مارچ اور دھرنا بھی ہوتے رہیں گے اور وزیر اعظم بھی اُس بدنما حصار کے بارے میں خاموشی پر قائم رہیں گے جو اپنے اردگرد انہوں نے قائم کیا ہوا ہے۔ ان سب کو اس حال میں چھوڑ کر آئیے ہم نواح ایبٹ آباد کا رُخ کرتے ہیں جہاں رستم نامیؔ رہتا ہے۔
جنگلات کے محکمے میں معمولی ملازمت کرنے والا رستم نامی کمال کا شاعر ہے۔ سب سے مختلف! اپنے ہی رنگ میں ڈوبا ہوا! اس کے شعری مجموعے ’’باوجود‘‘ کے شروع میں ناشر نے درست لکھا ہے۔ کہ رستم نامی کی شاعری میں رومانی اشعار کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس نے اپنے معاشرے اور صاحب اقتدار افراد کے نامناسب رویوں‘ ناانصافی اور چور بازاری کی باتیں زیادہ کی ہیں۔ اُسے حکمرانوں‘ سیاست دانوںاور ظالم وڈیروں جابر چودھریوں اور بے رحم جاگیرداروں پر غصہ ہے اور بجا ہے۔‘‘
ہمارے اس شاعر کے ساتھ کچھ عرصہ قبل ایک دردناک حادثہ پیش آیا۔اس حادثہ میں رستم کا نوجوان فرزند باپ کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ خود رستم ایک ٹانگ سے محروم ہو گیا۔ ایبٹ آباد میں مشہور شاعر اور نامور ماہر تعلیم واحد سراج اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ’’پاک آئرش بحالی سنٹر‘‘ چلا رہے ہیں۔ معروف شاعر اور نثر نگار احمد حسین مجاہد بھی ان کی مساعدت کر رہے ہیں۔ اسی سنٹر نے رستم نامی کو مصنوعی ٹانگ لگوا کر دی! اب رستم نامی کے اشعار دیکھئیے اور سر دُھنیے کہ بادہ و ساغر کا ذکر کیے بغیر بات بنتی ہے اور کیا خوب بنتی ہے ؎
فقط بام و درو دیوار باقی ہیں‘ بقایا گھر مکمل ہے
ذرا گھر بار کے آثار باقی ہیں بقایا گھر مکمل ہے
جگہ گھر کے لئے لینی ہے‘ اچھا سا کوئی نقشہ بنانا ہے
لوازم بس یہی دوچار باقی ہیں بقایا گھر مکمل ہے
٭٭٭٭ یہ جو اشرافیہ ہے/
یہی تو مافیا ہے/
ہماری زندگی کا/
عجب جغرافیہ ہے/
ہماری عدلیہ بھی
/کہاں انصافیہ ہے
٭٭٭٭ ایوان سج رہے ہیں مگر قرضہ جات سے
چلتا ہے انتظام بقایا‘زکات سے ٭٭٭٭
فقرو فاقہ ہے چاروں طرف/
کوئی بحران ہے ہی نہیں/
وہ مری جان کیسے ہو جب/
جان میں جان ہے ہی نہیں
٭٭٭٭ چند فِی صد سے زیادہ تو نہیں/
میں بُرا حد سے زیادہ تو نہیں/
ہے محبت بال بچوں سے مجھے/
پر محمدؐ سے زیادہ تو نہیں/
صاحب ایمان کو اچھی جگہ/
اپنے مرقد سے زیادہ تو نہیں
٭٭٭٭ وہاں ہم لازماً خاموش رہتے ہیں/
جہاں اظہار کی فوری ضرورت ہے/
یہ چرخِ بے ستوں گر جائے گا نامی/
یہاں دیوار کی فوری ضرورت ہے
٭٭٭٭ منافق لوگ ہیں ہم کب کسی کو داد دیتے ہیں/
اگر دیتے بھی ہیں تو زندگی کے بعد دیتے ہیں
/بڑا احسان ہے اُن دشمنوں کا ہم پہ جو اکثر/
ہمیں برباد ہونے کے لئے امداد دیتے ہیں
٭٭٭٭ بہت مجبور اور لاچار لوگوں کی ضرورت ہے/
محبت اصل میں بیکار لوگوں کی ضرورت ہے/
اگرچہ کارآمد ہیں بہت کھربوں کے منصوبے/
مگر کچھ اور بھی سرکار!لوگوں کی ضرورت ہے
٭٭٭٭ کارِ فرصت سے بری الذمہ/
ہم ہیں مدت سے بری الذمہ/
ان کو ملتا ہے یہاں منصب وتاج/
ہیں جو عزت سے بری الذمہ
٭٭٭٭ ضرورت سے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے/
ہمیں شام و سحر آرام کرنے یک ضرورت ہے/
عدو سے بھی بہر صورت نمٹ لیں گے مگر پہلے
/گھریلو سازشیں ناکام کرنے کی ضرورت ہے
٭٭٭٭ نہ جانے خلدِ بریں میں کہاں بنا ہوا ہے/
ہمارے واسطے وہ جو مکاں بنا ہوا ہے/
کوئی پلازہ بنائے گا کل وہاں نامیؔ
/مکان آج ہمارا جہاں بنا ہوا ہے
٭٭٭٭ اختلافات مانتا ہی نہیں/
وہ سوالات مانتا ہی نہیں/
پیش کرتا ہے اپنی تاویلیں /
میرے خدشات مانتا ہی نہیں
٭٭٭٭ حسرت ہے مفت میں یہاں ذلت ہے مفت میں
/جس کو بھی چاہیے‘ یہ سہولت ہے مفت میں
/آتا نہیں ہے کوئی ہماری دکان پر/
ورنہ ہمارے پاس محبت ہے مفت میں
٭٭٭٭ مجھے واپس کرو آ کر کسی دن/
جو دن تم نے گزارے مرے پاس/
نہیں ہے عشق کا تازہ شمارہ/
مگر پچھلے شمارے ہیں مرے پاس
٭٭٭٭ زندہ رہتی ہے یہ ہمیں کھا کر/
زندگی کا اناج ہیں ہم لوگ/
دیکھ لے ہم ترا سہارا ہیں/
تو بٹن ہے تو کاج ہیں ہم لوگ/
ہلتے جلتے نہ بات کرتے ہیں/
ایک مُردہ سماج ہیں ہم لوگ/
وہ تو بازار میں نہیں آتا/
ہم نے جس دن سے کی دکان شروع/
کرنا چاہی جو گفتگو ان سے/
ہو گئے ان کے ترجمان شروع
٭٭٭٭ جو غیروں کی تجوری میں پڑی ہے
/وہ سب دولت ہماری ہے ہماری
/اٹھائیں انگلیاں ہم دوسروں پر/
یہی تو ذمہ داری ہے ہماری
٭٭٭٭ بچھاتے ہیں جہاں بھی رات آئے/
کہ ہم رکھتے ہیں بستر بوریا پاس/
ہمیں درباں نے روکا ہے یہ کہہ کر/
پرانا ہو چکا ہے آپ کا پاس
٭٭٭٭ کون بتلائے گا سچی بات پھر/
شہر میں جب کوئی پاگل ہے نہیں/
کس لئے پھر سانپ سے تشبیہ دیں/
اس کی زلفوں میں کوئی بل ہے نہیں/
کس طرح اندھا یقیں پھر ہم کریں/
بات اس کی جب مدلل ہے نہیں
٭٭٭٭ بٹھا دیں گے اسے بھی تخت پر ہم
کوئی باہر سے گر آ ہی گیا تو
٭٭٭٭ فرصت ہی نہیں ملتی انہیں کارِ جہاں سے
مزدور کے بچے کبھی ورزش نہیں کرتے
٭٭٭٭ سبھی مارے ہوئے ہیں زندگی کے
کسی کو موت نے مارا نہیں ہے ٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment