Sicknessکئی قسم کی ہوتی ہے۔ سمندری سفر کے دوران طبیعت خراب ہو جائے تو اسے ''سی سک نیس‘‘ کہتے ہیں۔ بحری جہاز لہروں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہچکولے کھاتا ہے تو بہت سے مسافر امتلا میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ قے کرنے لگ جاتے ہیں۔ بھوک ختم ہو جاتی ہے۔ بہت سے لوگ ہوائی جہاز میں بے چین ہوتے ہیں۔ اسے ایئر سک نیس کہتے ہیں۔ کچھ افراد کو کار یا بس میں سفر کرنے کے دوران متلی ہوتی ہے۔ ایک شے ''ہوم سِک نیس‘‘ بھی ہے۔ غریب الوطنی یا مسافرت میں گھر کی یاد! ہوم سک نیس میں تو بڑے بڑوں کا پتہ پانی ہو جاتا ہے۔ یہ جو بھائی سکندر اعظم ہندوستان کی مکمل تسخیر کے بغیر واپس چلے گئے تو ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے یونانی سپاہی‘ وطن سے‘ ہزاروں میل دور‘ ہوم سِک ہو رہے تھے اور واپس جانا چاہتے تھے۔ بغاوت کے واضح آثار دیکھ کر سکندر واپس چلا گیا۔ عبد الرحمن اول نے اندلس میں کھجور کا پہلا درخت لگایا۔ پھر اس نے اس درخت کو مخاطب کرکے وطن کی یاد میں پُر سوز شعر کہے۔ اقبال نے ان کا ترجمہ کیا ہے۔ غور کیجیے! بادشاہت کے باوجود ہوم سِک نیس کا عالم!
میری آنکھوں کا نُور ہے تُو
میرے دل کا سُرور ہے تُو
اپنی وادی سے دُور ہوں مَیں
میرے لیے نخلِ طُور ہے تُو
پردیس میں ناصبور ہوں مَیں
پردیس میں ناصبور ہے تُو
ایک ایسی سِک نیس بھی ہے جو بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے لیکن بے حال کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہ وہ کسالت‘ خستگی اور بے چینی کی کیفیت ہے جو سفر سے پہلے ہوتی ہے۔ ہم اسے سفر سے پہلے کی سِک نیس کہہ سکتے ہیں۔ ایک عدم تکمیل کا احساس! ایک عجیب سا‘ بے نام سا‘ اضمحلال! ایک شہر یا ایک ملک چھوڑ کر دوسرے شہر یا دوسرے ملک جانے سے پہلے کی غیریقینی کیفیت! بظاہر اس کی وجہ کوئی نہیں دکھائی دیتی! سفر کی تیاری بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ سامان کی پیکنگ میں بچے ہاتھ بٹاتے ہیں! کوئی مسئلہ نہیں ہوتا! ایئر پورٹ پر مدد بھی شاملِ حال ہوتی ہے! پھر بھی ایک انجانا خوف طاری رہتا ہے! یہ کیفیت اس وقت تک رہتی ہے جب تک جہاز پر‘ یا ٹرین پر‘ یا گاڑی پر سوار نہ ہو جائیں!
اس سک نیس کی ایک مثال حج کا سفر ہے۔ اگرچہ یہ ایک مکمل مثال نہیں ہے۔ روانگی سے پہلے کئی خدشات لاحق ہوتے ہیں! قیام گاہ کیسی ہو گی؟ حرمین تک کا فاصلہ کتنا ہو گا؟ کنکریاں مارتے وقت ہجوم سے کیسے نمٹیں گے؟ مگر وہاں پہنچ کر جب حجاج کے ہجوم میں شامل ہوتے ہیں تو بے یقینی کی کیفیت ختم ہو جاتی ہے۔ سب مراحل ٹھیک ٹھاک طے ہو جاتے ہیں۔ یہ مثال نامکمل اس لیے ہے کہ حج کے سفر میں رہائش اور دیگر چیزوں کا علم پہلے نہیں ہوتا کہ کیسی ہیں مگر ایسا سفر جس میں کسی عزیز کے ہاں جا رہے ہیں‘ کئی بار پہلے جا چکے ہیں‘ انتظامات یا سہولتوں کے ضمن میں کوئی ابہام نہیں ہے اس کے باوجود سِک نیس! اس کیفیت کو گم شدہ شاعر شبیر شاہد نے خوب کامیابی سے بیان کیا ہے:
مئے فراغت کا آخری دور چل رہا تھا
سبو کنارے وصال کا چاند ڈھل رہا تھا
فراق کا گیت گا رہا تھا مغنّیٔ شب
فلک پہ صبحِ سفر کا تارا نکل رہا تھا
وہ سانس کی لَے کہ ناچتا تھا لہو رگوں میں
وہ حدّتِ مَے کہ لمحہ لمحہ پگھل رہا تھا
فضا میں لہرا رہے تھے افسردگی کے سائے
عجب گھڑی تھی کہ وقت بھی ہاتھ مل رہا تھا
سکوں سے محروم تھیں طربگاہ کی نشستیں
کہ اک نیا اضطراب ذہنوں میں پل رہا تھا
نگاہیں دعوت کی میز سے دور کھو گئی تھیں
تمام ذہنوں میں ایک سایہ سا چل رہا تھا
ہوائے غربت کی لہر انفاس میں رواں تھی
نئے سفر کا چراغ سینوں میں جل رہا تھا
بھڑک رہی تھی دلوں میں حسرت کی پیاس لیکن
وہیں نئی آرزو کا چشمہ ابل رہا تھا
بدن پہ طاری تھا خوف گہرے سمندروں کا
رگوں میں شوقِ شناوری بھی مچل رہا تھا
کچھ لوگوں کو قسّامِ ازل نے ایسی طبع دی ہے کہ وہ تبدیلی سے خوف کھاتے ہیں۔ خوف کھانا شاید زیادہ سخت جملہ ہے۔ یوں کہیے کہ وہ تبدیلی سے سمجھوتا نہیں کرتے۔ خواتین کو کمروں اور بیٹھکوں کی سیٹنگ بدلنے کا بہت شوق ہوتا ہے مگر کچھ مردوں کو اس تبدیلی سے بے چینی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کا مزاج تبدیلی کو نہیں پسند کرتا۔ نیا مکان‘ نئی کلاس‘ نیا سکول کالج‘ نیا دفتر‘ انہیں ہر جگہ آسودہ خاطر ہونے میں دیر لگتی ہے۔ وہ تبدیلی کی مزاحمت کرتے ہیں۔ یہ معاملہ ماہرینِ نفسیات کا ہے مگر اندازہ تو لگایا جا سکتا ہے۔ سو‘ یہ جو سفر سے پہلے سِک نیس ہوتی ہے یہ بھی تبدیلی کا خوف ہے۔ اپنے معمولات میں تبدیلی کا خوف! استعمال کی اشیا رکھنے کی جگہ کی تبدیلی کا خوف! ایک شہر‘ ایک ملک چھوڑ کر دوسرے شہر‘ دوسرے ملک جانے کا خوف! سفر سے پہلے بھوک رہتی ہے نہ نیند! خاص طور پر طویل قیام پر منتج ہونے والے سفر! یہ ڈر الگ کہ کوئی ضروری شے سامان میں رکھے جانے سے رہ نہ جائے! بقول منیر نیازی:
ایک میں اور اتنے لاکھوں سلسلوں کے سامنے
ایک صوتِ گُنگ جیسے گنبدوں کے سامنے
یہ جو محاورہ ہے کہ جو مزہ چھجو کے چوبارے‘ وہ بلخ نہ بخارے۔ تو یہ ایسے ہی نہیں بن گیا۔ یہ کہاوتیں صدیوں کے تجربات کا نچوڑ ہیں! بلخ اور بخارا اُس زمانے میں ایسے ہی تھے جیسے آج کل نیویارک اور لندن ہیں۔ چھجو کا چوبارہ اس لیے نہیں چھوڑا جاتا تھا کہ اس میں رہنے کی عادت تھی۔ معلوم تھا کہ اڑوس پڑوس میں کون ہے۔ یہ اجنبیت کا خوف تھا جو بندے کو بخارا جیسے عالی شان اور متمدن شہر میں بھی بے چین رکھتا تھا اور اسے اپنا چوبارہ رہ رہ کر یاد آتا تھا۔ ہمارے پرائمری سکول کے استاد تھے۔ ماسٹر سلطان صاحب! وہ پنڈی گھیب سے ایک گروپ کے ہمراہ‘ ایک مذہبی جلسہ اٹینڈ کرنے راولپنڈی تشریف لائے۔ راجہ بازار کا رش‘ ہجوم اور وسعت دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہو گئی۔ وہ اگلی بس سے واپس چلے گئے! کیسا سکون کا سانس لیا ہو گا انہوں نے اپنے قصبے‘ اپنے محلے اور اپنے گھر پہنچ کر! بقول افتخار عارف:
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
فیصل آباد کے ہسپتال۔ کچھ مریضوں کو فیصل آباد کے ہسپتالوں سے کینسر اور بون میرو جیسے امراض کی ادویات ملنا بند ہو گئی ہیں۔ متعلقہ حلقوں کو اس ضمن میں فوراً ضروری اقدامات کرنے چاہئیں
No comments:
Post a Comment