Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Saturday, December 12, 2015

سچ کہتا تھا افضل خان

ایک انٹلیکچوئل اور ایک تاجر کے وژن میں کیا فرق ہے؟
ذوالفقار علی بھٹو وزیر اعظم بنے تو بے نظیر بھٹو کو ’شباب جن کے دروازے پر دستک دے رہا تھا‘ وزارتِ خارجہ میں بٹھا دیا۔ فائلیں پڑھتی تھیں، ہو سکتا ہے ان پر کچھ لکھتی بھی ہوں۔ نہیں معلوم کتنا عرصہ یہ سلسلہ جاری رہا! 
مریم نواز امریکہ کے حالیہ دورے میں امریکی خاتونِ اوّل سے ملاقات کے دوران بولیں تو اچھا بولیں۔ اس سطح پر، گفتگو کرنے کے حوالے سے شہزادی کا غالباً یہ پہلا Exposure
 تھا! والدِ گرامی نے بیٹی کو میڈیا کا کام سونپا ہے جو اصلاً ایک منفی کام ہے۔ اس ملک میں میڈیا کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہے کہ دریا کے اِس کنارے والوں کی تعریف و توصیف اور ہر اقدام کی خواہ وہ کتنا ہی غیر دانش مندانہ کیوں نہ ہو، ایسی توجیہہ کہ مافوق الفطرت نظر آئے۔ اور دریا کے دوسرے کنارے کھڑے ہونے والوں کو ہر حال میں یزداں کے مقابلے میں اہرمن ثابت کرنا! امورِ مملکت میں تربیت دینے کا یہ ایسا انداز ہے جو ہرگز مستحسن نہیں! ہاں رموزِ مملکت اس سے ضرور سمجھے جا سکتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ ’’رموز‘‘ سے مراد ہمارے ہاں وہ ساری ترکیبیں ہیں جو ’’دوسری‘‘ قبیل سے تعلق رکھتی ہیں۔ چند دن پہلے احباب جمع تھے۔ کسی نے رونا رویا کہ وزیرِ خارجہ ہی کوئی نہیں! ایک دوست نے جو اعلیٰ سطح کے حکومتی عہدے پر ہیں، کہا کہ مریم نواز کو لگایا جا سکتا ہے! ایک معقول بات ہے۔ مگر یہ تو ہو کہ پہلے مرحلے میں وہ وزارتِ خارجہ میں بنیادی مراحل سے گزریں۔ سیکشن افسر، ڈائریکٹر اور ڈائریکٹر جنرل کے دائرۂ کار سے براہِ راست واقفیت حاصل کریں۔ پھر ایسی فائلیں دیکھیں جو سیکرٹری اور مشیر کو بھیجی جا رہی ہیں! جوہر اگر قابل ہو تو تربیت زمین سے آسمان تک پہنچا دیتی ہے۔ سنائی نے کہا تھا  ؎
سالہا باید کے تایک سنگِ اصلی زآفتاب
لعل گردد  در  بد خشاں یا عقیق اندریمن
بدخشاں کا لعل اور یمن کا عقیق بننے کے لیے پتھر کو ایک عرصہ سورج سے فیض حاصل کرنا پڑتا ہے!
ذوالفقار علی بھٹو قلم اور کتاب کے قبیلے سے تعلق رکھتے تھے۔ دانش ور تھے۔ اگر قریشیوں، کھروں اور دوسرے پشتینی جاگیرداروں سے پرہیز کرتے! اگر دلائی کیمپ والا کارنامہ نہ سرانجام دیتے! اگر لیاقت باغ میں گولیاں نہ چلتیں، اگر سیدھے راستے پر رہتے! اگر زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالتے! مگر وہ کسی اور ہی راہ پر چل پڑے!
مریم نواز اور سشما سوراج کی باہمی ملاقات کی جو تصویر میڈیا میں چھپی ہے، وہ محض تصویر نہیں، آٹھ سو سالہ تاریخ کی علامت ہے۔ سشما، مریم نواز کے کندھوں تک مشکل سے پہنچ رہی تھیں۔ شاستری اور ایوب خان کے قد بھی ایسے ہی تھے۔ افغانستان اور وسط ایشیا سے ترک اور پھر مغل آئے۔ لمبے تڑنگے، سورما، گھوڑوں کی پیٹھیں تھک جاتیں، وہ نہ تھکتے۔ پستہ قد ہندو نشانہ بازی کے ماہر تھے، مگر گھوڑوں پر سوار، جو کارنامے وسط ایشیائی اور افغان، نیزوں، بھالوں اور تلواروں سے دکھاتے، انہیں حیران کر دیتے۔ ترک اور مغل شہزادیوں کی قامتیں قیامتوں سے کم نہ تھیں مگر جسمانی برتری کے باوجود مسلمان ہندو ذہن کی چالبازی سے اکثر و بیشتر دھوکہ ہی کھاتے رہے! بغل میں چھری منہ میں رام رام کا محاورہ یوں ہی نہیں بنا۔ شیواجی کو اورنگ زیب نے قید کیا تو مٹھائی کے ٹوکرے میں بیٹھ کر جُل دے گیا۔ اُس کی جگہ، اُس کا ہم شکل سوتیلا بھائی ہیراجی، یوں اداکاری کرتا رہا جیسے وہی شیواجی ہے! اورنگ زیب کو معلوم ہونے تک شیواجی منزلوں پر منزلیں مار چکا تھا!
کیا مریم نواز، چالاکی میں سشما سوراج کا مقابلہ کر سکتی ہیں؟ کیا ایوب خان نے مذاکرات میں شاستری کو پچھاڑ دیا تھا؟ نہیں معلوم ان سوالوں کے جواب کیا ہیں مگر پستہ قد شیواجی نے جو دھوکہ طویل قامت افضل خان کو دیا، کاش ہر پاکستانی اُس سے آگاہ ہو!
ضمیر جعفری نے کہا تھا   ؎
سچ کہتا تھا افضل خان
تری پورہ تا راجستان
مر گیا ہندو میں انسان
شیواجی جب اچھا خاصا دردِ سر بن گیا اور طاقت پکڑ گیا تو بیجاپور کے حکمران عادل شاہ نے اُس کا قصہ تمام کرنے کے لیے اپنے نامور جرنیل افضل خان کو مامور کیا۔ افضل خان شکست پر شکست دیتا شیواجی کے ہیڈ کوارٹر تک پہنچ گیا۔ شیواجی نے عاجزی اور ذلت کی چادر اوڑھ لی اور پیغام بھیجا کہ وہ تو اطاعت قبول کرنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ خان اُس کی جان بخشی کرے۔ یہاں افضل خان سادگی سے مار کھا گیا۔ یہی سادگی مسلمانوں کو مارتی رہی ہے۔ اُس نے یقین دہانی کرنے کے لیے ایک برہمن گوپی ناتھ کو ایلچی بنا کر بھیجا۔ شیواجی نے گوپی ناتھ کو دھرم کا واسطہ دے کر کہا کہ وہ تو جو کچھ کر رہا ہے‘بھوانی دیوی کو خوش کرنے کے لیے کر رہا ہے۔ گوپی ناتھ دھرم کی خاطر شیواجی کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہو گیا اور آ کر افضل خان کو آمادہ کیا کہ شیواجی اطاعت قبول کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اس لیے افضل خان درخواست قبول کرے اور شیوا جی کو ملاقات کا شرف بخشے۔
شیواجی نے استقبال کی زبردست تیاریاں کیں۔ قالینیں بچھیں۔ سائبان تنے، سنہری خوبصورت خیمے نصب ہوئے۔ مگر ساتھ ہی جنگل کاٹ دیا تا کہ خان اپنی فوج کو چھپا نہ سکے۔ خان ملاقات کے لیے اپنے مستقر سے نکلا تو پندرہ سو جاں نثار ہمراہ تھے۔ مگر گوپی ناتھ نے چرب زبانی سے یقین دلایا کہ ان کی ضرورت ہی نہیں! خان پالکی میں تھا اور پرسکون موڈ میں تھا۔ ململ کا کرتا زیب تن تھا اور پاس صرف ایک تلوار۔ باڈی گارڈ بھی ایک ہی ساتھ لیا۔ نامور شمشیر زن! جس کا نام سید بندہ تھا! خان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ گوپی ناتھ غداری کر سکتا ہے!
شیواجی نے سرپر پگڑی کے نیچے لوہے کی ٹوپی پہنی اور عبا کے نیچے زرہ! خنجر اُس کی آستین میں چھپا تھا اور بدنامِ زمانہ مرہٹہ ہتھیار، لوہے کا ایک خاص پنجہ مٹھی میں بند تھا۔ اس کے کنارے کٹیلے تھے۔ افضل خان نے خیمہ گاہ سے دیکھا کہ شیواجی اپنی کمین گاہ سے نکلا اور اُس کی سمت چلا۔ چال سے عاجزی اور پست ہمتی نمایاں تھی! بظاہر مسلح بھی نہیں تھا! آ کر جھکا اور فرشی سلام کیا۔ افضل خان کا باڈی گارڈ خان کے احترام میں ایک طرف ہو گیا تا کہ خان آگے بڑھ سکے۔ شیواجی کا باڈی گارڈ بھی رُک گیا۔ مورخ لکھتے ہیں کہ طویل قامت، وجیہہ اور بارعب افضل خان کے سامنے شیواجی بونا لگ رہا تھا! افضل خان نے آگے بڑھ کر شیواجی کو گلے لگایا۔ شیواجی نے بند مٹھی کھولی اور قاتل کٹیلے کنارے افضل خان کے پیٹ میں بھونک دیئے۔ افضل خان اچھل کر پیچھے ہٹا۔ اس کے منہ سے لفظ نکلا... ’’دھوکہ‘‘۔ خان نے تلوار نکال لی۔ بلاکا وار کیا مگر تلوار فولادی زرہ سے ٹکرا کر ناکام واپس ہوئی۔ اس اثناء میں شیواجی نے آستین سے خنجر نکالا اور پے در پے وار کیے۔ سید بندہ تلوار سونتے آگے بڑھا مگر شیواجی اور اُس کے محافظ نے اسے قتل کر دیا۔ خان کے کہار اسے پالکی میں ڈال کر واپس بھاگے۔ راستے میں مرہٹے انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے خان کا سرکاٹ کر شیواجی کو بھیج دیا!
اب وہ زمانہ نہیں کہ ہمارے جرنیل کسی بونے بھارتی سے، کسی دور افتادہ گھاٹی میں ملاقات کریں۔ مگر یہ ضرور ہے کہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے! یہ طے ہے کہ کشمیر جنگ سے نہیں ملے گا۔ چین نے تائیوان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے جنگ کا سہارا نہیں لیا۔ سیاح بھی آ جا رہے ہیں اور تجارت بھی ہو رہی ہے۔ مومن کی فراست اتنی پُراعتماد ہونی چاہیے کہ بھارت سے معمول کے تجارتی اور سیاحتی تعلقات اس فراست میں رخنہ نہ ڈال سکیں! جنگ ہمارے مسائل کا حل نہیں! خونریزی ہمارے مفاد میں نہیں! مگر یہ بھی یاد رکھنا ہو گا کہ دہلی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں ہونے والے فیصلوں سے شیواجی کی روح لا تعلق نہیں!!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com