Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, April 29, 2015

طوطے ہی طوطے!


کیا خوبصورت شاہراہ تھی۔ ہریالی کا ایک جہان تھا جو دونوں طرف لہلہا رہا تھا اور جگمگا رہا تھا۔ ہر موڑ مڑنے کے بعد نظروں کو پہلے سے بھی زیادہ ٹھنڈک میسر آتی تھی۔ پھر ایک بورڈ نظر آیا۔ شیلانگ۔ چالیس میل۔ بارڈر پر جا کر ہم رک گئے۔ سامنے پہاڑ تھے اور آبشاریں۔ اُس طرف بھارت تھا۔ شیلانگ آسام کا دارالحکومت تھا۔ ہم سلہٹ سے چلے تھے۔ سرحد کی سیر کر کے واپس سلہٹ کا رُخ کیا۔ 
یہ سالہا سال پہلے کا قصہ ہے۔ کالم نگار ڈھاکہ یونیورسٹی میں اقتصادیات کا طالب علم تھا۔ جہاں گردی کا شوق تو تھا ہی‘ مشرقی پاکستان کا ہر گوشہ دیکھنے کی آرزو اس پر مستزاد تھی۔ 
کچھ عرصہ پہلے جب یادداشتیں کچھ ذہن میں الٹ پلٹ کر دیکھیں اور کچھ کاغذوں پر بکھری ہوئیں تلاش کیں تا کہ اس خودنوشت میں قیام ڈھاکہ کا باب باندھا جائے جو چیونٹی کی رفتار سے وجود پا رہی ہے تو معلومات تازہ کرنے کے لیے کچھ مطالعہ کیا اور کچھ فاصلے اٹلس پر چیک کیے۔ پتہ چلا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ شیلانگ شیلانگ ہی ہے لیکن اب وہ آسام کا دارالحکومت نہیں بلکہ ایک اور ریاست میگھالایا کا صدر مقام ہے۔ میگھالایا آسام کو تقسیم کر کے تشکیل کی گئی۔ آسام کا دارالحکومت گوہاٹی منتقل ہو گیا۔ 
میگھالایا واحد ریاست نہیں جو آسام کے بطن سے نکلی۔ ہم میں سے وہ جو تقسیم ہند کے بعد کی پیدائش ہیں‘ ہندوئوں کا زمانہ نہیں دیکھ پائے لیکن سب نے بزرگوں سے یہی سنا ہے کہ ہندو بہت کائیاں تھا۔ چالاک تھا۔ مثلاً یہ مثال دی جاتی تھی کہ ہندو دکاندار بچے کو بھی اُسی نرخ پر سودا دیتا تھا جس پر بڑے کو دیتا تھا اس لیے کہ اُس کا مقصد دکانداری کو چمکانا اور بِکری زیادہ کرنا تھا جب کہ مسلمان دکاندار ایک ہی بار ہاتھ مارنا چاہتا تھا۔ یہ زبانی روایتیں ظاہر ہے کوئی سائنسی حقائق نہیں بس تاثرات تھے۔ لیکن بھارت کی حالیہ تاریخ کا اپنی تاریخ سے موازنہ کریں تو دل ساتھ دے یا نہ دے‘ دماغ یہی کہتا ہے کہ واقعی ہندو کائیاں ہے‘ ہوشیار ہے اور مستقبل میں دور تک جھانکتا ہے۔ پچاس کا عشرہ شروع ہوا تو بھارت نے زرعی اصلاحات کا ڈول ڈالا۔ راجواڑے اور نوابیاں ختم کیں۔ آج مشرقی پنجاب جو ہمارے پنجاب سے کہیں چھوٹا ہے‘ پورے بھارت کو گندم مہیا کر رہا ہے۔ بھارت کا الیکشن کمیشن دیکھ لیں۔ اس کے اختیارات کا ہم غالباً سوچ بھی نہ سکیں۔ 
یہی ہوشیاری اور مستقبل بینی بھارت نے صوبوں کے ضمن میں دکھائی۔ (صوبے کو وہاں ریاست کہا جاتا ہے)۔ کمیشن بنائے گئے۔ عوام کی ان خواہشات کو تسلیم کیا گیا جو نسلی اور لسانی حوالوں سے انگڑائیاں لے رہی تھیں۔ آسام سے ایک میگھالایا نہیں‘ چار ریاستوں نے جنم لیا۔ ناگالینڈ 1963ء میں وجود میں آئی۔ 1972ء میں میزورام الگ ریاست بنی اور کچھ برسوں بعد اروناچل پردیش کے نام سے ایک اور ریاست باقی ماندہ آسام کو کاٹ کر تشکیل دی گئی۔ پنجاب کو دیکھیے۔ پنجاب کی ’’تنظیمِ نو‘‘ کا ایکٹ پاس ہوا اور شملہ‘ کانگڑہ‘ امبالہ ضلع کے کچھ حصے‘ لوہارا اور امب کے علاقے اور ہوشیارپور اور گورداسپور کی کچھ تحصیلیں جوڑ کر ہماچل پردیش کی ریاست بنا دی گئی۔ 1966ء میں شاہ کمیشن بنایا گیا۔ اس کی رپورٹ کو بنیاد بنا کر حصار‘ مہندرگڑھ‘ گڑگائوں‘ رہتک کرنال اور کچھ علاقوں کو ملا کر ہریانہ کی ریاست وجود میں لائی گئی۔ آندھرا پردیش کو دیکھیے۔ تلنگانہ کی تحریک چلی۔ کئی اتار چڑھائو آئے۔ گزشتہ جون میں آندھرا پردیش کو تقسیم کر کے تلنگانہ ریاست بنا دی گئی۔ مدھیا پردیش کو 2000ء میں دو حصوں میں کاٹ کر چھتیس گڑھ کی ریاست بنائی گئی۔ اسی سال یوپی میں سے اُترکھنڈ کی ریاست نکلی۔ معروف و مشہور ڈیرہ دُون اسی کا صدر مقام ہے۔ بہار کے جنوبی حصے کو الگ کر کے جھاڑ کھنڈ کی ریاست بنائی گئی۔ یہ ایک تحریک کے نتیجے میں ہوا۔ الگ شناخت کا مسئلہ تھا۔ 
یہ سب کچھ بھارت میں ہوا۔ آسمان ٹوٹا نہ قیامت برپا ہوئی۔ زمین سے تنوروں نے پانی اُگلا نہ خلا سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ اس لیے کہ بھارت کو اپنے اوپر اعتماد تھا کہ وہ اتنا بھی کمزور نہیں کہ عوام کے لسانی اور نسلی پہلوئوں کو خاطر میں لانے سے ٹوٹ جائے گا۔ ان نئی ریاستوں کی تشکیل سے بھارت میں جمہوریت مضبوط تر ہوئی۔ نئی ریاستوں کے باشندے پہلے بھی بھارتی تھے۔ بعد میں بھی بھارتی ہی رہے! 
اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں جو کچھ ہوا اور جو کچھ نہیں ہوا‘ ہم سب کے سامنے ہے۔ ایک صاحب نے دوسرے سے اپنے کیے کی معذرت کرتے ہوئے کہا کہ صاحب! جو کچھ ہوا‘ اُس پر افسوس ہے مگر جو نہیں ہوا‘ اُس پر زیادہ افسوس ہے۔ ہمارا اسلام اتنا کمزور ہے کہ کرکٹ میں ہارنے سے خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہمارا ملک اتنا کمزور ہے کہ کسی کو اُس کا لسانی‘ نسلی یا شناخت کا حق دیا جائے تو ملک کا وجود خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت اتنی ضعیف ہے کہ کسی مسئلے پر عوام احتجاج کریں تو جمہوریت بچانے کی فکر جائز مطالبات کو دھوئیں میں لپیٹ کر آنکھوں سے اوجھل کر دیتی ہے۔ ملک نہ ہوا طوطے کا وطن ہو گیا۔ طوطے کے وطن کا قصہ یوں ہے کہ کچھ طوطے پردیس میں اکٹھے رہتے تھے۔ ایک طوطا اکثر و بیشتر وطن کو یاد کر کے مسحور کن تذکرے کرتا تھا۔ ’’میرے وطن کی کیا بات ہے! دیکھو تو پتہ چلے‘‘۔ تنگ آ کر سب اس کا وطن دیکھنے چل پڑے۔ دور ایک تالاب تھا۔ اُس کے کنارے درخت تھا۔ درخت پر ایک شاخ یوں تھی کہ زور سے ہوا چلتی تو تالاب کے پانی میں ڈوب جاتی۔ پھر باہر آ جاتی۔ اس پر گھونسلا تھا۔ طوطا فرطِ مسرت سے چلایا‘ وہ دیکھو‘ گھونسلا اور وہ دیکھو پانی میں ڈوبتی‘ ابھرتی‘ باہر نکلتی شاخ۔ وہ میرا وطن ہے۔ ہمارا بھی کم و بیش وہی حال ہے! 
الطاف حسین سے کئی اختلافات ہیں۔ اس قلم کار نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر توازن سے تجزیہ کیا جائے۔ ایم کیو ایم کی تشکیل‘ دوسری شناختوں کے رویے کا ردعمل تھا۔ تاہم یہ ردعمل بیلنس کھو بیٹھا اور مڈل کلاس کی بنیاد پر ملک گیر ہونے کے بجائے دو تین جنوبی شہروں میں محدود ہو کر رہ گیا۔ ٹیلی ویژن اور وی سی آر فروخت کر کے کلاشنکوف خریدنے کا نعرہ بھی غلط تھا۔ اس کا نقصان زیادہ اور فائدہ محض وقتی اور سطحی ہوا۔ مگر یہ جو الطاف حسین نے نئے صوبے کی بات کی ہے تو اس پر واویلا مچانے کا بھی کوئی جواز نہیں! نئے صوبے سے قیامت نہیں آئے گی۔ سندھ اتنا بھی کمزور نہیں۔ مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈیسوں کی چیخ و پکار بلیک میلنگ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ سندھ کارڈ کھیلنے والے یہ بھی تو بتائیں کہ انہوں نے سندھی عوام کو کیا دیا ہے؟ جناب قائم علی شاہ اپنی کامیابیاں اور ظفریابیاں بھی تو گنوائیں۔ کراچی میں پانچ کلو میٹر کی ٹرام تو وہ چلا نہ سکے۔ پانی کا مسئلہ ایک ڈرائونے خواب کی طرح شہریوں کی نیندیں حرام کر رہا ہے۔ پولیس ایک سو دس فیصد سیاسی کیچڑ میں لتھڑی ہوئی ہے۔ سندھ حکومت جس جنونی کیفیت میں ’’فرائض‘‘ سرانجام دے رہی ہے اس کی صرف ایک جی ہاں… صرف ایک جھلک دیکھیے۔ انصاف اور میرٹ پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ گریڈ ایک سے لے کر اوپر تک کی ساری بھرتیاں پبلک سروس کمیشن کے ذریعے کی جائیں تاکہ سفارش‘ اقربا پروری اور رشوت کا خاتمہ ہو مگر سندھ میں گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ وزیراعلیٰ چیف سیکرٹری کو سمری بھیجتے ہیں کہ گریڈ سولہ اور سترہ کی تعیناتیاں بھی سندھ پبلک سروس کمیشن کے ہاتھ سے چھین لی جائیں اور ایک ’’سلیکشن‘‘ کمیٹی کے سپرد کر دی جائیں۔ مقصد واضح ہے کہ اہلِ اقتدار اپنے ’’ہونہار‘‘ رشتہ داروں اور دوستوں کو نواز سکیں۔ نہیں معلوم یہ تجویز عملی جامہ پہن سکی یا نہیں لیکن اس سے اُس ’’شفافیت‘‘ کا پتہ چلتا ہے جو سندھ نہ ڈیسوں کا نعرہ لگانے والے اپنے نامۂ اعمال میں سجائے ہوئے ہیں۔ 
نئے صوبے بننے چاہئیں۔ نئے صوبے بنانے ہوں گے۔ نئے صوبے بنانے پڑیں گے۔ سندھ میں‘ پنجاب میں بھی اور کے پی سمیت دوسرے علاقوں میں بھی۔ مانسہرہ کا شہری اپنے جائز کام کے لیے پشاور کیوں جائے؟ اس کا کام ایبٹ آباد میں کیوں نہ ہو؟ بہاولپور اور لودھراں والے لاہور کیوں جائیں؟ پنجاب حکومت کے منشی ذرا اٹک‘ مکھڈ یا تلہ گنگ سے بس میں بیٹھ کر لاہور تک کا سفر کریں۔ اللہ کے بندو! بلوچستان کا رقبہ دیکھو۔ فاصلے ماپو! چند سرداروں کو دیکھو۔ دور افتادہ عوام پر بھی ایک نظر ڈال لو۔ اختیارات کا ارتکاز نہ کرو۔ ا ختیارات کو عوام کی دہلیز تک پہنچائو۔ عقل و دانش صرف لاہور‘ کراچی‘ کوئٹہ اور پشاور پر نہیں اتاری گئی‘ ایبٹ آباد‘ چترال اور ڈی آئی خان کے لوگ بھی کھوپڑیوں میں بھیجا لیے ہوئے ہیں۔ شکارپور‘ خیرپور اور دادو کے رہنے والے بھی نوالہ کان میں نہیں‘ منہ ہی میں ڈالتے ہیں۔ سبی اور گوادر والے بھی حکومت چلانے کے اہل ہیں۔ راولپنڈی‘ ملتان اور بہاولپور بھی صوبائی ہیڈ کوارٹر بن سکتے ہیں۔ 
وہ تو اللہ کا شکر ہے عقل و دانش سندھ پبلک سروس کمیشن کے تصرف میں نہیں ورنہ وزیراعلیٰ ایک اور سمری جاری کرتے کہ آئندہ عقل و دانش بھی ’’سلیکشن‘‘ کمیٹی بانٹا کرے گی!

Saturday, April 25, 2015

بھارت کے جھاڑ جھنکار


’’ہندتوا بھارتی قومیت پرستی کی علامت ہے اور آر ایس ایس ہندتوا کی سچی پیروکار ہے‘‘۔ 
جھاڑکھنڈ کی ریاست بھارت کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس میں جنگلات بہت زیادہ ہیں؛ چنانچہ جھاڑ جھنکار اور جھاڑیوں کی نسبت سے نام جھاڑکھنڈ ہے۔ بہار کی ریاست کو 2000ء میں دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا اور جنوبی حصے کو ایک الگ ریاست قرار دیا گیا۔ یوں جھاڑکھنڈ کی ریاست وجود میں آئی۔ اس کا محلِ وقوع زبردست سیاسی اہمیت کا حامل ہے۔ مشرق میں مغربی بنگال اور مغرب میں یوپی کی طاقت ور ریاستیں ہیں۔ شمال میں بہار اور جنوب میں اڑیسہ کی ریاست واقع ہے۔ مشہور و معروف شہر رانچی اس کا دارالحکومت ہے۔ صنعتی شہر جمشید پور بھی‘ جہاں 1964ء میں اور دوبارہ 1979ء میں ہولناک مسلم کُش فسادات رونما ہوئے‘ جھاڑکھنڈ ہی میں ہے۔ 
راگھوبار داس ان دنوں اس ریاست کا وزیراعلیٰ ہے۔ کسی زمانے میں وہ ٹاٹا سٹیل مل میں نوکری کرتا تھا۔ پھر سیاست میں آ گیا۔ اس کا انتخابی حلقہ جمشیدپور ہی ہے۔ ذات کا وہ تیلی ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کا بانی رکن ہے۔ 2004ء میں اسے بی جے پی کی جھاڑکھنڈ شاخ کا سربراہ مقرر کیا گیا‘ بی جے پی نے ’’خدمات‘‘ کے اعتراف میں 2014ء میں اُسے قومی سطح کی کمیٹی کا نائب صدر بنایا۔ 
جس بیان سے اس تحریر کا آغاز کیا گیا ہے‘ وہ اسی راگھوبار داس کا ہے۔ وزیراعلیٰ نے یہ بات پانچ دن قبل ایک تقریر کے دوران کہی۔ اس بیان کے مضمرات اُس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ بھارت میں ہندتوا سے کیا مراد لی جاتی ہے اور آر ایس ایس کیا چیز ہے؟ یہ حسنِ اتفاق نہیں‘ سوئِ اتفاق ہے کہ ہم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھارتی فلمی دنیا اور بھارتی کرکٹ کے بارے میں الف سے ی تک سب کچھ معلوم ہے مگر ’’سنجیدگی‘‘ کا یہ عالم ہے کہ وہ حقائق جو بھارتی مسلمانوں کے حوالے سے‘ اور خود ہماری اپنی سلامتی کے ضمن میں حد درجہ اہم ہیں‘ ہماری توجہ سے محروم ہیں! 
ہندتوا کی اصطلاح ایک کٹر متعصب ہندو وی ڈی ساورکر نے 1923ء میں وضع کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اصل ہندوستانی صرف ہندو ہیں۔ ہندتوا میں ساورکر نے ہندوئوں‘ سکھوں اور جین مت اور بدھ مت کے پیروکاروں کوشامل کیا مگر مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ یہودیوں اور پارسیوں کو غیر ہندوستانی قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا کہ جو لوگ خود یا ان کے آبائو اجداد ہندو دھرم چھوڑ کر مسلمان یا عیسائی ہو گئے ہیں‘ انہیں دوبارہ ہندو بنایا جائے گا۔ اُس نے اکھنڈ بھارت کا بھی نعرہ لگایا اور ہندی زبان کو واحد قومی زبان بنانے کی مہم چلائی۔ 
اب سوال یہ اٹھا کہ ان نظریات کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے۔ اس کے لیے 1925ء میں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی تنظیم بنائی گئی۔ یہ متعصب اور کٹر ہندوئوں پر مشتمل تھی۔ 1990ء تک آر ایس ایس تمام بھارت کے طول و عرض میں خیراتی اور تعلیمی ادارے قائم کر چکی تھی۔ مہاتما گاندھی کو بھی آر ایس ایس ہی کے ایک رکن نے قتل کیا۔ آر ایس ایس کے دوسرے سربراہ گول وال کر کے بقول… ’’ہندوستان کے غیر ہندوئوں پر لازم ہے کہ وہ ہندو ثقافت اور زبان اپنائیں‘ ہندو مذہب کو سیکھیں اور اس کی عزت کریں‘ صرف اور صرف ہندو نسل اور ہندو کلچر کی عظمت کے گُن گائیں‘ دوسرے لفظوں میں ’’غیر ملکی‘‘ نہ رہیں۔ اگر وہ یہ سب کچھ نہیں کر سکتے تو بے شک ہندوستان میں رہیں لیکن اس صورت میں انہیں ہندو قوم کا مکمل ماتحت ہو کر رہنا ہوگا۔ انہیں کوئی حقوق حاصل نہیں ہوں گے‘ نہ وہ ان کا دعویٰ ہی کریں گے۔ ترجیحی سلوک کو تو وہ بھول جائیں‘ وہ عام شہری حقوق سے بھی محروم ہوں گے‘‘۔ 
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آر ایس ایس ہی کی سیاسی شاخ ہے۔ 
ان بنیادی حقائق سے آگاہ ہونے کے بعد جھاڑکھنڈ کے وزیراعلیٰ کا تازہ ترین بیان دوبارہ ملاحظہ کیجیے… ’’ہندتوا بھارتی قومیت پرستی کی علامت ہے اور آر ایس ایس ہندتوا کی سچی پیروکار ہے‘‘۔ 
دوسرے الفاظ میں حکمران جماعت بی جے پی کی قومی (یعنی مرکزی) کمیٹی کا یہ نائب صدر کہہ رہا ہے کہ جو لوگ ہندو نہیں ان کا بھارتی قومیت سے کوئی تعلق نہیں! 
خود جھاڑکھنڈ میں‘ سرکاری اعدادو شمار کی رو سے صرف 68 فیصد آبادی ہندو دھرم سے تعلق رکھتی ہے۔ مسلمان چودہ فیصد ہیں۔ تیرہ فیصد آبادی قبائلی ہے اور مظاہر پرست ہے۔ عیسائی چار فیصد ہیں۔ 2001ء کی مردم شماری کے مطابق بھارت کی کل آبادی کا صرف 80 فیصد حصہ ہندوئوں پر مشتمل ہے۔ مسلمان ساڑھے تیرہ فیصد اور عیسائی تقریباً اڑھائی فیصد ہیں۔ بھارت پر عملی طور پر آر ایس ایس کی حکومت ہے۔ بی جے پی ہندتوا کا محض سیاسی لبادہ ہے۔ منظم کوششیں ریاست کی اشیرباد سے ہو رہی ہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر زمین اس قدر تنگ کردی جائے کہ یا تو وہ اپنی الگ شناخت سے دستبردار ہو جائیں یا ملک چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ گرجوں پر کچھ عرصہ سے مسلسل حملے ہو رہے ہیں۔ یہ اسی فروری کی بات ہے کہ ہزاروں عیسائیوں نے بھارتی پارلیمنٹ کے سامنے اپنی عبادت گاہوں پر مسلسل حملوں کے خلاف احتجاج کیا۔ سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔ چونکہ اس وقت حکومت کٹر ہندوئوں کی ہے جو نظریاتی حوالے سے غیرہندوئوں کو ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے‘ اس لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو مارنے‘ لوٹنے‘ جلانے اور تنگ کرنے والوں کو روکا جائے! عملی طور پر بھارت تھیوکریسی (مذہبی حکومت) کی تحویل میں ہے! 
بھارت غیر ہندوئوں کو بھارتی قومیت دینے پر تیار نہیں! اس ضمن میں ہمارا نظریہ اور عمل کس قسم کا ہے؟ کیا ہم غیر مسلموں کو پاکستانی قوم کا حصہ مانتے ہیں؟ ہماری قومیت کی بنیاد پاکستانیت ہے یا کوئی اور شے؟ کیا پاکستان میں ایک غیر مسلم کے وہی حقوق ہیں جو ایک مسلمان کے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر جس طرح بھارتی نیشنلزم صرف ہندتوا کے لیے مخصوص ہے‘ کیا پاکستان میں بھی‘ اسی طرح‘ پاکستانی نیشنلزم صرف مسلمانوں کے لیے ہے؟ 
ہم نے علیحدہ وطن کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا تھا کہ مسلمان الگ قوم ہیں اور ہندو ا لگ۔ اب ہم کہتے ہیں یا دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں رہنے والے سب لوگ پاکستانی قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاسپورٹ کی رُو سے ہندوئوں اور عیسائیوں کی قومیت (نیشنیلٹی) بھی پاکستانی ہے اور مسلمانوں کی بھی۔ فارم پُر کرتے وقت قومیت
 (Nationality)
 کے خانے میں بھگوان سنگھ بھی ’’پاکستانی‘‘ کا لفظ لکھتا ہے اور عبدالکریم بھی اسی کا اندراج کرتا ہے۔ اس ظاہری تضاد کا واحد حل یہ ہے کہ ہم اپنا ریکارڈ درست کریں اور تاریخ کی حقیقت پسندانہ توجیہہ کریں۔ اُس وقت حالات اور تھے۔ متحدہ ہندوستان میں انتخابات جداگانہ ہوتے یا مخلوط‘ ہمارے حقوق خطرے میں تھے۔ معیشت اور ریاست دونوں کسی اور کے ہاتھ میں جا رہی تھیں۔ پاکستان بننے کے بعد صورت حال تبدیل ہو چکی ہے۔ عملیت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اب ہماری قومیت کی بنیاد صرف اور صرف پاکستانیت ہو۔ عقائد اور مذاہب سے قطع نظر‘ ہم‘ اس ملک میں رہنے والے لوگ‘ سب پاکستانی ہیں اور برابر کے پاکستانی ہیں! قومی مساوات کی اس نعمت سے بھارت محروم ہے۔ وہاں قومیت کی بنیاد مذہب کو بنا کر غیر ہندوئوں کو دوسرے درجے کا شہری قرار دیا جا رہا ہے۔

Friday, April 24, 2015

مجاور

موسم خوشگوار ہے۔ آیئے‘ ڈرائیو کرتے ہیں۔ 
ہم آبادی سے باہر آ گئے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ شاہراہ کے بائیں طرف ایک درخت کا کٹا ہوا تنا پڑا ہے۔ یہ کافی عرصہ سے یوں ہی رکھا ہے۔ کسی کام کا نہیں۔ جلانے کے کام آ سکتا ہے نہ اس سے کچھ بن ہی سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اس پر بچے چڑھ کر چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ رنگ اس کا بارشوں‘ ہوائوں اور موسموں کی سختیوں سے عجیب سا ہو گیا ہے۔ کچھ کچھ سیاہ‘ کچھ کچھ مٹیالا۔ ایسی لکڑی کو انگریزی میں ڈَیڈ وُڈ کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں جب اردو‘ یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو سے باہر بھی بولی اور سمجھی جاتی تھی‘ یعنی باعزت اور مکمل اردو تو ایسی لکڑی کے بارے میں کہتے تھے کہ سوختنی ہے نہ فروختنی۔ یعنی جلانے کے کام آ سکتی ہے نہ ہی اسے بیچا جا سکتا ہے! 
ہم گاڑی چلائے جا رہے ہیں۔ وہ دیکھیے‘ ایک سبزپوش ملنگ شاہراہ کے کنارے کھڑا ہے اور سبز رنگ کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ اس نے ساتھ ہی ایک بینر آویزاں کیا ہوا ہے۔ ’’مزار زیر تعمیر ہے‘ صندوقچی میں کچھ ڈال کر آگے بڑھیے‘‘۔ یہ سبزپوش بابا مدتوں سے یہی کچھ کر رہا ہے۔ جانے مزار کب مکمل ہوگا۔ 
اور آگے بڑھتے ہیں۔ یہ دیکھیے‘ قبرستان ہے۔ آیئے‘ رُک کر دعا کر لیتے ہیں۔ الھکم التکاثر۔ حتی زرتم المقابر۔ السلام علیکم یا اہل القبور! اے محوِ خواب لوگو! خدا تمہاری مغفرت کرے۔ ہم نے بھی تم سے آ ملنا ہے‘ دعا کر کے پلٹنے لگتے ہیں تو ایک مجذوب سا شخص ایک کمرے سے نکلتا ہے۔ کمرے کے اندر ایک قبر ہے جس پر چادر چڑھی ہے۔ کمرے کی چھت سے کاغذ کے بنے سنہری رنگ کے پھول‘ زریں رنگ کی تاروں سے لٹک رہے ہیں۔ مجذوب شخص مانگتا ہے ’’میں بابے کی قبر کا مجاور ہوں۔ کچھ دیتے جائو‘‘۔ ہم کچھ رقم اس کی نذر کرتے ہیں۔ وہ آسمان کی طرف دیکھ کر ہاتھ اٹھاتا ہے اور دعائیں دیتا واپس کمرے کا رُخ کر لیتا ہے۔ 
اکیس اپریل کو علامہ اقبال کی برسی تھی۔ ہر سال شاعرِ مشرق کے ساتھ مذاق ہوتا ہے۔ لکڑی کے بیکار ٹکڑے (پنجابی میں جنہیں ’’مُڈیاں‘‘ کہتے ہیں۔) سٹیج پر رکھی کرسیوں پر آ بیٹھتے ہیں۔ یہ وہ
 Dead Wood
 ہیں جو کسی کام کی نہیں۔ علامہ کی شاعری اور فلسفے سے ان مُڈیوں کا تعلق وہی ہے جو ان کا اُس درخت سے ہے جس کا یہ ایک زمانے میں حصہ تھیں۔ لکڑی کے یہ بے جان ٹکڑے‘ سوختنی نہ فروختنی‘ بیچیں تو چار آنے نہ ملیں‘ جلائیں تو ایک پیالی چائے نہ بنے‘ ہر سال مائک پر لائے جاتے ہیں۔ کچھ ممیاتے ہیں۔ کچھ غوں غوں کرتے ہیں۔ یہ کئی دہائیوں سے‘ کئی عشروں سے‘ سالہا سال سے یہی باتیں کیے جا رہے ہیں۔ دہرائے جا رہے ہیں۔ ان میں کچھ اقبال کی قبر کے مجاور ہیں۔ کچھ جھنڈا لہرا کر‘ ٹریفک روک کر‘ چندہ مانگتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن کی اقبال کے نام پر مسلسل کمائی ہو رہی ہے۔ انسان جتنا جاہل ہو‘ اتنا ہی پُراعتماد ہوتا ہے! اقبال کی دو تہائی سے زیادہ شاعری فارسی میں ہے۔ ان حضرات میں سے‘ سب نہیں‘ لیکن کچھ کو فارسی اتنی ہی آتی ہے جتنی آپ کو اور مجھے روسی یا جاپانی آتی ہے! 
ایک زمانے میں ماہر القادری کی نظم ’’قرآن کی فریاد‘‘ بہت مشہور ہوئی تھی۔ چند اشعار اس کے یوں تھے   ؎ 
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں‘ آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں 
تعویذ بنایا جاتا ہوں‘ دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں 
جیسے کسی طوطے مینا کو‘ کچھ بول رٹائے جاتے ہیں 
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں‘ اس طرح سکھایا جاتا ہوں 
دل سوز سے خالی رہتے ہیں‘ آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں 
کہنے کو میں اک اک جلسے میں‘ پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں 
کس بزم میں میرا ذکر نہیں‘ کس عرس میں میری دھوم نہیں 
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں‘ مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں 
قرآن پاک پڑھتے ہوئے رو دینے والا اقبال بھی اس اسلامی ملک میں اتنا ہی مظلوم ہے جتنی اس کی آئیڈیل کتاب قرآن مجید ہے۔ اب اس پر بھی اعتراض ہوگا کہ اقبال نے قرآن کو کہاں آئیڈیل قرار دیا ہے۔ اس کا جواب ابھی دے دینا مناسب ہے۔ دو شخص آپس میں جھگڑ رہے تھے ایک نے دوسرے کو دھمکایا۔ میں تمہارے چونتیس کے چونتیس دانت توڑ دوں گا۔ ایک تیسرا شخص پاس کھڑا سُن رہا تھا۔ بولا‘ بھئی دانت بتیس ہوتے ہیں۔ چونتیس نہیں۔ دھمکی دینے والے نے وضاحت کی ’’مجھے معلوم تھا تم بھی بیچ میں بولو گے۔ دو دانت تمہارے بھی شامل کیے ہیں‘‘۔ کالم چھپنے کے بعد جو بمباری ہوتی ہے‘ خاص کر سمندروں کے اُس پار سے‘ اُس کا اندازہ وہی کالم نگار کر سکتے ہیں جو بدقسمتی سے اپنی ای میلیں چیک کرتے ہیں یا خود پڑھتے ہیں! 
اقبال نے کہا تھا   ؎ 
گر تو می خواہی مسلمان زیستن 
نیست ممکن جُز بہ قرآن زیستن 
مسلمان ہو کر رہنا ہے تو ایک ہی طریقہ ہے‘ قرآن پاک کے ساتھ زندگی گزارو۔ لیکن یہ آج کا موضوع نہیں! 
اقبال کی مظلومیت کا اندازہ لگایئے‘ کون سا طبقہ ہے جس کی دیہاڑی اقبال کے نام پر نہیں لگ رہی۔ جو مُلّا کے خلاف ہیں‘ وہ اقبال کو پیش کرتے ہیں کہ دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘ یا یہ کہ مُلّا کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور‘ حالانکہ یہ بھی اقبال ہی نے کہا ہے کہ   ؎ 
افغانیوں کی غیرتِ دیں کا ہے یہ علاج 
مُلّا کو اُن کے کوہ و دمن سے نکال دو 
خود مُلّا بھی اقبال سے اپنے پسند کے حصے لے اُڑا۔ مثلاً ع تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘ یا یہ کہ   ؎ 
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں 
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے 
خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ‘ بھی منبر و محراب کا پسندیدہ حصہ ہے‘ یہ اور بات کہ اسی نظم میں اقبال نے کہا ہے… یہ مال و دولتِ دنیا۔ یہ رشتہ و پیوند۔ تو منبر و محراب کے رکھوالے اب مال و دولتِ دنیا کی تلاش میں۔ بلکہ‘ حفاظت میں‘ کسی سے پیچھے نہیں۔ اقبال نے ان دونوں طبقات سے بیزاری کا اعلان کیا تھا   ؎ 
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق 
نے ابلہِ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند 
یعنی اقبال کے نزدیک ابلہِ مسجد اور تہذیب کا فرزند… مُلا اور مسٹر‘ دونوں وہ بات نہیں کہتے جسے حق سمجھتے ہیں! 
اور تو اور۔ اقبال پر دشنام طرازی کرنے والے بھی اقبال ہی کے نام پر برسرِ روزگار ہیں۔ اندھیرے میں دیکھے بغیر لکڑیاں چننے والے ان ’’دانش‘‘ وروں کی زیادہ کمین گاہیں بیرونِ ملک واقع ہیں۔ کبھی اقبال کی نجی زندگی کے حوالے سے کیچڑ اچھالا جاتا ہے کبھی سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ جیسے ریفرنس دیے جاتے ہیں۔ کبھی آج کل پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی ذمہ داری اقبال پر ڈالی جاتی ہے۔ اقبال نے کہیں بھی ولی ہونے کا دعویٰ کیا ہے نہ مافوق الفطرت ہونے کا۔ اب اگر نکاح اور وضو کے مسائل میں مُلّا بانگِ درا کھول لیتا ہے یا اعتراض برائے اعتراض کے لیے تہذیب کے فرزند ایسے سوالات اٹھاتے ہیں جو اولیا یا حکمرانوں کے بارے میں اٹھائے جاتے ہیں تو اس میں اقبال کا کیا قصور؟ اللہ کے بندو! اُس نے تو شاعری تک کا دعویٰ نہیں کیا   ؎ 
من ای میرِامم! داد از تو خواہم 
مرا یاران غزلخوانی شمردند 
اے امتوں کے سردار! آپ ہی سے انصاف مانگ رہا ہوں۔ یاروں نے میرا شمار غزل خوانوں میں کر لیا!!

Wednesday, April 22, 2015

کچھ مہمانِ گرامی کے حوالے سے


جن دنوں پہچان دولت سے نہیں‘ وضعداری اور رکھ رکھائو سے ہوتی تھی‘ کسی کو دعوت دیتے تھے تو تشریف آوری کے لیے باقاعدہ سواری بھیجی جاتی تھی۔ واپسی کے لیے بھی سواری پیش کی جاتی تھی اور خدام پاپیادہ ہمراہ جاتے تھے۔ سلاطین دہلی کے زمانے میں عباسی خلیفہ کے ایک عزیز دہلی تشریف لائے تو بادشاہِ وقت کئی کوس شہر سے باہر استقبال کے لیے گیا۔ ہمارے معزز مہمان چین کے صدر ہماری سرزمین پر تشریف لائے۔ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد۔ علم حاصل کرنے کے لیے چین جانے کی تلقین فرمائی گئی تھی۔ چین کے صدر کی تشریف آوری پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم سکھانے والے خود آ گئے۔ گویا کنواں چل کر پیاسے کے پاس آ گیا۔ 
مہمان نوازی کی قدیم روایت آج بھی زندہ ہوتی تو ہمیں اپنا جہاز بھیجنا ہوتا۔ اس میں بھی قدرت کی حکمت ہے کہ نہیں بھیجنا پڑا۔ ورنہ ہماری ’’پابندیٔ وقت‘‘ کا مہمانِ گرامی بھی شکار ہو جاتے۔ 
دوست ملک چین کے ہم پر بہت احسانات ہیں۔ مشکل وقت میں ہمیشہ کام آیا۔ دفاع ہو یا معیشت‘ بین الاقوامی سیاست ہو یا علاقائی مسائل‘ چین نے ہر موقع پر اپنا وزن پاکستان کے پلڑے میں ڈالا۔ تھنڈر جہاز ہم نے چین کے اشتراک سے بنائے۔ کارخانے لگانے میں اس کا تعاون شامل۔ اب توانائی کے میدان میں وہ ہمیں مشکل سے نکالنے کے لیے مدد کر رہا ہے۔ مگر ایک اور بھی احسان ہے جو چین نے اپنا صدر بھیج کر ہم پر کیا ہے۔ 
جس دن مہمانِ گرامی نے آنا تھا‘ اس سے ایک دن پہلے شام کے وقت مری روڈ کے اُس حصے پر جانا ہوا جو دارالحکومت میں واقع ہے۔ راول چوک اور سیرینا ہوٹل کے درمیانی علاقے میں شاہراہ پر کرینیں‘ بلڈوزر اور دوسری مشینیں کھڑی تھیں جن کے درست نام بھی لکھنے والے کو نہیں آتے۔ معلوم ہوا کہ راتوں رات اس حصے کو‘ جو ایک عرصہ سے شکستہ اور خستہ تھا‘ تندرست کیا جا رہا ہے۔ دوست ملک کا احسان دیکھیے کہ جو کام ایک عرصہ سے نہیں ہو رہا تھا‘ ٹیکس دینے والے ٹیکس دیے جا رہے تھے‘ کاغذوں پر تجویزیں جنم لے رہی تھیں‘ بجٹ پاس ہو کر‘ رقوم غائب ہو رہی تھیں۔ ایک بہت بڑا قومی ہیکل‘ عظیم الجثہ ادارہ‘ ترقیات کے نام پر دارالحکومت کے باشندوں کی گردنوں پر سواری کر رہا ہے‘ مگر شاہراہ کی مرمت تھی کہ نہیں ہو رہی تھی۔ چین کے صدر تشریف لائے تو چند گھنٹوں میں کام ہو گیا۔ 
غالباً ایوب خا ن کا زمانہ تھا۔ خیبر پختونخوا کو اُس زمانے میں صوبہ سرحد کہا جاتا تھا۔ امریکی صدر دورے پر آیا۔ اُس نے علاقے کے خوانین اور عمائدین سے بھی ملاقات کی۔ ایک قبائلی ملک نے اُسے کہا کہ میرے بیٹے کو تحصیل دار لگوا جائو۔ اس نے پوچھا کہ بزرگ کیا ارشاد فرما رہے ہیں۔ قصہ کوتاہ جیسا کہ روایت بیان کی جاتی ہے‘ اس کے عزیز کی تحصیل دار کے طور پر تقرری کر دی گئی۔ سنا ہے کہ اس کا نام اُس امریکی صدر کے حوالے ہی سے لیا جاتا تھا۔ چنانچہ غیر ملکی مہمانوں کے حوالے سے کام کرانے کی روایت ہمارے ہاں تاریخی جڑیں رکھتی ہے۔ چین کے صدر دوبارہ تشریف لائیں تو ہم پر کچھ اور احسانات کر جائیں۔ مثلاً وہ یہ فرمائش کریں کہ بجلی اور گیس کے محکموں کا بل بھیجنے کا طریقہ ملاحظہ فرمانا چاہتے ہیں۔ ہو سکتا ہے ان اداروں کی وہ دھاندلی اس طرح ختم ہو جائے جو وہ ایک عرصہ سے صارفین سے روا رکھی جا رہی ہے۔ یعنی ایک ماہ بل پندرہ ہزار روپے آتا ہے‘ دوسرے ماہ ایک ہزار‘ تیسرے ماہ ڈیڑھ ہزار اور چوتھے ماہ تیس ہزار؟ اور تو اور اِس ’’شرافت‘‘ سے جان چھڑانے کی کوئی صورت نہیں نظر آتی! اسی طرح چین کے صدر اگر اس خواہش کا اظہار فرمائیں کہ دارالحکومت کی رسوائے زمانہ ایکسپریس وے دو ماہ کے لیے لاہور منتقل کردی جائے تو دارالحکومت کے شہریوں پر ان کا احسانِ عظیم ہوگا۔ اس شاہراہ پر‘ جو ٹریفک کے لحاظ سے جڑواں شہروں میں مصروف ترین ہے‘ عوام گھنٹوں نہیں‘ پہروں خوار ہوتے ہیں۔ دو ماہ کے لیے یہ شاہراہ لاہور کا حصہ بنا دی جائے تو اس کے دن پھر جائیں گے۔ اس پر نصف درجن انڈرپاس بن جائیں گے۔ لینوں کی تعداد ایک سے دس ہو جائے گی۔ سگنل ہٹا دیے جائیں گے۔ کناروں پر درخت لگا دیے جائیں گے۔ جب یہ شاہراہ اتنی ہی ’’مہذب‘‘ ہو جائے جتنی خوش بخت شہر ’لاہور‘ کی باقی سڑکیں ہیں‘ تو اسے واپس دارالحکومت میں لا بچھایا جائے۔ اس طرح مملکت خداداد کے شہری اُن مختلف اذیتوں کے اعتبار سے جو وہ سہہ رہے ہیں‘ غیر ملکی مہمانوں سے کرائی جانے والی دیگر کرم فرمائیوں کی فہرست بنا سکتے ہیں۔ 
پس نوشت: قارئین میں سے اگر کسی نے خیبر پختونخوا‘ سندھ اور گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ دیکھے ہیں تو ازراہ کرم اطلاع دیں۔ یہ تینوں معزز حضرات اہم مواقع پر گم ہو جاتے ہیں‘ اگر یہ خود ان سطور کو پڑھیں تو اپنے ہونے کا پتہ دیں۔ ان کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی انتہا یہ ہے کہ دوست ملک چین کے صدر تشریف لائے تو یہ ایئرپورٹ پر نظر آئے نہ دیگر تقریبات میں۔ دوسری طرف پنجاب کے وزیراعلیٰ کی پابندیٔ وقت‘ چستی‘ چابکدستی اور ذمہ دارانہ رویے کی بلندی عروج پر تھی۔ وہ ایئرپورٹ پر وفاقی وزرا کی صف میں ایستادہ تھے‘ اور باقی مواقع پر بھی نمایاں نظر آ رہے تھے۔ بلوچستان کے چیف منسٹر ایئرپورٹ کی تقریبات میں تو نہیں تھے لیکن ایک آدھ عشایئے میں انہیں دیکھا گیا۔ اب وزیراعظم کے بارے میں یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ کو دعوت دیں اور باقی کو درخوراعتنا نہ سمجھیں۔ خیر سے تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں۔ تجربہ کاری عروج پر ہے۔ مبتدی تو وہ ہیں نہیں۔ ہو نہ ہو‘ قصور ان وزرائے اعلیٰ کا ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ خیبرپختونخوا‘ سندھ اور گلگت بلتستان کے عوام میں دوست ملک کے حوالے سے غلط فہمی بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ ان پر لازم ہے کہ اس ضمن میں قوم سے اپنے غیرذمہ دارانہ رویے کی معافی مانگیں!

Monday, April 20, 2015

ایک تازہ بلا


امتیاز خان کی بیگم نے اپنے کچھ زیورات بینک کے لاکر میں رکھے ہوئے تھے۔ لاکر کسی زمانے میں معقول کرائے پر ملتے ہوں گے۔ آج کل نہیں۔ مختلف بینکوں کے مختلف سسٹم ہیں۔ کچھ سالانہ کرایہ لیتے ہیں اور کچھ اچھی خاصی بھاری رقم ’’سکیورٹی‘‘ کے نام پر رکھ لیتے ہیں۔ یہ رقم لیتے وقت کہا جاتا ہے کہ لاکر واپس کریں گے تو رقم واپس مل جائے گی۔ گویا لاکر کے ساتھ یہ رقم بھی ’’لاک‘‘ ہو جاتی ہے۔ سسٹم جو بھی ہو‘ مجموعی طور پر لاکر ان دنوں بہت مہنگے ہیں۔ امتیاز خان نے ایک دن بیگم سے مشورہ کیا کہ ہمارے زیورات چھوٹے لاکر میں بھی سما سکتے ہیں۔ خواہ مخواہ بڑا لاکر لے کر‘ اتنی بڑی رقم سکیورٹی کے نام پر پھنسا دی ہے۔ بیگم نے اتفاق کیا۔ دونوں بینک چلے گئے۔ زیورات نکالے اور لاکر واپس کردیا۔ 
اب یہاں راوی بھول رہا ہے۔ کیا بڑا لاکر واپس کرنے سے پہلے انہوں نے بینک کو بتایا تھا کہ انہیں چھوٹا لاکر چاہیے؟ یا زیورات نکالنے کے بعد چھوٹا لاکر مانگا؟ بہرحال بینک کو پہلے بتایا‘ یا بعد میں‘ بینک نے کہا کہ جس سائز کا لاکر آپ مانگ رہے ہیں‘ وہ دو تین کے بعد دستیاب ہوگا۔ بیگم نے زیورات لیے اور دونوں میاں بیوی گھر چلے گئے۔ 
اُس رات… یا اس کے بعد آنے والی رات دونوں میاں بیوی سو رہے تھے۔ گھر میں ان کے علاوہ کوئی نہ تھا۔ بیٹا کراچی میں ملازمت کرتا تھا اور بیٹی لاہور یونیورسٹی میں پڑھ رہی تھی۔ امتیاز اور اس کی بیگم دونوں کی آنکھ بیک وقت کھلی۔ ایک نقاب پوش ہاتھ میں ریوالور اٹھائے ان کے کمرے کے عین درمیان کھڑا تھا اور دوسرا دروازے میں۔ ایک ریوالور کی نالی امتیاز اور اس کی بیوی کی طرف تھی۔ اس نے ایک ہی سوال پوچھا… ’’زیورات کہاں رکھے ہیں‘‘۔ پوچھنے والے کے لہجے سے امتیاز خان کو معلوم ہوا کہ ڈاکو کی اصل زبان کون سی ہے۔ امتیاز خان کو وہ زبان آتی تھی۔ انہوں نے اس زبان میں گفتگو شروع کردی۔ ڈاکو کا لہجہ قدرے نرم ہو گیا۔ لیکن اس نے صاف کہا… ہم تمہیں اور تمہاری بیوی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ بس زیور ہمارے حوالے کردو۔ بیوی اٹھی۔ زیور سارے کا سارا اس کے سامنے رکھ دیا۔ ڈاکوئوں نے میاں بیوی کو رسیوں سے باندھا۔ وارننگ دی کہ ہمارے جانے کے بعد شور مچایا یا پولیس کو ’’ملوث‘‘ کیا تو انجام اچھا نہ ہوگا۔ جس خاموشی سے دیوار پھلانگ کر‘ گرل اور جالی کاٹ کر آئے تھے‘ اسی طرح رات کے اندھیرے میں چلے گئے۔ نقدی مانگی نہ لیپ ٹاپ کی طرف دیکھا۔ موبائل فون لیے نہ اور کسی شے کی تلاش کی۔ 
دوسرا واقعہ بھی دارالحکومت ہی کا ہے۔ سیکٹر جی پندرہ‘ ہے تو دارالحکومت ہی کا حصہ لیکن پشاور روڈ کے جنوب میں واقع ہے۔ اب نئے سیکٹر جو بھی اُبھر رہے ہیں‘ وہ جی ٹی روڈ کے جنوب ہی میں تعمیر ہو رہے ہیں۔ ریٹائرڈ اعلیٰ افسر یہاں کثیر تعداد میں آباد ہیں۔ مجموعی طور پر یہ مڈل کلاس یا اپرمڈل کلاس کی آماجگاہ ہے۔ ملک مزمل یہیں رہتے ہیں۔ ان کے قریبی عزیز کی شادی تھی۔ بیگم نے اس خاص موقع کے لیے لاکر سے زیورات نکلوائے۔ اسی شام شادی کی تقریب میں شرکت کی۔ یہ لوگ واپس گھر پہنچے تو رات بھیگ چکی تھی۔ دوسرے دن بہت دیر سے اٹھے اور یہ طے کیا کہ زیورات کل جا کر لاکر میں واپس رکھ دیں گے۔ اس شام کو اتفاق سے گھر میں کوئی نہ تھا۔ سب اپنے اپنے کام سے باہر گئے ہوئے تھے۔ بڑے گیٹ پر ایک چوکیدار موجود تھا مگر گھر ماشاء اللہ بڑا تھا۔ اگر چوکیدار یہ مؤقف اختیار کرے کہ عقب سے دیوار پھلانگ کر آنے والے کی آواز اُسے نہیں آئی تو یہ مؤقف اتنا غلط بھی نہیں ہو سکتا۔ بہرطور شام ڈھلے مکین واپس آئے تو جس کمرے میں زیورات رکھے تھے‘ وہ تاخت و تاراج ہو چکا تھا۔ الماریوں کے پٹ کھلے تھے۔ ملبوسات فرش پر پڑے تھے یوں کہ سارے میں بکھرے ہوئے تھے۔ وحشت کمرے میں ناچ رہی تھی۔ خاموشی سائیں سائیں اور نحوست بھائیں بھائیں کر رہی تھی۔ لیپ ٹاپ اسی طرح رکھا تھا۔ ہاں۔ زیورات کے ساتھ کچھ نقد رقم پڑی تھی۔ وہ زیورات کے ساتھ ہی اٹھا لی گئی تھی۔ 
ایک اور واقعہ بھی اسی قبیل کا پیش آ چکا ہے۔ یہ تینوں واقعات گزشتہ تین ہفتوں کے ہیں جو اس لکھنے والے کے علم میں آئے ہیں۔ ہو سکتا ہے واقعات کی تعداد زیادہ ہو‘ اور یقینا زیادہ ہوگی مگر ہر شخص کو انہی واقعات سے آگاہی ہوتی ہے جو اُس کے دائرۂ واقفیت کے اندر رونما ہوئے ہوں‘ دوست احباب مشترک ہوں اور واقع ہونے والے حادثات سے ایک دوسرے کو باخبر کریں۔ 
یہ واقعات جن لوگوں کے ساتھ پیش آئے ان کے اصل نام اس تحریر میں بدل دیے گئے ہیں۔ 
ان واقعات میں ایک پیٹرن بنتا ہے۔ دو حقیقتیں مشترک نظر آتی ہیں۔ اوّل۔ زیورات بینکوں کے لاکر سے نکلوائے گئے۔ چوروں اور ڈاکوئوں کا اصل ٹارگٹ زیورات ہی تھے۔ زیورات ہی کے بارے میں پوچھا گیا۔ کسی اور قیمتی شے کو چھیڑا گیا نہ اٹھایا گیا۔ دوم۔ ان تینوں گھروں میں کام کاج اور صفائی کے حوالے سے عورتیں ملازمت پر مامور تھیں۔ یوں لگتا ہے کہ یہ نیٹ ورک پہلے بینکوں سے معلوم کرتا ہے کہ لاکر سے کس نے کوئی چیز نکلوائی۔ اب یہ کامن سینس کی بات ہے کہ بھاری اکثریت لاکروں میں زیورات ہی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے گماشتے بینکوں میں موجود ہوں گے۔ نچلی سطح کے ملازمین کو خریدنا یا دھمکانا چنداں مشکل نہیں۔ بینکوں کے کاغذات میں لاکروں کے مالکان کے رہائشی ایڈریس بھی درج ہوتے ہیں۔ پھر اُن گھروں کا سراغ لگایا جاتا ہوگا۔ اندر کی اطلاعات کے لیے ملازم عورتیں‘ ملازم مردوں کی نسبت زیادہ ’’کارآمد‘‘ ہوتی ہیں۔ ملازم مردوں کو خواتینِ خانہ حجاب کرتے ہوئے‘ خوابگاہوں سے دور ہی رکھتی ہیں مگر خادمائیں بلاروک ٹوک خوابگاہوں میں آتی جاتی ہیں۔ انہیں خریدنا مرد ملازموں کی نسبت سہل تر ہوتا ہے۔ ان سے یہ معلوم کیا جاتا ہوگا کہ مکین کس وقت گھر کے اندر موجود ہوتے ہیں‘ کس وقت باہر جاتے ہیں اور یہ بھی کہ خاص خاص الماریاں یا درازیں کون کون سی ہیں اور کہاں کہاں ہیں۔ 
اس سیاق و سباق میں کچھ اور بھی مسائل ہیں جو زیرِ بحث لائے جانے کے مستحق ہیں۔ مثلاً ملازمین سے‘ خاص طور پر‘ خادمائوں سے چھٹکارا کیوں نہیں پایا جا سکتا؟ ترقی یافتہ ملکوں میں گھر چھوٹے ہیں‘ گھر کے تمام افراد صفائی کا کام خود کرتے ہیں اور نوکروں‘ ملازموں‘ خادمائوں‘ باورچیوں‘ خاکروبوں کی ’’غلامی‘‘ سے آزاد ہیں۔ مگر یہ موضوع پھر کبھی! ابھی تو اس پر غور کیا جانا چاہیے کہ پرانے زمانے کی طرح زیورات پھر کونوں کھدروں میں زیرِ زمین دفن کر دیے جائیں اور لاکروں کی ’’غلامی‘‘ سے بھی نجات حاصل کر لی جائے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ زیورات رکھے ہی نہ جائیں!! 
جو کچھ بھی ہے‘ مخصوص قسم کا پیٹرن لیے ہوئے یہ تازہ وارداتیں پہلے سے ادھ موئے شہریوں کے لیے ایک تازہ مصیبت ہیں۔ ایک زمانے میں راولپنڈی کی ادبی محفلوں میں رابعہ نہاں شرکت کیا کرتی تھیں ان کی غزلیں شوق سے سنی جاتی تھیں۔ بھائی ان کے عظیم الوقار فرحان ریڈیو پاکستان میں تھے۔ رابعہ نہاں کا شعر یاد آ رہا ہے   ؎ 
ٹوٹے گی کوئی تازہ بلا جانِ نہاںؔ پر 
لَو شمعِ حوادث کی ہے تھرائی ہوئی سی 
ابھی تو جانے کتنی بلائیں اور اتریں گی!

Sunday, April 19, 2015

خونِ جگر کے بغیر

’’پلائو ہسپتال ہی میں پکائوں گا۔ اور تمہارے کمرے ہی میں پکے گا‘‘۔ 
دادا خان نوری نے پرعزم لہجے میں اعلان کیا۔ 
یہ 1997ء یا 98ء کی بات ہے۔ میں بیمار ہوا۔ اتنا کہ ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ دادا خان نوری اُن دنوں یونین آف جرنلسٹس ازبکستان کے سربراہ تھے۔ صحافی کے علاوہ بطور ناول نگار بھی ان کی حیثیت مسلمہ تھی۔ 1992ء میں وسط ایشیائی ریاستیں آزاد ہوئیں تو وہاں پہنچنے والے اولین پاکستانیوں میں‘ میں بھی شامل تھا۔ ادب و شعر کے وابستگان کے درمیان ایک عجیب طلسماتی اور مقناطیسی رابطہ ہوتا ہے جو بہرطور قائم ہو کر رہتا ہے۔ ازبکستان کے شاعروں‘ ادیبوں اور صحافیوں سے تعلقات قائم ہوئے تو فوکل پوائنٹ دادا خان ہی تھے۔ تاشقند یونیورسٹی سے انہوں نے ہندی کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس لیے کہ بھارت کی سرگرمیاں سوویت یونین میں پاکستانی سرگرمیوں سے کئی گنا زیادہ تھیں۔ دادا خان اردو بولتے تھے مگر لکھ نہیں سکتے تھے۔ سوویت یونین کا طلسم چاک ہوا اور پاکستانیوں کا آنا جانا شروع ہوا تو دادا خان پاکستان ہی کے ہو کر رہ گئے۔ وفود لے کر آتے۔ ثقافتی تبادلوں میں بھرپور حصہ لیتے اور ازبکستان آنے والے پاکستانیوں کی ہر پہلو سے رہنمائی کرتے۔ 
پہلی بار جب میرے ہاں قیام کیا تو صبح صبح اُٹھ کر سیر کرنے باہر چلے گئے۔ واپس آئے تو غصے میں تھے۔ ’’تم پاکستانیوں میں عقل نہیں‘‘۔ گھروں کے اندر اور باہر بھی بڑے بڑے رقبے ضائع ہو رہے ہیں۔ پھل دار درخت کیوں نہیں لگاتے؟‘‘ ازبکستان کے لحاظ سے ان کا غصہ بجا تھا۔ بابر نے تزک میں برصغیر کے بارے میں یہی تو رونا رویا ہے کہ پھلوں اور پھولوں کا‘ باغوں اور چمنستانوں کا رواج ہی نہیں۔ تاشقند پیدل چلتے ہوئے‘ بلامبالغہ‘ یہ عالم دیکھا کہ فٹ پاتھ پر چل رہے ہیں تو بائیں طرف مکان ہیں‘ دائیں طرف چیری کے درخت پھل سے لدے ہیں اور سر پر انگور کے خوشے لٹک رہے ہیں۔ یہی حال سمرقند میں تھا   ؎ 
سمرقند میں ہر جگہ سر پہ انگور کی شاخ تھی 
سمر قند میں کس کو ہوش آیا تھا اور میں اس میں تھا 
ہر گھر کے درمیانی حصے میں‘ جسے حولی کہتے ہیں‘ ثمردار درخت لگے ہوتے ہیں۔ انگور‘ آڑو‘ ناشپاتی‘ سیب‘ اخروٹ‘ چیری اور شہتوت میں اکثر و بیشتر گھرانے خودکفیل ہیں۔ 
دادا خان ہر ہفتے خیریت پوچھنے کے لیے فون کرتے تھے۔ علالت اور ہسپتال داخل ہونے کا علم ہوا تو پلائو پکانے کا سارا سامان اپنے اسباب میں رکھا۔ تاشقند سے جہاز میں بیٹھے۔ پیشگی اطلاع نہیں دی۔ اسلام آباد ایئرپورٹ پر اترے۔ ٹیکسی لی اور سیدھا گھر تشریف لائے۔ میری بیگم اور بچے حیران بھی ہوئے اور خوش بھی۔ ازبکوں کی خوش گمانی ہے کہ بیماری جیسی بھی ہو‘ ازبک پلائو سے ٹل جاتی ہے۔ وہ اپنی طرف سے میرے علاج کے لیے تشریف لائے تھے۔ ازبک پلائو کے سارے اجزا یہاں سے نہیں میسر آ سکتے تھے۔ چاول بھی مخصوص نسل کا ہوتا ہے۔ مصالحے بھی خاص ہوتے ہیں۔ گاجر بھی ایک ضروری جزو ہے۔ یہ سب کچھ وہ تاشقند سے ساتھ لائے تھے۔ پیاز بھی سامان میں شامل تھا۔ پکانے کے لیے وسط ایشیا میں ایک خاص وضع کا برتن استعمال ہوتا ہے۔ اسے قازان کہتے ہیں۔ اس کے لیے لوہے کا چمچ خاص ہوتا ہے۔ یہ بھی وہ ہمراہ لائے تھے۔ ازبک نان بھی کثیر تعداد میں تھے۔ گھوڑے کے گوشت کی ساسیج بھی تھیں (جو ان کے واپس جانے کے بعد گھروالوں نے پھینک دیں)۔ قازان اب بھی ہمارے گھر میں پلائو کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ 
میں ہسپتال اپنے کمرے میں بستر پر لیٹا تھا۔ غالباً والد مرحوم میرے پاس تھے۔ میرا بیٹا حسان جو اُس وقت پندرہ سولہ برس کا تھا‘ کمرے میں داخل ہوا اور اس کے پیچھے سیاہ رنگ کے انگریزی سوٹ میں ملبوس دادا خان نوری! فوراً تسلی دی کہ وہ میرے کمرے میں پلائو پکائیں گے‘ میں کھائوں گا اور یہ کہ کل تک بھلا چنگا ہو جائوں گا۔ بہت مشکل سے سمجھایا کہ ہسپتال والے کمرے میں پلائو پکانے کی اجازت نہیں دیں گے۔ 
دوسرے دن انہوں نے ازبکستان کے سفیر سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ سفیر صاحب اپنے گھر کے لیے گوشت کہاں سے لیتے ہیں۔ ازبک‘ پلائو میں دنبے کا گوشت ڈالتے ہیں اور وہ بھی بہت دیکھ بھال کر اور مین میکھ نکال کر۔ سفیر صاحب کے ساتھ وہ دارالحکومت کے اس علاقے میں گئے جہاں اُس زمانے میں افغان مہاجرین کثرت سے رہتے تھے۔ دنبے کا گوشت خرید کر لائے۔ میری بیگم کو بھابھی جان کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ بولے‘ بھابھی جان! آپ نے اب باورچی خانے میں نہیں آنا۔ میں پلائو پکانے لگا ہوں۔ ہاتھ بٹانے کے لیے انہوں نے حسان اور معاذ کو ساتھ رکھا۔  
یہ سارا واقعہ‘ قدرے اختصار کے ساتھ‘ ناولوں اور سفرناموں کے بابے جناب مستنصر حسین تارڑ نے اپنی کسی کتاب میں بھی بیان کیا ہے۔ آج یہ سب کچھ اس لیے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے دوست فقیر اللہ خان کی تازہ تصنیف ’’سیرِ جہاں‘‘ موصول ہوئی اس میں اگرچہ جاپان سے لے کر ہسپانیہ تک بہت سے ملکوں کی سیاحت کا حال بیان کیا ہے مگر ازبکستان کا ذکر خاصے کی چیز ہے۔ فقیر اللہ خان ملازمت کے سلسلے میں کئی برس وسط ایشیا میں رہے۔ زبان و بیان میں وہ چسکارا نہیں جو ایک سکّہ بند ادیب کے ہاں ملتا ہے مگر سادگی اور سلاست نے کتاب کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ سیاحت کے ذاتی تجربوں کے ساتھ ساتھ خان صاحب اقلیموں اور شہروں کے متعلق معلومات بیان کرتے جاتے ہیں اور پڑھنے والے کو شریکِ سفر رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ 
میرا ازبکستان کا چوتھا اور (ابھی تک) آخری سفر جلال الدین خوارزم شاہ کی 700 ویں سالگرہ کے حوالے سے تھا۔ ازبک‘ جلال الدین خوارزم شاہ کو جلال الدین منگو بیردی کہتے ہیں۔ ہم سب مندوبین کو ترمذ اور خیوا لے جایا گیا۔ صدر اسلام الدین کریموف سے بھی ملاقات ہوئی۔ فقیر اللہ خان کا احوالِ سیاحت پڑھ کر یادوں کے دریچے وا ہو گئے ہیں۔ جس طرح بچھو اور سانپ کے کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں‘ اسی طرح استعمار سے کچھ اچھے کام بھی ہوئے۔ ازبکستان میں خواندگی کا تناسب ننانوے فیصد سے زیادہ ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں کہ سوویت یونین کے عہد میں بیس لاکھ آبادی سے زیادہ کے شہر میں زیرِ زمین ریلوے کا نظام قائم کر دیا جاتا تھا۔ تاشقند انڈر گرائونڈ ریلوے کے 36 سٹیشن ہیں۔ ہر سٹیشن ڈیزائن اور نقاشی میں ایک دوسرے سے مختلف ہے اور ازبک ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے۔ فانوسوں کا حسن قابلِ دید ہے۔ سوویت یونین کے زمانے میں شاہراہوں کا جال بچھا دیا گیا۔ 
وسط ایشیا میں پھل ضائع نہیں ہونے دیے جاتے۔ چیری اور شہتوت کا رس عام ہے۔ ایک خوبانی اور ایک آڑو بھی تلف نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں چترال‘ ہنزہ اور بلتستان میں میوہ جات کا بہت بڑا حصہ لاپروائی‘ بدانتظامی اور کوتہ اندیشی کی نذر ہو جاتا ہے۔ 
تاشقند کا چارسُو بازار وسط ایشیا کے قدیم ترین بازاروں میں سے ہے۔ یہ مسقّف ہے اور تہہ خانے سمیت چار منزلہ ہے۔ وسط ایشیا کے بازاروں میں کشمش‘ خوبانی‘ بادام‘ اخروٹ‘ پستہ اور دوسرے میوے ڈھیروں کی صورت یوں رکھے جاتے ہیں جیسے ہمارے ہاں غلہ منڈیوں میں گندم کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔ 
تِکّے کو ازبک ششلیک کہتے ہیں۔ اس کی لذت نرالی ہے۔ سموسہ بھی انہی کی زبان کا لفظ ہے اور بازاروں میں بکتا ہے۔ چائے بغیر دودھ کے پیتے ہیں اور مسلسل پیتے ہیں۔ پانی پینے کا رواج ہی نہیں۔ ہم پاکستانی پانی مانگیں تو پوچھتے ہیں ’’آپ بیمار تو نہیں؟‘‘ ٹرینوں میں سماوار لگے ہوتے ہیں۔ مسافر گرم پانی سے چینکیں بھرتے رہتے ہیں۔ 
ہم پاکستانی بھی عجیب مٹی کے بنے ہوئے ہیں۔ کئی لوگوں سے سنا ہے کہ وہ سیرو تفریح کے لیے دبئی جاتے ہیں جہاں بڑے بڑے عظیم الشان شاپنگ مال ہیں۔ شاپنگ مال جتنا بھی عظیم الشان ہو اور بڑا ہو‘ ہوتا شاپنگ مال ہی ہے۔ ادب سے لے کر زبان تک‘ کلچر سے لے کر ثقافت تک اور لباس سے لے کر کھانوں تک ہماری ساری پگڈنڈیاں اُن شہراہوں سے ملتی ہیں جو وسط ایشیا واقع ہیں۔ سمرقند‘ بخارا‘ خیوا‘ ترمذ‘ قوقند‘ فرغانہ‘ خجند اور اندجان کے شہر‘ صرف شہر ہی نہیں عجائب گھر بھی ہیں۔ ایک ایک دیوار سے تاریخ کی شعائیں منعکس ہوتی ہیں‘ ایک ایک سنگ سے روایت کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ یہ امام بخاری‘ امام ترمذی‘ حضرت بہاء الدین نقشبندی‘ البیرونی‘ بو علی سینا‘ الفارابی‘ موسیٰ خوارزمی‘ علی شیرنوائی‘ بابر‘ تیمور اور الغ بیگ کی سرزمین ہے۔ اسی خطے نے ہمیں بیدلؔ اور غالبؔ جیسے مشاہیر عطا کیے۔ 
آمدورفت کے ا خراجات معقول‘ کرنسی کا ریٹ حیرت انگیز حد تک سیاحوں کا طرفدار‘ ٹائم زون وہی جو ہمارا ہے‘ مگر ذہنی سطح شاپنگ مال سے اوپر نہ اُٹھ سکے تو وسط ایشیا‘ حلب‘ قاہرہ‘ استنبول‘ قرطبہ اور غرناطہ کا رُخ کون کرے!   ؎  
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر 
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر

Friday, April 17, 2015

دیمک


دیمک دروازوں کو کھا رہی ہے۔ لکڑی آٹا بن بن کر فرش پر گر رہی ہے۔ چوکاٹھ کسی معجزے ہی سے کھڑے ہیں۔ 
الماریوں کو دیمک لگ چکی ہے۔ کپڑوں کے اوپر ہر روز لکڑی کا سفوف پڑا ہوا ہوتا ہے۔ بیڈ کھائے جا رہے ہیں۔ کھڑکیوں کے کواڑ گرنے کو ہیں۔ 
دیمک گھروالوں کے ساتھ اسی چاردیواری میں رہ رہی ہے۔ دن بدن اس کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ گھروالوں نے یہیں رہنا ہے۔ جہاں جہاں لکڑی کا آٹا نظر پڑتا ہے‘ صاف کر دیتے ہیں۔ کھانا کھا لیتے ہیں۔ سوتے ہیں۔ اُٹھ کر اپنے کام دھندوں میں لگ جاتے ہیں۔ دیمک ہر شے کو چاٹے جا رہی ہے۔ 
خالد حفیظ پڑوس میں رہتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں۔ انہیں ڈرائیور کی ضرورت تھی۔ اخبار میں اشتہار دیا۔ سابق سرکاری ملازم یا ریٹائرڈ فوجی کو ترجیح دینے کا ذکر تھا۔ ایک صاحب نے انہیں فون کیا۔ کسی کے لیے بات کر رہے تھے۔ پڑھے لکھے لگ رہے تھے۔ اشتہار دینے والے صاحب نے پوچھا ’’کسی سرکاری دفتر میں یا فوج میں ڈرائیور رہا ہے؟‘‘ جواب ملا کہ اب بھی سرکاری دفتر ہی میں کام کر رہا ہے۔ عجیب چکرا دینے والا جواب تھا۔ ’’بھائی‘ جب سرکاری دفتر میں ملازمت کر رہا ہے تو ہماری گاڑی کیسے چلائے گا۔ ہمیں صرف شام کو نہیں‘ دن کے وقت بھی ڈرائیور کی ضرورت ہے‘‘۔ اب کے جو جواب ملا‘ وہ پہلے سے بھی زیادہ عجیب تھا۔ ’’یہ آپ کا مسئلہ نہیں‘ آپ کے کام میں حرج نہیں ہوگا‘‘۔ 
اشتہار دینے والا سیدھا سادھا بزرگ جب یہ واقعہ حیرت سے سنا رہا تھا تو سننے والا ذرا بھی حیران نہیں ہو رہا تھا۔ یاد آیا کہ ایک دوست کے ہاں ایسا ہی ایک سرکاری ملازم عرصہ سے ڈرائیور کا کام کر رہا ہے۔ دارالحکومت کے ایک بڑے محکمے سے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ وصول کرتا ہے۔ اُس تنخواہ میں سے ایک طے شدہ رقم اُس شخص کے حوالے کرتا ہے جو سرکاری دفتر میں اس کی حاضری لگانے‘ نگرانی کرنے اور پھر تنخواہ دینے کا انچارج ہے۔ مہینے میں دو تین بار دفتر کا پھیرا لگا لیتا ہے اور اطمینان سے ’’پرائیویٹ‘‘ نوکری کر رہا ہے۔ بتا رہا تھا کہ بہت سے لوگ ایسا ہی کر رہے ہیں۔ 
آپ کا خیال ہے یہ تیربہدف نسخہ صرف ایک آدھ محکمے میں آزمایا جا رہا ہے؟ اور صرف دارالحکومت میں آزمایا جا رہا ہے؟ تو کیا یہ عام سی بات ہے؟ کیا یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے؟ بظاہر یہی لگتا ہے۔ کروڑوں‘ اربوں‘ کھربوں کے ڈاکے سرکاری خزانے پر پڑتے ہیں۔ رشوت کا بازار گرم ہے۔ وزرا ہفتوں دفتر نہیں آتے۔ کرپشن ایک جنگل بن چکی ہے جس میں درندوں‘ سانپوں اور خون چوسنے والے حشرات الارض کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا۔ ایسے میں اُس ڈرائیور کا اتنا بڑا قصور کیا ہے جو پندرہ بیس تیس ہزار کی تنخواہ کا ٹیکہ حکومت کو لگا رہا ہے! 
دلیل وزن رکھتی ہے۔ لیکن مسئلہ رقم کی مقدار کا نہیں! مسئلہ معاشرے کے فیبرک کا ہے۔ تاروپود کا ہے۔ یہ کام ایک نہیں ہزاروں دفتروں میں ہو رہا ہے۔ سینکڑوں محکموں میں ہو رہا ہے۔ صوبوں‘ ضلعوں‘ کارپوریشنوں میں ہو رہا ہے۔ یہ ایک بیرومیٹر ہے جس سے معاشرے کی عمومی فضا کو ماپا جا سکتا ہے۔ یہ ظلم صرف ان پڑھ یا نیم خواندہ ڈرائیور نہیں ڈھا رہا۔ ہزاروں افسروں‘ وزیروں‘ منیجنگ ڈائریکٹروں‘ سیکرٹریوں‘ خودمختار اداروں کے بورڈوں کے ممبروں کے گھروں میں لاکھوں افراد اپنے ’’فرائض‘‘ سرانجام دے رہے ہیں۔ تنخواہیں سرکار سے لے رہے ہیں اور اُس کام کی لے رہے ہیں جو وہ نہیں کر رہے۔ یہ دیمک صرف دہلیز کو نہیں کھا رہی‘ دروازے کے اوپر والے کنارے کو بھی لگی ہوئی ہے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک‘ جب بلاول زرداری کی ’’سیاسی ناپختگی‘‘ ان کے والد گرامی پر نہیں کھلی تھی‘ شہزادے کے گردوپیش جتنے نقیب‘ حاجب‘ محافظ‘ مصاحب اور عمائدین تھے‘ سب سندھ حکومت کی مالی مہربانی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے جب وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی اور بڑے صوبے میں برادرِ خورد کی حکمرانی تھی تو برادرِ بزرگ کی خدمت میں حاضر رہنے والے ایڈوائزروں سے لے کر معمولی اہلکاروں تک سب صوبائی حکومت کے تنخواہ خوار تھے۔ اب بھی وہی کچھ ہو رہا ہے۔ شاہی خاندان کا ایک فرد حکومت کا حصہ نہیں‘ مگر عملاً صورتِ حال مختلف ہے۔ 
قومیں ہوائی اڈوں‘ میٹرو بسوں‘ موٹرویز اور مغربی فاسٹ فوڈ کی دکانوں سے ترقی نہیں کرتیں۔ وزیراعظم کا دفتر مغل طرزِ تعمیر کا نمونہ پیش کر رہا ہے۔ اگر اسے لال قلعہ بنا دیا جائے‘ اگر اس پر قطب مینار کھڑا کر دیا جائے‘ اگر غرناطہ سے الحمرا کے محراب اور جالیاں منگوا کر لگا دی جائیں‘ اگر استنبول سے عثمانی خلفا کے محل کا صدر دروازہ ’’بابِ عالی‘‘ منگوا کر یہاں نصب کردیا جائے‘ پھر بھی ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں گے۔ قومیں اُس وقت ترقی کرتی ہیں جب کروڑوں کھربوں کا نہیں‘ ایک ایک پائی کا احتساب ہو‘ ایک ایک فرد دیانت دار ہو‘ ایک ایک لمحے کا حساب رکھا جائے۔ گھر کو گرانے کے لیے دھماکہ کرنا یا بُلڈوزر سے دیواریں گرانا ضروری نہیں‘ دیمک کا راج کافی ہے۔ اہلکاروں کا دفتروں سے غیر حاضر ہو کر پرائیویٹ کام کرنا محض ایک علامت ہے۔ یہ اس بیماری کی علامت ہے جسے بددیانتی اور حرام خوری کہا جاتا ہے۔ اس بیماری کا علاج نہ کیا جائے تو ریلوے کی پٹریاں چوری ہو کر بِک جاتی ہیں‘ ریلوے کی زمینوں پر قبضے ہو جاتے ہیں‘ بوگیوں کی بوگیاں ریلوے کے ملازمین کے لیے وقف ہو جاتی ہیں۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ ریلوے ختم ہو جاتی ہے فقط ملازمین رہ جاتے ہیں اور ان کی تنخواہیں! 
اس بیماری کا علاج نہ ہو تو قومی ایئرلائنوں میں ربع صدی تک ملازمین بغیر کسی اعلان یا اشتہار کے رکھے جاتے ہیں۔ اس میں کام کرنے والوں کے گھروں میں کمبل‘ گدیاں‘ صابن‘ یہاں تک کہ ڈنر اور لنچ بھی ایئرلائنوں کے جہازوں سے آتے ہیں۔ پھر ایک دن آتا ہے کہ مسافر تھائی ایئرلائن کو سونپ دیے جاتے ہیں۔ یہ ’’انتقالِ مسافراں‘‘ صرف مشرقِ بعید میں نہیں‘ سارے سیکڑوں میں رونما ہوتا ہے۔ 
اس بیماری کا علاج نہ ہو تو سکولوں‘ کالجوں کی عمارتوں میں مویشی بندھ جاتے ہیں۔ ’’اساتذہ‘‘ اور سٹاف کی تنخواہیں کچھ ان کو گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں اور کچھ کہیں اور۔ یونیورسٹیوں پر سیاسی جماعتوں کے پوچھل (دُمیں) قبضہ کر لیتے ہیں۔ ایک ایک سیکرٹری اور ایک ایک وزیر کے پاس درجنوں گاڑیاں ہوتی ہیں۔ سٹیل مل کا سربراہ چارج لینے کے بعد سب سے پہلے پوچھتا ہے… ’’میرے پاس کون سی گاڑی ہوگی؟ میرے گھر میں کتنی گاڑیاں ہوں گی؟ مجھے کیا کیا مراعات حاصل ہوں گی؟‘‘ 
دیمک بڑھتی جاتی ہے۔ دروازے گرنے لگتے ہیں۔ چوکاٹھیں سجدہ ریز ہو جاتی ہیں۔ تجارت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ روپیہ کوڑیوں کے مول بکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے نمائندوں کو سیکرٹریٹ میں باقاعدہ کمرے الاٹ ہو جاتے ہیں۔ آئی ایم ایف والے دبئی طلب کرتے ہیں۔ پیدا ہونے والا ہر بچہ آنکھ کھولتے ہی سینکڑوں ڈالر قرضے تلے دبا ہوا ہوتا ہے۔ جنہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر دیے ہوئے ہوتے ہیں‘ وہ خدمات کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے وزیر نتائج کی دھمکیاں دیتے ہیں۔ بڑے ملکوں کے صدر اور وزراء اعظم دہلی سے ہو کر چلے جاتے ہیں۔ بیروزگار نوجوان بندوقیں اٹھا کر دہشت گرد بن جاتے ہیں‘ دارالحکومت تک کے سیکٹر ڈاکوئوں کے گینگ آپس میں بانٹ لیتے ہیں۔ لوگ بجلی‘ گیس اور کبھی آٹے‘ گھی کے لیے قطاروں میں کھڑے ہو کر ذلیل ہوتے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان ہجرت کر جاتے ہیں۔ ملک کی قسمت کے فیصلے سمندر پار ہوتے ہیں۔

Wednesday, April 15, 2015

ہم اور ہماری عزت

مانگے کا تھری پیس سوٹ پہن کر خوش لباسی کا رنگ ہر جگہ جمایا جا سکتا ہے مگر اُس کے سامنے نہیں‘ جس سے مانگا تھا۔ جس طرح انفرادی سطح پر دوستوں کے مسلسل زیرِ احسان رہنا‘ دوستی کے لیے مقراض بن جاتا ہے‘ اسی طرح جن ملکوں سے صرف اور صرف کرم فرمائیاں درآمد کی جائیں‘ ان سے برابر کے تعلقات قائم نہیں رہتے۔ ایک دعا کی تعلیم دی گئی ہے: یا رَبِّ لَا تَضْطَرَّنی اِلیٰ امتحانِ اَصْدِقَائی لِاَنَّ لَا اُرِیْدُ اَنْ اَفْقَدَ واحِدً مِنْہم۔ پروردگار! دوستوں کے امتحان کی نوبت نہ لائیو کہ میں ان میں سے کسی کو بھی کھونا نہیں چاہتا۔ چودھری نثار علی نے یو اے ای کے وزیر کے تلخ بیان کا جواب دے کر فرضِ کفایہ ادا کیا۔ سب منقار زیرِ پر رہے۔ صرف انہوں نے بات کی۔ جرأت لائق تحسین ہے مگر سوچنے کا مقام ہے کہ کیا اس لہجے میں شرقِ اوسط سے امریکہ کو للکارا جا سکتا تھا یا ترکی کو؟ یا برطانیہ کو؟ امریکہ نے تو عشروں کی رفاقت پر پانی پھیر دیا اور سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ بھی نہیں کر رہا۔ اس سے بھی پہلے جب شام میں لوہا گرم تھا اور شرقِ اوسط کے بادشاہ توقع کر رہے تھے کہ امریکہ ایک ہی ضرب سے بشارالاسد کا دھڑن تختہ کردے گا‘ امریکہ پیچھے ہٹ گیا۔ گویا قیام کا وقت تھا تو سجدے میں گر گیا۔ 
پنجاب کے غربی حصے میں کہا جاتا ہے ’’گھر کی تباہی الگ اور جگ ہنسائی الگ‘‘۔ اسی کو انگریز کہتے ہیں اپنے غلیظ کپڑے دوسروں کے صحن میں دھونا۔ جنرل پرویز مشرف اقتدار کے نشے میں تھے اور تخت سے اتارے گئے وزیراعظم مصیبت میں تھے۔ دونوں میں سے کسی نے نہ سوچا کہ گھر کی بات گھر میں رکھی جائے۔ ایک نے جان بچانا تھی‘ دوسرے نے جان چھڑانا تھی۔ سعودی عرب کو درمیان میں لایا گیا۔ پناہ لی گئی۔ باقرخانیاں بنانے والے باورچی الگ گئے‘ سامان سینکڑوں صندوقوں میں گیا مگر محلات تو کسی کی عنایت تھے! پھر اس ملک کے 
لوگوں کے مقدر میں وہ منظر دیکھنا بھی تھا جب 8 ستمبر 2007ء کو سعودی خفیہ سروس کے سربراہ شہزادہ مقرن اور لبنانی لیڈر سعدالحریری نے جنرل پرویز مشرف سے راولپنڈی میں اڑھائی گھنٹے ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں نے پریس کانفرنس میں میاں نوازشریف کو ’’سمجھایا‘‘ کہ معاہدے کی پابندی کریں اور ’’وقت‘‘ سے پہلے اپنے وطن واپس نہ تشریف لائیں۔ اس لیے کہ معاہدے کی گارنٹی سعودی شاہی خاندان نے دی تھی۔ یہی وہ مشہورِ زمانہ پریس کانفرنس تھی جب شہزادے نے معاہدے کے کاغذات لہرائے تھے۔ ایک صحافی نے نکتہ اٹھایا تھا کہ ملک کی سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق میاں صاحب کو اپنے وطن میں واپسی کا حق حاصل ہے تو شہزادے نے پوچھا… ’’پہلے معاہدہ ہوا تھا یا پہلے سپریم کورٹ نے رولنگ دی ہے؟‘‘ 
کیا اس سے زیادہ کسی ملک کی سبکی ہو سکتی ہے؟ کیا جنرل پرویز مشرف نے ایک لمحے کے لیے بھی سوچا کہ میں بیرونی طاقتوں کو اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں ملوث کر رہا ہوں؟ کیا معزول وزیراعظم نے ایک بار بھی کہا کہ میرا وطن یہی ہے‘ میرا جینا مرنا یہیں ہوگا؟ میں کسی اور ملک میں کیوں جائوں؟ 
اس سے بھی پہلے مشرق وسطیٰ کے معتبر انگریزی روزنامہ ’’خلیج ٹائمز‘‘ نے جولائی 2007ء میں دنیا بھر کو بتایا کہ بینظیر بھٹو لندن میں اپنی ساری مصروفیات کینسل کر کے ابوظہبی پہنچیں جہاں انہوں نے پاکستان کے صدر جنرل مشرف سے ’’مذاکرات‘‘ کیے۔ جنرل صاحب کے ساتھ گورنر عشرت العباد اور ایک حساس خفیہ ادارے کے سربراہ تھے جب کہ بے نظیر مذاکرات میں اکیلی تھیں۔ طے یہ ہو رہا تھا کہ بے نظیر وزیراعظم بنیں گی اور مشرف صاحب ایک بار پھر صدر ’’منتخب‘‘ ہوں گے! 
کیا دنیا میں دوسرے ممالک بھی یہی کچھ کرتے ہیں؟ کچھ حضرات یو اے ای میں مزدوری کرنے والی پاکستانی لیبر کی بات کرتے ہیں۔ نہیں۔ یہ بات نہیں! ہرگز نہیں! مزدوروں کو نوکری دینا ایک معمول کی اقتصادی سرگرمی ہے۔ یہ دو ملکوں کی مشترکہ ضرورت ہوتی ہے۔ ایک کی افرادی قوت دوسرا خریدتا ہے۔ بھارت کے شہری مشرق وسطیٰ میں زیادہ تعداد میں کام کر رہے ہیں‘ مگر بھارت کے جرنیل اپنے ہی ملک کے اپوزیشن لیڈروں سے بات چیت کرنے ابوظہبی نہیں جاتے… 2011ء کا دسمبر یاد کیجیے۔ مملکت پاکستان کے صدر جناب آصف زرداری میڈیکل چیک اپ کے لیے دبئی پہنچتے ہیں۔ افواہیں حکومت کا تختہ الٹنے کی تھیں۔ تقریباً سارے کا سارا صدارتی عملہ سرکاری خرچ پر دبئی منتقل ہو گیا۔ کیا دبئی کی میڈیکل سہولیات کراچی‘ لاہور اور اسلام آباد سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں؟ 
بے نظیر بھٹو نے‘ خدا ان کی لغزشوں سے درگزر کرے‘ دبئی میں جو محل خریدا‘ کیا کسی اور ملک کے سابق حکمران نے‘ یا اپوزیشن رہنما نے ایسا کیا؟ ہمارے رہنمائوں کے بچے وہیں رہتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے معمول کے اجلاس وہاں ہوتے ہیں۔ اور تو اور آئی ایم ایف والے ہمارے وزیروں‘ افسروں اور اہلکاروں کو وہاں طلب کرتے ہیں۔ کیا بھارت کے وزیر خزانہ کے صاحبزادوں کی عظیم الشان بزنس ایمپائر مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں ہے؟ ہمارے جس سیاست دان کے سر پر کوئی چھوٹی سی بھی کالے رنگ کی بدلی آ جائے تو وہ ملک چھوڑ کر سیدھا دبئی کا رُخ کرتا ہے! اب تو ایک ذرا سی کسر ہی رہ گئی ہے کہ سندھ حکومت کا صدر مقام دبئی منتقل ہو جائے۔ گزشتہ دنوں ارشاد عارف صاحب نے اپنے ایک کالم ’’کوئی شرم ہوتی ہے‘ کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ کا ٹیپ کا بند ایسا باندھا کہ سماں بندھ گیا۔ ہماری حیثیت مشرق وسطیٰ کے ’’برادر‘‘ ملکوں کے سامنے دریوزہ گر کی ہے۔ ہم پناہ گیر ہیں۔ ہم میں شرم ہے نہ حیا۔ اپنے ملک کی قسمت کے فیصلے دوسرے ملکوں میں بیٹھ کر کرتے ہیں۔ ہماری بین الاقوامی حیثیت قصباتی محلوں میں رہنے والے اُن نیچ ذات خاندانوں کی ہے جو اپنی لڑائیاں گلی میں کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کو گالیاں دوسروں کے سامنے دیتے ہیں اور اپنے ازدواجی جھگڑے پڑوسیوں سے طے کراتے ہیں۔ کبھی ہمارے ایک سابق وزیراعظم کی حفاظت کی گارنٹی دوسرا ملک دیتا ہے اور کبھی ہمارے کسی بہادر جرنیل کی سلامتی کا ضامن دوسرا ملک بنتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کو تو چھوڑیے‘ بھارت‘ ترکی‘ ایران اور ملائیشیا کا بھی کیا ذکر! کیا سری لنکا‘ بنگلہ دیش اور جبوتی کے سیاست دان اور حکمران اپنے گندے کپڑے دوسروں کے آنگن میں نچوڑتے ہیں؟ 
کیا ایران میں اندرونی تنازعے تھوڑے ہیں؟ گروہوں کے گروہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ قیدوبند بھی ہے۔ ترکی کے اندر جھگڑے ہیں۔ مگر کسی نے کبھی حدیں پار کیں نہ سرحد! یو اے ای کے وزیر کے بیان سے ہمارے ملک کی بے عزتی ہوئی ہے!! تو کیا ہماری عزت تھی؟ کسی نے مولوی صاحب سے پوچھا کہ طلاق دینے کے لیے کیا ضروری ہے۔ جواب دیا نکاح کا ہونا ضروری ہے۔ بے عزتی کے لیے عزت کی بھی تو شرط ہے! ملکوں کی اور قوموں کی عزت اس سے نہیں ہوتی کہ سیاست دانوں اور حکمرانوں کے کتنے محل بیرون ملک ہیں‘ کتنے کارخانے ہیں‘ لندن میں کتنی رہائش گاہیں ہیں‘ نیویارک میں پینٹ ہائوس کتنے ہیں‘ دبئی میں سرمایہ کاری کتنے کروڑ ڈالر کی ہے‘ حفاظت کی گارنٹی کس ملک نے دی ہے؟ سلامتی کا ضامن کس ملک کا شاہی خاندان ہے؟ ’’معاہدے‘‘ میں کردار کس پائلٹ نے ادا کیا تھا؟ عزت‘ عزتِ نفس سے ہوتی ہے۔ عزت ان ملکوں کی ہوتی ہے جن میں منموہن سنگھ اور احمدی نژاد جیسے فقیر حکمران ہوتے ہیں‘ جن کی الماریوں میں کپڑوں کے دو جوڑے اور کھانے میں دو سینڈوچ ہوتے ہیں… عزت اُن ملکوں کی ہوتی ہے جن میں مہاتیر اور لی جیسے لیڈر ہوتے ہیں‘ جن کے بینک بیلنس اور اثاثے عشروں کی حکمرانی کے باوجود فربہ نہیں ہوتے۔ عزت برطانیہ جیسے ملکوں کی ہوتی ہے جس کے وزراء اعظم ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں۔ عزت امریکہ جیسے ملکوں کی ہوتی ہے جس کے صدر جھوٹ بولیں تو کٹہرے میں بے یارومددگار کھڑے کر دیے جاتے ہیں اور مقدمے کی کارروائی دنیا بھر میں سنی اور پڑھی جاتی ہے۔ 
ہم کیا اور ہماری عزت کیا! عطاء اللہ شاہ بخاری جیل میں گئے تو انہیں اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں داخل ہونے سے پہلے جیلر نے متنبہ کیا کہ اگر کوئی شے پاس ہے تو شرافت سے نکال دیجیے۔ اندر جا رہے تھے تو شاہ صاحب کے سامان سے چینی زمین پر گرنے لگی۔ ایک ساتھی نے کہا شاہ صاحب! شرافت زمین پر گر رہی ہے! ہماری بھی عزت قطرہ قطرہ دانہ دانہ سب کے سامنے زمین پر گر رہی ہے!

Monday, April 13, 2015

حکومت ڈٹ جائے !


آپ سے اگر پوچھا جائے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ طاقتور طبقہ کون سا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ 
آپ کا فوری جواب ہوگا، فوج۔ لیکن طاقت ور طبقہ تو وہ ہوتا ہے جس کا کوئی بال بیکا نہ کر سکے۔ یہاں تو جنرل پرویز مشرف مقدموں پر مقدمے بھگت رہے ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ بارہا عدالتوں میں پیش ہوکر فیصلے سن چکے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک کے خلاف کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکیں۔ فوج کا اندرونی نظام ایسا ہے کہ کوئی جرم کرکے بچ ہی نہیں سکتا۔ 
تو پھر سیاست دان؟ نہیں! وہ تو پھانسی بھی چڑھ چکے۔ نوازشریف سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک‘ شیخ رشید سے لے کر جاوید ہاشمی تک‘ سب قیدوبند کی صعوبتیں سہتے رہے۔ سیاستدان جلاوطن ہوئے۔ میڈیا نے ہر سیاست دان پرکیمرے فکس کیے ہوئے ہیں۔ 
تو پھر بیوروکریسی طاقتور ترین ہے؟ بالکل نہیں۔ یحییٰ خان اور بھٹو نے سیکڑوںکو برطرف کردیا۔ نیب نے کئی افسروںکو سلاخوں کے پیچھے بندکیا۔ آئے دن عدالتوں میں بیوروکریٹ دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ محمد علی نیکوکارا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ آپ کے سامنے ہے۔ قانونی تحفظ انہیں حاصل نہیں۔ جو حکومت آتی ہے‘ انہیں ذاتی ملازم سمجھ کر الٹے سیدھے کام کراتی ہے۔ دیانتدار بیوروکریٹ کی زندگی تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ 
طاقتور صرف اُس گروہ کو کہا جا سکتا ہے جو قانون سے ماورا ہو اور فوج سے لے کر سول حکومت تک، پولیس سے لے کر نیب تک ‘ بیوروکریسی سے لے کر ادنیٰ سرکاری اہلکار تک کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
 پانچ دن پہلے یعنی آٹھ اپریل کو کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس منعقد ہوا، وزیراعظم پاکستان نے اجلاس کی صدارت کی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں شادی کی تقریبات رات دس بجے تک ختم کردی جائیں، دکانیں آٹھ بجے بند کر دی جائیں اور ریستوران گیارہ بجے کے بعدکاروبار نہ کریں۔ 
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس فیصلے میںکیا چیز ناروا ہے اورکون سا ظلم ہوا ہے؟ ساری مہذب دنیا میں بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ بجے شام بند ہو جاتے ہیں۔ لوگ سات بجے رات کا کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ یہی اصول‘ جس پر سارا مغرب کاربند ہے‘ اسلام نے بھی بتایا ہے۔ ہمارے مذہبی رہنمائوں نے ہمیشہ یہی تلقین کی ہے کہ عشاء کے بعدگپ شپ اور دیر سے سونا درست نہیں ہے سوائے اس کے کہ مہمان سے بات چیت کی جائے یا بیوی سے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ صبح کی نماز یا تہجد کی عبادت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ نیند پوری نہ ہونے سے دن کوکاہلی غالب آتی ہے اوردنیاوی فرائض اور کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔ 
تاجر برادری نے اس پر قیامتِ صغریٰ برپا کر لی ہے۔ وہ چیخ و پکار ہو رہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بس یوں سمجھیے کہ نوحہ خوانی کی کسر رہ گئی ہے۔ حکومت کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے دارالحکومت کے تاجروں نے قانون کی دھجیاں اڑائیں… باقاعدہ للکارا گیا کہ ’’شٹر ڈائون کبھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ حکومت کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ’’جب تک حکومت تاجر برادری کو پوری طرح اعتماد میں لے کر فیصلے نہیں کرے گی، اسلام آباد کی تمام مارکیٹیں رات آٹھ بجے کے بعد بھی حسب معمول کھلی رہیں گی۔ اگر حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا یا زبردستی مارکیٹیں بند کرانے کی کوشش کی تو تاجر برادری تمام شہرکو مفلوج کر سکتی ہے‘‘۔ 
اب دلائل سنیے جو تاجر برادری اس فیصلے کے خلاف پیش کر رہی ہے: 
O حکومت نے تاجر برادری کو فیصلہ کرتے وقت اعتماد میں نہیں لیا۔ 
O حکومتی فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ 
O پورے ملک میں اس قانون کا اطلاق کیوں نہیں کیا جا رہا؟ 
O بجلی کا بحران پورے ملک کا مسئلہ ہے‘ پورے ملک میں ایک پالیسی اپنائی جائے۔ 
O تاجر برادری میٹرو بس منصوبے کی وجہ سے پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے۔ 
تاجروںکو’’اعتماد میں نہ لینے‘‘ کا مطلب واضح ہے کہ حکومت تاجروں سے پوچھے ، ’’جہاں پناہ ! آپ اجازت دیں تو فلاں قانون بنا دیا جائے‘‘۔ تاجر برادری جواب میں کہے کہ ہرگز نہیں! رہا ناانصافی کا معاملہ تو اگر پوری دنیا میں ایسا ہو رہا ہے توکیا پوری دنیا میں ناانصافی ہو رہی ہے؟ اور اگر میٹرو منصوبے سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کا حل رات کوکاروبارکرنا ہے تو پھر رات بھر۔۔۔۔۔ صبح کے پانچ چھ بجے تک کاروبارکرکے نقصان پورا کر لیجیے! 
آج تک تاجر برادری اس سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ بازار دن کو بارہ بجے کیوں کھولے جاتے ہیں؟ کس ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ اس مسئلے کا لوڈشیڈنگ سے کوئی تعلق نہیں! کیا آسٹریلیا سے لے کرکینیڈا تک‘ جہاں بازار سرِ شام بند ہو جاتے ہیں‘ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے؟ کہیں بھی نہیں! 
حقیقت یہ ہے کہ تاجروں، دکانداروں کا طبقہ ملک میں طاقتور ترین طبقہ ہے۔ ان پرکسی اخلاقی‘ شرعی‘ ملکی اور بین الاقوامی قانون کا اطلاق نہیں ہو رہا۔ انتہا یہ دھمکی ہے کہ ’’تاجر برادری تمام شہرکو مفلوج کر سکتی ہے‘‘۔ گویا شہر میں تاجر برادری کے علاوہ اورکوئی رہتا ہے نہ کسی کے حقوق ہیں۔ 
ان حضرات پر ٹیکس نافذ کیا جائے تو انہیں یاد آ جاتا ہے کہ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا روپیہ درست استعمال نہیں ہو رہا۔ قومی خزانے کو غلط استعمال کرنے والوں کا ووٹ بینک یہ تاجر خود ہی ہیں! رشوت لینے والا جہنمی ہے اور دینے والے کون ہیں؟ محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں کو رشوت لینا سکھاتا کون ہے؟ دہرے دہرے رجسٹرکس نے بنائے ہوئے ہیں؟ خریداری کے بعد رسید مانگی جائے تو غصے سے ان کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اورگاہک کی بے عزتی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ تکیہ کلام ان کا یہ ہے کہ لے لیجیے‘ گارنٹی ہے۔گارنٹی لکھنے کا کہا جائے تو موت پڑ جاتی ہے۔ ’’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہوگا‘‘ جیسے وحشیانہ بورڈ صرف اس ملک کی دکانوں ہی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ شادی کے ملبوسات تیارکرنے والے تاجر خواتین کا اتنا استحصال کرتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ پچانوے فیصد تاجر جھوٹے وعدے کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو ملبوسات تیار ہوں گے۔ خواتین لینے آتی ہیں تو فرعونی لہجے میں بتایا جاتا ہے کہ اب فلاں تاریخ کو آیئے۔ متشرع لوگوں کی ان میںکثیر تعداد ہے لیکن ملاوٹ اور جعل سازی ملک میں عروج پر ہے۔ کم تولنے اور ماپنے کو تو چھوڑ ہی دیجیے‘ شیمپو سے لے کر ادویات تک، خوراک سے لے کر دودھ تک سنگدلی سے ملاوٹ والا مال بیچا جا رہا ہے۔ ناروا تجاوزات ان کی آمدنی کو ناجائزکر رہے ہیں، لیکن ان کا خیال یہ ہے کہ نمازیں اور عمرے ناجائز آمدنی کو جائزکر دیںگے۔ ان ظالم تاجروں نے اپنی دکانوں کے سامنے اس خالی جگہ پر جو حکومت نے پارکنگ کے لیے بنائی تھی‘ سٹال لگوائے ہوئے ہیں۔ سٹالوں والے انہیں ماہانہ بھتہ دیتے ہیں۔ ترقیاتی ادارے کے کرپٹ اہلکار اس گھنائونے کاروبار میں برابرکے شریک ہیں۔ مسجدیں نجی شعبے کی ملکیت میں ہیں‘ عوام کوکون بتائے کہ تجاوزات سے آمدنی حرام کی آمدنی ہو جاتی ہے اور ملاوٹ سے جو انسان ہلاک ہو رہے ہیں‘ ان کے قاتلوں کو دکانوں کے باہر لگے ہوئے وہ بورڈ نہیں بچا سکیں گے جن پر درود شریف اور قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں! 
میاں نوازشریف پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ تاجر برادری سے رعایت برتتے ہیں۔ آٹھ بجے کاروبار بند کرانے کا قانون حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے اور یہ الزام غلط کرنے کا سنہری موقع ہے۔ حکومت سے التماس ہے کہ ڈٹ جائے۔ میڈیا سے استدعا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کی حمایت کرے اور تاجروں کی دھاندلی اور بلیک میلنگ سے عوام کو آگاہ کرے۔

Saturday, April 11, 2015

نادان دوست


باپ کا رویہ عجیب تھا۔ اسے کسی طور بھی نارمل نہیں کہا جا سکتا تھا۔ تین بچوں میں سے منجھلے بیٹے کے ساتھ وہ ترجیحی سلوک کرتا تھا۔ ’’انور نے ناشتہ کیا؟ کیا انور کے لیے عید کے نئے کپڑے آ گئے؟ کیا انور نے ہوم ورک کر لیا؟ کیا انور کے کمرے کی صفائی ہو گئی؟ فلاں شے انور کے لیے الگ کر کے رکھ دو‘‘… اس قسم کے سوالات اور ہدایات تھیں جن سے گھر کے تمام افراد چڑنا شروع ہو گئے۔ بیوی نے کئی بار سمجھایا کہ تینوں بچے تمہارے نزدیک یکساں سلوک کے مستحق ہونے چاہئیں۔ اس نے بتایا کہ وہ تینوں میں سے کسی کے ساتھ ترجیحی سلوک روا نہیں رکھ سکتی اس لیے کہ باقی دو کی دل آزاری ہوگی۔ لیکن ’’عقل مند‘‘ باپ کے بھیجے میں یہ نکتہ نہ سما سکا۔ اس نے انور کے ساتھ خصوصی برتائو جاری رکھا۔ 
انور کو اس احمقانہ امتیاز کا فائدہ تو کیا ہونا تھا‘ نقصان بہت ہوا۔ باقی دونوں بچے اس سے کھنچنے لگے۔ وہ انہیں بھائی کم اور حریف زیادہ نظر آنے لگا۔ حسد کا عنصر زہر کی طرح سرایت کرنے لگا۔ دونوں‘ نادانستہ طور پر‘ مخالف فریق بن گئے۔ وہ ہر معاملے میں مخالفت کرنے لگے۔ باپ کے غیر دانشمندانہ رویے کی سزا انور کو ملنے لگی… اور تو اور‘ ماں بھی اس کا کام کرتے یا کرواتے ہوئے یہ محسوس کرنے لگی کہ اپنا فرض نہیں ادا کر رہی‘ میاں پر احسان کر رہی ہے۔ جو گرم جوشی دوسرے دو بچوں کے لیے تھی‘ کوشش کے باوجود انور کے لیے پیدا نہ ہو سکی۔ باپ کا ترجیحی سلوک انور کے لیے زندگی بھر کی محرومی کا سبب بن گیا۔ 
دو دن پہلے شہر کے وسط سے گزر ہوا۔ عین دوپہر کا وقت تھا۔ دفتروں میں کام اور بازاروں میں کاروبار عروج پر تھا۔ کانوں سے جوش و خروش سے بھری ہوئی بلند آواز تقریر ٹکرانے لگی۔ دائیں طرف دیکھا‘ شاہراہ کے کنارے جلسہ تھا۔ کوئی شعلہ بیان مقرر خطاب کر رہا تھا۔ پھر بینروں پر نظر پڑی۔ کئی کئی فرلانگ نہیں تو کئی کئی گز لمبے بینر ہر طرف چھائے ہوئے تھے۔ یہ ایک گروہ کی سرگرمی تھی۔ یہ اجتماع مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے دفاع کے ضمن میں منعقد ہوا تھا۔ 
سوال یہ ہے کہ کسی ملک کے دفاع کے لیے اگر کوئی مخصوص گروہ یا مخصوص مسلک کے لوگ سرگرمی دکھائیں گے اور اس ملک کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کریں گے تو اس ملک کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ اگر اکثریت کا اُس مسلک سے تعلق نہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ سرگرمیاں اُس ملک کو بھی ایک مخصوص گروہ یا ایک مخصوص مسلک کے حوالے سے دیکھنے کا سبب بن جائیں۔ 
سعودی عرب کسی ایک گروہ کی آنکھ کا تارا نہیں۔ وہ تو دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کا مرجع ہے۔ کیا کوئی سنی‘ کوئی شیعہ‘ کوئی اہلِ حدیث‘ کوئی بریلوی‘ کوئی سلفی‘ کوئی دیوبندی‘ کوئی زیدی‘ کوئی مالکی‘ کوئی حنفی‘ کوئی شافعی‘ کوئی حنبلی یا کوئی جعفری ایسا ہے جو سبز گنبد کو دیکھ کر مجسم عقیدت و اطاعت نہ بن جائے؟ کیا ان گروہوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جو سبز گنبد والے اور کالی کملی والے کا نام نامی اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنے لگ جائے۔ کیا کوئی ایسا ہے جس کی زندگی کی سب سے بڑی آرزو مقامِ ابراہیم کا دیدار‘ حرمِ پاک کا طواف اور ملتزم سے چمٹنا نہ ہو؟ کیا صفا اور مروہ کے درمیان سعی کسی ایک گروہ کے لیے مخصوص ہے؟ کیا زمزم سب کے لیے مقدس نہیں؟ سعودی عرب میں حرمین ہیں۔ جس خاک میں سرورِ کونینؐ محوِ استراحت ہیں‘ وہ خاک ایک گروہ نہیں‘ تمام مسلمانوں کی آنکھ کا سرمہ ہے۔ حضرات ابوبکر صدیقؓ اور عمر فاروقؓ کی مقدس قبور وہاں ہیں۔ وہاں جنت البقیع ہے جہاں خاتونِ جنتؓ آرام فرما ہیں۔ نواسۂ رسول امام حسنؓ وہیں ہیں۔ امام زین العابدینؒ اور امام باقر  ؒ ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ کے استادِ گرامی امام جعفر صادقؒ کی قبر مبارک ہے۔ مسجد نبوی میں ریاض الجنۃاور منبرِ رسولؐ ہے۔ وہاں وہ مقدس گھر ہے جہاں آمنہؓ کے لالؐ دنیا میں تشریف لائے۔ حرا اور ثور کے مقدس غار ہیں۔ بدر اور احد کے میدان ہیں۔ وہ رہگزاریں ہیں جہاں مقدس پائوں پڑے۔ حجاز وہ مقدس سرزمین ہے جو گروہوں‘ نسلوں‘ رنگوں‘ مسلکوں‘ عقیدوں سے ماورا ہے۔ اللہ کے بندو! کیا تم نہیں دیکھتے کہ مسجدِ نبوی کی آغوش سب کے لیے وا ہے۔ سیاہ فام‘ زرد فام‘ سفید فام سب کو دامن میں سمیٹے ہے۔ ان گنہگار آنکھوں نے ویل چیئر پر ایک سفید فام یورپی مرد کو دیکھا‘ اُس نے پونی رکھی ہوئی تھی۔ عقیدت سے اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ وہاں تو کوئی بھی دھتکارا نہیں جاتا! اس مقدس سرزمین پر کسی مخصوص گروہ‘ کسی خاص مسلک‘ کسی ایک جماعت کی چھاپ نہ لگنے دو۔ احتیاط کرو! کہیں ایسا نہ ہو کہ آبگینے کو ٹھیس لگ جائے۔ خدانخواستہ‘ میرے منہ میں خاک‘ کسی دل میں اس شائبے کا سایہ نہ پڑ جائے کہ یہ ملک تو فلاں مسلک یا فلاں گروہ سے وابستہ ہے   ؎ 
ادب گاہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر 
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا 
اور ایران؟ ایران آخر ایک مسلک یا ایک گروہ کی جذباتی ملکیت کس طرح ہو سکتا ہے؟ ایران تو ہماری تہذیب کا گڑھ ہے۔ آٹھ سو سال تک فارسی ہماری سرکاری اور تہذیبی زبان رہی۔ آج بھی وہ ہماری تہذیبی زبان ہے۔ لاکھوں مدارس میں گلستان اور 
بوستان صدیوں تک پڑھائی جاتی رہی۔ ان شہرۂ آفاق کتابوں کا خالق‘ بلغ العلیٰ بکمالہٖ‘ کشف الدجیٰ بجمالہٖ‘ حسنت جمیع خصالہٖ‘ صلوا علیہ وآلہٖ جیسی شاہکار سطریں لکھنے والا سعدی ایران ہی میں تو آسودۂ خاک ہے۔ وہ حافظ شیرازی جس کے بارے میں علامہ اقبال کے چند اشعار حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی کی طبع نازک پر گراں گزرے تو روایت ہے کہ علامہ نے وہ حذف کر دیے‘ وہ حافظ شیرازی ایران ہی میں تو آرام کر رہا ہے۔ کیا کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران‘ برصغیر کے اطراف و اکناف میں دیوانِ حافظ کے کتنے نسخے طبع ہوئے‘ کتنوں نے مدرسوں‘ خانقاہوں‘ مزاروں‘ مسجدوں‘ حجروں اور آستانوں پر دوزانو ہو کر اسے پڑھایا اور کتنوں نے سبقاً سبقاً لفظ لفظ اسے پڑھا؟ یہ اشعار آخر کس کے لیے اجنبی ہو سکتے ہیں   ؎ 
الا یا ایہاالساقی ادِر کاساً و ناولہا 
کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکل ہا 
بمی سجادہ رنگین کن گرت پیرِ مغان گوید 
کہ سالک بی خبر نبود ز راہ و رسمِ منزل ہا 
اور یہ بھی کہ 
اگر آن ترکِ شیرازی بدست آرد دل ما را 
بخالِ ہندئوش بخشم سمرقند و بخارا را 
بدہ ساقی مئی باقی کہ درجنت نخواہی یافت 
کنارِ آبِ رکناباد و گلگشتِ مصلیٰ را 
اور وہ نیشاپور بھی تو ایران ہی میں ہے جہاں صوفیوں کے صوفی عطار تھے۔ کیا رومی نے نہیں کہا تھا ع 
ما از پئی سنائی و عطار آمدیم 
اور وہ اصفہان‘ جو نصف جہان تھا اور جو ایرانی نہیں مسلم ثقافت کا ترجمان تھا اور رہے گا   ؎ 
ملیں گے آیندگاں کو تبریز اور حلب میں 
گئے ہوئوں کی نشانیاں اصفہاں سے لیں گے 
ہم سے تو اُس معیار کی کلیات اقبال بھی شائع نہ ہو سکی  جو ایرانی شائع کرتے ہیں۔ کیا طباعت ہے اور کیا اقبال سے محبت ہے اہلِ ایران کو! غالبؔ اور بیدلؔ کا کلام بھی انہی کے دم سے سلامت ہے اور امیر خسرو کا بھی! 
سینکڑوں سال خود برصغیر ایرانی شاعروں‘ ادیبوں‘ دانشوروں‘ سپاہیوں کے لیے مقناطیس کی طرح پُرکشش رہا۔ نظیری‘ ابو طالب کلیم‘ طالب آملی‘ صائب تبریزی تو چند نام ہیں۔ آنے والوں اور بس جانے والوں کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ حیدرآباد دکن میں آج بھی ایرانی گلی موجود ہے۔ برصغیر کے مسلمان اور ایران ایک دوسرے سے الگ کس طرح ہو سکتے ہیں   ؎ 
جو تم ہو برقِ نشیمن تو میں نشیمنِ برق 
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب کیا کہنا! 
یہ رشتے سیاست دانوں اور حکمرانوں کے مرہونِ منت نہیں‘ نہ ان سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ صفوی‘ قاچاری‘ آریا مہر‘ مغل‘ سب تاریخ کے دھندلکوں میں کھو گئے۔ جو آج ہیں‘ کل وہ بھی نہیں ہوں گے۔ ایران میں صرف حکمران نہیں‘ اور بھی لوگ ہیں۔ مجتہدینِ عرفانیات بھی ہیں! پاکستانیوں کا تعلق حکمرانوں سے نہیں‘ ایران اور اہلِ ایران سے ہے۔ ثقافت‘ ادب‘ زبان اور تہذیب سے ہے اور رہے گا۔ اس میں کسی مسلک یا کسی گروہ کی ملکیت ہے نہ اجارہ داری! 
محبت‘ عقیدت‘ ثقافت اور ادب کے رشتوں کو‘ جو صدیوں پر محیط ہیں‘ مسلکوں اور گروہوں کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ سعودی عرب اور ایران دونوں کو اُن نادان دوستوں کی ہرگز ضرورت نہیں جو دوست کے چہرے پر بیٹھی ہوئی مکھی کو پتھر سے کچلنے کی کوشش کرتے ہیں۔

Wednesday, April 08, 2015

جانِ جہاں!!


بہت سوں کو وہ زمانہ یاد ہوگا جب گرمیوں میں چھت پر سویا جاتا تھا۔ تب یہ ’’کوٹھیاں‘‘ نہیں تھیں جو آج کل امرا لوٹ کھسوٹ کر کے اور غربا قرضے لے کر بنواتے ہیں‘ جو گرمیوں میں بھٹی کی طرح تپتی ہیں اور سردیوں میں زمہریر بن جاتی ہیں۔ آنگن ہوتا تھا جس کے دو طرف یا تین طرف کمرے ہوتے تھے۔ تب ہر گھر میں نردبان کا ہونا ضروری تھا۔ نردبان لکڑی کی بنی ہوئی وہ سیڑھی تھی جسے پنجابی میں پٹرسانگ کہتے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا  ؎ 
نہ سنھ لگی موریوں‘ نہ پوڑی‘ نہ پٹرسانگ 
صاحباں مرزا لے گیا جا رکھی سو چوتھے اسمان 
(سوراخ سے نقب لگی‘ نہ ہی کوئی سیڑھی تھی نہ نردبان۔ پھر بھی مرزا صاحباں کو لے اڑا اور کہیں چوتھے آسمان پر چھپا دی) 
بچوں کے لیے نردبان پر چڑھنا آسان نہ تھا۔ آخری ڈنڈے سے چھت پر پائوں رکھنا مشکل ہوتا تھا۔ ڈر بھی بہت لگتا تھا۔ 
اُس شخص کی ’’عقل مندی‘‘ پر ماتم کیجیے جس کے لیے چھت پر آرام دہ بستر بچھا ہے۔ شام ڈھل رہی ہے۔ چھت پر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ وہ نردبان پر چڑھنا شروع کرتا ہے۔ نردبان جس زمین پر رکھا ہے وہاں پھسلن ہے۔ لکڑی کے ڈنڈوں کے درمیان‘ فاصلہ بھی زیادہ ہے۔ یوں لگتا ہے نردبان کے سرے زمین سے پھسل جائیں گے یا اوپر چڑھنے والے کا پائوں کسی ڈنڈے پر غلط پڑے گا اور وہ دھڑام سے زمین پر آگرے گا۔ لیکن چڑھنے والا اوپر چڑھتا جا رہا ہے۔ آہستہ آہستہ‘ نردبان کے دونوں عمودی بانسوں کو پکڑتا‘ بالآخر وہ آخری ڈنڈے پر پائوں رکھ دیتا ہے۔ اب اس کے اور چھت کے درمیان کوئی اور ڈنڈا نہیں ہے۔ اب اسے آخری کوشش کرنی ہے۔ آخری ڈنڈے سے ایک پائوں چھت کی منڈیر پر رکھ کر زور لگا کر دوسرا پائوں بھی اوپر لے جانا ہے۔ یوں وہ چھت پر چڑھنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ نرم بستر پر ایک سہانی شام سے لطف اندوز ہوگا۔ سبز گھڑے سے ٹھنڈا پانی پئے گا اور میٹھی نیند کے مزے اُڑائے گا۔ مگر آخری ڈنڈے پر پہنچ کر وہ رُخ بدل لیتا ہے۔ اب اُس کی پیٹھ چھت کی طرف ہے اور منہ کیچڑ بھرے آنگن کی طرف۔ دیکھنے والے حیران ہوتے ہیں اور پریشان بھی۔ اچانک وہ چھلانگ لگاتا ہے اور چھلانگ بھی اس قدر زور سے کہ نردبان کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ نردبان گر پڑتا ہے۔ چھلانگ لگانے والا آنگن کے عین درمیان میں آ گرتا ہے‘ اور یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں کہ اس کا کیا حال ہوتا ہے۔ اب وہ چیخ پکار کر رہا ہے اور ہائے ہائے کی آوازیں چاروں طرف پھیل جاتی ہیں۔ 
یہ تمثیل یوں یاد آئی کہ چار دن پہلے سابق چیف ایگزیکٹو‘ سابق صدر مملکت اور سابق کمانڈر اِن چیف جناب جنرل پرویز مشرف ٹیلی ویژن سکرین پر نمودار ہو کر قوم کو گردابِ بلا سے نکلنے کی تدبیر بتا رہے تھے۔ اپنے عہدِ ہمایونی کی ظفریابیاں گنوا رہے تھے۔ موجودہ حکومت کی اقربا پروری اور دوست نوازی پر برس رہے تھے اور عمران خان کو سمجھا رہے تھے کہ متحدہ کا ووٹ بینک توڑنا غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں۔ جو کچھ وہ فرما رہے تھے اسے نرم ترین الفاظ میں بھی بیان کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ نردبان کے آخری ڈنڈے پر پہنچ کر بجائے اس کے کہ جنرل صاحب چھت پر چڑھ جاتے اور آرام و استراحت کے مزے لوٹتے‘ انہوں نے رُخ کیچڑ بھرے صحن کی طرف کر لیا ہے اور چھلانگ لگا رہے ہیں۔ 
سینئر جرنیل کا حق مارتے ہوئے‘ اُس وقت کے حکمرانِ اعلیٰ نے جنرل صاحب کو نیچے سے اٹھایا اور سپہ سالار بنا دیا۔ قوم کے نکتۂ نظر سے یہ غلطی تھی جس کا حکمرانِ اعلیٰ نے ارتکاب کیا مگر جنرل صاحب پر حکمران اعلیٰ کا بہرطور احسان تھا۔ اس احسان کا بدلہ خوب دیا! اس بات کو بھی چھوڑ دیجیے‘ اور چلیے‘ ذمہ داری حالات پر ڈال دیجیے۔ جنرل صاحب نے محسن کو کال کوٹھڑی میں پھینک کر اقتدار کی زمام خود سنبھال لی۔ کم و بیش ایک عشرے تک مملکتِ خداداد کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ جو چاہا کیا۔ مالٹے کے پودوں پر کیکر کی پیوندکاری کی۔ جَو کا نام گندم رکھا۔ ان کے دورِ حکومت میں ہر شخص زبانِ حال سے حافظ شیرازی کے یہ شعر پڑھتا نظر آیا   ؎ 
ابلہان را ہمہ شربت ز گلاب و قند است 
قوتِ دانا ہمہ از خونِ جگر می بینم 
اسپِ تازی شدہ مجروح بزیر پالان 
طوق زرین ہمہ در گردنِ خر می بینم 
احمقوں کو جنرل صاحب نے میٹھے شربت پلائے‘ عقل مند خونِ جگر پیتے رہے۔ قیمتی گھوڑوں کو گدھوں کی طرح برتا گیا اور گدھوں کی گردنوں میں جڑائو ہار ڈالے گئے۔ 
یہ نردبان کا آخری ڈنڈا تھا۔ جنرل صاحب کو چاہیے تھا کہ آخری ڈنڈے پر پہنچ کر اطمینان کا سانس لیتے اور شکر بجا لاتے کہ دوسروں کی غلطیاں تھیں یا جو کچھ بھی تھا‘ جنرل صاحب نے عروج دیکھا اور جی بھر کر دیکھا۔ لیکن جو کچھ وہ ٹیلی ویژن پر کہہ رہے تھے‘ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ وہ چھت پر چڑھ کر آرام کرنے کے بجائے کیچڑ میں چھلانگ لگانے پر تلے ہیں۔ 
ہنسی اُس وقت آئی جب ان کا ’’ماموں چاچوں‘‘ والا طعنہ سنا۔ مفہوم ارشاد گرامی کا یہ تھا کہ میرٹ پر کوئی کام نہیں ہو رہا اور ماموں چاچوں کو نوازا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے کچھ اس قسم کا نسخہ بھی تجویز فرمایا کہ جمہوریت اور آمریت جائیں بھاڑ میں۔ 
یہ بات کہ ماموں چاچوں کو نوازا جا رہا ہے اور میرٹ کُشی ہو رہی ہے‘ کم از کم جنرل صاحب کو نہیں کرنی چاہیے تھی۔ اس موضوع پر ہم نے بہت لکھا ہے اور موجودہ حکومت پر تنقید کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر شہنشاہ اورنگ زیب دوسروں کو نصیحت کرنے لگ جائے کہ تخت نشینی کی جنگ سے پرہیز کرنا چاہیے اور اقتدار کے لیے برادر کشی نہ کی جائے تو اس نصیحت کا کیا اثر ہوگا؟ 
جنرل صاحب کے زمانے میں ملک کے غریب بلکہ غریب ترین حلقے سے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو جس طرح کامیاب کرا کر قوم کی گردن پر سوار کیا گیا‘ کیا وہ میرٹ کا مظہر تھا؟ درجنوں اہل سرکاری ملازم ریٹائر ہوتے رہے اور وفاقی شعبۂ تعلیم کا سربراہ ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو بنایا گیا۔ پھر اسے ایک بار نہیں‘ دو بار نہیں‘ پانچ بار توسیع دی گئی۔ ساری دنیا کو پتہ تھا کہ اس کی پشت پر کون سی ’’طاقت‘‘ تھی! پوری پوری زندگیاں تعلیم کے میدان میں خونِ جگر جلانے والے کسمپرسی کی حالت میں عدالتوں کے دھکے کھاتے رہے اور تاریخ کی گرد میں روپوش ہوتے رہے۔ 
’’میرٹ‘‘ کی ایک تابندہ مثال انڈونیشیا کا قصہ ہے۔ سفیر نے وزارتِ خارجہ کی اجازت کے بغیر‘ قوانین کو پامال کرتے ہوئے سفارت خانے کی عمارت فروخت کی۔ نائب سفیر نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے وزارت خارجہ کو خبردار کیا۔ جنرل پرویز مشرف کی ’’میرٹ نوازی‘‘ جوش میں آ گئی۔ نائب سفیر کو وطن واپس بلا لیا گیا اور اس کی بقیہ زندگی سزا میں گزر گئی۔ وہ نرم گفتار‘ دیانت دار افسر سالہا سال تک او ایس ڈی رہا۔ وزارتِ خارجہ سے نکال ہی دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں بغیر کسی دفتر اور ڈیوٹی کے دھکے کھاتا رہا۔ بالآخر اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کی وفات کے بعد قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اجلاس میں اس کی بیوہ نے آنسوئوں بھری داستان سنائی۔ کمیٹی کے ارکان نے اس ظلم کی مذمت کی۔ بہت جلد‘ جنرل صاحب کو اس افسر کا اور اس جیسے بہت سے دوسرے افراد کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایک اور عدالت میں بتانا پڑے گا کہ ماموں چاچوں کو کون نواز رہا تھا۔ 
سول سروس کے ساتھ جنرل صاحب نے خصوصی طور پر وہ سلوک کیا جو تاتاری جنگ جُو حکمران نے دکھیاری ماں کے ساتھ کیا تھا۔ یعنی بچے کو نیزے میں پرو کر اٹھایا اور ماں کی خدمت میں پیش کردیا۔ پوسٹل سروس کے اوپر ایک ریٹائرڈ جرنیل کو لا بٹھایا۔ ملٹری لینڈ اینڈ کنٹونمنٹ سروس کے‘ جو مقابلے کے امتحان کا حصہ ہے‘ افسروں سے محکمے کی سربراہی چھین لی۔ اور تو اور سول سروس کی بڑی بڑی تربیت گاہوں (بشمول بلند ترین ادارے سٹاف کالج) پر اُن افراد کو لا بٹھایا جن کا دور دور سے تعلق سول سروس سے نہ تھا۔ ایسا زہریلا اور گھٹن بھرا ماحول بنا کہ کتنے ہی زیر تربیت افسران ہارٹ اٹیک کا شکار ہو گئے۔ 
رہی جمہوریت تو حضور! جمہوریت پر ہم تنقید تو کر سکتے ہیں! آپ کے قوم پر پہلے ہی بہت احسانات ہیں۔ این آر او ان احسانات کی ایک خفیف سی جھلک ہے۔ آپ مزید احسانات نہ فرمایئے۔ جمہوریت کو بھاڑ میں نہ جھونکیے۔ اپنے ذاتی اعمال ہماری بہادر مسلح افواج کے کھاتے میں بھی نہ ڈالیے۔ بس اب چھت پر چڑھ کر بقیہ زندگی ٹھنڈی ہوا کے مزے لیجیے۔ پیاس لگے تو سبز گھڑے سے آبِ سرد نوش فرمایئے   ؎ 
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں 
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے

Monday, April 06, 2015

سفاری پارک


سفاری پارک کے عین درمیان میں پکی سڑک تھی‘ یہ سڑک‘ جو کسی بھی شاہراہ کا مقابلہ کر سکتی تھی‘ عالی شان اور تعمیر میں اعلیٰ معیار کی تھی گویا سڑک نہ تھی کارپٹ تھی۔ سڑک کے دونوں طرف درندے گھوم رہے تھے۔ افریقہ سے آئے ہوئے خونخوار شیر اور چیتے‘ تھائی لینڈ اور برما کے جنگلوں سے لائے گئے طاقتور ہاتھی‘ جو بڑے سے بڑے درخت کو اکھاڑ پھینکیں۔ جان لیوا ٹکر مارنے والے گینڈے‘ لمحوں میں چیر پھاڑ دینے والے بھیڑیے۔ ستم ظریفی یہ تھی کہ کروڑوں اربوں روپے کی بنی ہوئی بین الاقوامی معیار کی عالی شان شاہراہ‘ تماشائیوں کو اِن چیتوں‘ بھیڑیوں‘ ہاتھیوں اور گینڈوں سے بچا نہیں سکتی تھی۔ اس لیے سفاری پارک میں جگہ جگہ جلی حروف میں ہدایات لکھی تھیں کہ گاڑی سے نیچے نہ اتریں اور شیشے بند رکھیں۔ بعض سفاری پارکوں میں گاڑیوں کو سیر کے دوران رُکنے کی اجازت بھی نہیں ہوتی۔ مسلسل چلتی ہوئی گاڑیوں پر جانور حملہ کرنے سے شاید ہچکچاتے ہیں! 
زین جس شہر میں ہلاک کیا گیا‘ وہ شہر بھی سفاری پارک ہی ہے۔ اس شہر میں ایسی ایسی عظیم الشان پختہ شاہراہیں تعمیر کی گئی ہیں اور مسلسل تعمیر کی جا رہی ہیں کہ بین الاقوامی معیار سے ایک ذرہ نیچے نہیں۔ ان شاہراہوں پر تارکول کی تہوں کی تہیں بچھائی گئی ہیں۔ ٹھیکیداروں‘ مزدوروں اور انجینئروں نے صوبے کے بے مثال انتظامی صلاحیتوں والے حکمران اعلیٰ کی کڑی نگرانی میں دن رات ایک کر کے یہ شاہراہیں تعمیر کی ہیں۔ اس شہرِ دلربا میں اوور ہیڈ پُلوں اور انڈر پاسوں کا جال بچھا ہے۔ موٹروے سے جگہ جگہ ذیلی سڑکیں نکالی گئی ہیں۔ اب ایک اور عظیم الشان شاہراہ شہر کے وسطی علاقوں کو موٹروے سے براہ راست جوڑنے کے لیے زیر تعمیر ہے۔ شہر میں جگہ جگہ پھولوں بھرے باغات ہیں۔ دیدہ زیب پارک ہیں۔ سب کچھ ہے مگر اس سفاری پارک میں درندے بے خوف و خطر گھوم رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے‘ سفاری پارک اصل میں ان درندوں ہی کے لیے بنایا گیا ہے اور انہی کے لیے اسے مزید سہولیات سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ اس شہر میں رہنے والے غیر مسلح شہری وہ تماشائی ہیں جو ان شاہراہوں پر گاڑیوں کے بغیر چلنے پر مجبور ہیں۔ درندوں سے بھرے سفاری پارک ہیں‘ سڑک جتنی بھی اعلیٰ معیار کی ہو‘ درندوں کے خون آشام پنجوں اور سفاک دانتوں سے نہیں بچا سکتی۔ بیوہ ماں کے یتیم زین کو بھی لاہور کی چمکتی شاہراہیں‘ اوور ہیڈ پُل‘ انڈر پاس‘ میٹرو بس کا جنگلہ‘ موٹروے سے جوڑتے چاندی جیسے دمکتے راستے‘ کچھ بھی نہ بچا سکا۔ سفاری پارک میں وہ مارا گیا۔ تین بہنیں بال کھولے ماتم کر رہی ہیں۔ بیوہ ماں سینے اور سر پر دوہتڑ مار کر نوحہ خوانی کر رہی ہے۔ اچھے زمانوں میں فرات کے کنارے بیٹھا ہوا کتا‘ زین سے زیادہ محفوظ تھا۔ مگر اُن زمانوں میں درندے کھلے نہیں پھرتے تھے۔ آج کھربوں روپے جس شہر پر صرف کیے جا رہے ہیں‘ اس میں درندے یوں بے خوف پھرتے ہیں‘ جیسے یہ جنگل ہے اور یہاں بے خوف پھرنا ان کا بنیادی حق ہے۔ 
اس کے بعد وہی ہوا جو ایک ڈرل کی طرح ہر بار ہوتا ہے۔ وہی فلم جو بیسیوں بار چلی‘ ایک بار پھر چلائی گئی۔ قتل کا ’’نوٹس‘‘ لیا گیا۔ ملزم کو پکڑنے کے احکامات ٹاپ سے جاری کیے گئے۔ ’’انصاف کیا جائے گا‘ مجرم کو نہیں چھوڑا جائے گا‘‘ شاہی سواری مقتول کے دروازے پر آ کر رکی۔ عماری سے حکمران اترے۔ چیک پیش کیا گیا۔ لیکن میڈیا بہت ظالم ہے۔ سارے انصاف کی قلعی کھول دیتا ہے۔ اخبار میں دوسرے دن ہی خبر چھپ گئی… ’’ملزم کو حوالات میں خصوصی پروٹوکول‘ گارڈز کے ساتھ علیحدہ کمرے میں سلایا گیا اور بہترین کھانے دیے گئے۔ ذرائع کے مطابق زین کے قاتل سابق وزیر کے بیٹے کو انویسٹی گیشن پولیس نے رات کو ایک محرر کے کمرے میں اس کے ذاتی گارڈز کے ساتھ سلایا اور صبح حلوہ پوری کا سپیشل ناشہ بھی کرایا‘‘۔ 
اس سے مستقبل کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ذاتی گارڈ کے ہمراہ محرر کے کمرے میں سلانے والی اور حلوہ پوری مہیا کرنے والی پولیس قاتل کو انصاف کی طرف لے کر جائے گی! یہ ایسے ہی ہے‘ جیسے پوپ مسجد میں جمعہ کا خطبہ دے‘ جیسے مودی کشمیر کو پاکستان کا حصہ قرار دے‘ جیسے حسینہ واجد بنگلہ دیش اور پاکستان کی مشترکہ حکومت تشکیل دینے کی تجویز پیش کرے! 
کئی زبانوں پر عبور حاصل کرنے والے وزیراعلیٰ کو یہ بات کس زبان میں بتائی جائے کہ امن تارکول کے مٹکوں سے اور لوہے کے انبار سے نہیں قائم ہوتا۔ امن اُس وقت قائم ہوتا ہے جب شہر اسلحہ سے پاک کر دیے جائیں۔ جب ایک ایک وڈیرے کے پاس ایک ایک درجن گارڈ ہوں گے اور ہر گارڈ کے پاس کئی کئی بندوقیں اور ریوالور ہوں گے تو مقتول کے گھر جانا امن کے ساتھ سفاک مذاق کرنے کے مترادف ہے۔ شہنشاہِ معظم! آپ کے اختیارات بے پایاں ہیں۔ آپ کی سلطنت بے کنار ہے! آپ کا خاندان بلاشرکتِ غیرے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ قانون آپ کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ آپ کو کس کا خوف ہے کہ آپ اسلحہ پر پابندی لگا کر اس پابندی کا نفاذ نہیں کرتے؟ جہاں پناہ! آپ پورے صوبے کو چھوڑیے‘ جس شہر پر آپ صوبے کے بجٹ کا اچھا خاصا حصہ صرف کر رہے ہیں‘ کم از کم اُس شہر ہی کو‘ تجربے کے طور پر ہی سہی‘ اسلحہ سے پاک کر کے دکھا دیجیے۔ آپ کے پاس کئی قسم کی پولیس ہے۔ اگر آپ 
اسے حکم دیں تو وہ ایک ہفتے میں شہر کے کونوں کھدروں اور تہہ خانوں سے بھی اسلحہ نکال کر آپ کے سامنے ڈھیر کر سکتی ہے۔ آپ اس شہر میں کسی ایسے فرد کو داخل ہونے کی اجازت ہی کیوں دیتے ہیں جس کے پاس اسلحہ ہے؟ 
انسداد دہشت گردی فورس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ ہوتی ہے۔ حکمرانِ اعلیٰ ایک جیپ پر سوار ہو کر قدِ آدم کھڑے ہوتے ہیں۔ پھر جیپ کروفر کے ساتھ وسیع و عریض گرائونڈ کا چکر لگاتی ہے۔ فورس کے جوان سلامی پیش کرتے ہیں۔ اس تقریب کی بھرپور کوریج ہوتی ہے۔ مگر افسوس! کوئی بچہ وہاں ایسا نہیں جو بادشاہ کے لباس کی تعریف کرنے والوں کو بتائے کہ لباس تو ہے ہی نہیں!    ؎
لباس تھا ہی نہیں میسر جسے بدلتا 
برہنگی ہو گئی پرانی‘ بدل رہا ہوں 
انسدادِ دہشت گردی فورس؟ ہاہاہا! ایسی ہزاروں فورسیں بھی آ جائیں تو دہشت گردی کا انسداد نہیں کر سکتیں اس لیے کہ انسداد کے لیے اسلحہ سے پاک معاشرہ درکار ہے۔ کرۂ ارض کا طاقت ور ترین ملک اپنے معاشرے سے قتل و غارت ختم نہیں کر سکا۔ سنگاپور کا فقیر حکمران لی کیوان یو امریکیوں کی حماقت پر ہنسا کرتا تھا۔ اس نے محض گولی چلانے کی سزا موت مقرر کی تھی‘ خواہ اُس گولی سے زخمی بھی کوئی نہ ہوا ہو۔ یوں اس کا ملک جو لاہور سے بڑا نہ تھا‘ فائرنگ سے پاک ہو گیا۔ 
جہاں پناہ! شہنشاہِ معظم! اگر آپ خود اس شہر کو اسلحہ سے پاک نہیں کر سکتے تو کسی لی کو کچھ عرصہ کے لیے کہیں سے اُدھار لے لیجیے!

Saturday, April 04, 2015

…کام دنیا کی امامت کا


ٹرین چل رہی تھی۔ خالد فضل ساتھ بیٹھا تھا اور میں شرمندہ ہور ہا تھا۔ 
خالد فضل والدہ کی طرف سے ملائیشیا کا ہے اور والد کی طرف سے پاکستانی۔ یوں والد کے حوالے سے ہمارے ساتھ عزیز داری ہے۔ اُس کے والد‘ طویل قامت‘ کشمیری النسل‘ سرخ و سفید‘ فضل الرحمن‘ دوسری جنگ عظیم میں موجودہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں میں برطانوی ہند کے فوجی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے‘ جاپانیوں کی قید سے گزرے۔ واپس وطن آئے تو ملائیشیا کا لینڈ سکیپ اور ملائیشیا کے لوگ مسلسل یاد آتے رہے۔ پھر بزرگوں سے اجازت لی اور دوبارہ وہاں جا کر اسی کو وطن بنا لیا۔ شاہی خانوادے کی ایک خاتون سے شادی کی۔ قبر بھی کوالالمپور ہی میں بنی۔ کئی سال پہلے جب ہم میاں بیوی کوالالمپور میں خالد فضل کے مہمان تھے تو چند دن کے قیام کے دوران اس نے کتنی ہی بار ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ وہ پاکستان میں‘ اپنے اجداد کے علاقے میں‘ آ کر بزنس کرنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار وہ اتنے سوز اور کرب سے کرتا تھا کہ یہ بتانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ راست گوئی‘ سادگی اور صدق و امانت تمہارے اجداد کے علاقے میں زیادہ بار آور ثابت نہ ہوگی! لیکن پھر ایک دن ٹیلی فون آیا۔ خالد فضل لاہور میں تھا۔ اپارٹمنٹ ڈھونڈ رہا تھا اور بزنس کے لیے ابتدائی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ معاملات کافی حد تک فائنل ہو چکے تھے۔ 
لاہور پہنچ کر اُسے شہر کی سیر کرائی۔ اسلام آباد آنے کے لیے ریل کار کا انتخاب کیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح لینڈ سکیپ دیکھا جا سکے گا اور راستے کے مشہور اور بڑے شہروں سے تعارف بھی ہو جائے گا۔ لاہور سے نکلتے وقت‘ ریلوے لائن کے کناروں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ خستہ مکانات تھے۔ گرتی اینٹیں تھیں۔ گلیوں میں کھڑا پانی تھا۔ مگر گفتگو میں یہ سب کچھ ایشیائی ملکوں کی عمومی حالت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ وہ سنتا رہا۔ خاموش رہا۔ سب ٹھیک تھا۔ پھر وہ ہوا جو شرمندگی کا باعث بنا۔ ہم ’’اے سی پارلر‘‘ میں بیٹھے تھے جو ’’اعلیٰ ترین‘‘ کمپارٹمنٹ تھا۔ پیچھے کی جانب‘ ایک نشست چھوڑ کر ایک بھائی صاحب نے موبائل پر بات کرنا شروع کی۔ آواز اس قدر بلند تھی کہ پورے کمپارٹمنٹ پر چھا رہی تھی۔ ان کا کوئی کاروباری معاملہ تھا۔ کسی نے رقم دینی تھی۔ یہ چیخ چیخ کر اُسے قائل کر رہے تھے کہ واپسی فوراً ہونی چاہیے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے مگر گفتگو کرنا ممکن نہ تھا۔ کافی دیر توقع رہی کہ بات اب ختم ہوتی ہے‘ اب ختم ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان کی بحث طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ بیس پچیس منٹ کے بعد ریلوے کے ایک افسر نما صاحب کا گزر ہوا۔ انہیں ٹھیٹھ پنجابی میں بتایا کہ ساتھ ایک غیر ملکی مہمان ہے۔ کانوں کے پردے پھاڑنے والی یہ گفتگو تو بند کرائیں۔ ٹھیٹھ پنجابی میں اس لیے کہ خالد فضل اردو سے اچھی خاصی شدبد رکھتا ہے۔ ریلوے کے افسر نما ملازم نے مکمل بے بسی کا اظہار کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ماضی میں کچھ ایسے مواقع پر مداخلت کی گئی لیکن منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجہ بحث اور پھر تلخ کلامی کی صورت میں نکلا اور ایک بار تو باقی مسافروں نے بھی اِس ’’بنیادی حق‘‘ کی خلاف ورزی پر اپنے مسافر بھائی کی طرفداری کی! 
خالد چند ہفتوں بعد اپنا نوزائدہ کاروبار سمیٹ کر واپس ملائیشیا چلا گیا۔ کیوں؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔ یہاں رونا ایک اور بات کا ہے۔ کئی سال پہلے کا یہ سفر جو خالد فضل کی معیت میں کیا تھا‘ گزشتہ ہفتے پھر یاد آیا اور بری طرح یاد آیا۔ وہی ریل کار تھی‘ وہی اے سی پارلر کا ڈبہ تھا‘ وہی لاہور سے پنڈی تک کا سفر تھا۔ (محبوب خزاں کی مشہور نظم ہے۔ پھر پنڈی سے لاہور چلے)۔ ہاں‘ اب کے کوئی غیر ملکی موجود نہ تھا کہ شرمندگی کا باعث بنتا۔ ویٹر سے چائے کی درخواست کرنے کے بعد ’’ہسٹری آف دہلی سلطانیٹ‘‘ کھولی اور پڑھنے لگ گیا۔ کمپارٹمنٹ کے عین درمیان میں نشستوں کے سامنے ٹیبل بھی ہوتا ہے۔ یہ چار پانچ نشستیں ذرا ’’ہائی سٹیٹس‘‘ کی علامت ہوتی ہیں اس لیے زیادہ تر ریلوے کے افسر ہی یہاں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ بدقسمت مسافر کی سیٹ سے یہ جگہ قریب ہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ان ’’برتر‘‘ نشستوں سے آواز کا ایک طوفان اٹھا اور پورے کمپارٹمنٹ پر یوں چھا گیا جیسے ایک زمانے میں سکندراعظم اُس وقت کی نصف دنیا پر چھا گیا تھا! سر‘ سر کی تکرار سے وضاحت ہو رہی تھی کہ کسی سینئر سے بات ہو رہی ہے۔ ٹنڈر‘ کوٹیشن‘ ریٹ کا طویل قصہ تھا‘ جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ ایسا علم تھا جو دماغ میں گھسیڑا جا رہا تھا۔ گجرات سے لالہ موسیٰ آیا‘ پھر ہم جہلم پہنچ گئے۔ صاحب کی ناز برداریاں جاری رہیں۔ 
پارلر اے سی میں واش روم (کیا ’’بیت الخلا‘‘ کی ہولناک اصطلاح ترک نہیں کی جا سکتی؟) دو قسم کے ہیں۔ ایک دیسی‘ ایک ولایتی کموڈ والا۔ یہ ولایتی کموڈ والا سلسلہ بھی عجیب ہے۔ ایک بار ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم اسلام آباد تشریف لائے اور غربت کدے کو شرف بخشا۔ جسم کا وزن‘ علم سے کم نہ تھا۔ پہلا سوال یہی پوچھا‘ ولایتی کموڈ ہے؟ بھاری تن و توش والے اور ضعف اور عمر رسیدگی والے‘ دیسی واش روم میں بیٹھ جائیں تو اُٹھ ہی نہیں سکتے! واش روم میں جانا ہوا تو ٹونٹی کھلی تھی۔ پانی زور و شور سے بہہ رہا تھا اور نہ جانے کب سے بہہ رہا تھا۔ اسے بند کر کے کموڈ پر نظر ڈالی۔ جو صاحب یا صاحبہ آئی تھیں‘ پانی بہائے بغیر واپس تشریف لے گئی تھیں۔ طبیعت مکدر ہو گئی۔ واپس نشست پر پہنچا تو یہ آرام نصیب ہوا کہ ٹنڈروں‘ کوٹیشنوں اور نرخوں والی صبر آزما گفتگو ختم ہو چکی تھی۔ یہ آرام ویسا ہی تھا جیسا نکٹائی لگانے والے کو‘ شفیق الرحمن کے بقول‘ نکٹائی اتارنے کے بعد ملتا ہے! 
ہم کب مہذب ہوں گے؟ بنیادی آداب کب سیکھیں گے؟ ساری دنیا کو حقارت سے غیر مسلم اور سازشی کہنے سے فرصت ملے تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کیا بلند آواز سے گفتگو کرتے وقت ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ اردگرد اور لوگ بھی بیٹھے ہیں اور ان کی سماعتوں پر ہتھوڑے برسانے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ موبائل فون پر گفتگو دھیمی اور شائستہ آواز میں بھی کی جا سکتی ہے۔ کھلی ٹونٹی سے ضائع ہونے والا پانی ریلوے کا نہیں‘ ہمارا اپنا ہے۔ ٹونٹی بند کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ بعد میں آنے والے کے لیے ہم کموڈ کو کس حال میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ سنگاپور میں کموڈ کو فلش نہ کرنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے مگر سنگاپور کے رہنے والوں کو تو یہ نہیں سکھایا گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے یا صفائی ایمان کی شرط ہے! یہ سبق تو ہمیں یاد کرایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے موٹروے پر رکنا ہوا۔ مذہبی حضرات کے قافلوں کے قافلے کہیں سے واپس آ رہے تھے۔ واش روم میں جانا پڑا تو پکا فرش بلامبالغہ دلدل بنا ہوا تھا اور ٹخنوں کے اوپر والے پائنچے بھی اس غلاظت سے بچ نہیں پا رہے تھے۔ گلے پورے زور سے صاف کرنے اور کھنکھارنے کی آوازوں کی بہار تھی۔ منہ دھوتے وقت پڑچ کی مترنم آواز آتی تھی اور بے خوف چھینٹے اُڑ اُڑ کر دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئوں کے چہروں‘ کپڑوں اور عینکوں پر پڑ رہے تھے۔ 
سگنل پر گاڑیاں رکیں تو دیکھا ساتھ والی گاڑی سے مالٹے کے چھلکے باہر آ رہے ہیں۔ شیشہ نیچے کیا۔ اچھا خاصا نیم تعلیم یافتہ شخص تھا۔ ملائمت سے درخواست کی کہ چھلکے سڑک پر نہ پھینکیے۔ ایک درشت آواز آئی‘ چاچا جی‘ گاڑی بھی تو گندی ہو جاتی! چاچا جی کا دماغ درست ہو گیا۔ شیشہ اوپر کر لیا اور ونڈ سکرین سے سامنے دیکھنے لگ گئے! 
Vulgarity 
پر مغربی ادب اور اخلاقیات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہاں سے گیا ہے۔ آدابِ معاشرت‘ صفائی‘ نفاست اور شائستگی کے بیان سے فارسی‘ عربی اور اردو ادب بھرا پڑا ہے۔ Vulgarity
 کو فارسی میں پستی کہا گیا ہے‘ عربی میں سوقیانہ پن اور اردو میں گنوار پن اور اوچھا پن کہا گیا ہے۔ کچھ لغات نے اس کے ڈانڈے فحاشی سے بھی ملائے ہیں… لیکن چھوڑیے ان سب باتوں کو۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہم سے دنیا میں امامت کا کام لیا جانا ہے!

Friday, April 03, 2015

پس چہ باید کرد؟


’’سرسید احمد خان مسلمانوں کے محسن تھے۔ انہوں نے بے غرض ہو کر رات دن مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے کام کیا۔ اپنا گھر اور اثاثے فروخت کیے اور لندن جا کر ولیم میور کی قابلِ اعتراض تصنیف ’’لائف آف محمدؐ‘‘ کے جواب میں مدلل کتاب لکھی‘‘۔ 
’’سرسید غدار تھے۔ انگریز کے ایجنٹ تھے۔ نیچری تھے۔ انہوں نے جدید تعلیم متعارف کرا کے ہمیں اسلام سے دور کیا‘‘۔ 
موضوعِ گفتگو سرسید احمد خان نہیں! بتانا یہ مقصود ہے کہ اکثر و بیشتر حالات میں ہم انتہا پسند ہیں۔ سرسید احمد خان اس کی ایک مثال ہیں۔ ایک گروہ کے نزدیک وہ ہیرو ہیں۔ دوسرے کی نظر میں ولن۔ بہت کم ایسے ہیں جو معتدل رائے رکھتے ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ تعلیمی اور تحقیقی میدان میں ان کی خدمات سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ احسان ان کا برصغیر کے مسلمانوں پر عظیم ہے۔ تاہم مذہبی پہلوئوں پر اور قرآن کی تفسیر کے ضمن میں ان سے اتفاق کرنا ہرگز ضروری نہیں۔ 
سیاست‘ مذہب‘ معاشرت اور زندگی کے تمام شعبوں میں یہ انتہا پسندی ہمارا ٹریڈ مارک بن گئی ہے۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ عسکریت پسندوں کو ہم انتہا پسند کہتے ہیں جب کہ سچی بات یہ ہے کہ ہم من حیث القوم انتہا پسند ہیں۔ 
یہی رویہ ایم کیو ایم کے بارے میں ہے۔ ایک طرف وہ حضرات ہیں جو اس کی تشکیل سے لے کر موجودہ پراگندہ صورتِ حال تک… ہر مرحلے کو تشکیک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ یرقان زدہ آنکھ کو ہر شے زرد دکھائی دیتی ہے۔ مہاجر پرستی سے لے کر دہشت گردی تک سارے الزامات لگائے جاتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ ہے جو ایم کیو ایم کو ہر جرم اور ہر غلطی سے مبرا ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے۔ اس کے رہنمائوں کو ’’فکری‘‘ اور کبھی کبھی تو روحانی مقامات تک لے جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دوراہا جس پر تاریخ نے آج ایم کیو ایم کو لا کھڑا کیا ہے‘ اُس دوراہے پر پہنچ کر بھی اِدھر اُدھر دیکھ کر‘ کسی ایک راہ پر چلنے کا فیصلہ کرنے سے قاصر ہے! 
چند دن پہلے ہی ان سطور میں عرض کیا گیا تھا کہ مہاجر پرستی کا الزام لگانے سے پہلے یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ ایم کیو ایم کی تشکیل و تاسیس سے بہت پہلے لسانی‘ نسلی اور علاقائی بنیادوں پر پورے ملک میں بالعموم اور سندھ اور بلوچستان میں بالخصوص سیاسی تنظیمیں وجود میں آ چکی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں جب ’’مہاجر طلبہ تنظیم‘‘ بنی تو اس سے پہلے وہاں لسانی اور علاقائی حوالے سے طلبہ کے دس گروہ مصروفِ سیاست تھے! ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو
 Melting Pot
 کہا جاتا ہے اس لیے کہ مختلف لسانی اور نسلی اکائیاں تحلیل ہو کر قومی دھارے میں شامل ہو گئیں۔ شناختیں موجود ہیں مگر سب پہلے امریکی ہیں اور گروہوں کے حوالے بعد میں دیے جاتے ہیں۔ ہم ایسا برتن نہ بن سکے جس میں سب دھاتیں پگھل کر ایک مرکب بن جاتیں۔ ہم کشمیری‘ پنجابی‘ بلوچی اور پٹھان بن گئے اور وہ جو ان میں سے کچھ بھی نہ بن سکتے تھے‘ انہیں لامحالہ مہاجر بننا پڑا۔ 
لیکن یہ تاریخ ہے اور ماضی ہے۔ ماضی کی تاریخ پڑھی جاتی ہے۔ دہرائی جاتی ہے۔ جہاں تک بنانے کا سوال ہے‘ صرف حال اور مستقبل کی تاریخ بنائی جاتی ہے۔ آج ایم کیو ایم جس کھلے میدان میں کھڑی ہے اور تمام نظروں‘ ملامتوں اور تیروں کا ہدف ہے‘ اس سے نکلنا اس کے اختیار میں ہے اور کسی اور کے نہیں‘ اس کے اپنے اختیار میں ہے! 
بچہ بھی بخوبی جان سکتا ہے کہ قائدِ تحریک کا دفاع کرنا‘ ایم کیو ایم کے ان رہنمائوں کے لیے جو ملک کے اندر موجود ہیں‘ اب مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ کئی ایسے دلائل ہیں جن کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا جا سکتا۔ مثلاً یہ کہنا کہ قائدِ تحریک کارکنوں کی خاطر بیرون ملک مقیم ہیں‘ ایک ایسی بات ہے جس سے اس سیاسی جماعت کی وقعت زیادہ نہیں ‘کم ہوتی ہے! اسی طرح مصطفی کمال جیسے مقبول عام اور بے مثال کارکردگی دکھانے والے کارکنوں کو منظرعام سے کیوں اور کس طرح ہٹا دیا جاتا ہے‘ اس کا جواب بھی کوئی نہیں دیتا! ہاں! ایک بات ضرور سمجھ میں آتی ہے‘ وہ یہ کہ جن لوگوں نے تین عشرے ایم کیو ایم میں گزارے ہیں‘ وہ اب کہیں اور کیا جائیں گے! اس لیے طوعاً و کرہاً انہیں پالیسیوں کا دفاع بھی کرنا پڑتا ہے اور قائدِ تحریک کی سیماب صفت کیفیات اور بیانات کو سنبھالنا بھی پڑتا ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح ساری زندگی سیاست کے خارزار میں پابرہنہ چلنے والے سفید سر رہنمائوں کو کبھی حمزہ شہباز کے سامنے اور کبھی بلاول کے سامنے آمنا بھی کہنا پڑتا ہے اور صدقنا بھی! اس لیے کہ اب کہاں جائیں گے اور کون قبول کرے گا   ؎ 
عمر ساری تو کٹی عشقِ بتاں میں مومنؔ 
آخری عمر میں کیا خاک مسلماں ہوں گے 
یہ تو پارٹی کی داخلی حرکیات ہیں! رہا خارج کا معاملہ‘ تو تحریکِ انصاف کی صورت میں ایم کیو ایم کو ایسا چیلنج درپیش ہے جس کی مثال تشکیل سے لے کر آج تک نہیں ملتی۔ تحریکِ انصاف کے رہنما پر مالی بددیانتی کا الزام ہے نہ تشدد کی سیاست کا۔ اسے یہ بھی فائدہ ہے کہ وہ وفاق میں برسرِ اقتدار کبھی نہیں رہی اور آثار بتاتے ہیں کہ اقتدار میں آئی تو غالباً میرٹ کی پذیرائی کرے گی‘ اقربا پروری اور دوست نوازی کا خاتمہ کرے گی اور ٹیکس نیٹ کو وسیع تر کرے گی! کراچی کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہتر سیاسی شعور رکھنے والی آبادی کا تحریک انصاف کی سمت کھنچے چلا آنا فطری اور منطقی ہے! 
ایم کیو ایم کے قائد جس دن لندن کے ایئرپورٹ پر اترے تھے‘ تاریخ پر نظر رکھنے والے اسی دن کہہ اٹھے تھے کہ پاکستانی اندازِ سیاست یہاں جلد یا بدیر رنگ لائے گا۔ منی لانڈرنگ پاکستان میں تو ہو سکتی ہے اور عشروں تک ہو سکتی ہے‘ یہاں ڈیرے چلا کر‘ بڑے بڑے عالی شان اداروں میں بیٹھا جا سکتا ہے اور ٹیکس ادا کیے بغیر لیڈری اور منسٹری کی جا سکتی ہے مگر یہ سب کچھ کفار کے ملکوں میں نہیں کیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم کے لیے ایک اور ابتلا یہ آن پڑی ہے کہ چند روز قبل قائدِ تحریک نے جن تین حضرات کے بارے میں ہدایت کی تھی کہ جانشین ان میں سے ہوگا‘ ان میں سے ایک گرفتار کیے گئے‘ ان کے گھر کی تلاشی لی گئی‘ دستاویزات قبضے میں کر لی گئیں اور پھر ضمانت پر رہا کیا گیا۔ صولت مرزا کے الزامات‘ ان کی قانونی حیثیت جو بھی ہو‘ ایک مخصوص فضا پیدا کرنے کے حوالے سے اس کے علاوہ ہیں! 
ایم کیو ایم کے لیے اب دو ہی راستے ہیں۔ ایک یہ کہ جس ڈگر پر وہ چل رہی ہے‘ چلتی رہے اور یوں اپنے آپ کو تاریخ کے تھپیڑوں کے حوالے کردے اس لیے کہ ہر حال میں فردِ واحد کا دفاع کرنا‘ ہر قسم کے الزامات سے انکار کرنا اور اُن رہنمائوں کو بدستور پارٹی کے اندر بلند مقام پر رکھنا جو متنازعہ ہو چکے ہیں‘ ایسا رویہ ہے جو جلد یا بدیر پارٹی کو تاریخ کی تندوتیز موجوں کے طاقت ور ریلے کی نذر کردے گا۔ تاریخ وقت کی طرح ہوتی ہے۔ اس کی اپنی رفتار اور اپنی قیامتیں ہیں! تاریخ چکی ہے جو چلتی رہتی ہے   ؎ 
پیستی جاتی ہے اک اک کو ظہورؔ 
آسیائے گردشِ لیل و نہار 
تاریخ کی لہروں کو کسی پریس کانفرنس سے روکا جا سکتا ہے نہ بائی کاٹ سے، نہ واک آئوٹ سے، نہ ہی تاریخ کی تفتیش میں ضمانت کی سہولت میسر ہے! 
ایم کیو ایم کے لیے دوسرا راستہ یہ ہے کہ تین عشروں کے طریقِ کار پر مکمل نظرثانی کرے۔ کشتی کے لیے جو جو بوجھ بن رہا ہے‘ اُسے کشتی سے اتارے۔ زبانِ خلق کو سنجیدگی سے نقارۂ خدا سمجھے۔ اُن چیزوں کا دفاع نہ کرے جن کا دفاع مضحکہ خیز لگتا ہے۔ کراچی کے عوام کو سیکٹر کمانڈروں کے ذریعے نہیں‘ دلوں کی راہ سے قائل کرے کہ وہ بھی اقربا پرستی‘ دوست نوازی‘ تشدد اور اسلحہ کی سیاست سے اسی طرح پاک صاف ہے جس طرح تحریک انصاف کا دعویٰ ہے! اس کے جن رہنمائوں کے اہل و عیال ملک سے باہر رہتے ہیں‘ اور وہ نیمے دروں نیمے بروں ہیں وہ یا تو مکمل دروں ہو جائیں یا پورے کے پورے بروں ہوں! ایم کیو ایم کو مان لینا چاہیے کہ ٹی وی اور وی سی آر بیچ کر کلاشنکوف خریدنے کا فلسفہ بیکار ثابت ہوا۔ اب ٹی وی اور وی سی آر کا زمانہ بھی لد چکا۔ کراچی کے ہر نوجوان کے پاس لیپ ٹاپ اور کتاب ہونی چاہیے۔ تیز رفتار موٹر سائیکل پر بیٹھ کر نشانہ لینے والا راستہ خودکشی کا راستہ ہے۔ ایم کیو ایم کو اہلِ حکمت و دانش سے رہنمائی لینا ہوگی کسی پہاڑی اور کسی لنگڑے سے نہیں۔ وقت کم ہے۔ تاریخ انتظار کر رہی ہے   ؎ 
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی 
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل چکا

 

powered by worldwanders.com