Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Monday, October 19, 2015

شرم کی باریک سی جھِلّی

یہ کیسے لوگ ہیں! ان کی حاملہ عورتیں بھوک سے نڈھال ہیں! ان کے بچوں کی پسلیاں دور سے گِنی جا سکتی ہیں! مگر ان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ گائے کا گوشت کوئی نہ کھائے! شرم کی باریک سی جھلی چہرے سے ایک بار اتر جائے تو دوبارہ نہیں چڑھتی۔ پھر بے شرمی کا کوئی کنارہ نہیں نظر آتا۔ ہریانہ کا وزیر اعلیٰ منوہر لال کہتا ہے کہ مسلمانوں کو بھارت میں رہنا ہے تو گائے کا گوشت نہ کھائیں۔ بھارت جیسے جاگیر ہے جو منوہر لال کو اس کے باپ نے وراثت میں دی ہے۔ منوہر لال کو چاہیے کہ جب تک بھارت اُن تمام ملکوں سے سفارتی تعلقات ختم نہیں کر دیتا جہاں جہاں گائے کا گوشت کھایا جاتا ہے، مرن برت رکھے اور اس دُکھوں بھری دنیا سے کوچ کر جائے! آہ! یہ دُکھوں بھری دنیا! جہاں جاپان سے لے کر چلی تک اور سائبیریا سے لے کر نیوزی لینڈ تک ہر جگہ ظالم لوگ گائے کا گوشت کھاتے ہیں!
ایک امریکی یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق بھارت کے 39 فیصد بچے کم خوراکی کا شکار ہیں۔ لیکن بھارت کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں تحقیق کرنا، اعداد و شمار حاصل کرنا ممکن ہی نہیں! گویا یہ 39 فیصد کا ہندسہ حقیقت سے بہت کم ہے۔ بھارت کے کچھ علاقے تو پتھر کے زمانے میں جی رہے ہیں۔
 POLYANDRY
(یعنی ایک عورت کا کئی شوہروں کے ساتھ زندگی گزارنا) یا تو افریقہ کے جنگلوں میں ملے گی یا بھارت کے قبائل میں! ہاں نیپال کے کچھ حصوں میں بھی! ایسے میں 39 فیصد کا ہندسہ عجیب لگتا ہے! بیس کروڑ کے صوبے اتر پردیش میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی بھاری اکثریت فاقہ کشی کا شکار ہے اور اس کی مثال افریقہ میں سوائے برنڈی کے کہیں نہیں ملتی۔ اس عمر میں کم خوراکی کا مطلب یہ ہے کہ ساری زندگی دماغ کمزور رہے۔ یہ بچے ذہین نہیں ہو سکتے۔ سائنسدانوں نے بچوں کے دماغوں کو سکین کر کے دیکھا ہے۔ کم خوراکی کا شکار رہنے والے بچے سکول کی تعلیم مکمل نہیں کر پاتے اور درمیان میں چھوڑ جاتے ہیں۔ بیالیس فیصد بھارتی عورتوں کا حاملہ ہونے سے پہلے ہی وزن کم ہوتا ہے۔ حمل کے دوران وزن آدھے سے کم رہ جاتا ہے۔ امریکی نیشنل اکیڈیمی آف سائنس کی تحقیق کی رو سے اتنی خطرناک صورتِ حال افریقہ کے صحرائی علاقوں میں بھی نہیں ملتی۔ چنانچہ بچوں کی بھاری اکثریت مائوں کے پیٹ ہی میں نحیف ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ بھارتیوں کی اکثریت گھروں میں بیت الخلاء نہیں رکھتی۔ باہر کھلے میں بول و براز کرنے سے کیڑے اور بکٹیریا چمٹ جاتے ہیں اور کئی قسم کے انفیکشن ہو جاتے ہیں۔ یوں انتڑیاں کم زور ہو جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ(یونی سیف) بتاتی ہے کہ ایک لاکھ سترہ ہزار بھارتی بچے ہر سال پیچش سے مرتے ہیں۔ یہاں ایک دلچسپ بات بتاتے چلیں۔ بھارتی مسلمانوں میں بچوں کی شرحِ اموات، ہندوئوں سے کم ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ مسلمان امیر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ مسلمان دیہات میں بھی، گھروں میں بیت الخلاء بناتے اور استعمال کرتے ہیں جب کہ ہندو بیت الخلاء کی موجودگی میں بھی اس کا استعمال کم کرتے ہیں۔
اس صورت حال میں بھی بھارتیوں کو گائے کی فکر زیادہ ہے۔ ہاں! لڑاکا جہاز اور ٹینک جمع کرنے کا شوق بھی بہت ہے۔ گھر میں بیت الخلا نہ ہو، نہ سہی، موبائل فون ضرور ہونا چاہئے! مذہبی تعصب کتنا اندھا کر دیتا ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ مدھیا پردیش کی ریاست میں فلاحی تنظیموں نے بچوں کی خوراک کو بہتر کرنے کا پروگرام ترتیب دیا۔ اس میں بچوں کو انڈے کھلانا بھی شامل تھا! مگر ریاست کی حکومت نے انتہا پسند ہندوئوں کو خوش کرنے کے لیے انڈے کھلانے کی تجویز مسترد کر دی کیونکہ کٹر ہندو، گوشت کے ساتھ انڈے سے بھی اجتناب کرتے ہیں!
اب جان ہاپکن یونیورسٹی کے ’’سکول آف پبلک ہیلتھ‘‘ کی رپورٹ ملاحظہ کیجیے۔ یہ لوگ شمالی بھارت کے ایک گائوں میں گئے۔ یہاں معاشی حالات تسلی بخش تھے۔ ایک گھر میں چھ بکریاں تھیں۔ بھینس کا تازہ دودھ بھی میسر تھا۔ ایک کمرہ غلے اور آلوئوں سے بھرا تھا۔ گائوں میں بجلی بھی تھی۔ خوراک تسلی بخش تھی مگر بچے پھر بھی نحیف و نزار تھے، جیسے انہیں دق کی بیماری ہو! اس لیے کہ گائوں کے کسی گھر میں بیت الخلا نہ تھا! اب بھارتی معیشت دان سر پکڑے بیٹھے ہیں کہ اقتصادی اعداد و شمار بہتری دکھا رہے ہیں مگر بچوں کی شرحِ اموات وہی ہے! اب وہ ہندو مذہب کا کیا مقابلہ کریں۔ قدیم ہندو مذہبی کتابیں کہتی ہیں کہ بول و براز کے لیے گھروں سے باہر جائو! چینی آبادی کا ایک فیصد اس مقصد کے لیے گھروں سے باہر جاتا ہے۔ بنگلہ دیش میں تین فیصد اور بھارت میں پچاس فیصد! جی ہاں پوری آبادی کا نصف!! 
بھارت اس وقت خوراک اور روزگار پر 26 ارب ڈالر خرچ کر رہا ہے اور سینیٹری پر صرف چالیس کروڑ! یہ نسبت ساٹھ اور ایک کی ہے! ہونا الٹ چاہیے۔ یعنی بیت الخلا اور نالیوں کی تعمیر پر 26 ارب اور خوراک اور روزگار پر چالیس کروڑ! لیکن اس کے لیے عقل درکار ہے۔ گوبر کو مقدس سمجھنا، گائے کو والدہ محترمہ کا درجہ دینا، جسم اور چہرے پر گارا تھوپنا! کوئی برتن کو چھو بھی دے تو اسے توڑ دینا! اپنے جیسے انسانوں کے سائے سے بھی بچ کر چلنا! کسی تبصرے کی ضرورت نہیں!ع
قیاس کن ز گلستانِ من بہارِ مرا
باغ کو دیکھ کر بہار کا اندازہ لگانا مشکل نہیں!
سٹینفرڈ(STANFORD) 
یونیورسٹی ان دنوں بنگلہ دیش، کینیا اور زمبابوے میں اس امر پر تحقیق کر رہی ہے کہ لاغر ہونے کا کتنا تعلق صفائی اور حفظان صحت کے انتظامات سے ہے؟ یہ تحقیق 2016ء میں مکمل ہو گی مگر یہ تعلق پچاس فیصد سے کم نہ ہو گا! ایک اندازہ ہے کہ نوے فیصد بھی ہو سکتا ہے! مغربی ملکوں میں حفاظتی ٹیکے اور اینٹی بیاٹک ادویات بعد میں ایجاد ہوئیں۔ اس سے پہلے 1800ء کے لگ بھگ صفائی، نالیوں اور بیت الخلاء کا نظام جدید خطوط پر تعمیر ہو چکا تھا۔ اس سے صحت پر مثبت اثرات پڑے۔ سائنس دان اس بات پر متفق ہیں کہ بچوں کی زندگی اور بڑوں کا قد و قامت، دونوں کا تعلق ماحول کی صفائی سے ہے۔ ایک اور تحقیقی رپورٹ نے مسلمان بچوں کی کم شرح اموات پر مزید روشنی ڈالی ہے۔ ہندوئوں نے مسلمانوں کو عملی طور پر الگ آبادیوں میں محصور کر دیا ہے۔ع
عدو شرّی برانگیزد کہ خیرِ ما، در آن باشد
دشمن شر انگیزی کرتا ہے اور قدرت اس میں سے بھلائی نکال لاتی ہے۔
مسلمان غریب ہیں مگر اپنی ثقافت اور پردہ داری کے لحاظ سے، گھروں میں بیت الخلاء تعمیر کرتے ہیں اور پھر استعمال بھی کرتے ہیں۔ ساتھ والا گھر بھی مسلمان کا ہے۔ وہاں بھی یہی انتظام ہے۔ اس سے جراثیم اور بکٹیریا کی تعداد ان کی پوری آبادی میں کم ہو جاتی ہے۔ اس کے مقابلے میں ہندو آبادیوں میں، جہاں بول و براز کے علاوہ غسل بھی باہر کرنے کا رواج ہے، فضلہ اور غلاظت ماحول پر چھائے رہتے ہیں۔ چنانچہ مسلمان شیر خوار بچوں کے زندہ رہنے کا امکان، ہندو بچوں کی نسبت سترہ فیصد زیادہ ہے۔
بھارت کے کسی شہر میں فضلے اور غلاظت سے نمٹنے کے خاطر خواہ انتظامات موجود نہیں، مگر ہندوئوں کے مقدس شہر بنارس کی حالت بدترین ہے۔ کروڑوں ہندو گنگا کے گھاٹ پر نہاتے ہیں۔ یوں 75 ملین لٹر گندگی ہر روز، دریا میں شامل ہوتی ہے۔ یہیں، اکثریت، باہر کھڑے ہو کر دانت بھی صاف کرتی ہے! شہر کا سیوریج پلانٹ صرف بیس فیصد فضلے سے نمٹ سکتا ہے، باقی گنگا میں جاتا ہے یا اردگرد کے ندی نالوں اور تالابوں میں۔ بنارس کی آبادی کا کثیر حصہ پانی بھی اس دریا کا پیتا ہے۔ آدھا بھارت گندا پانی پی رہا ہے!!
ذات کا تیلی ہونا کوئی برائی نہیں۔ ہم مسلمان ذات پات پر یقین نہیں رکھتے مگر ایک مخصوص ذہنیت کو بروئے کار لا کر، پورے بھارت کو گجرات بنانے کی کوشش یقینا بد ذاتی ہے۔ جب سے مودی صاحب تخت نشین ہوئے ہیں، منوہر لال جیسوں کو شہ مل رہی ہے۔ مسلمانوں کا جینا حرام کیا جا رہا ہے۔ ارے بھائی! ایڑیاں رگڑتی، دم توڑتی حاملہ عورتوں اور بھوک سے بلکتے بچوں کی فکر کرو، تمہیں گئو ماتا کی پڑی ہے! اور پھر باپ کو یعنی بیل کو مارتے ہو! کیا بدتمیزی ہے! ماں کی پرستش اور باپ کو مار پیٹ!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com