Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, August 17, 2023

ایک نئی خود نوشت ! جو پرانی ہے !




—“ رات کے دس بجے ایک ملازم نے دروازہ کھٹکھٹایا  اور بتایا کہ  کچھ جرنیل ملنا چاہتے ہیں۔میں نے فوراڈریسنگ گاؤن پہنا اور کمرے سے باہر نکلا۔میں یہ دیکھ کر حیران ہؤا کہ باغ اور برآمدوں میں بہت سے فوجی سٹین گنیں اور ریوالور لیے گھوم رہے ہیں۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ  یہ سب کیا ہے۔میں گراؤنڈ فلور پر گیا تو وہاں تین جرنیل کھڑے تھے۔ شیخ، اعظم خان اور برکی۔میجر جنرل شیر بہادر بھی موجود تھا۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ ایک نازک مسئلے پر بات کرنے آئے ہیں اور یہ کہ  مجھے پاکستان چھوڑنا ہو گا۔میں نے پوچھاکیوں؟  ان کا جواب تھا کہ یہی ملک کے مفاد میں ہے۔دل تو  چاہا کہ انہیں کہوں جہنم میں جاؤ لیکن میرے پاس کوئی پرائیویٹ آرمی تو تھی نہیں۔میں اپنی اہلیہ کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ان کی بات ماننے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔  دوسرے دن کے اخبارات میں دو خبریں چھپیں۔ ایک یہ کہ نئی کابینہ میں  جنرل ایوب خان نے وزیر اعظم کا منصب قبول کر لیا ہے۔ دوسری یہ کہ میں مستعفی ہو گیا ہوں اور صدارت کا عہدہ  جنرل ایوب خان نے سنبھال لیا ہے۔  اس  تضاد سے دنیا والوں نے نہ جانے کیا نتیجہ نکالا ہو گا۔بندوق کی نوک پر میرا استعفی لینے کے بعد جرنیل چلے گئے اور باقی کا گندا کام شیر بہادر کے سپرد کر گئے جو بہت بداخلاق تھا۔اس نے  ایوان صدر ہم سے خالی کرانے کے لیے افرا تفری مچا دی۔میری اہلیہ کو ڈرانے کے لیے اسلحہ کی خوب نمائش کی گئی مگر وہ بالکل خوفزدہ نہ ہوئی۔  ہم نے ایک گھنٹے کے اندر اندر سامان باندھ لیا۔فوجی گاڑیوں کا ایک قافلہ ہمیں ائرپورٹ لے گیا۔وہاں میری ملاقات امریکی سفیر ، مسٹر لانگ لے سے ہوئی جو میرے ذاتی دوست تھے۔وہ پریشان دکھائی دے رہے تھے۔ائر کموڈور اصغر خان بھی موجود تھے اور دُکھی دکھائی دے رہے تھے۔ ایک ٹرانسپورٹ طیارے کے ذریعے ہمیں کوئٹہ پہنچایا گیا جہاں ہمیں  مقامی  انتظامیہ کے سربراہ کے گھر  رکھا گیا۔ وہاں ہمارا قیام  پانچ یا چھ دن  کے لیے تھا۔ مسلح فوجی افسر وہاں موجود رہے۔ اسلحہ کی نمائش سے میری بیگم کو اس قدر غصہ آیا کہ اس نے شیر بہادر کو ڈانٹا کہ وہ دھمکا کیوں رہا ہے۔ میری اہلیہ نے اسے  یاد دلایا کہ اس کے ( یعنی میری اہلیہ کےبزرگ فاتح کی حیثیت سے   آئے  تھے۔ اس کے بعد بندوقیں ذرا کم دکھائی دیں ! آخر کار ہمیں بتایا گیا کہ اگلے دن ، یعنی دو نومبر کو، ہم کراچی سےانگلینڈ کے لیے روانہ ہوں گے۔ کوئٹہ سے روانہ ہونے سے پہلے میں نے اس خواہش کا اظہار کیا  کہ دو افراد مجھے کراچی ائر پورٹ پر ملیں ۔میرا داماد محمود مرزا اور حسن اصفہانی۔میری اس خواہش کی انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی۔ تاہم خوش قسمتی سے ، انگلینڈ روانگی سے پہلے دونوں سے ہماری ملاقات ہو گئی۔ میرا داماد پی آئی اے میں ملازم تھا اور اُس وقت ڈیوٹی کے  لئے ائر پورٹ پر تھا جب کہ اصفہانی اور ان کی بیگم اپنی بیٹی کے استقبال کے لیے آئے ہوئے تھے جو لندن سے آرہی تھی۔ ہمیں ائرپورٹ پر سات گھنٹے انتظار کرنا پڑا کیونکہ بی او اے سی کے طیارے کے انجن میں کوئی مسئلہ تھا۔ بالآخر ہم کے ایل ایم کے طیارے میں سوار ہوئے جس نے ہمیں ایمسٹرڈم پہنچایا۔  ایمسٹرڈم سے ہم لندن آئے ۔  مناسب گھر تلاش کرنے  تک ہمیں  کچھ دن ہوٹل میں ٹھہرنا پڑا۔ اگر ہمارے دوست ہماری مدد نہ کرتے تو   ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا کیونکہ پاکستان چھوڑنے سے پہلے ہمارے پاس جو کچھ تھا، روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی اشیا، سب کچھ ضبط کر لیا گیا۔میرے ذاتی کاغذات اور ڈائریاں بھی چھین لی گئیں ۔سو، اس طرح میرے ملک کے لیے میری خدمات کا خاتمہ کیا گیا یعنی جلاوطنی کسی  وارننگ کے بغیرجس آرمی کو ایک زبردست فورس بنانے میں میں نے مدد کی تھی ، اسی نے مجھے گارڈ آف آنر دینے  کے بجائے قیدی کے طور پر رخصت  کیا۔” ) صفحات ۱۷۷-(۱۷۸


یہ اقتباس پاکستان کے پہلے صدر سکندر مرزا  کی خود نوشت سے ہے۔ان کی وفات لندن میں تیرہ نومبر 

1969 

کو ہوئی۔ اس خود نوشت کے دیباچے میں سید خاور مہدی نے لکھا ہے کہ وفات سے ایک سال پہلے سکندر مرزا نے جنرل یحی خان  سے درخوست کی تھی کہ انہیں پاکستان واپس آنے کی اجازت دی جائے  مگر  یحیٰ خان نے انکار کر دیا۔ بعد میں سکندر مرزا کی بیٹی تاج امام نے بھی کوشش کی مگر  کامیاب نہ ہوئی۔ سکندر مرزا کی تدفین تہران میں ہوئی جہاں شاہ ایران کی حکومت نے پورے ملٹری پروٹوکول کے ساتھ سرکاری سطح پر تدفین کی۔


یہ خود نوشت جو اس سال 


( 2023) 

میں شائع ہوئی ہے، نصف صدی سے زیادہ عرصہ اخفا میں رہی۔ یوں یہ جتنی پرانی ہے، اتنی ہی نئی ہے۔  اس کا نام ہے 


Iskinder Mirza Pakistani’s First Elected President ‘s Memoirs from Exile  



تاریخِ پاکستان کے طالب  علموں کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے کیونکہ سکندر مرزا کے خلاف زیادہ تر  یک طرفہ پروپیگنڈا ہی پیش منظر پر رہا۔  سکندر مرزا کو نکالنے والے جنرل ایوب خان ایک عشرے تک سیاہ و سفید کے مالک رہے ۔ اُس دور میں سکندر مرزا کی بات کون سنتا؟ اب جب  سکندر مرزا  کا موقف تفصیل سے سامنے آیا ہے تو غیر جانبدار مؤرخین کا فرض ہے کہ تاریخ کا یہ افسوسناک باب از سر نو لکھیں

{

کتاب میں سکندر مرزا نے اپنی پیدائش سے لے کر جلاوطنی تک کے حالات تفصیل سے لکھے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ مارشل لا لگانے کے ذمہ دار وہ خود تھے۔ وہ لکھتے ہیں —-“ مارشل لا لگانے کے لیے مجھ پر آرمی کی طرف سے کوئی دباؤ نہ تھا۔مارشل لا کا اعلامیہ میں نے اپنے ہاتھ سے کسی کی مدد کے بغیر لکھا ۔اسے جاری  ہونے سے چند گھنٹے پہلے ہی ٹائپ کیا گیا۔”   اس کے بعد سکندر مرزا نے پورا اعلامیہ نقل کیا ہے جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔  اعلامیہ کا آخری حصہ یوں ہے :

 اے۔ ۲۳ مارچ ۱۹۵۶ کا آئین  منسوخ کیا جاتا ہے۔

بی۔مرکزی اور صوبائی حکومتیں فی الفور بر طرف کی جاتی ہیں۔

سی۔قومی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیاں  تحلیل کی جاتی ہیں۔ 

ڈی۔ تمام سیاسی جماعتیں ختم کی جاتی ہیں۔ 

ای۔  جب تک متبادل انتظامات  نہیں کر دیے جاتے، پاکستان میں مارشل لا نافذ رہے گا۔ میں جنرل محمد ایوب خان کمانڈر انچیف پاکستان آرمی کو چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر  مقرر کرتا ہوں اور پاکستان کی تمام مسلح افواج کو اس کی کمانڈ میں دیتا ہوں۔


سکندر مرزا نے اپنی ان یادداشتوں میں   لیاقت علی  خان کی تعریف کی ہے مگر ان کی لائ ہوئی قرارداد مقاصد پر تنقید بھی کی ہے۔  ان کی دلیل یہ ہے کہ اس سے مذہبی طبقات طاقتور ہوئے۔ ون یونٹ کے بارے میں لکھتے ہیں  —- “ ہر کسی پر یہ بات ظاہر تھی کہ  ون یونٹ سے سب سے زیادہ فائدہ پنجابیوں نے اٹھایا۔  ان کا دارالحکومت ، لاہور،سیاسی مرکز بن گیا۔ اسمبلی پر ان کا غلبہ تھا  اور سول سروسز پر بھیپٹھان،  اپنی آزاد طبیعت کے سبب، اس نئے سیٹ اپ سے سمجھوتہ نہ کر سکے۔ عبد الغفار خان نے سندھی لیڈر جی ایم سید کے ساتھ ایکا کر لیا تا کہ ون یونٹ کو ختم کر نے کے لیے عوامی تحریک چلائی جا سکے۔




سکندر مرزا نے کچھ ایسی باتیں بھی لکھی ہیں جو آج کے پاکستان میں شاید ہضم نہ کی جا سکیں۔ مگر یہ باتیں غور و فکر کو دعوت دیتی ہیں۔ آج ہم جس انتہا پسندی کا سامنا کر رہے ہیں اس کی ابتدا کب ہوئی اور کن کے ہاتھوں ہوئی؟ اس کا کچھ  سراغ  اس خود نوشت میں ملتا ہے۔سکندر مرزا فرشتہ تھے نہ جنرل ایوب خان! مگر ایک مستحکم پاکستان کے لیے لازم ہے کہ تاریخ کا  تجزیہ بے لاگ اور سفاک غیر جانبداری کے ساتھ کیا جائے۔تاریخ میں اہمیت شخصیات کی نہیں، ان کے کاموں اور رویّوں کی ہوتی ہے۔ 

…………………………………………………………………


No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com