Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Thursday, December 29, 2022

درد کا مہکتا باغ

پندرہ سال ہو گئے ! یہ تاریخ‘ یہ مہینہ‘ ہر سال آجاتا ہے۔
یاد نہیں‘ رفیق اللہ سے پہلی ملاقات کس طرح ہوئی! یونیورسٹی کے بہت سے ہوسٹل تھے جن میں سے ایک محسن ہال تھا۔ اس چھ منزلہ‘ عظیم الشان عمارت میں چار سو کمرے تھے۔ کچھ کمروں میں ایک‘ کچھ میں دو‘ دو اور کچھ میں چار‘ چار سٹوڈنٹس رہتے تھے۔ ہم جو ایم اے میں تھے‘ ہمیں سنگل کمرے ملے ہوئے تھے۔ میں اقتصادیات میں اور رفیق اللہ انگریزی ادب میں ایم اے کر رہا تھا۔ پہلی ملاقات میں اس نے انگریزی ادب پر جو گفتگو کی‘ کاش اسے ریکارڈ کیا جا سکتا۔ یوں لگتا تھا کلاسیکی انگریزی ادب اس کی مٹھی میں بند تھا۔
رات کے کھانے کے بعد طلبہ برآمدوں میں ٹولیوں کی صورت کھڑے ہو جاتے اور مختلف موضوعات پر بحث کرتے۔ مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے درمیان تفاوت( disparity)پر سب سے زیادہ بحث ہوتی۔ ان بحثوں میں میں اور رفیق اللہ بھی شامل ہوتے۔ بسا اوقات کھڑے کھڑے‘ باتیں کرتے کرتے‘ صبح کی اذان سنائی دیتی۔ رفتہ رفتہ ہماری واقفیت دوستی میں بدل گئی۔ ہوتے ہوتے روٹین یہ بن گئی کہ کھانے اور بحث کے بعد رفیق اللہ میرے کمرے میں آجاتا۔ہم مطالعہ بھی کرتے‘ گفتگو بھی ! چائے کا دور چلتا۔ وہ سگریٹ نوشی کرتا تھا۔ میں اس نعمت سے محروم تھا۔ پوپھٹنے سے ذرا پہلے‘ وہ اپنے کمرے میں چلا جاتا۔ یونیورسٹی کی لائبریری وہاں چوبیس گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ پوپھٹے‘ پڑھاکو طلبہ لائبریری سے واپس آرہے ہوتے۔ یوں بھی ہوسٹل میں رات بھر جاگنے کا رواج تھا۔ چھٹیاں ہوتیں تو طلبہ گھروں کو چلے جاتے سوائے ہم مغربی پاکستانیوں کے۔ہوسٹل ویران ہو جاتا۔ایسے ہی ایک موقع پرکہا تھا:
پو پھٹے تک جاگنے والے گھروں کو چل دیے
اُونگھتے برآمدوں سے ہال سُونا ہو گیا
رفیق اللہ چوموہانی سے تھا۔ یہ قصبہ ڈھاکہ اور چٹاگانگ کے درمیان واقع ہے۔ والد عالمِ دین تھے۔ رفیق اللہ ایک نفاست پسند انسان تھا۔ ہمیشہ سفید قمیض اور سفید پتلون میں ملبوس ہو تا۔طالب علم ہو کر ایسے لباس کا اہتمام آسان نہ تھا مگر اسے اسی لباس میں دیکھا۔ پہلا روزہ آیا تو افطار کے لیے مشہور نیو مارکیٹ لے گیا اور پُر تکلف افطاری کرائی۔ وہ بہت اچھا سنگر تھا۔ کبھی کبھی گاتا اور سماں باندھ دیتا۔ انگریزی ادب اس کے لیے ایم کرنے یا ملازمت کے حصول کا ذریعہ نہ تھا۔ یہ اس کا عشق تھا۔ اکثر طعنہ دیتا کہ شاعر ہو کر اکنامکس میں ایم اے کرنا کورذوقی کے سوا کچھ نہیں۔اس کا مؤقف تھا کہ انگریزی ادبیات کا مطالعہ شاعری کو چار چاند لگا دیتا ہے اور انگریزی ادب کا مطالعہ کرنے کے لیے کم از کم ایم اے ضرور کر لینا چاہیے۔وہ اکثر کہتا کہ جسے ادب سے تھوڑا سا بھی لگاؤ ہو اسے انگریزی ادب پڑھنا چاہیے۔رفتہ رفتہ میں نے ارادہ باندھ لیا کہ واپس‘ اسلام آباد جا کر ایم اے انگریزی کا امتحان دوں گا۔
ایم اے فائنل کے امتحان سر پر آگئے۔ ہماری روٹین وہی رہی۔ فرق یہ تھا کہ اب زیادہ وقت مطالعہ میں گزرتا۔اس کے سگریٹ اور میری چائے کی پیالیاں زیادہ ہو گئیں۔پھر ہم نے امتحان دیا۔ یہاں کی یونیورسٹیوں کے بر عکس‘ وہاں پرچہ تین گھنٹوں کے بجائے چار گھنٹوں کا ہوتا تھا۔ وہ امتحان سے فارغ ہوتے ہی چومو ہانی چلا گیا۔ کچھ ہفتوں کے بعد میری واپس مغربی پاکستان روانگی تھی۔ رخصت کرنے وہ چومو ہانی سے خصوصی طور پر ڈھاکہ آیا۔
مغربی پاکستان واپس آکر ایم اے انگریزی کی تیاری کی مگر امتحان دینے کے بجائے سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھ گیا۔ رفیق اللہ سے خط و کتابت جاری رہی۔میرے ایم اے کے رزلٹ سے اسی نے آگاہ کیا اور اخبار کا تراشہ بھیجا۔ہم دونوں ایم اے کے امتحان میں پاس ہو گئے تھے۔ اس نے کچھ عرصہ چوموہانی کالج میں پڑھایا۔ پھر مقابلے کا امتحان دے کر بنگلہ دیش سول سروس میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے خطوط انگریزی ادبِ عالیہ کا حصہ لگتے تھے۔ الفاظ اور محاورے اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے تھے۔ایک خط میں اس نے اطلاع دی کہ اس کے دو بیٹے تبلیغی جماعت کے ساتھ فلاں تاریخ کو راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔میں ان بچوں کو تبلیغی جماعت کے پنڈی مرکز '' زکریا مسجد‘‘ سے گھر لے آیا۔ ہوبہو باپ کی تصویر تھے۔بات کرنے کا انداز بھی وہی تھا۔ مراسلت میں جب بھی تعطل آتا‘ میری کاہلی اور نالائقی کی وجہ سے آتا۔ ہر بار رفیق اللہ ہی از سرِ نو سلسلہ شروع کرتا۔ ہوتے ہوتے وقفہ طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ کئی سال بیت گئے۔
ایک دن ایک دراز ریش‘ دستار پوش نوجوان میرے گھر آیا۔ اس کا تعلق چک لالہ سے تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ہے اور امریکی ریاست نبراسکا کے دارالحکومت اوماہا میں رہتا ہے۔اس نے رفیق اللہ کی طرف سے مکتوب اور تحائف سے بھرا ایک بڑا سا بیگ دیا۔ رفیق اللہ کچھ برس پہلے ڈھاکہ سے ہجرت کر کے اوماہا منتقل ہو چکا تھا۔ بیگ میں قمیضیں‘ ٹائیاں‘ اور بیگم کے لیے سویٹر اور ہینڈ بیگ تھے۔ ہمارا رابطہ ایک بار پھر بحال ہو گیا۔ اس باربھی بحالی کا سہرا رفیق اللہ ہی کے سر تھا۔ وہ حج پر جا رہا تھا۔ اب وہ ہر خط میں دعا کرنے کے لیے کہتا۔
2005ء کا ستمبر تھا۔ ہماری نواسی زینب کی پیدائش پر ہم میاں بیوی امریکہ میں تھے۔ منی سوٹا ریاست کے شہر راچسٹر کے مشہور میو ہسپتال میں ڈاکٹر عمار‘ بچوں کی ہارٹ سرجری کی ٹریننگ لے رہے تھے۔ رفیق اللہ کو بتایا کہ میں راچسٹر میں ہوں۔ اس نے کہا کہ سب لوگ فوراً اوماہا پہنچو۔میں نے اسے سمجھایا کہ زینب صرف سات دن کی ہے۔اتنا لمبا سفر کیسے کر سکتے ہیں۔ اس نے کہا کہ یہ امریکہ ہے۔ کچھ نہیں ہو گا۔ عمار ہمیں لے گئے۔ ساڑھے پانچ سو کلو میٹر دور ہم اوماہا پہنچے۔ رفیق اللہ‘ کرتے پاجامے میں ملبوس‘ بچوں اور پوتوں کے ساتھ دروازے پر کھڑا تھا۔ ہم 35سال کے بعد مل رہے تھے۔ پانچ دن کا قیام رہا۔ ہم دونوں کبھی ماضی کی پوٹلی کھولتے‘ کبھی دکھوں کی زنبیل! کبھی اُن کامیابیوں اور مسرتوں کا شکر ادا کرتے جو ہمیں عطا ہوئیں۔ رخصت ہونے لگے تو اس کا چھ سالہ پوتا رو رہا تھا کہ ساتھ جانا ہے۔
واپس پاکستان آکر میں ملازمت اور گھر کے جھمیلوں میں الجھ گیا۔ سال بھر بعد اس کی وہ ہولناک ای میل ملی جس نے اوسان خطا کر دیے۔ ڈاکٹر نے کینسر کی تشخیص کی تھی۔ منیر نیازی نے کہا تھا ''اس کے بعد اک لمبی چُپ اور تیز ہوا کا شور‘‘۔ اب وہ میری کسی میل کا جواب دینے کی حالت میں نہیں تھا۔ ایک لمبی چُپ کے بعد فرحانہ بیٹی کی میل موصول ہوئی۔ ''انکل! آپ کے دوست ہمیشہ کے لیے چلے گئے‘‘۔ کئی دن مجھ پر مردنی چھائی رہی۔ پھر میں نے اُس پر ایک مضمون لکھ کر پارہ پارہ دل کو لفظوں میں ڈھالا۔ یہ مضمون ڈھاکہ کے روزنامہ ''دی بنگلہ دیش ٹو ڈے‘‘ میں چھپا۔وہاں سے اس مضمون کو ڈھاکہ کے ہفت روزہ ''ہالی ڈے‘‘ نے بھی اٹھایا۔ رفیق اللہ کے بچوں تک بھی یہ نثری مرثیہ پہنچا۔ وہ ایک بار پھر نئے سرے سے روئے!
چومو ہانی سے اوماہا بارہ ہزار آٹھ سو کلو میٹر ہے اور اوماہا سے اسلام آباد گیارہ ہزار چھ سو کلو میٹر ! مگر زمینی فاصلوں اور زمانی فاصلوں میں جہانوں کا فرق ہے۔ کل فرحانہ بیٹی کی ای میل ملی کہ انکل ! ابو یاد آتے ہیں تو آپ کو میل لکھنے بیٹھ جاتی ہوں ! غالب نے کہا تھا ؎ 
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے

Tuesday, December 27, 2022

صادق اور امین —————- واپس آجاؤ


اگر آسمان  سے پتھر نہیں برسے، اگر زمین دھنس نہیں گئی،  اگر  بجلی کا کڑکا سنائی نہیں  دیا، تو اطمینان کی کوئی بات نہیں! نہ ہی  اس کا مطلب یہ ہے کہ خدائے واحد و قہّار اپنے حبیب  کی  عزت  کا ذمہ دار  نہیں رہا! انتظار کرو اور دیکھو کہ ہوتا کیا ہے۔

جو اصطلاح، جو ٹائیٹل، جو خطاب،  جو لقب ، اللہ کے حبیب کے لیے مختص ہو چکا ، وہ اصطلاح، وہ ٹائیٹل، وہ خطاب،  وہ لقب،کوئی اور کیسے  استعمال کر سکتا ہے ؟ جس طرح کالی کملی والا اس دنیا میں ایک ہی ہے، جس طرح سبز گنبد والا اس آسمان کے نیچے ایک ہی ہے، جس طرح مزّمّل اور کوئی نہیں ، جس طرح مدّثّر اور کوئی نہیں ، اسی طرح، بالکل اسی طرح ، صادق اور امین بھی اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک اصطلاح ہے اور آپ کے لیے، صرف آپ کے لیے ، مخصوص ہے!  صادق اور امین تو وہ تھے جن کا شباب پورے چاند کی چاندنی کی طرح شفاف تھا۔جن کی عفت کی قسم فرشتے کھاتے تھے۔  جن کے پاؤں کی خاک بادشاہوں کی آنکھوں کا سرمہ تھی مگر برہنہ چٹائی پر استراحت فرماتے  تو مقدس بدن پر نشان پڑ جاتے۔  جن کے دن فاقوں میں گذرتے اور راتیں عبادت میں کھڑے ہو کر گذرتیں یہاں تک کہ مقدس پَیروں پر ورم پڑ جاتے۔ جنہوں نے ساری زندگی جھوٹ بولا نہ عہد شکنی کی۔ امین؟ امین تو وہ تھے جو ہجرت کی رات بھی  امانتوں کو نہیں بھولے۔ جن کے دشمن اپنی امانتیں انہی کے پاس رکھواتے تھے!  کیا دنیا میں ایک مثال بھی ایسی ہے کہ کسی نے اپنی امانت اُس شخص کے پاس رکھوائی ہو  جس کی جان کا وہ دشمن ہو؟اور  تم نے یہ ٹائیٹل ایک ایسے شخص کو دے دیا جس کا ماضی ناقابل رشک اور جس کا حال ناقابل اعتبار ہے!اللہ کے عذاب سے ڈرو! اس گنہگار نے دنیا ٹی وی پر، کامران شاہد کے پروگرام میں،  دہائی دی کہ اے اہل وطن ! یہ ٹائیٹل صرف اور صرف ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص ہے! اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو! اس گستاخی سے ڈرو! اور خدا اجر دے کامران شاہد کو جس نے پوری قوت سے تائید کی! 

جس آمر نے آئین کے ساتھ کُشتی لڑی اور اس مقدس اصطلاح کو آئین میں ڈالا وہ خود صادق تھا نہ امین!  نوّے  دن کا وعدہ کروڑوں انسانوں کو سنا کر کیا اور پھر اس وعدے کو توڑا۔آئین امانت تھا جس کی اس نے حفاظت کرنا تھی  مگر اس نے کہا یہ تو کاغذ کا ٹکڑا ہے ۔جس نے سرحدوں کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا مگر سرحدوں کو عملا” معدوم کر کے رکھ دیا اور لاکھوں مسلح غیر ملکیوں کو اندر لاکر ملک کی مقدس  سرحدوں کو پامال کرایا! اس کے بعد آنے والوں پر فرض تھا کہ آئین کے ساتھ کی گئی اس کھلواڑ کو کالعدم کرتے مگر انہوں نے ایسا نہ کیا۔ پھر جو کچھ ان کے ساتھ ہؤا، سب نے دیکھا اور دیکھ رہے ہیں !

عقلمندوں نے کہا تھا۔ ؏
با خدا دیوانہ باش و با محمد ہوشیار 

اور وارننگ دی تھی کہ ؎
ادب گاہیست زیر آسمان از عرش نازک تر 
نفس  گم  کردہ  می  آید  جنید  و با یزید   اینجا 

یہاں تو بایزید  اور سید الطائفہ جنید  بھی حاضر ہوتے ہیں تو ان کے  ہوش اُڑ جاتے ہیں ۔تم نے خدا کے پیغمبر کے  پاک القابات  کو سمجھ کیا رکھا ہے  کہ جسے چاہو اسے یہ القاب  پہنا دو! یہ گستاخی ہے۔اور سورج  مغرب سے تو طلوع ہو سکتا ہے اور آسمان زمین کی جگہ اور زمین آسمان کی جگہ تو لے سکتی ہے اور درخت چل پھر تو سکتے ہیں اور دریا ؤں کی روانی  پر سکتہ تو طاری ہو سکتا ہے  مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ جس خدا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول بنایا وہ خدا  اس کے القاب  کی حفاظت نہ کرے اور غارتگری کرنے والوں کو چھوڑ دے! تم بھی انتظار کرو! ہم بھی انتظار کرتے ہیں ! 

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ صاحب خود کہتے کہ وہ اس مطہّر ٹائیٹل کے سزاوار نہیں۔اور جن صاحب  نے یہ لقب انہیں دینے کی جسارت کی وہ درِ توبہ پر دستک دیتے مگر انسان طاقت کے چبوترے پر کھڑا ہو تو اس کی نظر محدود سے محدود تر ہو جاتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا بادشاہ،  کوئی وزیر اعظم،  کوئی جج، کوئی چیف  جسٹس، کوئی کھلاڑی، کوئی فنکار، کوئی نابغہ، کوئی عبقری،  سیّدِ مکی، مدنی العربی کے سامنے تو کیا، ان کے غلاموں کے غلاموں کی خاکِ پا کے سامنے بھی  ریت کے دانے کی حیثیت نہیں رکھتا!  تم نے خدا کے دین کو بازیچۂ اطفال بنا رکھا ہے؟ کبھی اُن نیکو کاروں پر طنز کرتے ہو جو طوافِ حرم   اور روضۂ پاک کی زیارت کے لیے گھروں سے نکلے ہیں ۔کبھی بڑ ہانکتے ہو کہ( میرے منہ میں خاک)  قبر میں سوال ہو گا کہ تمہارا ساتھ دیا یا نہیں ! اور بات بات پر تم اپنی حکومت کو  ریاست مدینہ  سے تشبیہ دیتے ہو!  تمہیں معلوم نہیں کہ ریاست مدینہ کے حکمران نبیِ صادق صلی اللہ علیہ وسلم  تھے ؟ کیا تم نہیں جانتے کہ ریاست مدینہ کے والی ابو بکر، عمر، عثمان اور حیدر کرار تھے اور اب دنیا میں ان جیسا کوئی نہیں پیدا ہو سکتا! اس زمین پر ایسے ایسے حکمران گذرے ہیں جن کی تکبیر اُولیٰ کبھی ضائع نہیں ہوئی، جو راتوں کو گلیوں میں پھر کر اہلِ حاجت کو تلاش کرتے تھے مگر انہیں بھی یہ جرآت ، یہ جسارت نہ ہوئی کہ ریاست مدینہ کا نام استعمال کرتے! ریاست مدینہ کے حکمران تو حکمران تھے، ان کے ماتحت گورنر بھی ترکی گھوڑے پر سواری نہیں کر سکتے تھے۔ اور یہاں حکمران نے ہیلی کاپٹر کی سواری پر قومی خزانے کے 
43 
کروڑ روپے لگا دیے اور بات بات پر ریاست مدینہ کا ذکر؟  بازی بازی ، با ریش بابا  ہم بازی ؟ کیا خدا کا خوف عنقا ہو گیا ہے؟ جس ہستی کے سامنے  عمر فاروق اور حیدر کرار جیسی ہستیاں آواز تک اونچی نہیں کر سکتی تھیں، اُس ہستی کے القاب کوئی اور کیسے استعمال کر سکتا ہے؟ اور وہ بھی اِس زمانے میں ؟ ایسا تو خیر القرون میں بھی نہ ہؤا! 

موت سے پہلے توبہ کا دروازہ کھُلا ہے! بشرطیکہ گناہ کا احساس ہو جائے! ابھی وقت ہے، جنہوں نے یہ لقب دیا، جنہوں نے قبول کیا اور جنہوں نے اس کی حمایت کی، توبہ کریں! اپنی جسارت پر اللہ اور اس کے رسول سے معافی کے خواستگار ہوں! اس دیدہ دلیری پر، اس 
Audacity 
پر ندامت کا اظہار کریں! بعید نہیں کہ  عاقبت بھی سنور جائے اور دنیا کی پریشانیاں بھی دور ہو جائیں۔  غیراللہ کی چوکھٹ پر بوسے دے کر دیکھ لیا۔
 حُرمت رسول کی دہلیز بھی چوم کر دیکھو ۔ابو سعید ابوالخیر ( رح) نے اصرار کیا تھا ؎

باز آ، باز آ، ہر آنچہ ہستی باز آ 
کر کافر و گَبر و بُت پرستی، باز آ 
این درگہِ  ما  درگہِ  نومیدی نیست 
صد  بار  اگر  توبہ شکستی  ، باز  آ 

واپس آجاؤ! واپس آجاؤ!تم جو کچھ بھی ہو ، واپس آجاؤ۔ کافر ہو یا آتش پرست یا بتوں کے پجاری، واپس آجاؤ! یہ ہمارا دروازہ  ناامیدی کا  دروازہ  نہیں ! سو بار توبہ توڑ چکے  ہو، تب بھی آجاؤ!!! 
…………………………………

Monday, December 26, 2022

عمران خان اور امورِ خارجہ



پہلے یہ خبر پڑھ لیجیے: '' 

سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا معاملہ اچھے طریقے سے حل کرسکتے ہیں‘ بھارت کے حوالے سے جنرل باجوہ نرم پالیسی کے خواہاں تھے۔ لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب بھی اس بات کا یقین ہے کہ بھارت میں صرف رائٹ ونگ پارٹی ہی کشمیر کا معاملہ حل کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیراعظم تھے تو اس وقت نریندر مودی کا تعلق بھی رائٹ ونگ پارٹی سے تھا اس لئے وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔ جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کا بیان بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں تھی اور کیا وزیراعظم کی حیثیت سے ان کو بھارتی معاملات کے حوالے سے ایسا بیان دینا چاہیے تھا۔ اس کا جواب دینے سے وہاں پر موجود سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے عمران خان کو روک دیا اور اس سوال کو دوسرے پیرائے میں عمران خان کے سامنے رکھ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے 5 اگست 2019ء کو جب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے اہم فیصلے لئے تو اس کے بعد ان کی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی ترک کردی‘‘

یعنی اگست2019ء میں جب بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے'' اہم فیصلے‘‘ کیے تو اس کے بعد عمران خان کی حکومت نے بھارت سے تعلقات بہتر کرنے کی پالیسی ترک کر دی۔ اس کے باوجود وہ اب بھی اپنے اس بیان پر قائم ہیں کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کشمیر کا معاملہ اچھے طریقے سے حل کر سکتے ہیں۔تیسری اہم بات عمران خان نے یہ کی ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔

غالباً عمران خان واحد پاکستانی ہیں جنہیں اب بھی مودی سے اچھائی کی توقع ہے یعنی اس بات کی امید ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ ''اچھے طریقے‘‘ سے حل کر سکتے ہیں ! اور عمران خان واحد پاکستانی تھے جو چاہتے تھے کہ بھارت میں مودی انتخابات میں کامیابی حاصل کریں۔یہ مودی کون ہے ؟ وہی جس نے گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد کہا تھا کہ کتے کا بچہ گاڑی کے نیچے آکر مر جائے تو افسوس تو ہوتا ہے۔ ایک بچے کو بھی معلوم ہے کہ مودی کی پارٹی‘ بی جے پی‘ کا بنیادی نظریہ '' ہندوتوا‘‘ کا ہے۔ اس نظریے کا بانی مشہور متعصب ہندو لیڈر ساورکر تھا۔ ساورکر ( وفات 1966ء۔مہاراشٹر) کے اس رسوائے زمانہ نظریے‘ ہندوتوا کا مطلب ہے کہ ہندوستان ایک ہندو ریاست ہے جس میں دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کی کوئی گنجائش نہیں ! اکھنڈ بھارت بھی اسی نظریے کا ایک حصہ ہے جس کا مطلب ہے کہ پورا بر صغیر ( بشمول پاکستان و بنگلہ دیش) ہندو ریاست ہے۔ساورکر ہندو‘ سکھ‘ جین اور بدھ سب کو ایک اکائی مانتا تھا اورکہتا تھا کہ مسلمان اور مسیحی ہندو ریاست میں فِٹ نہیں ہو سکتے۔ مغربی مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ ساور کر نے مسلم دشمن جذبات پیدا کیے۔ وہ اس بات کا مخالف تھا کہ مسلمانوں کو فوج‘ پولیس اور پبلک سروس میں ملازمتیں ملیں۔1963ء میں اس نے ایک کتابSix Glorious Epochs of Indian Historyکے عنوان سے لکھی جس میں یہ نظریہ زور و شور سے پیش کیا کہ مسلمان اور مسیحی‘ ہندوازم کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔بی جے پی‘ اصل میں‘ آر ایس ایس کا سیاسی چہرا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ آر ایس ایس بھارت کی سرزمین پر مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔�یہ ہے‘ بہت اختصار کے ساتھ‘ ہندوتوا کا نظریہ جو مودی حکومت کی بنیاد ہے۔ پوری دنیا کو معلوم ہے کہ جب سے مودی حکومت آئی ہے‘ بھارت کے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ ہو رہا ہے! کون سا ظلم ہے جو نہیں ڈھایا گیا۔ بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو قابلِ قبول ہیں مگر مسلمان نہیں۔ بی جے پی کی حکومت مسلمانوں کو اسی طرح اقلّیتی خرابوں (Ghettos)میں رکھنا چاہتی ہے جیسے اسرائیل میں ہو رہا ہے۔ اس کا آغاز مودی حکومت نے آسام سے کیا اور مسلمانوں سے شہریت کا ثبوت مانگنا شروع کر دیا حالانکہ مسلمان صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان مسلمانوں سے بھی شہریت کا ثبوت مانگا جا رہا ہے جو بھارتی فوج میں ملازمت کر کے ریٹائر ہوئے ہیں۔ کیا عمران خان کو معلوم ہے کہ فروری2020ء میں دہلی میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوا تھا اور کپل مشرا کون ہے ؟ خان صاحب ہر ملک‘ ہر خطے‘ ہر علم کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں۔ کیا انہیں معلوم ہے کہ ادتیا ناتھ کون ہے اور کیا کر رہا ہے؟ یو پی کا یہ چیف منسٹر بی جے پی کی مکروہ ترین شکل ہے۔ اس نے یوپی کے مسلمانوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ اس نے یہاں تک کہا کہ مری ہوئی مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکالو اور ان کے ساتھ زیادتی کرو۔ اس نے الہ آباد‘ آگرہ اور کئی اور شہروں کے نام تک بدل دیے۔ سنا ہے کہ یہ شخص اگلا وزیر اعظم ہو گا۔ امیت شاہ دوسرا مکروہ ترین چہرا ہے بی جے پی کا۔ اس حکومت کے دوران ہزاروں مسلمان گائے کے گوشت کے چکر میں مار دیے گئے۔ جنوبی ہند کی جن ریاستوں میں تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کا خصوصی کوٹہ تھا‘ ختم کر دیا گیا۔ صرف پچھلے ہفتے کی تین خبروں پر غور کیجیے۔ مسلمانوں کی معاشی تباہی کے لیے کرناٹک کی اسمبلی میں حلال فوڈ انڈسٹری پر پابندی لگانے کی غرض سے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ ضلع بریلی کے ایک سرکاری سکول میں طلبہ سے علامہ اقبال کا دعائیہ کلام ''لب پہ آتی ہے دعا‘‘ پڑھوانے کی شکایت پر پرنسپل کو معطل کردیا گیا۔ایک اور شہر میں نماز جمعہ ادا کرنے والے مسلمانوں پر حملہ کیا گیا ہے۔ہر روز ایسے بیسیوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔�اس سب کچھ کے باوجود خان صاحب کو مودی سے اچھی امید ہے۔ امریکی الیکشن کے دوران ان کی ہمدردیاں کھلم کھلا ٹرمپ کے ساتھ تھیں ! روایت یہ بھی ہے کہ امریکی الیکشن کے دوران پاکستانی سفارت خانہ ٹرمپ کے فائدے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا۔ ایک وزیر اعظم یا سابق وزیر اعظم یا دوبارہ وزیر اعظم بننے کے خواہشمند سیاستدان کو امور خارجہ پر بیان دیتے وقت متوازن ہونا چاہیے اور بہت زیادہ محتاط! وزارت عظمیٰ کے دوران‘ نیویارک میں‘ مہاتیر اور اردوان کے ساتھ مل کر خان صاحب نے ملائیشیا کانفرنس کا پلان بنایا۔ پھر سعودی عرب تشریف لے گئے اور وہاں سے واپسی پر کوالالمپور جانے سے انکارکر دیا۔ اور پھر اردوان کوکیسے معلوم ہوا کہ خان صاحب کس ملک کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹ گئے؟؟ مرزا رفیع سودا یاد آگئے 
�ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
�تڑپے ہے مرغِ قبلہ نما آشیانے میں
�کچھ لوگوں کو قدرت کی فیاضی وجاہت بخشتی ہے اور دلکش شخصیت ! مگر جب وہ بولتے ہیں تو شخصیت کی دلکشی کا بت دھڑام سے نیچے گر جاتا ہے۔ جبھی تو سعدی نے متنبہ کیا تھا کہ 
�تا مرد سخن نگفتہ باشد

�عیب و ہنرش نہفتہ باشد
�جب تک انسان خاموش رہتا ہے اس کی خوبیوں اور خامیوں پر پردہ پڑا رہتا ہے۔اقبال نے نصیحت کی تھی
�کم خور و کم خواب وکم گفتار شو�
گردِ حق گردندہ چون پرکار شو
�کم کھا‘ کم سو اور کم بول۔ اور سچائی کے گرد پرکار کی طرح چکر لگا! مگرکون سا سعدی اور کہاں کا اقبال؟ ان سے زیادہ دانا مشورہ دینے کے لیے دست بستہ کھڑے ہیں !!!

بشکریہ روزنامہ دنیا

Thursday, December 22, 2022

پلک جھپکنے کی دیر ہے


صائمہ خان ایک نیک دل خاتون تھیں۔ انہوں نے اسلام آباد کے علاقے چک شہزاد میں ایک چھوٹے سے گھر میں‘‘ اولڈ ہوم‘‘ بنایا ہوا تھا۔اس میں وہ چار یا پانچ بے گھر بزرگ مردوں اور بزرگ عورتوں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔ گھر چھوٹا تھا۔ پھر یہ سارا کام وہ تن تنہا ہی سر انجام دیتی تھیں۔ گنتی کے چند افراد اس کام میں مالیاتی شرکت کر لیتے تھے‘ وہ بھی کبھی کبھی‘ مگر انتظام سارا صائمہ خان کے کندھوں پر تھا۔ یہ کام وہ ملازمت کے ساتھ ساتھ کر رہی تھیں۔ میں ایک بار اس اولڈ ہوم میں گیا اور ان کی بے لوث خدمت سے بے حد متاثر ہوا۔ سال بھر پہلے صائمہ خان گاڑی کے حادثے میں جاں بحق ہو گئیں۔اولڈ ہوم بند ہو گیا۔صائمہ خان اولڈ ہوم میں لائے جانے اور رکھے جانے والے بزرگوں کے حالات کبھی کبھی اپنی وال پر لکھتی تھیں۔ یہ حالات درد ناک بھی ہوتے تھے اور عبرتناک بھی ! ایک بار انہوں نے ایک بزرگ خاتون کو فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ساتھ سامان کی پوٹلی پڑی تھی۔پوچھا تو معلوم ہوا بہو نے گھر سے نکال دیا ہے۔ صائمہ خان انہیں اولڈ ہوم لے آئیں۔ ان کے بیٹے نے انہیں واپس لے جانا چاہا مگر بزرگ خاتون نے انکار کر دیا۔ جس دن میں اولڈ ہوم گیا‘ صائمہ خان نے مجھے اس بزرگ خاتون سے ملوایا۔ اولڈ ہوم بند ہونے کے بعد نہ جانے ان کا کیا بنا۔ایک اور صاحب جو بہت امیر کبیر تھے‘ گردشِ زمانہ سے تہی دست ہو کر‘ گرتے پڑتے‘ اولڈ ہوم پہنچے۔ بہت بیمار تھے۔ صائمہ خان نے ان کے ٹیسٹ کروائے اور علاج مہیا کیا۔
بزرگوں کے معاملے میں ہمارا معاشرہ گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں کے دوران بہت تبدیل ہو چکا ہے۔ بد قسمتی سے یہ تبدیلی مثبت نہیں منفی ہے۔ یہ معاشرہ تو ایسا تھا کہ بزرگ‘ آخری دم تک خاندان کا مرکز رہتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بیٹے اور پوتے چلتے وقت بڑے میاں کے پیچھے چلا کرتے۔ کھانا کھانے کا وقت ہوتا تو ہاتھ دھلانے کے لیے دوڑ لگتی۔ چارپائی سے نیچے اترنا ہوتا یا مسجد سے باہر نکلتے تو بیٹے آگے بڑھ کر جوتے سیدھے کرتے۔ گھر میں‘ یا کسی مجلس میں باپ داخل ہوتا تو بیٹے اُٹھ کر کھڑے ہو جاتے۔ہمارے گاؤں میں تین نیم تعلیم یافتہ بھائی تھے۔ ان کا والد ایک اَن پڑھ زمیندار تھا۔ وہ گھر سے نکلتا اور اس کے کھانسنے کی آواز مردانے میں پہنچتی تو تینوں لڑکے فوراً کھڑے ہو جاتے! یہی مقام استاد کا بھی تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اُس زمانے میں بڑے بڑے لوگ اپنے سر سے نئی پگڑی اتار کر استاد کی کرسی‘ یا مسند‘ صاف کرتے۔اور یہ واقعہ تو مشہور ہے کہ شاگرد اور استاد دونوں زندان میں تھے۔سرما کا موسم تھا۔ شاگرد رات بھر ٹھنڈے پانی کا کوزہ اپنے جسم سے لگائے رکھتا۔ یوں سحری تک پانی ذرا سا گرم ہو جاتا۔ گرم کیا ہوتا‘ بس یخ بستگی ذرا کم ہو جاتی۔وہ یہ پانی وضو کے لیے استاد کی خدمت میں پیش کرتا۔ اس ماحول میں اور ان روایات کے ساتھ‘ بزرگ جب ضعفِ پیری کا شکار ہو تے تو ان کی دیکھ بھال میں پورا خاندان جُت جاتا۔ مشترکہ خاندانی نظام (جوائنٹ فیملی سسٹم) بھی اپنا کردار ادا کرتا۔ بیٹیاں‘ بہوئیں‘ بھتیجیاں‘ بیٹے‘ پوتے‘ چھوٹے بھائی‘ داماد‘ سب بابے کی خدمت میں رات دن ایک کر دیتے۔ بزرگ کئی کئی سال صاحبِ فراش رہتے مگر دیکھ بھال میں کمی نہ آتی!
آج کا منظر نامہ کیا ہے ؟ آج کا منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ بزرگوں کی بد قسمت ترین کیٹیگری وہ ہے جن کے سب بیٹے بیٹیاں ملک سے باہر چلے گئے ہیں۔ اب صرف میاں بیوی گھر میں رہ گئے ہیں۔ اس صورتحال کوEmpty Nest Syndrome بھی کہا جانے لگا ہے۔ یعنی ؎
خالی مکاں میں کوئی نہ لَوٹا تمام عمر
دو پہریدار روتے رہے‘ جاگتے رہے
مشترکہ خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہو چلا۔بیٹے دو اقسام میں بٹ گئے۔ ایک قسم ان خوش بخت بیٹوں کی ہے جن کی بیویاں نجیب خاندانوں سے ہیں۔ان بیویوں نے اپنے ماں باپ کے گھر میں‘ اپنے دادا دادی اور نانا نانی کی خدمت ہوتے دیکھی ہے۔ بزرگوں کی تعظیم اور احترام ان کی تربیت کا حصہ ہے۔ ایسی خواتین اپنے سسر اور ساس کی خدمت بجا لانے میں میاں کا ساتھ دیتی ہیں اور میاں کے جذبات کا خیال رکھتی ہیں۔ مسئلے کا انحصار بنیادی طور پر بیٹے کے رویے پر ہے۔ بعض سیاہ بخت اپنے بزرگوں سے خود ہی غافل ہو جاتے ہیں۔یہ دنیا اور عاقبت دونوں میں خسارے کا سودا ہے۔
مرحوم ملک غلام مرتضیٰ‘ غالباً پہلے واعظ تھے جنہوں نے شد و مد سے یہ بات کہی کہ عورت اپنے ساس سسر کی خدمت کی ذمہ دار نہیں اور یہ کہ شوہر کا فرض ہے کہ بیوی کو پکا ہوا کھانا مہیا کرے۔ اس تصور پر گرفت ہو ئی تھی۔ ہر شخص کے مالی حالات ایسے نہیں ہوتے کہ وہ الگ گھر لے سکے اور ماں باپ کی خدمت کے لیے ملازم رکھ سکے۔ کچھ تقاضے انسانیت کے حوالے سے بھی ہوتے ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروقؓ جس بڑھیا کے گھر میں پو پھٹے جا کر صفائی کرتے تھے‘ وہ تو ان کی رشتہ دار تک نہیں تھی! ایک ٹی وی فیم مشہور واعظہ نے بھی یہ خیال اپنی پیروکارعورتوں کے ذہنوں میں راسخ کر دیا ہے کہ ساس سسر کی خدمت ان کے فرائض میں شامل نہیں۔ اس کے اثرات کا مشاہدہ متعدد خاندانوں میں ہم نے خود کیا ہے۔ ہمارے ایک دوست راوی ہیں کہ ایک بیوی نے کہا کہ شریعت کی رُو سے وہ کھانا پکانے کی مکلّف ہے نہ اپنے ساس سسر کو ساتھ رکھنے کی۔ شوہر نے کہا کہ آپ بالکل درست فرما رہی ہیں۔ شریعت نے مجھے عقدِ ثانی کی اجازت دے رکھی ہے‘ میں ایک اور بیوی لے آتا ہوں جو یہ فرائض سر انجام دے گی۔ اس پر بیوی مسکرائی اور کہا کہ وہ تو مذاق کر رہی تھی اور یہ کہ میاں کے والدین کو وہ اپنے والدین کی طرح سمجھتی ہے۔
آج کی بہوؤں میں سے اچھی خاصی تعداد اپنے ساس سسر کی خدمت تو دور کی بات ہے‘ انہیں ساتھ رکھنا بھی نہیں پسند کرتی ! دوسری طرف وہ یہ چاہتی ہے کہ اس کے بھائی کی بیوی اس کے ماں باپ کا خیال رکھے اور جب وہ خود میکے جائے تو اسے اور اس کے میاں اور بچوں کی بھی مہمان نوازی کرے! یہ دُہرا معیار ہمارے ہاں سکہ رائج الوقت ہو چلا ہے۔ رہی سہی کسر نجی شعبے کے ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے والے ڈراموں نے پوری کردی ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا ڈرامہ ہو جس میں لڑکی کے منہ سے یہ نہ کہلوایا گیا ہو کہ '' اپنی زندگی کے فیصلے میں خود کروں گی‘‘ !
اس گئے گزرے زمانے میں بھی ایسے سعید اور بلند اختر لوگوں کی تعداد کم نہیں جو بوڑھے ماں باپ کی خدمت ہر ممکن طریقے سے کر رہے ہیں۔ ان کی ضرو ریات کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنی بساط کے مطابق بہترین علاج معالجہ مہیا کرتے ہیں۔ جھنجھلاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ بزرگ تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ان کے پاس بیٹھا جائے تا کہ وہ باتیں کر سکیں ! جن بزرگوں کو قسّام ازل نے بیٹے نہیں دیے‘ یا بیٹے حاضر نہیں‘ ان کی دیکھ بھال ان کی بیٹیوں پر فرض ہے۔ ایسی بیٹیوں کے شوہروں پر لازم ہے کہ وہ دل بڑا کریں۔ نہ صرف بیوی کو کھلی اجازت دیں بلکہ خود بھی ساس اور سسر کی خدمت تندہی سے کریں۔یہ تو بیج ہے۔ جو بوئیں گے وہی کاٹنا ہو گا۔ پلک جھپکنے کی دیر ہے۔ ان کا اپنا بڑھاپا دروازے پر دستک دے رہا ہو گا!!

Tuesday, December 20, 2022

ایک آئینہ جسے وقت پر دیکھ لینا چاہیے


بارہ سالہ پوتے‘ حمزہ‘ کے بال کٹوانے کے لیے میں حجام کی دکان پر بیٹھا تھا۔یہ حجام ایرانی تھا۔ بیس بائیس برس کا بچہ! میرے ہر سوال کا‘ جو فارسی میں تھا‘ اس نے انگریزی میں جواب دیا۔ تارکینِ وطن کی اکثریت اپنی پہلی نسل ہی کو اپنی زبان سے جس طرح محروم کر دیتی ہے‘ یہ بچہ اس کی ایک مثال تھا۔ کچھ نے ایسا نہ کرنے کی کوشش کی اور کامیاب رہے۔ یہ ایک پیچیدہ موضوع ہے۔ اس کی کئی پرتیں ہیں۔یہ قلمکار اس مسئلے پر ایک پوری کتاب لکھ سکتا ہے۔مگر اس وقت ایک اور بات کرنی ہے۔
وہ دکان میں داخل ہوا تو میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ ماڈرن لاٹھی ! جسے یہ لوگ'' واکنگ سٹک‘‘ کہتے ہیں۔ بال بے حد سفید۔بقول سعدی :
سرو مویش از برفِ پِیری سفید!
بڑھاپے کی برف بالوں پر بُری طرح گری تھی! بال الجھے ہوئے تھے۔پتا چل رہا تھا کہ کئی دنوں سے کنگھی نہیں کی۔ خشخشی داڑھی اور آنکھوں کے درمیان جو جگہ تھی اس پر بھی بال تھے۔ داڑھی سے نیچے والے بال گلے کو جیسے کراس ہی کرنے والے تھے۔وہ کچھ دیر دکان کے درمیان کھڑا رہا پھر جیسے اپنے آپ سے پوچھا ''یہ باربر کہاں ہے ؟‘‘۔اتنے میں ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ بہت نرمی سے اس نے بوڑھے کا ہاتھ پکڑا اور بنچ پر بٹھا دیا۔ بوڑھے نے بیٹھنے کے بعد لاٹھی ایک طرف رکھ دی اور آنکھیں بند کر لیں۔ادھیڑ عمر شخص باہر چلا گیا اور ریلنگ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا۔ اس دن حجام کے ہاں رش تھا۔ کافی دیر کے بعد میں اور حمزہ باہر نکلے۔ادھیڑ عمر شخص وہیں کھڑا تھا۔میری خراب عادتوں میں سے ایک عادت‘ جو میری اہلیہ کو ناپسند ہے‘ یہ ہے کہ میں ہر شخص سے‘ بلا جھجک‘ باتیں کرنا شروع کر دیتا ہوں۔ میں نے اسے سلام کیااور پوچھا کہ کیا یہ اس کے والد ہیں؟ اس نے اثبات میں جواب دیا۔ ان کی عمر ستاسی سال تھی اور اس بیٹے کی پچپن!وہ اندر بیٹھے ہوئے بوڑھے باپ کی طرف محبت سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ تقریباً ہر وقت ان کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ ابھی واپس جا کر غسل کرنے میں ان کی مدد کرے گا۔میں نے جب کہا کہ وہ اپنے مستقبل کے لیے بہت ٹھوس سرمایہ کاری کر رہا ہے تو کہنے لگا '' ہاں! جو بوئیں گے وہی کاٹنا ہو گا‘‘۔
ترقی یافتہ ملکوں کے حوالے سے ہمارے بہت سے تصورات صحیح نہیں ہیں۔ہمارا ایک عام آدمی‘ خاص طور پر جو ملک سے کبھی باہر نہیں گیا‘ مغرب کے ہر شخص کو شرابی‘ عیاش اور بدکار سمجھتا ہے اور یہ بھی کہ یہ لوگ اپنے بزرگوں کی دیکھ بھال نہیں کرتے! یہ جو اصطلاح ہے مغرب کی‘ یہ بھی پیچیدہ ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سے آسٹریلیا‘ نیوزی لینڈ‘ جنوبی کوریا‘ سنگاپور‘ جاپان ہمارے مشرق میں ہیں۔ ہم جب مغرب کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ترقی یافتہ ممالک ہوتے ہیں۔ یہ اور بات کہ '' ترقی یافتہ‘‘ کی اصطلاح بجائے خود غور طلب ہے! آسٹریلیا اور کینیڈا میں چینی کثیر تعداد میں بس رہے ہیں۔ ایشیائی قدروں کی بدولت چینی خاندان اپنے بزرگوں کی بہت دیکھ بھال کرتے ہیں۔ رہے سفید فام تو وہ سارے کے سارے ایسے نہیں جیسا ہم سمجھتے ہیں۔کلچر کا فرق بہر طور موجود ہے۔ جس طرح ہم اپنے بزرگوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں‘ ادب کرتے ہیں‘ اپنے ہاتھوں سے ان کی کنگھی کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان کا ہر کام فوراً کریں‘ مغرب میں ایسا نہیں ہے۔ ہو بھی نہیں سکتا! مگر بے شمار سفید فام اپنے بزرگوں کا خیال‘ اپنے کلچر اور اپنے طریقوں کے حساب سے‘ ضرور رکھتے ہیں۔یہاں تین عوامل اور بھی کار فرما ہیں۔ اول: اولڈ ہوم کا وجود اور رواج۔اولڈ ہوم ان لوگوں کی مجبوری بھی ہے۔ میاں بیوی دونوں صبح سے لے کر شام تک ملازمت کرتے ہیں‘ بچے سکول میں ہیں۔ سکول سے واپس آکر کھیل کے میدان میں ہوتے ہیں اور تیراکی سیکھنے جاتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو بزرگ مرد یا خاتون گھر میں ہے وہ صبح سے شام تک اکیلی رہے گی۔ گھر میں کام کرنے والے ملازم کا ان ملکوں میں وجود ہی نہیں۔ اس اکیلے پن کا اور صبح سے شام تک بے یار و مدد گار رہنے کا واحد حل اولڈ ہوم ہی تھا۔ جو اولڈ ہوم دیکھنے کا مجھے اتفاق ہوا اس میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولتیں حاضر تھیں۔کمرے اور باتھ روم ہر روز صاف کیے جاتے تھے۔ وقت پر کھانا ملتا تھا۔ ادویات وقت پر کھلائی جاتی تھیں۔ کافی اور چائے کی سہولت موجود تھی۔ مطالعہ کا کمرہ الگ تھا۔ بزرگ لاٹھیوں کے سہارے یا واکر کی مدد سے چل پھر رہے تھے۔ کچھ رضاکار یہاں باقاعدگی سے آتے تھے جن میں کچھ ترک نوجوان بھی تھے۔ وہ بھی ان بزرگوں کی خدمت کرتے تھے۔
دوم: ہمارے ہاں کے برعکس‘ ان ملکوں میں اپنا کام خود کرنے کا رواج ہے۔ ہمارے ہاں بچے ذرا بڑے ہوتے ہیں یا ملازم موجود ہو تو چالیس پچاس برس کا شخص بھی کرسی یا بستر سے اٹھنے کا نام نہیں لیتا۔ریموٹ کنٹرول ڈھونڈو‘ پانی لا کر دو۔ دوا پکڑاؤ‘ چائے میں چینی ملانے کے لیے چمچ لاؤ‘ اخبار پکڑا دو۔گھنٹی ہوئی ہے‘ دیکھو کون آیا ہے۔بالائی منزل سے فلاں کتاب لے آؤ۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان حکم چلانے والے کو ہوتا ہے۔ جسم کے اعضا زنگ آلود ہو جاتے ہیں۔مغربی ملکوں میں اپنا کام خود کرنے کا کلچر ہے۔ یہ کلچر بڑھاپے میں بھی موجود ہوتا ہے۔ جب تک بس چلے‘ ہر مرد اور عورت اپنا کام خود کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ کئی برس پہلے کا واقعہ ہے۔ امریکہ کی ریاست منی سوٹا کے قصبے راچسٹر میں ایک سپر سٹور میں ایک بہت ہی بوڑھی عورت سودا سلف سے بھری ٹرالی لے جا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا میں مدد کر سکتا ہوں ! اس نے جواب میں مجھ پر سوال داغ دیا ''کیوں‘‘۔ اپنا کام خود کرنے کی عادت ان لوگوں کو دیر تک صحت مند رکھتی ہے اور یہ تنہا رہ سکتے ہیں۔ سوم: ان ملکوں کی اکثریت سکیورٹی سٹیٹ ہے نہ پولیس سٹیٹ! بلکہ ویلفیئر سٹیٹ ہے یعنی فلاحی ریاست ! ریاست بہت حد تک بوڑھوں کو اپنے لواحقین کی احتیاج سے بچا لیتی ہے۔ پنشنروں کے لیے خصوصی گھر ہیں جہاں علاج سمیت سہولتیں دروازے تک پہنچائی جاتی ہیں یہاں تک کہ ' 'متحرک‘‘ لائبریریاں ان کے پاس چل کر جاتی ہیں‘ کتابیں ان کے بستر کے پاس کھڑی ہو کر ایشو کرتی ہیں اور واپس بھی لیتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی اخلاقیات بھی اس حوالے سے مددگار ہے۔ ڈاکٹر یا اس کا سٹاف خود رابطہ کرتا ہے کہ آپ کے فلاں چیک اَپ کو اتنا عرصہ ہو چکا ہے اور اب فلاں تاریخ کو ہونا ہے۔
اس سب کچھ کے باوجود‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر بزرگ اپنے گھر میں رہے اور اس کے بچوں یا لواحقین میں سے کوئی اس کی خدمت پر ہمہ وقت مامور ہو تو اس کا نعم البدل کو ئی نہیں! مگر کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے؟ اگر ہو رہا ہے تو ایسا کتنے بزرگوں کے ساتھ ہو رہا ہے ؟ مجموعی طور پر اس حوالے سے کیا صورت حال ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ دوسروں کی برائی کرتے کرتے ہم بھول رہے ہیں کہ ہمارا اپنا کلچر اس سلسلے میں کیا تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ''تم سے زیادہ مقدّس‘‘( holier-than-thou)کا رویّہ ہمیں خود اپنے ہاں کی صورت حال نہیں دیکھنے دے رہا؟ ہم کوشش کریں گے کہ اگلی نشست میں ان سوالوں کا جواب دے سکیں !

Monday, December 19, 2022

یا اللہ! آفات و بلیّات سے محفوظ رکھ


جس ماں کے سارے بچے نالائق اور غیر سعادت مند ہوں وہ بچوں کو نہیں کوستی‘ وہ صرف اور صرف اپنی قسمت کو روتی ہے۔
قوم رو رہی تھی کہ عمران خان نے وعدہ سترہ رکنی کابینہ کا کیا تھا اور وزیروں مشیروں کی تعداد پچاس پچپن ہو گئی تھی۔ اب پی ڈی ایم کی حکومت میں کابینہ پھُول کر پچھتر تک پہنچ گئی ہے۔ ہر کوئی چھری پکڑے اپنے لیے گوشت کاٹ رہا ہے۔اونٹ بے شک زخموں سے چور ہو کر گر پڑے! پی ڈی ایم والے اگر عمران خان کے مقابلے میں اتنے ہی مخلص تھے تو قربانی دیتے اور وزارتیں نہ لیتے! پندرہ یا بیس رکنی کابینہ بناتے اور اپنے آپ کو بر تر ثابت کرتے! مگر یہاں تو جو بھی آتا ہے اپنے پیشرو سے زیادہ ''نیک‘‘ ثابت ہوتا ہے۔ کسی ایک پارٹی نے بھی نہیں کہا کہ ہم وزارت نہیں لیں گے۔ اس لیے کہ ؎
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس سینوں میں چھپ چھپ کر بنا لیتی ہے تصویریں
بلٹ پروف گاڑیوں کی تقسیم کی جو تفصیل بتائی گئی ہے‘ ہوشربا ہے۔ عمران خان‘ شاہد خاقان عباسی‘ مولانا اسعد محمود‘ بلاول بھٹو زرداری‘ عطا تارڑ‘ اور رانا ثنا اللہ بلٹ پروف گاڑیوں سے متمتع ہو رہے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی‘ ڈپٹی سپیکر‘ چیئرمین سینیٹ‘ چیف الیکشن کمشنر‘ چیئرمین پی اے سی اور سیکرٹری داخلہ بھی اس فہرست میں داخل ہیں۔ اس پر مستزاد‘ اٹھارہ وی آئی پی گاڑیاں بھی تقسیم کی گئی ہیں۔ سردار ایاز صادق‘ مرتضیٰ جاوید عباسی‘ قمر زمان کائرہ‘ رانا تنویر حسین‘ احسن اقبال‘ عبد القادر پٹیل‘ طارق بشیر چیمہ‘ سعد رفیق‘ شاہ زین بگتی‘ راجہ ریاض اور یوسف رضا گیلانی کے علاوہ اس فہرست میں احد چیمہ بھی شامل ہیں۔ ان گاڑیوں کی مرمت پر ساڑھے چھ کروڑ روپے اور ان میں بھرے جانے والے پٹرول پر ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ صرف ہوئے ہیں۔ یہ سب کچھ سرکاری خزانے سے ہورہا ہے۔ جس ہولناک صورتحال کا اس وقت ملکی معیشت کو سامنا ہے‘ اس کے پیش نظر ان صاحبوں کو اپنی گاڑیاں اور اپنا پٹرول استعمال کرنا چاہیے تھا۔ یہ سب حضرات آسودہ حال ہیں۔ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو صاحبِ استطاعت نہ ہو۔ ملک کی بھوکی‘ ننگی‘ قلاش معیشت‘ اکھڑتی سانسوں کے ساتھ‘ عوام کا پیٹ کاٹ کر‘ یہ عیاشیاں برداشت کر رہی ہے۔ کیا ان گاڑیوں اور اس سرکاری پٹرول کا کوئی جواز ہے ؟
افسوس ! ہم بے زبان لاشوں سے کفن لے اُڑتے ہیں۔ایک پھل کھانے کے لیے درخت گرا دیتے ہیں۔ہماری لالچ کی کوئی انتہا نہیں! ان بد ترین حالات میں کسی ایک حکومتی بڑے نے قطمیر کے برابر قربانی نہیں دی! اندازہ لگائیے! مفلوک الحال لوگ اپنے موٹر سائیکلوں‘ ٹیکسیوں اور گاڑیوں میں پٹرول ڈلوا رہے ہیں مگر یہ امرا اتنا بھی نہیں کر سکتے کہ اگر گاڑیاں قومی خزانے سے لی ہیں تو کم از کم پٹرول کے دام ہی اپنی جیبوں سے نکال لیں ! تبدیلی سرکار کا کچا چٹھا بھی آہستہ آہستہ سامنے آرہا ہے۔ جنوری2019ء سے لے کر‘ مارچ2022ء تک عمران خان صاحب کے ہیلی کاپٹر کی سواری پر 43کروڑ سے زیادہ کے اخراجات آئے۔ یہ خطیر رقم بھی عام پاکستانی کے پچکے ہوئے پیٹ سے نکالی گئی ہے۔صوبوں میں جھانک کر دیکھیں تو مالِ مفت دلِ بے رحم کی ایسی شرمناک مثالیں اربوں تک پہنچتی ہیں۔
عوام تو خون پسینہ ایک کر کے ان امرا کو لگژری بھری زندگی بہم پہنچا رہے ہیں‘ سوال یہ ہے کہ عوام کو بدلے میں کیا مل رہا ہے؟ کسی بھی حکومت کا بنیادی اور اہم ترین فرض عوام کے جان‘ مال اور عزت کی حفاظت ہے۔ دنیا کے غریب سے غریب ملک میں یہ فرض بدرجہ اتم ادا کیا جاتا ہے۔ مگر پاکستان میں عوام کو صرف نچوڑا جاتا ہے۔ بدلے میں امرا اور وزرا کی یہ فوج ظفرموج صرف بیانات دیتی ہے۔ صرف ایک دن( سولہ دسمبر) کا سکور‘ وہ بھی صرف اسلام آباد راولپنڈی کے جڑواں شہروں کا‘ ملاحظہ فرمائیے! ایک وفاقی حکومت کی ناک کے عین نیچے ہے۔دوسرا تختِ لاہور کی رعایا ہے۔ دونوں شہروں میں انتیس مقامات پر وارداتیں ہوئیں۔ ان مقامات میں دونوں شہروں کے پوش علاقے بھی شامل ہیں۔ ڈاکو اور چور چھ گاڑیاں‘ چالیس موٹر سائیکل‘ دو آسٹریلین گائیں‘ لاکھوں روپے نقد‘ لاکھوں کے طلائی زیورات اور کئی موبائل فون لے اُڑے۔ بیرونِ ملک سے آنے والے پاکستانی سخت غیر محفوظ ہیں۔ انہیں لُوٹنے کی وارداتیں روز کا معمول ہیں۔
یہ ملک کیسے چلایا جا رہا ہے؟ تازہ ترین مثال دیکھیے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پی آئی اے میں فی جہاز عملہ دوسرے ملکوں کی ایئر لائنوں سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ ایک بڑا سفید ہاتھی ہے جس کے اندر بے شمار سفید ہاتھی بھرے ہیں۔ جرأت دیکھیے کہ مزید بھرتی کرنا چاہتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھرتیوں پر پابندی لگائی ہوئی ہے اس لیے ایئر لائن سپریم کورٹ میں پہنچ گئی۔ سپریم کورٹ نے انتہائی جائز‘ اہم اور منطقی سوالات پوچھے۔ مثلاً یہ کہ کُل جہاز ہی تیس ہیں تو مزید اسّی پائلٹ کیوں لینا چاہتے ہیں؟ بیرونی روٹس بند ہو چکے‘ اندرونِ ملک لوگ پی آئی اے میں بیٹھنا پسند نہیں کرتے‘ تو مزید عملہ کیا کرے گا؟ جس زمانے میں یہ لکھنے والا قومی ایئر لائن سے پر ہیز نہیں کرتا تھا‘ ہر سفر میں دو دھچکے ضرور لگتے تھے۔ پہلا یہ کہ تاخیر اس قدر ہوتی تھی کہ اگلے ایئر پورٹ پر Connected پرواز جا چکی ہوتی تھی۔ دوسرا یہ کہ‘ بہترین نشستیں ایئر لائن کے اپنے ملازموں کے قبضے میں ہو تی تھیں جومفت سفر کرتے تھے۔ اللہ نہ کرے وہ وقت آئے کہ جہاز ایک بھی نہ ہو اور ملازموں کی پرورش بدستور ہوتی رہے۔ ایک پرانا لطیفہ یاد آرہا ہے۔ایک پاکستانی وفد افغانستان گیا تو وزرا سے تعارف کرایا گیا۔ ایک صاحب کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ افغانستان کے وزیر ریلوے ہیں۔ پاکستانی وفد نے تعجب کا اظہار کیا کہ افغانستان میں تو ریلوے کا وجود ہی نہیں ! اس پر افغان میز بانوں نے دلیل پیش کی کہ آخر پاکستان میں بھی تو وزیر قانون ہوتا ہے !
ملک کو بہت آرام سے اور مزے مزے سے کھایا جا رہا ہے۔( مناسب لفظ یہاں کھانا نہیں‘ بھنبھوڑنا ہے مگر کیا کیا جائے‘ پیشانیوں پر بل نہ پڑ جائیں! ) اور باقاعدہ چھری کانٹے کے ساتھ کھایا جا رہا ہے۔ شان و شوکت سے میز کرسی پر بیٹھ کر کھایا جا رہا ہے۔ ساتھ جام‘ مکھن‘ شہد اور آملیٹ بھی ہے۔کھانے والوں کی آنکھ میں حیا ہے نہ کھلانے والے ہی شرم کی رمق رکھتے ہیں۔ اب تو یوں بھی سارے حجابات اُٹھ گئے ہیں ! کیسا پردہ اور کہاں کی جھجک؟ ہر سیاسی رہنما کے پجاری اس کے گناہوں کی توجیہ اور جواز بے دھڑک پیش کرتے ہیں۔ اور ان رہنماؤں کا اسلوبِ زندگی دیکھیے! خان صاحب جہاز اور ہیلی کاپٹر سے نیچے نہیں اترتے! گھر تین سو کنال کا ہے۔ ان دنوں لاہور میں ہیں۔ زمان پارک کے پاس سے گزرنے والے عذاب میں ہیں۔ پنجاب حکومت خدمت میں رات دن سرگرم ہے۔ گھر میں بلٹ پروف شیشے مبینہ طور پر نوّے لاکھ کے لگے ہیں! رہے میاں صاحب تو وہ لندن ہی کو گھر سمجھتے ہیں۔ گزشتہ عہدِ اقتدار کے دوران سترہ دورے لندن کے کیے۔ حال ہی میں انہوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ یورپ کی سیر کی ہے! یہ اور بات کہ لندن کے مہنگے علاقے میں‘ مہنگے گھر میں رہتے ہیں جہاں رہنا بھی سیر ہی ہے۔ گویا سیر کے اندر سیر ! پاکستانی عوام دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری کر رہے ہیں۔ ساتھ والے شہر کو جانا ہو تو کئی بار سوچتے ہیں۔ انہی پِسے ہوئے عوام پر خان صاحب اور میاں صاحب ایک بار پھر حکومت کرنا چاہتے ہیں !! یا اللہ آفات و بلیات سے محفوظ رکھ !!

Thursday, December 15, 2022

جہالت کی سب سے زیادہ خطرناک قسم


کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے کچھ ملکوں کو بہترین ممالک کیوں قرار دیاجاتا ہے؟
یہ وہ ممالک ہیں جن میں امن و امان حد درجہ اطمینان بخش ہے۔ باشندے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں۔ صحت اور تعلیم کی سہولتیں اعلیٰ درجے کی ہیں! اوسط عمر طویل ہے۔ ملازمت حاصل کرنے کے اور بزنس کرنے کے مواقع سب کے لیے برابر ہیں۔ مزدوروں اور کارکنوں کو ڈیوٹی کے دوران بہترین ماحول مہیا کیا جاتا ہے۔ عوام کو پولیس پر اعتماد حاصل ہے۔ حکمران اپنا سودا سلف خود خریدتے ہیں اور عام شہریوں کی طرح رہتے ہیں! ان ملکوں میں ناروے‘ سویڈن‘ ڈنمارک‘ آئر لینڈ‘ فِن لینڈ‘ آئس لینڈ‘ نیدرلینڈز‘ کینیڈا‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ ان میں سے چار ملکوں کی وزرائے اعظم‘ آج کل‘ خواتین ہیں۔ آئس لینڈ کی خاتون وزیر اعظم گزشتہ پانچ سال سے حکومت کر رہی ہیں۔ ڈنمارک اور فن لینڈ کی خواتین وزرائے اعظم کو تین تین سال ہو گئے ہیں۔ نیوزی لینڈ کی خاتون وزیر اعظم پانچ سال سے اقتدار پر فائز ہیں۔ ماضی قریب میں وہاں جب ایک دہشت گرد نے مسلمانوں کا قتل عام کیا تو خاتون وزیراعظم نے بہترین رویّے کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی مسلم آبادی کے غم میں شریک ہو کر مثالی اقدامات کیے۔ پوری مسلم اور غیر مسلم دنیا نے ان کی کارکردگی کی تعریف کی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ایک خاتون‘ انگیلامرکل‘ نے جرمنی پر سولہ سال حکومت کی اور ماضی قریب میں ریٹائر ہوئیں۔ انہوں نے شام اور عراق کے مہاجرین کے لیے جرمنی کی آغوش وا کی اور لاکھوں مسلمانوں کو پناہ دی۔ ساری مدّتِ اقتدار میں انہوں نے معمولی پرانا لباس پہنے رکھا۔ مارگریٹ تھیچر بھی ایک خاتون تھیں۔ وہ گیارہ سال برطانیہ کی وزیر اعظم رہیں اور کئی انقلابی اقدامات کیے۔
اب وزرائے خارجہ کا بھی ذکر ہو جائے۔ گزشتہ پچھتر برس کے دوران‘ دنیاکے مختلف ملکوں میں تقریباً تین سو عورتیں اپنے اپنے ملک کی وزیر خارجہ رہی ہیں۔ان میں بڑے‘ چھوٹے‘ ترقی یافتہ‘ ترقی پذیر ممالک‘ سب شامل ہیں۔ امریکہ کی تین وزرائے خارجہ‘ میڈلین البرائٹ‘ کنڈولیزارائس اور ہلیری کلنٹن نے تو عالمی شہرت پائی مگر بے شمار دیگر خواتین نے بھی سفارت کاری میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے۔ پاکستان کے علاوہ جن دیگر مسلمان ملکوں میں خواتین وزرائے خارجہ رہیں‘ ان میں قازقستان‘ ازبکستان‘ کرغزستان‘ ترکی‘ البانیہ‘ بوسنیا‘ سیرا لیون‘ لیبیا اور سوڈان شامل ہیں۔
یہ قصہ اس لیے چھیڑنا پڑا کہ دو دن پہلے ہماری پارلیمنٹ کے ایک فاضل رکن نے امور ِخارجہ کی وزیر مملکت‘ حنا ربانی کھر‘ پر اعتراض کیا کہ ایک خاتون وزیر کا افغانستان جا کر مذاکرات کرنا درست نہیں تھا۔ اگرچہ انہوں نے بعد میں معذرت کردی مگر‘ بہر طور‘ اس اعتراض سے ایک خاص مائنڈ سیٹ کا پتا چلتا ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ صرف مذہبی طبقات تک محدود نہیں ہے۔ اس میں جاگیردار‘ سردار‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ‘ مڈل کلاس‘ اَن پڑھ‘ شہری‘ دیہاتی سب شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ہم نے اپنے قارئین کو بتایا تھا کہ حال ہی میں ایک تعلیم یافتہ جوڑے کے ہاں جب دوسری بیٹی کی ولادت ہوئی تو ان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ دوستوں کی اکثریت نے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔ ہمدردی‘ بلکہ افسوس‘ کرنے والوں میں انجینئر‘ ڈاکٹر اور سائنسدان شامل تھے۔ یہ اور بات کہ ماں باپ خود دوسری بیٹی کی آمد پر خوش تھے۔
پارلیمنٹ کے معزز رکن‘ اور ان کے ہم خیال حضرات نے‘ عورتوں پر ہونے والے ظلم و ستم اور نا انصافیوں پر کبھی کوئی رد عمل نہیں دکھایا۔ یہ جو حوا کی لاکھوں بیٹیوں کو اس لیے مارا پیٹا جاتا ہے‘ گھروں سے نکال دیا جاتا ہے اور طلاق دے دی جاتی ہے کہ بیٹی کیوں پیدا کی اور بیٹا کیوں نہیں جنم دیا تو یہ حضرات اس حوالے سے قانون سازی کیوں نہیں کرتے ؟ آخر پارلیمنٹ میں تشریف فرما ہیں! کاروکاری‘ ونی اور سوارہ جیسی ظالمانہ‘ وحشیانہ اور غیر اسلامی جبری رسموں کے خلاف کیوں نہیں آواز اٹھاتے ؟ وراثت میں عورتوں کو ان کا حق نہیں ملتا۔ اس کے بارے میں کبھی کوئی تقریر نہیں کرتے! لڑکیوں کی شادیاں ان کی رضامندی کے خلاف کی جاتی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے مگر ان فاضل معززین نے کبھی اس بارے میں اظہارِ خیال نہیں فرمایا۔ بچیوں کے سکول جلا دیے جاتے ہیں مگر احتجاج کا ایک لفظ ان حلقوں کی طرف سے سننے میں نہیں آتا!
کوئی مانے یا نہ مانے‘ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ‘ عملاً مرد کی بالا دستی( Male chauvinism)کا شکار ہے۔ بجا کہ مرد خاندان کے یونٹ کا سربراہ ہے‘ تو پھر عورت کو اس یونٹ کا وزیر اعظم کیوں نہیں مانا جاتا؟ یہ مردانہ بالادستی عورت کی پیدائش ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ بیٹی کی پیدائش کی خبر ملے تو موت پڑ جاتی ہے۔ چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ نرسوں سے پوچھئے کہ جب وہ بیٹی کی پیدائش کی خبر دیتی ہیں تو دادیوں کا رد عمل کیا ہوتا ہے۔ بعض دادیاں تو خبر دینے والی نرس کو مارنے لگ جاتی ہیں۔ دو پوتیاں آ جائیں تو دادی نئی بہو لانے کا سوچنا شروع کر دیتی ہے۔ اس سے کوئی پوچھے کہ بڑی بی! تم بھی ایک عورت ہو۔ کیا تمہاری پیدائش بھی منحوس تھی ؟ پھر جب اعلیٰ تعلیم کا مرحلہ آتا ہے تو بیٹی کو کہا جاتا ہے کہ تم نے کون سی نوکری کرنی ہے جو آگے پڑھو؟ حالانکہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ تعلیم یافتہ ماں اور اَن پڑھ ماں کی اولاد میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ شادی کا وقت آئے تو جہیز کا بہانہ بنا کر بیٹی کو وراثت سے محروم کر دیا جاتا ہے حالانکہ بیٹے کی بری پر بھی کم خرچ نہیں ہوتا۔ بیٹی بھائی کے کپڑے استری کرتی ہے۔ بھائی بہن کے لیے یہ کام کبھی نہیں کرتا۔ بہن ہی چائے بنائے! بھائی کبھی نہیں چائے بناتا! فیل ہونے والے یا کم نمبر لینے والے لڑکے کی سب کو فکر ہے مگر لائق بیٹی یونیورسٹی میں داخلہ لینے کی خواہش کرے تو اس خواہش کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ جو طبقات تعلیمِ نسواں کے مخالف ہیں‘ ان کی خواتین بیمار پڑ جائیں تو مرد ڈاکٹر کے بجائے خاتون ڈاکٹر کو تلاش کرتے ہیں! پہلے درخت کاٹتے ہیں‘ پھر چھاؤں تلاش کرتے ہیں۔ ہماری ترجیحات عجیب ہیں۔ دنیا عناصر کو فتح کرنے کی فکر میں ہے۔ ستاروں تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہم عورت کو نیچا دکھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ کبھی اس کی تعلیم پر معترض ہیں۔ کبھی اسے کھیل کے میدان میں دیکھ کر غضب ناک ہو رہے ہیں۔ ٹیڑھی پسلی سے لے کر پاؤں کی جوتی تک‘ ہمارے محاورے بیمار ذہنیت کی عکاسی کر رہے ہیں۔ تاریخ میں پڑھایا جاتا ہے کہ عورتیں‘ کبھی تخت پر بیٹھ کر‘ کبھی پسِ پردہ رہ کر‘ سلطنتوں کی باگیں کھینچتی رہی ہیں۔بڑے بڑے فیصلے کرتی رہی ہیں‘ آج انہیں عضوِ معطل کر دینے پر اصرار ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ افسر خاندان سے تعارف ہوا۔ لڑکی ان کی ڈاکٹری پڑھ کر شادی کے انتظار میں برسوں سے بیٹھی ہوئی تھی۔ جو بھی رشتہ آتا‘ لڑکی کے تایا سے اور دادی سے رائے لی جاتی۔ تایا یورپ میں رہ رہے تھے اور دادی امریکہ میں۔ ان دونوں کی آرا میں موافقت ہو ہی نہیں رہی تھی۔ اگر رائے نہیں لی جا رہی تھی تو بیچاری لڑکی کی! المیہ یہ ہے کہ جہالت کی کئی قسمیں ہیں! ہمارے ہاں‘ ماشاء اللہ یہ ساری قسمیں موجود ہیں؛ تاہم سب سے زیادہ خطرناک قسم جہالت کی وہ ہے جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں پائی جاتی ہے!

Tuesday, December 13, 2022

ایک لمحہ ! صرف ایک لمحہ!!


بحر الکاہل کے کنارے بیٹھا ہوں اور سہیل احمد خان مرحوم یاد آرہے ہیں!!
یہ دنیا ظالم ہے! بہت ظالم! میرؔ نے ایسے ہی تو نہیں کہا تھا
گھُٹ گھُٹ کے رہے میرؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم
یہاں نااہل کو مسند پر بٹھا دیا جاتا ہے اور علم اور عقل والے کونوں کھدروں میں چھپ کر وقت گزارتے ہیں۔ پرانے وقتوں میں جو کام درباروں میں ہوتا تھا اب وہ نام نہاد اردو کانفرنسوں‘ ادبی میلوں اور ٹیلی وژن کے مذاکروں اور مشاعروں میں ہوتا ہے۔حال ہی میں جنوب کے ساحلی شہر میں ایک اُردو کانفرنس کا انعقاد ہوا! حیرت ہوئی کہ وحید احمد اور معین نظامی جیسے نظم کے صفِ اول کے ممتاز شعرا اس میں مدعو نہیں تھے۔ پروفیسر احسان اکبر اُن بزرگ اہلِ دانش میں سے ہیں جو تقریر اور تحریر دونوں میں مسحور کر کے رکھ دیتے ہیں۔کمال کی غزل اور غضب کی نظم کہتے ہیں۔ پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نظم گوئی میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔ وجاہت مسعود وہ ممتاز صحافی ہیں جن کی تاریخ اور فلسفۂ تاریخ پر گہری نظر ہے۔ نام نہاد اردو کانفرنسوں میں ہر بار چند مخصوص چہرے ہی دکھائے جاتے ہیں۔اب تو زوال اس حد تک آچکا ہے کہ فلمی گانوں کی طرز پر گائیکی کرنے والے مزاحیہ شاعری کرنے والوں کو بلایا جارہا ہے جن کے ہاں مزاح ہے نہ شاعری! ہاں ابتذال ضرور ہے۔ رہی سہی کسر ٹین ایجرز کے لیے عامیانہ شاعری کرنے والوں نے نکال دی!
سہیل احمد خان استاد بھی تھے‘ نقاد بھی‘ مدیر بھی۔ مگر اس عاجز لکھنے والے کی نظر میں نظم ان کی پہلی اور آخری محبت تھی۔ '' ایک موسم کے پرندے‘‘ سہیل احمد خان کی نظموں کا وہ مجموعہ ہے جو اردو شاعری میں اپنی نظیر نہیں رکھتا! ایک مختصر مجموعہ اس کے بعد بھی شائع ہوا۔ یوں ان کی مماثلت محبوب خزاں سے بنتی نظر آتی ہے۔ محبوب خزاں بھی اپنے مختصر مجموعۂ کلام‘‘ اکیلی بستیاں‘‘ کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں ممتاز مقام رکھتے ہیں! مگر سہیل احمد خان کے ساتھ ستم یہ ہوا کہ ان کا نام ہی شعرا کے اکثر تذکروں سے غائب ہے! سہیل احمد خان کی نظمیں یکسر مختلف ہیں۔ انہوں نے عناصر پر نظمیں لکھیں جیسے ' آندھیاں‘ ، 'ہوائیں‘،'بارشیں‘۔'گلاب کا پھول‘ اور 'سفید گلاب‘ بھی کمال کی نظمیں ہیں۔ پرندے اور سمندر ان کے ہاں زندگی کی تیز رفتاری کی علامتوں کے طور پر آئے ہیں۔ ان نظموں کے عنوانات ہی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی طلسمی شاعری ہو گی۔ عنوانات دیکھیے۔ ایک سمندر کے پرندے‘ پرندوں کی بولی‘ پرندے‘ ہنس نامہ‘ راج ہنس‘ پت جھڑ کے مہاجر‘ ایک پرندے کی موت‘ تیس پرندے‘ بگلوں کی قطار‘ سمندری گھونگے کی آوازیں‘ سمندر کے پیچھے سمندر‘ کہاں ہے سمندر!
جس شاہراہ پر بیٹھا ہوں اس کا نام '' گریٹ اوشن روڈ‘‘ ہے۔ سامنے سمندر ہے۔ نام اس کا جنوبی سمندر ہے مگر اصلاً بحر الکاہل ہے۔ اس کے بعد جنوب میں کوئی انسانی آبادی نہیں! یہ آباد دنیا کا انتہائی جنوبی کنارا ہے!
سہیل احمد خان یاد آرہے ہیں۔ ان کی نظم '' ایک لمحے کا سمندر‘‘ جیتی جاگتی شکل میں سامنے ہے! ایک لمحے میں‘ صرف ایک لمحے میں کیا کچھ ہو جاتا ہے! ایک لمحے میں‘ صرف ایک لمحے میں پورا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ جو پرندے پانی میں غوطے لگا لگا کر اپنے پروں کو دھو رہے تھے۔ اسی لمحے اُڑ گئے ہیں۔ شور مچاتی‘ جھاگ پیدا کرتی موجیں ساحل سے ٹکرا گئی ہیں۔ ٹھہرے ہوئے بادلوں کے قافلے چل پڑے ہیں۔ سامنے ایک کشتی جو ساکن کھڑی تھی‘ رواں ہو گئی ہے۔ ایک پرندے کا پر‘ جو اس کے جسم سے الگ ہو کر اُڑ رہا تھا‘ نیچے ساحل کی ریت پر گر پڑا ہے! جہاز کے عرشے سے اُٹھتی ہوئی کُوک‘ پانیوں میں گم ہو گئی ہے۔ یہ سب کچھ‘ یہ سب تبدیلیاں‘ صرف ایک لمحے میں ظہور پذیر ہوئی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ خود یہ لمحہ کہاں ہے ؟ یہ لمحہ خود بھی گزر گیا ہے! فنا ہو گیا ہے! اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گا!
یہ سمندر ہماری زندگی کا سمبل ہے! یہ لمحہ ہی زندگی ہے۔ اس ایک لمحے میں کئی جہان آباد ہیں۔یہ ایک لمحہ جو گزرا ہے‘ اس میں کتنے بچے اس کرہ ٔارض پر لامکان سے آموجود ہوئے! کتنے انسان زمین کے سینے سے زمین کے پیٹ میں منتقل ہو گئے! کتنے جہاز فضا میں بلند ہوئے‘ کتنے ہوا سے زمین پر آئے۔لاکھوں کروڑوں لوگ سامان اٹھائے سفر پر چل پڑے۔ کتنے اپنے ٹھکانوں کولوٹے! اس ایک لمحے میں زمین کو کروڑوں درختوں سے محروم کر دیا گیا۔ کروڑوں ٹن کثافت فضا میں شامل ہو گئی۔ آلودگی سے سمندر کچھ اور بھر گئے۔لاکھوں انسان خطِ غربت سے نیچے لڑھک گئے۔ اس ایک لمحے میں اربوں کھربوں کا سرمایہ مفلوک الحال ملکوں سے خوشحال ملکوں میں منتقل ہو گیا۔ یوں امیر امیر تر اور پسماندہ‘ پسماندہ تر ہو گئے! اس ایک لمحے میں کتنے بچوں نے ریستورانوں میں برتن مانجھے‘ورکشاپوں میں گاڑیاں صاف کیں‘ بسوں کے اڈوں پر آوازیں لگائیں۔مار کھائی اور ناگفتہ بہ سلوک کا شکار ہوئے۔ یہ ایک لمحہ پاکستان جیسے ملک کو کوسوں پیچھے لے گیا اور کئی ملکوں کو کوسوں آگے لے گیا۔
ہم تئیس کروڑ ہیں۔ یہ لمحہ‘ جو گزرا ہے‘ اور ہم نے ضائع کیا ہے‘ یہ ایک لمحہ نہیں تھا۔ یہ تئیس کروڑ لمحے تھے۔یہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔ ہم ہر گزرتے لمحے میں کروڑوں قیمتی لمحے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیتے ہیں۔ ہم نے لمحہ لمحہ کر کے پچھتر سال ضائع کر دیے۔ غور کیجیے۔ اس ملک میں گلگت سے لے کر کراچی تک اور لاہور سے لے کے کوئٹہ تک کتنے سرکاری اور نیم سرکاری دفتر ہوں گے! ان دفتروں میں کام کرنے والوں کی بھاری اکثریت صبح کئی گھنٹے تاخیر سے کام پر پہنچتی ہے۔کسی شاہراہ پر حادثہ ہو جائے‘ دو گاڑیاں ٹکرا جائیں تو سینکڑوں لوگ اکٹھے ہو جاتے ہیں اور گھنٹوں کھڑے رہتے ہیں۔ ہماری بسیں‘ ٹرینیں اور ہوائی جہاز کبھی وقت پر روانہ ہوتے ہیں نہ پہنچتے ہیں! ہماری شادیاں‘ ولیمے‘ براتیں‘ جنازے سب گھنٹوں کی تاخیر سے شروع ہوتے ہیں اور ختم ہونے کے لیے وقت کی حد کوئی نہیں!ہمارے تاجر دوپہر کے بعد بزنس شروع کرتے ہیں! ہمارا کوئی وزیر‘ کوئی حکمران‘ وقت پر دفتر آتا ہے نہ کسی تقریب میں! ہمارے ہاں گھڑیوں کے بہت تذکرے ہیں۔ پہلے میاں نواز شریف کی گھڑی مشہور تھی جس کی قیمت مبینہ طور پر کروڑوں میں تھی۔ اب عمران خان کے حوالے سے گھڑیوں کے معاملات نے حشر برپا کر رکھا ہے۔ تاہم گھڑیوں سے ہمارا سارا تعلق گھڑیوں کی قیمتوں سے ہے۔ ہمارا تعلق اُس وقت سے بالکل نہیں جو یہ گھڑیاں بتاتی ہیں۔ ہمارے ہاں ہر چیز کی کمی ہے۔ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر سے لے کر برآمدات تک‘ٹیکسوں سے لے کر مالیہ تک‘ روپے کی قدر‘خواندگی کی شرح‘سالانہ شرحِ نمو‘‘ بجلی کی پیداوار‘ فی کس آمدنی‘پانی کی سپلائی‘ گھروں کی تعداد‘قومی ایئر لائن کے جہازوں کی تعداد‘ غرض سارے اشاریے کمی کی طرف جا رہے ہیں۔ صرف ایک شے ہمارے ہاں افراط میں ہے اور خوب افراط میں ہے! وہ ہے وقت!
لمحے ہوں یا مہینے یا سال‘ ہم انہیں ردی کی ٹوکری میں پھینکتے چلے جاتے ہیں! ہمارے لمحے ہوں یا مہینے یا سال‘ سب بانجھ ہیں! غیر پیداواری ہیں! وقت بہت منتقم مزاج ہے‘ ہم نے اسے کوئی اہمیت نہیں دی! اس نے بھی ہمیں ادھیڑ کر رکھ دیا! جن قوموں نے وقت کی قدر کی‘ اسے اہمیت دی‘ انہیں وقت نے نوازا! بقول احمد ندیم قاسمی ؎
پَل پَل میں تاریخ چھپی ہے‘گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیمؔ 
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھُول یہاں

Monday, December 12, 2022

بُدھ بھکشو اور جوان عورت


دو بُدھ بھکشو سفر میں تھے۔ چلتے چلتے راستے میں ندی آگئی۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک جوان عورت وہاں پہلے سے بیٹھی ہوئی تھی۔وہ انتظار کر رہی تھی کہ کوئی آئے اور اسے ندی پار کرا دے! دونوں میں سے ایک بھکشو نے اسے اٹھایا اور اٹھا کر دوسرے کنارے لے گیا۔ دونوں بھکشو پھر چل پڑے۔دو دن گزر گئے تو دوسرا بھکشو‘ پہلے بھکشو سے کہنے لگا '' تمہیں اُس جوان عورت کو نہیں اُٹھانا چاہیے تھا‘‘۔ پہلے بھکشو نے اُسے جواب دیا کہ ارے بھائی! تم ابھی تک ندی کے کنارے ہی کھڑے ہو !!
ہم میں سے اکثر لوگ‘ کئی کئی دن‘ کئی کئی ہفتے‘ بلکہ کئی کئی سال‘ ندی کے کنارے کھڑے رہتے ہیں! ایک چھوٹی سی بات دل میں لے کر بیٹھے رہتے ہیں۔ مہینوں‘ برسوں‘ اسے پالتے ہیں یہاں تک کہ وہ بغض کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دوسرے شخص کو‘ اکثر اوقات معلوم ہی نہیں ہوتا کہ فلاں اپنے دل میں یہ بات لیے بیٹھا ہے اور یہاں اس بات کی وجہ سے صحت پر منفی اثرات پڑنے لگتے ہیں۔ ذرا سوچئے! ایک عورت یا مرد‘ جو ہر وقت کڑھتا رہتا ہے‘ منفی خیالات کی پرورش کرتا رہتا ہے‘ صحتمند کیسے رہ سکتا ہے۔ وہ نفسیاتی کیس بن جاتا ہے اور جسمانی عارضوں میں مبتلا ہونے لگتا ہے!
رذائل بہت سے ہیں۔ رذائل کیا ہیں؟ یوں سمجھیے‘ یہ روحانی بیماریاں ہیں جو جسم کو نہیں‘ روح کو لاحق ہوتی ہیں۔ جھوٹ‘ حسد‘ غیبت‘ خوشامد‘ تکبّر‘ حُبِّ جاہ‘ بدگمانی‘ قسمیں کھانا‘ ریاکاری‘ تجسّس یعنی ٹوہ لگانا‘ عیب جوئی‘ بغض‘ لالچ‘ حرص‘ بخل اور کنجوسی‘ یہ سب رذائل ہیں۔ سب کے سب ضرر رساں ہیں اور مہلک!! مگر تین ان میں سے بطورِ خاص ایسے ہیں جو انسان کو دیمک کی طرح کھا جاتے ہیں۔ اُس کی نفسیات کو تباہ کر دیتے ہیں۔ اسے ذہنی مریض بنا دیتے ہیں یہاں تک کہ جسمانی عوارض بھی اُس پر حملہ کر دیتے ہیں! ان میں بدترین حسد ہے جس کا برا اثر حاسد پر پڑتا ہے اور اسے مار کر رکھ دیتا ہے۔ بسا اوقات ہم حسد کر رہے ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ نہیں کر رہے! آپ کے رفیقِ کار کی ترقی ہوتی ہے۔ آپ کے دل میں گرہ سی پڑ جاتی ہے۔ آپ اسے مبارک دیتے ہیں۔ اس کے ہاں سے مٹھائی کھا کر آتے ہیں مگر دل میں خیال آتا ہے اور بار بار آتا ہے کہ میری ترقی نہیں ہوئی تو اس کی کیسے ہو گئی؟ اگر آپ کے بیٹے کی یا بھائی کی ترقی ہوئی ہوتی تو کیا آپ کے یہی محسوسات ہوتے؟ کیا تب بھی آپ دل میں کہتے کہ میری کیوں نہیں ہوئی؟ اگر آپ کو اپنے رفیقِ کار‘ یا دوست کی ترقی پر اتنی ہی خوشی ہوئی ہے جتنی بیٹے یا بھائی کی ترقی پر ہوتی تو اس کا مطلب ہے آپ واقعی حسد نہیں کر رہے! جبھی حکما کہتے ہیں کہ حسد سے بچنا مشکل ہے کیونکہ یہ آہستہ خرامی کے ساتھ آپ کے اندر آجاتا ہے اور آپ کو محسوس تک نہیں ہوتا۔ حسد سے بچنے کے لیے بے نیازی لازم ہے اور یہ یقین بھی کہ آپ کی دیکھ بھال کرنے والا پروردگار آپ سے غافل نہیں ہے۔
رذائل میں دوسری بدترین نحوست چغل خوری ہے۔ وہ چغل خوری جو آپ نہیں‘ بلکہ آپ کے پاس آکر دوسرے کرتے ہیں !! آکر آپ کو بتاتے ہیں کہ فلاں آپ کے بارے میں یہ کہہ رہا تھا۔ اگر آپ نے ان کی بات پر یقین کر لیا تو بس یوں سمجھیے آپ نے اپنے آپ کو روگ لگا لیا! اب آپ دل میں کڑھیں گے اور سلگتے رہیں گے۔ یہی چغل خور کا مقصد تھا۔ اصل میں اس کے دو مقاصد تھے۔ پہلا یہ کہ آپ کا سکون غارت ہو جائے۔ دوسرا یہ کہ آپ کے اور اُس شخص کے درمیان ناچاقی پیدا ہو جس کی اس نے چغلی لگا ئی ہے۔ سو میں سے نوے‘ پچانوے افراد‘ اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ سلگنا‘ جلنا اور آتشِ غضب میں روسٹ ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ جس کی چغلی لگائی گئی اس سے وضاحت مانگے بغیر اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔ اُس بیچارے کو معلوم ہی نہیں کہ کسی چغل خور نے افتراق کا بیج بو دیا ہے۔ چغل خور کی کوشش کو ناکام بنانا کسی کسی کا کام ہے! وہ جو کہا گیا ہے کہ خوشامد کرنے والے کے منہ میں مٹی ڈالنی چاہیے تو ہونایہ چاہیے کہ چغل خور کے منہ میں مٹی کے ساتھ کیچڑ اور کنکر بھی ڈالنے چاہئیں۔ میرے دادا جان فرمایا کرتے تھے کہ سب سے پہلے یہ توجیہ کیجیے کہ آپ جو بتارہے ہیں کہ فلاں نے میرے بارے میں یہ کہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں‘ بلکہ یہ ہو گا جو اچھی بات ہے۔ اس توجیہ کو وہ '' گریز‘‘ کا نام دیتے تھے! اس بات کو سمجھنے کے لیے ہم ایک مثال لیتے ہیں ! ایک شخص آکر مجھے بتاتا ہے کہ بہرام صاحب کہہ رہے تھے کہ اظہار صاحب نے کل کی تقریب میں جو تقریر کی وہ بالکل اچھی نہیں تھی اور بور تھی۔ تو میں اسے جواب دوں گا کہ بہرام صاحب کا مطلب یہ ہو گا کہ عام طور پر میری تقریر بہت اچھی اور دلچسپ ہوتی ہے مگر کل کی تقریب والی تقریر اُس معیار کی نہیں تھی! اگر '' گریز‘‘ کی تکنیک نہ استعمال کر سکیں تو جرأت کر کے چغل خور کو صاف صاف بتائیے کہ منفی باتیں مت پہنچایا کرو اور مت پھیلایا کرو! عین ممکن ہے کہ اس تنبیہ کے بعد چغل خور یہ بری عادت ترک کر دے!
تیسری مصیبت بد گمانی ہے۔آپ نے کسی سے کوئی چیز مانگی۔ اس نے بتایا کہ اس کے پاس یہ چیز نہیں ہے۔ آپ بدگمانی کرنے لگے کہ اس کے پاس ہو گی مگر وہ دینا نہیں چاہتا! ویسے تو ایک کسان نے بدگمانی کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی تھی۔ اس کے پاس ایک شخص کھوتا مانگنے گیا۔ اس نے جواب دیا کہ اس کے پاس کھوتا ان دنوں نہیں ہے اور اگر ہوتا تو تب بھی نہ دیتا! ہماری خواتین بدگمانی کا بہت شکار ہوتی ہیں۔ گھر کی کوئی چیز نہ مل رہی ہو تو فوراً ملازم یا خادمہ پر الزام لگا دیتی ہیں۔ بعد میں وہ چیز گھر ہی سے مل جاتی ہے۔ بسا اوقات وہ خود ہی بھول جاتی ہیں کہ کہاں رکھی تھی! بدگمانی کی ایک قسم بہت عجیب ہے۔ کوئی صاحب آپ کے پاس اپنے کسی کام سے آئے۔ آپ نے انہیں خوش آمدید کہا مگر دل سے نہیں! دل میں آپ بر افروختہ ہو رہے ہیں کہ اتنا طویل عرصہ تو آیا نہیں‘ کبھی خیریت نہیں پوچھی اور اب کام آن پڑا ہے تو آن دھمکا ہے! یہ بدگمانی ہے اور کچھ کچھ تکبر بھی ! گویا آپ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے رہیں۔ تب آپ ان کے کام آئیں گے! آپ کو تو اللہ کا شکر ادا کرناچاہیے کہ آپ کو اس قابل کیا کہ کسی کے کام آسکیں اور کسی ضرورتمند کے لیے جائے پناہ بن سکیں ! اگر کسی کو پسند نہیں کرتے‘تب بھی اس کا کام کر دیجیے اور صدقہ سمجھ کر کیجیے۔کل حالات آپ کو بھی کوئی ایسا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور کر سکتے ہیں جہاں آپ پہلے کبھی نہیں گئے!
مثبت سوچ میں اپنا ہی فائدہ ہے! بدگمانی‘ دل میں رنجش پالتے رہنا‘ انتقام کی آگ میں جلتے رہنا‘ اعزہ و اقارب سے کسی نہ کسی بات پر ناراض ہی رہنا‘ معاف نہ کرنا‘ یہ سب وہ رذائل ہیں جو جسمانی صحت کے لیے بھی مہلک ہیں۔ بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے طویل ریسرچ کے بعد واقعاتی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ ایسے خواتین و حضرات کی عمر اُن لوگوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے جو معاف کر دیتے ہیں اور دل صاف رکھتے ہیں !!

Thursday, December 08, 2022

کیا یہ شکست سیاسی تھی؟


شام تھی۔ کھڑکی کے باہر املی اور لیچی کے پیڑ تیز ہوا میں جھوم رہے تھے۔ ان کے ناچتے پتوں کا عکس کھڑکی کے شیشوں پر پڑ رہا تھا۔

ڈھاکہ یونیورسٹی کی لائبریری 24گھنٹے کھلی رہتی تھی۔ میں اور میرا بنگالی دوست‘ جو ایم اے اکنامکس کی کلاس میں میرے ساتھ تھا‘ لائبریری میں بیٹھے پڑھ رہے تھے اورNotesبنا رہے تھے۔ ہمیں معلوم تھا کہ ہم نے ساری رات بیٹھنا ہے۔ کئی گھنٹے گزر گئے تو وہ کہنے لگا چلو‘ چائے پی آئیں! ہم اٹھے اور انٹرنیشنل ہوسٹل کے سامنے سے گزرتے ہوئے آرٹس بلڈنگ کی بغل میں واقع مادھو کی کینٹین میں جا بیٹھے۔ یہ وہی کینٹین ہے جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ جس نے مادھو کی کینٹین سے اتنی پیالیاں چائے کی نہیں پیں اور اتنے سموسے نہیں کھائے‘ وہ ڈھاکہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل نہیں ہو سکتا۔
1921ء میں ڈھاکہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا تو نوجوان مادھو نے اپنے باپ کے ساتھ یونیورسٹی میں اشیائے خورو نوش بیچنا شروع کیں۔ وقت کے ساتھ مادھو کی کینٹین یونیورسٹی کی ثقافتی زندگی کا جُزوِ لا ینفک ہو گئی۔ 26مارچ 1971ء کی صبح کو مادھو‘ اس کی بیوی‘ بیٹے اور بہو‘ سب کو مار دیا گیا۔
ہم نے چائے منگوائی اور ایک ایک سموسہ! بات‘ اکنامکس ڈپارٹمنٹ اور آنے والے امتحان سے ہوتے ہوئے اُس انتقالِ اقتدار تک جا پہنچی جو عین اُنہی دنوں پیش آیا تھا۔ صدر ایوب خان نے گیارہ سالہ حکمرانی کے بعد اقتدار یحییٰ خان کو سونپ دیا تھا۔ میرا بنگالی دوست مجھ سے صرف ایک سوال کا جواب چاہتا تھا کہ گیارہ سال کے بعد ایک اور جرنیل آگیا ہے تو اس حساب سے حکمرانی کسی بنگالی کو کب ملے گی؟ آپ کا کیا خیال ہے میرے پاس اس سوال کا جواب موجود تھا؟
گیارہ سال اقتدار ایک جرنیل کے ہاتھ میں رہا۔ اس سے دوسرے کو منتقل ہو گیا۔ اس دوسرے کی حکومت کے دوران خون کے دریا بہے۔ ایک تیسرے نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں اپنا ریوالور بھارتی جرنیل کے حوالے کیا۔ اور اب اکاون سال بعد یہ خبر دی جا رہی ہے کہ یہ شکست فوجی نہیں تھی‘ سیاسی تھی!
بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے!
اگر یہ شکست سیاسی تھی تو پھر بلی انڈے دیتی ہے۔ ہتھیلی پر بال اُگتے ہیں۔ گنا درختوں پر لگتا ہے۔ کھجور گاجر کی طرح زمین کے اندر سے نکالی جاتی ہے۔ اگر یہ شکست سیاسی تھی تو پھر قائداعظم نے یہ جو پاکستان حاصل کیا تھا‘ یہ فوجی فتح تھی! اوّل تو الوداعی تقریر میں یہ بات کہنے کا کوئی موقع محل نہ تھا‘ پھر کوئی دلیل بھی تو اس افسوسناک اور حیران کُن بیان کے حق میں دی جاتی!
اکاون سال گزر گئے ہیں! نصف صدی اور ایک سال اوپر! اس سارے عرصے میں ہم اس سانحہ سے سبق نہ سیکھ سکے۔ کوئی بنگالیوں پر غداری کا الزام عائد کرتا ہے۔ کوئی سارا الزام کسی تیسرے ملک پر لگاتا ہے۔ کوئی آسمان سے خبر لاتا ہے کہ یہ بنگالی تو ہندوؤں کے زیر اثر تھے۔ سب کی کوئی نہ کوئی غلطی تھی۔ بس ہماری کوئی غلطی نہ تھی۔ ہم یہ ماننے کے لیے آج بھی تیار نہیں کہ زبان کے معاملے میں ہم سے غلطی ہوئی۔ ہم میں سے اکثر کو یہ معلوم ہی نہیں کہ بنگالی اردو سے زیادہ پرانی اور زیادہ وسیع زبان تھی۔ نہ جانے کب سے ذریعۂ تعلیم تھی! جب مسلمان سلاطین بنگال پر حکمرانی کر رہے تھے تو ان کے دربار کی زبان یہی تھی۔ ہم نے اسے قومی زبان کا درجہ دیا مگر کب؟ اُس وقت جب نقصان ہو چکا تھا۔ ہم یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ زرِ مبادلہ کمانے میں زیادہ حصہ مشرقی پاکستان کا تھا اور ملتا انہیں کم تھا۔ مرکزی حکومت کی ملازمتوں میں ان کا حصہ‘ ان کے حق سے کم دیا جا رہا تھا! بہت کم! فوج میں ان کی تعداد برائے نام تھی! ویتنام میں لمبے تڑنگے امریکیوں کی عبرتناک شکست نے ثابت کر دیا تھا کہ اب جنگیں چوڑی چھاتیوں اور طویل قامتوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذہانت اور قوتِ ارادی کی بنیاد پر جیتی جاتی ہیں! مگر ہم اپنی ڈگر سے نہیں ہٹے۔ ہم نے ون یونٹ کے پردے میں چھپا کر ان کی واضح اکثریت کو غیر مؤثر کر دیا اور اس طرح پورے مغربی پاکستان کو تختِ لاہور سے باندھ کر ایک تیر سے دو شکار کر لیے۔ پھر ہم نے ان کے ساتھ وہ کچھ کر دیا جس کا کسی جمہوری ملک میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا۔ انتخابات ہوئے مگر جیتنے والے کو حکومت دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ یہ انہونی جب ہوئی تو ملک پر سیاستدانوں کی حکومت نہیں تھی!
اگر دونوں حصے امن و امان کے ساتھ‘ کسی دستوری طریقے سے الگ ہو جاتے تو تاریخ میں یہ علیحدگی دونوں ملکو ں کی سیاسی پختگی کے طور پر یاد رکھی جاتی! عوامی لیگ کے چھ نکات گنجلک کا بہترین حل تھے۔ ملک پر سیاستدانوں کی حکومت ہوتی تو ان نکات پر‘ میز پر بیٹھ کر بات ہوتی! کچھ لو اور کچھ دو کے تحت معاملات طے کیے جاتے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ ایک مدت کا تعین ہو جاتا جس کے بعد دونوں حصے امن و آشتی سے الگ ہو جاتے مگر چونکہ اہلِ سیاست کی حکومت نہیں تھی اس لیے معاملات بندوق کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ کا فیصلہ ہے کہ اپنوں کے ساتھ معاملات بندوق کے ساتھ کبھی طے نہیں ہوتے! عقل والوں کو نوشتۂ دیوار صاف نظر آرہا تھا! نوے ہزار میں وردی پوش کتنے تھے اور سویلین کتنے تھے‘ یہ بحث ہی بیکار ہے! آج نصف صدی کے بعد یہ نکتہ اٹھانا ایک خاص مائنڈ سیٹ کی غمازی تو کرتا ہے‘ سمجھ بوجھ کا اشارہ نہیں دیتا! حضور! جان کی امان ملے تو دست بستہ عرض کریں کہ نوے ہزار‘ سارے کے سارے پاکستانی تھے!
آج بنگلہ دیش کے زرِ مبادلہ کے ذخائر‘ اس کی برآمدات‘ اس کا ایکسچینج ریٹ‘ سب کچھ تسلی بخش ہے۔ ہماری معیشت زبوں حالی کا شکار ہے۔ اقتصادی اشاریے عبرت ناک ہیں۔ اس آس پر دن گزرتا ہے کہ شام کو کہیں سے کچھ آجائے! کشکول غیر اعلانیہ قومی نشان کی حیثیت اختیار کر چکا ہے! وہاں سیاسی استحکام ہے۔ ہم سیاسی استحکام سے کوسوں دور ہیں! ہمارا مستقبل غیر واضح ہے۔ حال بدحالی کا مظہر ہے! معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔ سوشل میڈیا پر جنگِ عظیم برپا ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں! بجائے اس کے کہ ہم مستقبل کی فکر کریں‘ ماضی کے گڑے مردے اکھاڑ رہے ہیں!
چیست یارانِ طریقت! بعد ازیں تدبیر ما؟ کم از کم اب تو ماضی سے سبق سیکھ لیں! دوسروں کو مطعون کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں! دل بڑا کریں! غلط پالیسیوں کا ادراک کریں اور اعتراف بھی! جن سے معذرت کرنی چاہیے‘ اندر یا باہر‘ جرأت کا مظاہرہ کرکے ان سے معذرت کریں! ایک نیا عمرانی معاہدہ ہماری مشکلات کا حل ہے! ایسا معاہدہ جو ہر سٹیک ہولڈر پر واضح کرے کہ یہ لکیر ہے جس سے باہر تم نے نہیں آنا! اہلِ سیاست ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا بند کریں! مل کر بیٹھیں! مسائل کو حل کرنے کا راستہ نکالیں! ایک فریق بات چیت پر آمادہ ہو ہی گیا ہے تو دوسرا فریق بدلہ لینے کے بجائے ذہنی پختگی کا مظاہرہ کرے! سنگین مسئلہ یہ ہے کہ نئی نسل سخت بے یقینی کا شکار ہے! اقبال نے کہا تھا: غلامی سے بَتر ہے بے یقینی! اس بے یقینی سے اسے نکالنے کی ذمہ داری اہلِ سیاست پر ہے! اب بھی اگر انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف باہر سے مدد مانگی تو انہیں عبرتناک انجام سے کوئی نہیں بچا پائے گا!

Monday, December 05, 2022

ادھوری تشخیص! ناقص علاج !!


کس دیدہ دلیری سے کہہ رہے ہیں کہ فلاں کا فون آیا تھا فلاں کی طرف ہو جاؤ!
ایک سیاستدان نے یہ بات کر کے دریا کو کوزے میں بند کر دیاہے! یہ ایک سیاست دان کا یا ایک سیاسی خانوادے کا یا ایک پارٹی کا حال نہیں‘ سبھی روبوٹ ہیں۔ سبھی معمول ہیں اور اپنے عامل کے کہنے پر چلتے ہیں!کٹھ پتلیاں ہیں جن کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے اور اب تو یہ وقت آگیا ہے کہ انہیں یہ بتاتے ہوئے کہ ہم نے فلاں کا ساتھ اس لیے دیا کہ ہمیں فون آگیا تھا‘ شرم تک نہیں آتی!
مقتدرہ کو بے گناہ قرار نہیں دیا جا سکتا! مگر کیا وہ سیاستدانوں کی مدد کے بغیر کچھ کر سکتی تھی ؟تاریخ کی ستم ظریفی ہے کہ سیاستدانوں کے ایک بھاری گروہ نے ہمیشہ مقتدرہ کے نیچے ستون بن کر اسے سہارا دیے رکھا۔ مشرقی پاکستان سے شروع کیجیے۔ مولوی فرید‘ مولانا بھاشانی اور نور الامین جیسے سیاست دان آمریت سے لڑتے رہے۔ مقابلہ کرتے رہے۔ جیلوں میں جاتے رہے۔ دوسری طرف عبد الصبور خان اور عبد المنعم خان جیسے لوگ اس کے اشاروں پر ناچتے رہے! وہ بھی ایک سیاست دان ہی تھا جس نے ایوب خان کو امیر المومنین بننے کی تجویز دی تھی۔ کون سا آمر تھا جس کے آگے پیچھے سیاستدان نہیں رہے؟ جنرل ضیاء الحق نے کہا تھا کہ سیاست دان میرے اشارے پر دم ہلاتے چلے آئیں گے! اگر ایسا نہیں تھا تو پھر سوال یہ ہے کہ کتنے سیاستدانوں نے اس ذلت آمیز بیان پر احتجاج کیا ؟ عزت ِنفس کی ایک رمق بھی ہوتی تو جتنے بھی اُس وقت آمرانہ حکومت کی گاڑی کھینچ رہے تھے‘ فوراً یہ جوا اپنے کندھوں سے اتار پھینکتے! ایک سیاستدان‘ سابق وزیر اعظم‘ کو جب پھانسی دی گئی تو یہ بھی ایک سیاست دان ہی تھا جس نے آمرانہ حکومت کے سربراہ سے اُس قلم کی فرمائش کی جس سے بھٹو کو پھانسی دینے کے حکم نامے پر اُس نے دستخط کیے تھے۔یہ قلم وہ نشانی کے طور پر رکھنا چاہتا تھا۔
اکبر بگتی کے تو چوہدریوں کے خاندان پر احسانات تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی کی خاطر سردار اکبر بگتی مرحوم نے بھٹو جیسے جابر حکمران سے ٹکر لی۔ جب مشرف دور میں بگتی کو مروا دیا گیا تو چوہدریوں کو اسی دن حکومت کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے تھا۔ مگر چوہدری ہی کیا‘ کسی سیاستدان نے‘ کسی موقع پر کسی آمر کی خدمت سے استعفیٰ نہیں دیا۔ ہماری تاریخ اس نوع کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہیں کر سکتی! شریف خاندان کی سیاست کا پودا آمریت کے دور میں لگا۔ اسے آمریت نے پانی دیا۔سالہا سال تک شریف خاندان مقتدرہ کا مرغِ دست آموز بنا رہا! بڑے میاں صاحب نے انہیں کے اشارے سے‘ محمد خان جونیجو کے پاؤں کے نیچے سے مسلم لیگ کی زمین کھینچی۔ جونیجو صاحب کو جس طرح پہلے وزارت عظمیٰ سے اور بعد میں مسلم لیگ کی صدارت سے ہٹایا گیا وہ اس ملک کی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب میں سے ہے۔ میاں صاحب نے اس پر کبھی تاسف یا ندامت کا اظہار تک نہیں کیا۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ سیاست دانوں کی بھاری اکثریت‘ ضیا الحق کی تابعِ فرمان تھی ؟ پرویز مشرف کا دور آیا تو سیاست دانوں نے ٹوڈی پن کے فن کو کمال تک پہنچا دیا! شوکت عزیز جیسا غیر سیاستدان‘ فتح جنگ کے حلقے سے‘ طلسمی انداز میں‘پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا۔ یہ کام سیاستدانوں کے ذریعے ہی کیا گیا۔ اس سے پہلے جمالی صاحب وزیر اعظم بنائے گئے۔ وہی انکار کر دیتے۔ مگر چونکہ سیاستدان تھے اس لیے آمنّا و صدّقنا کے فارمولے پر عمل کیا۔ چوہدریوں نے تو‘ یہ تک کہہ دیا کہ وردی میں دس بار جتوائیں گے!! سندھ سے لے کر پنڈی تک کیا سیاست دان خود فخر سے نہیں کہتے رہے کہ میں گیٹ نمبر چار کا آدمی ہوں ؟
عمران خان مقتدرہ کی اطاعت میں کسی سے پیچھے نہیں رہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ برملا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ یہ جو انہوں نے کہا ہے اور کئی بار کہا ہے کہ ہمیں شریفوں اور زرداریوں کی کرپشن کی فائلیں خود انہوں نے دکھائیں تو سوال یہ ہے کہ آپ ان کے ہمراز بنے کیوں؟ وہ جو آپ کو بتاتے رہے یا دکھاتے رہے‘ آپ مانتے رہے! اور یہ تو عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ بل پاس کرانا ہوتا تھا تو بندے پورے کر کے دیتے تھے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو مونس الٰہی اور عمران خان‘ ایک ہی سطح پر ہیں!
فرض کیجیے کہ مقتدرہ سنجیدگی سے نیوٹرل رہنا چاہتی ہے! آپ کا کیا خیال ہے کہ سیاستدان اسے ایسا کرنے دیں گے؟ ہر گز نہیں! یہ اسے چین سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ کبھی راتوں کو چھپ کر ملیں گے کبھی دن کے وقت بر ملا! ایک دوسرے کی شکایتیں لگائیں گے! انہیں کھینچ کر درمیان میں لائیں گے!
چھوٹے چوہدری صاحب کا یہ دعویٰ‘ کہ انہیں فون پر کہا گیا کہ فلاں کا ساتھ دیجیے‘ نیوٹر ل ہونے کے دعوے پر بھی سوال پیدا کرتا ہے۔ع
ہیں کواکب کچھ‘ نظر آتے ہیں کچھ
شاید ہماری منزل اتنی نزدیک نہیں! ابھی ہمیں سرابوں میں بھٹکنا ہے۔ 
مصطفی زیدی نے کہا تھا ؎ 
ابھی تاروں سے کھیلو‘ چاند کی کرنوں سے اٹھلاؤ
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ 
نہ جانے وہ دن کب آئے گا جب ہمارے اہلِ سیاست روبوٹ بننا بند کریں گے۔ اپنی عقل سے کام لیں گے اور ایک دوسرے کو شکست دینے کے لیے تیسری طرف دیکھنے کا سلسلہ ختم کریں گے۔مقتدرہ نہ صرف نیوٹرل ہو گی بلکہ اُس مقام پر رہے گی جہاں اسے ملک کا آئین کھڑا کرتا ہے۔ اپنی آخری تقریر میں سابق سپہ سالار نے بھارتی فوج کا ذکر کیا اور کہا کہ ''بھارتی عوام کم ہی اپنی فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں‘ اس کے برعکس ہماری فوج گاہے گاہے تنقید کا نشانہ بنتی ہے‘ میرے نزدیک اس کی بڑی وجہ 70 سال سے فوج کی مختلف صورتوں میں سیاست میں مداخلت ہے جو غیر آئینی ہیـ!‘‘ــــــــ
مختلف صورتوں سے ان کی کیا مراد تھی ؟ کیا ان صورتوں میں وہ مداخلت بھی شامل ہے جو سول بیورو کریسی میں ہوتی رہی؟ اب اگر بھارت سے موازنے کی بات سابق سپہ سالار نے کر ہی دی ہے تو کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ موازنہ ایک مکمل سٹڈی کی شکل میں وسیع اور عمیق پیمانے پر کیا جائے؟ تشخیص کرنی ہے تو اس طرح کی جائے کہ کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔ اس کے بعد ہی دوا اور صحت کے مراحل آسکتے ہیں!! تشخیص ادھوری ہوئی تو بیماری ختم تو کیا ہونی ہے‘ اس کی شدت اور پیچیدگی میں اضافہ ہی ہو گا!
بظاہر تو منزل دور ہی نظر آرہی ہے۔ فریقین میں زخم پذیری (vulnerability) بہت زیادہ ہے۔ کسی وقت بھی طے شدہ روڈ میپ سے ہٹ سکتے ہیں۔ زیادہ ذمہ داری سیاست دانوں پر ہے۔ ماضی میں طالع آزماؤں کا ساتھ دے کر وہ کئی بار کھیت رہے۔اب مصمم ارادہ کریں کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کسی طالع آزما کے دسترخوان پر نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے لیے اخلاقی بلندی بھی لازم ہے۔ یہ بھی تو تاریخ کا حصہ ہے کہ نیب کی تیار کردہ فائلیں دکھا کر سیاستدانوں کو نرغے میں لیا گیا اور بے بس کر دیا گیا! اس امتحان میں وہی کامیاب ہوں گے جن کا حساب پاک ہو گا اور محاسبے کا ڈر نہیں ہو گا!!

Thursday, December 01, 2022

کیا ہم میں مینوفیکچرنگ نقص ہے ؟؟


'' کوشش کرو کہ کسی سے ادھار نہ لینا پڑے۔ جب بھی کسی سے قرض لو تو تعیّن کروکہ واپس کب کرو گے۔ پھر اس تاریخ کا دھیان رکھو۔ اگر خدا نخواستہ معیّنہ وقت پر واپس کرنے کے قابل نہیں ہو‘ تو اُس تاریخ کو یا اُس سے پہلے‘ خود جا کر وضاحت کرو اور نئی تاریخ کا تعین کر کے آؤ۔ اب تیسری بار توسیع کے لیے گزارش کرنا ذلت کا کام ہو گا۔ اسی طرح جو شخص تم سے قرض لیتا ہے اور مقررہ مدت کے اندر واپس نہیں کرتا اور خود حاضر ہو کر وضاحت بھی نہیں کرتا‘ اسے آئندہ ہر گز ہر گز قرض نہ دو۔ یہ تو روپے پیسے کا معاملہ ہوا! جہاں تک چیزوں کا تعلق ہے‘ جیسے گاڑی‘ استری‘ سیڑھی‘ چارجر‘ تویہ زیادہ حسّاس معاملہ ہے۔ ایسی چیزیں مانگ کر واپس نہ کرنا اُن لوگوں کا وتیرہ ہے جو ارذل الخلائق ہیں۔ اگر تم کسی سے کوئی شے لو اور واپس لینے کے لیے اُسے خود کہنا پڑے تو یہ تمہارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے!!‘‘
یہ نصیحت ایک جہاندیدہ بزرگ نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ اس سماج میں بہت کم لوگ ہیں جو اپنی آئندہ نسل کو معاشرت کا یہ بنیادی سبق پڑھائیں۔ پڑھائیں بھی تو کیسے؟ ان کا اپنا عمل ہی قابلِ رشک نہیں! اس میں بہت سے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ خاندانی پس منظر‘ گھر کی تربیت‘ شرم اور غیرت کی مقدار! عزتِ نفس کا مسئلہ! وضعداری کا پہلو! ہم نے سنا ہے کہ کچھ لوگ فاقہ کر لیتے تھے‘ مگر دستِ سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ چٹنی سے روٹی کھا لیتے تھے مگر عزت ِنفس کا سودا نہیں کرتے تھے۔ اقبال نے یہی نصیحت کی تھی ؎
بیا بہ سجدہ و یاری ز خسروان مطلب
کہ روزِ فقر نیاگانِ ما چنین کردند
حکمرانوں سے مدد نہ مانگو! سجدہ کرو! کہ ہمارے اجداد ضرورت کے وقت ایسا ہی کرتے تھے!
یہ تو فرد کا معاملہ ہے! آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی قوم اس ضمن میں بدنام ہو جائے؟ ملکی سطح پر‘ کسی دوسرے ملک سے یا کسی بیرونی ادارے سے کچھ لے اور پھر واپس نہ کرے؟ یہاں تک کہ اُس ملک کو‘ یا اُس ادارے کو‘کہنا پڑے کہ جناب! یہ چیز ہماری ہے۔ آپ نے ضرورت پوری ہونے کے بعد واپس کرنی تھی! اب واپس کر ہی دیجیے! تو جناب! خاطر جمع رکھیے! اس میدان میں ہماری کارکردگی شاندار ہے! آپ کہیں یہ تو نہیں سمجھ رہے کہ ہم ماضی کی بے شرمیوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ اس میں کیا شک ہے کہ بطورِ قوم ہمارا سر اس سلسلے میں شرم کے مارے پہلے ہی جھکا ہوا ہے۔ ایک سابق حکمران بڑے ٹھسّے سے بتاتا رہا کہ دیارِ غیر میں مکان اسے ایک بادشاہ نے عنایت کیا۔ کسی نے اس سے نہ پوچھا کہ کیا ضرورت تھی تمہیں یہ احسان لینے کی؟ ایک اور سابق حکمران نے اپنے عدالتی معاملات میں دوسرے ملک کے شہزادوں کو ملوث کیا۔یہ بھی قوم کے لیے شرم کا مقام تھا۔ ایک اور حکمران کو احساسِ کمتری اتنا شدید تھا کہ کمرشل فلائٹ میں سفر نہیں کرتا تھا۔ امریکہ جانے کے لیے ایک شہزادے سے جہاز مانگا۔ یہی کم باعث ِشرم نہ تھا کہ واپسی پر‘ بیچ راستے کے‘ اسے جہاز سے اتار دیا گیا اور جہاز واپس لے لیا گیا۔ اسی لیے عقلمندوں نے کہا تھا کہ بھٹ پڑے وہ سونا جس سے پھوٹیں کان! تُف ہے اُس مکان پر اور اُس عدالتی صفائی پر اور اس ہوائی سواری پر جس سے ملک کی حرمت پر‘اور قوم کی عزّتِ نفس پر‘ حرف آئے۔
یہ واقعات پرانے ہو چکے۔ ہم نے ان پر ندامت محسوس کی یا نہیں‘ یہ ایک الگ سوال ہے۔ مگر آج جو شرمناک واقعہ شیئر کرنا ہے وہ بالکل تازہ ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارۂ صحت نے حالیہ سیلاب کے دنوں میں ایک بم پروف‘ سپیشل قسم کی گاڑی‘ پاکستان کے ایک ڈپٹی کمشنر کو دی تھی تا کہ سیلاب کے دوران سروے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ یہ گاڑی مخصوص وقت اور مخصوص کام کے لیے دی گئی تھی۔ سروے ختم ہونے کے بعد یہ گاڑی واپس کرنی تھی! مگر نہ کی گئی! عالمی ادارۂ صحت نے اس معاملے کے بارے میں پاکستان کی وزارتِ خارجہ کو مراسلہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ گاڑی عالمی ادارۂ صحت کو واپس کرائی جائے۔ وزارت ِخارجہ نے صوبے کے چیف سیکرٹری سے جواب طلبی کی ہے اور حکم دیا ہے کہ گاڑی جس کے بھی قبضے میں ہے‘ واپس کی جائے۔ظاہر ہے‘ وزارت ِخارجہ کو شکایت لگانے سے پہلے‘ عالمی ادارۂ صحت نے اپنی سی کوشش ضرور کی ہو گی۔ ڈی سی صاحب کو بھی کہا ہو گا اور ہو سکتا ہے صوبائی حکومت کے بڑوں سے بھی رابطہ کیا ہو۔ بہر طور انہیں‘ معاملہ وزارتِ خارجہ کی سطح پر اٹھاناپڑا۔ ہمارے پڑھنے والے گلہ کرتے ہیں کہ نام کیوں نہیں لیتے۔ کچھ تو اس ضمن میں طعن و تشنیع تک چلے جاتے ہیں۔ مگر مسئلہ یہ نہیں کہ کس ڈی سی نے یہ چھچھوری حرکت کی۔ ایشو یہ بھی نہیں کہ متعلقہ صوبہ کون سا ہے۔ بات تو ملک کی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے نزدیک یہ گری ہوئی حرکت پاکستان میں ہوئی ہے اور پاکستانیوں نے کی ہے! ڈی سی کو یا اس کے چیف سیکرٹری کو کون جانتا ہے! ڈی سی کا نام لکھنے سے یہی ہو گا کہ اس کے بچوں کو سکول یا کالج میں ان کے دوست طعنے دیں گے! اس کی بیگم کی اپنی ملنے والیوں میں سبکی ہو گی! اس کے علاوہ اور کیا ہو گا؟ ایکشن وزارتِ خارجہ لے ہی رہی ہے۔ ہمارا رونا اور ہے!!
رونا یہ ہے کہ ہم احساسِ کمتری کے مارے ہوئے کیوں ہیں؟ ہم سفلہ پن سے باز کیوں نہیں آتے؟ ہماری آنکھوں سے اور پسلیوں سے اور ہڈیوں سے اور ہڈیوں کے اندر گودے سے اور وریدوں میں بہتے خون سے بھوک کب ختم ہو گی؟ ہم سیر چشمی کی منزل کب سر کریں گے؟ ہمیں استغنا کب نصیب ہو گا؟ ہم وزیراعظم کے منصب پر ہوتے ہیں تو سیلاب زدگان کے لیے عطیّہ شدہ ہار پار کر لیتے ہیں! ہم قاضی القضاۃ کے درجے سے ریٹائر ہوتے ہیں تو بلٹ پروف کار واپس کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔مارچ2018ء میں لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ موصوف کو ریٹائرمنٹ کے بعد صرف ایک گارڈ اور ایک ڈرائیور رکھنے کی اجازت ہے مگر حضرت نے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بلٹ پروف کار کے علاوہ دو ڈرائیور‘ ایک ہیڈ کانسٹیبل‘ دو سب انسپکٹر‘ اور نو (9) کانسٹیبل رکھے ہوئے ہیں! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو اے آنکھوں والو!! کبھی ہم وزارت سے سبکدوش ہونے کے بعد سرکاری مکان خالی نہیں کرتے۔ کبھی ہم دوست ملکوں سے ملے ہوئے خصوصی تحائف سرِ بازار نیلام کرتے ہیں‘ دنیا بھر میں رسوا ہوتے ہیں‘ ملک کو رسوا کرتے ہیں اور ڈھٹائی سے گھُنّے بن جاتے ہیں۔تو کیا ہم بطور ِقوم لالچی ہیں؟ شہدے ہیں؟ کیا ہم بطورِ قوم نفسیاتی مریض ہیں؟
افسوس! ہم گاڑیوں‘ ہاروں‘ سرکاری مکانوں اور گھڑیوں سے اوپر اُٹھ ہی نہیں سکتے! ہماری پست سوچ یہیں تک ہے! مجھے یقین ہے کہ اگر ہمیں پورے کرۂ ارض کا بلا شرکتِ غیرے حکمران بنا دیا جائے تب بھی ہم ان بے بضاعت چیزوں کو غیر قانونی طریقے سے ہتھیانے کی فکر میں ہوں گے! کون جانے ہمیں کیا مار ہے؟ ہم میں مینوفیکچرنگ نقص ہے یا شاید ہمارے ڈی این اے میں کوئی ازلی ابدی کجی ہے!!
جو شخص بھی گاڑی واپس نہ کرنے کا ذمہ دار ہے‘ اس کی کم سے کم سزا ملازمت سے برطرفی ہونی چاہیے۔ مسئلہ صرف ایک گاڑی واپس کرنے کا نہیں! ملک بدنام ہوا ہے! قوم کی شہرت داغدار ہوئی ہے۔ مگر دردناک پہلو یہ ہے کہ سزا ملنے کا کوئی امکان نہیں!

Tuesday, November 29, 2022

ایک یونیورسٹی کا قتل


مبارک ہو۔ یہ فتح یابی بھی اپنے ہی ملک کے حصے میں آنی تھی! بقول فراق گورکھپوری ؎
ہر ایک سے کہاں بارِ نشاط اُٹھتا تھا
بلائیں یہ بھی محبت کے سر گئی ہوں گی
تاریخ میں پہلے ایسا ہوا نہ کبھی دوبارہ ہو گا۔ ایک جیتی جاگتی‘ زندہ‘ گوشت پوست سے بنی ہوئی ‘ بین الاقوامی رینکنگ رکھنے والی‘ یونیورسٹی کو زمین پر لٹایا جارہا ہے۔ پھر اس کے گلے پر تیز دھار خنجر رکھ کر‘ اس کے سینے پر سے ایک چھ لین شاہراہ گزاری جارہی ہے۔ یونیورسٹی کا جسم کٹ کر دو حصوں میں بٹ جا ئے گا۔ ایک حصہ شاہراہ کے ایک طرف‘ دوسرا حصہ شاہراہ کے دوسری طرف!
سچ پوچھیں تو اس ملک کو یونیورسٹیوں کی ضرورت ہی نہیں ہے! بے شمار سکولوں کالجوں کی عمارتیں پہلے ہی وڈیروں کے مویشی خانوں اور گندم اور بھوسے کے گوداموں کے طور پر استعمال ہو رہی ہیں! جو سرکاری سکول کام کر رہے ہیں ان کی حالت اُن بیواؤں جیسی ہے جن کے گھروں میں شام کو چراغ نہیں جلتے۔ ان سکولوں کی دیواریں ہیں تو چھت نہیں ہے۔ فرنیچر خال خال ہے۔ بچے اپنے گھروں سے سیمنٹ کی خالی بوریاں لاتے ہیں اور ان پر بیٹھتے ہیں۔ ماسٹرصاحبان ساتھ ساتھ‘ دن کے وقت ہی‘ اپنی دکانیں چلاتے ہیں اور کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ رہیں سرکاری یونیورسٹیاں تو ان کے وجود کا بھی کیا جواز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ ان کی عمارتیں منہدم کر دی جائیں۔ کچھ زمین ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حوالے کر دی جائے جو ان یونیورسٹیوں میں دادا گیری کا کام کرتی ہیں‘ اور عملاًپہلے ہی قابض ہیں۔اساتذہ کو ڈراتی ہیں۔ نئے طلبہ و طالبات کو اپنے دامِ تزویر میں جکڑتی ہیں اور '' ضرورت ‘‘ پڑے تو وائس چانسلروں کے دفتروں پر قبضہ بھی کر لیتی ہیں۔ باقی زمین پراپرٹی ڈیلروں‘ قبضہ مافیا کے ممبروں اور دکانداروں میں بانٹ دی جائے۔ بانس رہے نہ بانسری! اس ملک کو یونیورسٹیوں اور لائبریریوں کی ضرورت نہیں! صرف محلات اور بڑی گاڑیوں کی ضرورت ہے! ٹھیکیداروں کی ضرورت ہے!جہاں دس پاس‘ یا فیل‘ ٹائیکون بن سکتے ہیں اور حکومتوں کی تشکیل میں کردار ادا کر سکتے ہیں ‘ وہاں یونیورسٹیوں کا رُخ کرنے والوں کی دماغی صحت پر شک ہی کیا جا سکتا ہے!
یہ جو بارہ کہو کے بے ترتیب ‘ غدر نما علاقے پر اوور ہیڈ برج نہیں بنایا جا رہا اور اس کے بجائے وفاقی دارالحکومت کی قدیم ترین یونیورسٹی کے سینے میں خنجر بھونکا جا رہا ہے تو اس کا ایک پس منظر ہے۔ ایسا پس منظر جس سے سر جھک جائیں! جس سے ثابت ہو جائے کہ ہم بطور قوم نااہل ہیں۔ہماری دُور کی نظر نہ ہونے کے برابر ہے اور ایک ملک تو کیا ‘ ہم ایک شہر کا انتظام کرنے کے قابل بھی نہیں! معاملے کی سنگینی کو سمجھنے کے لیے آپ اسلام آباد کو تین حصوں میں تقسیم کر لیجیے۔ مغربی کنارا۔ درمیانی حصہ اور مشرقی کنارا! مغربی کنارے کا نام ترنول ہے۔ یہ مقام غیر قانونی آبادیوں کا گڑھ ہے۔ کوئی ترتیب ہے نہ نظم و ضبط! کسی کی اجازت کی ضرورت ہے نہ کوئی نقشہ ہی پاس کرانا ہے۔ یہ غیر ملکیوں کی جنت ہے۔ بھگوڑے یہاں آسانی سے چھپ سکتے ہیں۔اسلحہ اس علاقے میں بے شمار ہے۔یہ سب کچھ حکام کی ناک تلے ہوا۔ نام نہاد ترقیاتی ادارہ اور اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ اس مجرمانہ غفلت‘ یا نا اہلی ‘ کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔
اسلام آباد کے عین وسط میں ایک سیکٹر ہے جسے '' جی۔بارہ ‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ سیکٹر جو شہر کے دل میں واقع ہے‘ اسلام آباد میں شامل ہی نہیں! آپ وہاں زمین نہیں خرید سکتے۔ گھر نہیں بنا سکتے۔ ہاں ! اگر آپ سرحد پار سے آئے ہیں‘ اگر کسی مافیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ اگر کسی جرائم پیشہ سرگرمی میں ملوث ہیں تو اس سیکٹر میں جو جی چاہے کیجیے۔ اس میں ساری تعمیرات غیر قانونی ہیں۔ بجلی کی بہم رسانی غیر قانونی ہے۔ یہ خطرناک ترین جرائم کا مرکز ہے۔ اسے کیوں ترقیاتی ادارے کے تحت نہ کیا گیا؟ یہاں پلاٹ کیوں نہ بنائے گئے؟ یہاں جنگل کا قانون کیوں ہے؟ اس میں رہنے والے لوگوں کے رویے کی کیا ضمانت ہے؟ یہ دارالحکومت کے اندر ہو کر بھی باہر کیوں ہے؟ ان سوالوں کے جواب آپ کو کوئی نہیں دے گا؟ ایسی ہوشربا لاقانونیت کی مثال کم از کم کرۂ ارض کے کسی مہذب خطے میں ملنی نا ممکن ہے۔ بہت سے لوگ اس سیکٹر کو سہراب گوٹھ کہتے ہیں۔ کیوں کہتے ہیں ؟ وجہ ظاہر ہے!
شہر کا مشرقی کنارہ بارہ کہو ہے۔ یہ گنجان ترین آبادی ہے اور مادر پدر آزاد ہے۔ حکام کی نااہلی کا یہ بدترین نمونہ ہے۔ کوئی قانون‘ رُول‘ قاعدہ‘ ضابطہ یہاں موجود نہیں۔ جہاں بھی زمین ملے‘ لے لیجیے۔ جو بنانا چاہیں‘ بنا لیجیے۔ کسی اجازت کی ضرورت نہیں۔ کوئی ٹیکس نہیں۔ گیس کے ان گنت کنکشن غیر قانونی ہیں! اس بات پر غور کیجیے کہ مکانوں اور دکانوں کا یہ بدترین جمگھٹ وزیر اعظم کے دفتر سے صرف دس یا بارہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ سب سے زیادہ خطر ناک پہلو یہاں لاکھوں غیر ملکیوں کا مستقل قیام ہے۔ اس علاقے میں عدلیہ کا متوازی سسٹم‘ جو یہ غیر ملکی اپنے ساتھ لائے ہیں‘ باقاعدہ چل رہا ہے۔ مگر یہ سارا معاملہ مسئلے کا صرف ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو یہ ہے کہ مری روڈ کا جو حصہ بارہ کہو سے گزرتا ہے‘ اس کے دونوں طرف دکانیں کسی ترتیب یا تنظیم کے بغیر ڈالی گئیں اور یہ سب ‘ ترقیاتی ادارے اور ضلعی انتظامیہ کے سامنے ہوتا رہا۔ قبضہ گروپ اور پراپرٹی ڈیلروں نے حشر برپا کر دیا۔ مری روڈ کی دونوں اطراف کے بیشتر حصے ہولناک تجاوزات کا شکار ہیں۔ کوئی چیف کمشنر اسلام آباد سے پوچھے کہ یہ سب کیوں اور کیسے ہوتا رہا؟ انتظامیہ کو کئی سال پہلے یہاں سروس روڈز بنا کر مری روڈ کو بچا لینا چاہیے تھا۔ اب یہاں سے عام دنوں میں بھی گزرنا مشکل ہے اور عید اور دیگر تعطیلات میں تو ناممکن ہے۔ٹھیلوں کا ایک جہان ہے جو اپنی مرضی سے آباد ہے۔ دکانوں کے آگے دکانیں ہیں۔ دکانوں کے اندر دکانیں ہیں اور دکانوں کے پیچھے دکانیں ہیں۔ دکانداروں اور پراپرٹی ڈیلروں کا یہ مافیا اتنا طاقتور ہے کہ اب اوور ہیڈ پُل نہیں بنانے دے رہا۔ حکام اس مافیا کے سامنے تو بھیگی بلی بنے ہوئے ہیں مگر یونیورسٹی پر ان کا خوب زور چلتا ہے۔
چیف کمشنر کا ادارہ اور ترقیاتی ادارہ دونوں اس صورتحال کے ذمہ دار ہیں۔ حل صرف اور صرف یہ ہے کہ
1۔ بارہ کہو سے غیر ملکیوں کو نکالا جائے‘ اس سے پہلے کہ یہ سہراب گوٹھ کی شکل اختیار کر لے۔
2۔ غیر قانونی تعمیرات ‘ بالخصوص دکانیں‘ منہدم کی جائیں۔
3۔فوری طور پر سروس روڈز بنا کر مری روڈ کو الگ کر دیا جائے
4۔تجاوزات کی اندھیر نگری پر قابو پایا جائے۔
5۔سب سے بڑھ کر یہ کہ متعلقہ ادارے‘ یونیورسٹی کے قتل سے باز آئیں اور آئندہ نسلوں کی پھٹکار اور لعن طعن کا کچھ خوف کریں۔ پچاس پچپن سال سے جو یونیورسٹی قائم ہے اور کئی نسلیں جس سے فارغ التحصیل ہو چکی ہیں ‘ اس یونیورسٹی کے ساتھ وہ سلوک نہ کیا جائے جو وڈیرے‘ سردار اور جاگیردار سکولوں اور کالجوں سے کر رہے ہیں۔ کسی‘ ترقی یافتہ ملک میں اس قسم کے غیر مہذب اقدام کا سوچا تک نہیں جا سکتا۔
6۔ بارہ کہو اوور ہیڈ برج کا اصل منصوبہ بروئے کار لایا جائے۔منطق یہی کہتی ہے اور انصاف بھی یہی ہے۔

Monday, November 28, 2022

زندگی کی پیمائش ! کافی کے چمچوں سے


یہ اطلاع میری بھتیجی فاطمہ گیلانی نے دی۔ پروفیسر معظم منہاس وہاں چلے گئے جہاں سب جاتے ہیں مگر وہاں سے واپس کوئی نہیں آتا۔�انسان اوپر سے سب ایک سے لگتے ہیں۔ سب کا ایک سر‘ دو آنکھیں اور دو کان! مگر اندر جہانوں اور زمانوں کا فرق ہوتا ہے۔ وحشی تاتاری کو کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس کا قیدی کون ہے ؟ وہ اسے سینکڑوں ہزاروں دوسرے عام قیدیوں کی طرح سمجھ رہا تھا کیونکہ اوپر سے اس کا قیدی دوسرے قیدیوں ہی کی طرح تھا۔جب ایک خریدار نے چاندی کے ہزار سکے اس قیدی کے عوض پیش کیے تو قیدی نے تاتاری سے کہا: اس قیمت پر مجھے نہ بیچناکہ میری قیمت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ پھر کسی نے بھوسے کے گٹھے کی پیشکش کی تو قیدی نے کہا: قبول کر لو کہ یہی میری قیمت ہے۔ اس وحشی تاتاری کو کیا معلوم تھا کہ یہ قیدی تو عطار ہے۔ عالموں کا عالم اور صوفیوں کا صوفی ! فقیروں کا فقیر اور داناؤں کا دانا! اس نے بھنّا کر اسے قتل کر دیا! پروفیسر معظم منہاس بھی دیکھنے میں عام آدمیوں کی طرح لگتے تھے۔ طویل قامت! بھاری جسم! کھلی پیشانی ! اس خطۂ زمین میں ایسے لاکھوں افراد پائے جاتے ہیں مگر ان میں پروفیسر معظم منہاس جیسا کوئی نہیں! پروفیسر صاحب کی موت کسی عام آدمی کی موت نہیں! یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں! رومی نے کہا تھا کہ خواجہ سنائی کی موت کوئی چھوٹی بات نہیں! وہ کوئی تنکا تھوڑی تھا جسے ہوا اُڑا لے جاتی۔ وہ دانہ بھی نہیں تھا جسے زمین دبا لیتی۔ وہ کوئی کنگھی نہیں تھی جو بالوں سے ٹوٹ جاتی! وہ پانی نہیں تھا جسے سردی منجمد کر دیتی۔ وہ تو مٹی کے اس گھروندے میں زر کا ذخیرہ تھا۔ وہ تو ان دنیاؤں کو جَو کے ایک دانے کے برابر سمجھتا تھا۔ اس نے خاکی جسد کو خاک پر ڈالا اور خود آسمانوں کی طرف پرواز کر گیا !�وفاقی دارالحکومت میں ایک سے ایک محل ایسا ہے کہ رباط اور جدہ میں ایسے محل کیا ہوں گے ! اسی بھرے بھرائے مگر اُتھلے شہر کے‘ اسی روشنیوں سے جگمگاتے مگر اندر سے تاریک شہر کے‘ ایک بارہ مرلے کے اوسط درجے کے گھر میں پروفیسر صاحب رہتے تھے۔ اس گھر کے لان میں جامن کا ایک درخت تھا۔ ان سطور کے لکھنے والے نے جامن کبھی رغبت اور اشتیاق سے نہیں کھائے۔ مگر پروفیسر صاحب کے لان کا یہ درخت جامن گراتا تو ایک ایک جامن ہیرے اور موتی کی طرح لگتا اور میں دلبستگی اور آرزومندی کے ساتھ کھاتا کہ کیا خبر اُس علم کے دریا کا کوئی ایک آدھ قطرہ میرے حصے میں بھی آجاتا جو پروفیسر صاحب کے سینے کے اندر موجزن تھا! انگریزی ادب اور لغت کے وہ بہت بڑے عالم تھے۔ بائیس برس شرق اوسط میں انگریزی لغت اور ادب کی تعلیم دی۔ شہزادے اور بادشاہ ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتے۔ انہیں جھُک کر ملتے۔خود پروفیسر صاحب نے اس عرصہ میں عربی سیکھی۔امتحان پاس کیے۔مقامی لہجے( Colloquial)کے گویا ماہر ہو گئے۔میری ان سے جب ملاقات ہوئی وہ شرق اوسط سے واپس آچکے تھے۔ اُن سے یارِ مہرباں سید فاروق گیلانی نے ملاقات کرائی۔ یہ دونوں اصحاب اسلام آباد کلب میں بیٹھتے تھے۔ بیٹھتے کیا تھے۔ مجلس آرائی کرتے تھے۔ یہ چراغ تھے۔ان سے علم کی ادب کی‘ فصاحت کی‘ شاعری کی‘ منطق کی‘رموز و اسرار کی‘ شعاعیں پھوٹتی تھیں۔ دونوں فیاض تھے اور انتہا درجے کے مہمان نواز! میں بھی اس مجلس کے خوشہ چینوں میں تھا۔ بس چلتا تو پروفیسر صاحب سے سبقاً سبقاً‘ شیکسپئیر‘ ٹی ایس ایلیٹ اور ایزرا پاؤنڈ پڑھتا۔ جدید اور قدیم انگریزی ادب ان کے سامنے دست بستہ کھڑا تھا۔ انگریزی کی کلاسیکی شاعری ان کی کنیز تھی! کوئی ایک مجلس بھی ان کے ساتھ ایسی نہ تھی جس میں کچھ سیکھا نہ ہو۔ ان کا انگریزی کالم ایک پہاڑی جھرنے کی طرح ہوتا جس سے لفظ اور جْملے آہستگی کے ساتھ نکلتے مگر دور‘بہت دور‘ تک جاتے۔ کیا سحر طاری کر دیتی ان کی انگریزی انشا پردازی! نصر اللہ خان عزیز نے ابو الکلام آزاد کی خطابت کی تصویر کچھ اس طرح کھینچی تھی '' یوں لگتا تھا جیسے قمقموں سے روشنی نکل نکل کر خلقت کے سر پر چادر کی طرح تانی جا رہی ہو‘‘ پر و فیسر صاحب انگریزی بولتے یا لکھتے تو لگتا روشنی ستاروں سے چھن چھن کر ہم پر برس رہی ہے۔ پھر جانے کیا سوجھی۔ اڑسٹھ سال کی عمر میں قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کرنے لگے۔ خمیر لٹریچر سے بنا تھا۔ قانون کو بھی اسی رفعت پر لے گئے۔ بولتے تو عدالتیں ہمہ تن گوش ہو جاتیں کہ قانون اور ادبِ عالیہ یکجا ہو رہے ہوتے۔ جج حضرات ان کی انگریزی سے مسحور ہو جاتے۔ حیران ہو جاتے! انہیں کیا معلوم کہ علم اور فصاحت کا یہ بحر بیکراں معاوضے کے لیے وکالت نہیں کر رہا بلکہ اپنی اُس رگ کی تسکین کر رہا ہے جو علم کی جویا ہے اور جوایک سے ایک نئی منزل کی تلاش میں ہے۔�پھر اس منڈلی کو نظر لگ گئی۔ فاروق گیلانی نے ڈھلتے ہوئے سال کے ایک بے فیض دن‘ چرم کے موزے پہنے۔چادر کندھے پر ڈالی۔ پٹکا کمر سے باندھا۔ عصا ہاتھ میں لیا۔ گھوڑے پر بیٹھے۔ مہمیز لگائی اور نظروں سے ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو گئے۔ میں ملک سے باہر ہوا ماپ رہا تھا اور گرد چھان رہا تھا۔ پروفیسر صاحب کو فون کیا تو بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیے۔ ہماری تکون ٹوٹ گئی تھی! مثلّث کا وَتر چلا گیا تھا۔ میں نے مرثیہ کہا تو ہر شعر پر تڑپ تڑپ اٹھے۔ صادق نسیم کا یہ شعر انہیں سنایا تو گویا اسے حرزِ جاں ہی بنا لیا�

وہ میرا شعلہ جبیں‘ موجۂ ہوا کی طرح

دیے بجھا بھی گیا اور دیے جلا بھی گیا


پروفیسر صاحب کلب میں آتے رہے۔ فرینچ فرائز اور اچھی چائے ! بس انہی دو اشیا کے رسیا تھے۔ کوشش کرتا کہ کسی مجلس سے غیر حاضر نہ رہوں کہ غیر حاضری طالبِ علم کے لیے گھاٹے کا سودا تھی۔میرے اور فاروق گیلانی کے بچوں کو کوئی کامیابی ملتی تو خوشی منانے کے لیے دعوتیں کرتے۔ عام گفتگو میں بھی مزاح کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ عرض کیا کہ خود نوشت تحریر فرمائیں۔ کہنے لگے ''بادشاہ ہیں آپ ! ادھر گھُٹنے کام نہیں کر رہے‘ آپ کہتے ہیں خود نوشت لکھوں!!‘‘ مرضیہ بیٹی سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا: انکل خود نوشت کو چھوڑیں‘ بس زندگی سے لطف اٹھائیں‘‘۔بہت خوش ہوئے کہ یہی کچھ وہ چاہتے تھے۔ فاطمہ بیٹی کا نام انہوں نے 
unguided missile
رکھا ہوا تھا۔ سب سے زیادہ خیال اُن کا اُسی نے رکھا۔ آہستہ آہستہ گھر تک محدود ہو کر رہ گئے۔یہ اور بات کہ لکھنے پڑھنے کا کام کم نہ ہوا۔ مطالعہ گھُٹی میں پڑا ہوا تھا۔ کالم پڑھ کر فون کرتے اور حوصلہ افزائی فرماتے! صاف معلوم ہو رہا تھا کہ چراغ بھڑک کر بجھنے کو ہے۔ ایک روشن ستارہ ٹوٹنے کو ہے! تقویم کا ایک صفحہ الٹنے کو ہے۔ تند و تیز ہوا ایک بلند ٹیلے کی ریت کو آہستہ آہستہ اُڑا لے جا رہی تھی۔ ہم ٹیلے کو کَم ہوتے‘ گھَٹتے‘ دیکھ رہے تھے مگر بے بس تھے۔ آخری فتح قدرت کی ہوتی ہے یا شاید موت کی ! پروفیسر صاحب‘ ٹی ایس ایلیٹ کا یہ لافانی مصرع اکثر پڑھا کرتے:
 I have measured out my life with coffee spoons
کہ میں نے اپنی زندگی کو کافی کے چمچوں سے ماپا ہے۔ ہمیں جب کافی کے چمچوں سے زندگی کو ماپنا سکھا چکے تو خود چلے گئے!

بشکریہ روزنامہ دنیا
 

powered by worldwanders.com