یہ2017ء کی بات ہے۔میں‘ عزیزم خاور گھمن اور بزرگ صحافی عارف نظامی ایک ٹی وی چینل پر '' نیوزروم‘‘ کے عنوان سے ہفتے میں چھ دن‘ پروگرام کرتے تھے۔ عزیزم کرامت مغل ہمارے پروڈیوسر تھے۔ نظامی صاحب پروگرام میں لاہور سے شریک ہوتے تھے۔ میں‘ کرامت مغل اور خاور گھمن اسلام آباد میں تھے۔ کافی وقت اکٹھا گزرتا جس میں نشستن اور خوردن بھی شامل تھے۔�ایک دن خاور گھمن صاحب نے بتایا کہ ارشد شریف کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ راولپنڈی کے ایک معروف ہسپتال نے انہیں کہا تھا کہ دل میں دو سٹنٹ پڑیں گے۔ یہ کام دو تین دن کے بعد ہونا تھا۔ کچھ دوائیں دی گئی تھیں جو ان دو تین دنوں میں‘ ہسپتال والوں کے بقول‘ ارشد شریف کو سٹنٹ ڈالنے کے عمل کے لیے تیار کریں گی ! خاور صاحب کو معلوم تھا کہ میرے دو قریبی عزیز امراضِ قلب کے ماہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ان کی رائے لے دیجیے۔میں نے کہا :کیوں نہیں! بسر و چشم ! ارشد شریف نے وٹس ایپ پر اپنے دل کے ٹیسٹوں کی رپورٹیں بھیجیں۔ میں نے فوراً دونوں ڈاکٹروں کو ارسال کر دیں۔ایک لاہور میں تھے۔ دوسرے بیرونِ ملک۔ ایک دل کے سرجن تھے۔ دوسرے فزیشن اور سٹنٹ ڈالنے ہی کے ماہر جسےInterventionistکہتے ہیں۔ اسی شام کو دونوں کا جواب آگیا۔ دونوں نے کہا تھا کہ ارشد شریف کا دل بالکل ٹھیک ہے۔ سٹنٹ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ لاہور والے عزیز نے ایک دوا تجویز کی تھی۔ جو عزیز بیرونِ ملک تھے ان کے خیال میں کسی دوا کی بھی ضرورت نہ تھی۔ ارشد شریف کو فوراً ان آرا سے مطلع کیا۔ ان کی جان میں جان آئی۔ دوسرے دن انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ جو ڈاکٹر صاحب بیرونِ ملک مقیم ہیں‘ ان سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں۔ نمبر دیا۔ انہوں نے اپنا کیس تفصیل سے ڈسکس کیا۔ جہاں تک مجھے علم ہے‘ اس کے بعد بھی دل کے عارضے سے وہ محفوظ رہے۔�یہ ایک براہ راست‘ فرسٹ ہینڈ‘ تجربہ تھا جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ دل کے ماہرین پاکستان میں کیا کیا گل کھلا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی سنا بہت کچھ تھا مگر یہ تو ایک ایسے شخص کو سٹنٹ ڈالنے کی تیاری ہو رہی تھی جسے میں ذاتی طور پر جانتا تھا اور جسے سٹنٹ ڈالنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ ایسا ہی ایک افسوسناک تجربہ کئی سال پہلے بھی ہوا۔ مجھے اور اہلیہ کو بیرونِ ملک جانا تھا۔جانے سے دو تین دن پہلے اہلیہ کو بخار ہونے لگا۔ شہر کا مشہور ترین نجی ہسپتال ہمارے گھر کے بالکل قریب تھا۔ ایک بڑے عہدے اور بہت سی ڈگریوں والے ڈاکٹر صاحب سے بھی علیک سلیک تھی۔ ان کے نام کے ساتھ یہ بھی لکھا تھا کہ وہ مشرقِ وسطیٰ میں کسی بادشاہ کے لیے طبی خدمات سرانجام دیتے رہے تھے۔ انہوں نے معائنہ کیا اور تشخیص کی کہ ٹائیفائڈ ہے۔ دوائیں تجویز کیں جو فوراً شروع کر دی گئیں۔ حالات ایسے تھے کہ بیرونِ ملک روانگی کو ملتوی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اللہ کا نام لے کر سفر پر روانہ ہو گئے۔ بیرون ملک پہنچے تو دوسرے دن طبیعت پھر خراب ہو گئی۔وہاں ایک ڈاکٹر کے پاس گئے۔ اس نے معائنہ کر کے بتایا کہ مریضہ کو ٹا ئیفائیڈ قسم کی کوئی بیماری نہیں۔ محض تھکاوٹ ہے۔ تھکاوٹ والی بات قابلِ فہم بھی تھی کیونکہ سفر پر روانہ ہونے سے پہلے مہمانوں کی بہت زیادہ آمد و رفت تھی جو ملنے اور رخصت کرنے آرہے تھے۔ ان کی آؤ بھگت میں اور سفر کی تیاریوں کی وجہ سے تھکاوٹ کا ہونا فطری تھا۔ اس ڈاکٹر نے عام بخار کی دوا دی جس سے وہ ٹھیک ہو گئیں۔اس ڈاکٹر نے ہنستے ہوئے ایک بات یہ بھی کہی کہ ٹائیفائڈ کی تشخیص کے لیے جو مشہور‘ روایتی‘ ٹیسٹ '' وِڈال‘‘ کے نام سے پاکستان میں کیا جا رہا ہے‘ وہ دنیا کے اکثر و بیشتر ملکوں میں کبھی کا متروک ہو چکا ہے۔ اب ٹائیفائڈ کی تشخیص سٹول ٹیسٹ سے ہوتی ہے۔�ارشد شریف کی طرف واپس آتے ہیں۔ واقفیت تو پہلے بھی تھی۔ اس کے بعد جب بھی کہیں ملاقات ہوتی‘ بہت خندہ پیشانی سے ملتا۔ کبھی مسٹر بْکس کی دکان پر‘ کبھی کلب میں‘ کبھی کسی چینل کے سٹیشن پر! بس اس سے زیادہ تعلق نہیں تھا۔ اس کا منطقہ اور تھا۔ میرا منطقہ اور تھا۔ اس کا حلقۂ احباب اور تھا‘ میرا اور ! جس رفتار سے وہ بگٹٹ دوڑے چلا جا رہا تھا‘ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں‘ ہم مشربوں اور ہمکاروں سے کہیں آگے نکل جا ئے گا۔ مگر یہ سوچ کر کہ اس قدر تیز رفتاری گرنے کا سبب بھی بن جاتی ہے‘ جھرجھری بھی آتی تھی۔�کوئی مانے یا نہ مانے‘ سچ یہ ہے کہ یہ اہلِ سیاست ہیں جو ارشد شریف کی موت کے ذمہ دار ہیں۔ طلبہ ہوں یا صحافی‘ وکیل ہوں یا عام ورکر‘ سیاست دانوں کی خاطر کیا کچھ نہیں کرتے۔ اور وہ بھی ان سیاست دانوں کی خاطر جو انہیں پہچانتے ہیں نہ جانتے ہیں۔ ان سے تو ان فدائیوں کا ملنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ابھی چند ماہ پہلے‘ مریم نواز ایک خاتون کو جو انہیں ملنا چاہتی تھی یا ان کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتی تھی‘ ہاتھ کے اشارے سے رفع دفع ہونے کا حکم دے رہی تھیں۔ یہ کلپ لاکھوں افراد نے دیکھا ہو گا۔ جو لوگ عمران خان کی خاطر مسجد نبوی میں شورو غوغا اور دنگا فساد کے مرتکب ہوئے اور وہاں کی حکومت نے انہیں قید کر دیا‘ عمران خان نے ان کی خاطر کیا کیا؟ کیا خان صاحب نے‘ یا ان کی پارٹی نے ان کے خاندانوں کی دیکھ بھال کی؟ ابھی یہ خبر آئی ہے کہ موجودہ وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد سے ان کی رہائی کی سفارش کی ہے؛ تاہم یہ نہیں معلوم کہ رہائی عمل میں آچکی ہے یا نہیں! ارشد شریف کی خون آلود قمیص کو جو سیاست دان اور ان کے وابستگان پرچم بنا کر لہرا رہے ہیں‘ وہ یہ ماتم سراسر اپنے فائدے کے لیے کر رہے ہیں۔اہل فرنگ ایسے مواقع پر کہتے ہیںmake capital out of something۔
ارشد شریف شہید بھی ہے اور مظلوم بھی! وہ ان سادہ دل لوگوں میں سے تھا جو دوسروں کی خاطر بہت آگے چلے جاتے ہیں اور انہیں ڈھونڈنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ہاتھ میں تلوار لے کے‘ شہید ہونے کے لیے کسی میدان جنگ میں نہیں اترا۔ یہ شہادت اس پر مسلط کی گئی۔ اہلِ غرض اس کے ذمہ دار ہیں۔ تعجب ہے کہ خان صاحب خود برطانیہ سے بے شمار روابط رکھتے ہیں۔ ان کے ارد گرد کئی افراد برطانیہ اور امریکہ سے آئے ہیں۔ امرا کی بھی اس پارٹی میں کمی نہیں۔ کیا کوئی بھی ارشد شریف کے لیے برطانیہ یا امریکہ میں قیام کا بند و بست نہیں کر سکتا تھا؟ سوالات اور بھی ہیں۔ کیا اس امر کا ٹھوس ثبوت موجود ہے کہ پاکستان میں اس کی زندگی کو خطرہ تھا ؟ اگر کسی فرد یا اتھارٹی نے دبئی کے حکام کو کہا کہ اسے وہاں سے نکال دیا جائے تو اُس فرد یا اتھارٹی کا نام سامنے آنا چاہیے۔ رہا قتل جو کینیا میں ہوا‘ تو وہ متضاد اور مشکوک روایات کی گرد میں لپٹا ہوا ہے۔ کیا یہ قتل اتفاقیہ تھا یا ڈور پاکستان سے یا کسی اور ملک سے ہلائی جا رہی تھی؟ عین ممکن ہے یہ قتل بھی لیاقت علی خان‘ جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر بھٹو کے قتل کی طرح پُراسرار ہی رہے!! آخری تجزیے میں اصل نقصان اس کی ضعیف اور قابلِ رحم والدہ‘ اس کی بیگمات اور اس کے بچوں کا ہوا ہے جو باقی زندگی اس کے غم میں سلگ سلگ کر گزاریں گے!
بشکریہ روزنامہ دنیا