دلائی ہے جو اس ملک میں بغیرکسی روک ٹوک کے جاری ہے۔ ڈمپروں‘ ٹریکٹر ٹرالیوں اور تیز رفتار ویگنوں کے نیم وحشی ڈرائیور ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں! اس ملک میں خلیل حامدی جیسا نابغۂ رُوزگار سکالر گنّا ڈھونے والی ٹرالی کی نذر ہو جاتا ہے ‘ پروفیسر طیب منیر جیسا ہر دلعزیز ‘ ہنستا مسکراتا‘ پروفیسر ایک ڈمپر کے نیچے کچلا جاتا ہے ‘ کتنے ہی خاندان ہر روز ماتم کناں ہو تے ہیں‘ کتنے بچے یتیم‘ کتنی سہاگنیں بیوہ اور کتنے ماں باپ بے سہارا ہو جاتے ہیں اور قانون خاموش رہتا ہے! قانون سازی کرنے والے بے نیاز اور لاتعلق!! جرمانوں کی مالی مقدار مضحکہ خیز حد تک معمولی ہے۔ ڈرائیونگ لائسنسوں کا کوئی پوائنٹ سسٹم نہیں ! وفاقی دارالحکومت میں رات کو بغیر لائٹ والی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد ہوشربا ہے! افسوس ! صورت حال بدلنے کے کوئی آثار نہیں ۔

پس نوشت: پاکستان ہوزری مینوفیکچررز اینڈ ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین سید ناہد عباس نے کہا ہے کہ برآمدات بڑھانے کیلئے پاکستان کو ''بنگلہ دیش ماڈل‘‘ پر عمل کرنا پڑے گا۔ بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد ہر روز دن کا آغاز اس میٹنگ سے کرتی ہیں کہ برآمدات بڑھانے اور ایکسپورٹرز کو درپیش مسائل حل کرنے کیلئے کس حکومتی محکمے نے کیا کام کیا ہے۔ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے اور صنعتی تنظیموں کے عہدیداروں کو اپنے مسائل حل کروانے کیلئے حکومتی عہدیداروں اور بیورکریٹس سے ملاقاتوں کیلئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش کے صنعتکاروں نے بیرون ملک بڑے برینڈز کے قریب ترین مقامات پر اپنا سیٹ اَپ بنا کر انہی برینڈز کے تجربہ کار لوگوں کو بہتر تنخواہوں پر ملازم رکھ کر اپنے برینڈز متعارف کروا دیے ہیں۔ 
سید ناہد عباس کا یہ بیان برآمدات میں ہماری ''کارکردگی‘‘کا وضح ثبوت ہے! بنگلہ دیش کی اس میدان میں بے مثال کامیابی وہاں کی حکومت کی انتھک کوشش ہے۔ وزیر اعظم حسینہ واجد ‘ معاشی اور مالی حوالوں سے جن اجلاسوں کی صدارت کرتی ہیں‘ وہ سات سات گھنٹے جاری رہتے ہیں! بنگلہ دیش اگر ابھی تک ایشین ٹائیگر نہیں بھی بنا ‘ تو بننے کے قریب ہے! کپاس کا ایک پودا بھی جس ملک میں نہیں ‘ وہ ملبوسات کی برآمد میں ہمیں میلوں پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ہماری ناکامی کا بہت بڑا سبب ہے لیکن نوکر شاہی‘ سرخ فیتہ اور ذاتی مفادات کی آمیزش بھی بڑے عوامل ہیں!ہمارے برآمد کنندگان کو سرکاری دفتروں میں عزت ملتی ہے نہ سہولت! بڑے بڑے ادارے بنا دیے گئے ہیں مگر ان کا اصل مقصد یہ ہے کہ مزید اسامیاں پیدا ہوں اور پسندیدہ بیوروکریٹس وہاں پارک ہوں ! کاش ! ہم بیدار ہو جائیں اور اپنی اصلاح کر لیں !

Tuesday, November 14, 2023

عامل اور معمول

جسے تم گوشت پوست کا بنا ہوا آزاد نوجوان سمجھ رہے ہو‘ وہ گوشت پوست کا بنا ہوا تو ہے مگر آزاد نہیں! اس کے دیدہ زیب لباس پر نہ جاؤ۔ اس کے چمکدار جوتوں سے بھی دھوکا نہ کھاؤ۔ اس نے سر پر قیمتی برانڈ کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے‘ اسے بھی نظر انداز کرو! یہ خوش پوش‘ وجیہ نوجوان اصل میں بچہ جمورا ہے! اس کی اپنی مرضی کوئی نہیں! یہ اپنے استاد کا مطیع و فرمانبردار ہے۔ یہ معمول ہے اور اپنے عامل کا غلام ہے! اسے اس کا عامل بیٹھنے کا حکم دیتا ہے تو بیٹھ جاتا ہے۔ کھڑا ہونے کا کہتا ہے تو کھڑا ہو جاتا ہے۔ سو جانے کا حکم دیتا ہے تو لیٹ کر خراٹے لینے لگتا ہے۔ یوں سمجھو انسانی شکل میں یہ روبوٹ ہے۔ آج کی دنیا میں روبوٹ انسانی شکل ہی کے بنائے جا رہے ہیں مگر صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسان نہیں‘ روبوٹ ہیں اور انہیں انسانی شکل دینے کی کوشش کی گئی ہے لیکن یہ کوشش سو فیصد کامیاب نہیں ہوئی! اس کے برعکس بچہ جمورا ایک ایسا روبوٹ ہے جو ایک سو ایک فیصد انسان ہے! 
بچے جمورے کے بارے میں جو بات لازماً یاد رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا عامل بدلتا رہتا ہے۔ ہر نیا عامل اسے اپنے خیالات کے حساب سے تربیت دیتا ہے۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب یہ اپنے آپ کو اس کی منشا کے مطابق ڈھال لیتا ہے تو عامل بدل جاتا ہے۔ نیا عامل اسے نئے راستے پر لگاتا ہے۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ اس کا عامل سبز رنگ کا دلدادہ تھا۔ اس نے اسے مکمل طور پر سبز پوش بنا دیا۔ لباس‘ جوتے‘ ٹوپی‘ گلو بند‘ دستانے‘ جرابیں سب سبز رنگ کے پہنائے۔ چھتری بھی سبز رنگ کی دی۔ یہاں تک کہ روٹی اور سالن بھی سبز رنگ کا ہوتا تھا۔ ہر طرف سبز رنگوں کی بہار تھی! پھر ایک اور عامل آیا۔ اس عامل کو پِلّے                  

 Puppies 

 بہت پسند تھے۔ کچھ کچھ خواجہ سگ پرست جیسا تھا۔ اسے سبز رنگ سے چِڑ تھی۔ اس نے آکر ریورس گیئر لگایا۔ پہلے بچہ جمورا ہر شے میں سبز رنگ بھر رہا تھا‘ اب ہر شے سے سبز رنگ نکالنے لگا۔ سبز لباس‘ سبز جوتے‘ سبز ٹوپی‘ سبز دستانے‘ سبز جرابیں‘ سب غائب ہو گئے۔ روٹی‘ سالن‘ سلاد سب سے سبز رنگ ہٹ گیا۔ 
ایک اور عامل آیا تو اس نے ایک مجسمہ کھڑا کیا۔ اب بچے جمورے کو حکم ملا کہ اس مجسمے کی پرستش کرنی ہے۔ بچہ جمورا نئے احکام کی تعمیل میں لگ گیا۔ وہ ہر روز مجسمے کو جھاڑتا‘ پونچھتا۔ اسے اچھے اچھے کپڑے پہناتا۔ اس کا طواف کرتا۔ اس پر گلاب کا عرق چھڑکتا۔ اس کے گلے میں تازہ‘ خوشبودار پھولوں کے ہار ڈالتا! اس کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتا! رات دن اس کی تعریفیں کرتا۔ اس کے قصیدے پڑھتا۔ اگر کوئی اس مجسمے کو ناپسند کرتا تو بچہ جمورا اس سے بھِڑ جاتا۔ اس کی پٹائی کرتا اور اس کا جینا دوبھر کر دیتا۔ 
بچے جمورے کی قسمت نے ایک اور پلٹا کھایا۔ اب جو عامل آیا اس نے مجسمے کو سخت ناپسند کیا اور بچے جمورے کو حکم دیا کہ اسے عبرت کا نشان بنا دو۔ بچہ جمورا تعمیلِ حکم کے لیے تیار تھا۔ وہ مجسمے کے سامنے کھڑا ہو گیا اور اسے خوب برا بھلا کہا۔ اس کے گلے سے پھولوں کا ہار اتار کر کانٹوں کا ہار پہنایا۔ مجسمے کی ناک توڑ ڈالی۔ اس کے سفید چہرے پر کالک مل دی۔ اس کے ارد گرد کوڑا کرکٹ پھیلا دیا۔ پھر ایک کِک لگائی۔ مجسمہ اوندھے منہ زمین پر آرہا۔ مگر یہ سب کچھ کرکے بھی بچے جمورے کا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ اس نے ان تمام لوگوں کا پیچھا کیا جو مجسمے کو پسند کرتے تھے۔ انہیں ہراساں کیا۔ کچھ کو زدو کوب کیا۔ اس کے بعد وہ انتظار کرنے لگا کہ اس کی اگلی ڈیوٹی کیا ہو گی!
منطقی سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا بچہ جمورا کبھی آزاد ہو گا یا ہمیشہ کٹھ پتلی بنا رہے گا؟ کیا ایک کے بعد دوسرا‘ دوسرے کے بعد تیسرا اور تیسرے کے بعد چوتھا عامل اسے اپنی انگلیوں پر نچاتا رہے گا؟ کیا وہ اپنے دماغ کو کبھی استعمال نہیں کرے گا‘ یا نہیں کر سکے گا؟ اس سوال کا جواب مختلف دانشور مختلف انداز میں دیتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ بچہ جمورا ذہنی طور پر ابھی پختہ نہیں ہوا یعنی:
نالہ ہے بلبلِ شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
ابھی اسے عامل کی کڑی نگرانی میں مزید ٹریننگ کی ضرورت ہے۔ اگر ذہنی بلوغت کی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی اسے خود مختار کر دیا گیا تو یہ ناکام ٹھہرے گا۔ مبصرین کا ایک اور گروہ صورتحال کا ذمہ دار عاملوں کو ٹھہراتا ہے۔ ان کی رائے ہے کہ کوئی عامل بھی بچے جمورے کو اپنے دائرۂ اختیار سے باہر نہیں نکالے گا‘ نہ نکلنے دے گا۔ ایک روبوٹ نما ماتحت ملا ہوا ہے۔ کون اسے ہاتھ سے جانے دے گا! مزے ہی مزے ہیں! عامل خود ریشمی پردے کے پیچھے بیٹھا ہوتا ہے۔ جو کرنا چاہتا ہے‘ بچے جمورے سے کرا لیتا ہے۔ اتنے مثالی انتظام کو کون ختم کرنا چاہے گا! اصحابِ بصیرت کی ایک اور جماعت ان دونوں نکتہ ہائے نظر سے اختلاف کرتی ہے اور تیسری طرف اشارہ کرتی ہے۔ ان کے خیال میں اگر بچے جمورے میں خود مختار رہ کر کام کرنے کی اہلیت موجود ہے تب بھی وہ اہلیت زنگ آلود ہو چکی ہے۔ برسوں سے بلکہ دہائیوں سے وہ صرف احکام کی تعمیل کر رہا ہے۔ اب یہ رول اس کی عادتِ ثانیہ بن چکا ہے۔ اس کی حالت وہی ہے جو سٹاک ہوم سنڈروم 

(Stockholm syndrome) 

میں مغوی یا اسیر کی ہوتی ہے کہ آزادی کی تڑپ ماند پڑ جاتی ہے! صیاد اچھا لگنے لگتا ہے! ایک محفوظ ماحول ہوتا ہے‘ گرمی اور سردی سے دور! آخری ذمہ داری عامل کی ہوتی ہے‘ معمول کی نہیں! چنانچہ فریقین کا باہمی‘ غیر اعلانیہ‘ سمجھوتا ہو جاتا ہے۔ 
مگر اہلِ نظر کا ایک اور طائفہ ایک اور ہی بات کرتا ہے! اور یہ بات دلچسپ بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ فرنگی ایسی چونکانے والی بات کو 

Intriguing 

کہتے ہیں۔ اس گروہ کی رائے میں عامل اور معمول دونوں ایک دوسرے سے خبردار اور ہوشیار ہیں! دونوں ایک دوسرے کے تحفظات سے آگاہ ہیں اور ایک دوسرے کے عزائم کو اچھی طرح بھانپے ہوئے ہیں! دونوں نے اپنی اپنی دفاعی لائنیں کھینچی ہوئی ہیں۔ عامل جانتا ہے کہ معمول پر تولے بیٹھا ہے اور کسی مناسب موقع کی تلاش میں ہے۔ اسے آزادی‘ جلد یا بدیر‘ حاصل کرنی ہی کرنی ہے۔ عامل یہ بھی جانتا ہے کہ تاریخ کا اپنا سفر ہے جو پیچھے کی طرف نہیں پلٹ سکتا لیکن عامل کو یہ بھی معلوم ہے کہ جو کچھ بھی ہو‘ معمول براہِ راست مخاصمت سے گریز کرے گا۔ دوسری طرف بچہ جمورا آزادی کی امنگ دل میں لیے بیٹھا ہے اور کسی ایسے لمحے کے انتظار میں ہے جب وہ عامل کے حصار سے نکل جانے میں کامیاب ہو جائے۔ دوسرے لفظوں میں فریقین چوکنے ہیں اور کھیل کے منطقی انجام کے لیے تیار! مگر دونوں محتاط ہیں اور پُرامن بقائے باہمی کا دامن بھی نہیں چھوڑنا چاہتے!
جس گروہ کی بھی رائے مانی جائے‘ ایک بات طے ہے کہ وقت ایک جگہ ٹھہر نہیں سکتا۔ تاریخ رُک نہیں سکتی! خشکی اور تری پر ہر نیا لمحہ لاکھوں تبدیلیاں لے کر آتا ہے! زمانے میں اتنا زور ہے کہ انسان یا انسانوں کے جتھے زمانے کی گردش کے سامنے وہی حیثیت رکھتے ہیں جو تیز آندھی میں تنکے کی ہوتی ہے! کل کا کچھ پتہ نہیں! گنبدِ نیلوفری اگلے ثانیے میں کس رنگ کا ہو جائے گا‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا! بچہ جمورا کسی بھی وقت بچہ جمہورا بن سکتا ہے!!

Monday, November 13, 2023

ہم انسان بھی کیا چیز ہیں

آج گھر میں بہت رونق تھی۔ ڈرائنگ روم مہمانوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ 

گائے‘ بکری‘ گدھا اور کتا ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔
بات گائے نے شروع کی۔کہنے لگی :پیدائش سے انسان کی خدمت شروع کرتی ہوں۔ ماں کا دودھ مجھے بہت کم ملتا ہے اور مالک زیادہ لے جاتا ہے۔ پھر بڑی ہوتی ہوں تو بچھڑے کو جنم دیتی ہوں۔ میرے دودھ پر اصل حق اس کا ہے۔ مگر میرے لخت جگر کو میرے سامنے کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے اور دودھ کا غالب حصہ انسان اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ لسی‘ گھی‘ مکھن بناتا ہے۔ کھاتا بھی ہے۔ بیچتا بھی ہے۔ ساری زندگی اپنے خون کو دودھ میں بدل کر انسان کی سیوا کرتی ہوں۔ مر جاؤں تو گوشت کھاتا ہے۔ پائے اور زبان تک نہیں چھوڑتا۔ اور زندگی بھر کی غلامی کا صلہ کیا ملتا ہے ؟ جو انسان بھی ہونّق‘ گاؤدی‘ بودا‘ گھامڑ اور بدھو ہو اسے اللہ میاں کی گائے کا خطاب دیتے ہو! یا کہتے ہو فلاں تو نری گائے ہے۔ حیران ہوتی ہوں کہ تم انسان کتنے احسان فراموش ہو۔
گائے چپ ہوئی تو بکری بولنے لگی! اس کا بیان بھی یہی تھا کہ ساری زندگی انسان کی خدمت میں گزار دیتی ہے۔ اس کے ننھے ننھے‘ خوبصورت میمنے دودھ سے اپنا پورا حصہ نہیں لے سکتے۔ کہنے لگی‘ عقیقہ ہو یا صدقہ‘ ولیمہ ہو یا برات‘ مجھے ذبح کیا جاتا ہے۔ مشتاق احمد یوسفی نے درست کہا ہے کہ عالمِ اسلام میں کسی بکرے کو طبعی موت مرتے نہیں دیکھا۔ ہم بکرے‘ بکریاں لاکھوں کروڑوں اربوں کی تعداد میں ہر سال قربانی کی نذر ہوتی ہیں۔ ثواب سارا تم انسان لے جاتے ہو۔ کبھی کسی مولوی صاحب کو یہ کہتے نہیں سنا کہ قربان ہونے والی بکری کو بھی ثواب ملے گا۔ ایک انصاف پسند شاعر نے اس طرف توجہ بھی دلائی ؎ 
یہ عجب تماشا دیکھا کہ بروزِ عیدِ قرباں 
وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب الٹا 
مگر اس خدمت گزاری کا تم انسان بدلہ کیا دیتے ہو؟ میری تذلیل کرتے ہو۔ ہر بزدل کو بکری کہہ کر پکارتے ہو۔ بزدل کا مطلب ہی تم نے بکری کے دل والا رکھا ہے۔ کیا یہ طوطا چشمی نہیں؟ کبھی اس ناسپاسی پر غور کیا ہے؟ 
پھر گدھے نے تقریر جھاڑنا شروع کی۔ باقاعدہ روہانسا ہو رہا تھا۔ لمبوترے چہرے پر کرب صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ کہنے لگا: ساری زندگی بوجھ اٹھاتا ہوں۔انسان کی خدمت کرتا ہوں۔ ایندھن‘ پانی‘ اناج‘ گھاس‘ بھوسہ‘ کیا ہے جو مجھ پر نہیں لادا جاتا۔ گرمی ہو یا سردی‘ دھوپ ہو یا بارش‘ میری باربرداری میں تعطل نہیں آتا۔ پیٹھ زخمی ہو جاتی ہے۔ ٹانگیں کانپتی ہیں۔ بھوک مر جاتی ہے مگر کبھی چھٹی نہیں ملی! تین تین بندے مجھ پر سواری کرتے ہیں! لیکن اس عاجزی اور سپردگی کے بدلے میں میری خوب خوب توہین کی جاتی ہے۔ جسے گالی دینی ہو اسے گدھا کہتے ہیں یا گدھے کا بچہ! پنجابیوں نے تو حد کردی ہے۔ ''کھوتے دا پتر‘‘ ان کا تکیہ کلام ہے۔ جس کی تضحیک کرنی ہو اسے کہیں گے '' کھوتا ای اوئے‘‘۔صرف ایک شریف شاعر نے اپنے دشمن سے خطاب کرتے ہوئے مجھے انسان سے بہتر قرار دیا ہے ؎ 
ترا خر خواہم و گشتم پشیمان 
کہ آن بیچارہ را بدنام کردم 
کہ تجھے گدھا کہہ کر پچھتا رہا ہوں کہ اس بیچارے کو مفت میں بدنام کیا ! شیخ سعدی بھی آخر انسان تھے۔ میری ہی بے حرمتی کی ؎
خرِ عیسیٰ اگر بہ مکّہ رود 
باز آید‘ ہنوز خر باشد 
کہ عیسیٰ علیہ السلام کا گدھا مکہ سے ہو آئے پھر بھی گدھا ہی رہے گا! شیخ سے کوئی پوچھتا کہ حضرت! کون سا جانور ہے جس کی ہیئت مکہ جا کر بدل جائے گی ؟ ابو جہل اور ابو لہب تو تھے ہی مکہ میں؟ تو کیوں نہ بدلے؟ آخر میں گدھے نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہا :تم انسان ناشکرے ہو!
کتّے نے ساری حدیں پار کر دیں۔ اتنا شرمندہ کیا کہ میں زمین میں جیسے گڑ ہی گیا! کہنے لگا :میری وفاداری ضرب المثل ہے۔ مجھ سے بڑھ کر انسان کا کوئی وفادار نہیں۔ یہاں تک کہ اس کے ملازم اور اس کی اولاد بھی مجھ سے زیادہ وفادار نہیں! میں انسان کے پاؤں چاٹتا ہوں! دُم ہلاتا ہوں۔کام سے واپس آئے تو سو سو بلائیں لیتا ہوں۔جہاں بٹھاتا ہے‘ بیٹھ جاتا ہوں۔ جہاں کھڑا کرتا ہے‘ وہیں کھڑا رہتا ہوں! غم میں ہوتا ہے تو جان جاتا ہوں اور ساتھ لگ کر دلاسا دیتا ہوں۔اس کے گھر کی‘ اس کے بچوں کی حفاظت کرتا ہوں۔ جان تک قربان کر دیتا ہوں۔ کتنے ہی کتے سالہا سال مالک کا استقبال کرنے ہر روز ریلوے سٹیشن جاتے رہے جبکہ مالک جہاں کام پر گئے تھے‘ وہاں مر گئے تھے۔ کتنے ہی کتے سفر کے دوران مالک کے ساتھ تھے۔ مالک مر گیا‘ جنگل تھا یا پہاڑ یا دشت‘ کتا مالک کی لاش کے ساتھ چمٹا رہا۔ کتنے ہی کتے مالک کی قبر پر بیٹھ گئے اور واپس نہ گئے! یہ کتا ہی تھا جو اصحاب کہف کے ساتھ رہا۔ سعدی نے تو میرے بلند مقام کا اعتراف بھی کیا ؎
سگِ اصحابِ کہف روزی چند 
پئی نیکان گرفت و مردم شد 
کہ اصحاب کہف کے کتے نے کچھ دن نیکوں کی صحبت اختیار کی اور آدمی ہو گیا۔ مگر افسوس! تم انسانوں نے میری بے لوث وفا کا بدلہ بدترین انداز میں دیا۔ تم نے میرے نام کو‘ میرے وجود کو گالی بنا دیا! جسے گالی دینی ہو اسے کتا کہتے ہو یا کتے کا بچہ ! جس کی گفتگو بُری لگے اسے کہتے ہو کتے کی طرح بھونک رہا ہے۔ جسے بد دعا دینی ہو اسے کہتے ہو کتے کی موت مرو! جو بیکار ہو اسے کہتے ہو دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا! کبھی کہتے ہو کتے کی دُم سو سال بھی نلکی میں رکھو‘ ٹیڑھی ہی رہے گی! اور تو اور ! فرنگیوں نے بھی‘ جو ویسے تو مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں‘ میری بہت تحقیر کی! گالی دیتے وقت 
Son of bitch
کہتے ہیں! افسوس! تم انسان محسن کُش ہو ! 
چاروں نے دل کا غبار نکالا اور رخصت ہو گئے۔ ابھی گھر کے اندر آکر بیٹھا ہی تھا کہ ملازم نے اطلاع دی کہ شیر اور چیتا ملنے آئے ہیں۔ ملازم یہ بتاتے ہوئے دانت بھی نکال رہا تھا۔ کم بخت نے میری بے عزتی جو دیکھی تھی! میں نے شیر اور چیتے کو ڈرائنگ روم میں بٹھانے کو کہا۔ اندر گیا تو دونوں کے تیور ہی اور تھے۔ اکڑ کر بیٹھے رہے۔ اُٹھے نہ مصافحہ کیا نہ سلام کا جواب دیا۔ میں نے پوچھا: کیسے زحمت کی؟ شیر نے جواب دیا کہ ہم دونوں یہ پوچھنے آئے ہیں کہ تم انسانوں میں غیرت اور حمیت کی کوئی رمق ہے یا نہیں ؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا: ایسا کیوں کہہ رہے ہو ؟ ہم انسان تو تمہاری بہادری کی مثالیں دیتے ہیں۔شیر کہنے لگا: یہی تو مسئلہ ہے! ہم تمہارے جانی دشمن ہیں! جہاں کوئی انسان ملے اسے چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں! تمہارے بچوں کو ہڑپ کر جاتے ہیں۔ تمہارے مویشیوں کو کھا جاتے ہیں۔ ایک شیر یا ایک چیتا بھی نظر آجائے تو پوری بستی کے لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں! اس بربریت‘ دشمنی اور سفاکی کے باوجود تم اپنے بہادروں کو شیر کہتے ہو اور بچوں کو شیر بچہ کہتے ہو! یا کہتے ہو :شاباش! میرے چیتے! تمہارے شاعر اقبال نے بھی کہا ہے ؎
ملے گا منزلِ مقصود کا اسی کو سراغ 
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ! 
حالانکہ کئی اور جانور چیتے سے بھی زیادہ تیز نظر رکھتے ہیں! دونوں نے مجھ پر حقارت آمیز نظر ڈالی اور چلے گئے!ان کے جانے کے بعد کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر میں اس حتمی نتیجے پر پہنچا کہ ہم انسان طاقتور کی خوشامد کرتے ہیں اور کمزور کی تحقیر! اور احسان فراموش ہم جیسا کوئی نہیں !!

Thursday, November 09, 2023

علامہ اقبال پر ہمارے احسانات

علامہ اقبال پر جو ہمارے احسانات ہیں ‘ ان میں ہم نے ایک اور کا اضافہ کر دیا! آج یومِ اقبال کی عام تعطیل ہے۔تعطیل کی برکت سے اکثریت لطف اندوز ہو گی! لوگ دیر تک سو سکیں گے! اُٹھ کر پیزا‘ یا برگر‘ یا بالٹی گوشت یا چکن کڑاہی یا چرغہ کھائیں گے۔ زیادہ خوشحال اور ماڈرن کنبے چینی ریستورانوں یا دیگر مہنگے ریستورانوں کا رُخ کریں گے۔ ایک زمانے میں چھٹی کے دن گوشت خوری کے بعد پاکستانی انڈین فلم دیکھتے تھے۔ اب چونکہ سنیما ہاؤس عمارتوں سے جیبوں میں منتقل ہو چکے ہیں اس لیے فلم بینی چھٹی کی محتاج نہیں رہی!
اقبال پر ہمارے اور بھی احسانات ہیں۔ اس کے نام سے ادارے قائم ہیں! ان اداروں پر قومی خزانے سے بجٹ اترتا ہے۔ خاندان پرورش پاتے ہیں۔ کچھ افراد نے تو ان مناصب پر فائز ہو کر اپنی کتابیں چھاپیں اور خوب تشہیر کی۔ کچھ صوفی مشہور ہونے میں کامیاب ٹھہرے! ایک زمانہ تھا کہ یوم اقبال پر جو محفل منعقد ہوتی تھی اس سے ڈاکٹر جاوید اقبال‘ شورش کاشمیری‘ حمید نظامی اور مولانا عبد الستار خان نیازی جیسے زعما خطاب کرتے تھے۔ یہ بڑے لوگ رخصت ہو گئے۔ ان کی جگہ پستہ قد لوگ پیش منظر پر آگئے۔ گویا گلاب اور نرگس و سوسن کے پودے غائب ہو گئے۔ ان کی جگہ دھتورے‘ اَک اور جھاڑ جھنکار کے ڈھیر لگ گئے۔ بھلا ہو قوالوں اور گویّوں کا کہ کلام اقبال کے کچھ حصوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ ضمیر جعفری نے تو طنز کیا تھا:

بپا ہم سال میں اک مجلسِ اقبال کرتے ہیں
پھر اس کے بعد جو کرتے ہیں وہ قوّال کرتے ہیں

مگر خدا بھلا کرے قوالوں کا کہ کچھ تو کر رہے ہیں۔

اے رُو سیاہ! تجھ سے تو یہ بھی نہ ہو سکا

کچھ عرصہ قبل اس لکھنے والے نے فریاد کی کہ سیالکوٹ میں جو اقبال منزل ہے‘ یعنی وہ گھر جہاں اقبال پیدا ہوئے ‘ اس پر توجہ دی جائے۔ حکومت سے تو توقع ہی عبث تھی اس لیے سیالکوٹ کے امرا کی خدمت میں عرض کیا۔ پروردگار نے اس شہر کے لوگوں کو آسودگی عنایت کی ہے۔ صنعتوں اور برآمدات کے طفیل روپے کی کمی نہیں! اقبال منزل کے ارد گرد جو دو یا تین گلیاں ہیں‘ انہیں خرید کر اقبال کی نذر کر دیں۔ یہ گلیاں صاف ستھری ہوں۔ ان گلیوں میں واقع مکانوں میں دکانیں ہوں جہاں اقبال کی کتابیں موجود ہوں‘ ان کی تصویریں ہوں۔ ان کے حوالے سے تحائف 
(souvenirs) 
میسر ہوں۔ ‘ اقبال پر فلمیں دیکھی جا سکتی ہوں۔ اچھی نسل کے ریستوران ہوں جہاں سیاح کھا پی سکیں۔ اس وقت اقبال منزل سیالکوٹ کی جو حالت ہے وہ ہم سب کے لیے باعثِ شرم ہے۔ شدید گرمی میں یو پی ایس تک نہ تھا۔ تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات وہاں کیسے جائیں؟ ان گلیوں میں موٹرسائیکلوں کی تعداد ٹڈی دَـل سے کم نہیں۔ چلنا محال ہے۔ مہذب ‘ ترقی یافتہ ملکوں میں محسنوں کے گھر یادگار کے طور پر اس طرح رکھے جاتے ہیں کہ لوگ وہاں جا کر طمانیت اور سکون محسوس کرتے ہیں! سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست‘ جو دانشور اور ادیب ہیں‘ ان کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ کسی طرح وہاں کے صنعتکاروں اور دیگر مالکانِ زر و سیم سے میری ایک نشست کا انتظام کرا دیں کہ ان کی منت سماجت کر کے یہ کام کرنے پر انہیں آمادہ کر سکوں! خدا ان کی آسودگی میں اضافہ کرے ‘ آخر انہوں نے ہوائی اڈہ بھی تو بنا لیا اور ایئر لائن بھی چلا دی!
اقبال منزل کے نواح کو ایک دلپذیر مقام کی صورت دے کر اہلِ سیالکوٹ اقبال کا حق تو ادا کریں گے ہی‘ اپنے شہر کو بھی لازوال شہرت دیں گے! رہی حکومت اور حکومتیں ! تو ان کا ایسے کاموں سے کیا تعلق! ان سے اس ضمن میں امید رکھنا ایسے ہی ہے جیسے نیم یا دھریک کے درخت سے سیب اور انگور کی توقع رکھی جائے! دھریک کے تو پھر بھی فوائد ہیں۔ اس پر کاسنی رنگ کے دلکش ‘ بھینی بھینی خوشبو والے پھول لگتے ہیں۔ چھاؤں گھنی ہوتی ہے۔ بیمار اس کی چھاؤں میں راحت پاتے ہیں۔ ہماری حکومتیں تو پھل‘ پھول‘ چھاؤں ‘ کچھ بھی نہیں دیتیں! اگر آپ نے حکومت کی موجودگی میں اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام خود کرنا ہو‘ علاج بھی نجی شعبے سے کرانا ہو‘ سولر سسٹم لگوا کر بجلی کا بند و بست بھی خود کرنا ہو‘ گلی میں گھروں سے چندہ اکٹھا کر کے چوکیدار بھی خود رکھنا ہو ‘ ٹریفک کی لاقانونیت سے بھی خود بچنا ہو‘ تو ایسی حکومتوں سے یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ وہ اقبال اور قائد اعظم کے لیے کچھ کریں گی !!خدا کا شکر ہے کہ ان ہستیوں کے مزار بھی اچھے وقتوں میں بن گئے۔ اُس وقت مردانِ کار موجود تھے۔ ملک کی عزت رہ گئی۔ اس کے بعد تو پھر تعمیری منصوبوں کی رفتار پر چیونٹیوں کو شرم آنے لگی ! اسلام آباد کا ایئر پورٹ دس سال میں بنا! وہ بھی نقائص سے پُر !
اقبال کی شاعری پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ہم کتنے سنجیدہ ہیں؟ ان کی شاعری کی ساڑھے تین کتابیں اُردو میں ہیں۔ بانگِ درا‘ بالِ جبریل‘ ضربِ کلیم اور ارمغانِ حجاز کا ایک حصہ ! ساڑھے سات کتابیں فارسی میں ہیں: جاوید نامہ‘ اسرارِ خودی‘رموزِ بے خودی‘ پیامِ مشرق‘ زبورِ عجم‘ مسافر‘ پس چہ باید کرد اور ارمغانِ حجاز کا ایک حصہ! یعنی تقریباً انہتّر ‘ ستر فیصد کلام فارسی میں ہے۔ اس میں شک نہیں کہ زبان کی مقبولیت کا روزگار سے گہرا ربط ہے۔ آج روزگار فرنگی زبان سے وابستہ ہے۔ مگر یہ وابستگی‘ یہ ربط‘ جبری ہے۔ اس میں محبت اور جذبات کا عمل دخل نہیں! فارسی ہماری تہذیبی اور ثقافتی زبان ہے۔ ہمارا سینکڑوں سال کا سرمایہ اس میں ملفوف ہے۔من حیث القوم اس سے ہماری بے رُخی المناک ہے۔ کئی بار مختلف محفلوں‘ اجتماعات اور مضامین میں عرض کیا کہ اُردو پر دسترس رکھنے والے ہر پاکستانی کو فارسی آتی ہے مگر وہ بے خبر ہے۔کتنی ہی مرتبہ کہا کہ مطالعہ اقبال کے لیے مجلسیں‘ گروپ اور زاویے بنانے کی ضرورت ہے۔ ہفتے میں ایک یا دو گھنٹے بھی مختص کیے جائیں تو کلام ِاقبال کی تفہیم کی طرف کئی فرسنگ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ پچھلے دنوں اسلام آباد کے ایک کلب نے کچھ دردمند حضرات کے اصرار پر فارسی کی کلاسوں کا ‘ کچھ دنوں کے لیے‘ انتظام کیا مگر بات بول چال کے الفاظ اور جملوں سے آگے نہ بڑھ سکی۔ مقصد فارسی بول چال نہیں‘ اقبال کے کلام کی تسہیل ہونی چاہیے۔
یہ بھی تو المیہ ہے ‘ بہت بڑا المیہ ‘ کہ فارسی کو مدارس سے بیک بینی دو گوش نکال باہر کیا گیا۔ پہلے درسِ نظامی کا اچھا خاصا حصہ فارسی کی تعلیم کے لیے مختص تھا۔ مصدر فیوض‘ کریما‘ نامِ حق ‘تحفہ نصائح‘ گلستان‘ بوستان۔ یوسف زلیخا( جامی ) اور سکندرنامہ (نظامی)۔یہ سب کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ پھر نہ جانے کیا ہوا کہ یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔اگر اس لیے ختم کیا گیا کہ فارسی ایرانیوں کی زبان ہے تو افسوس کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے۔فارسی افغانستان‘ تاجکستان‘ سمر قند‘ بخارا اور کئی دیگر مقامات کی بھی زبان ہے۔ یہ پاک و ہند کی بھی زبان ہے! یہ بر صغیر ہی تھا جو مغل عہد میں ہزاروں لاکھوں ایرانی اہلِ قلم کی صدیوں پناہ گاہ رہا!

اقبال کی وفات کے حوالے سے خورشید رضوی کی نظم یاد آرہی ہے۔

موت نے پہلے جھک کر /قدم اس کے چومے /اور اس سرد بوسے سے یخ بستہ ہوتی ہوئی جُوئے خوں میں بہی /اور اس قلبِ ِبیدار کے سات چکر لیے /اور اس ذہنِ برّاق کی نور ہی نور دہلیز پر آ کے ٹھٹکی /اجازت اگر ہو تو اس جگمگاتی مقدس امانت کو اِن تیرہ ہاتھوں سے چھولوں /کہا : مرحبا ! /اے فرستادۂ خالقِ نیست و ہست و غیب و حضور /یہی حکم ہے تو خدو خالِ خورشید پر /پردۂ شب گرا دے مگر ہوشیار ! /آخری سانس کے ساتھ /جب تو مرے جسمِ خاکی سے نکلے /تومیرے لبوں پر لکھی مسکراہٹ کو /پامال کر کے نہ جانا

Tuesday, November 07, 2023

ایک احمقانہ کارروائی

جنات کا وجود ہے یا نہیں؟ اگر کوئی کہتا ہے کہ نہیں ہے تو یہ جواب سائنسی نہیں! وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے کسی جِن کو دیکھا نہیں! اس کے وجود سے کیسے انکار کر سکتا ہے! اس کائنات میں لاکھوں کروڑوں مخلوقات ایسی ہیں جنہیں دیکھنے سے ہم قاصر ہیں۔ مگر ہم ان کے وجود سے انکار نہیں کر سکتے! ایک شخص تھوکتا ہے۔ اسے اپنی تھوک میں کچھ نہیں دکھائی دیتا! مگر لیبارٹری میں بیٹھے ہوئے سائنسدان کو اسی تھوک میں سینکڑوں جراثیم‘ بیکٹیریا اور دیگر کئی اقسام کی مخلوقات نظر آتی ہیں! تو اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ قبرستان میں مردے ایک دوسرے کیساتھ رابطہ کر سکتے ہیں یا اکٹھے ہو کر گپ شپ لگا تے ہیں یا پارٹیاں اور کانفرنسیں منعقد کرتے رہتے ہیں تو ہم اس کا انکار کیسے کر سکتے ہیں؟ ہمارے پاس ایسا نہ ہونے کا یا ایسا نہ کیا جا سکنے کا کوئی ثبوت نہیں! ہم زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ہوتے ہم نے دیکھا نہیں! یا ہم اس ضمن میں اپنی بے علمی کا اعتراف کر سکتے ہیں! باہمی رابطوں کے ذرائع‘ یہ ٹیلیفون‘ یہ وٹس ایپ‘ یہ ای میل‘ یہ واکی ٹاکی‘ یہ خط و کتابت‘ یہ دوڑتے بھاگتے قاصد‘ یہ سب ذرائع تو روئے زمین کے اوپر ہیں! زمین کے نیچے بسنے والے لوگ ، جنہیں ہم مُردے کہتے اور سمجھتے ہیں‘ ایک دوسرے سے رابطہ کیسے کرتے ہیں‘ ہمیں نہیں معلوم! بہت سے لوگ جو موت کے منہ سے واپس آئے‘ کہتے ہیں کہ وہ اوپر ہوا میں یا چھت کے قریب تیر رہے تھے اور اپنے جسدِ خاکی کو نیچے پلنگ پر پڑا دیکھ رہے تھے! مرنے کے بعد کیا کیا ہوتا ہے‘ کیسی دنیا ہے‘ کچھ نہیں کہا جا سکتا! کیا خبر وہاں بھی رنگینیاں ہوں‘ محفلیں برپا ہوتی ہوں‘ جھگڑے ہوتے ہوں‘ صلح صفائیاں کرائی جاتی ہوں‘بہت کچھ ہوتا ہو! کیا خبر آواز دینے کی یا بلانے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ہو‘ بس خیال آتے ہی دوسرے کو معلوم ہو جاتا ہو کہ فلاں نے یاد کیا ہے یا بات کرنا چاہتا ہے! بات کرنے کے لیے بھی زبان کی یا لفظوں کی ضرورت نہ پڑتی ہو! زمین کے اوپر تو آواز ہوا کی لہروں پر سوار ہو کر اِدھر اُدھر جاتی ہے۔ زمین کے نیچے گفتگو کا اور پیغام رسانی کا اور مواصلات کا اور رسل و رسائل کا کیا طریقہ ہے‘ ہم کیا جانیں! ہمیں کیا معلوم ! ہم اقرار کر سکتے ہیں نہ انکار! اقبال نے کہا تھا: 

پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے 
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب 
زیر زمین دنیاؤں کا احوال یا کلپس سامنے آئیں تو صرف فرنگ کیا‘ کوئی بھی تاب نہ لا سکے!
یہ ایک سہ پہر تھی! زمین کے اوپر موسم سرد تھا نہ گرم! تھا تو نومبر مگر سرما ابھی دور تھا! ایک زمانہ تھا جب نومبر رضائیاں‘ انگیٹھیاں‘ گرم چادریں‘ کھیس‘ فرغل اور خشک میوے ساتھ لاتا تھا۔ مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب اس ملک میں درختوں کی بستیوں کی بستیاں آباد تھیں۔ شاہراہوں کے کنارے‘ گھروں کے صحنوں میں‘ ٹیلوں اور پہاڑیوں کے اوپر‘ نیچے جاتی ترائیوں پر‘ ہر جگہ درخت تھے۔ یہ درخت سخی تھے۔ ان مہربان درختوں کا وجود بارش کا باعث بنتا تھا۔ یہی وفاقی دارالحکومت تھا جہاں ہر تیسرے دن لازماً بارش ہوتی تھی۔ نومبر تو نومبر تھا‘ اکتوبر ہی میں گرم کپڑے نکل آتے تھے۔ گرم کپڑوں کے ساتھ یادیں اور رومانس وابستہ ہوتے ہیں۔ جس زمانے میں بشیر بدر مشاعرہ بازی کی بھینٹ نہیں چڑھے تھے‘ کمال کے اشعار کہتے تھے۔ اسی زمانے میں انہوں نے کہا تھا
گرم کپڑوں کا صندوق مت کھولنا ورنہ یادوں کی کافور جیسی مہک 
خون میں آگ بن کر اُتر جائے گی‘ یہ مکاں صبح تک راکھ ہو جائے گا 
تو سرما تب جلد آتا تھا۔ مری اور ایبٹ آباد کو جنگلوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا۔ ان جنگلوں کی برکت سے وفاقی دارالحکومت کا موسم دل آویز اور آسمانی تھا۔ خوداسلام آباد میں جا بجا درختوں اور جنگلوں کے قطعے تھے۔ سرما کے آغاز میں پودوں اور پیڑوں کے پتے لہو کی طرح لال ہو جاتے تھے۔پھر یوں ہوا کہ زمین کی بھوک یعنی جوع الارض      تاتاریوں کی طرح حملہ آور ہوئی۔ ٹنوں کے حساب سے بالٹی گوشت چٹ کر جانے والے
‘ لالچی‘ کھردرے تمباکو نوش اور ناشائستہ ٹھیکیدار مری‘ ایبٹ آباد اور اسلام آباد میں یاجوج ماجوج کی طرح پھیل گئے۔ جنگل کٹ گئے۔ درخت شہید کر دیے گئے۔ سبزہ زار مٹ گئے! ہریالیاں رخصت ہو گئیں لوہے اور سیمنٹ پر مشتمل نئی دنیا ظہور پذیر ہوئی۔مری اور ایبٹ آباد میں نہ صرف پنکھے لگ گئے بلکہ ایئر کنڈیشنر !! جی ہاں! خدا جھوٹ نہ بلوائے‘ ایئر کنڈیشنر نصب ہو گئے! 
ہم موضوع کی طرف پلٹتے ہیں! سہ پہر تھی! زمین کے اوپر موسم سرد تھا نہ گرم! ہوا معتدل تھی! زمین کے نیچے خاموشی تھی۔ سب اپنی اپنی قبروں میں محوِ خواب تھے۔ اچانک ایک مردے کی آنکھ کھل گئی۔پہلے تو اسے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ یہ آوازیں کہاں سے آرہی ہیں پھر اسے معلوم ہو گیا کہ یہ آوازیں زمین کے اوپر سے آرہی تھیں۔ نہ صرف آوازیں آرہی تھیں بلکہ اچھی خاصی چہل پہل کا سماں لگ رہا تھا!گاڑیاں سٹارٹ ہورہی تھیں اور بند ہو رہی تھیں۔ لوگ باگ آجا رہے تھے۔ کبھی خاموشی چھا جاتی کبھی باتیں شروع ہو جاتیں۔ مردے کا تجسس بڑھا۔ مافوق الفطرت طاقت تو اس کے قبضے میں تھی ہی‘ اس نے فیصلہ کیا کہ باہر نکل کر زمین کے اوپر جائے اور دیکھے کہ کیا ماجرا ہے۔یہ وہ لمحہ تھا جب اس کا انچارج فرشتہ سامنے نہ تھا۔ اس نے مواصلاتی رابطہ قائم کیا۔ ایک ثانیے سے بھی کم وقت میں رابطہ قائم ہو گیا۔فرشتے کے ساتھ اس کے تعلقات خوشگوار تھے۔ دنیاوی زندگی میں یہ مردہ ایک قلاش کنبے کی مالی مدد کرتا رہا تھا۔ اس لیے زمین کے نیچے منتقل ہو کر اسے کسی کڑی صورتحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ انچارج فرشتے کے ساتھ تعلقات دوستانہ تھے۔ فرشتے نے پوچھا کیا بات ہے؟ مردے نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے '' اوپر‘‘ جا رہا ہے۔ فرشتے نے خوش طبعی سے جواب دیا: جاؤبھئی تمہیں کون روک سکتا ہے۔وہ بیوہ جس کے بچوں کی تم کفالت کرتے تھے‘ حالانکہ تم اتنے امیر بھی نہ تھے‘ ہر روز تمہاری سفارش داغ دیتی ہے! مردہ قبر سے نکلا‘ زمین میں رستہ بن گیا۔ اوپر جا کر جو منظر اس نے دیکھا‘ اس کی ہنسی چھوٹ گئی۔اسے کوئی دیکھ تو سکتا نہ تھا۔ وزن اس کا تھا نہیں۔ کششِ زمین اُس کے سامنے بے بس تھی۔ اس نے اِدھر اُدھر‘ اوپر نیچے‘ چل پھر کر دیکھا اور جو کچھ ہو رہا تھا‘ اسے دیکھ کر خوب خوب محظوظ ہوا۔ یہ ایک مضحکہ خیز منظر تھا۔ ایک احمقانہ کارروائی تھی۔ اس کی ہنسی رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔تماشا ختم ہوا تو وہ زیر زمین جا کر اپنی قبر میں داخل ہوا۔ وہ مسلسل ہنس رہا تھا۔فرشتے نے پوچھا: میاں سخی! کیا بات ہے۔ بتیسی کی مسلسل نمائش کیے جا رہے ہو! مردے نے جواب دیا کہ آج تو سامنے والے میدان میں سب کو اکٹھا کرو! ایسی خبر ہے کہ تفریح اور 

Entertainment 

کی حد ہی سمجھو! سب کو بتاؤں گا تو تم بھی سن لینا! فرشتے نے قبرستان کے سب مکینوں کو اطلاع دے دی کہ فلاں وقت اجتماع ہے اور میاں سخی کچھ بتائیں گے۔ سب آگئے تو سخی مُردے نے ہنس ہنس کر دُہرا ہوتے ہوئے سب کو بتایا کہ قبرستان میں آج ایک حاکم آیا تھا اور اس کے چلنے کے لیے قبرستان میں‘ قبروں کے بیچ‘ سرخ قالین بچھایا گیا تھا جس پر چل کر وہ کسی قبر تک گیا۔ اتنا سننا تھا کہ سب مُردے ہنسنے لگے! ان کی ہنسی رک ہی نہیں رہی تھی! ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے اور کہتے ''ہا ہا۔ قبرستان میں سرخ قالین!‘‘۔

Monday, November 06, 2023

پچپن بھیڑیں

جس دن امریکی صدر جو بائیڈن نے‘ بغیر کوئی لفظ چبائے‘ صاف اور واشگاف الفاظ میں اسرائیل کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور حماس کے خلاف زہر اگلا تھا‘ اس سے ٹھیک اگلے دن‘ پچپن مسلمان ملکوں کو چاہیے تھا کہ اپنے اپنے سفیر واشنگٹن ڈی سی سے واپس بلا لیتے اور امریکی سفیروں کو رخصت کر دیتے! 

مگر یہ کیسے ہو سکتا تھا! یہ ناممکن تھا! اس لیے کہ یہ پچپن مسلمان ملک راکھ کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں! ان کی اس کرۂ ارض پر وہی حیثیت ہے جو محل کے باہر باڑے کی ہوتی ہے۔ باڑے میں جو مخلوقات رکھی جاتی ہیں یا باندھی جاتی ہیں انہیں ان فیصلوں میں نہیں شریک کیا جاتا جو محل کے اندر کیے جاتے ہیں۔ باڑے میں بند‘ بندھی ہوئی ان مخلوقات پر جتنا بھی ظلم ہو‘ یہ کبھی آپس میں اتحاد نہیں کرتیں! یہ ہمیشہ محل کی اور محل والوں کی دست نگر رہتی ہیں! یہ امریکہ کی اسرائیل پرستی کا کیا جواب دیں گے ! یہ تو وہ ہیں جنہیں فرنگی زبان میں 
Vegetables 
کہتے ہیں ! اپنی کوئی سوچ نہیں! کوئی منصوبہ بندی نہیں! کوئی دماغ نہیں! یہ ایک ریوڑ ہے جس کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے! ریوڑ کی تعداد جتنی بھی بڑھے‘ وہ ریوڑ ہی رہتا ہے! وہ کبھی مالک کے سامنے زبان نہیں کھول سکتا۔ یہ بھیڑوں کا گلہ ہے جسے بڑی طاقتیں ہانک رہی ہیں۔ بھیڑیں منہ نیچے کیے‘سر دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کرتیں‘ چلی جا رہی ہیں! آہ ! یہ بھیڑیں ! یہ بکریاں! مجید امجد نے ان پچپن ملکوں کی کیا تصویر کَشی کی ہے ! 
ناچتی ڈار ممکتے ہوئے بزغالوں کی
ہر جھکی شاخ کی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتی ہے
سان پر لاکھ چھری‘ سیخ پہ صد پارۂ گوشت
پھر بھی مدہوش غزالوں کی یہ ٹولی ہے کہ جو
بار بار اپنے خطِ رہ سے بھٹک جاتی ہے
یہ امریکہ کے سامنے خم ٹھونک کر کیا کھڑے ہوں گے ! یہ غزہ کے بچوں کی کیا حفاظت کریں گے! ان میں سے کچھ'' غیرت مند‘‘ تو وہ ہیں جن کے ہوائی اڈوں سے امریکی بمبار طیارے اُڑ کر عراق اور افغانستان پر موت پھینکتے تھے! کچھ ان میں اس قدر ''خود مختار‘‘ ہیں کہ ان کی سرزمینوں پر استعمار کی چوکیاں ( Bases )قائم ہیں! یہ تو کھانسنے سے پہلے اور چھینکنے سے پہلے اور کہیں جانے سے پہلے اور کسی سے دشمنی کرنے سے پہلے اور کسی سے دوستی کرنے سے پہلے اوقیانوس کے پار دیکھتے ہیں اور پھر جو کہا جائے وہی کرتے ہیں! ان پچپن ملکوں کے سربراہ جس معیار کی زندگیاں گزار رہے ہیں وہ معیار‘ زمین پر جنت سے کم نہیں! مگر اپنے اپنے عوام کے لیے انہوں نے گڑھے کھودنے کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔تعلیم‘ صحت‘ جمہوریت‘ قانون کی برتری‘ پولیس کی آزادی اور غیر جانبداری‘کچھ بھی مہیا نہیں کیا! پچپن مسلمان ملکوں کے عوام کی ارضِ موعود (Promised Land) امریکہ ہے! کروڑوں وہاں پہنچ کر بس چکے ہیں۔ کروڑوں ویزوں کے لیے کشکول اٹھائے منتظر ہیں۔عبرت کا مقام ہے۔ ماتم کا مقام ہے اور شرم کا مقام ہے کہ ان پچپن ملکوں میں ایک ملک بھی ایسا نہیں جو امریکہ اور یورپ جانے والوں کو اپنی طرف متوجہ کر سکے! اپنے عوام کی زندگیاں ناقابلِ رشک بنانے والے کوتاہ نظر اور کور چشم حکمران غزہ کے مصیبت زدگان کی کیا مدد کریں گے! غزہ کے ارد گرد رہنے والے‘ اسرائیل سے خائف نہیں مگر غزہ کے شہیدوں اور مجاہدوں سے ضرور خوف زدہ ہیں! یہ غزہ کے محصور مظلوموں کی کیا مدد کریں گے یہ تو ایک تلوار‘ ایک بندوق‘ ایک ٹینک‘ ایک ہوائی جہاز یہاں تک کہ ایک گولی بھی غزہ والوں کو نہیں دے سکتے! کیا فلسطینیوں کو وہ بریگیڈیر یاد نہیں جس نے اردن میں رہ کر سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا؟ اسی قتل عام کے بدلے میں ہی تو اوقیانوس پار کی سرکار نے اس بریگیڈیر کو جنرل بنواکر ملک کے منصبِ صدارت پر متمکن کرا دیا تھا! 
ارض فلسطین کو آزاد کرانے کے لیے صلاح الدین ایوبی بننا پڑتا ہے! صلاح الدین ایوبی بننے کے لیے زندگی گھوڑے کی پیٹھ پر گزارنی پڑتی ہے! کھانا سپاہیوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا پڑتا ہے! جان ہتھیلی پر رکھنی پڑتی ہے! زمین پر سونا پڑتا ہے! سونے کی بنی ہوئی گاڑیوں‘ کمخواب سے سجی ہوئی خوابگاہوں اور آرڈر پر بنوائے ہوئے خواب آور طیاروں میں ہلکورے لینے والے فلسطین کو کیا آزاد کرائیں گے۔ جن حکمرانوں کی زندگی کا مقصد لندن‘ نیویارک‘ پیرس‘ دبئی‘بارسلونا اور بہاما میں محلات‘ کوٹھیوں اور فلیٹوں کا حصول ہو‘ جن کی ذریتیں پیدائش سے پہلے کھرب پتی ہو جاتی ہوں اور جن کے دسترخوانوں پر مسلّم مرغوں‘ بکروں‘ دنبوں اور اونٹوں کے انبار لگے ہوں‘ وہ امریکہ کے زر خرید تو ہو سکتے ہیں‘ مظلوموں کے نجات دہندہ نہیں ہو سکتے!اقبال نے کہا تھا فرنگ کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے۔ آج اسرائیل کی رگِ جاں امریکہ کی حفاظت میں ہے۔ آج امریکہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو صیہونیت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے۔مگر جب مسلمان ملک امریکہ کی دہلیز پر بیٹھے ہوں تو وہ اسرائیل کی مدد سے ہاتھ کیوں کھینچے !! پروفیسر ڈاکٹر ناہید قمر کی دلخراش نظم پڑھتے ہوئے غزہ کے مظلوموں کی چیخیں تیر کی طرح دل میں پیوست ہو جاتی ہیں !! 
مٹی کی سرخ رنگت
احد تمیمی /یہ خواب ہے یا کوئی اشارہ/کسی بہت محترم زمانے کی برجیوں سے جھڑے ہوئے وقت کے برادے میں کتنی صدیوں کی برگزیدہ نشانیاں ہیں/گھنے درختوں میں سانس لیتے قُدس کے اطراف ملگجا سا ہے پہر کوئی/چراغ جیسے کہیں کوئی آخری دموں پر/مگر اندھیرے کی سرد شدت/میرے تمہارے دلوں کی مٹی کی سرخ رنگت بتا رہی ہے/بشارتِ نور کا زمانہ قریب تر ہے/معاہدوں کے بریدہ اوراق پر سیاہی کے سلسلے کو کبھی خوارج کہیں امامت کے مسئلوں نے دراز رکھا /مگر غنیمت ہے اس قدر بھی /بہت دنوں سے گرہ جو قصے کے خط کشیدہ بیانیے میں پڑی ہوئی تھی /وہ خون آلود ننھے ننھے سے ناخنوں پر لکھی ملامت نے کھول دی ہے/اے انبیاکی زمیں کی وارث/تم اپنے جیسے ہزاروں سینوں میں جلتے شعلے کی روشنی کا وہ دائرہ ہو/جسے زمانے کی سب سے تاریک شب ملی ہے/تمہارا ہونا ہی غاصبوں کے اندھیرے ذہنوں کو تازیانہ ہے حریت کا/احد تمیمی‘بصد ندامت مجھے بھی مجھ جیسے دوستوں میں شمار کر لو/دلوں میں جن کے غزہ کے بچوں کے ادھڑے جسموں کی دھجیوں سے/یروشلم میں گھروں کے ملبے پہ تمکنت سے شہید بیٹوں کو بوسہ دیتی ضعیف ماؤں کے آنسوؤں سے/بچھا ہے ماتم کا فرش لیکن /دعا پہ تکیہ کیے جو چپ چاپ رب کی نصرت کے منتظر ہیں/مگر یہ تاریخ کا کٹہر/ جہاں مبرا ہوا ہے جرمِ مفاہمت سے/نہ مجھ سے پہلے نہ بعد کوئی / یہاں ہزیمت کا زخم چپ کے نمک سے ناسور بن چکا ہے/ستم ظریفی کے آئینے میں /صفوں میں دونوں طرف اگرچہ ہمیں ہیں شاید/مگر فلسطین ہر مسلماں کی روح کا سرخ منطقہ ہے/بھلے ہم ایمان اور محبت کی حدِ آخر پہ ہی کھڑے ہوں /تمہاری شہ رگ کے گرد حائل کسی شکنجے میں دل ہمارے بھی جھولتے ہیں /ہم ان کے شر سے بھی آشنا ہیں / جو ارضِ موعود کے بہانے خدا کی لکھی حدود پامال کرتے کرتے فصیلِ گریہ کے منہدم کناروں تک آ گئے ہیں /مگر زمینوں پہ اور دلوں میں کھنچی ہوئی ایسی سب لکیروں کا زائچہ اب کے مختلف ہے/احد تمیمی‘ یقین رکھو یہ جو ہمارے گھروں‘ مساجد پہ/درسگاہوں پہ بے محابا برس رہی ہے/ہے شاخِ زیتون جس کی زد میں /جو فاختاؤں کے پر بھی‘گھر بھی جلا رہی ہے/یہ آگ اس بار صرف حیفہ کے ساحلوں تک نہیں رُکے گی !

Thursday, November 02, 2023

یہ طالب علم انعام کا مستحق ہے


 

یہ ماتم بہت پرانا ہے۔ نوحہ خوانی اور سینہ کوبی اس پر بہت ہو چکی۔ بہت ہاتھ جوڑے گئے۔ بہت منت سماجت کی گئی۔ بقول بہادر شاہ ظفر '' کیے لاکھ فریب ‘ کروڑ فسوں‘‘ مگر کسی پر کوئی اثر نہ ہوا۔ وہی لچھن ہیں جو تھے۔
اس ناسور کو لاہور کے ایک معروف تعلیمی ادارے نے تازہ کر دیا ہے۔ یہ دو دن پہلے کی بات ہے۔ نگران وزیر اعظم اُس ادارے میں تشریف لے گئے تا کہ طلبہ و طالبات سے ملاقات کر یں! یہ خواہش وزیر اعظم کی تھی یا تعلیمی ادارے کی ‘ اس ضمن میں راوی خاموش ہے! وزیر اعظم ‘ مبینہ طور پر‘ وقتِ مقررہ سے پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے! ایک طالب علم نے ‘ بھری بزم میں ‘ وزیر اعظم سے دیر سے آنے کا شکوہ کر ڈالا کہ سٹوڈنٹس اور اساتذہ انتظار کرتے رہے اور یہ کہ یہ علم کی اور ادارے کی ناقدری ہے! یہاں‘ ضمناً‘ وزیر اعظم کو یہ کریڈٹ ضرور دینا چاہیے کہ انہوں نے اپنے پروگرام میں سوال و جواب کا سیشن رکھا! اس کالم نگار کو یاد نہیں کہ اس سے پہلے کسی حکمران نے یہ جرأت اور یہ خوش اخلاقی دکھائی ہو! حکمران یونیورسٹیوں میں یا دوسرے تعلیمی اداروں میں جاتے ہی کہاں ہیں! غلطی سے چلے جائیں تو تقریر کر کے یہ جا وہ جا۔ ہم عصر تاریخ میں کاکڑ صاحب پہلے حکمران ہیں جنہوں نے طلبہ و طالبات سے براہ راست مکالمہ کیا ہے اور تند و تیز سوالوں کے جواب خندہ پیشانی سے دیے ہیں! نواز شریف صاحب اور زرداری صاحب کا تو خیر تعلیمی اداروں سے مکمل پرہیز تھا۔عمران خان صاحب لاہور کے ایک کالج میں تشریف لے گئے تھے تاہم سوال جواب کا سیشن نہیں ہوا تھا۔ کسی بھی تقریب کی روح ‘ خواہ کسی حکمران کے ساتھ ہو یا کسی سکالر کے ساتھ‘ تقریب کا وہ حصہ ہوتا ہے جو سوال و جواب پر مبنی ہو۔ پہلے بھی ایک بار عرض کیا کہ استاد اور واعظ میں یہی فرق ہے کہ استاد سوال پوچھنے پر اکساتا ہے۔ مکالمہ کرتا ہے جبکہ واعظ ‘ وعظ کر کے چلا جاتا ہے۔ اس سے یہ پوچھنا ممکن ہی نہیں ہوتا کہ اسّی فُٹ کی حور کا ذکر کس کتاب میں ہے اور سند کیا ہے ؟ جبھی تو حافظ سے لے کر فیض تک اور انوری سے لے کر عدم تک سب شعرا نے واعظ کی شکایت کی ہے مگر استاد کے حوالے سے کسی نے کوئی منفی بات نہیں کی۔ وزیر اعظم نے ایک صحت مند روایت کا آغاز کیا ہے۔ اس کی تعریف کرنی چاہیے۔ یہ اور بات کہ ہم ‘ من حیث القوم ‘ تماش بین بھی ہیں اور اذیت دے کر خوش ہونے والے 

( Sadist) 

بھی ہیں۔سوشل میڈیا پر جشن برپا ہے کہ وزیر اعظم طلبہ کے نرغے میں آگئے اور طلبہ نے یہ کر دیا اور وہ کر دیا۔ افسوس!
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں 
تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں 
وزیر اعظم پچاس منٹ تاخیر سے پہنچے اور طالب علم نے اس کی نشاندہی کی! جس معاشرے میں ہر موقع پر دو تین بلکہ چار پانچ گھنٹوں کی تاخیر معمول کی بات ہو ‘ وہاں صرف پچاس منٹ کی تاخیر پر اعتراض کرنا‘ وہ بھی ملک کے وزیر اعظم پر!! بڑی بات ہے! اس طالب علم کو بھی کریڈٹ دینا چاہیے کہ اس نے ایک تالاب میں‘ جس کا کائی زدہ پانی مدتوں سے ٹھہرا ہوا ہے‘ پتھر پھینکا ہے! حکومتی سیکٹر ہے یا نجی سیکٹر‘ یا عام آدمی‘ وقت کی پابندی کا ہمارے ہاں تصور ہی عنقا ہے۔ اوپر سے شروع کیجیے۔ کیا وزرا اپنے دفتروں میں وقت پر پہنچتے ہیں؟ اور بیورو کریٹ؟ تحصیل کے اہلکاروں سے لے کر کمشنر تک‘ تھانیدار سے لے کر ایس پی تک‘ سب اپنی مرضی سے آتے ہیں۔ کسی گاؤں کے باشندے سے پوچھئے ‘ کیا اسے کبھی پٹواری اپنے دفتر میں ملا ہے؟ وفاقی سیکرٹریٹ میں کسی دن جا کر تماشا دیکھیے۔ گریڈ بائیس کے سیکرٹری صاحب کس وقت آتے ہیں ؟ اور ان کے ماتحت؟ بھاری اکثریت دس بجے کے لگ بھگ آتی دکھائی دے گی! دفتر آجانے کے بعد بھی کیا ضروری ہے کہ وہ اپنی نشست پر موجود ہوں! رہی ہماری قومی ایئر لائن اور ریلوے‘ تو وقت کی پابندی کا ان سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا پاپائے روم کا نماز اور روزے سے ! اس حوالے میں یہ دونوں ادارے آخری حد تک بدنام ہیں۔ ہمارے ہسپتالوں میں وقت کی پابندی کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ڈاکٹر خدا بنے ہوئے ہیں۔ اس زمین کے اوپر اور اس آسمان کے نیچے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا! رہے پرائیویٹ ڈاکٹر‘ تو جو وقت مریض کو دیا جاتا ہے‘ اُس کا اُس متبرّک وقت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا جس پر مریض ڈاکٹر کے کمرے میں داخل ہو گا! راولپنڈی صدر‘ پشاور روڈ پر ایک معروف نیورو فزیشن ہیں جن کے مطب میں مریض کو کم از کم‘ جی ہاں ! کم از کم‘ چھ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ یہ تجربہ مجھے کئی بار ہوا۔ خوش قسمتی یہ ہے کہ نزدیک ہی ایک قریبی عزیز رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے کلینک میں ریزہ ریزہ ہونے کے بجائے انتظار کے سات آٹھ گھنٹے ان کے گھر میں بہتر طور پر گزر جاتے تھے۔ 
تلخ ترین سچائی یہ ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا مجرم عام آدمی ہے۔ میں‘ آپ‘ ہم سب‘ اس جرم میں شریک ہیں۔ اس جرم کے ثبوت کے لیے کسی گواہ کی ضرورت ہے نہ بیان کی! سب کچھ دن کی روشنی کی طرح عیاں ہے۔ شادی کی تقاریب سے بات شروع کرتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کی مہذب دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔دعوت نامے میں جو وقت درج کیا جاتا ہے اسے جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں۔ وقت پر پہنچنے والا ایک آدھ ہو بھی تو احمق لگتا ہے۔ ساڑھے سات بجے کے بجائے مہمان دس بجے آتے ہیں یا دس بجے تک آتے رہتے ہیں۔ شیروانیاں اور نکٹائیاں پہنے ‘ ایک چپاتی اور چاول کی ایک پلیٹ کے لیے گھنٹوں بے وقوفوں اور ہونّقوں کی طرح‘ منہ کھول کر بیٹھے رہتے ہیں۔ رات کے ایک بجے گھر واپس پہنچتے ہیں۔ پچانوے فیصد شادیوں میں برات گھنٹوں راہ دکھلاتی ہے۔ لڑکی والے اس اذیت کا بدلہ ولیمے کی تقریب میں لیتے ہیں اور خوب خوب انتظار کراتے ہیں۔ اس صورتحال میں تبدیلی کا امکان دور دور تک نہیں۔ مستقبل بعید میں بھی اصلاح کی کوئی صورت نہیں دکھائی دیتی۔ہم رات دن جن اہلِ حرفہ کے محتاج ہیں‘ ان کے رویّے پر غور کر لیجیے۔ راج‘ بڑھئی‘ ٹھیکیدار‘ مزدور‘ بجلی والا‘ پلمبر‘ رنگساز ‘شیشے والا‘ صوفہ ساز‘ درزی‘ دھوبی‘ مکینک ‘ کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جو وقت طے کر کے اُس وقت پر پہنچ جائے؟ یا جس دن اس نے کام کر کے لانا ہے‘ لے آئے؟ گھروں میں جو دعوتیں ہوتی ہیں ان میں مہمان‘ میز بانوں کو خوب ذلیل کرتے ہیں اور طے شدہ وقت کو خاطر میں لانے کا سوچتے تک نہیں! کل جب یہ میزبان‘ کسی کے ہاں مہمان بن کر جاتا ہے تو اس سے بھی زیادہ تاخیر سے جاتا ہے۔ معذرت تک کوئی نہیں کرتا کیونکہ گھنٹوں بلکہ پہروں کی تا خیر روزمرہ کی روٹین کا حصہ ہے!یہاں تک کہ بہت سے لوگ افطار پارٹیوں میں بھی وقت پر نہیں پہنچتے! بہت سے ایسے احباب اور اقارب ہیں جو تاخیر سے آنے کی وجہ سے بلائے جانے کے مستحق ہی نہیں مگر سماجی جبر بائیکاٹ کے راستے میں حائل ہے!! ایسے حضرات ‘ شرم و حیا سے کوسوں دور ‘ خوب ٹھسّے سے انتظار کراتے ہیں۔ زیادہ درد ناک پہلو یہ ہے کہ جو پاکستانی یورپ‘ امریکہ اور آسٹریلیا میں رہتے ہیں وہ سفید چمڑی والوں کی تقریب میں تو وقت کی پابندی کرتے ہیں مگر اپنی تقاریب میں وہی پاکستانی انداز ہے۔ میزبان کو خوب انتظار کراتے ہیں۔ کوئی معذرت ہوتی ہے نہ شرمندگی ! شاید حب الوطنی کا تقاضا ہے یا '' ہوم سِک نس ‘‘ دور کرنے کا نسخہ ہے!

 

powered by worldwanders.com