عاصمہ جہانگیر مشہور خاتون اوروکیل ہیں۔ سیاسی اور سماجی حوالے سے
Activist
بھی ہیں ۔ سپریم کورٹ بار کی سیاست میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ وکلاء برادری میں ان کا اپنا ایک گروپ ہے۔
مشہور ہونے کے ساتھ وہ متنازع بھی ہیں۔ ان کے مخالفین وکلاء میں بھی موجود ہیں اور اہلِ سیاست میں بھی! بھارت کی طرف جھکائو رکھتی ہیں۔ مسلح افواج کے لیے بھی ان کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہیں۔ جو طبقہ خواتین کے ہاتھ پائوں باندھ رکھنا چاہتا ہے وہ بھی ان پر تنقید کرتا رہتا ہے۔ مذہبی حوالے سے جب کچھ نازک موضوعات پر بات چھڑے تو اُس وقت بھی اُن کا ذکر ہوتا ہے۔
جوڈیشل مارشل لاء کے ضمن میں جو کچھ چند دن پہلے مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا‘ اس پر کمنٹ دیتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ اس بیان میں کوئی صداقت نہیں!انہوں نے صاف صاف کہا کہ رواں منظر نامے میں آمریت کی حمایت کرنے والا کوئی جج نہیں۔ اس بیان میں چیف جسٹس ناصر الملک کے بارے میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ وہ کسی کا دبائو نہیں لیتے تھے۔ ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ انگریز جج تھے۔
غور کیجیے کہ کثیر تعداد میں مخالفین ہونے کے باوجود‘ عاصمہ جہانگیر پر کسی نے تنقید کی نہ ان کے بیان کی مخالفت! کسی نے بھی جواب میں یہ نہیں کہا کہ دبائو نہ قبول کرنے والا جج انگریز جج کیسے ہو گیا؟ وہ تو مسلمان جج یا پاکستانی جج کہلانا چاہیے‘ بھارت مخالف لابی سے لے کر پرو آرمی طبقات تک‘ وکلاء برادری سے لے کر مذہبی مخالفین تک کسی طرف سے عاصمہ کے اس بیان پر تنقید نہیں ہوئی۔ کسی نے اس بیان کو اینٹی پاکستان یا اینٹی اسلام قرار نہیں دیا۔ کوئی احتجاج ہوا نہ جلوس نکالا گیا۔ پتلا جلایا گیا نہ مذمت کی گئی۔
وجہ یہ ہے کہ بیس کروڑ پاکستانی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ اب دیانت یا غیر جانب داری کا تذکرہ ہو تو مثال پاکستانیوں کی یا مسلمانوں کی نہیں دی جاتی بلکہ انگریز کی دی جاتی ہے! آپ اپنے اردگرد‘ دیکھ لیجیے‘ اگر کوئی شخص وقت کا پابند ہو گا‘ وعدہ پورا کرے گا‘ اصول پرست ہو گا تو ہم سب اُسے گورا صاحب کہیں گے یا یہ کہ وہ خاصا انگریز واقع ہوا ہے۔
کیا کبھی غیر مسلم یا غیر پاکستانی معاشرے میں ایسے دیانت دار اور اصول پرست انسان کا نام ’’مسلمان‘‘ یا ’’پاکستانی‘‘ پڑا ہے؟ کبھی نہیں! وہ لطیفہ آپ نے ضرور سنا ہو گا کہ پولیس افسر شہریوں کو سمجھا رہا ہے کہ اردگرد کوئی مشکوک شخص دکھائی دے تو پولیس کو رپورٹ کیجیے‘ اس پر شہری اسے بتاتا ہے کہ میرے پڑوسی کو چیک کیجیے‘ وہ وقت پر دفتر جاتا ہے‘ کام ایمانداری سے کرتا ہے‘ رشوت نہیں لیتا۔ جھوٹ نہیں بولتا۔ ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کرتا ہے ! وہ پاکستانی نہیں لگتا۔
معاشرہ بیک وقت نفاق اور سچائی کا شکار ہے! اس سے بڑا نفاق کیا ہو گا کہ ہم اپنے آپ کو ’’خیر امّت‘‘ کہلوائیں‘ رات دن تذکرہ کریں کہ ہمارے پیغمبر صادق اور امین تھے‘ دبائو ڈالا گیا تو فرمایا کہ فاطمہ ؓ بنت محمدؐ بھی چوری کرے گی تو ہاتھ کاٹ دیا جائے گا مگر کوئی ایک آدھ جج دبائو قبول نہ کرنے والا‘ وقت کا پابند اور اصول پسند نکل آئے تو ہم سچّے اس قدر ہیں کہ اسے انگریز جج کہیں اور اعتراف کر لیں کہ ایسا شخص انگریز تو ہو سکتا ہے‘ پاکستانی یا مسلمان نہیں ہو سکتا!! یہ بات عاصمہ جہانگیر جیسی متنازع شخصیت کے منہ سے نکلے تب بھی سب پی جائیں۔! اس لیے کہ وہ ناقابل تردید سچائی ہے جو ہم اپنے دل کے نہاں خانے میں تسلیم کر رہے ہیں!
پستی‘ دیدہ دلیری‘ خیانت اورمُردنی کی اس سے زیادہ ہولناک مثال کیا ہو سکتا ہے کہ ملک کے بلند ترین ادارے میں دن دہاڑے سرقہ ہوتا ہے‘ دھاندلی ہوتی ہے اور اس بلند ترین ادارے کے خلاف ایک متاثرہ بچّے کو ‘ جی ہاں! بچّے کو‘ عدالت جانا پڑتا ہے۔ گیارہ سالہ طالب علم نے اپنے وکیل کے ذریعے دارالحکومت کی ہائی کورٹ میں
درخواست دائر کی ہے کہ ایوان صدر میں یوم قائد کی تقریب کے لیے اس کی تقریر کا مسودہ چرا کر کسی اور طالب علم کو دے دیا گیا۔ تقریب کی ریہرسل کے لیے مجوزہ شیڈول کے مطابق جب وہ 22دسمبر کو ایوان صدر پہنچا تو ایوان صدر کی ایڈیشنل سیکرٹری نے یہ کہتے ہوئے تقریر سے روک دیا کہ سیکرٹری صاحب کا حکم ہے کہ یوم قائد پر فلاں لڑکی تقریر کرے گی۔ سہیل حیدر نے اپنی درخواست میں بیان کیا کہ جب انہوں نے اس لڑکی کی تقریر سنی تو وہ ان کا چرایا ہوا سکرپٹ تھا اس گیارہ سالہ بچے نے خود اپنی تقریر کا سکرپٹ تیار کیا۔ پھر یہ سکرپٹ‘ اس کی اجازت کے بغیر کسی اور کو دے دیا گیا۔
عدالت کیا فیصلہ دیتی ہے‘ یہ تو نہیں معلوم لیکن اس ایک مثال ہی سے ہمارے اُس رویے کا سراغ مل جاتا ہے جس کی وجہ سے ہم دنیا میں چوروں‘ اٹھائی گیروں‘ دروغ گوئوں اور بددیانتوں کے گروہ کے طور پر جانے اور مانے جا رہے ہیں! بلند ترین ادارے میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اُس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نیچے کیا کچھ نہیں ہو رہا ہو گا۔ وہ بچہ جس کا سکرپٹ کسی اور کو دے کر‘ اسے تقریر سے روکا گیا‘ زندگی بھر کے لیے ایوانِ صدر سے متنفر ہو گیا۔ وہ اپنے ملک کے مستقبل اور اس ملک میں اپنے مستقبل کے بارے میں کیا جذبات و توقعات رکھے گا! جس لڑکی کو! بیٹھے بٹھائے‘ دوسرے کا تیار کردہ سکرپٹ مل گیا‘ اس میں ’’جواں ہمتی‘‘ اور ’’خود انحصاری‘‘ کے کیسے کیسے ’’ارفع‘‘ حوصلے بیدار ہوں گے!!
اگر اس بچے کی شنوائی ایوان صدر میں ہو جاتی تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ عدالت جاتا‘ وکیل کرتا اور مقدمہ دائر کرتا!پھر سوچیے‘ اگر عدالت میں دیا جانے والا بیان سچ ہے کہ یہ سیکرٹری کا حکم تھا تو اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مبینہ مطلب اس کے سوا کیا نکل سکتا ہے کہ یہ ناانصافی‘ بلند ترین ادارے کے بلند ترین‘ اہلکار نے کی جس کے خلاف گیارہ سالہ بچہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے پر مجبور ہوا! یہ صرف ایک مثال ہے جو میڈیا میں آ گئی ع
قیاس کُن ز گلستانِ من‘ بہارِ مرا
تو پھر ہم بے شک دعویٰ کرتے رہیں کہ ہم اسلام کا قلعہ ہیں‘ یہ ملک ستائیسویں رمضان کی شب (لیلتہ القدر)کو وجود میں آیا تھا ہم نے وائٹ ہائوس سے لے کر لال قلعے تک پرچم لہرانا ہے‘ ہمارے پیغمبر ﷺ کو صادق اور امین کہا جاتا تھا۔ ان سب دعووں کے ساتھ ساتھ‘ اگر کوئی اصول پسند‘ صدق گو‘ غیر جانبدار‘ وقت کا پابند پاکستانی مسلمان نظر پڑ جائے تو ہم اسے انگریز کہیں اور پوری قوم اس حقیقت کو تسلیم بھی کرے! واہ کیا بات ہے ہماری! حالیؔ نے مسدس کے آغاز میں ایک رباعی لکھی تھی۔ یاد آ رہی ہے
پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے
اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
No comments:
Post a Comment