نیویارک میں اس پاکستانی خاندان کی یہ چوتھی نسل تھی۔ سب سے پہلے اس خاندان کے ایک صاحب بیسویں صدی کے وسط میں وطن چھوڑ کر امریکہ آئے۔ کئی ریاستوں میں قسمت آزمائی کی اور بالآخر نیویارک انہیں راس آگیا۔ دوسری نسل تو ساتھ ہی آئی تھی۔ تیسری نسل ستّر کی دہائی میں پیدا ہوئی۔ یہ ''میڈ اِن امریکہ‘‘ تھی۔ چوتھی نسل نئی صدی‘ یعنی اکیسویں صدی‘ میں پیدا ہوئی۔ اب 2060ء تھا! چوتھی نسل کا نمائندہ پچاس برس کا ہو چکا تھا۔ بڑے بابے کو آبائی وطن چھوڑے سو برس سے زیادہ ہو گئے تھے۔ نسل در نسل جو روایت خاندان میں چلی آرہی تھی‘ اس کے مطابق آبائی پاکستانی گاؤں ایک خوبصورت علاقے میں واقع تھا۔ یہ علاقہ گندم اور کپاس کا گھر تھا۔ یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ پاکستان میں گنے کے کھیت تھے۔ آم اور مالٹے کے باغات تھے۔ بہتی ہوئی نہریں تھیں۔ وسیع چراگاہیں تھیں۔ جنگلات تھے جن میں جانور تھے۔ باغات تھے جن میں مور‘ چکور‘ طوطے اور مینائیں تھیں۔ کھیت تھے جن کے درمیان پگڈنڈیاں تھیں۔ پگڈنڈیوں پر سبزہ تھا جن پر بچے کھیلتے تھے۔ صبح صبح کھیتوں میں چل پھر کر لوگ کھمبیاں تلاش کرتے تھے جو افراط کے ساتھ ملتی تھیں۔ باجرے کے خوشے ہوتے تھے۔ جوار اور چنے سے چھلکتے کھیت تھے۔ سرسوں کے زرد پھول عجب بہار دکھاتے تھے۔ خربوزوں اور تربوز کی بیلیں تھیں۔ بستیوں سے دُور‘ کھیتوں اور چراگاہوں کے درمیان‘ لوگ گھر بنا لیتے تھے۔ ان گھروں کے بڑے بڑے صحنوں میں گرمیوں میں 24گھنٹے خنک ہوائیں چلتی تھیں۔ سرما میں سنہری دھوپ قالین کی طرح بچھ جاتی تھی۔ اونٹ لمبی قطاروں کی صورت چلتے تھے۔ ان کی گردنوں میں گھنٹیاں ہوتی تھیں جن کی مترنم‘ سریلی‘ آوازیں دور تک سُنی جاتی تھیں۔ بستیوں سے صبح کے وقت چرواہے ریوڑ ہانکتے نکلتے تھے اور شام کو واپس آتے تھے۔ صحنوں میں تنور تھے۔ چھپروں کے نیچے گھڑونچیاں تھیں جن کے اوپر ٹھنڈے پانی سے بھرے گھڑے رکھے ہوتے تھے۔ گھڑوں پر مٹی کے پیالے اوندھے رکھے جاتے تھے۔ ان گھڑونچیوں کے نیچے‘ فرشِ زمین پر‘ گیلی ریت ہوتی تھی جو رِستے پانی کی بدولت ٹھنڈی ہوتی تھی۔ گاؤں رشتہ داروں سے بھرے ہوتے تھے۔ چاچے‘ مامے‘ پھپھیاں‘ خالائیں‘ ممانیاں‘ چاچیاں ملتے وقت ماتھے کا بوسہ لیتی تھیں۔ چارپائی پر پاس بٹھاتی تھیں اور خاطر داریاں کرتی تھیں۔ یہ سب کچھ نیویارک میں پیدا ہونے والی نسل کے لیے الف لیلہ کی داستان سے کم نہ تھا۔ اس خاندان کے پاس‘ ہجرت کرنے والے بابے کی ذاتی ڈائری بھی تھی جس میں بہت کچھ لکھا ہوا تھا۔ پاکستان میں ایک گرانڈ ٹرنک ( جی ٹی) روڈ تھی۔ پنڈی سے لاہور تک کا سفر ایک طلسم سے کم نہ تھا۔ رات کوجی ٹی روڈ پر ٹرین کا سفر سِحر آگیں تھا۔ راستے میں پڑنے والے شہروں‘ قصبوں‘ بستیوں قریوں میں جلتے چراغ اس طرح لگتے تھے جیسے آسمان سے ستارے زمین پر اُتر آئے ہوں۔ رات کے سناٹے میں ٹرین کی کُوک دل چیرتی تھی۔ اس آواز کو سننے کے لیے شاعر اور موسیقار راتوں کو سفر کرتے تھے۔ پاکستان کے ایک بڑے شاعر‘ منیرؔ نیازی‘ نے کہا تھا
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
دن میں جی ٹی روڈ کا سفر اور ہی منظر دکھاتا تھا۔ راستے میں دونوں طرف ہری بھری فصلیں ہوتی تھی۔ کٹی ہوئی گندم کے ڈھیر جا بجا گٹھوں کی صورت نظر آتے تھے۔ کہیں تھریشر کام کر رہے ہوتے تھے۔ راستے میں‘ انواع و اقسام کے ہزاروں لاکھوں درخت نظر آتے تھے جو آنکھوں کو تازگی‘ دماغ کو فرحت اور روح کو بالیدگی بخشتے تھے۔
اگر کوئی چیز بالکل سمجھ میں نہ آرہی ہو تو فرنگی کہتے ہیں کہ یہ میرے لیے گریک
(Greek)
ہے۔ پاکستانی دیہی زندگی کے بارے میں یہ سب کچھ‘ جو اُوپر بیان کیا گیا ہے‘ اُس نسل کے لیے جو پاکستان سے دور‘ بحر اوقیانوس کے پار‘ پیدا ہوئی اور پلی بڑھی‘ گریک تھا۔ بالآخر ان میں سے چند ایک نے ارادہ باندھا کہ اجداد کی اس سرزمین کو ایک بار دیکھیں اور اُن سب مناظر کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کریں جو خاندان کی روایتوں میں چلے آرہے تھے۔ انہوں نے امریکہ میں بارہا دیکھا تھا کہ اطالوی‘ جرمن‘ آئرش‘ ہسپانوی‘ عرب اور افریقی اپنے آبائی ملکوں میں جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہم اپنے رُوٹس‘ یعنی جڑیں دیکھنے جارہے ہیں۔ اب وہ بھی یہی کرنا چاہ رہے تھے۔ سب سے پہلے انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو تلاش کرنا شروع کیا۔ ایک سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا۔ چار پیڑھیاں گزر گئی تھیں۔ پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ کوئی آسٹریلیا‘ کوئی امریکہ‘ کوئی کینیڈا اور کوئی یورپ جا بسا تھا۔ بہت سے رشتہ دار آبائی گاؤں اور ارد گرد کی بستیوں سے نقل مکانی کرکے شہروں میں مقیم ہو گئے تھے۔ سوشل میڈیا پر کافی تگ و دو کرنے کے بعد ایک دُور دراز کا رشتہ دار ہاتھ آیا۔ جو بڑے میاں بیسویں صدی کے وسط میں امریکہ سدھارے تھے‘ یہ ان کے چچا زاد بھائی کا پڑپوتا تھا۔ یہ اس خاندان کا واحد مرد تھا جو گاؤں میں باقی رہ گیا تھا۔ آدم کی نسل پھیلنے اور نقل مکانی کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ تمام انسانی تاریخ ہجر اور ہجرتوں سے بھری پڑی ہے۔ چینی ہیں یا جاپانی‘ پٹھان ہیں یا پنجابی‘ عرب ہیں یا افریقی‘ دنیا کے ہر گوشے میں موجود ہیں۔ اب تو ایسی ایسی خبریں آرہی ہیں کہ ڈی این اے ٹیسٹ کرانے سے کئی نسلوں تک رشتہ داروں کا پتا چلتا ہے۔
ہم نیویارک کی پاکستانی نژاد فیملی کی طرف اور 2060ء کے زمانے کی طرف واپس آتے ہیں! اس دُور کے رشتہ دار سے رابطہ کیا گیا اور اسے بتایا گیا کہ نیویارک والے جس دن اسلام آباد پہنچیں گے‘ اسی دن گاؤں والا رشتہ دار بھی اسلام آباد پہنچ جائے گا۔ سہولت کے لیے ہم گاؤں والے رشتہ دار کا نام رشید رکھ لیتے ہیں۔ متعین تاریخ کو یہ سو سال کے بچھڑے ہوئے رشتہ دار ملے۔ رشید ٹوٹی پھوٹی انگریزی بول اور سمجھ لیتا تھا مگر نیویارک والے اردو اور پنجابی سے یکسر نابلد تھے۔ بہر طور طے یہ ہوا کہ پہلے مرحلے میں پنڈی سے لاہور تک ٹرین کا سفر کیا جائے گا تاکہ جی ٹی روڈ کے پہلو بہ پہلو چل کر راستے کے اُن کھیتوں‘ فصلوں اور درختوں کا نظارہ کیا جائے جن کا ذکر جدِ امجد کی ڈائری میں ملتا تھا۔ رشید انگریزی پوری طرح سمجھتا تو پوچھتا کہ کون سے کھیت؟ اور یہ فصل کیا ہوتی ہے؟ پنڈی سے روانہ ہوئے تو بہت دیر تک‘ راستے کے دونوں طرف‘ مکانوں کا سلسلہ جاری رہا۔ نیویارک والے یہ سمجھے کہ ٹرین مضافات سے گزر رہی ہے۔ جب مضافات کا سلسلہ ختم ہو گا تو کھیت اور جنگل شروع ہو جائیں گے مگر یہ ان کی خوش فہمی تھی۔ لاہور تک کوئی کھیت‘ کوئی درخت‘ کوئی فصل نہ دکھائی دی۔ جہاں گندم کے کھیت ہوتے تھے وہاں بھی مکان تھے۔ گجرات کے بعد‘ جہاں چاول کا علاقہ ہوا کرتا تھا وہاں بھی مکان تھے۔ ہر طرف مکان ہی مکان! ہر سائز کے مکان! ہر قسم کے مکان! ہر رنگ کے مکان! ایک جگہ ٹرین رُکی تو انہوں نے ترجمان کی مدد سے ایک نوجوان سے پوچھا کہ کھیت کہاں ہیں جن میں غلہ اُگتا ہے۔ اس نے پلٹ کر‘ حیرت سے پوچھا کہ کھیت کیا ہوتے ہیں؟ وہ تو جب سے پیدا ہوا تھا اس نے مکانوں کے سوا کچھ نہیں دیکھا تھا۔ لاہور سے ملتان تک‘ ملتان سے سکھر تک یہی حال تھا۔ چینی کی ملیں موجود تھیں مگر ان کے لیے گنا درآمد کیا جاتا تھا۔ کپاس اگانے کے لیے ایک انچ زمین باقی نہ بچی تھی۔ ہر طرف فیکٹریاں ہی فیکٹریاں تھیں۔ خام مال سارا باہر سے آتا تھا۔ ملتان والوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ آم کیا ہوتا ہے۔ آم کے تمام باغات کاٹ کر ہاؤسنگ سوسائٹیاں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ کراچی تک ملک کی ساری زمین ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی نذر ہو چکی تھی۔
سفر مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔
No comments:
Post a Comment