بہو نے گوشت پکایا تو ساس نے اعتراض کیا کہ سبزی نہیں پکتی۔ سبزی پکائی تو کہا ہمیں ہندو سمجھا ہے! ہم تو گوشت کھانے والے لوگ ہیں! ہنڈیا میں گھی کم ڈالا تو کہا روکھی ہے۔ زیادہ ڈالا تو واویلا مچایا کہ میرے بیٹے کو ہارٹ اٹیک سے مارنے کا ارادہ ہے؟
یہی حال کالم کے قارئین کا ہے!
گزشتہ کالم میں ان قارئین کا ذکرکیا گیا تھا جو مغلظات بکتے ہیں اور دہانوں سے آگ کے بھڑکتے شعلے نکالتے ہیں۔ اب ذرا شریف قارئین کا رویہ ملاحظہ فرمائیے۔ یہ تلوار سے نہیں‘ زبان سے یا قلم سے مارتے ہیں۔
یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں اور یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ کالم‘ مضمون ہوتا ہے نہ مقالہ۔ اس میں جو بات بھی کی جاتی ہے‘ انتہائی اختصار سے کرنا پڑتی ہے۔ یہاں گزشتہ تحریروں کے حوالے بھی نہیں دیے جا سکتے۔ تشریح کے لئے فُٹ نوٹ بھی نہیں ہوتے۔ ایک وسیع تناظر میں بات ہو سکتی ہے مگر بعض اوقات کام صرف اشاروں سے کرنا پڑتا ہے اس لئے کہ تفصیل کی گنجائش نہیں ہوتی!
یہ سارے پہلو قارئین کے لئے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ اکثر قاری اس عجیب و غریب شخص کی مثال ہیں جس کا ذکر شفیق الرحمن نے کیا ہے۔ اس کا دکاندار سے کچھ اس قسم کا مکالمہ ہوتا ہے،
’’کیا تمہارے پاس آم ہیں؟‘‘
’’نہیں!میرے پاس کدو اورگاجر ہیں‘‘
’’کیا انگور اورکیلے ہیں؟‘‘
’’نہیں! مگر کھیرے‘ شلغم اور بھنڈی موجود ہے‘‘
’’اچھا تو تمہارے پاس سبزی بالکل نہیں! فروٹ ہی فروٹ ہیں‘‘
قاری ای میل کرتا ہے یا کمنٹ دیتا ہے تو کالم کے موضوع پر بات نہیں کرتا۔ وہ اُس موضوع کی دہائی دیتا ہے جو اس کے ذہن میں پہلے سے موجود ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کالم نگار صرف اس پر لکھے! مثلاً ٹریفک پر یا تاجروں کی بددیانتی پر لکھا جائے تو قاری پوچھتا ہے کہ سُود کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اگر یہ لکھا جائے کہ چھپن اسلامی ملکوں میں فتح اللہ گولن اور امام خمینی کو کسی نے گوشہ عافیت نہیں فراہم کیا۔ ایک کو امریکہ میں پناہ لینا پڑی اور دوسرے کو فرانس میں! توقاری شکوہ کرتا ہے کہ دنیا کی بربادی کے پیچھے مغرب اوراس کے مفادات ہیں!!اب قاری سے یہ کون پوچھے کہ کالم کا موضوع یہ نہیں! دنیا کی بربادی اگر مغرب کے ہاتھوں ہو رہی ہے یا مغرب کے اپنے مفادات ہیں تو یہ ایک الگ موضوع ہے۔ بالکل الگ۔ یہاں تو یہ بات ہو رہی تھی کہ طاہر القادری سے لے کر فرحت ہاشمی تک ہر کوئی مغرب میں رہنے کا شائق ہے اور جان بچانے کے لئے گولن اور امام خمینی جیسے علماء اور مشاہیر کو مغرب میں پناہ لینا پڑتی ہے۔ اس کے اسباب پر غور کیا جائے!مگر قاری مصر ہے کہ مغرب کی بدمعاشی کو کیوں نہیں موضوعِ سخن بنا رہے ؟
اگر کالم نگار ایئرپورٹ پر بدانتظامی کا رونا رو رہا ہے اور اہلکاروں کی نااہلی کا ذکر کرتا ہے تو قاری کہتا ہے کہ انگریز کے کالے قوانین توڑ کر روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے جو انگریز کے جانے کے بعد بھی جوں کے توں ہیں آپ انگریزکے سسٹم کو ختم کیجیے!یعنی ماروں گھٹنا‘ پھوٹے آنکھ! ارے بھئی! انگریز نے قطار بندی سکھائی تو کیا اس ’’کالے‘‘ قانون کو ختم ہو جانا چاہیے؟ اگر ایف آئی اے کا عملہ ایئر پورٹ پر‘ غیر ملکیوں کے کائونٹر پر پاکستانی مسافروں کو لا کھڑا کرتا ہے تو اس میں انگریز کا کالا قانون کہاں سے آ گیا؟ انگریز کے ملک میں تو کائونٹر پر اُسی کو اٹنڈ کیا جاتا ہے جس کا اعلان کائونٹر کے اوپرتحریری شکل میں موجود ہے!
جرنیلوں کی چیرہ دستیوں کا ذکر کیا جائے تو اعتراض کیا جائے گا کہ سیاست دانوں کا ذکر کیوں نہیں کیا؟ اہل سیاست کی درفنطنیوں پر ماتم کیا جا رہا ہے ہو تو کہا جائے گا‘ عسکری آمریت پر کیوں نہیں لکھتے؟ مدارس میں طلبہ اور اساتذہ کے حال زار پر لکھا جائے تو اعتراض ہو گا کہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی تو یہی کچھ ہو رہا ہے گویا آپ چاہتے ہیں مدارس کے طلبہ ہمیشہ روکھی سوکھی کھائیں‘ چندوں پر پلیں۔ مدارس کے اساتذہ قلیل تنخواہوں پر ہی گزارہ کرتے رہیں۔مدارس کے مالکان سے یہ نہ کہا جائے کہ ان عالم لیکن غریب اساتذہ کو رہائش فراہم کیجیے۔ انہیں علاج معالجے کی سہولیات دیجیے۔ انہیں پنشن ملنی چاہیے۔
بحث مباحثے میں بھی ہمارا قومی شعار یہ بن گیا ہے کہ خلط مبحث سے پورے مکالمے کو خراب کر دیتے ہیں۔ مہذب دنیا میں طریق کار یہ ہے کہ ایک نشست میں ایک ہی موضوع پر بات ہوتی ہے۔ مگر یہاں یہ حال ہے کہ اگر ٹیکس چوری پر بحث ہو رہی ہے تو حکومت کی کارکردگی کی دہائی دی جائے گی! حکومت کی کارکردگی بُری ہے تو اس پر الگ سیشن رکھیے۔ ٹیکس چوری کے حوالے سے اہلکاروں کے رویے پر کاروبار کے دستاویزی نہ ہونے پر‘ ری فنڈ کی مشکلات پر اور دیگر متعلقہ مسائل پر بات کیجیے۔
بحث میں شائستگی کا عنصر بھی عنقا ہے۔ مکالمہ مناظرے پر‘ اور مناظرہ مجادلے پر ختم ہوتا ہے۔ ہمارے گلوں کی رگیں پھول کر سرخ ہو جاتی ہیں۔ دہانوں سے پہلے گالیاں باہر آتی ہیں پھر جھاگ پھر میز پر مکا مارا جاتا ہے۔ ٹیلی ویژن پر بارہا ہاتھا پائی کے مناظر دیکھنے میں آئے۔ حالیؔ نے اسی صورت حال پر آہ وزاری کی تھی ؎
کبھی وہ گلے کی رگیں ہیں پھلاتے
کبھی جھاگ پر جھاگ ہیں منہ پہ لاتے
کبھی خوک اور سگ ہیں اس کو بتاتے
کبھی مارنے کو عصا ہیں اٹھاتے
جو پوچھو کہ حضرت نے جو کچھ پڑھا ہے
مراد آپ کی اس کے پڑھنے سے کیا ہے
مفاد اس میں دنیا کا یا دین کا ہے
نتیجہ کوئی یا کہ اس کے سواہے
تو مجذوب کی طرح سب کچھ بکیں گے
جواب اس کا لیکن نہ کچھ دے سکیں گے
بحث میں جنگ وجدل ہماری پارلیمنٹ میں عام ہے۔ جس طرح کے نعرے وہاں لگائے جاتے ہیں، جس طرح ایک دوسرے کی تقریروں کے دوران ہنگامے برپا کئے جاتے ہیں‘ جس طرح ایوان مچھلی منڈی میں تبدیل ہوتے ہیں‘ اس پر غور کیا جائے تو عوام سے کیا گلہ!
یونیورسٹیوں کو دیکھ لیجیے۔ علم کے ان گہواروں میں طلبہ کے گروہ ایک دوسرے پر مسلح ہو کر حملے کر رہے ہیں۔ بدبختی کی انتہا یہ ہے کہ ایسے ’’طلبہ‘‘ کی پشت پر اساتذہ بھی سرگرم کار ہوتے ہیں!
بحث تحریری ہو یا زبانی سوشل میڈیا پر ہو یا الیکٹرانک میڈیا پر‘ قوم کے تہذیبی رویے کی آئینہ دار ہوتی ہے یہ ایک بیرو میٹر ہے جس سے آپ ذہنی پختگی یا ذہنی کچے پن کو ماپ سکتے ہیں! اس ذہنی پختگی کی منزل سے ہم کوسوں دورہیں! کوسوں نہیں !شاید صدیوں!احمد ندیم قاسمی یاد آ گئے ۔
پَل پَل میں تاریخ چھپی ہے گھڑی گھڑی گرداں ہے ندیمؔ
ایک صدی کی ہار بنے گی ایک نظر کی بھول یہاں
No comments:
Post a Comment