Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, November 30, 2015

بادشاہت کے تقاضے

بچہ ہی تو تھا!
پچیس تیس سال کی عمر‘ عمر ہی کیا ہے! بچے سے قتل ہو گیا اور پولیس والے پکڑ کر لے گئے۔ ماں‘ دادی اور نانی نے پولیس کو ہزار ہزار بد دعائیں اور کوسنے دئیے۔ جو مارا گیا اُس کی تقدیر ہی یہی تھی! بچے کا تو محض بہانہ بن گیا۔ جاگیرداروں‘ سرداروں‘ چودھریوں اور خانوں کے بیٹے اور پوتے جب مزارعوں اور ہاریوں کی خواتین سے’’کھیلتے‘‘ ہیں تو اُس پر بھی یوں ہی واویلا مچا دیا جاتا ہے۔۔۔۔ اس عمر کے بچے ’’کھیل کود‘‘ نہ کریں تو آخر کیا کریں! قصور میں جب بچوں کے ساتھ بدسلوکی کی ویڈیو کا سکینڈل منظرعام پر آیا تو ایک فریادی عورت کو بااثر خاندان کے فرد نے یہی تو سمجھایا کہ جو سلوک ہم تمہارے ساتھ کرتے رہے ہیں‘ تمہارے بچوں کے ساتھ ہوگیا ہے تو کون سی قیامت برپا ہو گئی ہے؟
اب یہ جو بچی سے چند ڈالر پکڑے گئے ہیں تو گویا آسمان گر پڑا ہے۔ ایان علی کی عمر ہی کیا ہے؟ اس پر مقدمہ چلانے والوں اور اُسے سزا دینے کی خواہش کرنے والوں کو کم از کم اُس ستر سالہ بڑے میاں سے ضرور سبق سیکھنا چاہیے جو عدالت کے باہر پھول لے کر کھڑا تھا۔ کتنی محبت اور عقیدت سے بڑے میاں نے وہ پھول ایان علی کو پیش کیے تھے۔ اس کے علاوہ بھی خیرخواہوں کی تعداد کم نہ تھی۔ ہجوم عاشقاں گھنٹوں پہلے پہنچ جاتا تھا! الیکٹرانک میڈیا نے بھی عدالت میں ایان علی کی آمد و رفت کو میک اپ کی کمپنیوں کا اشتہار بنا دیا۔ کبھی کیمرہ بالوں کی آرائش پر پڑتا‘ کبھی تازہ فیشن کے دھوپ کے چشمے پر اور کبھی لباس پر جو ہر بار الگ سٹائل کا ہوتا!
اب یہ جو ڈاکٹر عاصم علی کو پکڑ لیا گیا ہے تو یہ کیا حماقت ہے! وہ بادشاہ کے مصاحب تھے۔ اللہ کے بندو! اپنی تاریخ کو کیوں جھٹلاتے ہو۔ روایات آدھی اپناتے ہو اور آدھی رد کرتے ہو۔ عجیب منافقت ہے! خلجیوں‘ لودھیوں‘ تغلقوں‘ مغلوں کے اقتدار کا موروثی سلسلہ اپناتے ہو۔ بادشاہت دل و جان سے قبول کرتے ہو۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اُس کی صاحبزادی کو پارٹی کا بادشاہ بناتے ہو‘ پھر بی بی کے میاں کو‘ پھر میاں کی بہنوں کو‘ پھر صاحبزادے کو۔ وفاق بڑے بھائی کو اور صوبہ چھوٹے بھائی کو دیتے ہو‘ پارٹی میں سربراہ کے بھتیجے کو، دو بڑے میاں صاحبان کے بعد پہلی پوزیشن دیتے ہو۔ مفتی صاحب پردہ فرماتے ہیں تو مولانا فضل الرحمن کو جماعت کا بادشاہ بناتے ہو۔ ولی خان کے بعد پارٹی بیگم صاحبہ پھر فرزند ارجمند چلاتے ہیں‘ چیف منسٹر اُن کے خاندان سے بنتا ہے اور کراچی برانچ کی سربراہی بھی خاندان ہی میں رہتی ہے۔ جب یہ سب کچھ کر رہے ہو تو پھر بادشاہی کے تقاضے بھی پورے کرو! عقل کے اندھو! بادشاہوں کو پکڑا نہیں کرتے۔ فقط کارناموں کی تعریف کرتے ہیں! بندوں کو مروانا‘ دولت جمع کرنا‘ حسینائوں کے سروں پر محبت بھرا ہاتھ رکھنا‘ مصاحبوں کو کھلی چُھٹی دینا، ان سب کا بادشاہت کے ساتھ چولی دامن کا تعلق ہے۔ نیویارک کے مہنگے اپارٹمنٹوں‘ لندن کی جائدادوں، جدہ کے کارخانوں اور دبئی کے محلات پر ناک بھوں چڑھاتے ہو۔ 1206ء میں تمہارا پہلا بادشاہ دلی کے تخت پر بیٹھا اور 1857ء میں آخری بادشاہ دلی سے رخصت ہوا۔ کیا ان چھ سو اکاون برسوں میں کسی نے کسی بادشاہ سے کچھ پوچھنے کی جرأت کی؟ کیا محلات نہیں بنے؟ تاج محل اور لال قلعہ بنانے پر جو دولت صرف ہوئی کیا شہنشاہ ظہیر الدین بابر کابل سے ساتھ لائے تھے؟ کیا تخت طائوس بنوانے کے لیے ظل الٰہی نے ہل چلایا تھا یا دکانداری کی تھی؟ یا کوئی اور کمائی تھی؟ مغل سلطنت جب عروج پر تھی اور سکہ دکن سے لے کر کشمیر تک اور بنگال سے لے کر افغانستان تک چلتا تھا تو پورے برصغیر کی کل آمدنی کا ایک چوتھائی صرف پانچ ساڑھے پانچ سو افراد کے تصرف میں تھا۔ آج پورے ملک کی آمدنی کا تین چوتھائی اگر چند شاہی خاندانوں کے ہاتھ میں ہے تو پیٹ میں قولنج کا درد کیوں اُٹھ رہا ہے اور مرگی کے دورے کیوں پڑ رہے ہیں؟ کیا تم عوام نے ’’سیاسی‘‘ جماعتیں ان خانوادوں کے حوالے خود نہیں کیں؟ اگر ایسا کیا ہے اور یقیناً ایسا ہی کیا ہے تو اب بادشاہی کے باقی آداب بھی بجا لائو! 
اور کیا صرف اسی معصوم بچی نے یہ گناہ کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر اُن مردوں کے نام اور تصویریں سب کُھلی پڑی ہیں جو سیروں کے حساب سے سونا باہر لے جاتے رہے ہیں اور لے جا رہے ہیں! ڈاکٹر عاصم جس جُرم میں پکڑا گیا ہے‘ وہ تو پورے ملک میں ہو رہا ہے۔ کیا لاہور اور اسلام آباد کے ترقیاتی اداروں میں دیانت کا بول بالا ہو رہا ہے؟ تھانوں اور کچہریوں میں سارا دن سورت یاسین کی تلاوت ہوتی ہے؟ اور چپڑاسی سے لے کر کمشنر تک اور پٹواری سے لے کر تحصیلدار تک سب مشکوٰۃ شریف کا سبق پڑھتے اور پڑھاتے ہیں؟
اور یہ جو تیرہ چودہ انسان ماڈل ٹائون میں قتل ہو گئے توکون سا سورج مشرق کے بجائے مغرب سے طلوع ہوگیا؟ کیا پہلے بندے اس طرح نہیں مرتے تھے؟ سلاطین دہلی کے محلات کے دروازوں پر لاشیں ایک ایک ماہ لٹکی رہتی تھیں۔ ابن بطوطہ ملتان سے دہلی روانہ ہوا تو راستے میں دیکھا کہ بادشاہ کے حکم سے دو زندہ مجرموں کی کھالیں اتاری جا رہی تھیں۔ طریقہ یہ تھا کہ گڑھا کھودا ہوا تھا، مجرم کو الٹا یوں لٹایا جاتا تھا کہ مُنہ اور ناک کے نیچے گڑھا ہو تاکہ سانس لینے میں دقت نہ ہو۔ ابن بطوطہ بتاتا ہے کہ جس کی کھال اتاری جا رہی تھی وہ بار بار جلّاد کی منت کرتا تھا کہ اُسے ایک ہی بار تلوار سے ختم کر دے مگر جلّاد ایسا کرتا تو اُس کی اپنی کھال اتروائی جاتی! کیا بھٹو صاحب کے دور میں بندے نہیں مرے؟ تو اب اگر ایسا ہو گیا تو کون سی انہونی ہو گئی؟ اور یہ بندے تو کسی حکمران نے مروائے بھی نہیں۔ یہ تو پولیس والوں نے مارے۔ آخر پولیس والوں کا ان مقتولوں سے جائداد کا خاندانی جھگڑا جو چل رہا تھا!
منافقت چھوڑ دو! خاندانوں کی بادشاہت قائم کی ہے اور بادشاہت کے ان پودوں کو پانی دے رہے ہو تو اُن کاموں پر نہ چِلّائو جو بادشاہ اور ان کے خاندان کیا کرتے ہیں۔ اور اگر ایان علی اور ڈاکٹر عاصم کو پکڑا ہے تو پھر بہادر بنو‘ شیر بنو‘ ساری ایانوں کو اور سارے ڈاکٹر عاصموں کو پکڑو! سارے جرائم صرف اُن علاقوں میں تو نہیں ہو رہے جو جیکب آباد اور کندھ کوٹ کے جنوب میں واقع ہیں    ؎
دو رنگی چھوڑ دے‘ یک رنگ ہو جا
 سراسر موم ہو یا سنگ ہو جا! 
اسلام میں تو پورے کے پورے تم داخل نہ ہو سکے‘ اب کم از کم خاندانی آمریت میں تو پورے کے پورے داخل ہو جائو! یوں بھی جمہوریت کے نام پر تُم ایک بدنما داغ ہی تو ہو! ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا‘ جی جناب اور یس سر کہنا تمہاری سرشت میں ہے۔ اگر پارٹی کا سربراہ دن کو رات کہے تو تُم کہتے ہو جناب وہ دیکھیں ستارے چمک رہے ہیں اور وہ دیکھیں چاند دمک رہا ہے! تُم وزیر بن جائو یا سینیٹ کے چیئرمین یا اسمبلی کے سپیکر، فرمانبرداری تُم بلاول یا حمزہ شہباز ہی کی کرتے ہو۔ فیصل آباد کا بزرگ سیاستدان کہتا ہے کہ اُس کے حریف نے اٹھارہ قتل کیے ہیں لیکن شاہی خاندان کی رعایا بن کر پارٹی کے اندر تو دونوں نے زندگی گزارنی ہے!
اسلام سے نفاق برت رہے ہو‘ جمہوریت کے مُنہ پر طمانچے مار رہے ہو‘ اللہ کے بندو! بادشاہی نظام سے تو وفا کر جائو!

Saturday, November 28, 2015

اے خانہ براندازِ چمن! کچھ تو اِدھر بھی!

چار دن سے مولوی صاحب نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایک اور صاحب نمازیں پڑھا رہے تھے۔ پانچویں دن مؤذن صاحب سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ مولانا کہاں ہیں؟ کیا چُھٹی پر ہیں؟ مؤذن صاحب نے بتایا کہ اُن کا تبادلہ ایک اور مسجد میں ہو گیا ہے۔ یہاں اُن کی مدت
 (Tenure)
 پوری ہو چکی تھی! اُس دن جمعہ تھا۔ نئے مولوی صاحب ہی نے خطبہ دیا۔ ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا چودہ سال سے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سے وابستہ ہیں اور کچھ دیگر مساجد میں بھی خدمات سرانجام دے چکے ہیں!
اس وقت ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی اور بحریہ‘ دونوں کی رہائشی آبادیوں میں یہی سسٹم کارفرما ہے۔ کسی مسجد میں چندہ لیا جاتا ہے نہ محلے والوں کی کمیٹی ہے، مولانا جس کے ماتحت ہوں۔ تنخواہ انتظامیہ دیتی ہے۔ معقول رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ ڈیفنس ہائوسنگ میں خطیب اور مؤذن کو تین وقت کا تیار پکا پکایا کھانا پیش کیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے بحریہ میں بھی کھانے کا یہی انتظام ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ان دو رہائشی تنظیموں کے علاوہ بھی کچھ سیٹ اپ ایسے ہوں جہاں ایسا ہی یا اس سے ملتا جلتا انتظام چل رہا ہو!
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر آپ کا بیٹا آٹھ دس سال لگا کر تعلیم سے فارغ ہوا ہو، امتحانات میں کامیابی حاصل کر چکا ہو‘ قرآن و حدیث اور فقہ پر اسے دسترس حاصل ہو اور پھر اسے روزگار ایسی جگہ ملے جہاں اس کا اور اس کے اہل و عیال کا انحصار محلے والوں کے چندے اور ملاقات و خیرات پر ہو؟ ایک مسجد کمیٹی ہو جس کے ارکان میں دو تین دکاندار ہوں‘ ایک دو افسر ٹائپ اشخاص ہوں‘ دو تین چٹے ان پڑھ ہوں‘ ایک دو جھگڑالو قسم کے بزرگ ہوں‘ یہ کمیٹی عملی طور پر آپ کے عالم فاضل صاحبزادے کی نگران ہو اور صاحبزادے کو ہر وقت یہ فکر لاحق ہو کہ ان میں سے کوئی ناراض نہ ہو جائے‘ تو کیا یہ بندوبست آپ کے لیے قابل قبول ہو گا؟
معاملے پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت جو علمائے دین مساجد اور مدارس میں کام کر رہے ہیں‘ انہیں دو خانوں میں بانٹا جا سکتا ہے۔ اکثریت خدا ترس اشخاص پر مشتمل ہے‘ جو سیاست میں پڑنا چاہتے ہیں‘ نہ کسی کا محتاج ہونا پسند کرتے ہیں، یہ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ اسباق کی تیاری کرتے ہیں۔ پڑھانے میں خلوص اور درد مندی کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ان حضرات کو یہ بندوبست قطعاً اچھا نہیں لگتا کہ وہ اپنی تنخواہ کے لیے اہل محلہ پر اور مسجد کمیٹی پر انحصار کریں۔ مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی اکثریت بہت کم مشاہروں پر گزر بسر کر رہی ہے۔ قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو زندہ رکھنے والوں کی زیادہ تعداد تنگ دستی اور عُسرت کا سامنا کر رہی ہے۔ چٹائیوں پر بیٹھتے ہیں اور لوہے کی بنی چارپائیوں پر سوتے ہیں۔ پنشن ہے نہ ہی جی پی فنڈ‘ علاج معالجہ کی سہولیات ہیں‘ نہ رہائش کا معقول بندوبست! سالہا سال اسی طرح گزر جاتے ہیں   ؎
گُھٹ گُھٹ کے رہے میرِؔ سے جب مرتے جہاں میں
تب جا کے یہاں واقفِ اسرار ہوئے ہم!
دوسری کیٹگری اُس قلیل تعداد کی ہے جو سیاست اور پی آر میں آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کچھ تو غیر معمولی صلاحیت کے مالک ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ قابل رشک تنظیمی قابلیت رکھتے ہیں۔ حکومت سے اور مخیر حضرات سے تعلقات پیدا کرنے اور نبھانے کا فن جانتے ہیں۔ اپنی زندگی میں اپنی اولاد کا مستقبل بھی’’محفوظ‘‘ کر جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو او لیول اور اے لیول قسم کے انگریزی سکول کالج بھی کامیابی سے چلا رہے ہیں۔ کچھ جو بہت اوپر تک نمایاں مقام حاصل کر چکے ہیں‘ ہر سال‘ یا سال میں ایک سے زیادہ بار‘ امریکہ یورپ اور دوسرے ممالک کے دورے کرتے ہیں۔ ان دوروں کو تنظیمی اور تبلیغی دورے کہا جاتا ہے۔ کچھ خوش قسمت ایسے ہیں جنہیں امریکہ کے ارباب اقتدار و اختیار مدعو کرتے ہیں اور دوران سفر ہر قسم کی سہولیات مہیا کرتے ہیں!
ہم ہرگز یہ نہیں کہنا چاہتے کہ مساجد سو فیصد ریاست کی تحویل میں آنی چاہئیں (اگر ایسا کرنا بھی ہو تو بتدریج کرنا چاہیے) مگر ہم یہ ضرور تجویز کریں گے کہ مساجد میں خدمات سرانجام دینے والے علمائے کرام سے حکومت یہ ضرور پوچھے کہ اگر ان کی مساجد کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جائے، انہیں تنخواہ‘ پینشن‘ علاج معالجہ اور رہائش کی سہولیات دیگر سرکاری ملازموں کی طرح دی جائیں‘ جیسا کہ مسلح افواج میں ہو رہا ہے‘ تو کیا وہ اسے پسند کریں گے؟ یہ پیش گوئی کرنا مشکل نہیں کہ اکثریت کی رائے اس انتظام کے حق میں ہو گی!
جن علمائے کرام کو قدرت نے تنظیمی اور سیاسی صلاحیتوں سے نوازا ہے‘ ان کے لیے بھی میدان حاضر رہنا چاہیے۔ وہ مدارس اور تعلیمی ادارے ضرور چلاتے رہیں؛ تاہم حکومت کو یہ ضرور کرنا چاہیے کہ مدارس کے اساتذہ کے سکیل حقیقت پسندانہ بنوائے‘ منتظم اور مہتمم حضرات کو یا دوسرے الفاظ میں مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ سالانہ ترقی دیں گے‘ پنشن کا نظام وضع کریں گے‘ رہائش یا اس کے بدلے رہائشی الائونس دیں گے۔ اساتذہ اور ان کے اہل و عیال کے علاج کی ذمہ داری مدرسہ کی انتظامیہ پر ہو گی۔ ملازمت سے نکالے جانے کی صورت میں وہ ’’سروسز ٹربیونل‘‘ قسم کے کسی ادارے میں اپیل کرنے کا حق رکھیں گے! مدارس مالکان اگر اساتذہ کو یہ سب جائز حقوق دیتے ہیں تو ان مالکان کو پورا حق ہے کہ نجی شعبہ میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور کرتے رہیں!
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مدارس میں پڑھانے والے علمائے کرام اور مساجد کے خطیب‘ امام اور مؤذن حضرات‘ عزت نفس رکھتے ہیں! انہیں دین کا علم سیکھنے اور سکھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ ایک قابل رشک ذمہ داری ہے۔ حکومت پر لازم ہے کہ مساجد اور مدارس کے وسیع و عریض نجی شعبے کو
 Regulate
 کرے۔ جو فرائض سرانجام دے رہے ہیں‘ ان کے حقوق بھی ادا کیے جائیں! عوام کی غالب اکثریت ان علمائے کرام کا دل کی گہرائیوں سے احترام کرتی ہے۔ ان علمائے کرام کا اور ان کے اہل و عیال کا حق ہے کہ وہ معاشی اعتبار سے اطمینان بخش زندگی گزاریں‘ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو اور انہیں کمیٹیوں اور مقتدیوں کا مرہون احسان نہ ہونا پڑے۔
اگر مسلح افواج میں‘ ڈیفنس ہائوسنگ سوسائٹیوں میں اور بحریہ کی ملک گیر رہائشی بستیوں میں مساجد کا انتظام قابل رشک انداز میں چلایا جا سکتا ہے تو اس انتظام کا اطلاق بتدریج پورے ملک پر کیا جائے! 
مدارس میں تعلیم پانے والے لاکھوں طلبہ کے بھی حقوق ہیں جو کچھ حکومت نے ادا کرنے ہیں‘ کچھ مدارس کے مالکان نے اور کچھ معاشرے نے مگر یہ موضوع کسی آئندہ نشست میں!

Friday, November 27, 2015

رذائل

رشتہ اچھا تھا۔ لڑکا خوش شکل اور ہنس مُکھ واقع ہوا تھا۔ کاروباری خاندان تھا۔ دارالحکومت کے پوش علاقے میں محل نما کوٹھی میںرہائش تھی۔ شادی کر دی گئی۔
پھر ایک دن لڑکی نے ماں کوبتایا کہ کوشش کے باوجود یہ نہیں معلوم ہو رہا کہ اس کے میاں کا اور میاں کے باپ کا بزنس کیا ہے۔ بس صبح سویرے بیٹا اور اس کے ماں باپ، تینوں گھر سے چلے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ کام پر جا رہے ہیں۔ شام گئے واپس آتے ہیں۔ روپے پیسے کی کمی نہیں! جو بھی بزنس ہے، خوب چل رہا ہے!
کچھ عرصہ گزر گیا۔ پھر ایک دن لڑکی کی ایک جاننے والی خاتون نے اُسے وہ بات بتائی جسے سن کر اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ’’میں نے تمہارے میاں کو چاندنی چوک پر بھیک مانگتے دیکھا ہے۔‘‘
یہ معاشرہ زوال کی آخری حدوں کی سمت بڑھ رہا ہے۔ بھکاری محلات میں منتقل ہو گئے ہیں۔ کیکر دعویٰ کرتے پھر رہے ہیں کہ ان پر انگور لگتے ہیں۔ شیراز کی دلکش ندی کے کنارے بیٹھنے والے شاعر نے اِسی عہد کی پیشگوئی کی تھی کہ گلاب اور چینی کے شربت گائو دی اور احمق پی رہے ہیں۔ گدھوں کی گردنوں میں سنہری پٹے پڑے ہیں۔ تازی گھوڑے لکڑیاں ڈھو رہے ہیں اور عقل والوں کو پیاس بجھانے کے لیے خونِ جگر دیا جا رہا ہے۔
کچھ حقیقتیں ایسی ہیں‘ جو صدیوں کے تجربے اور مشاہدے کے بعد مانی گئی ہیں۔ انہی میں سے ایک یہ ہے کہ فیملی بیک گرائونڈ، تربیت اور اٹھان جن کی اچھی ہو، جنہوں نے اپنے گھروں میں کچھ دیکھا ہو، وہ اقتدار تک پہنچتے ہیں تو عاجزی دکھاتے ہیں نہ کہ گردن بلندی! کل کی خبر ہے کہ ہمارے حکمران طائفے کا ایک ممتاز رکن 
ایئرپورٹ پر حسبِ معمول اور حسبِ روایت تاخیر سے پہنچا۔ بدقسمتی یا 
خوش قسمتی سے ایئرلائن غیر ملکی تھی۔ ’’صاحب‘‘ کے پروٹوکول افسر نے منت سماجت کی کہ بورڈنگ کارڈ اُسے دے دیا جائے اور پھر حکمران شخصیت کا انتظار کیا جائے۔ اپنی کوئی ایئرلائن ہوتی تو مسافر جہاز میں بیٹھے سوکھتے رہتے‘ بچے روتے رہتے، بوڑھے ذلیل ہوتے رہتے اور ایئرلائن کو چلانے والے غلام دستہ بستہ دروازوں پر کھڑے رہتے۔کئی گھنٹوں بعد حکمران نمودار ہوتا اور جہاز پر یوں چڑھتا جیسے یہ اس کی جاگیر کا ایک حقیر حصہ ہو! اُس کے ذہن کے کسی دور افتادہ گوشے میں بھی یہ خیال نہ آتا کہ خلقِ خدا گھنٹوں سے اُس کے لیے تکلیف سے گزر رہی ہے۔ نشست پر بیٹھتے ہی ایئرلائن چلانے والے غلام اس کے سامنے خورو نوش کی اشیا کا ڈھیر لگا دیتے‘ مگر یہ ایئر لائن غلاموں کی رسائی سے باہر تھی۔ جہاز چلانے والوں نے وقت پر دروازے بند کیے، انجن چلایا، پنکھے گھومے اور فولادی پرندہ ہمارے حکمران کو چھوڑ کر، پروں کو پھڑ پھڑاتا، فضا کی وسعتوں میں گم ہو گیا۔ حکمران ایئرپورٹ پہنچا تو راوی کہتا ہے کہ وہ اپنے پروٹوکول افسر پر برسا۔ اگلی پرواز کے لیے اسے انتظار کرنا پڑا۔
آپ کا کیا خیال ہے سنگاپور سے لے کر کینیڈا تک اور جاپان سے لے کر جرمنی تک، تہذیب یافتہ ملکوں میں پروٹوکول افسران ایئرلائنوں کی منت سماجت کرتے کبھی دیکھے گئے ہیں؟ یہاں ملتان اور کوئٹہ جیسے چھوٹے ایئرپورٹوں پر تو یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ حکمران کا سٹاف ہی، جہاز چلنے سے کچھ دیر پہلے فون کر کے پرواز کو مؤخر کرا دیتا ہے۔
ترقی انفراسٹرکچر کا نام ہے نہ عمارتوں، شاہراہوں، پلوں اور ہوائی اڈوں کا! ترقی حکمرانوں کی رہائش گاہوں کے طمطراق سے بھی نہیں ماپی جاتی۔ رباط سے لے کر جدہ تک، دبئی سے لے کر کراچی اور رائے ونڈ تک محلات ہی محلات ہیں‘ جہاں حکمران اور حکمرانوں کے خاندان رہ رہے ہیں۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کا رہائشی حصہ اور 10ڈائوننگ سٹریٹ کا مکان ماپ لیجیے! ترقی رویّے سے جانچی جاتی ہے۔ برطانیہ کا وزیر اعظم لندن کے ٹریفک انچارج سے درخواست کرتا ہے کہ پارلیمنٹ سے نکل کر وزیر اعظم ہائوس آنا ہو‘ جہاں کوئی غیر ملکی مہمان منتظر ہوتا ہے ‘تو پہنچنے میں تاخیر ہو جاتی ہے اس لیے ٹریفک کو کچھ دیر کے لیے کنٹرول کر لیا جائے۔ ٹریفک انچارج وزیر اعظم کو ’’مشورہ‘‘ دیتا ہے کہ جنابِ عالی! آپ دس منٹ پہلے نکل آیا کریں ‘کیوں کہ شہریوں کو تکلیف نہیں دی جا سکتی! وزیر اعظم اس گستاخ منہ پھٹ اور عاقبت نااندیش افسر کو معطل کرتا ہے نہ اس کا تبادلہ کسی دور افتادہ گوشے میں کرتا ہے‘ نہ ہی اس کی ترقی روکتا ہے! وزیر اعظم کسی مریض کی عیادت کرنے ہسپتال آتا ہے۔ اس کی موجودگی میں متعلقہ ڈاکٹر آ کر پوچھتا ہے‘‘ وزیر اعظم کیسے اندر آ گیا؟ یہاں تو کسی کو بھی آنے کی اجازت نہیں!‘‘ وزیر اعظم سنتا ہے اور خاموشی سے باہر نکل جاتا ہے۔
نہیں معلوم! تہذیب یافتہ ملکوں کے ان حکمرانوں کے فیملی بیک گرائونڈ کیسے ہیں ‘مگر ایک بات واضح ہے کہ اقتدار اُن کے دماغوں کو نہیں چڑھا۔ ان کی گردنیں تن نہیں گئیں! وہ آپے سے باہر نہیں ہو گئے۔ وہ اس محاورے کی جیتی جاگتی مثال ہیں کہ جس ٹہنی پر پھل زیادہ ہوں وہ جھک جاتی ہے!
ملک بھی انسانوں کی طرح ہیں! انسانوں کا ایک ظاہر ہوتا ہے، ایک باطن! نیکی ظاہر سے نہیں جانچی جا سکتی! کسی کا ظاہر دیکھ کر نیک یا بدقرار دینے والا جاہل ہی ہو گا! پانچ وقت کی نماز، متشرع چہرہ، مخصوص انداز کا لباس! ہر سال حج ۔دیگیں اور غریب پروری کے دوسرے مظاہر! مگر اندر یہ حال ہے کہ رذائل ہی رذائل! حسد، لالچ، سازش، بخل، حُبِ جاہ! ریا کاری، جھوٹ، وعدہ خلافی، پھر ٹیکس چوری!
یہی حال ملکوں کا ہے! مشرقِ وسطیٰ کی بعض ریاستوں پر غور کیجیے۔ کیا نہیں ہے! بڑی بڑی شاہراہیں، امریکہ کے منہ چڑاتے ایئر پورٹ، عظیم الشان شاپنگ مال، حکمران خاندانوں کے ایک ایک فرد کے پاس محلات، جزیرے، اربوں کی مالیت کے تفریحی بجرے ‘مگر رویے ان کی طرح جو رات محل میں گزارتے تھے‘ مگر دن کو چاندنی چوک پر بھیک مانگتے تھے۔ عام شہری اور شاہی خاندان کے فرد کے حقوق میں زمین و آسمان کا فرق! یہ گزشتہ برس کا واقعہ ہے کہ ایک مشہور ملک کے ایک مشہور شہر کے ہوائی اڈے پر مسافروں کی طویل قطار اپنے اپنے پاسپورٹ چیک کروا رہی تھی۔ اچانک سارا کام بند کر دیا گیا۔ ایک اعلیٰ شخصیت آئی اور کائونٹر والے اُس کی دیکھ بھال میں مصروف ہو گئے۔ کافی دیر انتظار کرنے کے بعد ایک پاکستانی نے، جو امریکہ سے آیا تھا، احتجاج کیا۔ اس پر اُسے بتایا گیا کہ اگر وہ خاموش نہ ہوا تو اسے جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے! جس طرح انسانوں کے رذائل جھوٹ، حسد، ریاکاری، حبِ جاہ اور بخل ہیں، اسی 
طرح ملکوں کے رذائل یہ ہیں کہ قانون حکمران طائفے کے لیے الگ ہے اور عام شہری کے لیے الگ۔ حکمران تقاریب میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ پروازیں ان کے لیے مؤخر ہو جاتی ہیں۔ عام مسافر احتجاج تک نہیں کر سکتے۔ یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ اپنے رشتہ داروں کو اختیارات دے کر انہیں خلقِ خدا کی گردنوں پر سوار کر دیتے ہیں۔ عام اجلاس بھی دبئی میں ہوتے ہیں۔ مقدمے ان حضرات پر چلیں تو یوں بچ جاتے ہیں جیسے بتیس دانتوں میں زبان۔ شاہراہوں پر ٹریفک شاہی قافلوں کے لیے روک دی جاتی ہے۔ بچے ایمبولنسوں میں جنم لیتے ہیں۔ مسافر ہوائی اڈوں تک اور طالب علم امتحان کے کمرے میں نہیں پہنچ پاتے۔ کوئی عدالت عوام کی شنوائی کرتی ہے نہ کوئی احتجاج کام آتا ہے۔ حکمرانوں کے ہسپتال، سکول، کالج ‘سیر گاہیں، شاپنگ سنٹر، رہائشی شہر، سب کچھ عوام سے الگ ہوتا ہے۔ اُن کے اپنے گھروں میں کیا، اُن کے رشتہ داروں کے گھروں پر بھی سرکاری پہریدار تعینات ہوتے ہیں۔ اسلحہ کے قوانین، ٹیکس کے قوانین ‘ٹریفک کے قوانین، بیرونِ ملک جانے اور آنے کے قوانین، کسی قانون کا ان پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ رذائل ہیں؟ جن کی وجہ سے ملک تہذیب یافتہ ہو سکتا ہے‘ نہ ترقی یافتہ!
ہمارے حکمران اور ان کے خاندان قانون کے معاملے میں عوام کے ساتھ کب کھڑے ہوں گے؟ یہ برسوں کا معاملہ ہے یا صدیوں کا؟ ہم کب تک انتظار کریں گے؟ ؎
کب جان لہو ہو گی، کب اشک گہر ہو گا
کس دن تری شنوائی اے دیدۂ تر ہو گی
کب تک تری رہ دیکھیں اے قامتِ جانانہ
کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہو گی

Wednesday, November 25, 2015

دل جیسے مُٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!

’’آدم بو‘ آدم بو‘‘…
چڑیل نے اپنے بے حد چوڑے نتھنے سکیڑے‘ پھر پھیلائے۔ اُس کے پر چمگادڑ کے پروں کی طرح تھے۔ پھیلے ہوئے اور ڈرائونے۔ آسمانی بلا کی طرح زمین پر اتری! جو سامنے آیا اُسے کھا گئی‘ کھاتی گئی! خلق خدا نے پناہ مانگی۔ لوگ چھتوں پر چڑھ کر اذانیں دینے لگے۔ مائوں نے بچوں کو گھروں سے باہر بھیجنا بند کر دیا! خاندانوں کے خاندان تہہ خانوں میں جا چھپے! 
حسینہ واجد کی پیاس ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے! بلور کے بنے ہوئے ساغر اور ان میں انسانی خون! مگر آہ! پیاس بجھ نہیں رہی! تاریخ نے بڑے بڑے ظالم دیکھے ہیں۔ سولہویں صدی میں ملکہ مَیری نے پروٹسٹنٹ عقیدہ رکھنے والوں کو آگ میں جلانے کا حکم دیا۔ پادریوں کو پھانسیاں دینے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ملکہ کا نام ’’خونی مَیری‘‘ پڑ گیا۔ سٹالن خلق خدا کے لیے عذاب بنا۔ آج ملکہ مَیری ہے نہ سٹالن! حسینہ واجد بھی تاریخ کے گمنام صفحے پر خون کے ایک بدنما دھبے کے سوا کچھ نہیں ہو گی! بہت جلد! ہاں! بہت جلد! جب پنڈلی سے پنڈلی جُڑے گی! جھاڑ پھونک کرنے والوں کو بلایا جائے گا! آنکھوں کے سامنے فلم چلے گی! حسینہ واجد کی رحم طلب نگاہوں کے سامنے پروفیسر غلام احمد‘ قمر الزمان‘ عبدالقادر مُلا‘ صلاح الدین چودھری اور علی احسن مجاہد کے چہرے پھریں گے‘ وہ چیخے گی! مگر چہرے بار بار نظر آئیں گے۔ موت کی غشی اس اذیت سے نجات نہیں دے گی! یہ تو محض آغاز ہو گا! آغاز! جس کا کوئی انت‘ کوئی آخر نہیں ہو گا!
1969
ء کا اگست تھا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم عبدالمالک کو شہید کیا گیا۔ ٹیچر سٹوڈنٹ سنٹر میں تعزیتی اجتماع تھا۔ یہ کالم نگار بھی سامعین میں موجود تھا۔ عبدالمالک سے ہماری اچھی علیک سلیک اور خوب گپ شپ تھی۔ تمام مغربی پاکستانی طلبہ سے وہ محبت سے ملا کرتا! اجتماع میں پروفیسر غلام اعظم نے تقریر کی اور رُلا کر رکھ دیا۔ پروفیسر صاحب سے جب بھی ملاقات ہوئی‘ انہیں تبسم کے ساتھ ہی پایا! نرم ملائم ہاتھ جن میں ملنے والے کے ہاتھوں کو وہ تھامے رکھتے! پھر وہ خبر پڑھی کہ عمر رسیدہ غلام اعظم کو نوے سال قید کی سزا سنائی گئی۔ پروفیسر نے زنداں کا مرہون احسان ہونا گوارا نہ کیا اور جان‘ جلد ہی جان آفریں کے سپرد کر دی۔ یہی غلام اعظم تھے جنہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی سنٹرل سٹوڈنٹس یونین کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے 
وزیراعظم لیاقت علی خان کے سامنے بنگلہ کو اُردو کے شانہ بشانہ قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ 
ایک دن کے لیے‘ نہیں! ایک دن تو بہت لمبی مدت ہوتی ہے! ایک لمحے کے لیے بھی اس اٹل سچائی میں کبھی شک نہیں کیا کہ 1970ء کے انتخابات کے نتیجہ میں عوامی لیگ جیتی تھی اور وفاق میں حکومت کی تشکیل اس کا حق تھا! کچھ لوگوں نے اُس وقت کہا کہ عوامی لیگ کی نشستیں یہاں نہیں ہیں اور مغربی پاکستان میں جیتنے والوں کی وہاں نہیں ہیں اور یہ تو پولرائزیشن ہو گی! یعنی دو انتہائیں! پولرائزیشن! کون سی پولرائزیشن ع
تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا!
آج کے پاکستان میں پولرائزیشن کے سوا کہیں کچھ نظر ہی نہیں آ رہا۔ وسطی پنجاب میں جیتی ہوئی پارٹی وفاق میں حکومت کر رہی ہے۔ سندھ میں اس کی حیثیت صفر ہے! بلوچستان اور کے پی کے میں اس کی موجودگی تبرک سے بڑھ کر نہیں! وفاقی کابینہ میں پشتو بولنے والے کتنے ہیں؟ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیے! دفاع‘ خزانہ‘ داخلہ‘ ریلوے‘ بجلی‘ توانائی‘ تجارت‘ اطلاعات‘ ترقی و منصوبہ بندی‘ جہازرانی سب وزارتیں کیسے بانٹی گئی ہیں؟ ایوان اقتدار میں ریٹائرڈ ضعیف بیورو کریٹ کہاں کہاں سے ہیں؟ مشرقی پاکستان علاقہ نہ ہوتا‘ انسان ہوتا تو آج قہقہہ لگا کر کہتا:’’دیکھا! کیسی بددعا لگی ہے! اب بتائو کیسی ہے پولرائزیشن!‘‘
مگر جب پاکستان ایک ملک تھا تو اُس وقت سیاسی اختلاف کرنے والوں پر‘ یا فوج کا ساتھ دینے والوں پر‘ آج غداری کا الزام کیسے لگ سکتا ہے؟ کیا یہ آسمانی کتاب میں لکھا ہے کہ عوامی لیگ سے سیاسی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا! اگر پاکستان متحد رہ جاتا تو کیا اختلاف کرنے پر عوامی لیگ کو مطعون کیا جا سکتا تھا؟ نہیں! ہرگز نہیں! تو پھر صلاح الدین چودھری‘ علی احسن مجاہد اور دوسرے سیاست دانوں کو کس طرح قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اُس وقت بنگلہ دیش کا وجود کہیں نہ تھا۔ ملک ایک تھا‘ سیاسی رائے کچھ بھی ہو سکتی تھی! حسینہ واجد غداری کے عذر لنگ پر سیاست دانوں کو قتل کرا رہی ہیں بلکہ کر رہی ہیں! یہ ایک بھیانک روایت ہے جس کا آغاز اس عورت نے کیا ہے! یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوگا! یہ خون اپنا حساب لے گا! مجیب الرحمن آخری آدمی نہیں ہیں جو گھر کی سیڑھیوں پر قتل ہوئے!!
رہا بہت سے اُن دوستوں کا شکوہ جو ایک مذہبی سیاسی جماعت کی اس معاملے میں خاموشی کا رونا رو رہے ہیں! ان حضرات کا شکوہ ناروا ہے! وہ کس سے شکوہ کر رہے ہیں؟ امید ہی کیوں رکھی تھی؟ کچھ جماعتوں کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے کہ ہمیشہ صحیح وقت پر غلط فیصلہ اور صحیح فیصلہ غلط وقت پر کریں! اُس وقت عوامی امنگوں کے سامنے بندھ باندھنا بھی سیاسی کم نظری 
(Political Myopia)
 تھا اور اس وقت شور محشر بپا نہ کرنا بھی افسوسناک ہے! فارسی کے شاعر نے انہی کا ماتم کیا ہو گا  ع
زین ہمرہان سست عناصر دلم گرفت
کم کوشی ان ہمراہیوں کے خمیر میں گوندھ دی گئی ہے! دل جیسے مُٹھی میں جکڑا جا رہا ہے!!

Monday, November 23, 2015

کچھ تذکرے الگ نوعیت کے … (2)

اُس دن سنگاپور سے روانگی تھی۔ بیگم کا اصرار تھا کہ راستے کے لیے پیراسٹامول خریدنا لازم ہے جو وہ سفر میں پابندی سے ساتھ رکھتی ہیں۔ ہم دوائوں کی ایک دکان میں گئے۔ ان ملکوں میں جنہیں ہم ترقی یافتہ ممالک کہتے ہیں اور کبھی مغربی (اگرچہ جغرافیائی اعتبار سے سنگاپور مشرق میں واقع ہے)، ادویات کی دکانوں اور سپرسٹوروں پر گھومنے والے رَیک ضرور پڑے ہوتے ہیں جن پرکتابیں رکھی ہوتی ہیں۔ اس دکان پر بھی ایک طرف کتابوں کا ایسا ہی رَیک دھرا تھا۔ ایک کتاب پڑی تھی ’’سنز آف ییلو ایمپرر‘‘ یعنی زرد شہنشاہ کے بیٹے۔ یہ اہلِ چین کی داستانِ ہجرت تھی! 
انتقالِ آبادی میں دلچسپی اُس وقت شروع ہوئی جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ آبادی کا مضمون (ڈیمو گرافی) وہاں اقتصادیات کے سلیبس کا حصہ تھا۔ غالباً اُس وقت یہ مضمون پاکستان میں اور کہیں بھی نہیں پڑھایا جا رہا تھا۔ انتقالِ آبادی پر اقوامِ متحدہ کی ضخیم رپورٹیں پڑھنا پڑتی تھیں۔ مشرقی پاکستان کے نامور ماہرِ معاشیات ڈاکٹر کے ٹی حسین صدرِ شعبہ تھے اور ڈیموگرافی کے استاد بھی۔ مجسم شفقت اور نرم گفتار۔ مدتوں بعد اسلام آباد آئے تو غریب خانے کو شرف بخشا۔ پڑھانے کا ایسا انداز کہ طلبہ کی اکثریت اسی مضمون کی گرویدہ ہوگئی۔ اہلِ چین کی ہجرت، دنیا کی بڑی ہجرتوں میں سے ہے۔ امریکہ چینیوں سے بھرا ہے۔ آسٹریلیا اورکینیڈا کے شہر ان سے چھلک رہے ہیں۔ لیکن ان کی سب سے بڑی ہجرت وہ تھی جب وہ چین سے نکلے اور جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں ملائیشیا، انڈونیشیا، سنگاپور، کمبوڈیا وغیرہ میں پھیل گئے۔دوائوں کے اُس سٹور میں اس کتاب نے مجھے جیسے اُس رَیک کے ساتھ باندھ دیا۔ قیمت پوچھی تو بہت زیادہ لگی۔ اُوپر سے پرواز کا وقت، کچھ بد حواسی تھی اور کچھ غربت، کتاب واپس رکھ دی!
پاکستان واپس پہنچے تو پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگے۔ کتاب رہ رہ کر یاد آتی تھی! کراچی تک پتا کر ڈالا، کہاں ملتی! اکثر بیگم سے اظہارِ حسرت کرتا۔ تنگ آ کر وہ کہتی کہ اتنی ہی ضروری تھی تو لے لیتے! اس پر وہ دلچسپ واقعہ یاد آ جاتا جو اٹک میں پیش آیا اور جو ہم نے بزرگوں سے سنا۔ گورنمنٹ کالج اٹک میں ڈاکٹر غلام جیلانی برق اور پروفیسر اشفاق علی خان جیسے نابغے پڑھاتے تھے۔ ان میں سے ایک اکثر کہتا کہ یار! ایک نیا صوفہ خریدنا ہے۔ رفقائے کار کہتے کہ خرید لو، اس پر وہ بتاتا کہ کیسے خریدیں، قالین بھی تو خریدنا ہے! یہ مکالمہ کئی بار دہرایا گیا۔ آخر تنگ آ کر سننے والوں نے مشورہ یہ دیا کہ فی الحال صوفہ خرید لو۔ پھر اُسے بیچ کر قالین لے لینا!
زمانے کے پھیر نے ایک دو سال بعد پھر سنگاپور کے ساحل پر لا کھڑا کیا! دوائوں کے اسی سٹور پر پہنچا۔ ظاہر ہے کتاب وہاں نہیں تھی! قیام، سفیرِ پاکستان توحید احمد کی اقامت گاہ پر تھا (توحید صاحب نے ترجمہ کے فن پر بہت کام کیا ہے اور اب گجرات یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔) اُن کے کشادہ اپارٹمنٹ کے بالکل سامنے، شاہراہ کے اُس پار ’’بارڈرز‘‘ کا عظیم الشان کتاب گھر تھا۔ وہاں کتاب کا پتا کیا۔ کائونٹر پر بیٹھی ہوئی نوجوان لڑکی نے کمپیوٹر پر ٹھک ٹھک کی اور بتایا کہ موجود نہیں ہے مگر منگوا دیں گے۔ دو دن بعد کتاب مل گئی۔ بہت افاقہ ہوا۔ مشہور و معروف مصنفہ لین پین نے عجیب دلکش پیرائے میں لکھی ہے اور بتایا ہے کہ چینی کس طرح پوری دنیا میں پھیلے ہیں۔ لین پین پیدا تو شنگھائی میں ہوئی مگر تعلیم لندن اور کیمبرج میں پائی۔ ملائیشیا، سوئٹزر لینڈ، فن لینڈ، ہانگ کانگ اور سنگا پور بھی رہی!
توحید صاحب کے گھر جتنے دن قیام رہا، زیادہ وقت ’’بارڈرز‘‘ پر گزرا۔ بارڈرز کا دعویٰ تھا کہ کتابوں کی یہ دکان ایشیا کی سب سے بڑی دکان ہے۔ وہاں بیٹھ کر پڑھنے کی عام اجازت تھی؛ چنانچہ یہ بیک وقت دکان تھی اور لائبریری بھی! ہر وقت اس کا وسیع و عریض ہال خریدنے اور پڑھنے والوں سے بھرا رہتا۔ کتابوں کی الماریوں کے درمیان جگہ جگہ صوفے اور کرسیاں دھری تھیں۔ کتاب خریدنے کے بعد پندرہ دن کے اندر واپس کی جا سکتی تھی بشرطیکہ اس کا حلیہ نہ بگڑا ہو!
دنیا کے بہت سے ملکوں پر چھا جانے والا ’’بارڈرز‘‘ اب ایک قصۂ پارینہ ہے۔ اس کا آغاز1971ء میں ہوا جب یونیورسٹی آف مشی گن کے دو طالب علم بھائیوں ٹام بارڈرز اور لوئی بارڈرز نے دو کمروں پر مشتمل سیکنڈ ہینڈ کتابوں کی دکان کھولی۔ چار سال بعد انہوں نے ایک بڑا بک سٹور خرید لیا جو اپنا کاروبار بند کر رہا تھا۔ پھر بارڈرز کا بزنس پھیلتا گیا۔ 1992ء میں اسے ’کے مارٹ‘ نے خرید لیا۔ 2003ء میں اس کی برانچوں کی تعداد 1249 ہو گئی۔ 2005ء میں کوالالمپور میں برانچ کھلی۔ اسے سب سے بڑی برانچ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس کا کورڈ ایریا ساٹھ ہزار مربع فٹ پر مشتمل تھا! 2006ء میں سنگا پور کی برانچ سب سے زیادہ منافع کما رہی تھی۔لیکن ہر کمال کو زوال ہے۔ ’’بارڈرز‘‘ کا چاند بھی گہنا گیا۔ حالات مخالف ہوگئے۔ برانچیں بند ہونے لگیں۔ میلبورن کی برانچ نے جو ایک عظیم الشان کتاب گھر تھی، میرے سامنے آخری ہچکیاں لیں۔ اس کی خوبصورت دیدہ زیب مضبوط الماریاں نیلام ہو گئیں۔ کچھ میرے بیٹے نے بھی خریدیں اور ان سے اپنی لائبریری کو مزین کیا۔ امریکہ میں بارڈرز کے حریف ’’بارینس اینڈ نوبل‘‘ نے اس کے اکثر حصص خرید لیے۔ رہے نام اللہ کا!
سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا آتے زمانوں میں کاغذ پر چھپی ہوئی کتابیں ہوں گی؟ جب لکڑی اور پارچہ جات پر لکھی ہوئی کتابیں نوادرات میں شامل ہو گئیں تو کاغذ کا زمانہ زوال سے کیسے بچ سکتا ہے۔ دو سال پہلے ولیم ڈال رمپل کی معرکہ آرا کتاب 
Return of A King 
خریدی۔ اسرار نے پوچھا، ابّو کتنے میں خریدی ہے، جواب دیا اٹھارہ سو روپے میں۔ مسکرایا اور کہنے لگا: ’’مفت مل رہی ہے۔ میں نے آپ کے آئی پیڈ پر ڈال دی ہے!‘‘ کاغذ پر چھپی ہوئی کتاب تبرک کے طور پر رکھ لی۔ آئی پیڈ پر پڑھنے میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے۔ اِس وقت میرے آئی پیڈ پر شفیق الرحمن کی اور پی جی وُڈ ہائوس کی تمام کتابیں موجود ہیں۔ دیوانِ شمس تبریز، کلیاتِ جامی، رباعیاتِ ابو سعید ابوالخیر، دیوان حافظ، کلیاتِ سعدی، سیف الملوک اور انتخابِ میر بھی اس کالی سلیٹ میں موجود ہے۔ بورس پاسترناک کا ڈاکٹر ژواگو بھی ہے، عبدالکلام کی وِنگز آف فائر بھی! ڈیوڈ بلو کی لکھی ہوئی شاہ عباس کی مشہور سوانح حیات بھی! برائون کی لٹریری ہسٹری آف پرشیا کے چاروں حصے بھی! کینیڈا کے مزاح نگار سٹیفن لی کاک کی نایاب کتاب 
Further Foolishness 
بھی (شفیق الرحمن نے اپنی کتابوں کے نام حماقتیں اور مزید حماقتیں سٹیفن لی کاک ہی سے لیے ہیں۔) جبرائیل گارشیا مارکوئز اور فریڈرک فور سائیتھ کی ساری تصانیف بھی جادو کی اس تختی میں سما گئی ہیں۔ مارک ٹوین کی ایڈونچرز آف ٹام سائر سے لے کر سید سلیمان ندوی کی خطباتِ مدراس تک! یعنی میرے پہلو میں حرم بھی ہیں صنم خانے بھی، مقاماتِ حریری کا اصل مع انگریزی ترجمہ بھی اورکئی دوسری کتابیں بھی جن کے الگ الگ ذکر کا کالم کی مختصر زمین متحمل نہیں ہو سکتی!
باقی دنیا میں کتاب گھر یعنی بک شاپس اس لیے بند ہو رہی ہیں کہ اب لوگوں نے کمپیوٹر پر، آئی پیڈ پر اور ٹیبلٹ
 (Tablet) 
یعنی ای ریڈر پر کتابیں پڑھنا شروع کر دی ہیں۔ ہمارے ہاں کتاب گھر اس لیے دن بدن کم ہو رہے ہیں کہ کتاب خوانی ہماری ترجیحات سے نکل رہی ہے! اگر پڑھے لکھے بغیر اسمبلی میں بھی پہنچا جا سکتا ہے اور حکومت اور وزارت بھی مل سکتی ہے تو کتابوں کے جھنجھٹ میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے! ہم ساری دنیا سے وکھرے ہیں۔ طاہرہ سید نے کیا خوب گایا ہے۔۔۔۔ ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘!!

Sunday, November 22, 2015

راز کھلتا ہے!

یہ واقعہ غالباً دوست عزیزرئوف کلاسرا نے لکھا ہے۔ جنگ عظیم شروع ہوئی تو برطانیہ کو ہندوستانی جنگجوئوں کی ضرورت پڑی۔ شہر شہر بستی بستی بھرتی کا کام شروع ہو گیا۔ ڈپٹی کمشنروں کو اُوپر سے احکام ملے کہ عوام کو ترغیب اور تحریص دی جائے۔ انگریزی میں اس کیلئے جامع لفظ ایجاد ہوا ہے،
 Motivate
 کرنا! جنوبی پنجاب کے کسی گائوں میں ڈپٹی کمشنر نے دربار منعقد کیا اور تقریر میں کہا کہ ملکہ معظمہ کو اپنے اور اپنی سلطنت کے دفاع کیلئے تمہارے فرزندوں کی ضرورت آن پڑی ہے۔ اس پر ایک غریب کسان اُٹھا۔ فرض کیجئے اس کا نام گاما تھا۔ ڈی سی سے کہنے لگا، حضور! اگر نوبت یہ آ گئی ہے کہ ملکہ معظمہ کا دفاع گامے کے بیٹے کے سرآن پڑا ہے تو خداہی خیر کرے!
عمران خان نے بلدیاتی انتخابات جیتنے پر ذوالفقار مرزا سے فون پر رابطہ کیا اور کہا کہ وہ یعنی عمران خان، سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر انہیں، یعنی ذوالفقار مرزا کو مبارک باد دیتے ہیں!مشہور و مقبول مزاحیہ ڈرامہ سیریز’’بلبلے‘‘ کا کردار محمود اکثر اس قبیل کے فقرے بولتا ہے :’’وہ جو تم کرو گے، وہ انصاف ہو گا؟‘‘یا’’ وہ جو تم کمائو گے، وہ پیسہ ہوگا؟‘‘! تو تبدیلی کی منتظر قوم سن لے کہ وہ جو سٹیٹس کو کا مقابلہ کرے گا، وہ ذوالفقار مرزا ہوگا!
پتا نہیں، سٹیٹس کو سے عمران خان کی کیا مراد ہے! خان 
صاحب غالباً یہ سمجھ رہے ہیں کہ کوئی جاگیردار وڈیرا، کروڑ پتی، جو اپنے آقا کے ’’کارناموں‘‘ میں برابر کا شریک ہو اور پھر لڑ جھگڑ کر الگ ہو جائے، وہ دراصل سٹیٹس کو کا مقابلہ کرتا ہے۔ ظاہر ہے سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے والا انقلاب کا یعنی تبدیلی کا نقیب ہی تو ہوتا ہے! آج ہی یارِ مہرباں خالد مسعود خان نے خبر دی ہے کہ مشاہد اللہ خان کے ایک بھائی کو لندن میں فضائی کمپنی کا سٹیشن منیجر لگایا گیا ہے، دوسرے بھائی کو نیو یارک میں اور ماشاء اللہ تیسرے بھائی کو پیرس میں سٹیشن منیجر لگایا گیا ہے۔ اب فرض کیجیے، کل مشاہداللہ خان مسلم لیگ نون سے ناراض ہو کر الگ انتخاب لڑتے ہیں تو عمران خان انہیں یقیناً سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر مبارک باد دیں گے۔ اگر مولانا حیدری، جے یو آئی سے الگ ہو جائیں تو اسی قسم کی صورتِ حال پیش آئے گی!
اس کے ساتھ ہی یہ راز بھی کھل جانا چاہیے کہ عمران خان تبدیلی سے کیا مراد لیتے ہیں؟اگر عوام یہ سمجھ رہے ہیں کہ تبدیلی سے مراد سماجی اور اقتصادی تبدیلی ہو گی ،جاگیردارانہ نظام ختم ہوگا، تعلیمی نظام از سرنو مرتب کیا جائے گا، وی آئی پی کلچر کا جنازہ اٹھے گا، فیکٹریوں کارخانوںکے مالکان سرکاری واجبات قانون کے مطابق ادا کریں گے تو پھر یقیناً عوام بے وقوف ہیں یا بھولے ہیں! بے وقوفو! ذوالفقار مرزا زرداری صاحب سے اس لیے نہیں الگ ہوئے کہ وہ ملک میں معاشرتی اور معاشی انقلاب لانا چاہتے ہیں۔ ان کا جھگڑا قومی معاملات پر نہیں تھا! وہ تو محض اتفاق ہے کہ جب ذوالفقار مرزا کی بیگم صاحبہ سپیکر تھیں اور انہوں نے قرضہ معاف کروا لیا تو عمران خان نے سپیکر صاحبہ کو سٹیٹس کو کا مقابلہ کرنے پر مبارک باد نہیں دی! وہ جاتے جاتے یہ قانون بھی منظور فرما گئیں کہ تمام سابقہ سپیکر صاحبان ڈھیروں مراعات کے حقدار ہوں گے!
رہی یہ بات کہ ذوالفقار مرزا نے بلدیاتی الیکشن میں امتیازی فتح حاصل کی تو صاف بات ہے کہ وہ
Electible
 ہیں۔ یہ علاقے کا معاملہ ہے اور شخصی حوالہ ہے۔ وہ علاقے کے طاقت ورشخص ہیں۔ فیوڈل ہیں اور صنعت کار! وہ اگر مسلم لیگ نون میں شامل ہو جاتے یا پی ٹی آئی میں یا کسی بھی جماعت میں، تو انہوں نے جیتنا ہی تھا۔ عوام کو معلوم ہے کہ انہوں نے بھی بدین ہی میں رہنا ہے اور مرزا صاحب اور ان کے خاندان نے بھی۔ان کا نفع نقصان انہی سے وابستہ ہے۔ زرداری صاحب تو دور بیٹھے ہیں۔ پنجابی محاورہ یہی تو ہے: رب نیڑے یا گھسُن۔ یعنی اللہ میاں نزدیک ہیں یا مُکہّ جو کسی بھی لمحے کمر پر پڑ سکتا ہے!
استاد گرامی پڑھا رہے تھے۔ گزرے وقتوں میں طلبہ استاد کے گرد نیم دائرہ بنا کر فرش پر بیٹھتے تھے۔ استاد گرامی نے دستار اتاری ہوئی تھی۔ گلے کا بٹن کھولا ہوا تھا۔ تکیے سے ٹیک لگائے تھے۔ سامنے سینئر درجے کا شاگرد بیٹھا تھا اور فقہ کی ایک مشکل کتاب کا سبق پڑھ رہا تھا۔ اچانک بڑے دروازے سے ایک طویل قامت وجیہ شخص مسجد میں داخل ہوا۔ اُس کی دستار کا طرہّ کلف زدہ تھا اور بلند! پیٹھ پر پڑا ہوا شملہ اُس کے وقار و جلال میں اضافہ کر رہا تھا۔ ایک ہالہ سا اُ س کی شخصیت کے گرد چمکتا ہوا 
محسوس ہوتا تھا۔استادِ گرامی سنبھل کر بیٹھ گئے۔گلے کا کھلا ہوا بٹن بند کر دیا۔ سر پر دستار رکھ لی۔ اُس زمانے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ اہلِ علم آکر خاموشی سے حلقۂ درس میں بیٹھ جاتے، جہاں استاد غلطی کرتا، ٹوکتے، رائے سے اختلاف کرتے اور عملی نکات پر شائستگی سے بحث مباحثہ ہوتا جس سے طلبہ استفادہ کرتے! استاد گرامی اُٹھے، وہاں گئے جہاں وہ شخص وضو کر رہا تھا۔ ادب و احترام سے ملے۔ پھر جھجکتے جھجکتے پوچھا: ’’ جناب کا اسمِ گرامی؟‘‘ وجیہ اور بارعب شخصیت والے نے جواب میں کہا: ’’میں سمجھا نہیں‘‘ ۔پاس کھڑے ہوئے طالب علم نے لقمہ دیا کہ استاد گرامی آپ کا نام پوچھ رہے ہیں! خالص دہقانی لہجے میں گندھا ہوا جواب آیا:’’ جی میرا نام جوسف ہے‘‘! استاد گرامی الٹے قدموں واپس آئے۔ دستار چٹائی پر رکھی۔ گلے کا اُوپر والا بٹن کھولا، تکیے پر نیم دراز ہوئے اور طلبہ سے فرمایا:’’ سبق جاری رکھو۔ یہ جوسف ہے!‘‘
چنانچہ جملہ جاگیرداروں، وڈیروں، زمینداروں ،ڈیرہ داروں ،صنعت کاروں، ٹیکس چوروںاور استحصال کنند گان کو خوشخبری ہو کہ ’’تبدیلی ‘‘ سے خائف ہونے کی کوئی ضرورت نہیں! سٹیٹس کوکا ’’مقابلہ‘‘ کرنے والے اُن کے اپنے ہی آدمی ہوں گے!

Friday, November 20, 2015

دوسرے رخسار پر پائوں کون رکھے گا؟

مناجات پڑھتے ہوئے فرشتوں نے عرش کے پائے تھام لیے!
اور وہ جو امور کی تدبیر کے لیے آسمان سے زمین کی طرف اور زمین سے آسمان کی طرف پرواز کر رہے تھے، خشیتِ الٰہی سے کانپ اُٹھے۔ اُن کے پروں نے افق سے افق تک، زمین کو ڈھانپ لیا۔ سب حکم کے منتظر تھے۔ وہ بھی جو پہاڑ اٹھا کر زمین پر گراتے ہیں، وہ بھی جو کانوں کو پھاڑنے والی تیز چیخ سے لوگوں کو اوندھے منہ پٹخ دیتے ہیں، وہ بھی جو پتھر برساتے ہیں وہ بھی جو زمین کو جھنجھوڑ کر سونے والوں کو چھت اور فرش کے درمیان پیس دیتے ہیں اور وہ بھی جو کسی کو قذافی کر دیتے ہیں، کسی کو حسنی مبارک بنا کر پنجرے میں ڈالتے ہیں، کسی کو صدام حسین کا روپ دے کر چوہے کی طرح بل میں چھپنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور کسی کو نکولائی چائوسیسکو بنا کر دیوار کے ساتھ لگا دیتے ہیں اور کتے کی موت مارتے ہیں!
افسوس! ہائے افسوس! صد افسوس! اگر اب بھی پتھر نہیں برسے تو کب برسیں گے!
اگر اب بھی بلند چیخ لوگوں کو اوندھے منہ نہیں گراتی تو کب گرائے گی؟ کیا ایک لاکھ سے زیادہ کلمہ گو عورتیں، تقسیم کے وقت سکھوں اور ہندوئوں نے اپنے ناپاک بستروں پر اس لیے گرا لی تھیں کہ جس ملک کے لیے ان کی عصمتیں قربان ہوئیں، اُس ملک میں جاگیرداروں کی فرماں روائی ہو اور زین کی ماں برسرِ عام فریاد کرے کہ میں کمزور ہوں اور قاتل طاقت ور! میری دو بیٹیاں ہیں، کیسے مقابلہ کروں!
یہ فریاد‘ جس نے عرش کے پائے ہلا دیے اور فرشتوں کو دم بخود کر دیا، کیا یہ فریاد مملکت خداداد پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے نہیں سنی؟ کیا وزیر اعظم کو نہیں معلوم کہ آج ایلیٹ فورس کے ہزاروں پہریدار زین کی ماں کو آہنی فلک بوس دیواروں کے پار بیٹھے وزیر اعظم تک رسائی نہیں دیتے مگر کل، ہاں کل، جو بہت جلد آنے والی ہے‘ زین کی ماں کو گریبان پکڑنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اس لیے کہ اس کا بیٹا فرات کے کنارے مرنے والا کتا نہ تھا، انسان تھا! جس کی حفاظت میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم پاکستان کا فرض تھی اور جس کے قاتل کو تختہ دار پر لٹکانا وزیر اعظم پر واجب تھا!
کیا ہوا میں انگلی لہرانے والے وزیر اعلیٰ نے یہ فریاد نہیں سنی؟ زین کسی دور افتادہ قصبے میں، کسی دشوار گزار گھاٹی میں، کسی پہاڑ کی اوٹ میں، کسی زیر زمین کمین گاہ میں قتل نہیں ہوا، زین صوبے کے دارالحکومت میں، شاہراہ پر، دن کی روشنی میں، خلقِ خدا کے درمیان قتل ہوا۔ اٹھارہ وزارتوں کو دائیں جیب میں اور وفاقی امور کو بائیں جیب میں ڈال کر رکھنے والے وزیر اعلیٰ نے اپنا شہر طاقت وروں اور ان کے بندوق بردار محافظوں کے حوالے کر دیا اور زین کی ماں کو بے یارو مدد گار چھوڑ دیا!
’’لوگو! تمہارے معاملات کی ذمہ داری میرے شانوں پر رکھ دی گئی ہے… اگر کوئی کسی پر ظلم یا کسی کے ساتھ زیادتی کرے گا تو میں اُس وقت تک اسے نہیں چھوڑوں گا جب تک اس کا ایک رخسار زمین پر نہ ٹکا دوں اور دوسرے رخسار پر اپنا پائوں نہ رکھ دوں تا آنکہ وہ حق کے سامنے سپر انداز ہو جائے۔‘‘یہ ہیں وہ فقرے جو اِس ملک کے بچوں کو تاریخ پڑھاتے ہوئے سنائے جاتے ہیں کہ امیرالمومنین عمر فاروقؓ نے اقتدار سنبھالتے ہوئے یہ کہا تھا! اور یہ ہے وہ طرزِ عمل جو بچے عملی طور پر دیکھتے ہیں! تو پھر کیا وزیر اعظم کو آسمان سے گونجنے والی آواز کا انتظار ہے! وہ آواز جو یہ کہے کہ وزیر اعظم صاحب! اگر زین کے قاتل کا رخسار آپ زمین پر نہیں ٹکا سکتے اور اگر آپ کے پائوں میں اتنا زور نہیں کہ اسے دوسرے رخسار پر رکھ سکیں تو اقتدار عوام کو لوٹا دیجیے! کہ وہ قاتلوں سے نمٹنا جانتے ہیں!
اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ سرداری نظام صرف بلوچستان میں ہے جہاں بگٹیوں اور مریوں کا سردار ان کا خدا ہے‘ جو ان کے سکولوں کالجوں کی عمارتوں میں اپنا غلہ ذخیرہ کرتا ہے اور نئی بندوق کو اُن کے سر اُڑا کر ٹیسٹ کرتا ہے اور انہیں پہاڑوں پر چڑھنے کا حکم دیتا ہے اور گیس کے پائپ کٹواتا ہے اور ان کے خانگی معاملات بھی خود چلاتا ہے اور جو پڑھ لکھ کر بالوں کو کنگھی کر لے اور اُجلے کپڑے پہن لے اُس کے جسم پر شہد مل کر خوفناک چیونٹیوں سے اَٹے ہوئے غاروں میں پھینک دیتا ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاگیرداری صرف جنوبی پنجاب میں ہے جہاں ایک معروف خاتون کی کتاب کے مطابق نوکروں کے جسم کے ٹکڑے ابال کر اونٹوں کو کھلا دیئے جاتے ہیں اور جہاں اُس گلی میں کوئی دروازہ ہی نہیں رکھ سکتا‘ جس میں لغاریوں کی حویلی کا دروازہ کھل رہا ہو اور جہاں کھوسوں اور مزاریوں کے سامنے کوئی چارپائی پر نہیں بیٹھ سکتا۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ جاگیرداری صرف جنوبی پنجاب میں ہے تو اسے بجلی کے جھٹکے دیئے جائیں کہ پاگلوں کا ایک علاج یہ بھی ہے اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیوڈل ازم صرف اندرون سندھ ہے جہاں ہاریوں کی عورتیں زمینداروں اور اُن کے بیٹوں اور ان کے پوتوں کا تر نوالہ بنتی ہیں اور کچی جھونپڑیاں بھی زمیندار کی ملکیت ہوتی ہیں اور کیٹی جتوئی سے لے کر ہالہ تک ووٹ اُسے ملتے ہیں جس کے بارے میں حکم ہوتا ہے اور پولیس اور ضلعی انتظامیہ ذاتی ملازم کا کردار ادا کرتی ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فیوڈل ازم صرف اندرون سندھ ہے تو وہ جہالت کے اسفل ترین درجے پر فائز ہے۔ اللہ کے بندو! شہر لاہور میں، جس کے اندر لاکھوں بُوہے اور لاکھوں باریاں ہیں جس کی اینٹوں پر عاشق پائوں دھرتے تھے اور جس کے کنوئوں سے معشوق پانی نکالتے تھے تو کھاری پانی میٹھے ہو جاتے تھے، ہاں اُسی شہر لاہور میں، جاگیردار، کلاشنکوف بردار محافظوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہیں اور لاہور کے بیٹوں کو دن دہاڑے قتل کر دیتے ہیں۔ ہاں! اُسی شہر لاہور میں، لاہور کی ایک ماں جھولی اٹھا کر، آسمان کی طرف دیکھ کر فریاد کرتی ہے کہ میں بے بس ہوں۔ میں کمزور ہوں! میری تو بیٹیاں ہیں، میں اپنے زین کا مقدمہ کیسے لڑ سکتی ہوں! لاہور کے بیٹو! کیا تم نے اپنی ماں کی آواز نہیں سنی؟ تو پھر تم کب جاگو گے؟ تمہاری شاہراہیں تمہارے بیٹوں کے خون سے کب تک سرخ ہوتی رہیں گی؟ تمہارے گواہ زور اور زر سے کب تک منحرف ہوتے رہیں گے؟ جو حکمران اپنی گاڑیوں کے قافلوں کے لیے تمہارے راستے بند کر دیتے ہیں، وہ تمہاری حفاظت نہیں کرتے، انہوں نے تمہیں اُن چھوکروں کے آگے ڈال دیا ہے جو زمین اور زمینداری کے نشے میں بدمست ہیں! تو پھر کیا تم بھی مزارع بن گئے ہو اور کیا تمہارا بخت بھی ہاریوں کے بخت کی طرح کالا ہے؟
اور زین کی ماں کی آواز کیا اُن گروہوں نے بھی سنی جو اقتدار میں شریک ہیں؟ اور ہمیشہ شریک رہے ہیں! کیا اِس آواز کی گونج پارلیمنٹ کی عمارت تک نہیں پہنچی! اور اہل سیاست نے نہیں سنی؟ آہ! پارلیمنٹ کے ارکان اور اہلِ سیاست! جو ٹاک شوز میں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور باہر نکل کر آپس میں چُہلیں کرتے ہیں اور ٹھٹھے اڑاتے ہیں اور جو سب آپس میں رشتہ داریوں کی سنہری ڈوریوں اور باہمی مفادات کی نقرئی تاروں سے بندھے ہوئے ہیں!
اور کیا زین کی ماں کی آواز عماموں اور عبائوں تک نہیں پہنچی؟ کیا اُن کانوں نے یہ آواز نہیں سنی جو فلسطین، عراق، چیچنیا اور افغانستان سے اُٹھنے والی آہٹ تک سُن کر شاہراہوں پر سیلاب کی طرح امڈ آتے ہیں! افسوس! اِس ملک میں آج تک محراب و منبر سے جاگیرداری اور جاگیرداروں کے ظلم کے خلاف کوئی خطبہ نہیں دیا گیا! افسوس! ہمارے مذہبی رہنمائوں نے آج تک عوام کو نہیں بتایا کہ جب عراق اور شام فتح ہوئے اور فاتحین نے مالِ غنیمت کی طرح مفتوحہ زمینیں بھی آپس میں تقسیم کرنا چاہیں تو حضرت عمرؓ نے انکار کر دیا اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی گردنوں پر زمینداروں اور جاگیرداروں کو مسلط نہیں کرنا چاہتے تھے! انہیں معلوم تھا کہ اگر یہ زمینیں بانٹی گئیں تو جاگیرداری موروثی لعنت میں بدل جائے گی۔ انہیں پتہ تھا کہ ایسا ہوا تو جاگیرداروں کے بیٹے مسلمانوں کو شاہراہوں پر مار دیں گے۔ جب اس رائے سے کچھ حضرات نے اختلاف کیا تو حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ نے فاروق اعظمؓ کی حمایت کی۔ پھر اوس اور خزرج کے نمائندے بھی ان کے ہم نوا ہو گئے؛ چنانچہ زمینیں غیر مسلم کاشت کاروں کے پاس ہی رہیں۔ کیا نیل پالش کو بنیاد بنا کر نماز پڑھنے سے منع کرنے والوں نے اور رات کو سوتے میں بھی فحاشی دیکھ لینے والوں نے آج تک فتویٰ دیا کہ انگریزوں نے غداری کے انعام میں جو جاگیریں بے شرم ٹوڈیوں کو دی تھیں اور اونچے طرے پہننے والوں کو جو زمینیں اس لیے ملی تھیں کہ انہوں نے انگریز ڈپٹی کمشنروں کے پیروں کے تلوے چاٹے تھے، وہ زمینیں، وہ جاگیریں اُن سے واپس لے کر ریاست کے حوالے کی جائیں؟ آج تک ایسا نہیں ہوا! ہو گا بھی نہیں، اس لیے کہ جن کے ٹکڑوں پر پلا جائے، اُن کے خلاف کوئی نہیں بولتا!
بڑے لوگوں کی اولاد شاہراہوں پر معصوم شہریوں کا خون بہاتی رہے گی! اور بچ نکلتی رہے گی! گواہ منحرف ہوتے رہیں گے! زین کی ماں! حشر کے دن کا انتظار کر! تو بھی کر! ہم بھی کرتے ہیں!!

Wednesday, November 18, 2015

آدھا سیر گوشت اور آدھا سیر بِلّی

لبرل ازم کی طرح سیکولرازم بھی وہ بدقسمت لفظ ہے جسے عفریت بنا دیا گیا ہے۔ جس شخص نے بھی یہ اصطلاح سب سے پہلے استعمال کی، اب بہرطور یہ اُن معنوں میں نہیں لی جاتی۔ اس کا مطلب لادینیت، الحاد یا دہریہ ہونا ہرگز نہیں! اس سے مراد پوری دنیا میں اب یہ لیا جاتا ہے کہ تمام مذاہب کو برداشت کیا جائے اور مذہبی معاملات میں جبر، تشدد، امتیاز اور نفرت سے بچا جائے۔ اگر سیکولرازم کا مطلب دہریت اور الحاد ہوتا تو بھارتی مسلمان اسے اپنی ضرورت نہ سمجھتے۔ اسدالدین اویسی آل انڈیا مجلسِ اتحادالمسلمین کے صدر ہیں۔ تین بار لوک سبھا کے رکن رہے۔ 21 اکتوبر 2015ء کو انہوں نے دہائی دی کہ ’’سیکولرازم کے بغیر بھارت بے کس ہو جائے گا۔ اس ملک کی اقدار میں سیکولرازم اور تنوع بنیادی اہمیت رکھتے ہیں اور انہیں ہر حال میں مضبوط کرنا ہو گا‘‘۔ امریکی ذرائع ابلاغ میں آئے دن اُن کے دانشور، پروفیسر اور اہلِ علم وضاحتیں کر رہے ہیں کہ سیکولرازم سے مراد نازی ازم ہے، نہ سٹالن ازم، نہ سوشلزم اور نہ ہی الحاد و دہریت! امریکی اہلِ علم دائیں بازو کے انتہا پسند مذہبی گروہوں پر الزام لگا رہے ہیں کہ سیکولرازم کو یہ لوگ اپنے مقاصد کی خاطر غلط ملبوس پہنا رہے ہیں۔ 
اس وقت تقریباً اجماع ہے کہ سیکولرازم سے مراد ہے تمام مذاہب کو برداشت کرنا‘ معاشرے میں تنوع کی موجودگی میں مسائل کو عقل اور منطق کے ذریعے حل کرنا، ہر شہری کو اپنے جائز منصوبوں کی تکمیل میں مدد دینا، مساوات کو اہمیت دینا، ذات پات، طبقات، نسل، مذہب اور عقیدے کے تعصب کے بغیر عوام کی فلاح و بہبود کے لئے ریاست کی طرف سے اقدامات کرنا۔ 
اگر تعصب کو ایک لمحے کے لئے ایک طرف رکھ دیا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ سلطنتِ عثمانیہ نے یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے اپنے معاشرے کو سیکولر کیا تھا۔ بے شک یہ اصطلاح اُس وقت استعمال نہیں ہو رہی تھی مگر آج متوازن اور غیر متعصب دانشور سیکولرازم سے جو کچھ مُراد لیتے ہیں سلطنتِ عثمانیہ نے اس کا عملی مظاہرہ کرکے پوری 
دنیا کو دکھا دیا تھا کہ سیکولر معاشرہ کیا ہوتا ہے۔ یہودی اور نصرانی بلند مناصب پر فائز تھے۔ حکیم یعقوب پاشا (یہودی) وزیر خزانہ رہا۔ پرتگالی یہودی موسیٰ ہامون خلیفہ کا طبیب تھا۔ ابراہیم کاسترو ٹکسال کا حاکمِ اعلیٰ تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ کے عروج کے زمانے میں (1300ء سے 1600ء تک) غیر مسلموں نے ازحد ترقی کی۔ تجارت، مالیات، سفارت، وزارت، انتظامیہ ہر جگہ موجود تھے۔ سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تو حکم دیا کہ ’’مسلمان، عیسائی اور یہودی‘‘ سلطنت کے اطراف و اکناف سے آئیں اور قسطنطنیہ میں آباد ہوں! نئے دارالخلافہ کی آبادی میں یہودی دس فیصد ہو گئے۔ دوسرے غیر مسلم اس کے علاوہ تھے۔ 1481ء سے 1512ء تک کا زمانہ ہسپانیہ میں مذہبی عدالتوں کے ظلم و ستم کا تھا۔ سلطنتِ عثمانیہ نے اپنے دروازے کھول دیے۔ ایک لاکھ پچاس ہزار یہودی ہسپانیہ سے بھاگے۔ اکثریت کو پناہ ترکوں کے ہاں ملی۔ عثمانی خلیفہ کا ہسپانوی بادشاہ پر یہ طنز اُس زمانے میں بہت مشہور ہوا… ’’تم فرڈی ننڈ کو عقل مند سمجھتے ہو! وہ اپنے ملک کو غریب اور ہمارے ملک کو امیر کر رہا ہے!‘‘ یہ یہودی، عثمانی سلطنت کے امیر تر شہروں میں آباد ہوئے۔ قسطنطنیہ میں اُس وقت 44 یہودی عبادت خانے تھے۔ پروفیسر آرنلڈ، جو مشرقی علوم کے بہت بڑے عالم تھے، سر سید احمد خان اور شبلی نعمانی کے دوست تھے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے رہے اور علامہ اقبال کے استاد رہے، لکھتے ہیں کہ عثمانی حکومت کے مفتوح علاقوں میں اسلام زور اور طاقت سے نہیں پھیلا۔ آرنلڈ اس کا سبب اخلاقی برتری کو قرار دیتے ہیں۔ اخلاقی برتری کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ غیر مسلموں کو بلند مناصب پر فائز کیا جاتا تھا! 
اِس وقت بھارت میں جو سلوک مسلمانوں اور نچلی ذاتوں کے ساتھ ہو رہا ہے، اُسے سیکولرازم کے کھاتے میں ڈالنا مُودی کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہے! روایت ہے کہ مُلا نصرالدین آدھا سیر گوشت خرید کر لائے اور بیوی سے کہا کہ پکا دینا۔ خود کسی کام سے باہر چلے گئے۔ بیوی کو ایک مدت بعد گوشت ملا ہو گا۔ اس نے بُھونا اور سارا خود ہی چٹ کر گئی۔ مُلّا آئے تو بیوی نے شکایت کی کہ بلّی کھا گئی۔ مُلاّ نے بلّی کو ترازو میں تولا۔ بلّی کا وزن آدھا سیر نکلا۔ مُلاّ نے پوچھا: اگر یہ گوشت کا وزن ہے‘ تو بلّی کہاں ہے؟ اور اگر بلّی خود ہی آدھا سیر ہے تو گوشت کہاں گیا؟ 
اگر مودی اور آر ایس ایس کے سیاہ کارنامے سیکولرازم کے کھاتے میں ڈالیں گے تو پھر نتیش کمار اور اُس کا ساتھ دینے والی پارٹیوں کو کہاں رکھیں گے؟ اور اگر بہار میں جیتنے والے سیکولرازم کے نام پر جیتے ہیں تو مُودی اور بی جے پی سیکولر کس طرح ہو گئے؟ ہر شخص کو معلوم ہے کہ مودی ہندوتوا کا نقیب ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کے قتلِ عام کا ذمہ دار وہی تھا۔ بھارتی ادیب جوق در جوق اعزازات واپس کر رہے ہیں۔ بھارتی نیوی کے سابق سربراہ نے احتجاج کیا ہے! یہ لوگ یہی تو رونا رو رہے ہیں کہ مُودی اور اُس کے ہم رکاب بنیاد پرست متعصب ہندو بھارت کا مُنہ کالا کر رہے ہیں! 
یہ سیکولرازم ہی ہے جس کے طفیل کروڑوں مسلمان، اپنے آبائی ممالک سے ہجرت کر کے، امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، 
ہسپانیہ، جاپان، آسٹریلیا، سنگاپور، نیوزی لینڈ، آسٹریا، ہالینڈ، ڈنمارک، ناروے، سویڈن حتیٰ کہ فن لینڈ جیسے دور افتادہ ممالک میں آباد ہو گئے ہیں۔ ان ملکوں میں انہیں مذہبی آزادیاں حاصل ہیں، مساجد آباد ہیں، جائیدادیں، مکان، دکانیں اُن کے نام پر ہیں، پارلیمنٹ کے وہ ممبر بن رہے ہیں، وزارتیں اور سفارتیں انہیں دی جا رہی ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں سے وہ اپنے رشتہ داروں کو بھی بلا کر آباد کر رہے ہیں۔ زرِمبادلہ بھیج رہے ہیں۔ اس کالم نگار نے اپنے ایک عزیز کی وساطت سے مساجد اور مدارس کے اعداد و شمار حاصل کیے ہیں۔ صرف ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں تین ہزار سے زیادہ مسجدیں ہیں۔ کیلی فورنیا میں 525، نیویارک میں 507، ٹیکساس میں 302، فلوریڈا میں 186، اسی طرح ہر ریاست میں مسجدوں کی تعداد معلوم کی گئی ہے۔ ایک نجی ذریعے کے مطابق نیویارک، شکاگو، کیلی فورنیا، فلوریڈا اور اٹلانٹا میں درس نظامی کے کم از کم پندرہ مدارس کام کر رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے اصل تعداد اس سے زیادہ ہو۔ حفظِ قرآن پاک کے امریکہ میں دو سو مدارس ہیں! برطانیہ کے اُن شہروں میں جہاں پاکستانی زیادہ تعداد میں ہیں جیسے مانچسٹر، گلاسگو، بریڈفورڈ وغیرہ، پاکستان سے فرقہ واریت تک درآمد کی جا رہی ہے۔ پیری فقیری، استخارہ، جادو ٹونہ کا علاج۔ سب کچھ پوری حشر سامانیوں کے ساتھ موجود ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں۔ خصوصی ٹیلی ویژن چینل رات دن چل رہے ہیں، آسٹریلیا میں مصریوں کی اپنی مساجد ہیں، ترکوں کی اپنی، بنگالیوں کی اپنی اور پاکستانیوں کی اپنی۔ لاکھوں صومالوی مہاجر آباد ہوئے ہیں۔ بہت سے خوشحالی اور امارت سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ سڈنی کے اُس حصے میں‘ جسے لکمبا 
(LAKEMBA) 
کہا جاتا ہے، جائیں تو یوں لگتا ہے قاہرہ یا لاہور میں آ گئے ہیں۔ میلبورن میں فاکنر کے علاقے میں پاکستانیوں کی بہت بڑی مسجد ہے جو تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔ اس کے ساتھ ملحق مسلمانوں کا اپنا تعلیمی ادارہ ہے۔ عربوں اور ترکوں کے اپنے تعلیمی ادارے ہیں جو حکومت سے منظور شدہ ہیں۔ ان تمام ملکوں میں اسلام مخالف عناصر آئے دن مطالبے کرتے پھرتے ہیں کہ مسجدوں پر پابندی لگائی جائے اور مسلمانوں کو نکال باہر کیا جائے مگر کسی حکومت نے اس قسم کے انتہا پسندانہ مطالبات کو کبھی درخورِ اعتنا نہ سمجھا! آئے دن ہمارے ہاں سے اور دوسرے مسلمان ملکوں سے علماء کرام، پیرانِ عظام، مشائخ کرام اور روحانی شخصیات ان ملکوں کے دورے کرتی ہیں، چندے اکٹھا کرتی ہیں، عقیدت مندوں سے خدمت کراتی ہیں، تبلیغی جماعت کے وفود ان ملکوں میں شہر شہر قریہ قریہ گھومتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے مسلمان ملکوں میں یہ سب کچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا! امام خمینی سے لے کر علامہ طاہرالقادری تک سب کی سرگرمیوں کے مراکز مغربی ممالک ہی رہے ہیں۔ یہ سب کچھ جمہوریت اور سیکولرازم کی وجہ سے ہے۔ اگر یہ ریاستیں سیکولر نہ ہوتیں اور مسیحی ہوتیں تو پادری اور دوسرے متعصب لوگ کسی ایک مسلمان اور ایک مسجد تک کو برداشت نہ کرتے! 
اس کے مقابلے میں ہمارا اپنا طرزِ عمل کیا ہے؟ مسلم لیگ نون کے رکن ڈاکٹر رمیش کمار نے کچھ عرصہ پہلے قومی اسمبلی کو بتایا کہ ہر سال پانچ ہزار ہندو گھر بار چھوڑ کر بھارت جا رہے ہیں۔ رمیش کمار نے کہا کہ صرف دو ماہ میں مذہبی تشدد کے چھ واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ہندوؤں کی مذہبی کتابیں جلائی گئی ہیں اور بااثر افراد اندرون سندھ میں ہندو لڑکیوں کو مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کر رہے ہیں! 
اگر ذہنوں میں مخصوص ڈکشنریاں کھلی رہیں گی اور آنکھوں پر مخصوص رنگوں کی عینکیں لگی رہیں گی تو یہی ہو گا، جو اب ہو رہا ہے۔ جہاں سیکولرازم یا لبرل ازم کا نام آیا، چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، یا گلوں کی رگیں پھول کر سرخ ہو جاتی ہیں اور سوچے سمجھے بغیر واویلا مچا دیا جاتا ہے! خدا کے فضل سے اسلام کمزور ہے نہ پاکستان کہ مذہبی رواداری سے اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنے سے اسے نقصان پہنچ جائے! تلفظ تک تو ہمیں آتا نہیں، معنیٰ کیا سمجھیں گے۔ اکثر حضرات کو سیکولر کے سین کے نیچے زیر لگا کر SEECuLAR
 کہتے سنا ہے حالانکہ سین کے اوپر زبر ہے یعنی SECULAR!

Monday, November 16, 2015

نیا سیاپا

برسٹل کا شہر لندن سے تقریباً ایک سو بیس میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل سے بارہ میل دور، 1632ء میں، گھاس پھونس کی چھت سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی میں جان لاک پیدا ہوا۔ جان لاک کو عام طور پر جدید لبرل ازم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کے جواز کے لیے عوام کی مرضی لازم ہے، تا کہ حکمران یہ نہ کہتا پھرے کہ اسے قدرت نے یا مافوق الفطرت طاقتوں نے حاکم بنایا ہے! جان لاک نے اس پر بھی زور دیا کہ ضمیر کی آزادی انسان کا بنیادی اور فطری حق ہے، کسی حکومت کی اتھارٹی اسے متاثر نہیں کر سکتی۔ اُس کے خیال میں مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا بھی لبرل ازم کا حصہ تھا!
غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہ سب کچھ لبرل ازم ہے تو جان لاک تو سترھویں صدی میں پیدا ہوا، یہ سب کچھ اُس سے پہلے اسلام دنیا کے سامنے پیش کر چکا تھا! خلفائے راشدین عوام کی مرضی سے مسند نشین ہوتے تھے۔ خلیفہ برسرِ عام کہتا تھا کہ میں ٹیڑھا ہو جائوں تو مجھے سیدھا کر دو! رہی مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا، تو اس کا مؤثر ترین اظہار اسلام ہی نے کیا۔ 
کیا مدینہ تشریف آوری کے بعد خدا کے پیغمبرﷺ نے وہاں رہنے والے یہودیوں اور غیر مسلموں سے کہا کہ سب مسلمان ہو جائو ورنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے بڑے پادری کی دعوت کے باوجود چرچ میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا کہ اگر آج انہوں نے یہاں نماز ادا کی تو کل مسلمان ان کی تقلید کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو عیسائیوں کو ان کے گرجائوں سے نکال دیں گے۔ ’’دین میں جبر نہیں‘‘ کے اصول کا عملی مظاہرہ یہی تھا۔ اس سے پہلے خلیفۂ اول نے لشکرِ اسامہ روانہ کیا تو دس نصیحتیں کیں جن میں سے دو یہ تھیں:
تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہو گا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کرتے ہوئے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہیں، انہیں اپنے حال پر چھوڑ دینا، ان سے کوئی تعرض نہ کرنا!
تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے۔ تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دو!
اسی مذہبی آزادی کا جان لاک نے ذکر کیا تو وہ لبرل ازم کا باپ قرار دیا گیا! اگر لبرل ازم یہ ہے تو پھر جان لاک اس کا بانی نہیں ہو سکتا! انسانوں پر انسانوں کی رضا مندی سے حکومت کرنا اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنا اسلام اس سے بہت پہلے سکھا چکا تھا اور کر کے دکھا بھی چکا تھا!
لبرل ازم، لبرل، لبرٹی اور اس کے ساتھ کے تمام الفاظ در اصل لاطینی لفظ 
Liber 
سے نکلے ہیں جس کا لغوی معنی ’’آزاد‘‘ ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے 1375ء میں تعلیم کے سلسلے میں استعمال ہوا۔ ’’لبرل تعلیم‘‘ یعنی وہ تعلیم جو ایک مردِ حُر کے شایانِ شان ہو!
4 نومبر کو وزیر اعظم نواز شریف نے سرمایہ کاری کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبہ معیشت کا انجن ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ سے باہر رہے اور صرف ریگولیٹر کا کردار ادا کرے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے۔ بس اس پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ سیاپا پڑ گیا۔ گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھر گیا۔ بابائے طالبان مولانا سمیع الحق نے اسے بغاوت قرار دیا اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ اس باغیانہ بیان کا فوراً نوٹس لیں اور وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ تقریریں کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والی شخصیت جناب سراج الحق نے خبردار کیا کہ لبرل پاکستان کی باتیں آئینِ پاکستان سے بے وفائی اور غداری کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ کہ آئینِ پاکستان میں لبرل پاکستان کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ وہ ملک کو لبرل نہیں بننے دیں گے!
اب ان عالی قدر حضرات سے یہ پوچھنے کی جسارت کون کرے کہ لبرل سے وزیر اعظم کی کیا مراد تھی اور یہ صاحبان اُس سے کیا مطلب لے رہے ہیں! غداری کا فتویٰ لگانے سے پہلے وزیر اعظم سے یہ تو پوچھ لیا جاتا کہ لبرل پاکستان کی جو تصویر ان کے ذہن میں ہے، کیا ہے!
اللہ کے پیغمبرؐ نے جب غلاموں کو آقائوں کے ساتھ کھڑا کیا، انہیں آزاد کرنا اور کرانا شروع کر دیا، عورتوں کی رضا مندی کے بغیر ان کی شادی کو غلط قرار دیا، ایامِ خاص میں عورتوں کو اچھوت بنانے سے منع کیا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت فرما دی تو یہ لبرل ازم نہیں تو کیا ہے؟ مصر کے اٹھارہ مفتیوں نے امام ابن تیمیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ شاہ ولی اللہ، سید احمد بریلوی، شاہ اسماعیل شہید، سرسید احمد خان، محمد بن عبدالوہاب سب کافر قرار دیئے گئے۔ قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہا گیا۔ وہ تو غنیمت ہے کہ وزیر اعظم پر محض غداری کا فتویٰ لگانے پر اکتفا کی گئی، ورنہ مزید آگے بڑھنے سے کون روک سکتا تھا!
مولانا مودودی نے داڑھی کی لمبائی پر، جرابوں پر مسح کرنے پر اور کئی دوسرے مسائل پر جو مؤقف اپنایا، اس میں انہیں گمراہ، جدیدی اور گستاخ قرار دیا گیا۔ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے کا الزام لگا۔ تبلیغی جماعت کے بطلِ جلیل حضرت مولانا زکریا نے باقاعدہ فتویٰ صادر فرمایا۔ جس مدرسہ میں کھڑے ہو کر آج مولانا سراج الحق نے وزیر اعظم پر غداری کا الزام عائد کیا ہے، اُس مدرسہ کے علماء کرام اور طلبہ سے یہ تو پوچھ لیتے کہ مولانا مودودی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے!
پارسیوں کے ایک اجتماع میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اگر مسلمان غیر مسلم پر ظلم کرے گا تو وہ ظالم مسلمان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ آج بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت انصاف کے اس بنیادی اصول سے منحرف ہو چکی ہے! ایک سوڈانی ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ اُس نے مشرق وسطیٰ کے ایک ہسپتال میں ایک عرب کو نرس کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکا تو عرب نے دلیل یہ دی کہ نرس غیر مسلم ہے، تم اُس کی حمایت کیوں کر رہے ہو؟ ایک اور واقعہ کا یہ کالم نگار عینی شاہد ہے۔ دارالحکومت کے ایک مکان کی زیریں منزل میں ایک مصری پروفیسر رہتا تھا جو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ بالائی منزل پر ایک اور خاندان رہتا تھا۔ بالائی منزل والوں کی مسیحی ملازمہ نے کپڑے دھوئے اور تار پر لٹکانے سے پہلے انہیں جھاڑا۔ کچھ چھینٹے نچلی منزل میں کھڑے ہوئے مصری پروفیسر پر پڑ گئے۔ ملازمہ جاتے ہوئے وہاں سے گزری تو پروفیسر نے اُسے مارا پیٹا۔ وہ تھانے پہنچ گئی۔ تھانے والوں نے پروفیسر کو بلا لیا۔ پروفیسر نے ایک پاکستانی دوست سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمان ہے اور افضل ہے مگر تھانے والے ایک غیر مسلم عورت کی شکایت کو اہمیت دے رہے ہیں! یہ ہے مسلمانوں کا عمومی مائنڈ سیٹ! اس سے یہ بھی اندازہ لگائیے کہ اسلامی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے کتنے انصاف پسند ہیں! اور وہ آگے اپنے شاگردوں میں کس قسم کی ذہنیت پیدا کر رہے ہیں!
یقینا جناب سراج الحق جیسے بالغ نظر اور انصاف پسند متوازن سیاسی رہنما مذہبی رواداری کے حق میں ہیں! وہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ غیر مسلموں سے نفرت کرنی چاہئے یا انہیں زبردستی مسلمان بنانا چاہیے۔ جیسا کہ سندھ سے آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں، جھگڑا اصطلاح کا ہے! ایک پاکستانی یورپ پہنچا اور کسی عورت سے راستہ پوچھا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اس پر پاکستانی سمجھا کہ وہ آتے ہی ’’کامیاب‘‘ ہو گیا ہے! شاید ’’ہسّی تے پھسّی‘‘ جیسی عامیانہ کہاوت وہیں سے نکلی۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہاں ہر رہگیر دوسرے کو ہیلو ہائے کرتا ہے اور بات کرتے ہوئے مسکراتا بھی ہے! شاید ہم لبرل ازم سے اس لیے خائف ہیں کہ ہمارے ذہن میں اس کا مفہوم کچھ اور ہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لبرل ازم سے مراد گانا بجانا اور پینا پلانا ہے! اگر یہی مفہوم ہوتا تو یہ سب ہمارے ہاں لبرل ازم کے بغیر ہی ہو رہا ہے! اُس کے باوجود ہم لبرل نہیں! ہم اس قدر تنگ نظر ہیں کہ غیر مسلم ملازموں کے لیے گھروں میں کھانے پینے کے برتن الگ رکھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کو ایک یہودی عورت نے کھانے کی دعوت دی۔ آپ چند صحابہ کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ آپؐ کا ایک ایک عمل ہماری ہدایت کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی کھانے کے اپنے برتن ساتھ لے کر گئے تھے! آج پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان ترقی یافتہ ممالک میں رہ رہے ہیں، اور رات دن غیر مسلموں کے ریستورانوں میں کھانے کھا رہے ہیں۔ بے شمار حلال ریستورانوں کے مالک اور ان میں کام کرنے والے ملازم، غیر مسلم ہیں۔ علماء کرام کے اعزاز میں دعوتیں بھی انہی ریستورانوں میں منعقد ہوتی ہیں! عقیدت مندوں کو کوکا کولا کا بائیکاٹ کرنے کا حکم ملتا ہے مگر حضرت صاحب خود یہودیوں اور نصرانیوں کے بنے ہوئے موبائل فون، کار، جہاز اور انٹرنیٹ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا:   ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن!
ہاں! یاد آیا کہ اقبال پر بھی کفر کا فتویٰ لگا تھا! لبرل جو تھا!

Saturday, November 14, 2015

تمغۂ حسنِ کارکردگی؟

تو پھر کیا بچہ بھی خاموش رہے؟
جلوس کے جلو میں بادشاہ چل رہا ہے۔ درباری، کیا وزیر، کیا مشیر‘ کیا مصاحب، کیا عمائدین۔ سب نئے’’لباس‘‘ کی تعریف کر رہے ہیں! ایک بالکونی سے بچہ چلاّ اٹھا’’بادشاہ ننگا ہے‘‘! تو پھر کیا بچہّ بھی خاموش رہے؟
آئی ایس پی آر کے بیان سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ تہلکہ برپا ہے! درو دیوار لرز رہے ہیں! اسی لکھنے والے کا شعر ہے   ؎
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہے آسماں جیسے
ایک صاحب نے اعلان کیا ہے کہ فلاں صورتِ حال میں سویلین شریف کا ساتھ دوں گا! جیسے ماضی میں آپ نے کبھی کسی کا ساتھ دیا!
جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے! جمہوریت ؟ کون سی جمہوریت؟ اللہ کے بندو! جمہوریت کے جسم میں ایک ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے! ریڑھ کی اس ہڈی کو پارلیمینٹ کہتے ہیں! سو سوالوں کا ایک سوال یہ ہے کہ کیا پارلیمینٹ کی اپنی بھی ریڑھ کی ہڈی ہے؟
گورننس کا کیا حال ہے، سب کو معلوم ہے! عوام کی بھاری تعداد نے آئی ایس پی آر کے اعلامیے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا کی طاقت سے انکار ممکن نہیں! اب اس کی حیثیت نبض کی سی ہے! آئی ایس پی آر کو نشان دہی کرنے کی کیا ضرورت تھی! خلا کہیں بھی نہیں رہ سکتا! کسی نہ کسی نے تو بھرنا ہوتا ہے۔ منیر نیازی نے جبھی کہا تھا   ؎
ایک وارث ہمیشہ ہوتا ہے
تخت خالی نہیں رہا کرتا
گورننس کا کوئی سر پیر نہیں! کوئی سسٹم کوئی نظام نہیں! انگریزوں نے جہاں بّرِصغیر کو بہت سی قابلِ تحسین روایات دیں، ان میں ایک گورننس کی
HIERARCHY
بھی تھی! یعنی چین آف کمانڈ ! ذمہ داری سربراہ کی ہے! پھر اس کی جو اس کے بعد! سب سے بڑے صوبے کے سربراہ ہسپتال کا معائنہ کرتے ہیں اور صورتِ حال پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں! مگر متعلقہ وزیر اور متعلقہ سیکرٹری کو طلب کرتے ہیں نہ ذمہ دار ٹھہراتے ہیں! صوبے میں پولیس گردی کا یہ عالم ہے کہ ماڈل ٹائون سے لے کر ڈسکہ تک جسے چاہے مار دے۔ چلیں یہ تو صوبے کی بات ہے۔ وفاق میں کیا ہو رہا ہے؟ وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ دارالحکومت کو جرائم سے پاک کیا جائے گا۔ وہ ایک سنجیدہ شخص ہیں۔ اور اس اکثریت سے یکسر مختلف جو وفاقی حکومت میں شامل ہو کر بھی وسطی پنجاب کی تنگ ہٹی سے ذہنی طور پر باہر نکلنے کو آمادہ نہیں! وزیر داخلہ کا نام کسی سکینڈل میں بھی کبھی نہیں آیا۔ مگر کیا وہ پولیس کو راہ راست پر لے آئیں گے؟ حالت یہ ہے کہ بگڑے ہوئے چند نوجوانوں کو پولیس نے ضابطے کے اندر لانے کی کوشش کی۔ دوسرے دن پولیس کے افسر نے انہی نوجوانوں کے اعزاز میں ٹی پارٹی دی۔ وزارتِ داخلہ نے بعد میں اُس افسر کو معطّل کیا! اپریل2015ء کے اعداد و شمار کے مطابق اٹھارہ ماہ کے دوران دارالحکومت میں قتل کے 243کیس‘ ڈاکے‘ نقب زنی اور لوٹ مار کے 1721‘ چوری کے 775‘ کار چوری کے 1359اور موٹر سائیکل چوری کے 712کیس ریکارڈ کیے گئے ۔ دارالحکومت سے اوسطاً ایک دن میں تین گاڑیاں چوری ہو رہی ہیں۔
کیا وزیر اعظم وفاقی وزارتوں کی کارکردگی جانچ رہے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو کس طرح؟ کیا نظام ہے اور کیا طریق کار (میکانزم) ہے؟ دنیا میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں وزیروں کے نام موصول ہونے والے پبلک کے خطوط میڈیا کے نمائندے کھولتے ہیں اور متعلقہ وزیر یہ شکایات بعد میں پڑھتے ہیں۔ ان کے پڑھنے تک میڈیا کے ذریعے ان کی تشہیر ہو چکی ہوتی ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اپنے وزیروں کی اور وزارتوں کی کارکردگی سے بے خبر ہیں اور بے نیاز بھی! چھوٹی سی مثال۔ دیگ کا ایک دانہ چکھیے اور اندازہ لگائیے کہ باقی دانے کیسے ہوں گے۔ حکومت (یعنی وفاقی حکومت) نے دارالحکومت کے سیکٹر جی2/10میں کم آمدنی والے سرکاری ملازموںکے لیے ڈی ٹائپ اپارٹمنٹ تعمیر کرنے کی سکیم کا ڈول ڈالا۔ اس منصوبے کی تکمیل2010ء میں ہونا تھی۔ 2010ء آیا اور گزر گیا۔ پانچ سال ہو چکے۔ وقت 2015ء کی بساط بھی لپیٹنے کے قریب ہے ۔ مگر اپارٹمنٹ بنانے کا یہ منصوبہ ابھی تک تکمیل سے اتنا ہی دور ہے جتنا اسلام آباد کے نئے ایئر پورٹ کا بدبخت منصوبہ! مزے کی خبر اس سے آگے ہے۔ چار دن پہلے سینیٹ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر صاحب نے تاخیر کی جو وجوہ بتائیں، وہ سنیے!
    1 
جائے تعمیر پر جنگل تھا۔ اسے صاف کرنے میں دیگر لگی
-2
 یوٹیلیٹی سروسز کے لیے زیر زمین پائپ بجھانے تھے۔
-3
زمین میں چٹانیں تھیں
-4
زیر زمین
(Subsoil)
صورت حال کی وجہ سے بنیادوں کا ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔
-5
زلزلے کی وجہ سے بدلے ہوئے قوانین کے سبب ڈیزائن تبدیل کرنا پڑا۔
-6
تفتیش کی وجہ سے دو سال کام رکا رہا۔
آپ غور کیجیے کہ ان میں سے کون سی وجہ تھی جو کام شروع کرنے سے پہلے معلوم نہیں تھی۔ زلزلے کی وجہ سے تعمیراتی قوانین تو 2005ء کے زلزلے کے فوراً بعد ہی تبدیل کر دیئے گئے تھے۔ Soilٹیسٹ دنیا بھر میں ڈیزائن تیار کرنے سے پہلے کیاجاتا ہے۔ ڈیفنس ہائوسنگ رہائشی کالونیوں میں ٹیسٹ لازم ہے! اور یہ کون سی تفتیش تھی جو دو سال جاری رہی اور کام رکا رہا! 2013ء میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا۔ چوبیس کروڑ کے اضافی اخراجات اسی وقت بتائے گئے۔ وزیر صاحب نے تازہ خوش خبری یہ سنائی ہے کہ تاخیر کی وجہ سے حکومت کو پانچ کروڑ کا نقصان ہوا ہے۔ 
یہ ہے ہلکی سی جھلک نااہلی کی! نالائقی کی اور لاقانونیت کی! کیا وزیر اعظم کو معلوم ہے کہ وزیر صاحب ہفتے میں ایک دن دفتر تشریف لاتے ہیں؟ یہ صرف ایک وزارت کا حال ہے! باغ کی اس جھلک سے باقی بہارکا اندازہ لگا لیجیے!
کیا کبھی پارلیمنٹ نے پوچھا کہ حکومت کے سربراہ ہفتے میں یا مہینے میں کتنے دن دارالحکومت میں اور اپنے دفتر میں گزارتے ہیں؟ یا زیادہ وقت کہاں‘ کس شہر میں گزرتا ہے؟ کیا حکومت کا سربراہ قوانین سے اور ضابطوں سے اور قواعد سے مبّرا ہے؟ تو پھر وزراء کیوں نہ مبّرا ہوں؟
عساکر کے جوان اور افسر جانیں قربانیں کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی نرسریاں فوج نے نہیں‘ سول حکومت نے بند کرنی ہیں۔ مدارس میں اصلاحات کے لیے کمیٹیوں پر کمیٹیاں بن رہی ہیں۔ مذاکرات یوں ہو رہے ہیں جیسے دو ملکوں کے درمیان ہوتے ہیں! حکومت کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں کہ کُل مدارس کتنے ہیں‘ کہاں کہاں ہیں، ان میں کون کون رہتا ہے اور کون کون آ کر ٹھہرتا ہے! آئی ایس پی آر عدم اطمنان کا اظہار نہ کرے تو کیا تمغۂ حسنِ کارکردگی سے نوازے؟

Wednesday, November 11, 2015

دربارِ وطن میں جب اک دن…


کیا کسی کو یاد ہے، چوہدری امیر حسین قومی اسمبلی کے سپیکر رہے؟ ایک دو نہیں پورے چھ سال! کسی اخبار میں، ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام میں کبھی ان کا نام سنا؟
ڈاکٹر فہمیدہ مرزا سپیکر رہیں! بے نظیر بھٹو کی زندگی میں کچھ بھی نہیں تھیں! اس سیارے کی جسے کرۂ ارض کہتے ہیں، ملک ملک کی سیر کی، قرضے معاف کرائے، مراعات لیں۔ تاریخ کے کتنے لفظ ان کے حصے میں آئیں گے؟
الٰہی بخش سومرو، حامد ناصر، گوہر ایوب؟ کیا کسی کو یاد ہیں؟ یوسف رضا گیلانی بھی رہے! من پسند بھرتیاں کیں جن کی پاداش میں جیل یاترا ہوئی۔ یہ الگ بات کہ اب ہر جیل یاترا، جمہوریت کے لیے قربانی بن جاتی ہے، جرم کیجیے! بچ گئے تو قسمت کے دھنی، پکڑے گئے تو اسیرِ جمہوریت!
ہاں! تاریخ نے فضیلت کا تاج پہنایا ہے تو مولوی تمیزالدین خان کے سر پر! گورنر جنرل غلام محمد نے قومی اسمبلی کا تخت الٹا تو مولوی صاحب نے فیصلہ چیلنج کر دیا۔ جسٹس منیر نے طاقت وروں کا ساتھ دیا۔ مولوی صاحب ہار گئے، مگر ایسے ہارے کہ جیت ان کا مقدر بنی! تاریخ میں دونوں زندہ ہیں، مولوی تمیزالدین خان بھی اور جسٹس منیر بھی، لیکن اس طرح جیسے سراج الدولہ بھی تاریخ میں زندہ ہے اور میر جعفر بھی! ٹیپو سلطان بھی اور میر صادق بھی! جبھی تو فیض نے کہا تھا؎
دربارِ وطن میں جب اک دن سب جانے والے جائیں گے
کچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گے
جسٹس منیر نے جب جمہوریت کے تابوت میں کیل ٹھونکی تو ایک اور آواز بھی وہاں ابھری، جسٹس کارنیلیس کی! آگرہ کے ایک اردو سپیکنگ مسیحی خاندان میں پیدا ہونے والے کارنیلیس نے فیصلے سے اختلاف کیا‘ اور اپنی رائے جمہوریت کے پلڑے میں ڈالی؎
کامل اس فرقۂ زہاد سے اُٹھا نہ کوئی
کچھ ہوئے تو یہی رندانِ قدح خوار ہوئے
دو دن سے شور برپا ہے کہ سردار ایاز صادق دوسری بار سپیکر منتخب ہو گئے ہیں، شور! ایسا کہ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی! گرد وہ اٹھی ہے کہ آسمان چھپ گیا ہے! اس خوشی کے موقع پر کہ رقص کرنا چاہیے تھا، فقیر شاعر نظیر اکبر آبادی یاد آ گیا؎
دو دن تو یہ چرچا ہوا، گھوڑا ملا ہاتھی ملا
بیٹھا اگر ہودے اُپر، یا پالکی میں جا چڑھا
آگے کو نقارا نشاں، پیچھے کو فوجوں کا پرا
دیکھا تو پھر اک آن میں باقی نہ گھوڑا نہ گدھا
گر یوں ہوا تو کیا ہوا اور وُوں ہوا تو کیا ہوا!
ایاز صادق خوش بخت ہیں! وہ بھی ان کے پشتیبان بنے جو وردی میں دس بار منتخب کرانے کا عزم رکھتے تھے‘ اور وہ بھی جو اقتدار میں رہنے کے لیے (ہمہ وقت اقتدار میں رہنے کے لیے) مذہب کو یوں استعمال کر رہے ہیں کہ اس کارِ ’’خیر‘‘ کو سائنس بنا دیا ہے! کام تو یہ شیخ مبارک اور اس کے فرزندوں نے بھی کیا تھا لیکن جو تاریخ ہمارے عہد میں بنی ہے، اس کی مثال مشکل ہی سے ملے گی!
تاریخ بے رحم ہے! بہت بے رحم! کم بخت میں خرابی یہ ہے کہ شان و شوکت اور تزک و احتشام سے مرعوب نہیں ہوتی! وہ یہ نہیں دیکھے گی کہ آپ سپیکر رہے! وہ یہ دیکھے گی کہ اسمبلی کون سی تھی، جس کے سپیکر رہے! اسمبلی نے حاصل کیا کیا؟ تقریباً ساڑھے تین سو ارکان میں سے کتنے قوم کو کچھ دینے کے لیے اپنی نشستوں سے اٹھے؟
اسمبلی نے عوام کے فائدے کے لیے کون کون سے قوانین پاس کیے؟ اس پر قومی خزانے سے اخراجات کتنے ہوئے… تنخواہیں، ٹی اے ڈی اے، علاج معالجہ، دیگر مراعات! کیا یہ ممبرشپ، یہ رکنیت، واقعی اتنے خرچ کی اہل تھی؟
اسمبلی؟ کون سی اسمبلی؟ کیا پالیسی کے معاملات اس اسمبلی میں طے ہوتے ہیں؟ کیا طالبان سے نام نہاد مذاکرات کے لیے فیصلہ اسمبلی نے کیا تھا؟ کیا مذاکراتی ٹیم کی نامزدگی اسمبلی کے ہاتھوں ہوئی تھی؟ کیا خارجہ امور اسمبلی میں طے ہوتے ہیں؟ وزیر اعظم اوفا سے واپس آئے تو اسمبلی نے ان کے دورے کی کامیابی یا ناکامی پر بحث کی؟ کیا اس اسمبلی کو معلوم ہے کہ مُودی نام کا ایک شخص حال ہی میں یو اے ای گیا تھا؟ اور اس نے وہاں کیا کیا؟
اسمبلی میں کتنوں کو معلوم ہے کہ پاکستانی کا توازن تجارت (بیلنس آف ٹریڈ) کیا ہے؟ توازنِ ادائیگی (بیلنس آف پے منٹ) کیا ہے؟ ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ کیا کسی کو پورے ایوان میں فکر ہے کہ تجارت خسارے میں جا رہی ہے؟ اُس کا رخ کھائی کی طرف ہے؟ رواں مالی سال کے پہلے تین ماہ میں برآمدات 5.16 ارب ڈالر کی ہوئیں اور درآمدات 10.67 ارب ڈالر کی! یعنی ساڑھے پانچ ارب ڈالر کا خسارہ! گزشتہ برس کے انہی تین مہینوں کے مقابلے میں برآمدات چودہ فی صد نیچے گئی ہیں! چین کے ساتھ تجارت گزشتہ پانچ سال کے دوران بڑھی ضرور ہے مگر اس کا توازن چین کے حق میں ہے، پاکستان کے حق میں نہیں! اسی فی صد برآمدات چین کو جو بھیجی جا رہی ہیں وہ کاٹن کے کپڑے اور مصنوعات پر مشتمل ہیں۔ کوئی تنوع نہیں! کوئی پھیلائو نہیں! وجہ؟ صنعتی پیداوار کی لاگت میں بے ہنگم اضافہ! مصنوعات میں ویرائٹی کی کمی! توانائی کا بحران! حکومتی پالیسیوں میں بے یقینی! اور اشیا کی ناقابلِ رشک کوالٹی! کوئی جیتا جاگتا ملک ہوتا تو اسمبلی میں اس پر وہ بحث ہوتی اور وہ سوالات ہوتے کہ وزیر تجارت کو دن میں تارے نظر آ جاتے! حکومت پنجوں کے بل کھڑی ہو جاتی، اصلاحات ہوتیں، اقدامات کیے جاتے، صنعت کاروں اور برآمدکنندگان سے بات چیت ہوتی! سہولتیں بہم پہنچائی جاتیں اور تجارت کا توازن اُدھر سے اِدھر ہو جاتا! مگر اس اسمبلی میں کیا ہو سکتا ہے؟ اپوزیشن اوّل تو مفقود ہے! سید خورشید شاہ ہر مشکل وقت میں حکومت کی کمر سہلا رہے ہوتے ہیں! جو لولی لنگڑی اپوزیشن، پی ٹی آئی کے دعوے کے مطابق، پائی بھی جاتی ہے اس میں شیڈو (Shadow) کابینہ ہی نہیں ہے! اپوزیشن کا ’’وزیر‘‘ تجارت کون ہے؟ کسی کو کوئی خبر نہیں!
کیا اس اسمبلی میں کبھی اس موضوع پر بحث ہوئی ہے کہ بلوچستان کے کیا مسائل ہیں! اب تو لوگوں نے بلوچستان کو ضرب المثل بنا لیا ہے؎
بہت ویران ہوتا جا رہا ہوں
بلوچستان ہوتا جا رہا ہوں
اکیسویں صدی کا دوسرا عشرہ بھی اپنا نصف ختم کرنے کو ہے اور حالت یہ ہے کہ بلوچستان کے سکولوں اور کالجوں کی عمارتوں میں سرداروں کا غلّہ ذخیرہ کیا جاتا ہے! سردار نئی بندوق ٹیسٹ کرنے کے لیے کسی بھی راہگیر کا سر اُڑا سکتا ہے۔ اُس کے کہنے پر قبائلی پہاڑوں پر نہ چڑھیں تو کہاں جائیں! کیا اس اسمبلی کو معلوم ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ کیا صورتِ حالت ہے؟ کیا کبھی زرعی اصلاحات پر بحث ہوئی! یا تعلیمی نظام پر! یا ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے پر! یا اُن اقدامات پر جو ہماری سرحدوں سے غیر ملکیوں کا داخلہ کم کر سکیں؟ کیا اس اسمبلی میں کسی نے آنسو بہائے ہیں کہ شمالی علاقوں میں سیاحت کے محکمے کی کارکردگی صفر ہے؟ کیا کسی معزز ممبر کو معلوم ہے کہ ہر سال کتنے سیب، کتنی خوبانی، کتنے انگور، کتنے آڑو اور کتنے انار ضائع ہوتے ہیں اور یہ کہ پھلوں کو محفوظ کرنے کا ایک کارخانہ تو کیا، ایک چھوٹی سی فیکٹری بھی کہیں نہیں پائی جاتی!
قومی اسمبلی کی جڑواں بہن سینیٹ ہے! خوابِ خرگوش کی ایک اور مثال! ایک صاحب گیارہ سال اس کے سربراہ رہے! ہر حکومت کے حمایتی! مقصد صرف طولِ اقتدار تھا! عوام کو کیا دیا؟ اقتدار ڈھلا تو گھر میں اُن کے ساتھ وہی ہوا جو انہوں نے عوام کو دیا تھا! ڈاکو آئے، انہیں رسیوں سے باندھا! لُوٹ مار کر کے چلے گئے؎
اے شمع! تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
بعد میں ڈھنڈیا پڑی! ڈھنڈورا پٹا، جو ہونا تھا ہو چکا تھا! گیارہ سال آپ طاقت ور ادارے کے سیاہ و سفید کے مالک رہے! پولیس ہی کو ٹھیک کرا جاتے! آج آپ کو بھی فائدہ ہوتا!
موجودہ چیئرمین نے حکم دیا ہے کہ آمر کا نام کوئی نہ لے۔ ایک وزیر نے پرویز مشرف کا ذکر کیا تو جلال میں آ کر فرمایا:’’کون مشرف؟ آپ نے مشرف کا نام کیوں لیا! آئندہ ایوان میں اس کا نام نہ سنوں! کسی رکن پارلیمنٹ کو اس بات کی ہرگز اجازت نہ دوں گا کو وہ مستقبل میں ایوان میں اپنی بحث کے دوران کسی آمر کا حوالہ دیں۔‘‘
مانا آمریت بری ہے! مگر آپ تاریخ کے صفحات سے الفاظ کیسے کھرچ سکتے ہیں! امرِ واقعہ سے انکار کس طرح ہو سکتا ہے! رعونت کی بات اور ہے، ورنہ اس قسم کے احکام سے سارا معاملہ غیر سنجیدہ ہو جاتا ہے! یوں بھی، ظل الٰہی اجازت مرحمت فرمائیں تو پوچھنے کی جسارت کی جائے کہ آپ کی پارٹی میں آخری انتخابات کب ہوئے؟ چیئرمین کے لیے امیدوار کون کون تھا؟ آپ نے کسے ووٹ دیا تھا؟ کیا ہماری سیاسی جماعتوں میں بدترین آمریت، جسے خاندانی آمریت کہتے ہیں… رائج نہیں؟ ان کے نام لینے پر بھی پابندی لگائیے! 
بہرطور ایک مثالی قومی اسمبلی کا دوسری بار سپیکر بننے پر جناب سردار ایاز صادق کی خدمت میں مبارک باد!

Monday, November 09, 2015

برہنگی


جاڑا دروازہ کھول کر اندر جھانک رہا ہے۔ آپ نے گرم واسکٹ پہننا شروع کر دی ہے، کبھی کوٹ زیبِ تن کر لیتے ہیں، لباس آپ کو ٹھٹھرنے نہیں دیتا، حرارت بہم پہنچاتا ہے۔ پھر گرمیاں آ جائیں گی، آپ ململ کا خوبصورت، دیدہ زیب کرتا پہنیں گے۔ یہ پسینہ جذب کرے گا اور باعثِ آرام ثابت ہو گا۔
لیکن لباس صرف گرمی اور سری سے، یعنی عناصر کی سختیوں سے ہی نہیں بچاتا، یہ آپ کو ڈھانکتا بھی ہے! کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ برہنہ شخص بدصورت لگتا ہے۔ جسم پر جابجا بال، لاغر ہے تو ہڈیاں نکلی ہوئی، بازو اور ٹانگیں مدقوق نما! موٹا ہے تو اسے دیکھ کر ہو سکتا ہے گینڈا یاد آ جائے، لیکن لباس اس بدنمائی کو چھپا دیتا ہے۔ اُسے باعزت کر دیتا ہے۔ بدن پر داغ ہیں یا چلنے کے نشان یا زخم کی باقیات، سب کچھ چھپ جاتا ہے۔ لباس کے ہم پر کتنے احسانات ہیں!
تو پھر یہ سمجھنا کون سا مشکل ہے کہ خلاقِ عالم نے ہماری بیویوں کو ہمارا لباس اور شوہروں کو بیویوں کا لباس قرار دیا ہے! آپ کو اور آپ کی اہلیہ کو دیکھ کر جب کوئی بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ ماشاء اللہ کیا خوبصورت جوڑا ہے، تو وہ، دوسرے لفظوں میں، دو ملبوسات کی تعریف کر رہا ہوتا ہے۔ بیوی کو شوہر کی شکل میں دیدہ زیب لباس ملا ہے اور شوہر کو بیوی کی شکل میں۔ جس طرح لباس ہمارے داغ، زخموں کے نشان، پسلی کی نکلی ہوئی ہڈیاں اور بازوئوں پر چڑھی ہوئی بے ہنگم چربی چھپا لیتا ہے، اسی طرح میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب پر پردہ ڈالتے ہیں۔ ایک دوسرے کی کمزوریاں دنیا والوں سے چھپا لیتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لیے تضحیک کا یا بے حرمتی کا یا حقارت کا باعث نہیں بنتے! یہی مطلب ہے لباس ہونے کا!
افسوس! عمران خان اس نکتے کو نہ سمجھ سکے۔ کاش انہیں کوئی بتاتا کہ ھُنَّ لِبَاسُ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ، لباس لَہُنَّ کا نسخہ کتنی بڑی نعمت ہے! یہ تو وہ نعمت ہے جو خدائے لم یزل نے اپنی کتاب میں انسانوں کو عطا کی۔ ایک حقیقت ہمارا کلچر بھی ہے جو کچھ ہماری سوسائٹی قبول کرتی ہے اور جو کچھ پرے پھینک دیتی ہے، اس سے ہم آخر کس طرح بے نیاز ہو سکتے ہیں! ہمارے کلچر کا تقاضا ہے کہ میاں بیوی کے تعلقات، میاں بیوی کے اختلافات اور میاں بیوی کے درمیان جو اتار چڑھائو پیش آتے ہیں وہ صرف اُنہی تک محدود رہیں۔ زیادہ سے زیادہ خاندان کے قریبی افراد مداخلت کریں۔ وہ بھی خوش نیتی کے ساتھ! فرمایا گیا کہ جھگڑا بڑھے ، حالات انتہا تک خراب ہو جائیں تو دونوں طرف سے ایک ایک مصالحت کنندہ، ثالث، درمیان میں پڑے اور معاملے کو آر یا پار کرنے میں مدد دے!
آج عمران خان کے انتہائی ذاتی، انتہائی ازدواجی اور انتہائی راز دارانہ معاملات لاکھوں کیا کروڑوں افراد کی زبان پر ہیں۔ بھلا ہو الیکٹرانک میڈیا کا اور سوشل میڈیا کا کہ کوئی مشہور شخص کرۂ ارض کے ایک کنارے بیوی کا نام بھی بلند آواز سے لے لیتا ہے تو چند ثانیوں کے اندر اندر، یہ بلند آواز خلائوں سے ہوتی ہوئی دوسرے کنارے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس وقت تین قسم کے گروہ ہیں جو عمران خان کی طلاق پر بحث کر رہے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو عمران خان کی مدافعت کر رہا ہے۔ دوسرا طائفہ وہ ہے جو مطلقہ کے حق میں دلائل پیش کر رہا ہے۔ تیسرا گروہ جو کثیر تعداد میں ہے، صرف مزے لے رہا ہے اور چسکے لے رہا ہے۔ وہ ہر وقت اس طاق میں ہے کہ الیکٹرانک میڈیا پر یا سوشل میڈیا پر کوئی نئی بات اچھالی جا رہی ہے یا نہیں! جیسے ہی کوئی نئی ’’اطلاع‘‘ اس کے ہاتھ آتی ہے، وہ اسے لے اڑتا ہے۔ دوستوں میں یا سہیلیوں میں مزے لے لے کر سناتا ہے یا سناتی ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسے اپنے حلقۂ احباب تک پہنچاتا ہے۔
جو لوگ عمران خان کا یا ان کے سابقہ بیوی کا دفاع کرتے پھرتے ہیں، ان سے کوئی پوچھے کہ کیا وہ اپنے ازدواجی معاملات کو زبان زدِ خاص و عام کرنا پسند کریں گے؟ اگر ان کی بیٹی یا بہن کو طلاق ہو جائے تو کیا وہ پسند کریں گے کہ ایک ایک تفصیل دنیا والوں کو بتائی جائے؟ اور وہ منہ چھپاتے پھریں!
عمران خان اور مطلقہ خاتون کو کم از کم یہ تو سوچنا چاہیے تھا کہ دونوں کی اولاد ہے۔ دونوں کے بچے دودھ پیتی عمر میں نہیں، بلکہ سمجھدار ہیں اور ازدواجی باریکیوں کو سمجھتے ہیں! اُن پر کیا گزر رہی ہو گی؟ وہ اپنے دوستوں کے سامنے ان معاملات کو کس طرح لیتے ہوں گے؟ ان کی آئندہ زندگیوں پر میڈیا میں اٹھنے والے اس طوفان کے کیا اثرات پڑیں گے اور وہ ان سے کس طرح نمٹیں گے؟ طوفان! طوفان سا طوفان! اس طوفانِ بدتمیزی کا اندازہ لگائیے، کوئی بتا رہا ہے بیوی نے میاں پر ہاتھ اٹھایا، کوئی کہہ رہا ہے کہ زہر دے کر ہلاک کرنے کی کوشش کی! کوئی خبر لاتا ہے کہ دروازے کے پیچھے چھپ کر عمران خان کی باتیں سُن رہی تھیں۔ پھر سامنے آ کر برس پڑیں! کوئی چھ کروڑ کی دہائی دے رہا ہے اور کوئی آٹھ کروڑ کی، جیسے علیحدگی نہ ہو، تجارتی سودا بازی ہو! فاعتبروا یا اولی الابصار! عبرت پکڑو، اے آنکھوں والو!
اس دلیل میں بہت وزن ہے کہ جب شادی کی خبر آپ ٹویٹ کرتے پھریں، بیگم کی سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں، یہاں تک کے ایک صحافی کے بقول خیبر پختونخوا کی ٹاپ بیورو کریسی بنی گالہ آ کر بی بی صاحبہ کو بریف کرتی رہے، تو اب آپ کس منہ سے شکوہ کر سکتے ہیں کہ نجی زندگی میں دخل اندازی ہو رہی ہے! آپ نے جو بیج بویا تھا اسی کی تو فصل بڑی ہوئی ہے جو کاٹنا پڑ رہی ہے! اب صبر کے ساتھ اور تحمل کے ساتھ کاٹیے! اور آئندہ کے لیے سبق حاصل کیجیے کہ مذہب اور معاشرہ، دونوں، جن معاملات کو پردے میں رکھنا چاہتے ہیں، وہ پردے ہی میں رہنے چاہئیں!
کچھ بزرجمہر مغربی ملکوں کے سیاست دانوں کی مثالیں دے رہے ہیں کہ فلاں کا طلاق کامعاملہ اور فلاں کا معاشقے کا معاملہ اور فلاں کا فلاں معاملہ پبلک میں زیر بحث رہا۔ ان مثالوں سے یہ دلیل نکالی جاتی ہے کہ لیڈر کی ذاتی زندگی بھی عوام کی پراپرٹی ہوتی ہے! تو پھر یہ بھی تو بتائیے کہ آسٹریلیا کی سابق وزیر اعظم جولیا گلیئرڈ شوہر کے ساتھ نہیں بلکہ بوائے فرینڈ( کامن لا پارٹنر) کے ساتھ رہتی تھی! فرانس کے صدر کی سابقہ گرل فرینڈ کی کتاب ابھی ابھی منظرِ عام پر آئی ہے جس میں وہ ساری تفصیلات مکمل جزئیات کے ساتھ بیان کی گئی ہیں جو ناگفتہ بہ ہیں! مثالیں دینی ہیں تو پھر بدرجۂ اُتم دیجیے!
شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ وہ محاورہ جو ہمارے ہاں بہت استعمال ہوتا ہے، اصل میں نظامی کے ایک شعر کا تقریباً لفظی ترجمہ ہے۔ نظامی نے سکندر نامہ میں کہا ہے ؎
کلاغی تگِ کبک را گوش کرد
تگِ خویشتن را فراموش کرد
کوّا چلا ہنس کی چال، اپنی بھول گیا!

Saturday, November 07, 2015

کہانی محنت اور صبر کی چکی میں پستے رہنے کی

وفاقی وزارت برائے اوورسیز پاکستانیز کے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ بیرون ملک ملازمت کرنے والے پاکستانیوں کے مسائل حل کرے، بالخصوص وہ پاکستانی جو باہر محنت مزدوری کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے دوسرے ملکوں میں ’’کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی‘‘ مقرر کئے جاتے ہیں۔ اس وقت مختلف ملکوں میں کمیونٹی ویلفیئر اٹیچی کی 19 اسامیاں موجود ہیں۔ گزشتہ برس صورتِ حال یہ تھی کہ کچھ اسامیاں ان میں سے خالی تھیں اور کچھ مستقبل قریب میں خالی ہونا تھیں۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے ان اسامیوں کو پر کرنے کے لیے قواعد کے مطابق اخبارات میں اشتہار دے کر اہل سرکاری ملازموں کو مقابلے میں شرکت کی دعوت دی۔ 29 نومبر 2014ء کو تحریری امتحان ہوا جس میں 341 امیدواروں نے شرکت کی۔ یہ تحریری امتحان ’’نیشنل ٹیسٹنگ سروس‘‘ نے لیا جو ایک آزاد ادارہ ہے اور غیر جانب داری سے امتحان لے کر متعلقہ محکموں کو نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔ اووسیز پاکستانیز کی وزارت نے فیصلہ کیا کہ صرف ان کامیاب امیدواروں پر غور کیا جائے جنہوں نے تحریری امتحان میں 57 فیصد یا اس سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ اس معیار پر 102امیدوار پورے اترے۔ اب قواعد کی روسے ان امیدواروں کا، جو تحریری امتحان کے نتیجہ میں سرفہرست تھے، انٹرویو ’’ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی‘‘ نے لینا تھا۔ ہر وزارت کی اپنی ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی ہوتی ہے جو حکومت کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق تشکیل پاتی ہے۔ اس کمیٹی کی تشکیل یوں تھی:
سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز:چیئر مین
جوائنٹ سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز: ممبر
جوائنٹ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن: ممبر
ڈپٹی سیکرٹری متعلقہ وزارت: ممبر اور سیکرٹری کمیٹی
اس وقت کل 19 میں تین اسامیاں (جدہ، ابو ظہبی اور ایتھنز) میں خالی تھیں اور بھرے جانے کا انتظار کر رہی تھیں۔ چار اسامیاں (سیؤل، مسقط، ریاض اور دبئی میں) وہ تھیں جن پر مامور افسر اپنی میعاد پوری کر چکے تھے اور واپس آنے والے تھے۔ ان کے علاوہ چار اسامیاں (ریاض، بغداد، جدہ، بارسلونا) ایسی تھیں جو جون 2015ء میں خالی ہونا تھیں۔ یوں ڈیپارٹمنٹل سلیکشنکمیٹی نے گیارہ اسامیوں کے لیے امیدوار منتخب کرنے تھے۔ قاعدہ یہ تھا کہ ایک اسامی کے لیے کمیٹی تین امیدواروں کا چنائو کرے گی؛ چنانچہ کمیٹی نے گیارہ اسامیوں کے لیے 33 امیدوار منتخب کرنے تھے۔ کمیٹی نے انٹرویو کے لیے مندرجہ ذیل معیار مقرر کیا۔ یاد رہے، اس معیار کو اووسیز پاکستانیز کے وفاقی وزیر نے باقاعدہ منظور کیا۔ 
تحریری امتحان: 80 نمبر
سالانہ رپورٹیں: 10 نمبر
انٹرویو: 10 نمبر
کل نمبر:100 
اب یہ جو انٹرویو کے دس نمبر تھے، ان کی تقسیم یوں تھی۔
جنرل نالج:2 نمبر
متعلقہ مضمون: 2 نمبر
اسلامیات: 2نمبر
تجربہ: 4 نمبر
کل :10 نمبر
کمیٹی نے 10 فروری 2015ء سے 13 فروری تک چار دن انٹرویو لیے۔ 102 میں سے 90 امیدوار انٹرویو کے لیے آئے۔ تمام 90 امیدواروں کے نمبروں پر مشتمل فہرست تیار کی گئی۔
اب آخری مرحلہ ’’سپیشل سلیکشنبورڈ‘‘ کا تھا۔ حکومت کا قانون یہی تھا کہ ڈیپارٹمنٹل سلیکشن کمیٹی ہر اسامی کے لیے تین امیدوار چنے گی۔ پھر سپیشل سلیکشنبورڈ تینوں کا انٹرویو لے کر ایک امیدوار کو منتخب کرے گی۔ یوں سپیشل سلیکشن بورڈ نے گیارہ اسامیوں کے لیے 33 امیدواروں کا زبانی امتحان لے کر گیارہ افراد چننے تھے۔ حکومت نے سپیشل سلیکشن بورڈ کی تشکیل یوں کی تھی:
وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز: چیئرمین
سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن: ممبر
سیکرٹری امور خارجہ: ممبر
سیکرٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز: ممبر
ایم ڈی اوورسیز پاکستانیز فائونڈیشن: ممبر
جوائنٹ سیکرٹری متعلقہ وزارت: ممبر اور سیکرٹری بورڈ
گویا سپیشل سلیکشنبورڈ میں وفاقی وزیر سربراہ تھے اور تین وفاقی سیکرٹری بطور رکن شامل تھے۔
اس سپیشل سلیکشنبورڈ نے یہ سفارش بھی کی کہ جو چھ اسامیاں(کویت، دوحہ، دبئی1، مانچسٹر، میلان اور کوالالمپور میں) اپریل 2016ء میں خالی ہونا ہیں ان کے لیے بھی افرادی قوت اسی فہرست میں سے لی جائے۔ اس کی وجوہ اس بورڈ نے یہ دیں کہ چنائو کے مراحل وقت طلب ہیں۔ اشتہار، تحریری امتحان اور دوبار انٹرویو میں اتنا طویل عرصہ لگتا ہے کہ پہلے ہی اسامیاں ایک سال خالی رہیں! کام کا نقصان ہوا۔ پھر نیشنل ٹیسٹنگ سروس اور دوسرے مراحل پر زرکثیر حکومت کا الگ لگتا ہے۔ چنانچہ بورڈ نے مکمل اتفاق سے فیصلہ کیا ہے کہ اپریل 2016ء میں خالی ہونے والی اسامیوں کے لیے بھی افسر اسی فہرست سے نامزد کر دیئے جائیں۔سپیشل سلیکشن بورڈ نے مندرجہ ذیل سترہ افسروں کو منتخب کیا۔ عتیق الرحمن خان، سلمان افضل، فرخ علی، عمر سعید ملک، واصف ممتاز، فیصل رند، رانا شکیل اصغر، فضلِ حامد، سید حسن رضا، احمد معاذ، سرفراز درانی، احمد تیمور ناصر، محمود لطیف، وقاص احمد، محمد طاہر، ندیم احسن، ذوالفقار خان۔
بورڈ نے حسب قواعد متبادل سترہ امیدوار بھی منتخب کیے۔ اب آخری مرحلہ وزیراعظم کی منظوری کا تھا۔ چنانچہ سمری وزیراعظم کے دفترمیں 4 مارچ 2015ء کو بھیج دی گئی۔ یہ سمری پہلے وفاقی وزیر اوورسیز پاکستانیز نے منظور کی۔ پھر وفاقی سیکرٹری امور خارجہ نے منظور کی۔ پھر وفاقی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے منظور کی۔ یوں یہ سمری مارچ کے پہلے ہفتے میں وزیراعظم کے دفتر میں حاضر ہوگئی!
آپ نے دیکھا کہ اس سارے قصے میں چھ ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ اخبار میں اشتہار چھپا۔ درخواستیں وصول ہوئیں۔ دستاویزات ارسال کرنے کیلئے توسیع دی گئی۔ تحریری امتحان ایک آزاد خودمختار ادارے نے لیا۔ میرٹ لسٹ بنی۔ 57 فیصد سے زیادہ نمبر لینے والوں کے انٹرویو ہوئے۔ ہر چیز ریکارڈ پر آئی۔ وفاقی وزیر اور تین وفاقی سیکرٹریوں نے ان مدارج کی تکمیل میں حصہ لیا۔ آپ کا کیا خیال ہے، وزیراعظم کے دفتر کو اس کی منظوری یا عدم منظوری میں کتنا وقت لینا چاہیے تھا؟ ایک ہفتہ؟ دو ہفتے؟ چار ہفتے؟ دوماہ؟ تین ماہ؟ بس یہیں آ کر کہانی وہ موڑ مڑتی ہے جس کے بارے میں منیر نیازی نے سینے پر دو تھپڑ مار کر بین کیا تھا    ؎
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
وزیراعظم کے دفتر نے اس سمری کو پورے چھ ماہ اپنے پاس رکھا۔ اس عرصے میں کوئی اعتراض لگا نہ کوئی معلومات یا اطلاع حاصل کرنے کے لئے متعلقہ وزارت سے رابطہ کیا گیا۔ ذہن میں سوال اٹھتا ہے کہ اگر وزیراعظم کو اس سلسلے میں کچھ تحفظات تھے تو متعلقہ وفاقی وزیر اور تینوں وفاقی سیکرٹریوں کو بلاکر ڈسکس کرتے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ہاں، اس عرصہ میں متعلقہ وزارت یعنی اوورسیز پاکستانیز کا وفاقی سیکرٹری ضرور ریٹائر ہو کر گھر چلا گیا۔ متشرع شکل و صورت کے اس ’’خودسر‘‘ افسر کی عمومی شہرت ہی ایسی تھی! کسی کی غلط بات مانتا نہ تھا۔ جو کام بھی کرتا، میرٹ پر شفاف طریقے سے کرتا۔ موصوف کو خوشامد کے فن میں بھی دلچسپی نہ تھی!
چھ ماہ یعنی چوبیس ہفتوں کے بعد ،دن جن کے ایک سو اسی بنتے ہیں، وزیراعظم کے دفتر سے ایک افسر نے یہ سمری چار اعتراضات کمے ساتھ واپس کردی۔ پہلا اعتراض یہ کہ اشتہار میں سات اسامیاں تھیں جبکہ سمری میں سترہ اسامیوں کا ذکر ہے۔ اس اعتراض کا جواب سمری میں وفاقی وزیر اور تین وفاقی سیکرٹریوں نے پہلے ہی دے دیا تھا۔ ایک امتحان ہوا۔ میرٹ پر نوے پاکستانی امیدواروں کی میرٹ پر فہرست بنی۔ مستقبل قریب میں جو اسامیاں خالی ہو رہی ہیں، ان کے لئے اس فہرست میں سے کیوں نہ انتخاب کیا جائے؟ ان سارے مراحل پر مہینے لگے۔ لاکھوں روپے صرف ہوئے۔ دنیا بھر میں یہی ہوتا ہے۔ اس میں کوئی چیز قابل اعتراض نہیں!
دوسرا اعتراض یہ کیا گیا کہ کچھ سروس گروپوں کو جن کا ’’کمیونٹی بہبود‘‘ اور پبلک ریلیشنز سے کوئی تعلق نہیں، زیادہ نمبر کیوں دیئے گئے؟ کون سے سروس گروپ؟ بچے بچے کو معلوم ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں جو ریٹائرڈ افسر پیرانہ سالی اور ضعف جسم و دماغ کے ساتھ مسند نشین ہیں کس خاص گروپ سے تعلق رکھتے ہیں؟ یہ وہی گروپ ہے جس نے ہر حکومت کو یرغمال بنائے رکھا۔ جس نے ضلعی حکومتوں کو قتل کرکے اپنی ڈفلی دوبارہ بجانا شروع کردی۔ سوال یہ ہے کہ انکم ٹیکس، کسٹمز، آڈٹ اینڈاکائونٹس، پولیس اور آئی ایس آئی میں کام کرنے والے افسر کمیونٹی ویلفیئر کا کام کیوں نہیں کرسکتے؟ کیا یہ کوئی (باقی صفحہ 13پر)
راکٹ سائنس ہے؟ اور کیا ایک مخصوص گروپ کے اہلکار اس فن میں پی ایچ ڈی ہیں؟ سوال تو یہ بھی اٹھتا ہے کہ لگان جمع کرنے اور پٹواریوں کے ذریعے حکومت کرنے میں کمیونٹی ویلفیئر کا کیا کام ہے؟ سارا پاکستان جانتا ہے کہ کچہریوں میں کیا ہو رہا ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟ انتقال اراضی اور ریونیو کے دیگر شعبوں میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والوں کو انٹرویو میں کم نمبر کیوں ملے؟ ظاہر ہے کہ ایسا چند امیدواروں کے معاملے ہی میں ہوا ہوگا۔ اگر یہ اعتراض درست مان لیا جائے تو سی ایس ایس کے اب تک کے سارے امتحان باطل قرار پاتے ہیں۔ کیا کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس یہ بات مان سکتا ہے کہ تحریری امتحان میں زیادہ نمبر لینے والا ہر امیدوار انٹرویو میں بھی زیادہ نمبر لے؟ اگر ایسا ہے تو پھر انٹرویو کی ضرورت کیا ہے؟ زور قلم اور شے ہے، زور بیان اور شے۔ کتنے ہی ثقہ عالم، تقریر نہیں کرسکتے۔ کتنے ہی کم علم، زور بیان سے متاثر کر دیتے ہیں! کیا انٹرویو لینے ورالے، امیدوار کا تحریری رزلٹ دیکھ کر پہلے ہی طے کرلیں کہ اسے انٹرویو میں بھی اسی حساب سے نمبر دینے ہیں؟ تو پھر نسبت تناسب سے انٹرویو لینے بغیر ہی انٹرویو کے نمبر دے دینے چاہئیں!
چوتھا اعتراض دو امیدواروں کے ریکارڈ سے متعلق ہے۔ یہ بھی کوئی ایسا پیچیدہ نکتہ نہیں تھا کہ چھ ماہ کا عرصہ لگایا جاتا!
سنا ہے کہ ان اعتراضات کے حوالے سے نئے سیکرٹری صاحب نے یہ تجویز پیش کی ہے کہ سارا کام نئے سرے سے، دوبارہ کرلیتے ہیں۔ یعنی پھراشتہار چھپے گا پھر تحریری امتحان ہوگا، پھر انٹرویو ہوں گے۔ پہلے ڈیپارٹمنٹل کمیٹی انٹرویو لے گی۔ پھر سپیشل سلیکشن بورڈ وفاقی وزیر اور تین چار وفاقی سیکرٹری پھر شہادت دیں گے کہ انہوں نے درست کام کیا ہے۔ پھر سمری اوپر جائے گی!
لطیفے کا آخری حصہ یہ ہے کہ پھر وہی ہوگا جو لدھیانے میں ہوتا آیا ہے۔ بیرون ملک تعیناتیاں اسی طرح ہوں گی جیسے گزشتہ کئی عشروں سے ہوتی آئی ہیں! محنت کرنے والے دیانتدار لیکن روابط میں کمزور سرکاری افسروں کو مصطفی زیدی کا یہ شعر پڑھ کر، محنت اور صبر کی چکی میں پستے رہنے کا عمل جاری رکھنا چاہیے؎
ابھی تاروں سے کھیلو، چاند کی کرنوں سے اٹھلائو
ملے گی اس کے چہرے کی سحر آہستہ آہستہ!

 

powered by worldwanders.com