Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Wednesday, April 01, 2015

نوشتہ


’’مذہبی اور نسلی بنیادوں پر عراق کی تقسیم بالکل ممکن ہے۔ عراق تین (یا زیادہ) ریاستوں میں بٹ جائے گا۔ جنوب کے شیعہ علاقے‘ سُنی علاقوں سے اور شمال کے کُردوں سے الگ ہو جائیں گے‘‘۔ 
اسرائیل نے یہ ’’پیش گوئی‘‘ 1982ء میں کردی تھی جب صدام حسین کو حکومت سنبھالے مشکل سے چار سال ہوئے تھے۔ اکیس سال بعد 2003ء میں صدام حسین کو مغربی طاقتوں نے ختم کردیا۔ آج عراق کا نقشہ وہی ہے جس کا منصوبہ اسرائیل نے 1982ء میں بنایا تھا۔ عملی طور پر عراق تین حصوں میں منقسم ہو چکا ہے۔ سُنی علاقے شیعہ جنوب اور شمال مشرق کے کرد۔ 
مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال‘ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوئی۔ یہ وقتی سیاست کا شاخسانہ نہیں۔ عرب دنیا کو فریقوں اور نسلوں کی بنیاد پر چھوٹی چھوٹی بے بضاعت اور بے بس ریاستوں میں تقسیم کرنا اسرائیل کا پرانا منصوبہ ہے۔ امریکہ کی پشت پناہی اس منصوبے کا حصہ ہے۔ یہ کہہ دینا کہ اس قسم کے خیالی منصوبے بنتے رہتے ہیں‘ حماقت ہے۔ اس لیے کہ عراق پر مغربی طاقتوں کا حملہ اور عملی طور پر اس کا تین حصوں میں منقسم ہو جانا ہمارے سامنے کی حقیقت ہے۔ یہی حال‘ صہیونی منصوبہ ساز‘ شام‘ اردن‘ سعودی عرب کا… اور بعد میں ایران اور پاکستان کا کرنا چاہتے ہیں۔ اس منصوبے کی راہ میں بند صرف ایک صورت میں باندھا جا سکتا ہے کہ مسلمان ممالک اس خطرے کو بھانپ لیں۔ فرقہ وارانہ اور نسلی اختلافات بالائے طاق رکھ دیں اور سب سے زیادہ ضروری ایکشن یہ لیں کہ مسلمان عوام کو غربت اور ناخواندگی کی پست سطح سے اوپر اٹھائیں۔ 
مسلمان ملکوں کو پارہ پارہ کر کے اسرائیل کی طفیلی ریاستیں بنانے کا یہ منصوبہ اُس دستاویز میں ظاہر کیا گیا جو 1982ء میں عالمی صہیونی تنظیم (ورلڈ زائنسٹ
 (Zionist) 
آرگنائزیشن) کے ترجمان جریدے میں شائع ہوئی۔ اس جریدے کا عبرانی نام ’’کیوونم‘‘ ہے جس کا ترجمہ انگریزی میں ڈائریکشن (ہدایت‘ سمت‘ رہنمائی) کیا جا سکتا ہے۔ یہ دراصل ایک طویل مضمون ہے جو مشہور اسرائیلی صحافی ’’اوڈِڈ یائی نن‘‘ نے لکھا ہے۔ اوڈڈ یائی نن اسرائیل کی وزارت خارجہ سے وابستہ رہا۔ اس مضمون میں جو کچھ کہا گیا ہے‘ خود اسرائیل کے دانش وروں نے اسے اسرائیلی حکومت کا وژن قرار دیا ہے۔ 
اس تحریر میں ’’عظیم تر اسرائیل کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ موجودہ اسرائیلی حکومت کے علاوہ اسرائیلی افواج‘ انٹیلی جنس اور اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک بھی ایک سنگِ میل ہے۔ موجودہ اسرائیلی وزیراعظم ’’نیتن یاہو‘‘ نے حالیہ الیکشن اس بنیاد پر لڑا کہ فلسطینی ریاست کا کوئی جواز نہیں۔ صہیونیت کے جدِّ امجد تھیوڈور ہرزل نے یہودی ریاست کی جو حدود مقرر کی تھیں وہ ’’مصر کے دریا سے لے کر فرات تک‘‘ ہیں۔ اس میں لبنان‘ شام‘ اردن‘ عراق اور سعودی عرب کے مختلف علاقے اور حصے شامل ہیں۔ جو کچھ عراق میں ہوا‘ جو کچھ 2006ء میں لبنان کے ساتھ ہوا‘ جو کچھ 2011ء میں لیبیا کے ساتھ ہوا‘ پھر جس طرح مصر میں حکومت تبدیل کی گئی اور جو کچھ اب شام اور عراق میں ہو رہا ہے‘ اُسے اس صہیونی منصوبے کے سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ 
’’یائی نن پلان‘‘ نے عراق کا جو نقشہ کھینچا تھا‘ وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ مشہور امریکی جریدے ’’دی اٹلانٹک‘‘ نے 2008ء میں اور اس سے پہلے امریکی مسلح افواج کے جریدے نے 2006ء میں مشرق وسطیٰ کے ایسے نقشے بھی شائع کیے جو یائی نن پلان کے مطابق تھے۔ ان نقشوں کی وسیع پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ 
اس پلان کی تعمیر دو بنیادوں پر ہے۔ ایک یہ کہ اسرائیل کی بقا اس میں ہے کہ وہ علاقے میں سامراجی طاقت بن کر رہے۔ دوسرے یہ کہ موجودہ عرب ملکوں کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے۔ یہ تقسیم فرقہ وارانہ خطوط پر ہو۔ یہ ریاستیں آپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوں اور لامحالہ اسرائیل پر انحصار کریں۔ یہاں یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ اگرچہ یائی نن ہی نے اسے ایک باقاعدہ منصوبے کی شکل میں بیان کیا‘ جسے اسرائیل کا ’’نیم سرکاری وژن‘‘ سمجھا جاتا ہے لیکن یہ تصور نیا نہیں ہے۔ یہودی اسے مختلف شکلوں میں ہمیشہ پیش کرتے رہے ہیں۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد سامراجی طاقتوں نے بھی یہی کچھ سوچا اور کیا جس کے نتیجے میں سلطنتِ عثمانیہ کے خاتمے پر مشرقِ وسطیٰ کو کئی ریاستوں میں خربوزے کی قاشوں کی طرح الگ الگ کردیا گیا۔ 
یائی نن نے لکھا کہ… ’’مسلمان عرب دنیا کاغذ کا بنا ہوا عارضی گھروندا ہے۔ اسے 1920ء کے عشرے میں غیر ملکیوں (برطانیہ اور فرانس) نے عوام کی رضامندی کے بغیر انیس ریاستوں میں بانٹ دیا۔ ہر ریاست میں مختلف فرقے اور نسلیں ہیں جو ایک دوسرے سے مخاصمت رکھتی ہیں؛ چنانچہ آج ہر عرب ریاست اپنے اندر ہی سے فرقہ واریت اور نسل پرستی کا سامنا کر رہی ہے‘‘۔ 
لبنان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کی تیاری میں کئی دہائیاں لگائی گئیں۔ سب سے پہلے اسی کی باری تھی۔ لبنان کی تباہی اور تقسیم 1919ء میں تجویز کی گئی۔ 1936ء میں اس کی منصوبہ بندی ہوئی۔ 1954ء میں اس کا آغاز ہوا اور 1982ء میں یہ تکمیل کو پہنچی۔ اس منصوبے کی جھلکیاں اسرائیل کے دوسرے وزیراعظم موشے شیریٹ کی ذاتی ڈائری (روزنامچے) میں بھی ملتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے ضمن میں یہ روزنامچہ بہت اہم ہے۔ ایک الگ کالم میں اس کا تعارف پیش کیا جائے گا۔ اب یائی نن پلان کا وہ حصہ دیکھیے جو شام کے بارے میں ہے۔ 
’’شام‘ لبنان کی طرح مذہبی اور نسلی بنیادوں پر کئی ریاستوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ ساحلی پٹی کے ساتھ ساتھ ’’علوی ریاست‘‘ ہوگی حلب کے علاقے میں سُنی ریاست ہوگی۔ دمشق اور اس کے نواح میں ایک اور سُنی ریاست ہوگی جو شمال کے پڑوسی (علوی ریاست) کی مخالف ہوگی۔ دروزی اپنی الگ ریاست کے مالک ہوں گے۔ یہ تقسیم علاقے میں امن کی ضامن ثابت ہوگی۔ یہ نصب العین آج ہماری رسائی کے اندر ہے‘‘۔ 
آگے چل کر یائی نن لکھتا ہے: 
’’شام کی فوج میں اکثریت سُنیوں کی ہے جب کہ افسر طبقہ علویوں پر مشتمل ہے۔ عراقی فوج میں شیعہ اور افسر سُنی ہیں۔ یہ تقسیم مستقبل کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ طویل عرصہ کے لیے ان فوجوں کی وفاداری کو قائم رکھنا ناممکن ہے‘‘۔ 
اس کے بعد یائی نن بتاتا ہے کہ جس طرح جنوبی لبنان میں میجر سعد حدّاد کو اسرائیل نے پیسہ اور اسلحہ دے کر لبنان کی وحدت کے خلاف استعمال کیا‘ بالکل اسی طرح شام میں بھی مناسب ’’مدد‘‘ تلاش کی جائے گی! 
اردن کے بارے میں اسرائیل کو کبھی طویل المیعاد منصوبے کی ضرورت نہیں پڑی‘ نہ ہی اسے اصل خطرہ سمجھا گیا۔ اسرائیلی منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو اردن میں بسایا جائے گا اور وہیں انہیں حکومت دلوائی جائے گی۔ فلسطینیوں کو دوسرے علاقوں میں بھی منتقل کیا جائے گا۔ اس کی تفصیل یائی نن یوں بیان کرتا ہے ’’ہمیں امریکی یہودیوں کو بتانا ہوگا کہ وہ نصف ارب ڈالر کا بندوبست کریں تاکہ اسرائیل کے فلسطینیوں کو عراق اور سعودی عرب میں آباد کیا جا سکے۔ اس کا کوئی متبادل نہیں! عربوں کو اسرائیل خالی کرنا ہوگا‘‘۔ 
پورا اسرائیل اس معاملے میں یکسو ا ور یک زبان ہے۔ اسرائیل کو یقین ہے کہ وہ آخرکار آخری فلسطینی کو بھی اپنی حدود سے نکال باہر کرے گا۔ 1984ء میں جب اسرائیل کی لیبر پارٹی نے الیکشن کی مہم چلائی تو ملک کے بڑے اخبارات میں پورے پورے صفحوں کے اشتہار شائع کیے گئے‘ جس میں ’’چار نہیں‘‘ نمایاں انداز میں پیش ہوئے۔ یہ ’’چار نہیں‘‘ عربوں کے لیے لمحۂ فکریہ نہ بن سکے ورنہ وہ آج آپس میں دست و گریباں نہ ہوتے۔ یہ ’’چار نہیں‘‘ مندرجہ ذیل تھے: 
فلسطینی ریاست؟ نہیں! 
پی ایل او سے مذاکرات؟ نہیں! 
1967ء کی سرحدوں کی طرف واپسی؟ نہیں! 
نئی اسرائیلی بستیوں کا انہدام؟ نہیں! 
جزیرہ نمائے عرب کے بارے میں بالخصوص سعودی عرب کے متعلق ’’یائی نن پلان‘‘ جو کچھ کہتا ہے‘ اسے بیان کرنے کا حوصلہ نہیں! 
اب بھی وقت ہے کہ علاقے کے مسلمان‘ خواہ وہ عربی ہیں یا عجمی‘ سعودی ہیں یا ایرانی‘ نوشتۂ دیوار پڑھ لیں!

No comments:

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com