Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 31, 2022

ارشد شریف


یہ2017ء کی بات ہے۔میں‘ عزیزم خاور گھمن اور بزرگ صحافی عارف نظامی ایک ٹی وی چینل پر '' نیوزروم‘‘ کے عنوان سے ہفتے میں چھ دن‘ پروگرام کرتے تھے۔ عزیزم کرامت مغل ہمارے پروڈیوسر تھے۔ نظامی صاحب پروگرام میں لاہور سے شریک ہوتے تھے۔ میں‘ کرامت مغل اور خاور گھمن اسلام آباد میں تھے۔ کافی وقت اکٹھا گزرتا جس میں نشستن اور خوردن بھی شامل تھے۔�ایک دن خاور گھمن صاحب نے بتایا کہ ارشد شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف ہسپتال نے انہیں کہا تھا کہ دل میں دو سٹنٹ پڑیں گے۔ یہ کام دو تین دن کے بعد ہونا تھا۔ کچھ دوائیں دی گئی تھیں جو ان دو تین دنوں میں‘ ہسپتال والوں کے بقول‘ ارشد شریف کو سٹنٹ ڈالنے کے عمل کے لیے تیار کریں گی ! خاور صاحب کو معلوم تھا کہ میرے دو قریبی عزیز امراضِ قلب کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کی رائے لے دیجیے۔میں نے کہا :کیوں نہیں! بسر و چشم ! ارشد شریف نے وٹس ایپ پر اپنے دل کے ٹیسٹوں کی رپورٹیں بھیجیں۔ میں نے فوراً دونوں ڈاکٹروں کو ارسال کر دیں۔ایک لاہور میں تھے۔ دوسرے بیرونِ ملک۔ ایک دل کے سرجن تھے۔ دوسرے فزیشن اور سٹنٹ ڈالنے ہی کے ماہر جسےInterventionistکہتے ہیں۔ اسی شام کو دونوں کا جواب آگیا۔ دونوں نے کہا تھا کہ ارشد شریف کا دل بالکل ٹھیک ہے۔ سٹنٹ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لاہور والے عزیز نے ایک دوا تجویز کی تھی۔ جو عزیز بیرونِ ملک تھے ان کے خیال میں کسی دوا کی بھی ضرورت نہ تھی۔ ارشد شریف کو فوراً ان آرا سے مطلع کیا۔ ان کی جان میں جان آئی۔ دوسرے دن انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جو ڈاکٹر صاحب بیرونِ ملک مقیم ہیں‘ ان سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ نمبر دیا۔ انہوں نے اپنا کیس تفصیل سے ڈسکس کیا۔ جہاں تک مجھے علم ہے‘ اس کے بعد بھی دل کے عارضے سے وہ محفوظ رہے۔�یہ ایک براہ راست‘ فرسٹ ہینڈ‘ تجربہ تھا جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ دل کے ماہرین پاکستان میں کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی سنا بہت کچھ تھا مگر یہ تو ایک ایسے شخص کو سٹنٹ ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی جسے میں ذاتی طور پر جانتا تھا اور جسے سٹنٹ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ایسا ہی ایک افسوسناک تجربہ کئی سال پہلے بھی ہوا۔ مجھے اور اہلیہ کو بیرونِ ملک جانا تھا۔جانے سے دو تین دن پہلے اہلیہ کو بخار ہونے لگا۔ شہر کا مشہور ترین نجی ہسپتال ہمارے گھر کے بالکل قریب تھا۔ ایک بڑے عہدے اور بہت سی ڈگریوں والے ڈاکٹر صاحب سے بھی علیک سلیک تھی۔ ان کے نام کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بادشاہ کے لیے طبی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور تشخیص کی کہ ٹائیفائڈ ہے۔ دوائیں تجویز کیں جو فوراً شروع کر دی گئیں۔ حالات ایسے تھے کہ بیرونِ ملک روانگی کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اللہ کا نام لے کر سفر پر روانہ ہو گئے۔ بیرون ملک پہنچے تو دوسرے دن طبیعت پھر خراب ہو گئی۔وہاں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس نے معائنہ کر کے بتایا کہ مریضہ کو ٹا ئیفائیڈ قسم کی کوئی بیماری نہیں۔ محض تھکاوٹ ہے۔ تھکاوٹ والی بات قابلِ فہم بھی تھی کیونکہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مہمانوں کی بہت زیادہ آمد و رفت تھی جو ملنے اور رخصت کرنے آرہے تھے۔ ان کی آؤ بھگت میں اور سفر کی تیاریوں کی وجہ سے تھکاوٹ کا ہونا فطری تھا۔ اس ڈاکٹر نے عام بخار کی دوا دی جس سے وہ ٹھیک ہو گئیں۔اس ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے ایک بات یہ بھی کہی کہ ٹائیفائڈ کی تشخیص کے لیے جو مشہور‘ روایتی‘ ٹیسٹ '' وِڈال‘‘ کے نام سے پاکستان میں کیا جا رہا ہے‘ وہ دنیا کے اکثر و بیشتر ملکوں میں کبھی کا متروک ہو چکا ہے۔ اب ٹائیفائڈ کی تشخیص سٹول ٹیسٹ سے ہوتی ہے۔�ارشد شریف کی طرف واپس آتے ہیں۔ واقفیت تو پہلے بھی تھی۔ اس کے بعد جب بھی کہیں ملاقات ہوتی‘ بہت خندہ پیشانی سے ملتا۔ کبھی مسٹر بْکس کی دکان پر‘ کبھی کلب میں‘ کبھی کسی چینل کے سٹیشن پر! بس اس سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ اس کا منطقہ اور تھا۔ میرا منطقہ اور تھا۔ اس کا حلقۂ احباب اور تھا‘ میرا اور ! جس رفتار سے وہ بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا تھا‘ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں‘ ہم مشربوں اور ہمکاروں سے کہیں آگے نکل جا ئے گا۔ مگر یہ سوچ کر کہ اس قدر تیز رفتاری گرنے کا سبب بھی بن جاتی ہے‘ جھرجھری بھی آتی تھی۔�کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ یہ اہلِ سیاست ہیں جو ارشد شریف کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ طلبہ ہوں یا صحافی‘ وکیل ہوں یا عام ورکر‘ سیاست دانوں کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتے۔ اور وہ بھی ان سیاست دانوں کی خاطر جو انہیں پہچانتے ہیں نہ جانتے ہیں۔ ان سے تو ان فدائیوں کا ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے‘ مریم نواز ایک خاتون کو جو انہیں ملنا چاہتی تھی یا ان کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی تھی‘ ہاتھ کے اشارے سے رفع دفع ہونے کا حکم دے رہی تھیں۔ یہ کلپ لاکھوں افراد نے دیکھا ہو گا۔ جو لوگ عمران خان کی خاطر مسجد نبوی میں شورو غوغا اور دنگا فساد کے مرتکب ہوئے اور وہاں کی حکومت نے انہیں قید کر دیا‘ عمران خان نے ان کی خاطر کیا کیا؟ کیا خان صاحب نے‘ یا ان کی پارٹی نے ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کی؟ ابھی یہ خبر آئی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد سے ان کی رہائی کی سفارش کی ہے؛ تاہم یہ نہیں معلوم کہ رہائی عمل میں آچکی ہے یا نہیں! ارشد شریف کی خون آلود قمیص کو جو سیاست دان اور ان کے وابستگان پرچم بنا کر لہرا رہے ہیں‘ وہ یہ ماتم سراسر اپنے فائدے کے لیے کر رہے ہیں۔اہل فرنگ ایسے مواقع پر کہتے ہیںmake capital out of something۔

ارشد شریف شہید بھی ہے اور مظلوم بھی! وہ ان سادہ دل لوگوں میں سے تھا جو دوسروں کی خاطر بہت آگے چلے جاتے ہیں اور انہیں ڈھونڈنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ہاتھ میں تلوار لے کے‘ شہید ہونے کے لیے کسی میدان جنگ میں نہیں اترا۔ یہ شہادت اس پر مسلط کی گئی۔ اہلِ غرض اس کے ذمہ دار ہیں۔ تعجب ہے کہ خان صاحب خود برطانیہ سے بے شمار روابط رکھتے ہیں۔ ان کے ارد گرد کئی افراد برطانیہ اور امریکہ سے آئے ہیں۔ امرا کی بھی اس پارٹی میں کمی نہیں۔ کیا کوئی بھی ارشد شریف کے لیے برطانیہ یا امریکہ میں قیام کا بند و بست نہیں کر سکتا تھا؟ سوالات اور بھی ہیں۔ کیا اس امر کا ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ پاکستان میں اس کی زندگی کو خطرہ تھا ؟ اگر کسی فرد یا اتھارٹی نے دبئی کے حکام کو کہا کہ اسے وہاں سے نکال دیا جائے تو اُس فرد یا اتھارٹی کا نام سامنے آنا چاہیے۔ رہا قتل جو کینیا میں ہوا‘ تو وہ متضاد اور مشکوک روایات کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔ کیا یہ قتل اتفاقیہ تھا یا ڈور پاکستان سے یا کسی اور ملک سے ہلائی جا رہی تھی؟ عین ممکن ہے یہ قتل بھی لیاقت علی خان‘ جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی طرح پُراسرار ہی رہے!! آخری تجزیے میں اصل نقصان اس کی ضعیف اور قابلِ رحم والدہ‘ اس کی بیگمات اور اس کے بچوں کا ہوا ہے جو باقی زندگی اس کے غم میں سلگ سلگ کر گزاریں گے!
بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, October 27, 2022

اور نہیں تو صرف یہ تین کام ہی کر کے دیکھیے


پہلی بار یورپ جانے اور کچھ عرصہ رہنے کا اتفاق آج سے چوالیس سال پہلے ہوا۔ کچھ چیزیں دیکھ کر تعجب ہوا۔ شاید اس لیے کہ یہ سب کچھ پہلے دیکھا تھا نہ معلوم تھا۔
اتوار کے دن باہر نکلے تو تقریباً ہر گھر کے سامنے مختلف اشیا پڑی تھیں۔ کہیں بچوں کی کار سیٹ‘ کہیں میز‘ کہیں گدّا‘ کہیں ٹائپ رائٹر۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ اشیا گھر والوں کی ضرورت سے زائد ہیں۔ اس عمل کے دو پہلو تھے۔ ایک تو جو غریب لوگ تھے وہ ضرورت کی چیزیں لے جاتے تھے۔ دوسرے‘ لوگ اپنی اشیا سے تبادلہ کر لیتے تھے۔ ایک اور عمل جس نے متاثر کیا‘ آلودگی کم کرنے اور پٹرول بچانے کے لیے تھا۔ ہفتہ اور اتوار چھٹی ہو تی تھی۔ فرنگی زبان میں اسے '' ویک اینڈ‘‘ کہتے ہیں۔ اب یہ لفظ ہمارے ہاں بھی کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ہمارا ویک اینڈ کا عمومی تصور یہ ہے کہ دن چڑھے تک سونا ہے۔ پھر انڈین فلم دیکھنی ہے۔ اور آخر میں رَج کے چکن کڑا ہی‘ نہاری یا حلیم کھانی ہے۔ سب کی نہیں مگر بہت سوں کی چھٹی اسی طرح گزرتی ہے۔ سفید چمڑی والوں کا ویک اینڈ کا تصور مختلف ہے۔ وہ گاڑی کے اوپر‘ یا پیچھے‘ سائیکلیں لادتے ہیں۔ کھانا ساتھ لیتے ہیں اور دو دن کے لیے شہر سے باہر نکل جاتے ہیں۔ کسی جنگل میں‘ کسی فارم پر‘ کہیں ساحل کے قریب۔ ٹھہرنے‘ پکانے اور واش روم کی سہولتیں ہر جگہ موجود ہوتی ہیں۔ بہت سے اپنے خیمے ساتھ لاتے ہیں اور کیمپنگ کرتے ہیں۔ کچھ گاڑیوں کے پیچھے ''کارواں‘‘ باندھ کر‘ لاتے ہیں۔ کارواں اُس ڈبے کو کہتے ہیں جس میں قیام کیا جا سکتا ہے۔ گاڑیوں کی تعداد کم کرنے کے لیے وہاں یہ قانون دیکھا کہ ایک ویک اینڈ پر صرف وہ گاڑیاں شہر سے باہر جائیں گی جن کے رجسٹریشن نمبر طاق ہیں۔ اگلے ویک اینڈ پر صرف وہ گاڑیاں نکلیں گی جن کے نمبر جفت ہیں۔ یوں ویک اینڈ پر چلنے والی گاڑیوں کی تعداد‘ عملاً پچاس فیصد کم ہو جاتی تھی۔ تیسری چیز جو پہلی بار یورپ میں دیکھی وہ پیدل چلنے والوں کی حد سے زیادہ اہمیت تھی۔ ان کے لیے راستے کا تعین‘ اور پھر اُس راستے کا کھلا ہونا لازم تھا۔ مثلاً اگر تعمیری سرگرمی کی وجہ سے‘ یا سڑک کی مرمت کے سبب‘ فٹ پاتھ کا کچھ حصہ استعمال کے قابل نہیں‘ تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ پیدل چلنے والے سڑک پر چلیں۔ان کے لیے متبادل‘ خصوصی راستہ‘ بنایا جاتا ہے اور ایسا کرنا لازم ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں سڑک پار کرنے والے کے لیے گاڑی روک لینا عام بات ہے۔ زیبرا کراسنگ پر تو رگاڑیاں رکتی ہی ہیں‘ اس کے علاوہ بھی‘ سڑک پار کرنے والے کا خیال رکھا جاتا ہے۔
ہمارے لیے ترقی یافتہ ملکوں کے قوانین اور طریقوں میں کئی سبق ہیں مگر باقی کو چھوڑیے‘ صرف ان تین پہلوئوں سے‘ جن کا ذکر اوپر ہوا ہے‘ اپنی حالت پر غور کر لیتے ہیں۔ ہمارے گھروں میں‘ غریب ہیں یا امیر یا مڈل کلاس‘ بغیر ضرورت کا سامان بھرا رہتا ہے۔بچوں کی سائیکلیں اور کھلونے‘ جنہیں وہ ہاتھ نہیں لگاتے‘ فرنیچر جو استعمال نہیں ہوتا۔ پرانے گدّے‘ میز‘ کرسیاں‘ بیمار قسم کے صوفے‘ کتابیں‘ بچوں کے پرانے سکول بیگ اور نہ جانے کیا کیا! ممٹیاں‘ سٹور‘ نیم چھتیاں‘ کونے کھدرے‘ الماریاں‘ الماریوں کے اوپر بنے ہوئے خانے۔ سب کھچا کھچ بھرے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ سالہا سال اسی طرح رہتا ہے۔ گھر والے مر کھپ جاتے ہیں۔ چیزیں پڑی رہتی ہیں۔ اس ضمن میں مائنڈ سیٹ بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان غیر ضروری چیزوں کو ٹھکانے لگانے کے دو طریقے ہیں۔ انہیں اپنے ملازموں اور ارد گرد کے غریب خاندانوں میں بانٹیے۔ جن کھلونوں‘ جن پرانی سائیکلوں کی طرف آپ کے بچے دیکھتے بھی نہیں‘ آپ کے ہاں کام کرنے والوں کے بچوں کے لیے وہ نعمت سے کم نہیں۔ جس جیکٹ کو آپ نے کئی جاڑوں سے چھوا تک نہیں‘ برتن دھونے والی عورت کے میاں اور بیٹے کو اس کی سخت ضرورت ہے۔ جوتوں کے کتنے جوڑے ہیں آپ کے پاس؟ کتنی قمیصیں ہیں ؟ خدا کے لیے انہیں تقسیم کیجیے۔ اس سے پہلے کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد تقسیم کرنے کا کام دوسرے کریں! دوسرا طریقہ وہی ہے جو مغربی ملکوں میں رائج ہے۔ جن اشیا کی ضرورت نہیں‘ انہیں گھر سے باہر رکھ دیجیے۔ شروع شروع میں عجیب لگے گا۔ مگر اس رواج کو عام کرنا پڑے گا۔ تاہم ایک فرق ترقی یافتہ ملکوں اور ہمارے ملک میں یہ ہے کہ وہاں گھروں میں کام کرنے کے لیے مالی‘ ڈارئیور‘ باورچی اور برتن اور کپڑے دھونے کے لیے غریب عورتیں ملازم نہیں رکھی جاتیں۔ پرانا سامان لینے والا کوئی ہوتا ہی نہیں۔ اس لیے گھر سے باہر رکھ دیا جاتا ہے۔ہمارے ہاں ضرورت مندوں کو ڈھونڈنا نہیں پڑتا۔آپ دینے والے بنیں۔ وہ گھر آکر لے جائیں گے۔
اب دوسرے پوائنٹ کی طرف آئیے۔ چھٹیوں کے دوران گاڑیوں کی تعداد کم کرنے والا پوائنٹ! صرف مری کی مثال لے لیجیے۔ کیا کیا نہیں ہوا تعطیلات کے دوران مری میں گاڑیوں کی تعداد حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے ! جو جو بستیاں اسلام آباد اور مری کے درمیان پڑتی ہیں‘ ان کے رہنے والے‘ چھٹیوں کے دوران عذاب میں گرفتار رہتے ہیں۔ خاص کر بارہ کہو کے باسی ! پولیس چھوٹی عید پر صرف ان گاڑیوں کو مری جانے کی اجازت دے جن کے نمبر طاق ہیں۔ بڑی عید پر جفت نمبر والی گاڑیاں جائیں۔ یہ قاعدہ ویک اینڈ کے حوالے سے بھی بنایا اور نافذ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ویک اینڈ پر طاق نمبر والی گاڑیاں مری جائیں دوسرے پر جفت نمبر والی ! برفباری کے دوران ہر بار ہڑبونگ مچتی ہے۔ گرمیوں کے سارے موسم کے دوران ہر ویک اینڈ پر لاکھوں گاڑیاں مری کی طرف چل پڑتی ہیں! یہ طریقہ آزما کر دیکھ لیا جائے!
رہی بات پاکستان میں پیدل چلنے والوں کے حقوق کی ! تو اس حوالے سے صورتحال نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ قابلِ مذمت بھی! شہروں میں فٹ پاتھ خال خال ہیں۔ جو ہیں‘ وہ تجاوزات کی زد میں ہیں۔ تاجروں نے اشیا فٹ پاتھوں پر رکھی ہوئی ہیں جو ان کی ملکیت ہی میں نہیں! آپ پیدل چلنے والوں کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ لاہور کی سب سے زیادہ شان‘ جاہ و جلال‘ طمطراق اور ہائی سٹیٹس رکھنے والی ہاؤسنگ سوسائٹی میں‘ جس کے کئی فیز ہیں‘ فٹ پاتھ سرے سے موجود ہی نہیں۔ ہے نا ناقابلِ یقین بات!! اگر آپ نے پیدل چلنا ہے تو سڑک پر چلیے۔ سیر کرنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اسی سے قیاس کیجیے کہ پیدل چلنے والوں کا اس معاشرے میں کتنا خیال رکھا جاتا ہے! کسی نے سڑک پار کرنی ہے تو ایک لمحے کے لیے بھی کوئی نہیں رکتا۔ خاص طور پر موٹر سائیکل چلانے والوں کے لیے تو رکنا جیسے حرام ہے ! اس قانون شکن طائفے نے نہ صرف پیدل چلنے والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے بلکہ کاریں‘ ویگنیں‘ بسیں‘ یہاں تک کہ ٹرک بھی اس منہ زور اور بے رحم گروہ کے سامنے عاجز ہیں۔ اس میں کوئی شائبہ نہیں کہ پیدل چلنے والوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ موٹر سائیکل ہے اور تا دم تحریر کوئی ماں کا لعل ایسا پیدا نہیں ہوا جو اس بے مہار اونٹ کے نتھنے میں نکیل ڈال سکے!بہت کچھ ہے جو ہم دوسرے ملکوں سے سیکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ مشرق وسطیٰ کے ملکوں سے بھی ! مگر کیا کیا بتا یا جائے! بقول مولانا ظفر علی خان ؎
حذر ہیں اور بھی واجب مگر کہاں تک میں
بتائے جاؤں گا تم کو فلاں فلاں سے بچو
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Tuesday, October 25, 2022

کھیل یا جنگ ؟


سب سے پہلے یہ کرسی جنرل محمود اختر صاحب کے کلینک میں دیکھی اور یہ کئی سال پہلے کی بات ہے۔
جنرل محمود اختر صاحب کا تعارف ایک کالم کے ایک حصے میں نہیں ہو سکتا۔ میڈیکل سپیشلسٹ! کئی نسلوں کے استاد! آرمی میڈیکل کالج کے پرنسپل! مسلح افواج کے سرجن جنرل! ساری زندگی مہنگی ادویات کے خلاف جہاد کرتے رہے۔ قدرت نے ہاتھ میں شفا رکھی۔ یوں کہ جس مریض نے ایک بار دکھایا‘ زندگی بھر کے لیے نرم گفتاری‘ شفقت اور طریقِ علاج کا اسیر ہو گیا۔ ریٹائر ہوئے تو ایک نجی میڈیکل کالج نے بھاری مشاہرے پر سربراہی پیش کی۔ جنرل صاحب نے قبول کر لی۔ مگر چند ہفتوں کے اندر جب دیکھا کہ دیانت عنقا ہے اور نیت خراب تو بیگ اٹھایا اور گھر آگئے۔کلینک جنرل صاحب کا گھر کی بیسمنٹ میں تھا۔سیڑھیاں اندر سے تھیں۔ یہیں وہ کرسی پہلی بار دیکھی۔ جنرل صاحب کرسی پر بیٹھے تھے۔ کرسی سیڑھیوں سے نیچے آرہی تھی۔ اوپر بھی لے کر جاتی تھی۔
کچھ عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ ایسی کرسی کی ضرورت ‘ جلد یا بدیر‘ ہر گھر میں پڑ سکتی ہے۔ عمرِ رواں جس رفتار سے اُڑی جا رہی ہے کسی بھی وقت‘ کسی کو بھی ‘ اس کرسی پر بٹھا سکتی ہے۔ پاکستان میں ایک دو ڈیلرز سے بات کی مگر اطمینان نہ ہوا۔ کل انٹرنیٹ پر ایک اشتہار دیکھا۔ یہ کمپنی کسی دوسرے ملک میں تھی اور اس کا کہنا یہ تھا کہ آپ جس ملک میں بھی ہیں ‘ ہم سے بات کر کے دیکھیے۔ بات کی۔دوسری طرف جو صاحب تھے انہوں نے کہا کہ ایک دو دن میں بتائیں گے کہ پاکستان میں ان کی جانب سے یہ کام کوئی کر سکتا ہے یا نہیں! مگر یہ سب کچھ آج کا موضوع نہیں!
اصل بات جو بتانے والی ہے وہ ہے جو ان صاحب نے گفتگو کے آخری حصے میں کی۔ شکریہ ادا کر کے فون رکھنا چاہتا تھا کہ کہنے لگے ''کل کے میچ سے تو آپ بہت ناخوش ہوں گے؟‘‘ اسے جواب دیا کہ مجھ سے زیادہ میرے بارہ سالہ پوتے کی حالت غیر ہو رہی تھی۔'' پھر اُن صاحب نے اُس ''حالتِ جنگ‘‘ کا ذکر کیا جو پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلے جانے والے کرکٹ میچ کے دوران برپا ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں کے کروڑوں لوگ سولی پر لٹکے ہوتے ہیں۔ ان صاحب کو تو یہ کہہ دیا کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان میچ ہو یا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان‘ تو تب بھی تو جنگ کی سی ہی حالت ہوتی ہے۔ مگر اچھی طرح سے معلوم تھا کہ یہ تقابل زیادہ درست نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کرکٹ میچ ہو رہا ہو تو یہ صرف میچ نہیں ہوتا‘ اس بلّے میں اور اس بال میں اور ان وکٹوں میں ہزار سالہ تاریخ کا نچوڑ سمٹا ہوتا ہے جو غزنوی اور غوری سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے عرصے پر محیط ہے۔ غزنوی‘ غوری‘خلجی‘ تغلق۔لودھی ‘سُوری اور مغل جس مقصد کے لیے بھی آئے تھے اُس کی نوعیت سے آج کسی کو غرض نہیں ہے۔ اسلام کے سپاہی تھے یا اپنی اپنی غرض کے ‘ یہ بھی آج غیر متعلق سوال ہے۔ امر واقع یہ ہے کہ ہم پاکستانی انہیں اپنا جانیں یا نہ جانیں‘ بھارت انہیں ہمارے ہی کھاتے میں ڈالتا ہے۔ بھارت کے معروف ترین دفاعی تجزیہ کار میجر جنرل جی ڈی ( گگن دیپ) بخشی کی‘ بھارتی ٹی وی چینلوں پر تقریریں اور بیانات سن کر دیکھ لیجیے‘ اس کی تصنیف کردہ کتابیں پڑھ کر دیکھ لیجیے‘ وہ پاکستان کا ذکر1947ء سے نہیں کرتا بلکہ غزنوی اور ایبک سے کرتا ہے۔ کتنی ہی بار اس نے کہا ہے کہ یہ ہم پر آٹھ سو سال حکمرانی کرتے رہے۔ اس لیے آپ جو چاہے کہتے رہیں‘ اس سے آپ کا ماضی نہیں تبدیل ہو سکتا۔کرکٹ کا یہ بَلّا وہ گھٹنا ہے جسے واہگہ بارڈر پر پاکستانی اور بھارتی سپاہی زمین پر ایڑی مارنے سے پہلے سر کے قریب لے جانے کی مشقت کرتا ہے۔
مگر کیا یہ رویّہ درست ہے ؟ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کو دو مذاہب کی جنگ سمجھا جائے ؟ کیا یہ میچ پاکستان کے لیے اُس جدو جہد کا تسلسل ہونا چاہیے جو مسلمان برِ صغیر میں ہزار سال تک کرتے رہے؟ بھارت اگر میچ کو ہزار سالہ مسلم عہد کا بدلہ سمجھتا ہے تو کیا اسے ایسا سمجھنا چاہیے ؟ ان سب سوالوں کا ہوشمندانہ جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے'' نہیں۔‘‘ پاکستانیوں اور بھارتیوں دونوں کو اپنے اپنے رویّے پر نظر ثانی کرنا ہو گی! میچ کو میچ سمجھنا ہو گا۔ کھیل کو کھیل گرداننا ہو گا۔وہ جو انگریز کہتے ہیں اس پر غور کرنا چاہیے کہit's not the end of the world۔یہ کیا بات ہوئی کہ کرکٹ کا میچ ہو تو ایک مسجد کی طرف دوڑتا ہے کہ سجدے میں گر کر میچ میں کامیابی کے لیے گڑ گڑائے اور دوسرا بھگوان بھگوان جپنے لگے۔ ارے بھئی! کچھ مانگنا ہے تو ڈھنگ کی شے مانگو! کھیل میں ہار جیت تو ہوتی رہتی ہے!
کہاں یہ خواب کہ بھارت اور پاکستان کے باہمی تعلقات اس طرح مثبت ہوں گے جیسے امریکہ اور کینیڈا کے ہیں! اور کہاں دشمنی کی اتنی شدّت کہ کھیل کا میدان بھی جنگ کا میدان بن جائے۔ جنوبی ایشیا غربت کی چکی میں پِس رہا ہے۔ آدھے بھارت میں گھروں کے اندر لیٹرین نہیں ہے۔ یونیسیف کے سروے کی رُو سے دو کروڑ سے زائد پاکستانی رفع حاجت کے لیے گھروں سے باہر کھلے میں جاتے ہیں۔ ٹیپ کا پانی اکثریت کی دسترس میں نہیں۔ پیچش اور دوسری بیماریوں سے ہر سال کروڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں۔ بچوں اور حاملہ عورتوں میں شرحِ اموات بہت زیادہ ہے۔ کروڑوں خطِ غربت سے نیچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر جی رہے ہیں۔ خواندگی کا تناسب ناقابل رشک ہے۔توہم پرستی نے جکڑ رکھا ہے۔ بیمار‘ مزاروں اور سمادھیوں کی مٹی پھانک رہے ہیں۔ اتائیوں کی چاندی ہے۔ یہ کوئی تصوراتی بات نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ لاکھوں لوگ دانتوں‘ کانوں اور آنکھوں کا علاج اُن ''ماہرین‘‘ سے کراتے ہیں جو فٹ پاتھوں پر بیٹھتے ہیں۔ اور اندازہ لگائیے ! ان دونوں ملکوں کی سوئی میچ پر اٹکی ہوئی ہے!
پاکستانیوں کو بطور خاص یہ سوچنا چاہیے کہ اگر بھارت سے مسابقت ہی کرنی ہے تو صرف کھیل کے میدان ہی میں کیوں؟ بھارتی ریلوے کی طرف بھی تو دیکھیے کہاں پہنچ چکی ہے! دہلی کے بعد اب دوسرے بڑے شہروں میں زیر زمین ریلوے بچھائی جا رہی ہے۔ بنگلور‘ حیدرآباد اور چنائی کے شہر آئی ٹی کے عالمی مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں! بھارت کو بڑے سائز اور بڑی معیشت کا بھی فائدہ ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ جمہوریت سمیت بہت سے پیرا میٹرز میں ہم سے وہ آگے ہے۔ متحدہ عرب امارات میں ہر تیسرا فرد بھارتی ہے۔شرق اوسط کے دیگر ممالک میں بھی بھارت کا اثر و نفوذ بہت زیادہ ہے۔ یہ سب کچھ بلا سبب نہیں۔ اس صورتحال کی پشت پر درست پالیسیوں کا تسلسل ہے اور محنت! ہم تو اُن فوائد سے بھی محروم ہیں جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں حاصل ہیں۔ مثلاً ہم بھارتیوں ہی کی طرح ذات پات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ لڑکیاں بوڑھی ہو جاتی ہیں مگر شادی نہیں ہوتی کیونکہ اپنی ذات کا رشتہ ملتا نہیں اور باہر کرنا نہیں۔ شادی کے وقت ہمارے ہاں بھی دلہن کو بتایا جاتا ہے کہ جہاں جا رہی ہو وہاں سے اب تمہاری میت ہی نکلے تو نکلے۔ جہیز یہاں بھی عفریت بنا ہوا ہے۔کارو کاری‘ ونی اور سوارہ کی لعنت موجود ہے۔ پنچایتوں کی صورت میں عدالتوں کا پورا متوازی نظام موجود ہے ! کوئی ہے جو جنوبی ایشیا کے عوام کے لیے بھی سوچے ؟

Monday, October 24, 2022

Fragile


آپ نے جہاز‘ ٹرین یا بس پرچڑھتے اور اترتے سامان میں دیکھا ہو گا کہ کچھ چیزوں پر
Fragile
لکھا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے یہ شے بہت نازک ہے۔ جیسے چینی کے برتن‘ جیسے کوئی پینٹنگ!اسے احتیاط سے اتارنا اور چڑھانا ہوتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو ٹوٹ جائے۔
یہ کوئی چوبیس پچیس برس پہلے کی بات ہے۔ کسی کام سے پشاور جانا تھا۔ اپنے دوست پروفیسر اظہر وحید سے کہا کہ ساتھ چلیں۔ پروفیسر صاحب کی معیت مزیدار ہوتی ہے اور مفید بھی۔ گفتگو کا فن انہیں آتا ہے۔ ایسی گفتگو جس میں سننے والے کو دلچسپی ہوتی ہے اور اس کے علم میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔کینٹ کے ایک خوبصورت مَیس میں ہمارا قیام تھا۔ رات کا کھانا کھا چکے تو چہل قدمی کے لیے نکل آئے۔ چلتے چلتے ذرا دور ہی نکل گئے۔ اچانک دل کی دھڑکن تیز ہو گئی۔ تیز۔پھر اور زیادہ تیز۔ دھک دھک کی آواز یوں آنے لگی جیسے ڈرم یا ڈھول پر ضرب پڑ رہی ہو۔ بیٹھنے کی جگہ کوئی نہیں تھی۔ کوئی بنچ یا پتھر‘ چبوترہ یا منڈیر کچھ بھی نہ تھا۔ کوئی چارہ نہ تھا سوائے چلتے رہنے کے۔ سو چلتا رہا۔ مزے کی بات یہ ہوئی کہ پروفیسر صاحب سے ذکر بھی نہ کیا۔بات چیت بھی چلتی رہی۔ پسینے سے شرابور بھی ہو تا رہا۔کافی دیر صورتحال یہی رہی۔ واپس قیام گاہ پر پہنچے۔ طبیعت کچھ دیر کے بعد بحال ہوئی۔
یہ عارضہ اس سے بھی پہلے کا تھا؛ تاہم برداشت کے اندر تھا۔ہارٹ ریٹ ‘ یعنی دل دھڑکنے کی رفتار ‘ تیز ہو جاتی۔ کبھی چند لمحوں کے لیے۔ کبھی کچھ منٹوں کے لیے۔ کبھی اس سے بھی زیادہ۔ جب بھی دل اپنی رفتار زیادہ کرتا ناصر کاظمی یاد آتے ؎
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
یا باقی صدیقی جنہوں نے کہا تھا ؎
دل سلاسل کی طرح بجنے لگا
جب ترے گھر کے برابر آئے
مگر ضروری نہیں کہ ہر عاشقانہ شعر‘ ہر صورتحال پر صادق آجائے۔ بیمار وہ بھی ہوتے ہیں جن کا کاروبارِ عشق مندا ہوتا ہے۔بہر طور وقت گزرتا رہا۔ تکلیف کا دورانیہ بھی بڑھتا گیا اور شدت بھی آہستہ آہستہ زیادہ ہوتی گئی۔ انگریزی طب میں اس تکلیف کو'' ایس وی ٹی ‘‘ کہتے ہیں۔ ڈاکٹروں نے بتانا شروع کر دیا کہ اگر شدت اور دورانیہ دونوں بڑھ رہے ہیں تواس کے لیے ایک عملِ جرّاحی ( پروسیجر) ہوتا ہے۔جسےAblationکہتے ہیں۔ وہ کرا لینا چاہیے۔ مگر پروسیجر کا نام سن کر ‘ یہ تکلیف پروسیجر کی نسبت آسان تر لگی۔انسان کی فطرت میں ہے کہ کام چل رہا ہے تو چلتا رہے‘ گزارہ ہو رہا ہے تو ہو رہا ہے۔لمحۂ موجود برداشت ہو رہا ہے تو سب ٹھیک ہے۔ مستقبل میں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ کچھ عرصہ اور گزر گیا۔
یہ دو ماہ پہلے کی بات ہے۔ گھر والے سب کہیں گئے ہوئے تھے۔ میں تھا اور انعام‘ جو ہمارے ساتھ کافی عرصہ سے رہ رہا ہے اور ہمارے خاندان کا حصہ ہے۔ اُس وقت وہ نہ جانے گھر کے کس حصے میں تھا۔ باہر صحن میں یا اوپر کی منزل میں ! دل کی دھڑکن تیز ہوئی اور ہوتی گئی۔ مگر یہ تیزی مختلف تھی۔ چند لمحوں بعد کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ پلنگ پر بیٹھا اور پھر لیٹ گیا۔ سینے میں بائیں جانب جیسے ڈرم پر ضربیں پڑے جا رہی تھی۔ آنکھیں بند تھیں۔ ایسے میں انعام کی آواز آئی۔'' سر ! آپ کی طبیعت ٹھیک ہے ؟‘‘ یہ ذہین جوان نجانے کیسے جان گیا۔ شاید اس لیے کہ میں پلنگ کی لمبائی کے حساب سے نہیں‘ چوڑائی کے حساب سے لیٹا ہوا تھا۔ یا شاید اس لیے کہ سانس چلنے کی آواز بلند تھی! بہر طور اس نے پانی پلایا۔ یہ کیفیت کافی دیر رہی۔ آدھا گھنٹا یا ذرا کم یا ذرا زیادہ! گھر والوں کے لَوٹنے تک حالت ٹھیک ہو چکی تھی۔ بہت ہی قریبی عزیز‘ ڈاکٹر عمار حمید خان سے ‘ جو سیالکوٹ میں واحد ہارٹ سرجن ہیں‘ بات کی تو انہوں نے بھی Ablationکا کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ عمل ( پر و سیجر) کرا لینا چاہیے۔ راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے کسی ڈاکٹر کا نام بھی بتایا اور کہا کہ وہ اس سے بات کرتے ہیں۔ مگر تساہل اور آرام طلبی پھر آڑے آئے۔
مہینہ ڈیڑھ مہینہ اور گزر گیا۔ اب کے جو کچھ ہوا بازار میں ہوا۔ ہم‘ تین‘ ایک شاپنگ مال میں پھر رہے تھے۔ میں‘ بیگم اور ہمارے بڑے صاحبزادے جو خود بھی معاملاتِ دل کی نزاکتوں اور لطافتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ پہلے چکر آیا۔ یوں لگا جیسے سر گھوم رہا ہے۔ کچھ دیر کے لیے جہاں کھڑا تھا ‘ وہیں ساکت ہو گیا۔چکر تو ختم نہ ہوئے ہاں دل کی رفتار بڑھ گئی اور اب کے ایسے بڑھی جیسے پہلے کبھی نہ بڑھی تھی۔ کھڑا رہنا دوبھر ہو رہا تھا۔ بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ دونوں مجھے چلاتے ہوئے نہیں‘ بس کھینچتے ہوئے ایک طرف لے جا رہے تھے۔پہلا ریستوران جو نظر پڑا اسی میں داخل ہو گئے۔ ایک کرسی پر بیٹھا اور سر میز پر ٹکا دیا۔پھر نہ جانے کتنا وقت گزرا۔ ثانیے یا منٹ یا گھنٹے یا زمانے‘ سر نہ اٹھایا گیا۔ اسی ریستوران میں ایک اور ڈاکٹر صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ بھی آگئے۔انہوں نے نبض کی مدد سے ہارٹ ریٹ ماپا تو ایک سو اسّی تھا۔ ایمبولینس منگوائی گئی۔آدھا گھنٹہ لگ گیا ہو گا ایمبولنس کے آنے میں! یمبولنس میں ای سی جی کی گئی جو نارمل تھی۔ اس کے بعد امتلا کے دورے پڑے۔ قے آئی اور دھڑکن کی رفتار کم ہونے لگی۔
اس کا مطلب تھا کہ اب معاملہ ایک خاص حد سے آگے بڑھ چکا تھا۔ عین ممکن تھاکہ اگلا وقوعہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو کیونکہ پیٹرن یہی ظاہر کر رہا تھا۔ اب تنہا کہیں جانا خطرناک تھا؛ چنانچہ پروسیجر کے لیے ہسپتال میں صاحبِ فراش ہونا پڑا۔پورا بے ہوش کرنے سے پہلے جب نرس نے پوچھا کہ کیا کبھی اس سے پہلے بھی فُلAnaesthesiaلیا ہے؟ تو جواب نفی میں تھا۔ ''کیا مطلب؟‘‘ اس نے تعجب سے پوچھا کہ ''کبھی کوئی سرجری نہیں ہوئی؟‘‘ جواب دیا کہ نہیں ہوئی اور یہ میرا قصور نہیں۔ دوسرا سوال تھا کہ کیا کسی شے سے الرجی ہے؟ کہا کہ ہاں ہے ! ہسپتالوں سے ! ہوش آیا تو بتایا گیا کہAblationکا عمل ہو چکا۔ اور یہ کہ پچانوے فیصد امکان اس بات کا ہے کہ اب دھڑکن تیز نہیں ہو گی ! تاہم بے ہوشی کا اثر زائل ہونے کے دوران‘ اور اس کے بعد چوبیس گھنٹے کی کیفیت اضطراب‘ بے کلی‘ بے قراری اور ناراحتی سے بھری ہوئی تھی !
کون کہتا ہے کہ کراکری ‘ پینٹگز اور اس قبیل کی دیگر اشیا فریجائل ہیں۔اصل فریجائل تو ابنِ آدم ہے! پل بھر میں لباسِ فاخرہ اتر جاتا ہے! ہسپتال میں جو پوشاک پہنائی جاتی ہے وہ جائے عبرت ہے! آدھی سِلی ہوئی اور آدھی اَن سِلی! پالش والے چمکدار جوتے تو دور کی بات ہے‘ ہوائی چپل تک اتر جاتی ہے! سرجن اور اُس کی ٹیم کے لیے‘ سامنے بے ہوش پڑے انسان کا کوئی نام ہے نہ قبیلہ ‘ منصب ہے نہ شان! حسب ہے نہ نسب! زبان ہے نہ رنگ نہ مذہب! وہ تو اُن کے لیے بس ایک شے ہے ! ایک خستہ اور شکستہ چیز ! جس کی انہوں نے مرمت کرنی ہے۔کبھی مرمت کا عمل کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی ناکام! تعجب ہے کہ جن پیشانیوں پر فریجائل کی چِٹ لگی ہونی چاہیے‘ وہ شکنوں سے اَٹی ہیں !
نقارے‘ نوبت‘ بان‘ نشاں‘ دولت‘ حشمت‘ فوجیں‘ لشکر 
کیا مسند‘ تکیہ‘ ملک‘ مکاں‘ کیا چوکی‘ کرسی‘ تخت‘ چھپر
سب ٹھاٹ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

Thursday, October 20, 2022

خراسانی اور عراقی


آپ نے کس کو ووٹ دیا ہے ؟
عمران خان کو
کس وجہ سے ؟
وہ دیانت دار ہے اور باقی سب چور !
آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ باقی سب چور ہیں؟
عمران خان نے بتایا ہے۔
کیا عمران خان خود دیانت دار ہے ؟
جی ہاں ! سو فیصد!
کیا بزدار کی تعیناتی‘ بطور چیف منسٹر‘ دیانت داری تھی!
جی بالکل!
کیا آپ کو معلوم ہے تعیناتی سے پہلے عمران خان بزدار کو جانتے ہی نہیں تھے ؟
جی نہیں
کیا آپ جانتے ہیں بزدار کو بنی گالہ کون لایا تھا اور کس کی گاڑی میں لایا گیا تھا؟
نہیں معلوم
آپ کا کیا خیال ہے بزدار کی پوسٹنگ میرٹ پر تھی ؟
جی! سو فیصد میرٹ پر۔
باقی تو چور ہیں تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے جسے عمران خان نے پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہا تھا ؟
خان صاحب جب کسی کو ڈاکو کہیں گے تو ہم بھی اسے ڈاکو کہیں گے۔ اگر وہ اسے کوئی عہدہ دیتے ہیں تو اس پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہیں !
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بزدار کے زمانے میں سول سروس کی پوسٹیں بکتی رہیں ؟
مجھے نہیں معلوم نہ پروا ہے۔
وہ جو خاتون ہیں‘ جن کا نام ان پوسٹوں کی خرید و فروخت میں آتا ہے‘ یہ سپیشل جہاز پر ملک سے باہر کیوں چلی گئیں ؟
نہیں معلوم!
حساس منصب پر فائز ایک اعلیٰ عہدیدار نے خان صاحب کو ہار کے بارے میں اطلاع دی تھی‘ اس پر خان صاحب نے کیا ایکشن لیا تھا ؟
نہیں معلوم
کیا آپ جانتے ہیں اُس اعلیٰ عہدیدار کا تبادلہ ہو گیا تھا ؟
نہیں معلوم
جن صاحب کی وزارت کے زمانے میں ادویات کی قیمتیں کئی سو فیصد بڑھا دی گئی تھیں‘ کیا ان کے خلاف کوئی ایکشن لیا خان صاحب نے ؟
نہیں معلوم !
یہ جو چالیس ارب روپے ایک ٹائیکون کو دے کر کئی سو کنال زمین حاصل کی‘ کیا یہ دیانت ہے ؟
خان صاحب جو کچھ بھی کریں‘ وہ دیانت ہے۔
آڈیو پر خان صاحب کہہ رہے ہیں کہ ایم این اے خریدنے ہیں۔ وہ تو اسے شرک نہیں کہتے رہے ؟
اگر دوسرے کریں تو شرک ہے‘ خان صاحب کریں تو ٹھیک ہے۔
کیا انہوں نے اپنے سیکرٹری سے نہیں کہا کہ اس سائفر سے ہم کھیلیں گے؟
کہا تھا
تو کیا یہ درست تھا؟
دیکھیں آپ کے سوال تو ختم ہونے میں نہیں آرہے۔ میں آپ کو ایک قصہ سنا تا ہوں۔ یہ پرانے زمانے کا واقعہ ہے۔ایک خراسانی تجارت کے لیے اکثر‘ عراق کے دارالحکومت بغداد جاتا تھا۔ وہاں اس کی ایک عراقی سے دوستی ہو گئی۔وہ اس عراقی کے ہاں کئی کئی دن ٹھہرتا۔ اس کی خوب خاطر مدارات ہوتی۔اسے تحائف دے کر رخصت کیا جاتا۔ جاتے وقت وہ عراقی کو پُر زور دعوت دیتا کہ کبھی خراسان میرے پاس بھی آؤ۔ اگلے سال خراسانی پھر آتا۔ عراقی کے پاس ٹھہرتا۔ اس کی خوب خدمت ہوتی۔ کئی دن رُکتا۔ جاتے وقت عراقی کو دعوت دے جاتا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ ایک بار عراقی کو خراسان جانا پڑ گیا۔ اپنا کام نمٹا کر اس نے سوچا کہ خراسانی دوست کو ملنا ضروری ہے کیونکہ جب بھی وہ عراق آیا‘ اس نے خراسان آنے کی پُر زور دعوت دی۔ خراسانی کے ہاں پہنچا تو وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مجلس برپا کیے ہوئے تھا۔ عراقی اسے ملا مگر خراسانی نے نہیں پہچانا۔ عراقی سمجھا کہ چونکہ اس نے سر پر بڑا سا پگّڑ باندھا ہوا ہے اس لیے خراسانی نہیں پہچان پا رہا۔ پگڑ اتار کر وہ پھر خراسانی کے سامنے گیا۔ خراسانی نے اس بار بھی نہیں پہچانا۔عراقی سمجھا کہ اس نے ایک بے ہنگم سا کمبل اوڑھا ہوا ہے اس لیے خراسانی نہیں پہچان رہا۔ اس نے کمبل اتار دیا اور ایک بار پھر خراسانی کے پاس گیا۔ اس بار خراسانی نے بھی منافقت کا لبادہ اتار دیا اور کہا کہ کمبل تو کمبل ہے‘ تم اگر اپنی کھال بھی اتار دو تب بھی میں تمہیں نہیں پہچانوں گا۔تو بھائی! بات یہ ہے کہ جو کچھ تم نے عمران خان کے بارے میں کہا ہے‘ سب درست ہے۔ عمران خان مخلص ہوتے تو گجر خاندان کے دوست بزدار صاحب کو اس پوسٹ پر نہ لگاتے جس کے وہ اہل نہیں تھے۔ دیانت دار ہوتے تو گھر میں کسی ٹائیکون کے ہاں سے ہار نہ آتے! شفافیت پر یقین رکھتے تو دواؤں والے وزیر کو منصب سے محروم کر کے پارٹی کا سیکرٹری جنرل نہ لگاتے۔ اپنے دعووں کی نفی کر کے اسمبلی کے ممبروں کو خریدنے کی بات نہ کرتے۔ جمہوری دنیا کی پوری تاریخ میں ایسا نہیں ہوا کہ کسی وزیر اعظم نے بند لفافہ لہرا کر‘ دھونس دے کر‘ اس کے مندرجات بتائے بغیر‘ کابینہ سے اس کی منظوری لی ہو۔ چالیس ارب روپے جو حکومت کے خزانے میں جمع کرانے تھے‘ اُن سے ٹائیکون کا جرمانہ بھرا اور نام نہاد یونیورسٹی کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی لی جس کی ملکیت( یا ٹرسٹ‘ جو کچھ بھی ہے ) صرف اپنے اور اپنی بیگم کے نام رکھا۔ یہ سب درست ہے‘ مگر یہ تو کمبل ہے۔ کھال بھی ہو تو میں نہیں مانوں گا۔ میں عمران خان کا محض ووٹر نہیں میں اُس کا پجاری ہوں۔ تم کہتے ہو وہ اپنے اوپر لگے سنگین الزامات کے جواب نہیں دیتا۔ میں کہتا ہوں وہ ٹھیک کر رہا ہے۔ اس کے سارے گناہ ہی نہیں‘ اس پر سات خون معاف ہیں! میرا رشتہ اس سے عقل کا نہیں نہ دلیل کا ہے۔ عقل اور دلیل کی بات ہوتی تو اس کے لچھن دیکھ کر میں اس سے بد دل اور بدظن ہو چکا ہوتا‘ مگر یہ رشتہ جنون کا ہے۔ یہ اندھی محبت کا ہے۔ وہ سیاستدان نہیں‘ وہ ہمارا ہیرو ہے۔ تم کہتے ہو وہBrat ہے اور ہیلی کاپٹر اور جہاز کے بغیر کہیں آتا جاتا نہیں۔ میں کہتا ہوں اس پر نہ صرف سرکاری ہیلی کاپٹر اور جہاز قربان‘ اس پر سارا قومی خزانہ نچھاور کیا جا سکتا ہے۔ تم کہتے ہو اس نے امریکہ جانے کے لیے عرب شہزادے سے جہاز کے لیے دستِ سوال دراز کر کے ہمارے ملک کی عزت کو دھچکا لگایا ہے۔ اور پھر واپسی پر شہزادے کے حکم سے اسے بیچ سفر کے جہاز سے نکال باہر کیا گیا۔ میں کہتا ہوں کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جو کچھ خان کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے۔ مجھے منزل نہیں رہنما چاہیے۔ عمران خان میرا رہنما ہے۔ جب وہ کہتا ہے کہ وہ حکومت میں نہ رہے تو ملک پر ایٹم بم گرا دو‘ تو میں اس کی بھی حمایت کرتا ہوں۔ عمران خان کے سامنے اداروں کی کیا اہمیت ہے! الیکشن کمیشن‘ عدلیہ‘ پارلیمنٹ‘ حساس ادارے‘ نیب‘سب عمران خان کے نیچے ہونے چاہئیں۔ وہ سیاہ کرے یا سفید‘ اسے اختیار ہونا چاہیے۔ تم آٹھ سیٹوں کی بات کرتے ہو کل اگر عمران خان اسمبلی کی ساڑھے تین سو نشستوں کے لیے اکیلے امیدوار ہوں تو بھی مجھے منظور ہے

Wednesday, October 19, 2022

پولیس کے شہدا اور اُن کے خاندان

کیا کبھی آپ نے‘ یا میں نے‘ یا کسی اور نے سوچا ہے کہ مظلوم ترین اداروں میں ایک بہت زیادہ مظلوم ادارہ پولیس کا ہے؟�بے تحاشا گالیاں اس ادارے کو پڑتی ہیں! بیریئر پر کھڑے پولیس کے سپاہی کو ہر گزرنے والا ڈرائیور دشمنی کی نظر سے دیکھتا ہے! حالانکہ یہ بیریئر اس سپاہی نے لگایا نہ ہی یہاں وہ اپنی مرضی سے کھڑا ہے! اور سوچئے‘ کب سے وہ یہاں کھڑا ہے؟ کب تک کھڑا رہے گا؟ کیا اس دوران اس کی خوراک کا بند و بست کیا جا رہا ہے؟ کیا ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد گھر جانے کے لیے اسے سواری مہیا کی جائے گی؟�جب رسوائے زمانہ رُوٹ لگتا ہے اور ٹریفک روک لی جاتی ہے تو سب اُن پولیس والوں کو برا بھلا کہتے ہیں جو ٹریفک روکتے ہیں۔ کیوں؟ انہیں برا بھلا کہیے جن کے نخرے اٹھانے کے لیے رُوٹ لگایا گیا ہے! بقول شاعر؎ �حاکم یہاں سے گزرے گا اظہارؔ کس گھڑی�بدبخت کے لیے ہے جنازہ رُکا ہوا�اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ دہشت گردی کی جنگ میں پولیس فورس نے بھی قربانیاں دی ہیں اور بہت قربانیاں دی ہیں۔ گلگت سے لے کر کراچی تک اور سیالکوٹ سے لے کر کوئٹہ تک پولیس کے ہزاروں اہلکار اور افسر شہید ہوئے ہیں۔ اُن کی مائیں روئی ہیں۔ اُن کے بچے یتیم ہوئے ہیں۔ اُن کی بیویاں بے کس ہو گئی ہیں لیکن ستم یہ ہوا کہ پولیس کی قربانیوں کا ذکر اہتمام اور اختصاص کے ساتھ نہیں کیا جاتا۔ ایک غریب کسان کی ماں حج کر کے آئی۔ اُسی گاؤں کے چودھری کی ماں نے بھی اُسی سال حج کیا۔ سب لوگ چودھری کی ماں کو مبارک دینے آ رہے تھے۔ کسان کے گھر میں کوئی نہ آیا۔ کسان نے جا کر چودھری صاحب سے پوچھا کہ حضور! حج تو میری ماں نے بھی کیا ہے‘ کیا آپ کی امی جان نے طواف میں اول پوزیشن حاصل کی ہے؟ اس میں کچھ قصور پولیس کا اپنا بھی ہے۔ پولیس فورس بدقسمتی سے ایسے ادارے تعمیر نہیں کر سکی جو شہدا کے خاندانوں کی دیکھ بھال کر سکیں۔ اس سلسلے میں جب تک مستقل ادارہ جاتی انتظام نہ ہو اور ایک خود کار نظام نہ وضع کیا جائے تب تک قابلِ ذکر کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔ خاص طور پر فنڈنگ کا مستقل بند و بست لازم ہے۔ جہاں تک ہماری ناقص معلومات ہیں‘ پولیس کے شہدا کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا انحصار اس بات پر ہے کہ افسر کس مزاج اور کس اُفتادِ طبع کے ہیں۔ اگر اعلیٰ افسر فلاح و بہبود پر توجہ دیتے ہیں تو شہدا کے پسماندگان کا بھی خیال رکھا جائے گا ورنہ نہیں! اس کی ایک لائقِ تحسین مثال گزشتہ ہفتے راولپنڈی میں دیکھنے کو ملی۔ کانسٹیبل محمد نیاز دس سال پہلے دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گیا تھا۔ اب اس کی دو بیٹیوں کی شادی تھی۔ راولپنڈی کے پولیس افسران نے اس موقع پر مثالی کردار ادا کیا۔ بارات کا استقبال ایس ایس پی آپریشنز وسیم ریاض خان اور ایس پی طارق محبوب نے بنفس نفیس خود کیا۔ سی پی اوراولپنڈی نے اس تقریب میں ذاتی دلچسپی لی۔ ان سینئر پولیس افسران نے شہید کی صاحبزادیوں کے سر پر ہاتھ رکھا اور تحائف اور دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا۔ یہ ایک بہت ہی خوش آئند کارنامہ ہے جو پولیس نے سرانجام دیا۔ ہم اس پر انہیں ہدیۂ تبریک پیش کرتے ہیں۔ یہ تمام پولیس افسروں کے لیے ایک قابلِ تقلید مثال ہونی چاہیے۔ اس کام کے لیے بجٹ میں باقاعدہ فنڈز مختص ہونے چاہئیں۔�اصولی طور پر تمام محکموں میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ سروس کے دوران جس اہلکار کی بھی موت واقع ہو‘ متعلقہ محکمے کو اس کے خاندان کی دیکھ بھال کرنی چاہیے۔ ایک سرکاری ملازم سروس کے دوران دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے محکمے پر اپنی زندگی قربان کر دی۔ کوئی بھی سرکاری محکمہ ہو‘ کسی بھی وزارت کے ماتحت ہو‘ محکمے کا اور متعلقہ وزارت کا‘ خواہ صوبائی ہو یا وفاقی‘ فرض ہے کہ مرنے والے کے بچوں کی تعلیم‘ رہائش اور دیگر ضروریات کا خیال رکھے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان ایک فلاحی (ویلفیئر) ریاست نہ بن سکا مگر محکمے تو فلاحی کام کر سکتے ہیں۔ محکموں کے سربراہان کو معلوم ہونا چاہیے کہ کل انہوں نے بھی دنیا سے کوچ کرنا ہے۔ آج دوسروں کا خیال رکھیں گے تو کل ان کی اور ان کے پسماندگان کی دیکھ بھال ہو گی۔ جیسا بیج ویسی کھیتی!�پولیس کی بات ہو رہی تھی۔ یہاں اُس ظلم کا ذکر ضروری ہے جو پاکستان کی پولیس کے ساتھ ہو رہا ہے اور جس کے خاتمے کی بظاہر کوئی امید نہیں نظر آرہی! پاکستانی پولیس کو سیاسی مداخلت کے سرطان کا سامنا ہے۔ ہماری پولیس کی جتنی کمزوریاں اور نقائص ہیں ان میں سے اکثر کا کھرا اس سیاسی مداخلت ہی تک پہنچ رہا ہے۔ اس نحوست نے پولیس کی خوبیوں پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ سارے صوبوں میں‘ بشمول وفاق‘ یہی کچھ ہو رہا ہے۔ سچ یہ ہے کہ پاکستانی پولیس جرائم کی بیخ کَنی میں کسی بھی مہذب‘ ترقی یافتہ ملک کی پولیس سے پیچھے نہیں ہے بشرطیکہ اسے آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔ عمران خان صاحب سے امید تھی کہ وہ پولیس کو اس کراہیت سے پاک کریں گے مگر پنجاب میں‘ اور وفاق میں بھی‘ ان کی کارکردگی صفر رہی۔ انہوں نے تو یہ تک کیا کہ ایک سینئر پولیس افسر کو گجر صاحب کے سامنے یوں لا کھڑا کیا جیسے گجر صاحب ہی باس ہوں۔ ناصر درانی صاحب کو پنجاب میں لایا گیا مگر ایک ہفتے کے اندر ہی خان صاحب نے اپنے دعوے کے اوپر خود ہی خطِ تنسیخ پھیر دیا۔ پولیس کے سینئر افسروں کو میوزیکل چیئر کی نذر کر دیا گیا۔ اس ضمن میں خان صاحب کی حکومت کا رویہ وہی تھا جو پی پی پی اور نون لیگ کی حکومتوں کا تھا۔ پولیس کے سربراہ کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے ماتحت عملے کی پوسٹنگ اور ٹرانسفر میں رات دن‘ صبح شام‘ مداخلت کی جاتی ہے۔ کرپٹ عناصر کو وہ ہٹا نہیں سکتا۔ دیانت دار اور لائق ماتحتوں کو اس کے پاس رہنے نہیں دیا جاتا۔ اس کے بعد اس کی کارکردگی جانچنے کا کوئی اخلاقی یا قانونی جواز نہیں رہتا۔ ہونا یہ چاہیے کہ اسے مکمل آزادی دی جائے۔ کسی قسم کی مداخلت کسی بھی سطح پر نہ کی جائے۔ اس کے بعد اس کی کارکردگی مثالی نہ ہو تو اسے بے شک سزا دیجیے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ایس ایچ او اپنے سربراہ کی پروا نہیں کرتا کیونکہ اسے چیف منسٹروں‘ ان کے بچوں اور ان کے رشتہ داروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ اس مکروہ ماحول میں پولیس کے افسران‘ حکمرانوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے نہ ہوں تو کیا کریں۔ کوئی سر پھرا قانون کے سیدھے راستے پر چلنے کی کوشش کرتا بھی ہے تو دو دن سے زیادہ برداشت نہیں کیا جاتا۔ ذوالفقار چیمہ کو کسی صوبے کا آئی جی بنانے کے بجائے موٹر وے میں کھپایا گیا۔�عوام کو ان حقیقی اور اصل عوامل کا علم نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ پولیس کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔ انہیں احساس نہیں کہ ڈور کہیں اور سے ہِل رہی ہے۔ کچھ پولیس افسروں کے گھروں میں بڑے بڑے مہمان خانے چل رہے ہوتے ہیں۔ انہیں کون چلاتا ہے؟ تنخواہ سے تو یہ نہیں چل پاتے۔ جو پولیس افسر دوسرے محکموں میں چلے جاتے ہیں یا ریٹائر ہو جاتے ہیں‘ وہ بھی افرادی قوت اور سواری پولیس کی استعمال کرتے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ پولیس کے جوانوں کے خیمے کن کن گھروں کے سامنے نصب ہیں؟ یہ تمام کرامات سیاسی مداخلت کی ہیں۔ اور مثالیں ہمارے حکمران‘ کیا موجودہ اور کیا سابق‘ برطانوی اور امریکی پولیس کی دیتے ہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, October 18, 2022

ہوشیار !! خبردار

سب سے پہلے گھر کی نوکرانی پر شک ہوا۔
اس کے پاس موبائل فون بھی اچھی نسل کا تھا۔ یہ جوطبقہ ہے‘ ڈرائیور‘ مالی‘ باورچی‘ گھر میں کام کرنے والی ملازمہ‘ ان لوگوں کا لباس بوسیدہ ہو سکتا ہے مگر موبائل فون ٹپ ٹاپ قسم کا ہو گا۔ موٹرسائیکل کی طرح موبائل فون بھی شاید اب قسطوں پر ملنے لگے ہیں! بہر حال بیگم صاحبہ کا خیال تھا کہ یہ کام نوکرانی ہی نے کیا ہے۔ جس دن بیگم صاحبہ کی امی جان آئی ہوئی تھیں‘اُس دن نوکرانی تقریباً سارا وقت ہی ان کے ارد گرد رہی۔ کھانا میز پر چُنا‘ پھر کئی بار چائے بنا کر لائی۔ پھر بڑی بیگم صاحبہ کے پاؤں دباتی رہی۔ یقینا ریکارڈنگ اسی نے کی ہو گی!
حکومت اور اپوزیشن کے بعد آڈیو اور وڈیو ریکارڈ اور پھر لیک کرنے کا کاروبار گھروں تک آپہنچا تھا اور یہ بہت ہی خطرناک کھیل تھا۔ جس نے بھی یہ وڈیو بنائی تھی‘ کمال کر دیا تھا اور غضب بھی ڈھا دیا تھا۔ بیگم صاحبہ امی سے اپنی ساس کی برائیاں کر رہی تھیں اور نندوں کو کوسنے دے رہی تھیں۔ساس کے خلاف مقدمہ یہ تھا کہ ہر مسئلے میں ٹانگ اڑاتی ہیں۔ بیٹے کو غلط سبق پڑھاتی ہیں۔بیٹے کی کمائی سے اپنی شادی شدہ بیٹیوں پر بے تحاشا خرچ کرتی ہیں۔ بیگم صاحبہ نے اپنا مستقبل کا پلان بھی امی کو بتایا۔ اب کسی دن وہ اپنے شوہر سے بات کریں گی کہ انہیں الگ گھر لے کر دیں۔ اب مزید مشترکہ خاندانی نظام میں ان کے لیے رہنا ممکن نہیں!
جس دن یہ وڈیو صاحب کو ملی‘ گھر میں گویا قیامت آگئی۔ انہوں نے سارا لحاظ‘ ساری مروّت‘ سارا ادب احترام ایک طرف رکھ دیا اور بیگم سے صاف لفظوں میں پوچھا کہ کیا اس لیے آتی ہیں آپ کی والدہ کہ آپ کے ساتھ بیٹھ کر میری ماں کی برائیاں سنیں اور آپ کو پٹیاں پڑھائیں کہ الگ گھر لے کر رہو۔ گھر کا ماحول سخت کشیدہ ہو گیا۔ صاحب نے اپنی خوابگاہ الگ کر لی۔ بیگم نے رونا شروع کر دیا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ صاحب نے کہہ دیا بہتر ہے کچھ دن کے لیے ماں کے پاس چلی جاؤ۔ صاحب نے دفتر سے لیٹ آنا شروع کر دیا۔ بچے اپنے اپنے کمروں میں مقید ہو گئے۔
کئی ہفتوں کے بعد تلخی ذرا کم ہونے لگی تھی کہ ایک اور دھماکہ ہوا۔ اب کے جو آڈیو‘ بیگم صاحبہ کو موصول ہوئی اس میں صاحب کسی عورت سے اظہارِ محبت کر رہے تھے۔ گفتگو سے یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ انہوں نے کئی لاکھ روپے کے زیورات بھی اس حرافہ کو تحفے میں دیے تھے۔ بازی الٹ گئی تھی۔ بیگم نے صاحب کو خوب بھگو بھگو کر لگائیں۔ شوہر کے کارنامے اپنی ساس اور نندوں کو مرچ مسالا لگا کر سنائے۔ بچے الگ حیران پریشان تھے۔
یہ اس نئے خطرناک ہتھیار کا آغاز ہے۔ جو سلسلہ پی ٹی آئی اور حکومت کے رہنماؤں کی آوازیں ٹیپ کرنے اور پھر انہیں لیک کرنے سے شروع ہوا‘ وہ رکے گا نہیں! اب نندوں اور بھابیوں کی سازشیں سامنے آئیں گی۔ اب دل پھینک شوہروں کے چہروں سے نقابیں الٹیں گی۔ یہ کام ان کے ماتحت‘ اور قریبی دوست کریں گے۔ اب اُن لڑکوں اور لڑکیوں کے راز فاش ہوں گے جو '' کامن سٹڈی‘‘ کے پردے میں ممنوعہ سرگرمیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اب یہ کارروائیاں دفتروں اور اداروں میں بھی ہوں گی۔ وزیروں‘ سیکرٹریوں اور ان کے ماتحتوں کی گفتگوئیں ٹیپ کر کے لیک کی جائیں گی۔ ملازمتیں جائیں گی۔ ترقیاں رکیں گی۔ گھروں سے لے کر دفتروں‘ کارخانوں‘ کالجوں‘ یونیورسٹیوں تک میں فساد برپا ہو گا۔ پھر یہ '' مواصلاتی دہشت گردی‘‘ڈپلومیٹک امن کو تباہ کرے گی۔ ملکوں کے باہمی تعلقات میں رخنے پڑیں گے!
جب سے دنیابنی ہے‘ تباہ کن ہتھیاروں کی ایجادات امن و سلامتی کو تہس نہس کرتی آئی ہیں۔توڑے دار بندوقوں سے لے کر توپوں تک۔ پھر بمبار جہاز اور آبدوزیں! پھر ایٹم بم! مگر یہ جو ریکارڈنگ کی لیک والا ہتھیار ہے اس نے تو انسان کو مارے بغیر مار دیا ہے۔ اڑھائی تین سال پہلے ایک جج کی وڈیو لیک ہوئی تھی یا لیک کی گئی تھی۔ یہ نا گفتنی تھی یعنی ناقابلِ بیان! اندازہ لگائیے! اس کے بچوں‘ بچوں کے دوستوں‘ بیٹیوں‘ سسرال اور دیگر رشتہ داروں اور متعلقین کے سامنے اس کی کیا حالت ہوئی ہو گی! مضبوط سے مضبوط اعصاب والا شخص بھی ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے؛ تاہم کچھ افراد شرم کے ساتھ اعصاب کو بھی شکست سے دو چار کر دیتے ہیں۔ ایک بڑے منصب پر تعینات ایک صاحب کی و ڈیو کا بہت شہرہ ہوا۔ خاتون ٹی وی پر آئیں اور آتی ہی رہیں۔ مبینہ طورپر وزیر اعظم ہاؤس میں‘ بقول ان کے‘ انہیں اور ان کے میاں کو محبوس بھی رکھا گیا۔ اتنا واویلا مچا اور شور برپا ہوا کہ خدا کی پناہ! مگر صاحب کو کچھ فرق نہیں پڑا۔ کیا فولادی اعصاب تھے! متمدن ملکوں کے سیاستدان ہوں یا افسر‘ قاضی ہوں یا کوتوال‘ ہمارے لوگوں کے مقابلے میں کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔ شرمناک آڈیو یا وڈیو تو دور کی بات ہے‘ خبر چھپنے پر ہی مستعفی ہو جاتے ہیں۔ اعصاب سے زیادہ یہ مسئلہ شرم و حیا کا ہے! کچھ خود کُشی کر لیتے ہیں! بے شرمی‘ بے حیائی اور ڈھٹائی میں سب سے زیادہ فائدہ اعصاب کا ہوتا ہے۔ بے شرمی جتنی زیادہ ہو گی‘ اعصاب اتنے ہی فولادی ہوں گی۔ جس سیاسی شخصیت کا دعویٰ ہے کہ وہ پندرہ بار وزیر بنے‘ جب وہ ریلوے وزیر تھے تو ٹرین کا حادثہ ہوا۔ ان سے مستعفی ہونے کا کہا گیا تو کیا مضبوط اعصاب تھے۔ تنک کر جواب دیا کہ میں کیوں استعفیٰ دوں؟ میں کوئی ٹرین کا ڈرائیور تھا؟ اور یاد رہے کہ مستعفی ہونے کے لیے حکومت نے یا وزیر اعظم نے نہیں کہا تھا۔ کوئی پریس والا تھا جس نے یہ گستاخانہ بات پوچھی تھی!
ٹیپ ریکارڈر کی ایجاد کے بعد بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلیں۔ یہ جو بار بار بتا یا جاتا تھا کہ ایک کتاب دی جائے گی جس میں‘ جو کچھ کرتے رہے‘ ایک ایک چیز کو موجود پائیں گے۔''یہ ہے ہماری کتاب جو تمہارے بارے میں سچ سچ بول رہی ہے ہم تمہارے اعمال لکھواتے جاتے تھے‘‘ (الجاثیہ )تو اب ماتھے ٹھنکے کہ اگر چند لمحوں پر محیط آوازیں اور حرکات و سکنات ٹیپ ہو سکتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پوری زندگی کی آوازیں اور حرکات و سکنات‘ اٹھنا بیٹھنا‘ نقل و حرکت‘ طور و طریق‘ عادات و اطوار‘ اعمال و افعال‘سب کچھ محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ یہ انہونی اب آنکھوں کے سامنے ہونی ہو چکی تھی۔ پھر مقدار کا تناسب ملاحظہ فرمائیے۔ آج جو دھڑکا لگا ہوا ہے کہ نہ جانے ہیکر اگلی آڈیو یا وڈیو جو ریلیز کرے گا تو اس میں کیا ہو گا؟ کوئی سیاسی چال‘ کوئی انتظامی سازش طشت از بام ہو گی یا کوئی غیر اخلاقی‘ شرمناک سرگرمی سامنے آئے گی ؟ دل دھڑک رہے ہیں۔ پسینے چھوٹ رہے ہیں۔حفظِ ما تقدم کے لیے کیا کچھ نہیں کیا جا رہا۔تو یہ آڈیو یا وڈیو چند لمحوں کی یا چند منٹوں کی ہو گی۔ پوری زندگی کی آڈیو اور وڈیو پیش کی جائیں گی تو کیا ہو گا؟ غالبؔ نے شکوہ کیا تھا:
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا
تو یہ شکوہ بھی دور ہو چکا۔ یہ جو ہیکر ہے‘ ایک یا ایک سے زیادہ‘ تو یہ آدمی ہی تو ہیں! مسئلہ یہ نہیں کہ لکھنے والا یا ریکارڈ کرنے والا آدمی ہے یا فرشتہ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو کچھ ریکارڈ کیا جا رہا ہے‘ وہ کیا ہے ؟؟

بشکریہ  روزنامہ دنیا

Thursday, October 13, 2022

استاد امام دین اور مرزا غالب



سٹینلے وولپرٹ (Stanley Wolpert) 1927ء میں نیویارک میں پیدا ہوا۔ ماں باپ روس سے تعلق رکھنے والے یہودی تھے۔ ایک بحری جہاز میں بطور انجینئر ملازمت ملی۔ 1948ء میں اسے بمبئی جانے کا اتفاق ہوا۔ بر صغیر اسے بہت اچھا لگا۔ اتنا اچھا کہ وہ اس کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ واپس جا کر اس نے انجینئر نگ کے پیشے کو خیرباد کہا اور برصغیر کی تاریخ پڑھنے لگ گیا۔ اسی حوالے سے اس نے بی اے کیا۔ پھر ایم اے اور پی ایچ ڈی! پھر اس نے برصغیر کی تاریخ پر کتابیں لکھنا شروع کیں اور یہی اس کی دنیا بھر میں وجۂ شہرت بنیں! (یہاں ہمارے لیے ایک سبق بھی ہے۔ ہم ایک بار جو کیریئر اپنا لیتے ہیں‘ اس کے بعد‘ خواہ وہ کتنا ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہو‘ اس سے بندھ جاتے ہیں جیسے اس سے نکاح ہو گیا)۔ یونیورسٹی میں کئی سال وولپرٹ تاریخ پڑھاتا رہا۔ اس کی متعدد تصانیف میں سے مشہور ترین قائداعظم کی سوانح حیات ہے۔ اس نے قائداعظم کے بارے میں لکھا کہ ''بہت کم افراد تاریخ کا رُخ‘ پُرمعنی انداز میں تبدیل کر تے ہیں۔ اس سے بھی کم افراد دنیا کا نقشہ بدلتے ہیں اور مشکل ہی سے کوئی ایسا ہوتا ہے جو قومی ریاست ( نیشن سٹیٹ) کو وجود میں لائے۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے‘‘۔�وولپرٹ اپنی کتاب ''جناح آف پاکستان‘‘ میں لکھتا ہے کہ لندن میں قائداعظم کا قیام جس فلیٹ میں تھا اس کی مالکن ایک خاتون‘ بیگم پیج ڈریک (Mrs.Page-Drake) تھی۔ اس کی ایک بیٹی تھی جو محمد علی جناح کی ہم عمر تھی۔ جناح اسے اچھے لگتے تھے مگر جناح نے سنجیدگی اور متانت کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیا اور بے نیاز ہی رہے۔ یہ لڑکی کبھی کبھی اپنے گھر میں مخلوط پارٹیوں کا اہتمام کیا کرتی تھی۔ ان پارٹیوں میں قسم قسم کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ ایک کھیل ایسا بھی تھا جس میں جیتنے والے لڑکے کو ہارنے والی لڑکی کا بوسہ لینا ہوتا تھا۔ جناح ایسے کھیلوں میں کبھی شامل نہ ہوتے۔ ایک بار جب انہیں مجبور کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ ہماری اپنی سماجی قدریں ہیں جن میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔�قائداعظم کے بارے میں وولپرٹ کا لکھا ہوا یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ ایک بہت ہی قابلِ احترام دوست نے عمران خان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ قائداعظم کے طرزِ زندگی سے رہنمائی حاصل کریں۔ سچ یہ ہے کہ اس سے زیادہ پُر خلوص اور مثبت مشورہ کوئی ہو بھی نہیں سکتا۔ قائداعظم کے علاوہ شاید ہی کوئی ہو جس کا اندازِ سیاست مثالی ہے اور قابلِ تقلید! مگر کیا عمران خان اِس سونے جیسے قیمتی مشورے کے اہل ہیں؟ کیا ان کا مزاج ایسا ہے کہ وہ قائداعظم کی تقلید کر سکیں یا ایسا کرنے کا سوچ بھی سکیں؟ آپ ناصر کاظمی یا فراق گورکھپوری سے یقینا توقع کر سکتے ہیں کہ وہ میرؔ اور غالبؔ کا انداز اپنائیں۔ 
فراق نے توکہہ بھی دیا تھا:�

صدقے   فراقؔ اعجازِ  سخن کے، کیسے  اُڑا لی یہ آواز

ان غزلوں کے پردے میں تو میرؔ کی غزلیں بولیں ہیں!

مگر آپ ''بانگِ دہل‘‘ پڑھنے کے بعد استاد امام دین کو کیسے مشورہ دے سکتے ہیں کہ غالبؔ اور میرؔ کا تتبع کرے۔ رومی کی پیروی اقبال تو کر سکتے ہیں مگر سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ جعفر زٹلی یا چرکین اس کی پیروی کریں گے۔ کہاں محمد علی جناح جیسا پاکیزہ انسان جو کھیل تک میں احتیاط برتتے تھے اور کہاں عمران خان جن کے بارے میں محتاط ترین الفاظ میں بھی یہی کہا جا سکتا ہے کہ:�جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے�تفصیل میں کیا جانا! جو جانتے ہیں وہ اس حوالے سے سب کچھ جانتے ہیں! سیاست میں پاک اور صاف وہی ہو سکتا ہے جس کی نجی زندگی بھی پاک اور صاف ہو۔ جس انسان کی سرشت میں کجی ہو اس کے ہر کام میں‘ ہر معاملے میں‘ اسی سرشت کی جھلک نظر آئے گی! عمران خان برائی کو برائی سمجھتے تو ضرور اعتراف کرتے کہ پولیس افسر کو چیف منسٹر ہاؤس میں بلا کر‘ ایسے شخص کے سامنے کھڑا کر دینا جس کا حکومت سے کوئی تعلق نہ تھا‘ بددیانتی تھی اور دوست نوازی تھی! عمران خان کے اعصاب اس قدر مضبوط ہیں کہ وہ کسی اعتراض کا جواب نہیں دیتے اور بیسیوں بھاری الزامات کو خاطر میں لائے بغیر سینہ تان کر چلتے ہیں! عثمان بزدار کو ان کی خدمت میں کس نے پیش کیا تھا؟ فرح خان ملک چھوڑ کر کیوں چلی گئیں؟ خان صاحب کے اُس وقت کے قریبی رفقا دعویٰ کرتے ہیں کہ پنجاب میں سول سرونٹس کی پوسٹنگ ٹرانسفر پر جو کچھ لیا اور دیا جا رہا تھا اس کے بارے میں انہوں نے خان صاحب کو وٹس ایپ کیے! اس دعوے کی تردید کیوں نہیں کی جاتی؟ حساس ترین منصب پر فائز شخص نے جب اُس وقت کے وزیراعظم کو ان کے گھر کے معاملات کے ضمن میں کچھ عرض کرنے کی جسارت کی تو اسے اُس منصب سے کیوں ہٹا دیا گیا؟ ادویات کوکئی سو گنا مہنگاکرنے میں کس نے کتنا کمایا؟ سول ایوی ایشن جیسے نازک ادارے میں سربراہ لگاتے وقت چھ سو درخواست دہندگان اور اٹھارہ شارٹ لسٹڈ امیدواروں کو نظر انداز کرکے ایسے شخص کو کیوں تعینات کیا گیا جس نے درخواست دی تھی نہ انٹرویو؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو اپنا جواب مانگتے ہیں! کون جواب دے گا؟ صرف زبانی دعویٰ کرنے سے کوئی دیانت دار نہیں بن جاتا!�آپ کا کیا خیال ہے قائداعظم کابینہ کے سامنے ایک بند لفافہ لہرا کر‘ بزور‘ اس کی اندھی منظوری حاصل کرتے؟ اور پھر اربوں روپوں کی رقم‘ قومی خزانے میں جمع کرانے کے بجائے‘ ایک ٹائیکون کی طرف سے کہیں اور جمع کرا دیتے تاکہ اُس ٹائیکون کے ذمے جو واجبات ہیں وہ ادا ہو جائیں؟ یہ سوچنے کی بات ہے! اس پر غور کیا جانا چاہیے! اس کا جواب ہر شخص اپنے آپ سے پوچھے! کہاں عمران خان اور کہاں قائداعظم!�قائداعظم ایک انتہائی شائستہ انسان تھے۔ مخالفین کے نام بگاڑتے تھے نہ ان کی تضحیک کرتے تھے۔ وہ منتقم مزاج ہر گز نہ تھے۔ ایک مدبر حکمران کبھی منتقم مزاج نہیں ہو سکتا۔ کہاں عمران خان! جو وزیراعظم ہو کر لڑکوں کی طرح منہ پر ہاتھ پھیرتے تھے کہ چھوڑوں گا نہیں! قائداعظم تو وہ تھے جو سرکاری اجلاسوں میں چائے پینے یا پلانے کے روادار نہ تھے۔ جب انہیں کہا گیا کہ سرکاری سفر کے لیے‘ خاص طور پر‘ گورنر جنرل کے مشرقی پاکستان آنے جانے کے لیے‘ ہوائی جہاز خریدنا پڑے گا تو اُس وقت امریکہ میں مرزا ابوالحسن اصفہانی پاکستان کے سفیر تھے۔ جہاز خریدنے کے ضمن میں ان کے اور قائداعظم کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی وہ محفوظ ہے۔ اسے پڑھ کر انسان حیرت کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے! قائداعظم اس خریداری پر کم سے کم سرکاری پیسہ خرچ کرنا چاہتے تھے۔ انہیں ایک ایک سرکاری پیسے کا‘ ایک ایک سرکاری پائی کا احساس تھا۔ یہ خط و کتابت پڑھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جہاز خریدنا ہی نہیں چاہتے تھے۔ قائداعظم کے دامن پر کسی دوست نوازی کا‘ کسی اقربا پروری کا‘ سرکاری خزانے کے کسی ذاتی استعمال کا کوئی داغ نہیں!�سیاست دانوں اور حکمرانوں کی یہ کھیپ اور قائداعظم! خدا خدا کیجے! زرداری‘ شریف اور ان کے یمین و یسار بیٹھنے والوں میں سے کوئی اس قابل نہیں کہ قائداعظم کا تتبع کرنے کا سوچ بھی سکے! اور عمران خان تو بالکل نہیں!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Tuesday, October 11, 2022

ایک اور ربیع الاوّل

ا

ایک اور بارہ ربیع الاوّل آیا اور گزر گیا۔
ایک بار پھر ہم نے محبتِ رسولؐ کے تقاضے پورے کر دیے۔ اس مبارک دن کو عام تعطیل قرار دیا۔ نجی اور سرکاری عمارتوں پر چراغاں کیا۔ قیدیوں کو رہائی ملی۔ کچھ کی سزاؤں میں تخفیف ہوئی۔ جلوس نکالے۔ تقریریں کیں۔ اخبارات میں سیرتِ نبویؐ پر مضامین چھپے۔ الیکٹرانک میڈیا پر نعت خوانیاں ہوئیں! عالم فاضل افراد نے سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ ایک دوسرے کو میلاد مبارک کے پیغامات بھیجے۔ ہم سے جو ہو سکا ہم نے کیا۔
تاہم‘ اس جشن میں‘ اس سارے عمل میں‘ ہم نے اپنی ذات کو شامل نہیں کیا۔ ہمارا ذہن اس میں شریک نہیں تھا۔ اس بارش میں ہم نے کوئی قطرہ اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ ہماری روزمرہ زندگی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میلاد کا جشن ہمارے وجود کو چھوئے بغیر گزر گیا۔ کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہم جیسے تھے ویسے ہی رہے۔ ہم جیسے گیارہ ربیع الاوّل کو تھے‘ بالکل ویسے ہی تیرہ ربیع الاوّل کو برآمد ہوئے۔ بارہ ربیع الاوّل ایک گھٹا تھی جو ہم پر برسے بغیر گزر گئی۔ ہم نے اس کا سایہ بھی اپنے اوپر نہیں پڑنے دیا۔ یوں لگتا ہے ہم اس شخصیت ہی سے ناواقف ہیں جس کی ولادت کا جشن منا رہے ہیں۔ ہم سے کوئی پوچھے کہ جن کی یاد میں چراغاں کر رہے ہو وہ تو ایفائے عہد کے سختی سے پابند تھے جبکہ وعدہ پورا کرنے کا تمہارے ہاں تصور ہی مفقود ہے۔ جن کے لیے جلوس نکال رہے ہو انہوں نے زندگی بھر جھوٹ نہیں بولا‘ تمہارے ہاں جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہر شخص جھوٹ بولتا ہے۔ دفتر میں‘ کارخانے میں‘ بازار میں‘ پارلیمنٹ میں‘ کابینہ میں‘ حتیٰ کہ مسجد میں بھی! جن کی شان میں نعتیں پڑھ رہے ہو اور سن رہے ہو انہوں نے اپنے کسی رشتہ دار کو زندگی بھر ناراض کیا نہ کسی رشتہ دار کا حق مارا۔ تم اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلقی کے مرتکب ہوتے ہو۔ مفلس اقربا کو پہچانتے نہیں اور مقتدر اعزّہ کی خوشامد کرتے ہو۔ جن کی شانِ اقدس پر اخبارات کے خصوصی ایڈیشنوں میں مضامین لکھتے اور پڑھتے ہو‘ ان کی زندگی میں صداقت‘ امانت‘ دیانت اور شفافیت اپنی انتہا پر تھی۔ تمہاری زندگی کو فریب‘ مکر‘ منافقت اور خیانت نے پوری طرح ڈھانپا ہوا ہے۔ تم پر تمہارے اپنے بھی اعتبار نہیں کرتے! جن کا میلاد منانے کے لیے بازاروں میں کمیٹیاں ڈالتے ہو ان کا فرمان ہے کہ شے کا نقص بتائے بغیر اسے فروخت کرنے والے پر فرشتے لعنت بھیجتے ہیں مگر تمہارا تو سارا کاروبار ہی نقص چھپانے پر چل رہا ہے۔
یوں تو ہم اپنی زندگیوں میں سب کی حق تلفی کر رہے ہیں۔ اولاد ماں باپ کے حقوق نہیں ادا کر رہی اور ماں باپ اولاد کا حق مار رہے ہیں۔ پڑوسیوں‘ رشتہ داروں‘ کمیونٹی یہاں تک کہ ریاست کے حقوق ادا کرنے میں بھی ہم ڈنڈی مار رہے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ گنہگار ہم ان کے ہیں جنہیں زبان سے ہادی‘ رہنما اور پیغمبر کہتے ہیں! نہ صرف یہ کہ ہم ان کے احکام سے رُو گردانی کر رہے ہیں بلکہ الٹ چل رہے ہیں۔ پھر ہم اس نافرمانی کو تسلیم بھی نہیں کر رہے۔ آپ کسی عہد شکن کو یاد دلائیں کہ ''جس نے وعدہ پورا نہیں کیا اس کا ایمان ہی نہیں‘‘ تو اسے شرم آئے گی نہ حیا‘ نہ نادم ہو گا نہ پشیمان! ڈھیٹ بن کر منہ دوسری طرف کر لے گا۔ کسی دشنام طراز کو‘ کسی خائن کو‘ کسی جھوٹے کو آپؐ کا ارشاد سنا کر دیکھ لیجیے ''منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ وعدہ کرے گا تو پورا نہیں کرے گا‘ بات کرے گا تو جھوٹ بولے گا اور امانت اس کے سپرد کی جائے گی تو خیانت کا مرتکب ہو گا‘‘۔ یہ بھی فرمایا کہ منافق کی نشانی ہے کہ جھگڑا کرے گا تو گالی دے گا۔ وہ آپ کے گلے پڑے گا کہ مجھے منافق کیوں کہا۔ حالانکہ منافق اسے ہم اور آپ نہیں کہہ رہے‘ آقائے دو جہاںؐ کہہ رہے ہیں۔
اس معاشرے کا آپ ﷺ کی تعلیمات سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ جو معاشرہ آپؐ کے احکام کی بنیاد پر قائم ہوگا اس میں اطمینان ہوگا اور سکون! چہروں پر بشاشت ہوگی۔ وہ معاشرہ ٹینشن فری ہوگا۔ آپ اپنے معاشرے پر غور کرکے دیکھ لیجیے۔ ہر شخص شک اور عدم اطمینان کا شکار ہے۔ ہر شخص ذہنی دباؤ تلے پِس رہا ہے۔ جسے کسی دفتر میں کام پڑا ہے وہ ڈر رہا ہے کہ پتا نہیں افسر یا اہلکار آج موجود بھی ہے یا نہیں۔ موجود ہو بھی تو جانے کیا سلوک کرے اور کتنے پھیرے لگوائے۔ جس نے گیس کے کنکشن کے لیے درخواست دی ہے اسے یہ بھی نہیں اندازہ کہ اس کے جیتے جی یہ کنکشن مل جائے گا یا نہیں۔ آپ نقص والی شے دکاندار کو واپس کرتے وقت ڈر رہے ہوتے ہیں کہ جانے یہ واپس کرے گا یا نہیں۔ ملازمت کا حصول ہو‘ سکول میں بچے کا داخلہ ہو‘ ہسپتال میں مریض کو دکھانا ہو‘ مکان کا نقشہ پاس کرانا ہو‘ زرعی زمین یا شہری جائیداد کا انتقال ہو‘ جہاز کی سیٹ بک کرانی ہو‘ پاسپورٹ بنوانا ہو یا بچے کا فارم ب‘ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا آپ کو یقین ہوتا ہے کہ کام ہو جائے گا؟ نہیں! ہر گز نہیں! آپ بے یقینی کے ہولناک خوف میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس خوف سے نجات پانے کے لیے آپ سفارش تلاش کرتے ہیں۔ ہسپتال میں‘ گیس کے دفتر میں‘ پاسپورٹ آفس میں‘ سکول میں‘ جہاں بھی آپ کا کام ہے‘ آپ جاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے کہ تعلیماتِ نبویؐ سے اعراض کیا جا رہا ہے اور ڈٹ کر کیا جا رہا ہے۔ وقت پر دفتر کوئی نہیں آتا۔ حالانکہ تاخیر سے آنا معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ سچی بات کوئی نہیں کرتا۔ فائل سامنے پڑی ہے مگر اہلکار جھوٹ بولے گا کہ فائل اوپر بھیجی ہے‘ ابھی واپس نہیں آئی۔ گیس کنکشن کے لیے دو تین چار بلکہ پانچ سال دفتر کے چکر لگانے کے بعد‘ رشوت دیں گے تو رات کے اندھیرے میں آکر کنکشن دے جائیں گے۔ اس کے برعکس جن معاشروں میں آپؐ کی تعلیمات پر عمل ہو رہا ہے وہاں اس بے یقینی‘ اس خوف کا وجود ہی نہیں۔ یہ معاشرے آپﷺ کو تسلیم کریں یا نہ کریں‘ مگر جن اصولوں پر چلنے کی وجہ سے یہ معاشرے آج اپنے ہر شہری کو عزت‘ اعتماد اور برابر کے حقوق دے رہے ہیں وہ اصول پیغمبر اسلام ﷺ نے دیے ہیں! یہی وجہ ہے کہ مسلمان ملکوں سے مسلمان جوق در جوق ان معاشروں کی طرف ہجرت کر رہے ہیں۔ یہ اصول کہ ریاست یا حکومت کا سربراہ سادہ رہائش اختیار کرے گا اور ملازمین کی فوج ظفر موج نہیں رکھے گا‘ سب سے پہلے آپؐ نے اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدینؓ نے اپنایا تھا۔ آج مغربی ملکوں کے حکمرانوں کی قیام گاہیں اور طرزِ زندگی دیکھ لیجیے اور ان کے مقابلے میں مسلمان ممالک کے سربراہوں کی عیاشانہ طرزِ زندگی پر غور کیجیے۔ وقت کی پابندی‘ ایفائے عہد‘ دکانداروں اور تاجروں کی 'ری فنڈ‘ پالیسی‘ اور صارفین کے حقوق جن کی وجہ سے ان ملکوں میں زندگی باعزت ہے‘ یہ سب نبی اکرم ﷺکی تعلیمات ہیں! ملاوٹ‘ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز نفع خوری کہاں کا سکہ رائج الوقت ہے؟ یہاں یا وہاں؟ ناداروں اور قلاشوں کی کفالت ریاست کہاں کر رہی ہے؟ یہاں یا وہاں؟
سال میں ایک بار بارہ ربیع الاوّل اور سارا سال نہیں‘ بلکہ ساری زندگی تعلیماتِ نبویؐ سے فرار! یہ کمپنی دنیا میں بھی نہیں چلی! جو حال ہے‘ سب کے سامنے ہے! تو آخرت میں کیا چلے گی!
بشکریہ روزنامہ دنیا 

Thursday, October 06, 2022

اپنی بیٹیوں کو بوڑھا مت کیجئے


میں بک شاپ میں کتابیں دیکھ رہا تھا!
شہر کی اس سب سے بڑی بک شاپ کے مالک یوسف صاحب میرے دوست تھے۔ جب تک وہ زندہ رہے‘ ان کے کارندے مجھے نئی کتابوں کی اطلاع دے دیا کرتے تھے۔ کبھی ایس ایم ایس کے ذریعے کبھی وٹس ایپ پر! اب ہفتے‘ دس دن بعد خود چکر لگاتا ہوں!
اس دن بھی کتابیں دیکھ رہا تھا! اچانک ایک طرف سے نسوانی آواز آئی۔ انکل! السلام علیکم! دیکھا تو خاتون کو پہچان نہ پایا۔ اس نے بتایا کہ میری بڑی بیٹی کی دوست ہے۔ تب یاد آیا کہ سکول میں اکٹھی تھیں۔ دوسری بچیوں کی طرح یہ بھی ہماری بیٹی کے ساتھ ہمارے گھر آیا کرتی تھی۔ رسمی دعا سلام کے بعد وہ دکان کے کاؤنٹر کی طرف چلی گئی اور میں کتابوں کی ورق گردانی میں دوبارہ مصروف ہو گیا۔ شام کو بیٹی کا معمول کا فون آگیا۔ گفتگو کے درمیان ذکر کیا کہ اس کی فلاں دوست اور ہم جماعت ملی تھی۔ پھر یوں ہی پوچھ ڈالا کہ اس کی دوست کے ماشاء اللہ کتنے بچے ہیں اور اس کا میاں کیا کام کرتا ہے۔ بیٹی نے ایک لمبی آہ بھری''ابو! اس کی تو ابھی تک شادی ہی نہیں ہوئی!‘‘ وجہ پوچھی تو بیٹی نے تفصیل بتائی کہ یہ لوگ اپنی ذات کے باہر شادی نہیں کرتے۔ لڑکی کے لیے کئی اچھے اچھے رشتے آئے مگر وہ دوسری ذاتوں کے تھے۔ بدقسمتی سے اپنی ذات کا کوئی مناسب رشتہ آیا ہی نہیں!
میری بڑی بیٹی کی شادی کو اٹھارہ سال ہو چکے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو اس کی یہ ہم جماعت اٹھارہ سال سے شادی کے انتظار میں بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ صرف ایک لڑکی کی کہانی ہے۔ ایسی لاکھوں لڑکیاں ذات برادری کے حصار میں بند ہیں! اس حصار سے نکلنے کا کوئی دروازہ ہی نہیں! ماں باپ کے لیے ان کی شادی اپنی ذات سے باہر کرنا زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ ادھر لڑکی کے بال چاندی اور رخسار سونا ہو رہے ہیں۔ عمر ڈھل رہی ہے اور تیزی سے ڈھل رہی ہے۔ بدقسمتی کی انتہا یہ ہے کہ بہت سے پڑھے لکھے ماں باپ بھی اس خود ساختہ شرط کے پابند ہیں! میں ایسے تمام ماں باپ سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ وہ ایک ہاتھ دل پر اور دوسرا ہاتھ قرآنِ پاک پر رکھ کر بتائیں کہ کیا انہیں یقین ہے کہ وہ جس جاٹ یا مغل یا راجپوت یا ارائیں یا گجر یا اعوان یا کشمیری لڑکے کا انتظار کر رہے ہیں وہ ان کی بیٹی کو خوش رکھ سکے گا؟ اور اپنی ذات کی جو بہو تلاش کر رہے ہیں وہ ان کے ساتھ اچھا پیش آئے گی؟ اور اس کے بطن سے جو ان کا پوتا پیدا ہو گا وہ دنیا کو فتح کرنے والا دوسرا چنگیز خان یا دوسرا نپولین بونا پارٹ ثابت ہوگا؟ ماں باپ کے بعد بچے کے لیے اہم ترین شخصیت استانی یا استاد کی ہوتی ہے جو اسے پڑھاتا ہے اور اس کی زندگی سنوارتا ہے۔ کیا ان ماں باپ نے بچے یا بچی کو سکول داخل کراتے وقت کبھی استاد کی ذات پوچھی ہے؟ اگر ذات اتنی فیصلہ کن ہے تو آج سے عہد کریں کہ اپنی ذات کے علاوہ کسی دوسری ذات کے استاد سے ان کا بچہ سبق نہیں لے گا۔ نماز بھی صرف ان مولوی صاحب کے پیچھے پڑھیں گے جو ان کی ذات سے ہوں گے۔ اور جنازہ پڑھانے والا تو آپ کی ذات سے ضرور ہو نا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دوسری ذات والا جنازہ پڑھا دے اور میت کی عاقبت خراب ہو جائے! اور اس ڈاکٹر سے علاج تو ہر گز نہیں کرائیں گے جو کسی دوسری ذات سے ہوگا۔ غضب خدا کا‘ آپ کا بیمار آپ کو دل و جان سے زیادہ عزیز ہے اور آپ اس کا علاج اس ڈاکٹر سے کرا رہے ہیں جو راجپوت نہیں‘ یا اعوان یا جاٹ یا گجر نہیں! یہ ظلم نہ ڈھائیے گا! اور بس یا جہاز میں بیٹھتے وقت تو احتیاط لازم ہے۔ خدا کے بعد آپ کی زندگی بس کے ڈرائیور یا جہاز کے پائلٹ کے ہاتھ میں ہے۔ خدا کے لیے بیٹھنے سے پہلے ڈرائیور یا پائلٹ کی ذات چیک کر لیا کیجئے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اتنا اہم کام‘ زندگی اور موت کا فیصلہ کرنے والا کام‘ کسی ایسے شخص کے سپرد ہو رہا ہو جو آپ کی ذات ہی کا نہیں! اس طرح تو برادری میں آپ کی ناک کٹ جائے گی! اور کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ کے آباؤ اجداد میں سے سب نے اپنی ذات برادری کے اندر ہی شادیاں کی تھیں! چلیے مان لیا‘ آپ کے پاس اپنا خاندانی شجرۂ نسب محفوظ ہے جو نسل در نسل چلا آرہا ہے! مگر اس سے یہ کیسے معلوم ہو گا کہ آپ کے دادا کے پڑدادا نے کس ذات کی عورت سے شادی کی تھی؟ اور ان کی اپنی امی جان کون تھیں؟
آپ اپنی ذات پر فخر کیسے کر سکتے ہیں؟ اور دوسری ذاتوں کو کمتر کیسے قرار دے سکتے ہیں؟ کیا آپ کی پیدائش سے پہلے فرشتوں نے آپ کو آپشن دیا تھا کہ اپنی ذات کا انتخاب کیجئے؟ پھر‘ کیا آپ نے فرشتوں سے پوچھا تھا کہ کون سی ذات برتر ہے اور کون سی کم تر؟ اور پھر کیا آپ نے برتر ذات چنی؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ایسا نہیں‘ تو پھر آپ دوسری ذاتوں کے اندر بچوں کی شادیاں کیوں نہیں کر رہے؟ بیٹی کو کیوں بوڑھا کر رہے ہیں! اس کے خوابوں اور آرزوؤں کا خون کیوں کر رہے ہیں؟ اور اپنے آپ کو خدا کے دربار میں مجرم کیوں بنا رہے ہیں؟ کل سوال ہوگا تو کیا جواب دیں گے؟ کیا حشر کے روز یہ جواب دیں گے کہ شادی کرنا تو تھی مگر کوئی جاٹ یا آرائیں یا راجپوت یا مغل یا اعوان لڑکا مناسب نہیں نظر آیا! آپ کی اپنی بیٹی آپ کے خلاف مدّعی ہوگی! آپ کٹہرے میں کھڑے ہوں گے!
وہ تو کہیے کہ قدرت نے ٹیلنٹ دیتے وقت ذات برادری دیکھی نہ رنگ نہ مذہب! یہ جو رائٹ برادران تھے‘ ہوائی جہاز ایجاد کرنے والے‘ کیا یہ جاٹ تھے؟ کیا ٹیلی وژن کسی آرائیں نے ایجاد کیا؟ کیا انٹرنیٹ کا کرشمہ اعوانوں کا کمال ہے؟ جس جرمن نے دنیا کو ایکس رے کی مشین دی کیا وہ گجر تھا؟ سکاٹ لینڈ کے جس پروفیسر نے پنسلین دریافت کرکے کروڑوں‘ اربوں مریضوں پر احسان کیا‘ کیا وہ راجپوت تھا؟ اور شاعر مشرق علامہ اقبال کون سے سیّد تھے؟ کشمیری برہمنوں کی اولاد تھے۔ ان کی مشہور نظم ''ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام‘‘ پڑھ کر دیکھ لیجئے کہ خود کیا کہتے ہیں:
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سیّدِ ہاشمی کی اولاد
میری کفِ خاک برہمن زاد
جس بابر نے سلطنت کی بنیاد رکھی وہ مغل تھا۔ جن نکموں اور عیاشوں نے اس سلطنت کو پارہ پارہ کیا‘ وہ بھی مغل ہی تھے۔ گویا ثابت ہو گیا کہ سلطنت بنانے میں مغل ذات کا کمال تھا نہ توڑنے میں مغل ذات کا قصور! جس شیر شاہ نے پانچ سال میں ہندوستان کا نقشہ بدل ڈالا وہ بھی سوری پٹھان تھا اور اس کے جو جانشین نالائق ثابت ہوئے وہ بھی سوری پٹھان تھے۔ یہ جو ذاتیں ہیں اور برادریاں ہیں‘ یہ شناخت کے لیے ہیں کہ ایک دوسرے کو پہچانا جا سکے۔ ہر برادری میں‘ ہر ذات میں‘ ہر قوم میں‘ اچھے لوگ بھی ہیں‘ برے بھی‘ لائق بھی‘ نالائق بھی‘ نیک بھی بد بھی! عالم فاضل بھی‘ جاہل بھی! کسی کو اپنی ذات پر غرور کرنے کا حق نہیں اور ذات برادری کی بنیاد پر کسی کو کمتر گرادننا بھی انسانیت کی توہین ہے!

Tuesday, October 04, 2022

چھجو کا چوبارہ چھوڑنے سے پہلے کی کیفیت


Sicknessکئی قسم کی ہوتی ہے۔ سمندری سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو اسے ''سی سک نیس‘‘ کہتے ہیں۔ بحری جہاز لہروں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہچکولے کھاتا ہے تو بہت سے مسافر امتلا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ قے کرنے لگ جاتے ہیں۔ بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ ہوائی جہاز میں بے چین ہوتے ہیں۔ اسے ایئر سک نیس کہتے ہیں۔ کچھ افراد کو کار یا بس میں سفر کرنے کے دوران متلی ہوتی ہے۔ ایک شے ''ہوم سِک نیس‘‘ بھی ہے۔ غریب الوطنی یا مسافرت میں گھر کی یاد! ہوم سک نیس میں تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ یہ جو بھائی سکندر اعظم ہندوستان کی مکمل تسخیر کے بغیر واپس چلے گئے تو ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے یونانی سپاہی‘ وطن سے‘ ہزاروں میل دور‘ ہوم سِک ہو رہے تھے اور واپس جانا چاہتے تھے۔ بغاوت کے واضح آثار دیکھ کر سکندر واپس چلا گیا۔ عبد الرحمن اول نے اندلس میں کھجور کا پہلا درخت لگایا۔ پھر اس نے اس درخت کو مخاطب کرکے وطن کی یاد میں پُر سوز شعر کہے۔ اقبال نے ان کا ترجمہ کیا ہے۔ غور کیجیے! بادشاہت کے باوجود ہوم سِک نیس کا عالم!
میری آنکھوں کا نُور ہے تُو
میرے دل کا سُرور ہے تُو
اپنی وادی سے دُور ہوں مَیں
میرے لیے نخلِ طُور ہے تُو
پردیس میں ناصبور ہوں مَیں
پردیس میں ناصبور ہے تُو
ایک ایسی سِک نیس بھی ہے جو بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے لیکن بے حال کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ کسالت‘ خستگی اور بے چینی کی کیفیت ہے جو سفر سے پہلے ہوتی ہے۔ ہم اسے سفر سے پہلے کی سِک نیس کہہ سکتے ہیں۔ ایک عدم تکمیل کا احساس! ایک عجیب سا‘ بے نام سا‘ اضمحلال! ایک شہر یا ایک ملک چھوڑ کر دوسرے شہر یا دوسرے ملک جانے سے پہلے کی غیریقینی کیفیت! بظاہر اس کی وجہ کوئی نہیں دکھائی دیتی! سفر کی تیاری بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ سامان کی پیکنگ میں بچے ہاتھ بٹاتے ہیں! کوئی مسئلہ نہیں ہوتا! ایئر پورٹ پر مدد بھی شاملِ حال ہوتی ہے! پھر بھی ایک انجانا خوف طاری رہتا ہے! یہ کیفیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک جہاز پر‘ یا ٹرین پر‘ یا گاڑی پر سوار نہ ہو جائیں!
اس سک نیس کی ایک مثال حج کا سفر ہے۔ اگرچہ یہ ایک مکمل مثال نہیں ہے۔ روانگی سے پہلے کئی خدشات لاحق ہوتے ہیں! قیام گاہ کیسی ہو گی؟ حرمین تک کا فاصلہ کتنا ہو گا؟ کنکریاں مارتے وقت ہجوم سے کیسے نمٹیں گے؟ مگر وہاں پہنچ کر جب حجاج کے ہجوم میں شامل ہوتے ہیں تو بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ سب مراحل ٹھیک ٹھاک طے ہو جاتے ہیں۔ یہ مثال نامکمل اس لیے ہے کہ حج کے سفر میں رہائش اور دیگر چیزوں کا علم پہلے نہیں ہوتا کہ کیسی ہیں مگر ایسا سفر جس میں کسی عزیز کے ہاں جا رہے ہیں‘ کئی بار پہلے جا چکے ہیں‘ انتظامات یا سہولتوں کے ضمن میں کوئی ابہام نہیں ہے اس کے باوجود سِک نیس! اس کیفیت کو گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے خوب کامیابی سے بیان کیا ہے:
مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا
سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا
فراق کا گیت گا رہا تھا مغنّیٔ شب
فلک پہ صبحِ سفر کا تارا نکل رہا تھا
وہ سانس کی لَے کہ ناچتا تھا لہو رگوں میں
وہ حدّتِ مَے کہ لمحہ لمحہ پگھل رہا تھا
فضا میں لہرا رہے تھے افسردگی کے سائے
عجب گھڑی تھی کہ وقت بھی ہاتھ مل رہا تھا
سکوں سے محروم تھیں طربگاہ کی نشستیں
کہ اک نیا اضطراب ذہنوں میں پل رہا تھا
نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
ہوائے غربت کی لہر انفاس میں رواں تھی
نئے سفر کا چراغ سینوں میں جل رہا تھا
بھڑک رہی تھی دلوں میں حسرت کی پیاس لیکن
وہیں نئی آرزو کا چشمہ ابل رہا تھا
بدن پہ طاری تھا خوف گہرے سمندروں کا
رگوں میں شوقِ شناوری بھی مچل رہا تھا
کچھ لوگوں کو قسّامِ ازل نے ایسی طبع دی ہے کہ وہ تبدیلی سے خوف کھاتے ہیں۔ خوف کھانا شاید زیادہ سخت جملہ ہے۔ یوں کہیے کہ وہ تبدیلی سے سمجھوتا نہیں کرتے۔ خواتین کو کمروں اور بیٹھکوں کی سیٹنگ بدلنے کا بہت شوق ہوتا ہے مگر کچھ مردوں کو اس تبدیلی سے بے چینی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا مزاج تبدیلی کو نہیں پسند کرتا۔ نیا مکان‘ نئی کلاس‘ نیا سکول کالج‘ نیا دفتر‘ انہیں ہر جگہ آسودہ خاطر ہونے میں دیر لگتی ہے۔ وہ تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ماہرینِ نفسیات کا ہے مگر اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے۔ سو‘ یہ جو سفر سے پہلے سِک نیس ہوتی ہے یہ بھی تبدیلی کا خوف ہے۔ اپنے معمولات میں تبدیلی کا خوف! استعمال کی اشیا رکھنے کی جگہ کی تبدیلی کا خوف! ایک شہر‘ ایک ملک چھوڑ کر دوسرے شہر‘ دوسرے ملک جانے کا خوف! سفر سے پہلے بھوک رہتی ہے نہ نیند! خاص طور پر طویل قیام پر منتج ہونے والے سفر! یہ ڈر الگ کہ کوئی ضروری شے سامان میں رکھے جانے سے رہ نہ جائے! بقول منیر نیازی:
ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے
ایک صوتِ گُنگ جیسے گنبدوں کے سامنے
یہ جو محاورہ ہے کہ جو مزہ چھجو کے چوبارے‘ وہ بلخ نہ بخارے۔ تو یہ ایسے ہی نہیں بن گیا۔ یہ کہاوتیں صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہیں! بلخ اور بخارا اُس زمانے میں ایسے ہی تھے جیسے آج کل نیویارک اور لندن ہیں۔ چھجو کا چوبارہ اس لیے نہیں چھوڑا جاتا تھا کہ اس میں رہنے کی عادت تھی۔ معلوم تھا کہ اڑوس پڑوس میں کون ہے۔ یہ اجنبیت کا خوف تھا جو بندے کو بخارا جیسے عالی شان اور متمدن شہر میں بھی بے چین رکھتا تھا اور اسے اپنا چوبارہ رہ رہ کر یاد آتا تھا۔ ہمارے پرائمری سکول کے استاد تھے۔ ماسٹر سلطان صاحب! وہ پنڈی گھیب سے ایک گروپ کے ہمراہ‘ ایک مذہبی جلسہ اٹینڈ کرنے راولپنڈی تشریف لائے۔ راجہ بازار کا رش‘ ہجوم اور وسعت دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ اگلی بس سے واپس چلے گئے! کیسا سکون کا سانس لیا ہو گا انہوں نے اپنے قصبے‘ اپنے محلے اور اپنے گھر پہنچ کر! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
فیصل آباد کے ہسپتال۔ کچھ مریضوں کو فیصل آباد کے ہسپتالوں سے کینسر اور بون میرو جیسے امراض کی ادویات ملنا بند ہو گئی ہیں۔ متعلقہ حلقوں کو اس ضمن میں فوراً ضروری اقدامات کرنے چاہئیں

Monday, October 03, 2022

ایک قابلِ تقلید مثال


ایاز امیر صاحب سے یک طرفہ‘ غائبانہ‘ شناسائی تو اُس وقت سے ہے جب ان کے انگریزی کالم کا انتظار رہتا تھا۔ انگریزی کالم نگار چند ہی ایسے تھے‘ اور ہیں‘ جو دل کو اپنی طرف کھینچتے ہیں۔ طالب علمی کے زمانے میں جب شمالی پاکستان میں انگریزی روزنامے '' پاکستان ٹائمز‘‘ کی اجارہ داری تھی تو خالد احمد
کا کالم 

Of this and that
 بہت شوق سے پڑھتے تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں گئے تو پاکستان ٹائمز (لاہور) دوسرے دن ملتا تھا۔ وہاں رہتے ہوئے ''پاکستان آبزرور‘‘پڑھنے کا چسکا بھی پڑ گیا جو مشرقی پاکستان کا سب سے بڑا انگریزی روزنامہ تھا۔1949ء میں شروع ہونے والا یہ اخبار اندھیری رات میں چراغ کی طرح تھا۔1952ء میں جب بنگلہ زبان کی تحریک چلی تو اخبار کے مالک حمید الحق چوہدری اور مدیر عبدالسلام‘ دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں ایوب خان حکومت نے اخبار کو بلیک لسٹ کر کے اشتہارات سے محروم کر دیا۔ بنگلہ دیش وجود میں آیا تو یہ اخبار'' پاکستان آبزرور‘‘ سے'' بنگلہ دیش آبزرور‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔2010ء میں‘ زندگی کی اکسٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد‘ یہ اخبار وفات پا گیا۔
انگریزی کالم نگاروں کی بات ہو رہی تھی۔ بہت عرصہ ارد شیر کاؤس جی اور ایاز امیر پیش منظر پر چھائے رہے۔ ایاز امیر کبھی کبھی اسلام آباد کلب میں نظر آتے تو ہم سلام کر لیتے۔2014ء میں وفاقی دارالحکومت میں عمران خان کے طویل دھر نے کے دوران دنیا میڈیا گروپ نے کچھ دنوں کے لیے لاہور طلب کیا تا کہ ٹاک شوز میں شرکت کی جائے۔ تب ایاز امیر صاحب سے ذاتی شناسائی ہوئی۔ یورپ کی تاریخ پر ان کی گہری نظر ہے۔ ان کی خد مت میں عرض کیا کہ مقدور ہوتا تو ان سے یورپ کی تاریخ‘ باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کر کے پڑھتے۔ یہ تو ممکن نہ تھا مگر انہوں نے رہنمائی ضرور کی کہ کون کون سی کتابیں اس ضمن میں مفید ہیں۔
دو دن پہلے ایاز امیر صاحب کا جو کالم ''دنیا‘‘ میں چھپا ہے‘ وہ انتہائی لائقِ تحسین ہے۔ اس زمانے میں کون ہے جو اولاد کی غلطی مانے؟ اس معاشرے کی سب سے بڑی بیماری ہی تو یہی ہے کہ اپنی اولاد‘ اپنے خاندان‘ اپنی برادری‘ اپنے قبیلے‘ اپنی ذات اور اپنی سیاسی جماعت کی غلطی کو غلطی نہیں تسلیم کیا جاتا۔ اس کا دفاع کیا جاتا ہے۔ خاص طور پر اولاد جرم کرے تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اور کھلیں بھی تو سخت یرقان زدہ ہو تی ہیں۔ مضحکہ خیز دلائل دیے جاتے ہیں۔
'' جوان لڑکے اسی طرح کرتے ہیں‘‘
''سزا دینے سے مقتول یا مقتولہ واپس تو نہیں آجائیں گے‘‘
'' قتل ہمارے بیٹے کے ہاتھوں ثابت ہو جائے تو دیکھیں گے‘‘وغیرہ
ظاہر جعفر کے والدین کا طرزِ فکر اور طرزِ عمل سب کے سامنے ہے۔ معاشرے کا مجموعی مزاج یہی ہے؛ تاہم ایاز امیر صاحب نے جس طرح اپنے کالم میں سچ اور حق کی بات کی ہے‘ اس کی مثال ہماری سوسائٹی میں ملی بھی تو بہت مشکل سے ملے گی۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر انہوں نے اپنے سگے بیٹے کے جرم کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ اس کی بھر پور مذمت کی۔ اپنے مضمون میں وہ مقتولہ کو معصوم قرار دیتے ہیں اور اس کے خاندان کے ساتھ مکمل طور پر ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ اپنی یہ غلطی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ خاندان اکٹھا نہ رہ سکا جس کا اثر اولاد پر پڑا مگر یہ کہہ کر بھی وہ اپنے بیٹے کو فائدہ نہیں دیتے اور کہتے ہیں کہ خاندان تو ٹوٹتے ہیں مگر ایسے واقعات ہر شکستہ کنبے میں رونما نہیں ہوتے! وہ بیٹے کے حوالے سے کچھ بھی نہیں چھپاتے۔ اس کی شراب نوشی‘ تمباکو نوشی‘ چرس کی علت‘ بیکاری‘ سب کا ذکر کرتے ہیں۔ تربیت کی کمی کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ انتہائی اہم پہلو یہ ہے کہ وہ بیٹے کی ماں پر کوئی الزام نہیں دھرتے۔وہ یہ کہہ سکتے تھے کہ بیٹا ماں کے ساتھ رہ رہا تھا۔ اس کا فرض تھا کہ معاملات کو سنبھالتی۔ مگر وہ ایسی کوئی بات نہیں کرتے۔ خاندان کے انتشار کا الزام بھی وہ اپنے سوا کسی پر نہیں ڈالتے! ان کے لیے ایک آپشن یہ بھی تھا کہ وہ اس موضوع پر نہ لکھتے۔ مگر لکھا اور سچ لکھا!
ایک دانشور کو ایسا ہی کہنا اور لکھنا چاہیے تھا۔ ایاز امیر صاحب کے موجودہ سیاسی مؤقف سے شدید اختلاف کے باوصف‘ یہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ جو مبنی بر انصاف مؤقف انہوں نے اختیار کیا ہے وہ دوسروں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔ یہاں تو رواج یہ ہے کہ مجرم بیٹے کو ملک سے باہر بھگا دو۔ یہ نہ ہو سکے تو اسے سزا سے بچانے کے لیے ہر جھوٹ‘ ہر فریب‘ ہر حیلے کو بروئے کار لاؤ۔ مقتول یا مقتولہ کے خاندان کے زخموں پر نمک چھڑ کو! اور آخر میں دولت کی فراوانی کو استعمال کرتے ہوئے خون کی قیمت ادا کردو!
ہر روز‘ ہر وقت‘ رونا پِٹنا لگا ہے کہ حکومت انصاف نہیں کرتی! عدالتیں انصاف نہیں کرتیں‘پولیس انصاف نہیں کرتی! سوال یہ ہے کہ کیا فرد انصاف سے کام لے رہا ہے؟ کیا خاندان انصاف کر رہا ہے؟نزاع پڑے تو کیا ہم اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں؟ بہت ہی کم! سَو میں سے دس یا بیس! گاڑی کے پیچھے جو جاہل گاڑی کھڑی کر جاتا ہے اور بہت دیر سے ظاہر ہوتا ہے‘ اس سے بات کریں تو کبھی اپنی غلطی نہیں مانے گا! کبھی معافی نہیں مانگے گا۔ ایسا کرنے والا ہوتا تو یہ حرکت ہی کیوں کرتا! اُلٹا کہے گا کہ بس پانچ منٹ ہی کے لیے تو گیا تھا! ٹریفک کے معاملات میں کتنے لوگ یہ کہنے کی جرأت کرتے ہیں کہ میری غلطی ہے! آپ کا نقصان میں پورا کروں گا!
معاشرے کا یہ اندھا پن اُس وقت عروج پر ہوتا ہے اور قابلِ نفرین ہوتا ہے جب بیٹے اور بہو میں‘ یا بیٹی اور داماد میں جھگڑاہو۔ اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی میں کوئی غلطی نہیں دکھائی دیتی! سارا قصور بہو کا نکلتا ہے یا داماد کا! ان جھگڑوں میں ماں باپ انصاف سے کام لیں اور ناجائز حمایت نہ کریں تو بہت سے گھر ٹوٹنے سے بچ جائیں! ہم قاتلوں کی حمایت کرتے ہیں! ڈاکوؤں اور اغوا کنندگان کو اپنے ڈیروں پرپناہ دیتے ہیں! مجرموں کو سزا سے بچانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں! جہاں قاتل عدالتوں میں پیش ہونے سے پہلے اور پیش ہونے کے بعد‘ انگلیوں کو‘ غلیل کے دو شاخے کی طرح‘ فتح کا نشان بنا کر دکھائیں‘ اس معاشرے میں امن کس طرح قائم ہو سکتا ہے ؟ اپنے گریبان میں جھانکنے کو کوئی تیار نہیں! یوں لگتا ہے جیسے قبل از اسلام کا جاہلی معاشرہ ہے۔ایک تاجر‘ ایک ڈاکٹر‘ ایک وکیل‘ ایک سٹوڈنٹ‘جرم کرے تو اسے سزا سے بچانے کے لیے سارے تاجر‘ سارے ڈاکٹر‘ سارے وکیل اور سارے طالب علم اکٹھے ہو کر‘ انصاف کے راستے میں دیوار بن جاتے ہیں! غلط کون ہے اور صحیح کون ہے؟ یہ ہمارا مسئلہ ہی نہیں! ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے کہ بندہ اپنا ہے۔ اسے ہر حال میں بچنا چاہیے! پوری قوم کا مائنڈ سیٹ یہی ہے! ہمارے توعلما بھی ایک دوسرے کو بچاتے ہیں! ٹی وی ڈراموں میں بھی یہی سبق دیا جا رہا ہے۔ بیٹا تین تیرہ سے نکلے تو شوہر ہمیشہ بیوی سے کہتا ہے کہ تم نے اسے خراب کیا۔کسی ڈرامے میں بیوی یہ نہیں کہتی کہ تم باپ تھے‘ تم نے کیا تربیت دی ہے؟ ان افراد‘ ان خاندانوں اور ان گروہوں سے جو حکومت اور جو پولیس بنے گی‘ وہ بھی اسی مائنڈ سیٹ کی مالک ہو گی ! کیکر کا درخت اوپر تک کیکر ہی رہتا ہے۔ اوپر سے سیب کا نہیں بن جاتا

بشکریہ روزنامہ دنیا !

 

powered by worldwanders.com