برسٹل کا شہر لندن سے تقریباً ایک سو بیس میل کے فاصلے پر ہے۔ برسٹل سے بارہ میل دور، 1632ء میں، گھاس پھونس کی چھت سے بنی ہوئی ایک جھونپڑی میں جان لاک پیدا ہوا۔ جان لاک کو عام طور پر جدید لبرل ازم کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ اُس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ حکومت کے جواز کے لیے عوام کی مرضی لازم ہے، تا کہ حکمران یہ نہ کہتا پھرے کہ اسے قدرت نے یا مافوق الفطرت طاقتوں نے حاکم بنایا ہے! جان لاک نے اس پر بھی زور دیا کہ ضمیر کی آزادی انسان کا بنیادی اور فطری حق ہے، کسی حکومت کی اتھارٹی اسے متاثر نہیں کر سکتی۔ اُس کے خیال میں مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا بھی لبرل ازم کا حصہ تھا!
غور کرنے کی بات ہے کہ اگر یہ سب کچھ لبرل ازم ہے تو جان لاک تو سترھویں صدی میں پیدا ہوا، یہ سب کچھ اُس سے پہلے اسلام دنیا کے سامنے پیش کر چکا تھا! خلفائے راشدین عوام کی مرضی سے مسند نشین ہوتے تھے۔ خلیفہ برسرِ عام کہتا تھا کہ میں ٹیڑھا ہو جائوں تو مجھے سیدھا کر دو! رہی مذہبی رواداری اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کو برداشت کرنا، تو اس کا مؤثر ترین اظہار اسلام ہی نے کیا۔
کیا مدینہ تشریف آوری کے بعد خدا کے پیغمبرﷺ نے وہاں رہنے والے یہودیوں اور غیر مسلموں سے کہا کہ سب مسلمان ہو جائو ورنہ تمہیں قتل کر دیا جائے گا؟ حضرت عمر فاروقؓ نے بڑے پادری کی دعوت کے باوجود چرچ میں نماز پڑھنے سے انکار کر دیا کہ اگر آج انہوں نے یہاں نماز ادا کی تو کل مسلمان ان کی تقلید کریں گے اور اگر انہوں نے ایسا کیا تو عیسائیوں کو ان کے گرجائوں سے نکال دیں گے۔ ’’دین میں جبر نہیں‘‘ کے اصول کا عملی مظاہرہ یہی تھا۔ اس سے پہلے خلیفۂ اول نے لشکرِ اسامہ روانہ کیا تو دس نصیحتیں کیں جن میں سے دو یہ تھیں:
تمہارا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہو گا جو اپنے آپ کو عبادت کے لیے وقف کرتے ہوئے گرجوں اور عبادت خانوں میں بیٹھے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کر رہے ہیں، انہیں اپنے حال پر چھوڑ دینا، ان سے کوئی تعرض نہ کرنا!
تمہیں ایسے لوگوں کے پاس جانے کا موقع ملے گا جو تمہارے لیے برتنوں میں ڈال کر مختلف قسم کے کھانے پیش کریں گے۔ تمہارا فرض ہے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کر دو!
اسی مذہبی آزادی کا جان لاک نے ذکر کیا تو وہ لبرل ازم کا باپ قرار دیا گیا! اگر لبرل ازم یہ ہے تو پھر جان لاک اس کا بانی نہیں ہو سکتا! انسانوں پر انسانوں کی رضا مندی سے حکومت کرنا اور دوسرے مذاہب کو برداشت کرنا اسلام اس سے بہت پہلے سکھا چکا تھا اور کر کے دکھا بھی چکا تھا!
لبرل ازم، لبرل، لبرٹی اور اس کے ساتھ کے تمام الفاظ در اصل لاطینی لفظ
Liber
سے نکلے ہیں جس کا لغوی معنی ’’آزاد‘‘ ہے۔ یہ لفظ سب سے پہلے 1375ء میں تعلیم کے سلسلے میں استعمال ہوا۔ ’’لبرل تعلیم‘‘ یعنی وہ تعلیم جو ایک مردِ حُر کے شایانِ شان ہو!
4 نومبر کو وزیر اعظم نواز شریف نے سرمایہ کاری کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نجی شعبہ معیشت کا انجن ہونا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مارکیٹ سے باہر رہے اور صرف ریگولیٹر کا کردار ادا کرے۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ عوام کا مستقبل جمہوری اور لبرل پاکستان میں ہے۔ بس اس پر صفِ ماتم بچھ گئی۔ سیاپا پڑ گیا۔ گھنٹیاں بج اٹھیں۔ ملک چاروں طرف سے خطرات میں گھر گیا۔ بابائے طالبان مولانا سمیع الحق نے اسے بغاوت قرار دیا اور چیف جسٹس سے مطالبہ کیا کہ اس باغیانہ بیان کا فوراً نوٹس لیں اور وزیراعظم کے خلاف آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ تقریریں کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے والی شخصیت جناب سراج الحق نے خبردار کیا کہ لبرل پاکستان کی باتیں آئینِ پاکستان سے بے وفائی اور غداری کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ کہ آئینِ پاکستان میں لبرل پاکستان کی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ وہ ملک کو لبرل نہیں بننے دیں گے!
اب ان عالی قدر حضرات سے یہ پوچھنے کی جسارت کون کرے کہ لبرل سے وزیر اعظم کی کیا مراد تھی اور یہ صاحبان اُس سے کیا مطلب لے رہے ہیں! غداری کا فتویٰ لگانے سے پہلے وزیر اعظم سے یہ تو پوچھ لیا جاتا کہ لبرل پاکستان کی جو تصویر ان کے ذہن میں ہے، کیا ہے!
اللہ کے پیغمبرؐ نے جب غلاموں کو آقائوں کے ساتھ کھڑا کیا، انہیں آزاد کرنا اور کرانا شروع کر دیا، عورتوں کی رضا مندی کے بغیر ان کی شادی کو غلط قرار دیا، ایامِ خاص میں عورتوں کو اچھوت بنانے سے منع کیا، بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی ممانعت فرما دی تو یہ لبرل ازم نہیں تو کیا ہے؟ مصر کے اٹھارہ مفتیوں نے امام ابن تیمیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا۔ شاہ ولی اللہ، سید احمد بریلوی، شاہ اسماعیل شہید، سرسید احمد خان، محمد بن عبدالوہاب سب کافر قرار دیئے گئے۔ قائد اعظم کو کافرِ اعظم کہا گیا۔ وہ تو غنیمت ہے کہ وزیر اعظم پر محض غداری کا فتویٰ لگانے پر اکتفا کی گئی، ورنہ مزید آگے بڑھنے سے کون روک سکتا تھا!
مولانا مودودی نے داڑھی کی لمبائی پر، جرابوں پر مسح کرنے پر اور کئی دوسرے مسائل پر جو مؤقف اپنایا، اس میں انہیں گمراہ، جدیدی اور گستاخ قرار دیا گیا۔ قرآن کی تفسیر اپنی رائے سے کرنے کا الزام لگا۔ تبلیغی جماعت کے بطلِ جلیل حضرت مولانا زکریا نے باقاعدہ فتویٰ صادر فرمایا۔ جس مدرسہ میں کھڑے ہو کر آج مولانا سراج الحق نے وزیر اعظم پر غداری کا الزام عائد کیا ہے، اُس مدرسہ کے علماء کرام اور طلبہ سے یہ تو پوچھ لیتے کہ مولانا مودودی کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے!
پارسیوں کے ایک اجتماع میں وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ اگر مسلمان غیر مسلم پر ظلم کرے گا تو وہ ظالم مسلمان کا ساتھ نہیں دیں گے۔ آج بدقسمتی سے مسلمانوں کی اکثریت انصاف کے اس بنیادی اصول سے منحرف ہو چکی ہے! ایک سوڈانی ڈاکٹر بتا رہا تھا کہ اُس نے مشرق وسطیٰ کے ایک ہسپتال میں ایک عرب کو نرس کے ساتھ زیادتی کرنے سے روکا تو عرب نے دلیل یہ دی کہ نرس غیر مسلم ہے، تم اُس کی حمایت کیوں کر رہے ہو؟ ایک اور واقعہ کا یہ کالم نگار عینی شاہد ہے۔ دارالحکومت کے ایک مکان کی زیریں منزل میں ایک مصری پروفیسر رہتا تھا جو انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ بالائی منزل پر ایک اور خاندان رہتا تھا۔ بالائی منزل والوں کی مسیحی ملازمہ نے کپڑے دھوئے اور تار پر لٹکانے سے پہلے انہیں جھاڑا۔ کچھ چھینٹے نچلی منزل میں کھڑے ہوئے مصری پروفیسر پر پڑ گئے۔ ملازمہ جاتے ہوئے وہاں سے گزری تو پروفیسر نے اُسے مارا پیٹا۔ وہ تھانے پہنچ گئی۔ تھانے والوں نے پروفیسر کو بلا لیا۔ پروفیسر نے ایک پاکستانی دوست سے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ مسلمان ہے اور افضل ہے مگر تھانے والے ایک غیر مسلم عورت کی شکایت کو اہمیت دے رہے ہیں! یہ ہے مسلمانوں کا عمومی مائنڈ سیٹ! اس سے یہ بھی اندازہ لگائیے کہ اسلامی یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے کتنے انصاف پسند ہیں! اور وہ آگے اپنے شاگردوں میں کس قسم کی ذہنیت پیدا کر رہے ہیں!
یقینا جناب سراج الحق جیسے بالغ نظر اور انصاف پسند متوازن سیاسی رہنما مذہبی رواداری کے حق میں ہیں! وہ کبھی تسلیم نہیں کریں گے کہ غیر مسلموں سے نفرت کرنی چاہئے یا انہیں زبردستی مسلمان بنانا چاہیے۔ جیسا کہ سندھ سے آئے دن خبریں آتی رہتی ہیں، جھگڑا اصطلاح کا ہے! ایک پاکستانی یورپ پہنچا اور کسی عورت سے راستہ پوچھا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ اس پر پاکستانی سمجھا کہ وہ آتے ہی ’’کامیاب‘‘ ہو گیا ہے! شاید ’’ہسّی تے پھسّی‘‘ جیسی عامیانہ کہاوت وہیں سے نکلی۔ اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہاں ہر رہگیر دوسرے کو ہیلو ہائے کرتا ہے اور بات کرتے ہوئے مسکراتا بھی ہے! شاید ہم لبرل ازم سے اس لیے خائف ہیں کہ ہمارے ذہن میں اس کا مفہوم کچھ اور ہی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ لبرل ازم سے مراد گانا بجانا اور پینا پلانا ہے! اگر یہی مفہوم ہوتا تو یہ سب ہمارے ہاں لبرل ازم کے بغیر ہی ہو رہا ہے! اُس کے باوجود ہم لبرل نہیں! ہم اس قدر تنگ نظر ہیں کہ غیر مسلم ملازموں کے لیے گھروں میں کھانے پینے کے برتن الگ رکھتے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ کو ایک یہودی عورت نے کھانے کی دعوت دی۔ آپ چند صحابہ کے ہمراہ وہاں تشریف لے گئے۔ ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ آپؐ کا ایک ایک عمل ہماری ہدایت کے لیے محفوظ کر دیا گیا ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپؐ اور آپؐ کے ساتھی کھانے کے اپنے برتن ساتھ لے کر گئے تھے! آج پانچ کروڑ سے زیادہ مسلمان ترقی یافتہ ممالک میں رہ رہے ہیں، اور رات دن غیر مسلموں کے ریستورانوں میں کھانے کھا رہے ہیں۔ بے شمار حلال ریستورانوں کے مالک اور ان میں کام کرنے والے ملازم، غیر مسلم ہیں۔ علماء کرام کے اعزاز میں دعوتیں بھی انہی ریستورانوں میں منعقد ہوتی ہیں! عقیدت مندوں کو کوکا کولا کا بائیکاٹ کرنے کا حکم ملتا ہے مگر حضرت صاحب خود یہودیوں اور نصرانیوں کے بنے ہوئے موبائل فون، کار، جہاز اور انٹرنیٹ استعمال کئے جاتے ہیں۔ اقبال نے کہا تھا: ؎
ہم کو تو میسر نہیں مٹی کا دیا بھی
گھر پیر کا بجلی کے چراغوں سے ہے روشن
میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد
زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن!
ہاں! یاد آیا کہ اقبال پر بھی کفر کا فتویٰ لگا تھا! لبرل جو تھا!
No comments:
Post a Comment