حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رخصت ہوئے 79 برس ہو چکے تھے۔ پومپی آئی ایک ہنستا بستا شہر تھا۔ سمندر کے کنارے آباد! بیس ہزار کی آبادی تھی۔ پانی ہر گھر میں ایک مربوط نظام کے تحت پہنچتا تھا۔ شہر میں تھیٹر بھی تھا اور جمنیزیم بھی۔ بندرگاہ مصروف رہتی تھی۔ دور دور سے سیاح آتے تھے۔ امرا تعطیلات یہیں گزارتے تھے۔
اگست کی ایک دوپہر تھی جب لوگوں نے ایک عجیب و غریب، کالے رنگ کے بادل کو افق سے اٹھتے اور آسمان کو ڈھانپتے دیکھا۔ شہر کے پڑوس میں جو پہاڑ تھا، اس کی چوٹی پھٹ گئی تھی۔ ٹنوں کے حساب سے گرم، ابلتا لاوا اچھل اچھل کر، کوسوں دور تک لوہے کے گرم ٹکڑوں کی طرح، ہر طرف گر رہا تھا۔ گندھک بھری گیس ہوا میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دم گھٹ رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے اس زمانے میں کسی کو خط لکھا جو بعد میں ملا۔ کوئی ماں باپ کو پکار رہا تھا، کوئی بچوں کو اور کوئی بیوی کو! پھر مکان گرنے لگے اور گلیاں ملبے سے اٹ گئیں۔ ایک ہزار سات سو سال شہر مٹی کے نیچے دفن رہا، یہاں تک کہ 1748ء میں اس کی کھدائی شروع ہوئی۔ گزشتہ پونے تین سو برس سے یہ عبرت سرائے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ پچیس لاکھ افراد ہر سال یہاں آتے ہیں۔
آج کا مشہور اطالوی شہر نیپلز اسی جگہ آباد ہے۔ نومبر 1980ء میں یہاں ایک اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت یہ کالم نگار نیپلز ہی میں تھا۔ ہم شام کا کھانا کھا رہے تھے جب نویں منزل پر واقع ہمارے اپارٹمنٹ کے فرش پر جیسے گڑھا سا بن گیا۔ سیڑھیاں اترتے، کلمہ پڑھتے، نیچے، ایک بڑے میدان میں پہنچے تو وہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری، ہم میں اور مقامی لوگوں میں ایک فرق تو یہ تھا کہ جھٹکا آنے پر زمین کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے آنے پر ہم کلمہ پڑھتے اور وہ آپس میں باتیں کرتے۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد ہم ایشیائی، عرب اور افریقی، زمین پر بیٹھ گئے جب کہ وہ ساری رات کھڑے رہے اور آگ جلا جلا کر میدان کو گرم کرتے رہے۔ ہمارا ایک سوڈانی دوست، جو اپنی تھائی گرل فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کو پیدل واپس پہنچا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم منہدم ہو چکا تھا۔ جب بھی زور کا آفٹر شاک آتا اور ہم کلمہ پڑھتے، وہ غصے سے اونچی آواز میں کہتا
Very bad. I have not come here to die.
اور ہم ہنس پڑتے۔
صرف تین دن بعد وہ وسیع و عریض میدان متاثرین کی آباد کاری سے پُر ہو چکا تھا۔ پکنک پر جاتے وقت گاڑیوں کے پیچھے جو ڈبہ نما گھر بندھے ہوئے ہیں اور جنہیں ’’کاروان‘‘ کہا جاتا ہے، میدان میں ترتیب سے رکھ دیئے گئے تھے۔ ہر کاروان میں ایک خاندان کو آباد کیا گیا تھا۔ ساتھ باتھ روم بنائے گئے۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی وجود میں آ گیا۔ جب تک ان متاثرین کے مکان دوبارہ نہ بن گئے، یہ یہیں رہے اور اپنی ملازمتیں اور کاروبار معمول کے مطابق کرتے رہے۔ تمام متاثرہ شہروں اور قصبوں میں ایسا ہی ہوا۔
سب سے زیادہ زلزلے غالباً جاپان میں آتے ہیں۔ جاپانی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کارخانوں کی تعمیر زلزلوں کے خطرات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ عمارت کی بنیاد اس طرح رکھی جاتی ہے کہ عمارت میں لچک ہو اور زلزلے کا جھٹکا آنے پر وہ جھول سکے۔ ہر جاپانی سکول میں زلزلے کا سامنا کرنے کے لئے ہر ماہ مشقیں کی جاتی ہیں۔ الا رم بجتے ہیں، بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ میز کے نیچے بیٹھتے وقت سر پہلے اندر لے جانا ہے اور ٹانگیں بعد میں۔ میدان سے پناہ گاہ کو جاتے وقت بچے قطاروں میں جاتے ہیں۔ زلزلے کے بعد بچے سکول کے احاطے ہی میں رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی بڑا آ کر انہیں ان کے گھروں میں لے جائے۔ اگر ان کے ماں باپ نہ مل رہے ہوں تو ایک ایک بچے کو کسی قریبی رشتہ دار کی تحویل میں دیا جاتا ہے۔ جاپان میں 1995ء میں جو زلزلہ آیا، اس میں ساڑھے چھ ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس زلزلے کے بعد جاپانیوں نے ایک تفصیلی پروگرام بنایا۔ پوری قوم نے مشق کی۔ پھر جب 2011ء میں ایک اور قیامت خیز
زلزلہ آیا جس کی بغل میں تباہی مچانے والا سونامی بھی تھا تو جاپانی قوم نے ڈسپلن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ 72 گھنٹوں کے اندر اندر جاپانی حکومت نے ہزاروں تربیت یافتہ افراد، ملبہ ہٹانے اور لوگوں کو بچانے کے لیے مامور کئے۔ تمام سرکاری ادارے اور محکمے ایک دوسرے سے مربوط ہو گئے۔ فنڈ جاری کر دیئے گئے۔ عوام کا حکومت پر بے پناہ اعتماد تھا۔ حکومت بھی اس اعتماد پر پوری اتری۔ دنیا نے دیکھا کہ بھوکے پیاسے متاثرین قطاروں میں کھڑے اپنا نہیں، دوسروں کا خیال رکھ رہے تھے۔ کسی نے کھانا یا امدادی سامان حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کا مظاہرہ کیا، نہ قطار توڑی!
اس قسم کی تربیت مشق اور ایثار کا ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی تصور نہیں! 2005ء کے زلزلے میں ایسی خبریں عام سنی اور پڑھی گئیں کہ ٹرکوں کے ٹرک امدادی سامان سے بھرے ہوئے فلاں نے اپنے گائوں بھیج دیئے اور فلاں نے غائب کر دیئے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی سے گلگت تک پوری قوم رضاکارانہ طور پر حرکت میں آ گئی مگر تربیت کی کمی، ناخواندگی، لالچ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بد انتظامی نے قوم کے جذبے کو کسی منزل پر نہ پہنچنے دیا۔ یہ کالم نگار اس صورت حال کا عینی شاہد ہے۔ زلزلہ زدگان کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ’’ایرا‘‘ کا ادارہ بنایا گیا۔ اس ادارے نے اپنے ملازمین کو بھاری الائونس دیئے۔ گاڑیاں خریدنے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ من پسند افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ مگر کرنے کا کام کم ہی ہوا۔ ہمارے گھر میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک پرانا خدمت گار رہتا تھا۔ اس کا مکان زلزلے سے گر گیا۔ امداد کی پہلی قسط اسے 75 ہزار روپے کی ملی۔ دوسری قسط کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی۔ میں اسے لے کر کئی بار ایرا کے دفتر گیا۔ ایک دو بڑے افسروں سے اچھی خاصی جان پہچان تھی، مگر برس گزرتے رہے، اسے دوسری قسط نہ ملی! دروغ بر گردنِ راوی، اس کا کہنا یہ تھا اور وہ وثوق سے اور اصرار سے کہتا تھا کہ کام مٹھی گرم کرنے سے ہوتا ہے!
کل جب زلزلہ آیا تو ٹیلی ویژن پر برادرم رئوف کلاسرا رونا رو رہے تھے کہ زیادہ اموات مکانات گرنے سے ہوتی ہیں! یہی حقیقت ہے۔ ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ مکان بناتے وقت عقل اور اعتدال سے ہر شخص پرہیز کرتا ہے۔ ایک تو مکان کا نقشہ بناتے وقت یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ پوتے اور نواسے بھی اسی میں رہیں گے۔ بے شمار کمرے جن کے سائز احمقانہ طور پر بڑے ہوتے ہیں اور جو سردیوں میں گرم ہو سکتے ہیں نہ گرمیوں میں ٹھنڈے۔ دنیا کے عقل مند ملکوں میں گھر بناتے وقت 14x12 کا کمرہ ایک معقول مناسب کمرہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں نامناسب حد تک بڑے بیڈ روم کو امارت اور شان و شوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک، ہر جگہ اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے کے بجائے لکڑی اور کم وزن والے میٹیریل پر زور دیا جاتا ہے۔ چار سے چھ ماہ تک کے عرصہ میں ایک گھر تیار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ عرصہ ڈیڑھ سال سے کم نہیں! اس ڈیڑھ سال کے دوران مکان بنانے والے بدبخت کو شوگر، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ بھی نصف درجن عارضے لاحق ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہوتا ہے کہ ملک میں ہر شخص بددیانت، جھوٹا اور وعدہ خلاف ہے! پھر وہ قرضے کی قسطیں ادا کرنے لگ پڑتا ہے۔ بچے کہیں اور، دوسرے شہر، یا دوسرے ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے گھر کے درو دیوار کو وہ دیکھتا ہے، کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے۔ زلزلہ آئے تو ہزاروں من سریا، کنکریٹ اور اینٹیں تباہی کا پیغام بن کر سر پر گرتی ہیں!
ہر سال سیلاب آتا ہے۔ ابھی تک ہم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ہر سال جو کچھ ہوتا ہے، دنیا اس پر ہنستی ہے! کیا ہر دس سال بعد آنے والے زلزلے کا سامنا کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو منظم کر سکیں گے؟ ہمارا اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ جھٹکا آنے پر ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی سو جاتے ہیں! شاعر نے جیسے ہمارے ہی لیے کہا تھا ؎
ذرا سو لیں، ثمود و عاد بھی سوئے تھے آخر
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
اگست کی ایک دوپہر تھی جب لوگوں نے ایک عجیب و غریب، کالے رنگ کے بادل کو افق سے اٹھتے اور آسمان کو ڈھانپتے دیکھا۔ شہر کے پڑوس میں جو پہاڑ تھا، اس کی چوٹی پھٹ گئی تھی۔ ٹنوں کے حساب سے گرم، ابلتا لاوا اچھل اچھل کر، کوسوں دور تک لوہے کے گرم ٹکڑوں کی طرح، ہر طرف گر رہا تھا۔ گندھک بھری گیس ہوا میں پھیل رہی تھی۔ لوگوں کے دم گھٹ رہے تھے۔ ایک عینی شاہد نے اس زمانے میں کسی کو خط لکھا جو بعد میں ملا۔ کوئی ماں باپ کو پکار رہا تھا، کوئی بچوں کو اور کوئی بیوی کو! پھر مکان گرنے لگے اور گلیاں ملبے سے اٹ گئیں۔ ایک ہزار سات سو سال شہر مٹی کے نیچے دفن رہا، یہاں تک کہ 1748ء میں اس کی کھدائی شروع ہوئی۔ گزشتہ پونے تین سو برس سے یہ عبرت سرائے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے۔ پچیس لاکھ افراد ہر سال یہاں آتے ہیں۔
آج کا مشہور اطالوی شہر نیپلز اسی جگہ آباد ہے۔ نومبر 1980ء میں یہاں ایک اور بڑا زلزلہ آیا۔ اس وقت یہ کالم نگار نیپلز ہی میں تھا۔ ہم شام کا کھانا کھا رہے تھے جب نویں منزل پر واقع ہمارے اپارٹمنٹ کے فرش پر جیسے گڑھا سا بن گیا۔ سیڑھیاں اترتے، کلمہ پڑھتے، نیچے، ایک بڑے میدان میں پہنچے تو وہ لوگوں سے بھر چکا تھا۔ وہ رات ہم نے وہیں گزاری، ہم میں اور مقامی لوگوں میں ایک فرق تو یہ تھا کہ جھٹکا آنے پر زمین کے اوپر اٹھنے اور پھر نیچے آنے پر ہم کلمہ پڑھتے اور وہ آپس میں باتیں کرتے۔ دوسرا فرق یہ تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد ہم ایشیائی، عرب اور افریقی، زمین پر بیٹھ گئے جب کہ وہ ساری رات کھڑے رہے اور آگ جلا جلا کر میدان کو گرم کرتے رہے۔ ہمارا ایک سوڈانی دوست، جو اپنی تھائی گرل فرینڈ کے ساتھ فلم دیکھنے گیا ہوا تھا۔ آدھی رات کو پیدل واپس پہنچا کیونکہ پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم منہدم ہو چکا تھا۔ جب بھی زور کا آفٹر شاک آتا اور ہم کلمہ پڑھتے، وہ غصے سے اونچی آواز میں کہتا
Very bad. I have not come here to die.
اور ہم ہنس پڑتے۔
صرف تین دن بعد وہ وسیع و عریض میدان متاثرین کی آباد کاری سے پُر ہو چکا تھا۔ پکنک پر جاتے وقت گاڑیوں کے پیچھے جو ڈبہ نما گھر بندھے ہوئے ہیں اور جنہیں ’’کاروان‘‘ کہا جاتا ہے، میدان میں ترتیب سے رکھ دیئے گئے تھے۔ ہر کاروان میں ایک خاندان کو آباد کیا گیا تھا۔ ساتھ باتھ روم بنائے گئے۔ ایک چھوٹا سا بازار بھی وجود میں آ گیا۔ جب تک ان متاثرین کے مکان دوبارہ نہ بن گئے، یہ یہیں رہے اور اپنی ملازمتیں اور کاروبار معمول کے مطابق کرتے رہے۔ تمام متاثرہ شہروں اور قصبوں میں ایسا ہی ہوا۔
سب سے زیادہ زلزلے غالباً جاپان میں آتے ہیں۔ جاپانی گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، کارخانوں کی تعمیر زلزلوں کے خطرات کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں۔ عمارت کی بنیاد اس طرح رکھی جاتی ہے کہ عمارت میں لچک ہو اور زلزلے کا جھٹکا آنے پر وہ جھول سکے۔ ہر جاپانی سکول میں زلزلے کا سامنا کرنے کے لئے ہر ماہ مشقیں کی جاتی ہیں۔ الا رم بجتے ہیں، بچوں کو سکھایا جاتا ہے کہ میز کے نیچے بیٹھتے وقت سر پہلے اندر لے جانا ہے اور ٹانگیں بعد میں۔ میدان سے پناہ گاہ کو جاتے وقت بچے قطاروں میں جاتے ہیں۔ زلزلے کے بعد بچے سکول کے احاطے ہی میں رہتے ہیں تاوقتیکہ کوئی بڑا آ کر انہیں ان کے گھروں میں لے جائے۔ اگر ان کے ماں باپ نہ مل رہے ہوں تو ایک ایک بچے کو کسی قریبی رشتہ دار کی تحویل میں دیا جاتا ہے۔ جاپان میں 1995ء میں جو زلزلہ آیا، اس میں ساڑھے چھ ہزار افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس زلزلے کے بعد جاپانیوں نے ایک تفصیلی پروگرام بنایا۔ پوری قوم نے مشق کی۔ پھر جب 2011ء میں ایک اور قیامت خیز
زلزلہ آیا جس کی بغل میں تباہی مچانے والا سونامی بھی تھا تو جاپانی قوم نے ڈسپلن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ دنیا حیران رہ گئی۔ 72 گھنٹوں کے اندر اندر جاپانی حکومت نے ہزاروں تربیت یافتہ افراد، ملبہ ہٹانے اور لوگوں کو بچانے کے لیے مامور کئے۔ تمام سرکاری ادارے اور محکمے ایک دوسرے سے مربوط ہو گئے۔ فنڈ جاری کر دیئے گئے۔ عوام کا حکومت پر بے پناہ اعتماد تھا۔ حکومت بھی اس اعتماد پر پوری اتری۔ دنیا نے دیکھا کہ بھوکے پیاسے متاثرین قطاروں میں کھڑے اپنا نہیں، دوسروں کا خیال رکھ رہے تھے۔ کسی نے کھانا یا امدادی سامان حاصل کرنے کے لیے چھینا جھپٹی کا مظاہرہ کیا، نہ قطار توڑی!
اس قسم کی تربیت مشق اور ایثار کا ہمارے ہاں بدقسمتی سے کوئی تصور نہیں! 2005ء کے زلزلے میں ایسی خبریں عام سنی اور پڑھی گئیں کہ ٹرکوں کے ٹرک امدادی سامان سے بھرے ہوئے فلاں نے اپنے گائوں بھیج دیئے اور فلاں نے غائب کر دیئے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی سے گلگت تک پوری قوم رضاکارانہ طور پر حرکت میں آ گئی مگر تربیت کی کمی، ناخواندگی، لالچ، کرپشن اور سب سے بڑھ کر بد انتظامی نے قوم کے جذبے کو کسی منزل پر نہ پہنچنے دیا۔ یہ کالم نگار اس صورت حال کا عینی شاہد ہے۔ زلزلہ زدگان کو مدد بہم پہنچانے کے لیے ’’ایرا‘‘ کا ادارہ بنایا گیا۔ اس ادارے نے اپنے ملازمین کو بھاری الائونس دیئے۔ گاڑیاں خریدنے پر بھرپور توجہ دی گئی۔ من پسند افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاری تنخواہوں پر رکھا گیا۔ مگر کرنے کا کام کم ہی ہوا۔ ہمارے گھر میں آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والا ایک پرانا خدمت گار رہتا تھا۔ اس کا مکان زلزلے سے گر گیا۔ امداد کی پہلی قسط اسے 75 ہزار روپے کی ملی۔ دوسری قسط کے لیے بہت دوڑ دھوپ کی۔ میں اسے لے کر کئی بار ایرا کے دفتر گیا۔ ایک دو بڑے افسروں سے اچھی خاصی جان پہچان تھی، مگر برس گزرتے رہے، اسے دوسری قسط نہ ملی! دروغ بر گردنِ راوی، اس کا کہنا یہ تھا اور وہ وثوق سے اور اصرار سے کہتا تھا کہ کام مٹھی گرم کرنے سے ہوتا ہے!
کل جب زلزلہ آیا تو ٹیلی ویژن پر برادرم رئوف کلاسرا رونا رو رہے تھے کہ زیادہ اموات مکانات گرنے سے ہوتی ہیں! یہی حقیقت ہے۔ ہماری قومی بدقسمتی یہ ہے کہ مکان بناتے وقت عقل اور اعتدال سے ہر شخص پرہیز کرتا ہے۔ ایک تو مکان کا نقشہ بناتے وقت یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ پوتے اور نواسے بھی اسی میں رہیں گے۔ بے شمار کمرے جن کے سائز احمقانہ طور پر بڑے ہوتے ہیں اور جو سردیوں میں گرم ہو سکتے ہیں نہ گرمیوں میں ٹھنڈے۔ دنیا کے عقل مند ملکوں میں گھر بناتے وقت 14x12 کا کمرہ ایک معقول مناسب کمرہ سمجھا جاتا ہے، مگر یہاں نامناسب حد تک بڑے بیڈ روم کو امارت اور شان و شوکت کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ سے لے کر نیوزی لینڈ تک، ہر جگہ اینٹوں، سیمنٹ اور لوہے کے بجائے لکڑی اور کم وزن والے میٹیریل پر زور دیا جاتا ہے۔ چار سے چھ ماہ تک کے عرصہ میں ایک گھر تیار ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں یہ عرصہ ڈیڑھ سال سے کم نہیں! اس ڈیڑھ سال کے دوران مکان بنانے والے بدبخت کو شوگر، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ بھی نصف درجن عارضے لاحق ہو چکے ہوتے ہیں اور وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ چکا ہوتا ہے کہ ملک میں ہر شخص بددیانت، جھوٹا اور وعدہ خلاف ہے! پھر وہ قرضے کی قسطیں ادا کرنے لگ پڑتا ہے۔ بچے کہیں اور، دوسرے شہر، یا دوسرے ملک میں رہ رہے ہوتے ہیں۔ اتنے بڑے گھر کے درو دیوار کو وہ دیکھتا ہے، کبھی روتا ہے اور کبھی ہنستا ہے۔ زلزلہ آئے تو ہزاروں من سریا، کنکریٹ اور اینٹیں تباہی کا پیغام بن کر سر پر گرتی ہیں!
ہر سال سیلاب آتا ہے۔ ابھی تک ہم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ ہر سال جو کچھ ہوتا ہے، دنیا اس پر ہنستی ہے! کیا ہر دس سال بعد آنے والے زلزلے کا سامنا کرنے کے لیے ہم اپنے آپ کو منظم کر سکیں گے؟ ہمارا اب تک کا ریکارڈ تو یہی بتاتا ہے کہ جھٹکا آنے پر ہڑبڑا کر اٹھتے ہیں اور پھر جلد ہی سو جاتے ہیں! شاعر نے جیسے ہمارے ہی لیے کہا تھا ؎
ذرا سو لیں، ثمود و عاد بھی سوئے تھے آخر
زمیں جاگی تو اس کی ایک انگڑائی بہت ہے
No comments:
Post a Comment