Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, December 14, 2015

تنور! دوزخ کے! اور شکم کے!

اگر آپ نیدرلینڈز کے نقشے کو غور سے دیکھیں تو جنوب میں یہ ایک تنگ پٹی کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس پٹی کے مغرب میں بیلجیئم ہے اور مشرق میں جرمنی۔ پٹی کے اُوپر والے، یعنی شمالی سرے پر نیدرلینڈز کا پانچواں بڑا شہر آئن دھوون واقع ہے۔
یہاں یہ وضاحت بھی ہو جائے کہ نیدرلینڈز کو ہالینڈ کیوں کہا جاتا ہے؟ نیندرلینڈز کے بارہ صوبے ہیں۔ دو صوبوں کے نام شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ ہیں۔ایمسٹرڈیم اور ہیگ جیسے بڑے بڑے شہر انہی صوبوں میں واقع ہیں۔ نیدر لینڈز کو دنیا میں اکثر و بیشتر ہالینڈ انہی صوبوں کی وجہ سے کہا جاتا ہے مگر، شمالی ہالینڈ اور جنوبی ہالینڈ سے باہر، دوسرے صوبوں میں ملک کے لیے ہالینڈ کا لفظ استعمال کیا جائے تو ناپسند کیا جاتا ہے۔
نیدرلینڈز کا سب سے چھوٹا صوبہ زی لینڈ ہے۔ نیوزی لینڈ کا نام اِسی صوبے کے نام پر ہے کیونکہ نیوزی لینڈ کو نیدر لینڈز ہی کے ایک جہاز ران نے دریافت کیا تھا۔
ہم آئن دھوون کے شہر کی بات کر رہے تھے۔ اس شہر کی ایک وجہ شہرت فلپس کمپنی بھی ہے۔ 1891ء میں دو بھائیوں گیراڈ فلپس اور اینٹن فلپس نے بلب بنانے کی چھوٹی سی فیکٹری لگائی۔ یہ اتنی بڑی کمپنی بن گئی کہ ہائی ٹیکنالوجی کی کئی کمپنیاں یہاں آ گئیں اور آئن دھوون صنعت اور ٹیکنالوجی کا عظیم الشان مرکز بن گیا۔ 2005ء میں پورے ملک نے ریسرچ پر جو رقم خرچ کی، اس کا ایک تہائی صرف آئن دھوون میں صرف ہوا۔ آج سے چار سال پہلے فلپس کمپنی نے ریسرچ کے لیے جو رقم مختص کی وہ پونے دو ارب یورو تھی اور یہ آمدنی کا صرف سات فی صد تھا! 
ایک ماہ پہلے آئن دھوون شہر پوری دنیا میں ایک اور وجہ سے مشہور ہوا۔ کرۂ ارض پر اس کی دھوم مچ گئی۔ سوشل میڈیا میں اس کے نام کا سیلاب آ گیا جو ابھی تک نہیں تھما۔ لاکھوں کمنٹس فیس بک پر آئے۔ لاکھوں نے لائک
(LIKE)
 کیا اور شیئر بھی! دنیا بھر کے اخبارات میں تذکرے ہوئے اور کئی ملکوں کے کروڑوں باشندوں نے اپنے اپنے ٹیلی ویژن پر اس شہر کا نام سنا!
آئن دھوون کی پولیس کو ایک ایمرجنسی ٹیلی فون کال موصول ہوئی۔ ایک خاتون کی طبیعت سخت خراب تھی۔ پولیس فوراً پہنچی۔ خاتون کا شوگر لیول خطرناک حد تک کم ہو چکا تھا۔ پولیس نے ایمبولینس بلائی اور خاتون کو ہسپتال روانہ کیا۔ مگر اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ پولیس کی ڈیوٹی میں شامل نہ تھا۔
پولیس نے دیکھا کہ گھر میں خاتون کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ یوں تو حکومت بھی اِن بچوں سے غافل نہ تھی۔ فوراً تلاش شروع ہوئی کہ مال کی عدم موجودگی میں ان کی دیکھ بھال کون کرے گا۔ مگر اس میں تو وقت لگنا تھا۔ پولیس نے اس صورتِ حال میں بچوں کو اکیلا چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ دو پولیس افسر گھر میں رک گئے۔ انہوں نے بچوں کے لیے کھانا تیار کیا۔ انہیں کھلایا پھر سُلایا! اس کے بعد برتن دھوئے اور باورچی خانہ صاف کیا!
اس واقعہ میں سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ایمرجنسی چوری، ڈکیتی یا قتل سے متعلق نہیں تھی۔ خاتون بیمار ہو گئی تھی۔ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ہمارے ملک میں پولیس سے رابطہ کر کے یہ بتایا جائے کہ اماں بے ہوش ہو گئی ہے۔ اگر کوئی سرپھرا ایسا کر بھی دے تو جواب میں تھانے سے ایک قہقہہ سنائی دے گا اور ساتھ ہی ایک کھردری آواز کہ پاگل دے پتر!یہ تھانہ ہے، ہسپتال نہیں۔ اگر پاکستان میں پولیس کسی مریض کے گھر پہنچے اور اسے ایمبولینس میں لٹا کر ہسپتال بھیجے تو یہ خبر آئن دھوون کی خبر سے بھی بڑی خبر بنے گی۔
پولیس کے بارے میں ہمارا بنیادی تاثر ہی منفی ہے۔ یعنی ڈر اور خوف والا! اس کا سبب یہ ہے کہ ہماری پولیس عوام کے لیے نہیں، حکمران کے لیے ہے! پہلے یہ برطانوی حکومت کی حفاظت کرتی تھی۔ تقسیم کے بعد یہ ان حکومتوں کی حفاظت کر رہی ہے جو برطانوی حکومت کی جانشین ہیں۔ آپ صرف اسی واقعہ پر غور کر کے دیکھ لیجیے جو تین دن پہلے پشاور میں پیش آیا۔ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلامیہ کالج پشاور پہنچنا تھا مگر پولیس نے شہر کو سر بہ مہر کر دیا اور عوام کے گردے نکال کر خاردار درختوں پر ٹانگ دیئے۔ صبح جس وقت وزیر اعظم چک شہزاد اسلام آباد کے قریب ایک سکول میں طالبات سے خطاب کر رہے تھے، اُس وقت پشاور کی شہراہیں بند تھیں! اس لیے کہ وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر پر آنا تھا! اسلامیہ کالج پشاور سے گورنر ہائوس پشاور تک کا سفر بھی وزیر اعظم نے ہیلی کاپٹر ہی سے طے کیا۔ پشاور شہر کی شہ رگ یونیورسٹی روڈ ہے۔ اس روڈ کو پولیس نے بند کیا تو لاکھوں راہ گیر عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ ٹریفک رنگ روڈ کی طرف موڑ دی گئی۔ رِنگ روڈ بھی ازدہام کی وجہ سے بلاک ہو گئی۔ صدر جانے والی ٹریفک اور صدر سے یونیورسٹی، یونیورسٹی ٹائون، تہکال اور حیات آباد جانے والی ٹریفک امن چوک پر روک دی گئی۔ پھر گردوں کے ساتھ ساتھ عوام کی انتڑیاں نکالنے کے لیے خیبر روڈ بھی بند کر دی گئی۔ ہزاروں افراد میلوں پیدل چلنے پر مجبور ہوئے۔ جن بچوں نے چھٹی کر کے بارہ بجے(اُس دن جمعہ تھا) گھروں میں پہنچنا تھا وہ سہ پہر کو اور کچھ اس کے بعد پہنچے۔ ڈپٹی کمشنر اور پولیس کے درمیان اس معاملے پر نوک جھونک بھی ہوئی کیوں کہ پولیس نے اِس ’’عوام دوست‘‘ اقدام کی خبر ضلعی انتظامیہ تک پہنچنے ہی نہ دی۔ ضلعی انتظامیہ کو اُس وقت معلوم ہوا جب شہریوں کی سسکیوں، آہوں اور کراہوں کی آواز اُس تک پہنچی۔
کیا آپ نے کبھی پولیس کے افسروں اور جوانوں کے چہروں کو اُس وقت غور سے دیکھا ہے جب وہ کسی شاہی سواری کی آمد پر ٹریفک بلاک کرتے ہیں؟ اُن کے چہروں پر کس قدر رعونت، سختی اور اجنبیت ہوتی ہے! وہ بسا اوقات گاڑیوں کے بونٹ پر مکا مار کر اُسے رُکنے کا حکم دیتے ہیں اور کبھی کسی ٹیکسی ڈرائیور کو گالی دے رہے ہوتے ہیں۔ اس کالم نگار نے ایک بار پولیس کے ایک افسر سے پوچھا کہ ٹریفک کیوں روکی جا رہی ہے؟ اُس نے جواب دینے کے قابل تو نہ سمجھا مگر جن شعلہ بار نظروں سے دیکھا، وہ بھلائی نہیں جا سکتیں! اس رُکی ہوئی ٹریفک میں جب حاملہ عورتیں بچے جَن کر بے ہوش ہوتی ہیں یا دل کے مریض تڑپتے ہیں تو یہ پولیس مکمل لاتعلق رہتی ہے کیوں کہ یہ اُس کی ’’ڈیوٹی‘‘ میں شامل نہیں!
حکومتی پولیس اور عوامی پولیس میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ یہاں اگر چوری ہو، ڈاکہ پڑے یا قتل کا ارتکاب ہوتو پولیس کے دروازے پر جانا پڑتا ہے مگر مہذب ملکوں میں ایسے واقعات ہوں تو پولیس خود آ کر دروازے پر دستک دیتی ہے! ہزاروں لاکھوں پاکستانی نقصان اٹھانے کے باوجود وارداتوں کی اطلاع پولیس کو نہیں دیتے؟ کیوں؟ اس لیے کہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ دادرسی نہیں ہو گی اور رہا سہا مال، رہا سہا سکون اور رہی سہی عزت بھی تفتیش کی ’’نذر‘‘ ہو جائے گی!!
تو کیا پولیس کے اس خوفناک منفی تاثر کی ذمہ دار پولیس خود ہے؟ انصاف کی بات یہ ہے کہ نہیں! اس کی ذمہ داری پولیس نہیں! زیادہ سے زیادہ دس پندرہ فی صد ذمہ داری پولیس کے کندھوں پر آتی ہے۔ اس سے زیادہ نہیں۔ اس کی ذمہ داری پالیسی سازوں پر ہے! سیاست دانوں پر ہے جو حکمرانی کرتے ہیں۔ اُن آمروں پر ہے جو آ کر، ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے، ملک کو سیدھے راستے پر چلانے کی بڑیں ہانکتے رہے اور پولیس کو بد سے بدتر کر گئے! اور بھیڑیے کی کھال اوڑھے اس بیورو کریسی پر ہے جو اصل میں بھیڑیے اور جس کی سفید اون سے تیار ہونے والے گرم کپڑے صرف خوشامد پسند حکمرانوں کے جسم گرم رکھتے ہیں! آج تک ایوان صدر اور وزیر اعظم کے دفتر میں براجمان کسی بیورو کریٹ نے، کسی نام نہاد پرنسپل سیکرٹری نے، کسی حکمران کو یہ نہیں کہا کہ حضور! پولیس کو غیر سیاسی 
(De Politicise)
 کیجیے تا کہ اس ملک کے عوام سکھ کا سانس لیں اور کھوئی ہوئی عزتِ نفس دوبارہ حاصل کر سکیں! نوکر شاہی کے ان بلند ترین نمائندوں کو اقتدار کے ایوانوں میں حکمرانوں کے ساتھ والے کمروں میں بیٹھ کر تنور تو یاد آتے ہیں مگر بدقسمتی سے یہ وہ تنور نہیں ہوتے جو دوز، میں ہوں گے، انہیں صرف اپنے شکم کے تنور یاد رہتے ہیں جو کبھی بھرتے ہی نہیں! پینتیس پینتیس سال، اڑتیس اڑتیس سال ملازمتیں کرنے کے بعد بھی ان کی رال بدستور ٹپکتی رہتی ہے۔ کوئی ایشیائی ترقیاتی بنک کو سدھارتا ہے اور کوئی عوام کے خون پسینے کی کمائی پر واشنگٹن چلا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے فائل روکے رکھی یہاں تک کہ خود ایک اتھارٹی کے چیئرمین لگ گئے!
رہے حکمران! تو وہ پولیس کو غیر سیاسی کیوں کریں؟ اگر ایسا کریں تو کل ڈاکٹر عاصم کو بے گناہ کون قرار دے گا اور ماڈل ٹائون میں گولیاں کون چلائے گا؟
آج اگر سندھ یا پنجاب یا وفاقی دارالحکومت کے پولیس کے سربراہ کو یہ یقین دلا دیا جائے کہ تمہارے کام میں مداخلت نہیں ہو گی! تمہاری رضا مندی کے بغیر تمہارے دائرہ کار میں کسی ایس پی، کسی ایس ایچ او اور کسی انسپکٹر کی تعیناتی نہیں ہو گی اور کسی مجرم کو چھوڑنے یا کسی بے گناہ کو پکڑنے کا حکم ’’اوپر‘‘ سے نہیں آئے گا مگر ریزلٹ سو فیصد درکار ہو گا تو یقین کیجیے، یہی پولیس جرائم کا بھی صفایا کر دے گی اور گھروں میں پہنچ کر بچوں کو کھانا بھی کھلائے گی!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com