یونیورسٹی ہوسٹل میں میں بیمار پڑ گیا۔دوست عیادت کے لیے آتے تو پھل لاتے۔ان دوستوں میں ایک شیر خان بھی تھے۔بعد میں وہ انگریزی زبان و
ادب کے پروفیسر بنے۔ چند سال پہلے داغِ مفارقت دے گئے۔ان کا تعلق ضلع اٹک کے قصبے بسال سے تھا۔ وہ عیادت کے لیے آئے تو پھل نہ لائے۔
اس کے بجائے انہوں نے نقد رقم دی۔ اُس وقت یعنی 1969-70ء میں یہ خطیر رقم دس روپے تھی۔ یاد رہے کہ روزانہ ناشتے پر تب ایک روپیہ خرچ
ہوتا تھا۔پنڈی اسلام آباد میں انگور ڈیڑھ روپے سیر تھا۔ ڈھاکہ میں دس روپے سیر تھا یعنی قوتِ خرید سے باہر ! چنانچہ بنگالی بھائی اسلام آباد آتے تو انگور
اتنا زیادہ کھاتے کہ اسہال کا شکار ہو جاتے۔انڈے آٹھ آنے میں چار ملتے۔ ہوسٹل میں کمرے کاکرایہ‘ جس میں صرف میں رہتا تھا‘ ماہانہ سولہ روپے تھا
۔
میس میں دو وقت کے کھانے کا ماہانہ بل ستر روپے تھا۔تازہ نیوز ویک اور ٹائم دو دو روپے کے ملتے تھے اور ہم خرید کر پڑھتے تھے۔
شیر خان نے عیادت کے دس روپے تکیے کے نیچے رکھے۔کچھ دوست بھی اس وقت موجود تھے۔ وہ متعجب ہوئے۔ شیر خان نے انہیں بتایا کہ ہمارے ہاں‘ ضلع اٹک میں‘ رواج ہے کہ کسی کی عیادت کے لیے جائیں تو نقد رقم پیش کرتے ہیں! یہ واقعہ اس لیے یاد آیا کہ چند دن پہلے سوشل میڈیا پر کسی کی پوسٹ پڑھ رہا تھا۔اس میں اپیل کی گئی تھی کہ بیمار کو ملنے جائیں تو پھلوں کے بجائے نقد رقم دینی چاہیے کہ جو شے ضرورت ہو وہ خریدی جا سکے۔ ہمارے علاقے میں یہ دستور نسلوں سے چلا آرہا ہے۔ ( اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ضلع اٹک کے لوگ بہت عقلمند ہیں۔ عقلمند ہوتے تو شوکت عزیز کو وہاں سے الیکشن لڑا کر وزیر اعظم نہ بننے دیتے ) دس روپے سے یہ رقم پچاس‘ پھر سو ہوئی۔ ابھی تک یاد ہے کہ گاؤں سے ہمارا چاچا مظفر خان مرحوم آیا۔ گھر میں کوئی فرد بیمار تھا۔ اس نے جیب سے نوٹوں کی گڈی نکالی۔ انگلی کو زبان سے تر کیا ‘ سو روپے کا نوٹ کھینچ کر نکالا اور ابا جی کو پیش کیا کہ یہ ''پوچھا‘‘ ہے۔ بیمار کو پوچھنے آتے ہیں تو جو رقم دیتے ہیں اسے ''پوچھا ‘‘کہتے ہیں۔ یوں بھی جب کہتے ہیں کہ بیمار کو پوچھنے جانا ہے تو یہ خالص پنجابی طرزِ اظہار ہے! اُردو میں حال پوچھنا کہتے ہیں یا عیادت کرنا! مومن نے کہا تھا ؎
بہرِ عیادت آئے وہ لیکن قضا کے ساتھ
دم ہی نکل گیا مرا آوازِ پا کے ساتھ
اور حکیم فصیح الدین رنج نے کہا تھا ؎
اک بار اور میری عیادت کو آئیے
اچھی طرح سے میں ابھی اچھا نہیں ہوا
لگے ہاتھوں اس مضمون کا لالہ مادھو رام جوہر کا شعر بھی سن لیجیے ؎
وہ عیادت کو نہ آیا کریں ‘ میں در گزرا
حالِ دل پوچھ کے اور آگ لگا جاتے ہیں
ویسے جو ہمارا عیادت کا کلچر ہے اس کے پیش نظر ہر بیمار ‘ زبانِ حال سے‘ یہی کہتا ہے کہ حضرات! ازراہ کرم عیادت کو نہ تشریف لایا کیجیے! میں آپ کی عیادت سے در گزرا!
چند کلو سیب یا چند درجن مالٹے لے جا کر ہم مریض کے ساتھ کرتے کیا ہیں ؟ پہلے تو ہم اٹھنے کا نام نہیں لیتے! دیکھ رہے ہیں کہ وہ بے چین ہے ‘ ڈاکٹر کو بلایا جا رہا ہے‘پھر بھی بیٹھے ہیں! اور بعض تو ہم میں سے اتنے احمق ہوتے ہیں کہ چائے یا کولڈ ڈرنک کی توقع بھی رکھتے ہیں! پھر عیادت کے لیے آنے والوں کی بھاری تعداد مریض کو یہ مشورہ ضرور دیتی ہے کہ فلاں ڈاکٹر کو دکھائیے یا فلاں ہسپتال میں جائیے‘ جیسے مریض اور اس کے لواحقین کو تو کسی چیز کا پتہ ہی نہیں! مشتاق احمد یوسفی نے لکھا ہے کہ ایک بار وہ بیمار پڑے تو جو لوگ عیادت کرنے آئے ان میں ایک صاحب ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ نہیں کہا کہ فلاں ڈاکٹر کو دکھاؤ یا فلاں دوا کھاؤ! کچھ تو مریض کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ جس بیماری میں آپ مبتلا ہیں اسی بیماری میں مبتلا فلاں صاحب وفات پا گئے ہیں! مریض سے غیر ضروری سوالات بھی نہیں پوچھنے چاہئیں! میں نے ایک بار دو صاحبان کو ایک مریض کے کمرے میں شد و مد سے سیاسی بحث کرتے دیکھا۔ ماشاء اللہ دونوں عیادت کرنے آئے تھے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے مجھے کمرے سے باہر جا کر‘ ہسپتال کے عملے کے ساتھ مل کر'' سازش ‘‘ کرنا پڑی! میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا تو ایک اعلیٰ افسر تعزیت کے لیے والد صاحب کے پاس تشریف لائے۔ اتفاق سے اسی وقت ایک معروف مذہبی سکالر بھی آگئے۔ ان دونوں حضرات نے ایک صاحب کی غیبت شروع کر دی جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ شام ڈھل رہی تھی۔ میں اور والد صاحب دونوں حیران ہو رہے تھے۔ ان دونوں صاحبان نے ہم دونوں باپ بیٹے کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا ‘ جیسے ہم وہاں موجود ہی نہیں تھے! جب بہت دیر ہو گئی تو ‘ مجبوراً ‘ میں والدِ گرامی مرحوم کو ڈرائنگ روم سے اٹھا کر اندر لے گیا کیونکہ انہیں بہت زیادہ کوفت ہو رہی تھی۔
مریض آسودہ حال ہے یا مالی طور پر کمزور‘ دونوں صورتوں میں نقد رقم اس کے لیے زیادہ مفید ہے۔ پہلی صورت میں وہ پھل اپنی مرضی اور ذوق کے مطابق منگوائے گا۔ دوسری صورت میں رقم اس کے علاج میں ممد ثابت ہو گی! یوں بھی ہم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ معاشی لحاظ سے ہم سے کمتر رشتہ دار اور دوست بیمار پڑیں تو ان کی مدد ضرور کریں اور اس طرح کریں کہ عزتِ نفس کے آبگینے کو ٹھیس نہ پہنچے!
بڑوں سے سنا ہے کہ پہلے جب کوئی شخص کسی دوسرے شہر سے آکر کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور قیام اس کا دور ہوتا تھا تو وہ بزرگ کھانے کے لیے مدعو کرنے کے بجائے اسے نقد رقم دیتے تھے کہ اس سے کھانا کھا لے۔مقصد یہ تھا کہ مہمان کو دور سے آنے کی زحمت نہ کرنی پڑے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بعض اوقات اتنی دور جانا پڑتا ہے کہ دعوت بلائے جان بن جاتی ہے اور تکلیف کا باعث ہوتی ہے! یہ رواج تو اپنے بچپن اور لڑکپن میں خود دیکھا ہے کہ دعوت کرنے والے خشک راشن بھیج دیتے تھے۔ میں گرما کی تعطیلات میں گاؤں جاتا تھا تو اپنے ایک دوست کو پڑھاتا بھی تھا۔ ہم دونوں دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ اس کے گھر والوں نے میری دعوت کی۔ شام کو دیکھا کہ اس کے گھر سے بڑے بڑے ٹرے آرہے ہیں۔ ان میں چینی‘ سوجی‘ گھی‘ آٹا اور اسی قبیل کی دیگر اشیا تھیں۔ ساتھ ایک مرغی بھی بھیجی گئی تھی جو باقاعدہ زندہ تھی اورکُڑ کُڑ کر رہی تھی! آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں تکلف اور فیشن زیادہ ہے اور آرام کم !! فیشن ایبل بیکریوں نے کیک کی قیمت آسمان پر پہنچا دی ہے! ساتھ ہی ہر تیسرا چوتھا انسان ذیا بیطس کا مریض ہے۔ دعوت کا مقصد یہ رہ گیا ہے کہ پکوان ( ڈشیں ) زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہوں! میز کھانوں سے بھری ہوئی ہو! اگر خواتین کو مشورہ دیا جائے کہ مہمانوں کے لیے نان یا چپاتی کے علاوہ صرف تین چیزیں تیار کریں۔ بریانی‘ قورمہ اور میٹھا! تو وہ اسے میزبانی کی توہین قرار دیتی ہیں! اگر آپ نے مجھے مدعو کرنا ہے تو آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ جتنی بھی ڈشیں ہوں‘ میں صرف ایک چیز کھاتا ہوں! کئی پکوان چکھنے یا کھانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ کسی شے سے بھی لطف اندوز نہ ہو!!
No comments:
Post a Comment