یہ ایک احاطہ تھا۔ تین اطراف میں دکانیں تھیں۔ ایک طرف سے باہر آنے
جانے کا راستہ تھا۔ صفدر ایک سٹور سے خریداری کر کے نکلا اور اپنی گاڑی کی ڈگی میں سامان رکھنے لگا۔ اچانک اُسے پیچھے سے کمر پر دھکا لگا۔ مڑ کر دیکھا تو ایک صاحب گاڑی ریورس کر رہے تھے۔ ریورس کرتے کرتے انہوں نے گاڑی کے عقبی حصے کو صفدر کی کمر کے ساتھ جا لگایا تھا۔ درد تو ہوا مگر کچھ ہی دیر میں صفدر کو محسوس ہوا کہ درد غائب ہو چکا ہے۔ اتنی دیر میں گاڑی والا شخص، سفید فام امریکی، گاڑی سے اُتر کر صفدر کے پاس پہنچ چکا تھا اور اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے معذرت کر رہا تھا۔ صفدر نے خوش دلی سے بتایا کہ کوئی بات نہیں۔ بس معمولی سا دھکا لگا ہے۔ سفید فام شخص ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔ صفدر نے غیر شعوری طور پر نوٹ کیا کہ وہ اُسی سٹور میں داخل ہو گیا جہاں سے ابھی صفدر خریداری کر کے نکلا تھا۔
صبح بیدار ہوا تو صفدر کی کمر میں شدید درد تھا۔ حرکت بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ ڈاکٹر کے پاس گیا۔ ٹیسٹ ہوئے، معلوم ہوا کہ مسئلہ ٹیڑھا ہے اور علاج میں وقت لگے گا۔ اخراجات کا معلوم ہوا تو صفدر پریشان ہو گیا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ اخراجات اُس شخص کو ادا کرنے چاہئیں جس کی غیر محتاط ڈرائیونگ سے یہ سب کچھ ہوا۔ مسئلہ یہ تھا کہ اُس شخص کو کیسے تلاش کیا جائے۔ نام معلوم تھا نہ پتہ۔ صفدر اُس سٹور میں گیا۔ اس شخص کا حلیہ بتایا تو معلوم ہوا ان کا پرانا گاہک ہے۔ نام معلوم ہو گیا۔ پتہ بھی، اُس نے علاج کے اخراجات ادا کر دیئے۔ نہ کرتا تو مقدمہ چلتا اور ہر حال میں ادا کرنے پڑتے۔ یہ بھاری اخراجات اُس کی انشورنس کمپنی نے ادا کیے۔
یہ واقعہ صفدر نے، جب میں کچھ عرصہ قبل واشنگٹن ڈی سی میں اس کے ہاں ٹھہرا ہوا تھا، خود سنایا۔
کفار کے اِن ملکوں میں انسانی جان کی قدر وقیمت کیا ہے؟ اس کا اندازہ اُس مشہور واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے جس میں 79سالہ معمر خاتون، سٹیلا، پر میکڈانلڈ کی گرم کافی گری تھی اور اس کے جسم کے کچھ حصے جل گئے تھے۔ سٹیلا کو علاج پر بیس ہزار ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ اس نے میکڈانلڈ سے یہ رقم مانگی۔ میکڈانلڈ نے انکار کر دیا، کمپنی کا مؤقف تھا گاہک کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کافی گرم تھی۔ سٹیلا عدالت چلی گئی۔ اس کے وکیل نے ثابت کیا کہ عام طور پر کافی جب گھر میں بنائی جاتی ہے تو وہ 140ڈگری تک گرم ہوتی ہے۔ مگر یہ فاسٹ فوڈ کمپنی(میکڈانلڈ) اپنی کافی کو 185ڈگری پر رکھ کر فروخت کرتی ہے تا کہ خاص ذائقہ برقرار رہے۔ اس درجہ کی گرم کافی انسانی استعمال کے لیے فِٹ ہی نہیں ہے کیوں کہ اس سے ہونٹ جل جاتے ہیں اور گرنے سے جلد بچ ہی نہیں سکتی۔ قصہ مختصر، عدالت نے کمپنی کو حکم دیا کہ متاثرہ خاتون گاہک کو دو لاکھ ڈالر دے۔ ہرجانے میں اس کے علاوہ بھی پونے پانچ لاکھ ڈالر دینے کا حکم ہوا۔ ججوں نے کمپنی کو لاپرواہ اور سخت دل قرار دیا۔ بعد میں کمپنی نے سٹیلا سے عدالت سے باہر سمجھوتہ کیا جس کی تفصیلات کسی کو معلوم نہ ہوئیں مگر یہ واضح ہے کہ امریکی نظامِ انصاف نے خود سر اور متکبر کمپنی کے کس بل نکال دیئے۔
اب آئیے، انسانی جان کی قدروقیمت اُس ملک میں دیکھتے ہیں جو اسلام کے نام پر بنا۔ اس اسلام کے نام پر جس نے ایک طرف تو یہ کہا کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا اور دوسری طرف یہ اصول طے کیا کہ قصاص در اصل زندگی ہے! گزشتہ ہفتے دارالحکومت میں ایک سرکاری ادارے نے کتاب میلہ منعقد کیا۔ اس میں ادیبوں، شاعروں، وزیروں اور سرکاری عمائدین کو مدعو کیا گیا۔ اس سہ روزہ میلے میں کیا کچھ ہوا، کیا کچھ نہیں ہوا، اور جو کچھ ہوا وہ کیسے ہوا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ سوشل میڈیا پر تفصیلات آ چکی ہیں۔ یہاں تو فقط اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ انسانی جان کی حرمت اسلام کے اس قلعہ میں کتنی ہے۔ تقریب میں مرکزی سٹیج، روایات کی رُو سے، بارہ فٹ بلند تھا۔ حاضرین کی نشستوں اور سٹیج کے درمیان ایک خندق نما نشیب تھا جس کی گہرائی نو فٹ بتائی جا رہی ہے۔ کچھ کہتے
ہیں یہ وہ پِٹ
(PIT)
ہے جو مغربی ملکوں میں آرکسٹرا بجانے والوں کے لیے بنائی(یا کھودی) جاتی ہے۔ کچھ بتاتے ہیں کہ یہ سکیورٹی کے نکتۂ نظر سے بنائی گئی تھی کہ سٹیج کے عمائدین اور حاضرینِ محفل کے درمیان فاصلہ رکھے اور حاضرین سٹیج کی طرف نہ جا سکیں۔ بہر طور جو کچھ بھی تھا بہت لوگ اِس امر کی تصدیق کرتے ہیں کہ ماضی میں بھی اِس خندق کی وجہ سے حادثے ہوتے رہے ہیں اور اگرچہ جان سے کوئی نہیں گیا؛تاہم بازو وغیرہ ٹوٹے ہیں۔
غالباً آخری دن تھا، یا تقاریب میں سے آخری تقریب تھی۔ سٹیج پر بہت لوگ تھے۔ ان میں ایک نوجوان شاعرہ فرزانہ ناز بھی تھی۔ وہ بارہ فٹ بلند سٹیج سے خندق میں سر کے بل گری۔ گردن اور کمر پر شدید چوٹیں آئیں۔ ہسپتال لے جائی گئی۔ دو دن موت و حیات کی کشمکش میں
رہی اور بالآخر، حیران، مبہوت، دہشت زدہ میاں اور دو چھوٹے چھوٹے بچوں
کو چھوڑ کر اُس عدالت میں حاضر ہو گئی جہاں پی آر کام آتی ہے نہ وزیروں کی کاسہ لیسی!
آپ کا کیا خیال ہے ایسا واقعہ اگر کسی ایسے ملک میں رونما ہوتا جہاں قانون کی حکمرانی ہوتی تو کیا اِس عمارت کے بنانے والے، عمارت کی دیکھ بھال کرنے والے اور اِس مہلک عمارت میں میلے سجانے والے، آ زاد پھر رہے ہوتے؟ نہیں! کبھی نہیں! پہلے تو اُن افراد کو قانون کی حراست میں لیا جاتا جنہوں نے حادثے رونما ہونے کے باوجود اس خندق کو، یا ڈیزائن کے اس نقص کو دور نہیں کیا۔ پھر میلہ سجانے والے محکمے اور اس کے بڑوں کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھا جاتا کہ اِس قاتل عمارت میں یہ تقریب کیوں منعقد کی؟ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، لیکن اگر فرزانہ ناز کسی ایسے معاشرے کی فرد ہوتی جس میں پی آر اور خود نمائی کے بجائے قانون کا دور دورہ ہوتا تو ذمہ دار، عدالت کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوتے اور فرزانہ کے پس ماندگان کو کروڑوں روپے ہر جانے میں ادا کرتے۔
مگر یہ پاکستان ہے۔ یہاں خندقیں اسی طرح رہیں گی۔ میلوں پر ٹیکس دہندگان کے کروڑوں اربوں اسی طرح بے دردی سے لٹا کر نوکریاں پکی ہوتی رہیں گی۔ لوگ اپاہج ہوتے رہیں گے۔ مرتے رہیں گے۔ اور سب کچھ تقدیر کے کھاتے میں ڈالا جاتا رہے گا۔
حال ہی میں ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان کے ٹرانسپورٹ نظام کو غیر تسلی بخش قرار دیا ہے۔ بنک کی رپورٹ کے مطابق ٹرانسپورٹ کا یہ گلا سڑا نظام سالانہ تیس(30) ہزار اموات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ شاہراہوں پر ہونے والے حادثات اور اموات کے وہ اعداد و شمار ہیں جو حساب کتاب میں آ گئے، ورنہ اصل تعداد اس سے دو گنا ضرور ہو گی۔
آج اگر شاہی سواریوں کے گزرتے وقت رُوٹ لگنے بند ہو جائیں اور حکمران، عام ٹریفک میں سفر کریں تو یہ مہلک نظام، دیکھتے ہی دیکھتے درست ہو جائے۔ مگر چونکہ تکبر مآب حکمران، سڑکوں سے گزرتے وقت، عوام کو جانور سمجھتے ہوئے، جہاں ہیں، جیسے ہیں کی بنیاد پر کھڑا کر دیتے ہیں، اس لیے ٹرانسپورٹ کے نظام کی انہیں خبر ہے نہ پرواہ! کس قدر شرم کی بات ہے کہ میٹروبسوں اور ٹرینوں کے احسانات قوم کو ہروقت جتانے والے حکمرانوں پر، بین الاقوامی بنک کی یہ رپورٹ کوڑے کی طرح ضرب لگا رہی ہے۔مگر جلد موٹی ہو تو کوڑا بھی کچھ نہیں کرتا۔
عوام کو قتل ہونے کے لیے
شاہراہوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ چند ماہ پہلے بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد کے اردو ادب کے صدر شعبہ پروفیسر ڈاکٹر منیر کی گاڑی ایک ڈمپر کے نیچے آ کر کچلی گئی۔ طیب منیر اگر رِنگ روڈ بنانے والا ٹھیکیدار ہوتا تو بڑے لوگ تعزیت کے لیے اس کے گھر جاتے اور ڈمپر چلانے والا قاتل بھی پکڑ لیا جاتا مگر وہ تو ایک پروفیسر تھا۔ دو ماہ پہلے ریکارڈ قائم کرنے والی قومی سطح کی اتھلیٹ خاتون نادیہ نذیر ساہیوال کے نزدیک ایک ٹریکٹر ٹرالی کی ٹکر سے جاں بحق ہو گئی۔ پانچ سالہ بچہ بھی چل بسا۔ حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ لاکھوں ٹرالیاں، ٹریکٹر، ڈمپر، وحشیوں کی طرح شاہراہوں پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ ہزاروں شہری ان وحشیوں کی نذر ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں مگر ٹریفک بند کر کے گزرنے والے حکمرانوں کو ادراک ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی مسئلہ ہے اور اسے حل بھی کیا جا سکتا ہے۔ کیا اِن مقتولوں کے پس ماندگان گڑ گڑا کر دعائیں نہ کرتے ہوں گے کہ کاش، کوئی ڈمپر، کوئی ٹرالی، کوئی ٹریکٹر، حکمرانوں کی برق رفتار سواریوں سے بھی ٹکرائے۔
نہ جانے کتنی نادیہ نذیر، کتنے طیب منیر اس جنگل میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ نہ جانے کتنی فرزانہ ناز مجرمانہ نا اہلی کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ انسانی جان کی قدر و قیمت کفار کے ملکوں میں تو ہے، اسلام کے قلعہ میں نہیں ہے ؎
نہ مدعی نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
No comments:
Post a Comment