skip to main |
skip to sidebar
انتہا پسند ہندو‘جلد یا بدیر‘وزیر اعظم مودی سے بددل ہوں گے۔ اگر اس بددلی کا آغاز وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورے سے ہو گیا ہے تو اس میں پاکستان کو کیا گھاٹا ہے؟
میز کے اس طرف سائل ہو کر بیٹھنے میں‘ اور میز کے دوسری جانب حاکم ہو کر بیٹھنے میں بہت فرق ہے۔نظر کا زاویہ بدل جاتا ہے ۔اشیا کا حجم تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ جوپہلے انگور کا دانہ لگتا تھا ‘ اب تربوز دکھائی دیتا ہے۔ہم ماضی قریب میں اس کی مثال دیکھ چکے ہیں۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دوران ہر وقت علی بابا چالیس چور کا نعرہ لگاتے تھے۔یہاں تک کہا گیا کہ ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔لوڈ شیڈنگ کے ایشو کو نمایاں کرنے کے لیے دفاتر خیموں میں منتقل ہوئے۔لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔کسی نے سڑکوں پر گھسیٹا نہ کوئی اور حساب کتاب ہوا۔یہاں تک کہ جن آئینی مناصب پر پیپلز پارٹی نے اپنے انتہائی متنازع افسروں کو فائز کیا تھا ‘انہیں ہٹانے کے لیے مسلم لیگ نواز کی حکومت نے خفیف سی حرکت تک نہ کی!اس لیے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ترجیحات بدل گئیں۔ سیاہ سفید اور سفید سیاہ ہو گیا۔ اب لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج تو کیا‘اس کا جواز پیش کیا جاتا ہے!
شیخ مجیب الرحمن انتخابات میں کامیاب ہوئے تو عقل مندوں نے اس وقت مشورہ دیا تھا کہ حکومت ان کے سپرد کر دو۔ بنگالی عوام چھ ماہ کے بعد ان کی مخالفت پر اتر آئیں گے۔ذوالفقار علی بھٹو انگریزی تو خوب بولتے تھے اور فرنگی لباس کا بھی ذوق رکھتے تھے لیکن وژن ہوتا تو حزب اختلاف میں بیٹھ جاتے اور تماشہ دیکھتے ۔وزیر اعظم بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمان کے تیور ہی اور ہوتے۔بنگالی عوام کے مطالبات کو مکمل طور پر تسلیم کرنا ان کے لیے ناممکن ہوتا۔مغربی پاکستان کی مدد انہیں ہر حال میں درکار ہوتی۔منظر نامہ کچھ سے کچھ ہو جاتا!
وزیر اعظم مودی کی وزارت عظمیٰ کو اسی حوالے سے دیکھیے‘ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ بننا اور بات ہے اور اٹھائیس ریاستوں کا وزیر اعظم بننا بالکل دوسری بات ہے۔وفاقی حکومت میں تامل ‘مراٹھی‘تیلگو‘ ملیالم اور بنگالی زبانوں کے انتہائی مضبوط اور سرگرم پریشر گروپ ہیں جو بیورو کریسی پر چھائے ہوئے ہیں۔بھارت کی جنوبی ریاستوں کا نکتہ نظر‘شمالی نکتہ نظر کے بالکل الٹ ہے۔یہ ممکن ہی نہیں کہ مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر جو کچھ وفاق کے بارے میں کہتے رہے یا جو اعلانات انتخابی مہم میں کرتے رہے‘ان پر من و عن عمل کر سکیں۔
انتہا پسند ہندو‘جو انتخابی مہم میں مودی کی سپاہ کا ہر اول دستہ تھے‘ ابھی سے بدظن ہونا شروع ہو گئے ہیں۔پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دینا ان کے لیے ایک غیر متوقع خبر تھی جسے انہوں نے ناپسند کیا۔ دوسرا بڑا صدمہ تامل ناڈو کے صوبے کو پہنچا جو سری لنکا کے صدر کو دعوت دینے پر ناخوش ہے!تامل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جیاللیتا نے کہا ہے کہ سری لنکا کے صدر کو حلف برداری کی تقریب میں دعوت دے کر نریندر مودی نے تامل عوام کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔جیاللیتا نے تقریب میں آنے ہی سے انکار کر دیا۔بنگلہ دیش کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔مودی نے ہمیشہ بنگلہ دیش کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ بنگلہ دیشی بھارت میں آ کر ملازمتیں اور دیگر وسائل کو استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے بقول یہ صرف بھارتیوں کا حق ہے۔اگر حسینہ واجد حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرتیں تو حزب اختلاف انہیں آڑے ہاتھوں لیتی۔حسن اتفاق سے وہ چین کا دورہ مکمل کر کے وہیں سے جاپان جا رہی تھیں۔اس مصروفیت نے ان کی غیر حاضری کو جواز فراہم کر دیا۔
پاکستانی وزیر اعظم کو دعوت دینے کے خلاف بھارتی انتہا پسندوں نے جو دلائل دیے ہیں ان میں دو اہم ہیں۔اول یہ کہ اس سے پہلے جب واجپائی نے بس کا سفر کر کے پاکستان کو نزدیک لانے کی کوشش کی تھی تو کارگل کا واقعہ پیش آ گیا۔ دلیل دینے والوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے حالات اب بھی اسی قبیل کے ہیں۔اس لیے مودی کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔دوم 2013ء کی پاکستانی انتخابی مہم کے دوران طالبان نے اکثر سیاسی جماعتوں کو دھمکی دی تھی۔ سوائے مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے۔ایک سابق بھارتی سفیر نے تو یہا ں تک کہا ہے کہ طالبان کا یہ احسان میاں صاحب کے گلے میں لٹکا ہوا ہے۔ اس لیے وہ شدت پسندوں کے خلاف کوئی سخت کارروائی نہیں کر سکتے۔
وزیر اعظم نے مودی کی دعوت قبول کی تو پاکستان میںجن حلقوں نے واویلا مچایا وہ دراصل اسی مزاج کے حلقے ہیں‘ جنہوں نے بھارت میں مودی کو اس لیے تنقید کا نشانہ بنایا کہ مودی نے پاکستانی حکومت کے سربراہ کو دعوت نامہ ارسال کیا۔انتہا پسندی‘ سرحد کے دونوں طرف موجود ہے۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان میں بھی ایسے حضرات موجود ہیں جو بھارت پر ایٹم بم گرانے کی بات کرتے رہتے ہیں۔یہ اور بات کہ پاکستانی عوام کی اکثریت شدت پسندی کی کبھی بھی حامی نہیں رہی۔
کیا بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنا کر بنیادی تنازعات (مثلاًکشمیر یا پانی کی تقسیم) کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی؟نہیں!ہرگز نہیں!چین اور تائیوان کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔چین کی ’’وحدت‘‘کا مقام چینی آئین میں وہی ہے جو ہمارے آئین میں قرار داد مقاصد کا ہے!چینی آئین میں لکھا ہے …’’پوری چینی قوم (بشمول تائیوانی عوام)کا فرض ہے کہ وہ مادر وطن کو دوبارہ ایک کرنے کے عظیم کارنامے کو سرانجام دے‘‘اس کے ساتھ ہی چین نے تائیوان کی جغرافیائی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے عسکری تنصیبات کا رخ اسی کی طرف کیا ہوا ہے۔2010ء تک دو ہزار میزائل اسی طرح رکھے جا چکے تھے کہ ان کا نشانہ تائیوان بنے۔
لیکن واضح آئینی موقف اور مکمل جنگی تیاریوں کے باوجود چین اور تائیوان کے باہمی تعلقات معمول کے ہیں۔بے شمار ایسی کمپنیاں جن کے ہیڈ کوارٹر تائیوان میں ہیں‘چینی کمپنیوں کے ساتھ’’جوائنٹ وینچر‘‘یعنی مشترکہ سرمایہ داری کر رہی ہیں۔تائیوان کے سرمایہ کاروں کا گروہ چین میں نہ صرف اقتصادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے بلکہ اسے ایک بھر پور معاشی طاقت سمجھا جاتا ہے!ثقافتی فرنٹ پر تائیوان اور چین ایک دوسرے کے ساتھ بھر پور تعاون کر رہے ہیں۔ دونوں کے عجائب گھر مشترکہ نمائشیں منعقد کرتے ہیں۔طالب علم استاد‘محققین اور صحافی آتے جاتے ہیں۔ کتابیں جو ایک حصے میں شائع ہوتی ہیں‘دوسرے حصے میں دوبارہ چھاپی جاتی ہیں‘2008ء میں جب چین میں زلزلہ آیا تو تائیوان نے امدادی ٹیمیں بھیجیں جن میں ریسرچ سکالر بھی شامل تھے تاکہ زلزلہ کے بارے میں پیش گوئیوں کو زیادہ قابل اعتماد بنایا جا سکے۔
کیا بنیادی اختلافات کے ضمن میں پاکستانی موقف اتنا کمزور ہے کہ تجارتی ثقافتی اور تعلیمی تعلقات سے یہ موقف شکستہ ہو جائے گا؟نہیں!ایسی کوئی بات نہیں۔یہ بات ہم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ جنگ سے نہیں‘بلکہ مذاکرات سے حل ہو گا!اگر دونوں ملک مسلسل حالت اضطراب میں رہیں‘ رویوں کو معاندانہ رکھیں اور ایک دوسرے کا اقتصادی اور ثقافتی بائیکاٹ کیے رکھیں تو اس سے کشمیر کا مسئلہ تو حل نہیں ہو گا‘ہاں اور مسائل ضرور جنم لیں گے!دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ تجارت کے ضمن میں جو پاکستانی حلقے احتجاج کرتے ہیں اور آوازے کستے ہیں‘وہ کرکٹ کے دوستانہ میچوں پر خاموش رہتے ہیں۔
اسلام اتنا کمزور ہے نہ پاکستان اور نہ پاکستانی موقف کہ تعلقات کو معمول پر لانے سے تڑک کر کے ٹوٹ جائے!مومن کو تدبّر کا حکم دیا گیا ہے تکبّر ‘سختی اور نفرت کا نہیں!
وزیراعظم پاکستان نے پڑوسی ملک کے دورے کی دعوت قبول کی ہے۔ کچھ حلقوں کی طرف سے اسے متنازع بنایا جا رہا ہے۔ یہی آج کی تحریرکا موضوع ہونا تھا اور یہ بھی عرض کرنا تھا کہ یہ جو خبریں لگ رہی ہیں کہ 64 فیصد پاکستانیوں نے بھارت جانے کی مخالفت کی ہے تو ان خبروں کی حقیقت کیا ہے؟ لیکن کل شام کو دارالحکومت میں رہنے والے ایک نوجوان نے اپنے ساتھ ہونے والے جس واقعہ کا ذکر کیا‘ اُسے سننے کے بعد آہ و فغاں کے مقامات تبدیل ہو گئے ہیں!
یہ نوجوان جو آئی ٹی کا ماہر ہے اور جسے اُس کے بقول اس کے اساتذہ نے نصیحت کی تھی کہ بیرونِ ملک نہ سدھارنا اور اپنے وطن کی خدمت کرنا اور جس نے اس نصیحت کو قبول کر لیا تھا‘ دو دن پہلے ایک بازار میں کام سے گیا۔ ابھی اس نے اپنی ’’مڈل کلاس‘‘ گاڑی پارک ہی کی تھی کہ بھرے بازار میں ایک شخص نمودار ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کلاشنکوف تھی۔ اس نے نوجوان سے کہا کہ یہاں سے گاڑی ہٹائو۔ نوجوان نے پوچھا‘ کیوں؟ اس پر مخصوص لسانی گروہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے اپنی کلاشنکوف پر ہاتھ پھیرا اورکہا ’’ اس لیے کہ یہاں میں اپنی گاڑی کھڑی کروں گا ‘‘۔ اس کا جو انداز تھا اور جو تیور تھے‘ انہیں دیکھ کر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے اپنی گاڑی وہاں سے ہٹا لی۔ شام کو گھر واپس آ کر وہ اپنے لیپ ٹاپ پر بیٹھ گیا اور اس وسیع و عریض دنیا کوکھولا جو پاکستان سے باہر ہے‘ جہاں کوئی مسلح شخص کسی دارالحکومت میں غنڈہ گردی نہیں کر سکتا اور جہاں آئی ٹی کے ماہرین ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ اس نے قسم اٹھائی کہ وہ اس ملک میں نہیں رہے گا اور اس وسیع و عریض دنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں اپنا ٹھکانا ڈھونڈ لے گا ! انا للہ وانا الیہ راجعون !
یہ دارالحکومت کے اس بازار کا حال ہے جو وزیراعظم کے تزک و احتشام والے مغل سٹائل کے دفتر سے زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ ع قیاس کُن ز گلستانِ من بہارِ مرا ۔ ان علاقوں کا سوچیے جو دارالحکومت سے باہر ہیں !
یہی ملک تھا جو ضیاء الحق کے ’’ جہادِ ‘‘ افغانستان سے پہلے پُرامن بھی تھا ‘ مہذب بھی اور اسلحہ سے بھی پاک تھا۔ پھر اس آمر نے‘ جس کا فہمِ دین‘ گائوں کے نیم خواندہ ملا کے فہمِ دین سے زیادہ نہیں تھا ‘ اس ملک کو دوسروں کی جنگ میں جھونک دیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان بین الاقوامی سرحد عملی طور پر ختم ہو گئی۔ جس سرحد کی حفاظت کے لیے آمر نے حلف اٹھایا تھا‘ اسی کو پامال کیا اور اپنا مقدس وطن دنیا بھرکے بھگوڑوں کے لیے کھول دیا۔ ایک طرف اسلحہ اور منشیات ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ گئیں‘ دوسری طرف ڈالروں سے وہ وارے
نیارے ہوئے کہ ’’سرکاری ملازموں‘‘ کی اولاد صنعت کار ہونے کے دعوے کرنے لگی، صرف اور صرف دولت کی بنیاد پر اسمبلیوں میں داخل ہو گئی اورکچھ تو وزارتِ عظمیٰ کے بھی خواب دیکھنے لگ گئے!
آج صورتِ حال یہ ہے کہ پورے ایشیا میں اتنا اسلحہ نہیں جتنا اس ایک ملک میں ہے۔ ایک مخصوص لسانی گروہ کے مسلح افراد پورے ملک پر عملی طور پر قابض ہیں ۔کیا حکومت اورکیا حکومت کی پولیس ، کوئی بھی ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا۔ اخبارات دہائی دے دے کر تھک گئے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت اور پنجاب کے فلاں فلاں علاقے مکمل لاقانونیت کا شکار ہیں لیکن حکمرانوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی‘ اس لیے کہ ایلیٹ فورس کے ہزاروں نوجوان ان بے حس حکمرانوں اور ان کے اہل و عیال کی حفاظت پر مامور ہیں‘ خود صوبائی دارالحکومت غیر ملکیوں کے حصار میں ہے۔ پوری پوری آبادیوں میں مقامی لوگ نظر نہیں آتے۔ کیا ’’ وژن ‘‘ ہے ! کیا ’’ دوراندیشی ‘‘ ہے اور کیا ’’ منصوبہ بندی ‘‘ ہے !
اگر پاکستان کو مہذب دنیا کا حصہ تسلیم کر لیا جائے تو ایک بات یقینی ہے۔ یہ مہذب دنیا کا واحد ملک ہے جس کے حکمران ملک کو ڈاکوئوں کے سپرد کر چکے ہیں اور بسوں اور ٹرینوں کے عالی شان منصوبوں کی فکر میں ہیں۔ جس حکمران کی صلاحیتوں اور اعلیٰ انتظامی کارکردگی کی تعریفیں چین‘ ترکی اور برطانیہ میں کی یا کرائی جا رہی ہیں اس کے زیر انتظام صوبے کے بارے میں صرف ایک دن کی خبریں ملاحظہ کیجیے:
گوجرانوالہ کا نوجوان شیخوپورہ لا ہور روڈ پر ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل۔
کہوٹہ میں ڈاکوئوں کی فائرنگ‘ ایک شخص جاں بحق۔
دینہ میں لندن پلٹ شہری کو اغوا کرنے کی کوشش ناکام‘ کیونکہ شہری نے اپنا ریوالور نکال کر فائرنگ کی جس سے ملزمان فرار ہو گئے ۔
چکوال میں مسلح افراد کا شہری پر حملہ‘ شدید زخمی کردیا ۔
بپول میں ڈاکوئوں نے برطانیہ پلٹ فیملی کو لوٹ لیا ۔
جہلم میں فرانس پلٹ شخص ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل۔
اسلام آباد میں پندرہ لاکھ کا ڈاکہ ۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ : کار میں سوار پانچ ڈاکو کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر کے دفتر میں گھس گئے اور لاکھوں روپے لے اُڑے۔
یہ صرف ایک اخبار میں سے چند جھلکیاں ہیں‘ ہے کوئی علائو الدین خلجی‘ کوئی شیر شاہ سوری‘ کوئی انگریز وائسرائے ، جو آئے اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کو‘ جو پاکستان کا ساٹھ ستر فیصد حصہ بنتا ہے‘ ڈاکو راج سے نجات دلائے کیونکہ حکمران تو بسوں اور ٹرینوں کی فکر میں ہیں۔ ان بسوں اور ٹرینوں میں سفر کون کرے گا ؟ ڈاکو! کیونکہ عوام تو وہ جنس ہیں جو ناپید ہو جائیں گے!
غورکیجیے‘ منظر نامہ کیا ہے؟ حکمرانوں کا کاروبار‘ مال و دولت‘ بزنس کرنے والے بچے‘ سب کچھ بیرون ملک ہے! اندرونِ ملک تین مناظر بیک وقت‘ ساتھ ساتھ نظر آ رہے ہیں۔ ایک طرف عالی شان منصوبے ہیں جن کا عوام کی خوشحالی اور امن و امان سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری طرف ڈاکوئوں کا راج ہے۔ کوئی شہر‘ کوئی قصبہ‘ کوئی محلہ‘ کوئی گلی‘ کوئی بازار لٹیروں‘ اٹھائی گیروں‘ بھتہ خوروں اور اغواکاروں سے محفوظ نہیں ہے۔ پولیس عنقا ہے۔ حکومت کے پاس امن و امان کے لیے اور ڈاکوئوں کے استیصال کے لیے کوئی پروگرام ہے نہ منصوبہ ۔ تیسری طرف اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ملک میں چار سو پھیلی ہوئی غنڈہ گردی‘ لوٹ مار‘ بدامنی اور لاقانونیت سے تنگ آ کر ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ لاکھوں جانے کی تیاری کر رہے ہیں اور زبانِ حال سے کہہ رہے ہیں ؎
بھاگ مسافر! میرے وطن سے‘ میرے چمن سے بھاگ
اوپر اوپر پھول کھلے ہیں بھیتر بھیتر آگ
اب تو بھیتر بھی آگ ہے اور اوپر بھی آگ ہے۔
کل ایک سابق سفیر نے ٹیکسٹ پیغام بھیجا:
This country is going to dogs
انہیں جوابی پیغام میں عرض کیا کہ حضور! صورتِ حال کے لیے اتنے نرم الفاظ! یہ تو Under statement ہے! Dogs کے ساتھ تو گزارا ہو بھی جاتا مگر اب تو بھیڑیوں‘ مگرمچھوں اور آدم خور درندوں کی بات کیجیے! حکومت خود اعتراف کر رہی ہے کہ ’’جرائم پیشہ عناصر نے اپنے ساتھ سکیورٹی کے نام پر درجنوں گن مین رکھے ہوئے ہیں جن کے پاس موجود اسلحہ ناجائز اور وہ خود ڈکیتی وقتل سمیت سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں‘‘۔ اس کا علاج یہ ڈھونڈا گیا ہے کہ ’’صوبہ بھرکے اہم مذہبی اور سیاسی رہنمائوں کے پرائیویٹ گن مینوںکو اسلحہ رکھنے کے لیے سپیشل پاس جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے‘‘۔ اس ساری تشخیص اور علاج میں اگرکوئی شے غائب ہے تو وہ عوام ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں رہی کہ عوام اپنی حفاظت کا خود انتظام کریں، بالکل ایسے جیسے دینہ کی خبر اوپر آپ نے پڑھی کہ لندن سے آنے والے شخص پر ڈاکوئوں نے حملہ کیا تو اس نے اپنا ریوالور نکالا اور فائرنگ کر کے اپنی جان بچا لی! عوام پر لازم ہے کہ گارڈ رکھیں۔ اس کی استطاعت نہیں تو ریوالور رکھیں۔ وہ بھی ممکن نہیں تو ملک چھوڑکرکہیں اور جا بسیں۔ یہ بھی نہیں کر سکتے تو اپنی جان‘ اپنا مال اور اپنی عزت ڈاکوئوں کے حوالے کردیں!
راجہ منصور احمد صاحب کی دختر نیک اختر لندن میں قیام پذیر تھی۔ اس نے اپنے والد کے لیے ایک کوٹ بھیجا۔ راجہ صاحب نے پہنا تو ان کے ماپ سے کوسوں دور تھا۔۔۔ بے حد کھلا اور لمبا۔ انہوں نے صاحبزادی کو سرزنش کی کہ ماپ لیا‘ نہ ہی یہ پوچھا کہ ضرورت بھی ہے یا نہیں! کوٹ اعلیٰ درجے کے برانڈ کا تھا۔ اپنی اولاد کا پیسہ خرچ ہو تو فیاض سے فیاض شخص کو بھی رنج پہنچتا ہے۔ صاحبزادی ہنسی اور کہنے لگی: ابا جان! جب بھی لندن آئیے گا یہ بدل لیں گے۔ راجہ صاحب کا موڈ اور بھی خراب ہو گیا۔ ان کا مستقبل بعید میں بھی لندن جانے کا پروگرام نہیں تھا۔ انہوں نے نئی نسل کے خرچیلے پن کی تضحیک کی۔ کوٹ صندوق میں بند کیا، صندوق سٹور میں رکھا اور بات آئی گئی ہو گئی۔
دو سال گزر گئے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ راجہ صاحب کو امریکہ کا سفر درپیش ہوا۔ صاحبزادی نے اصرار کیا کہ واپسی پر اس کے پاس انگلستان میں کچھ دن رکیں۔ نواسوں کی مہک، گلاب اور یاسمین سے زیادہ مسحور کن ہوتی ہے۔ بیٹی نے یاد دلایا کہ وہ متنازع کوٹ بھی لیتے آئیے گا۔ بحر اوقیانوس کو پار کر کے راجہ صاحب ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترے تو معلوم ہوا کہ بیٹی کی فیملی برمنگھم منتقل ہو گئی ہے۔ برمنگھم میں چند ہفتے قیام کے دوران راجہ صاحب نے شہر کی خوب سیر کی۔ داماد اور بیٹی دونوں اپنی اپنی ملازمتوں پر چلے جاتے، بچے سکولوں میں، راجہ صاحب شہر پیمائی کرتے۔ ایک دن بازار میں گھومتے ہوئے انہیں اس کمپنی کا بورڈ نظر آیا جس کا بنایا ہوا کوٹ ان کے پاس تھا۔ وہ اندر گئے، وسیع و عریض سٹور تھا، حد نگاہ تک ملبوسات نظر آ رہے تھے۔ کائونٹر پر بیٹھے شخص سے انہوں نے بات کی۔ اس نے کہا، کل لے آئیے اور بدل لیجیے۔ راجہ صاحب نے اسے بتایا کہ تین باتوں کی وضاحت ابھی سے کر دوں۔۔۔ کوٹ کی رسید نہیں ہے، آپ سے یعنی برمنگھم سے نہیں خریدا گیا بلکہ لندن کی فلاں برانچ سے خریدا گیا تھا اور ٹیگ (Tag) بھی اتر گیا ہے۔ کائونٹر والا مسکرایا، اس نے صرف ایک سوال پوچھا: ’’ آپ نے استعمال تو نہیں کیا؟‘‘ راجہ صاحب نے کہا نہیں!
وہ کائونٹر سے پلٹنے لگے تو اس نے کہا: ’’آپ دوسرا کوٹ ابھی چن لیجیے، ہو سکتا ہے کل تک کچھ کوٹ فروخت ہو جائیں‘‘۔ راجہ صاحب نے اپنے ماپ کا کوٹ چنا اور کائونٹر والے نے اسے اپنے پا س رکھ لیا۔ دوسرے دن وہ دو سال پہلے کا خریدا ہوا کوٹ لے کر گئے، کائونٹر والے نے اسے دیکھا نہ کھولا، ان کے ہاتھ سے پکڑا اور پیچھے پڑے ہوئے میز پر رکھ دیا۔ اس نے نئے کوٹ کی رسید بنائی، راجہ صاحب کے حوالے کی اور بدلا ہوا کوٹ انہیں تھما دیا۔ چند دن بعد انہوں نے واپسی کا سفر کیا۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر متعلقہ محکمے نے کوٹ کی رسید دیکھی اور ٹیکس کی رقم واپس کر دی۔
راجہ صاحب نے یہ داستان امیر حمزہ بے تصویر کیوں سنائی؟ اس لیے کہ ایک ہفتہ پہلے وہ ملے تو بھنائے ہوئے تھے۔ غیظ و غضب کا سبب پوچھا تو بتانے لگے کہ ان کی بیگم نے شہر کے مشہور پارچہ فروش سٹور سے جو صرف اپنا برانڈ فروخت کرتے ہیں، کچھ ملبوسات خریدے۔ دو بیٹیوں اور بہوئوں کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ملبوسات بدلوانے پڑے۔ جیسا کہ ہماری خواتین عام طور پر کرتی ہیں، بیگم صاحبہ رسید کھو چکی تھیں۔ مشہور و معروف برانڈ سٹور کے کائونٹر والے نے رسید کے بغیر کپڑے بدلنے سے انکار کر دیا۔ بیگم صاحبہ نے پوچھا کیا یہ کپڑے تمہارے ہاں کے نہیں؟ اس نے جواب دیا کہ بالکل ہمارے ہی ہیں اس لیے کہ یہ ڈیزائن، یہ پرنٹ ہمارے مخصوص ہیں۔ ابھی کپڑے سلے بھی نہیں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ نے اسی یعنی میری ہی برانچ سے خریدے ہیں لیکن ہماری ’’پالیسی‘‘ یہ ہے کہ رسید کے بغیر ہم بدل کر نہیں دیتے۔ اس رویے سے موازنہ کرتے ہوئے راجہ صاحب نے انگلستان والا واقعہ سنایا!
ہم پاکستانی عوام اس رویے، اس ’’حسن سلوک‘‘ کے عادی ہو چکے ہیں۔ جن لوگوں نے بیرون ملک تاجروں، دکانداروں، سٹوروں اور کمپنیوں سے خریداری کا تجربہ کیا ہوا ہے، صرف ان کی آگہی انہیں احساس دلاتی رہتی ہے کہ پاکستانی صارف کس عذاب، کس تذلیل اور کس بدسلوکی کا شکار ہوتا ہے۔ یہ دو سال پہلے کا واقعہ ہے، ایک عزیزہ نے دارالحکومت کے بہت بڑے کفش فروش سے اپنے میاں کے لیے جوتے خریدے۔ دوسرے دن، صرف چوبیس گھنٹے بعد بدلوانے گئی، رسید دکھائی، تاجر نے انکار کر دیا۔ خاتون نے اصرار کیا‘ تو حاجی صاحب نے چار سنا بھی دیں! امریکہ میں جوتا، ایک سال پہننے کے بعد بھی رسید دکھا کر بدلا جا سکتا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اکثر و بیشتر خریدی ہوئی اشیا بدلنا معمول کی کارروائی ہے، غالباً اس لیے کہ باقی دنیا کے تاجر دیگیں تقسیم کرتے ہیں نہ دکانوں کی پیشانیوں پر مقدس کلمات لکھواتے ہیں، ہاں! عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ مہذب ہیں!
کوئی مانے نہ مانے، پسند کرے یا چیں بر جبیں ہو، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی تاجروں کی اکثریت اکل حلال سے محروم ہے۔ اس کے سات اسباب ہیں۔ اول، اس ملک میں ملاوٹ اور جعل سازی عام ہے۔ خوراک ہو یا ادویات یا استعمال کی دوسری مصنوعات، حتیٰ کہ معصوم بچوں کا دودھ بھی خالص نہیں ملتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تاجر برادری کی اکثریت بظاہر دیندار ہے اور کسی نہ کسی مذہبی گروہ سے تعلق رکھتی ہے۔ دوم، شے فروخت کرتے وقت نقص نہیں بتایا جاتا بلکہ چھپایا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی رو سے ایسا کرنا فرشتوں کی طرف سے لعنت بھیجنے کا سبب بنتا ہے۔ سوم، بھاری اکثریت ناجائز تجاوزات کے گناہ میں مبتلا ہے۔ پبلک کے لیے بنائے گئے فٹ پاتھ، سڑکیں، گلی کوچے، برآمدے، دوسروں کی زمینیں، سب تاجر حضرات کے قبضے میں ہیں اور ان کی آمدنی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ ان ناروا تجاوزات کی وجہ سے آمدنی دائرہ حلال سے باہر ہو جاتی ہے۔ پبلک ان تجاوزات کی وجہ سے جس عذاب سے گزر رہی ہے اس کا گناہ الگ ہے۔ چہارم، ’خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہیں ہو گا‘ یہ مکروہ بورڈ صرف اسی ملک میں نظر آتا ہے۔ خریدار کا بنیادی حق ہے کہ وہ بغیر سبب کے بھی شے واپس یا تبدیل کر سکتا ہے۔ ہمارے تاجروں کی اکثریت یہ حق غصب کیے ہوئے ہے۔ پنجم، حکومت کی کوشش کے باوجود تاجر بضد ہیں کہ وہ کاروبار کا آغاز دن کے گیارہ یا بارہ بجے کے بعد ہی کریں گے اور رات کے دس گیارہ بجے اختتام کریں گے، اس سے سماجی سیٹ اپ تو تباہ ہو ہی رہا ہے اور دیر سے سونے اور دیر سے اٹھنے کی وبا بھی عام ہے، ملکی سطح پر توانائی کا بے محابا ضیاع اس کے علاوہ ہے جو ایک بہت بڑا قومی جرم ہے۔ ششم، ٹیکس چوری اس طبقے میں عام ہے۔ جب کبھی حکومت اس ضمن میں مہم چلاتی ہے تو تاجر حضرات دلیل دیتے ہیں کہ ٹیکس کی رقم صحیح مد میں خرچ نہیں کی جا رہی۔ یہ دلیل ایک حد تک درست ہے لیکن اس بنیاد پر ٹیکس دینے سے انکار لاقانونیت کے مترادف ہے۔ یہ انکار ریاست سے بغاوت کے دائرے میں آتا ہے۔ اگر تاجروں کے تتبع میں کل سرکاری ملازم بھی ٹیکس کی ادائیگی سے انکار کر دیں تو ریاست کا وجود ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ٹیکس کی رقم کہاں خرچ ہو رہی ہے اور کہاں خرچ ہونی چاہیے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے اور اس کے لیے علیحدہ مہم چلنی چاہیے۔ اور ہفتم، ان سب ناروا کاموں کے باوجود دینداری کا دعویٰ اور نمود و نمائش کے لیے مذہبی رسوم کی بجا آوری، ریاست کے ساتھ ساتھ دین کا بھی مذاق اڑانے کے مترادف ہے! یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ ایسے تاجر موجود ہیں جو ان جرائم سے بچنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
پاکستانی صارف ہمدردی ہی کا نہیں، رحم کا بھی مستحق ہے۔
محلے کی بیوہ کے گھر آئے دن غنڈے گھس آتے تھے۔ تنگ آکر اس نے چودھری کو بتایا جو محلے کا کھڑپینچ بنا ہوا تھا۔ چودھری نے اسے مشورہ دیا کہ ایک سلائی مشین خرید لو تاکہ تمہارے مالی حالات بہتر ہوجائیں !
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس مشورے سے غنڈوں کا تدارک ہوگیا ہوگا؟ یقینا نہیں! مالی حالات بہتر ہو بھی گئے تو غنڈوں کے حملوں میں اضافہ ہوگا کیوں کہ پہلے وہ صرف عزت لوٹنے کی نیت سے آتے تھے۔ اب وہ روپیہ لوٹنے بھی آئیں گے!
آپ اس سادہ اور عام فہم معاملے کی تہہ تک آسانی سے پہنچ گئے ہیں لیکن حکومت کے وزراء کرام ان معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس کی وجہ خدانخواستہ یہ نہیں کہ یہ وزراء کرام غبی ہیں اور ان کے آئی کیو ان کے دماغوں کے پیندوں کو چھو رہے ہیں! یہ سب ہوشیار لوگ ہیں اور اپنے اپنے کاروبار، دفاتر ، بزنس ایمپائرز ،جاگیریں ، زمینداریاں ، صنعتیں کمال چابک دستی سے چلارہے ہیں۔ یہ عوامی یعنی سرکاری معاملات کو سمجھنے سے اس لیے ’’ قاصر ‘‘ ہیں کہ اصل مقصد کرسی کو قائم رکھنا ہے اور وقت پورا کرنا ہے۔ جس حکومت کے سربراہ کا نظریہ یہ ہو کہ باغیوں کو نہ چھیڑو، وہ چھیڑیں تو جواب دے دو ، اس حکومت کے کارندے کسی معاملے کی گہرائی تک کیسے پہنچ سکتے ہیں ؟
دارالحکومت میں ایک کانفرنس کا انعقاد ہوا، موضوع تھا، ’’ فاٹا میں امن کے استحکام کے لیے تجارت اور کاروبار کے امکانات کا جائزہ ‘‘۔ ایسی کانفرنسیں عمومی طور پر ان علاقوں سے دور، بہت دور ، منعقد کی جاتی ہیں جو ان کانفرنسوں کا موضوع ہوتے ہیں۔ چنانچہ یہ کانفرنس بھی فاٹا سے دور اسلام آباد میں برپا ہوئی۔ بدقسمتی سے اس کانفرنس میں ایک وکیل صاحب بھی شریک تھے۔ یہ اعجاز مہمند تھے جو فاٹا کے وکیلوں کی تنظیم کے صدر ہیں۔ انہوں نے رنگ میں بھنگ ڈالی اور ایسی باتیں کر ڈالیں جن کا وزیر صاحب کے پہلے سے تیار شدہ نکات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ہاں ، ان باتوں کا فاٹا سے گہرا تعلق تھا۔ اس سے آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ وزیر صاحب کے بیان کردہ نکات کا فاٹا سے کتنا تعلق ہوسکتا ہے!! بس مختصراً یہ کہ آپ پطرس بخاری کا وہ فقرہ ذہن میں لائیں جو انہوں نے اپنی سائیکل کے بارے میں لکھا اور اردو زبان کو مالا مال کردیا۔’’ سائیکل کا ہر پرزہ بج رہا تھا سوائے گھنٹی کے۔‘‘
اعجاز مہمند نے یہ وحشت اثر خبردی کہ خیبرایجنسی میں اور وادیٔ تیراہ میں طالبان نے ہر بچے کا مدرسہ میں داخل ہونا لازمی قرار دے دیا ہے اور اگر کوئی شخص اپنے بچے کو سکول میں داخل کرانا چاہتا ہے تو اسے فی بچہ طالبان کو چار لاکھ روپے ادا کرنا پڑتا ہے۔
اعجاز مہمند نے کانفرنس کو بتایا کہ اصل ایشو قبائلی علاقے میں بسنے والے عوام کے بنیادی حقوق کا ہے۔ ان بنیادی حقوق میں جمہوری حق بھی شامل ہے۔ جب بھی حکومتوں سے کہا جاتا ہے لوکل گورنمنٹ کا نظام متعارف کرائیں، وہ جواب میں معاشی سرگرمیوں اور انفراسٹرکچر کی بات کرتی ہیں جس کا اصل مسئلہ سے دور کا تعلق بھی نہیں۔ اعلیٰ عدالتیں، کیا وفاقی اور کیا صوبائی، احکام صادر کرچکی ہیں کہ فاٹا کے عوام کو ان کے آئینی حقوق دیے جائیں لیکن کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی۔ آئین کا آرٹیکل 247ترمیم چاہتا ہے۔ اس آرٹیکل کی رو سے پارلیمنٹ کے کسی بھی ایکٹ کا اطلاق فاٹا پر نہیں ہوتا جب تک کہ صدرمملکت اضافی منظوری نہ دیں۔ اعجاز مہمند کا سوال صرف یہ تھا کہ آخر کیوں ؟ انگریزوں کی پالیسی کو چھیاسٹھ سال بعد بھی کس دلیل سے برقرار رکھا جارہا ہے؟
اب آپ اپنا سر پیٹئے، ہوسکے تو کمر سے پٹکا باندھ کر بال کھول دیجیے اور آہ وزاری بلند آواز سے کیجیے اور اس بیوہ کی حالتِ زار پر غور کیجیے جس کے گھر پر غنڈے حملہ کرتے تھے اور علاقے کے کھڑپینچ نے مشورہ دیا تھا کہ مائی ! سلائی مشین لو اور پیسے کمائو! اعجاز مہمند کے نالہ و فغاں کا جواب وفاقی وزیر تجارت نے یہ دیا کہ…’’ فاٹا کے مسائل کا حل یہ ہے کہ وہاں کے معاشی حالات میں بہتری لائی جائے!…‘‘لیکن اصل زر و جواہر کی جھلک تو آگے آرہی ہے… ’’اگرچہ تاثر یہ ہے کہ فاٹا انتہا پسندی کا گڑھ ہے تاہم یہ علاقہ وسط ایشیا کے لیے تجارتی پٹی (کاریڈور) ثابت ہوسکتا ہے اور اگر پاکستان اور وسط ایشیا کے درمیان تجارت ہوتو فاٹا کی ترقی پر مثبت اثر پڑے گا…!‘‘
سبحان اللہ ! سبحان اللہ ! سراج الدین ظفر یاد آگئے ؎
میں نے کہا کہ زہد سراسر فریب ہے
اس نے کہا یہ بات یہاں کم بیاں کرو
میں نے کہا کہ ہم سے زمانہ ہے سرگراں
اس نے کہا کہ اور اسے سرگراں کرو
میں نے کہا کہ صرف دل رائگاں ہے کیا
اس نے کہا کہ آرزوئے رائگاں کرو
میں نے کہا کہ رخ سے اٹھائو نقابِ راز
اس نے کہا کہ ہم سے نہ دل بدگماں کرو
ظاہر ہے وزیر تجارت رخ سے نقاب راز اٹھاتے تو اتنا ضرور کہتے کہ جس علاقے میں لوگ اپنے بچوں کو سکول داخل کرنے کے لیے چار چار لاکھ روپے کا بھتہ دے رہے ہیں وہاں معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ وہ وزیر داخلہ سے کہتے کہ جناب ! اپنی ذمہ داریاں نبھایئے، لیکن یہ سب کچھ کہتے تو کرسی چھن جانے کا خطرہ تھا! یہی وجہ ہے کہ وزیروں کے لیے بہترین پالیسی یہ ہے کہ مسائل کا ذکر ہو تو شتر مرغ کی طرح سرریت میں چھپالو! وزارت بچائو۔ آخر جھنڈے والی کار روز روز کب ملنی ہے!!
آج تاریخ سلطان تغلق کو تو پڑھا لکھا بے وقوف کہتی ہے لیکن اس شخص کا نام کسی کو نہیں معلوم جس نے بادشاہ کو مشورہ دیا تھا کہ دارالحکومت دہلی سے دولت آباد لے جائو۔ ہزاروں لوگ گرتے پڑتے وہاں پہنچے تو واپسی کا حکم صادر ہوا۔ بدایوانی لکھتا ہے کہ تغلق کا انتقال ہوا تو ’’ اس کی رعایا سے اور رعایا کی اس سے جان چھوٹی !‘‘ کل کا مورخ میاں نوازشریف کے تیسرے دور حکومت کی ناکامی کا ذکر کرے گا تو ذمہ داری ساری کی ساری میاں صاحب پر ڈالے گا۔ تاریخ کے صفحات پر خواجہ صاحبان کا نام ہوگا نہ پرویز رشید صاحب کا ! پرویز رشید کہتے ہیں کہ…’’ پیمرا کے ترجمان کی جانب سے جو بیان جاری ہوا وہ اس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں…‘‘اس لیے کہ ترجمان صاحب نے متنازعہ ٹی وی چینل کے لائسنس کی منسوخی کا فیصلہ ماننے سے انکار کردیا!
اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ جناب پرویز رشید میاں صاحبان کے وفادار رہے۔ انہوں نے قربانی دی، تشدد کا شکار ہوئے۔ ان پر ظلم ہوا، لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اس تشدد اور ظلم کے نتیجہ میں ان کی ایک خاص نفسیات بن چکی ہے جو انہیں بعض معاملات میں غیر جانب دار نہیں ہونے دیتی ! ؎
ہم نیک وبد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
مانو نہ مانو جانِ جہاں! اختیار ہے!
یہ کالم نگار اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ ’’گلستانِ سعدی‘‘ ہر سکول اور ہر کالج میں‘ ہر نظامِ تعلیم کا‘ جزو لاینفک ہونی چاہیے۔ پرسوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کا اجلاس منعقد ہوا۔ روداد پڑھی تو سعدی یاد آ گئے ؎
تا مرد سخن نگفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
ہر بیشہ گماں مبر کہ خالی ست
شاید کہ پلنگ خفتہ باشد
انسان کے عیب و ہنر اس کے بات کرنے ہی سے کھلتے ہیں! جنگل میں دندناتے نہ پھریے‘ چیتا کسی بھی گوشے میں سویا ہوا مل سکتا ہے!
چیتے کو پلنگ کہتے ہیں۔ اب اگر کوئی اس کا مفہوم یہ سمجھے کہ پلنگ کے نیچے کوئی سویا ہوا ہے تو ایسی ہی باتیں کرے گا جیسی قائمہ کمیٹی کے معزز ارکان کر رہے تھے۔ جائے عبرت ہے!
کمیٹی کے چیئرمین جناب مشاہد حسین دفاعی بجٹ کی طرف اشارہ کر کے لاکھ کہتے رہیں کہ یہاں اب کوئی مقدس گائے نہیں‘ خلقِ خدا اسے تفنن طبع پر ہی محمول کرے گی! جناب مشاہد حسین آٹھ سال… پورے آٹھ سال مقدس گائے کی سرپرستی فرماتے رہے۔ ان کی جماعت آٹھ سالہ فوجی حکومت کی نقیب تھی اور نقیب کا کام ہی شاہی سواری کی آمد کی خبر دینا ہوتا ہے! لیکن تعجب جناب فرحت اللہ بابر کی گفتگو پر ہوا کہ بنیادی طور پر سول سروس سے ہیں اور ذاتی حوالے سے اس قدر نیک نام کہ پیپلز پارٹی کے مالکوں کے گفتنی اور ناگفتنی کارناموں کا جب بھی دفاع کرتے ہیں‘ عجیب سا لگتا ہے! فرماتے ہیں کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے جب کہ اس میں شفافیت کا فقدان ہے!!
دفاعی بجٹ کس کے کہنے پر بنایا جاتا ہے اور اس میں کتنی شفافیت ہے‘ اس پر بات ضرور ہونی چاہیے لیکن یہاں ماضی قریب کی ایک خبر یاد آ گئی ہے جو اتنی بے محل بھی نہیں! پہلے اسی کا ذکر ہو جائے!
تاریخ کے صفحات میں محفوظ اس حقیقت کا تعلق 1993-94ء سے ہے جب حکومت پیپلز پارٹی کی تھی اور وزارتِ عظمیٰ کا ہما بے نظیر بھٹو کے سر پر بیٹھا ہوا تھا! تیرہ گراں بہا قطعہ ہائے زمین چوٹی کے افسروں کو عطا کیے گئے۔ فیض رسانی کا یہ سلسلہ چیف جسٹس ریاض احمد خان تک گیا۔ صرف چیف جسٹس ریاض احمد خان تھے جنہوں نے پلاٹ واپس کردیا۔ بے نظیر بھٹو کے فوجی اے ڈی سی افسر بھی اس خوانِ یغما سے تمتع حاصل کرنے والوں میں تھے۔ اگست 2006ء کے آخری ہفتے میں پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ سب کمیٹی کی صدارت کرنل (ریٹائرڈ) غلام رسول ساہی کر رہے تھے۔ جب دارالحکومت کے ترقیاتی ادارہ نے ’’شفافیت‘‘ کی یہ پٹاری کھولی تو پبلک اکائونٹس کمیٹی کے اصحابِ قضا و قدر نے ترقیاتی ادارے کو حکم دیا کہ تفتیش کی جائے اور معاملہ نیب کو بھیجا جائے۔
معاملہ نیب کو گیا یا نہیں‘ یہ الگ بات ہے۔ 1997ء میں جناب نوازشریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ان پلاٹوں کی الاٹمنٹ منسوخ کردی جائے گی مگر عملاً ایسا نہ ہوا۔ قومی خزانے کو بے نظیر بھٹو کی اس فیاضی کی قیمت (اس زمانے کے) سولہ کروڑ روپے میں پڑی۔ یہ ہے اس ’’شفافیت‘‘ کی ایک ہلکی سی جھلک جس کے بارے میں پیپلز پارٹی کے نیک نام زعما‘ جو ہر عسکری معاملے میں آواز کی لہریں آسمان تک اٹھاتے ہیں‘ ایک لفظ نہیں کہتے۔
رہا یہ الزام کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے تو کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس اجمال کی تفصیل بھی بتائی جاتی! اسٹیبلشمنٹ سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ وہی اسٹیبلشمنٹ ہے جسے خوش کرنے کے لیے وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے فیاضی کا مظاہرہ کیا تھا یا یہ کوئی اور پراسرار سلسلہ ہے؟
دفاعی بجٹ اسی طرح بنتا ہے جیسے سول بجٹ بنتا ہے۔ تمام متعلقہ ادارے اور شعبے اپنے اپنے تخمینے وزارتِ دفاع کو بھیجتے ہیں۔ پوری مسلح افواج میں اور افواج سے متعلقہ ہر ادارے میں وزارتِ خزانہ کے سینئر افسر ہمہ وقت بیٹھے ہوئے ہیں جو بجٹ کے تخمینوں کی کانٹ چھانٹ کرتے ہیں اور ضروری تکنیکی ترامیم کے بعد انہیں آگے روانہ کرتے ہیں۔ وزارتِ خزانہ کا ایک انتہائی سینئر نمائندہ وزارتِ دفاع کے اندر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے دس نمائندے جو سینئر سطح کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں اور ’’مالی مشیر‘‘ (فنانشیل ایڈوائزر) کہلاتے ہیں‘ دفاع کے ہر گوشے میں چوکس بیٹھے ہیں۔ سول کے کسی بھی شعبے میں اتنا تفصیلی اور ہمہ گیر انتظام موجود نہیں۔ دفاع کا ایک بھی شعبہ ایسا نہیں جو وزارتِ خزانہ کے نمائندے کی منظوری کے بغیر تخمینہ منظور کرا سکتا ہے لیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ بجٹ منظور ہونے کے بعد بھی کوئی پیسہ ان نمائندوں کی تحریری منظوری کے بغیر خرچ نہیں کیا جا سکتا! اب جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ دفاعی بجٹ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر بنایا جاتا ہے تو اگر اسٹیبلشمنٹ سے ان کی مراد وفاقی وزارتِ خزانہ ہے تو وزارتِ خزانہ کا تو فرضِ منصبی ہی یہی ہے! اور ا گر ان کی مراد کوئی اور ادارہ ہے تو الفاظ چبانے کے بجائے کھل کر بات کرنی چاہیے اور یہ بھی قوم کو بتا دینا چاہیے کہ بجٹ کی تیاری کے کس موقع پر یہ ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ مداخلت کرتی ہے؟ لفاظی اور حقیقت میں بُعد تو ہوتا ہی ہے لیکن بُعد المشرقین کی مثال پہلی بار دیکھنے میں آئی ہے۔
رہا دفاعی بجٹ کی شفافیت کا بکھیڑا تو یہاں بھی صورتِ حال اُس سے مکمل مختلف ہے جس کا رونا رویا جا رہا ہے۔ مسلح افواج اور مسلح افواج کے ذیلی اداروں میں اندرونی محاسبے (انٹرنل آڈٹ ’’Internal Audit‘‘) کا جو تفصیلی نظام کام کر رہا ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی سول کے اداروں میں نہیں پایا جاتا۔ ایک سینئر اہلکار ’’کنٹرولر لوکل آڈٹ‘‘ کے نام سے کام کر رہا ہے۔ اس کے ایک صد سے زیادہ افسر رات دن دفاع کے شعبوں کے حساب کتاب کی جانچ پڑتال میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سو یعنی ایک صد افسروں میں سے ہر ایک کے پاس کئی کئی آزمودہ کار اہلکاروں کی ٹیم ہے جو ساری زندگی یہی کام کرتے ہیں اور ان کی مہارت کا یہ عالم ہے کہ دفاع کے اخراجات کی ایک پائی بھی ان کی عقابی نظروں سے چھپانی مشکل ہے۔ اس نظام کا نتیجہ یہ ہے کہ اندرونی (انٹرنل) آڈٹ کے کہنے پر کروڑوں روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرائے جاتے ہیں۔ صرف گزشتہ چار سال کے اعدادو شمار دیکھیے۔ 2010-11ء کے مالی سال کے دوران دفاع کے محکمے نے انچاس کروڑ روپے قومی خزانے میں واپس جمع کرائے۔ اس کے ایک سال بعد ستائیس کروڑ روپے جمع ہوئے۔ 2012-13ء میں ستر کروڑ روپے محکمہ دفاع نے خزانے میں جمع کرائے۔ موجودہ مالی سال کے دوران مارچ 2014ء تک ایک سو بارہ کروڑ روپے جمع کرائے جا چکے ہیں۔ انٹر آڈٹ کے اس شعبے کو محکمہ دفاع کا ہر حصہ از حد اہمیت دیتا ہے اور یہ شعبہ اپنی رپورٹس براہ راست سیکرٹری دفاع کو پیش کرتا ہے۔ یہاں یہ بتانا ازحد ضروری ہے کہ اس محاسبے اور وصولیوں کے اس سارے عمل کا آڈیٹر جنرل اور پبلک اکائونٹس کمیٹی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ سارا نظام محکمۂ دفاع کا اپنا اندرونی نظام ہے!!
قومی اسمبلی میں نیا بجٹ پیش ہوتا ہے تو وزیر خزانہ کی طرف سے بجٹ کی کتابوں کا ایک ایک ضخیم بھاری بھر کم گٹھڑ ہر معزز رکن کو دیا جاتا ہے۔ کتنے ارکان ان دستاویزات کو پڑھتے ہیں یا پڑھ سکتے ہیں؟ تقریر کی روانی میں اعتراض کرنے سے پہلے یہ تو سوچنا چاہیے کہ بات کرنے سے عیب و ہنر عیاں ہو جاتے ہیں!!
کہتے ہیں جاپانی ایک بار پاکستان آئے اور ایک دور افتادہ قصبے میں جب انہوں نے اپنی بنائی ہوئی سوزوکی پک اپ کے اندر بیس آدمی بیٹھے ہوئے اور بیس ہی باہر لٹکے ہوئے دیکھے تو انہیں معلوم ہوا کہ انہوں نے کیا زبردست سواری بنائی ہے۔اسی طرح شاعر مشرق آج ہوتے تو اپنی شاعری کی نئی تفسیریں دیکھ کر ضرور کہتے کہ وہ جتنے بھی بڑے شاعر تھے ‘اہل پاکستان نے انہیں اس سے بھی بڑا شاعر بنا دیا ہے۔یہی مصرع دیکھیے ؎
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے
ہم اہل پاکستان نے جو جہان نو پیدا کیا ہے اس میں صدیوں پرانے محاورے‘ضرب الامثال ‘کہاوتیں ،بجھارتیں ‘ سب کچھ بدل چکا ہے۔یہ جو کہا جاتا تھا کہ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے تو یہ غلط ثابت ہو چکا۔ہمارے ٹائیگر جنرل نیازی نے ڈھاکہ میں اس محاورے کو بدل کر دکھایا اور اب اس میں ذرہ بھر اشتباہ نہیں کہ گیدڑ کی سو سال کی زندگی شیر کی ایک دن کی بیکارلڑائی سے بھر پور زندگی سے کئی درجے بہتر ہے۔پہلے اصول کی خاطر زندگیاں قربان کر دی جاتی تھیں اب اصول وہ ہے جس سے کچھ وصول ہو۔قائد اعظم کے زمانے میں ہماری قومی عمارت کے بنیادی ستون تین تھے۔اتحاد‘ایمان اور تنظیم ،اب ہم نے چوتھا ستون بھی کھڑا کیا ہے اس کا عنوان ہے ’’گزارہ‘‘ یعنی ’’اتحاد‘ایمان‘تنظیم اور گزارہ‘‘۔گزارہ کا مطلب ہے کہ نظام بنانے کی چنداں ضرورت نہیں۔سسٹم جس کے تحت کام خود بخود ہوتے جائیں‘فضول تصور ہے۔سارا سلسلہ عارضی بنیادوں(ایڈہاک ازم)پر چلائیں۔اس کی مثال یوں سمجھیے کہ ایک دیوار بہت بوسیدہ ہے‘اسے گرا کر نئی بنانے کی کسی کو فکر نہ ہو۔بس جہاں سے اینٹ گری‘وہاں اینٹ لگا دی‘جہاں سے گارا اکھڑا‘ وہاں گارے کا تھوبا ڈال دیا‘جہاں حوا کی کسی بیٹی کے ساتھ زیادتی ہوئی‘حاکم اعلیٰ وہاں پہنچ گئے اور اعلان کیا کہ ہم اندھیرے ختم کر دیں گے‘سسٹم بنانے یا بدلنے کا کوئی تصور نہیں‘جہاں خود پہنچ گئے‘پولیس نے مقدمہ درج کر دیا اور ملزموں کو پکڑ لیا جہاں نہ پہنچے ‘وہاں مظلوموں کو پکڑ لیا گیا۔
اس چوتھے ستون’’گزارہ‘‘ کی تابندہ ترین مثال دہشت گردوں کے بارے میں وفاق کی پالیسی ہے۔’’جہاں وہ حملہ کریں اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے‘‘یعنی جہاں وہ حملہ نہ کریں وہاں کسی ایکشن کی ضرورت نہیں۔بے شک پھلتے پھولتے رہیں۔پرامن بقائے باہمی کے اصول کا اطلاق اپوزیشن جماعتوں پر ہو نہ ہو‘ریاست کے مسلح باغیوں پر ضرور ہو۔گزارہ!
لیکن اس چوتھے ستون’’گزارہ‘‘کی بہترین مثال دو دن پیشتر دیکھی گئی اور پوری قوم نے دیکھی اور پڑھی۔سینئر کالم نگار جناب ہارون الرشید نے پندرہ مئی کو فریاد کی کہ اچ شریف کے گائوں لکھن بیلہ میں پرائمری سکول کے طلبہ کی تعداد ساڑھے تین سو ہے اور استاد صرف ایک!
’’گزارہ‘‘کا سنہری اصول حرکت میں آیا۔اسی دن ’’ایکشن‘‘ لیا گیا۔وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری جناب محی الدین وانی نے سینئر کالم نگار کو پیغام بھیجا۔’’حکومتی پالیسی کے مطابق لکھن بیلہ سکول کے لیے 16مئی کو دو سرکاری اساتذہ کی منظوری دیدی گئی۔‘‘آپ نے نوٹ کیا؟’’حکومتی پالیسی کے مطابق‘‘ جی ہاں!حکومتی پالیسی کے عین مطابق!!حکومتی پالیسی کیا ہے؟کوئی شور مچائے تو کشکول میں کچھ ڈال دو۔نہیں تو چلنے دو۔ایہہ جہان مٹھا۔اگلا کِس ڈٹھا!
اس پر بھی غور کیجیے کہ یہ شعبہ پنجاب حکومت کا تھا لیکن ایکشن کی اطلاع وزیر اعظم کے پریس سیکرٹری دے رہے ہیں‘یعنی تو من شدی‘من تو شدم تا کس نگوید بعد ازین من دیگرم تو دیگری‘ حکمران خاندان تو ایک ہے!اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وفاق کی ذمہ داریاں چھوٹا بھائی پوری کر دے اور بڑے بھائی کا وفاق‘صوبے کا تعلیمی نظام سنبھال لے۔آخر پہلے بھی تو حاکم صوبہ کے صاحبزادے جو وفاق میں ایم این اے ہیں‘صوبہ پورے کا پورا چلا ہی رہے ہیں۔ فراق نے اسی صورت حال کو شعر کیا تھا ؎
بزم ساقی سے اٹھا ہے کوئی یوں رات گئے
پا بدست دگرے‘ دست بدست دگرے
یعنی پائوں دوسرے کے ہاتھ میں‘اور دوسروں کے ہاتھ اپنے ہاتھ میں‘جیسے سوزوکی پک اپ میں ٹھنسے ہوئے مسافروں کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ اپنا بازو کھجا رہے ہیں یا دوسرے کا بقول شاعر ع
مری باہیں تری باہیں‘ تری باہیں میری باہیں
اب جس نے بھی کام کرانا ہو ’’گزارہ‘‘اصول کے تحت کرائے۔چنانچہ ہے کوئی کالم نگار‘کوئی لکھاری؟کسی وزیر اعظم کا پریس سیکرٹری ؟جو ضلع اٹک تحصیل فتح جنگ کے گائوں جھنڈیال میں اس ڈسپنسری کے لیے صوبائی حکومت سے بجٹ دلوا دے جس کی منظوری کو 9سال ہو چکے ہیں ‘زمین محکمہ صحت کے نام منتقل ہو چکی ہے۔تعمیر کے لیے بجٹ روکے جانے کی دو ہی وجوہ تاحال محققین اور مورخین کو معلوم ہو سکی ہیں۔ یا تو اس لیے تعمیر نہیں کی جا رہی کہ منظوری اس وقت کی ضلعی حکومت نے دی تھی اور یہ ضلعی حکومت مسلم لیگ قاف کی تھی‘اور یا اس لیے کہ اس قریے کا تعلق جس کالم نگار سے ہے وہ صوبائی حکمرانوں کی گڈ بکس میں نہیں!!
جناب محی الدین وانی سے ان کے والد بشیر احمد وانی یاد آ گئے ۔اس کالم نگار کے دوست اور کرم فرما!شریف النفس اور دیانت دار، شائستہ اور یاروں کے یار’’اللہ تہاڈا بھلا کرے‘‘ان کا تکیہ کلام تھا۔سول سروس میں تھے کہ مڈ کیریر پر جان‘جان آفریں کے سپرد کر دی۔بیگم باہمت خاتون تھیں۔شوہر کے مشن کو مکمل کیا اور ہر بچے کو اس کی منزل تک پہنچایا ۔تین بچے سول سروس میں ہیں!
واپس‘’’اتحاد‘ایمان‘ تنظیم اور گزارہ ‘‘کی طرف پلٹتے ہیں!ادارے! کون سے ادارے؟ادارے تو ختم ہو گئے۔سسٹم ! کون سا سسٹم؟سسٹم جو فرنگی حکومت چھوڑ کر گئی تھی ،کرپشن اور نااہلی کی نذر ہو کر گر چکا۔ریلوے تو نظر آتی ہے اور سب کہہ رہے ہیں کہ جو نظام ریلوے کا ملا تھا‘ہم سے نہ چل سکا اور زمیں بوس ہونے کو ہے!لیکن جو ادارے باہر سے نظر نہیں آ رہے ‘وہ درجنوں ہیں۔اس سے بھی زیادہ!سب منہدم ہو گئے جس طرح پاکستان کا موجودہ شاہی خاندان ہر بیورو کریٹ کی تعیناتی یا ترقی کے وقت پوچھتا ہے کہ ’’ساڈا واقف اے؟‘‘اسی طرح جس شہری کا جس ادارے میں بھی کام ہو‘پہلے اپنے کسی واقف کو تلاش کرتا ہے!بچے کو سکول میں داخل کرانا ہے‘ٹیلی فون لگوانا ہے‘زمین یا پلاٹ یا مکان کا انتقال کرانا ہے۔گیس لگوانی ہے‘نئی گاڑی کی رجسٹریشن کرانی ہے‘کسی بھی شعبے سے آپ کا تعلق ہے ‘وکیل ہیں یا ڈاکٹر‘طالب علم ہیں یا پراپرٹی ڈیلر۔کوئی ایک کام بھی کسی کا سسٹم کے تحت نہیں ہو رہا ۔دو ہی راستے ہیں :روابط یا رشوت!تاجروں سے شکوے بھی بہت ہیں لیکن جس عذاب سے وہ ہر روز گزرتے ہیں اس کا بھی اندازہ لگانا چاہیے۔برآمد یا درآمدکرنے والوں سے پوچھیے‘ کتنے دروازے کھٹکھٹانے پڑتے ہیں اور کس کس کے کشکول میں کیا کیا ڈالنا پڑتا ہے۔ایک ایک دن میں کتنے سرکاری محکموں سے کتنے ’’بھکاری ‘‘ آتے ہیں، یہاں تک کہ تاجر چیخ اٹھتا ہے ؎
چنان بود درعمر من زندگانی
کہ درگور جان کندن و سخت جانی
زندگی یوں گزر رہی ہے جیسے قبر میں جان کو کوئی کھود رہا ہے!
ایڈہاک ازم!سارا ملک سارا سلسلہ ایڈہاک ازم پر چل رہا ہے اور ایڈہاک ازم کا ترجمہ ایک دوست نے کیا مناسب کیا ہے :نقش برآب!
گاڑی چلاتے ہوئے دو گھنٹے ہو چکے تھے۔خستگی اور ضعف غالب آ رہے تھے۔بائیں طرف ایک سبزہ زار تھا‘درختوں میں گھرا ہوا۔گاڑی ایک طرف کر کے روکی۔ایک چٹان نما پتھر سائے میں تھا۔اس پر بیٹھا اور بوتل سے پانی پینے لگا جو گرم ہو چکا تھا۔سہ پہر ابھی شام میں نہیں ڈھلی تھی لیکن درختوں کی چھائوں اور مسلسل چلتی ہوا نے خنکی پیدا کر دی تھی۔سبزہ زار کے دائیں طرف پہاڑیاں تھیں‘ ابر پارے آ جا رہے تھے۔دھوپ چھائوں کا منظر نامہ لحظہ لحظہ تبدیل ہو رہا تھا۔دفعتاً ایک خواہش نے دل میں انگڑائی لی۔ایک بان کی چارپائی ان درختوں کے نیچے ہوتی اور میں اس پر دراز ہو جاتا۔میں شہر میں بسنے والوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جنہوں نے بچپن‘درختوں کی چلتی چھائوں کے ساتھ ساتھ ‘بان کی کھردری چارپائیاں گھسیٹتے گزارا ہے۔ پیڑوں کے پتے ہل ہل کر سایہ بُنا کرتے تھے۔دھوپ میں بھی برکت ہوتی تھی۔درست ہے کہ اس وقت ہماری بستیوں میں برقی روشنی اور پنکھے نہیں تھے لیکن کسانوں کے پاس نقدی تو ہوتی تھی۔اب برقی روشنی ہے جو لوڈشیڈنگ کے عذاب میں دکھائی نہیں دیتی۔ہاں بِل آتے ہیں اور نقدی کسانوں کی جیب سے غائب ہو جاتی ہے۔
یوں آواز آئی جیسے مویشیوں کو کوئی ہانک رہا ہو۔دائیں طرف دیکھا تو پہاڑیوں سے ایک ریوڑ اتر رہا تھا‘بکریوں اور بھیڑوں پر مشتمل۔پیچھے پیچھے ایک کتا سر جھکانے چل رہا تھا اور اس کے بھی پیچھے ایک لڑکا جو مشکل سے بارہ تیرہ سال کا ہو گا۔ریوڑ قریب آتا گیا۔لڑکا پھرتی سے دائیں بائیں بھاگ کر ریوڑ کو ایک سیدھ میں رکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔پھر وہ اسے سبزہ زار کے اندر لے آیا۔مجھے اس نے سلام کیا اور ساتھ والے پتھر پر چادر بچھا کر بیٹھ گیا۔اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔دو درخت چھوڑ کر کتا بھی بیٹھ گیا۔کتا ہانپ رہا تھا‘یوں لگا جیسے وہ پیاسا ہو۔
اس علاقے میں گزر پہلی بار ہو رہا تھا۔اردگرد کے دیہات کے نام اور مقامی جغرافیہ میرے لیے اجنبی تھے۔لڑکے نے ایک گائوں کا نام بتایا جس سے اس کا تعلق تھا۔میرا پہلا سوال اس کے علاوہ اور کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ وہ سکول کیوں نہیں پڑھتا۔اس کے چہرے پر زہر خند بکھر گیا۔
’’پانچ جماعتیں پاس کر لی تھیں‘پھر چھوڑ دیا‘‘
’’کیوں ؟تمہیں آگے پڑھنا چاہیے تھا۔‘‘
وہ پھر ہنسا
’’چاچا‘تمہیں بہت سی باتیں نہیں معلوم‘ میں اگر چھٹی جماعت میں داخل ہو جاتا تو یہ بکریاں اوربھیڑیں کون چراتا؟
’’یہ کام تمہارا باپ بھی تو کر سکتا ہے‘‘
’’ہاں ۔وہ کر سکتا ہے۔لیکن وہ چودھریوں کا ٹریکٹر چلاتا ہے۔ہمارا مکان اپنا نہیں۔وہ ہمیں چودھریوں نے دیا ہوا ہے۔میرا بڑا بھائی بھی انہیں کے گھر کام کرتا ہے‘‘
’’تم نے پانچ جماعتیں کہاں پڑھیں؟‘‘
’’اپنے گائوں کے سکول میں‘‘
جانے کیا لہر میرے دماغ میں اٹھی۔ لڑکے سے پوچھا ’’تمہارا سکول یہاں سے کتنا دور ہے؟‘‘
اس نے ہاتھ کے اشارے سے بتایا ’’ان درختوں کی اوٹ کے اس طرف وہ جو بڑی سی حویلی ہے‘ اس کے پیچھے ہے‘‘
میں نے اس سے پوچھا ’’کیا تم مجھے اپنا سکول دکھا سکتے ہو؟‘‘
اس نے کہا۔ ’’ہاں‘‘۔ میں نے پوچھا ’’گاڑی پر چلیں گے؟‘‘ اس نے کہا ’’نہیں‘ وہ دور پڑے گا‘ پیدل جلد پہنچ جائیں گے‘‘
’’اور تمہارا ریوڑ؟‘‘
’’اسے کچھ نہیں ہوتا۔میرا کتا اس کی حفاظت کے لیے کافی ہے۔‘‘
لڑکا درختوں کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا کھیتوں کے گرد چکر کاٹ کر ایک کمرہ نما عمارت کے پاس رک گیا۔
’’یہی ہمارا سکول ہے‘‘
یہ پتھروں سے بناہوا ایک بڑا سا کمرہ تھا۔ پتھروں پر کوئی گارا تھا نہ پلستر‘کہیں کہیں سے پتھر گرے ہوئے تھے‘ اور بس اتنے رہ گئے تھے کہ دیوار کے پار دیکھا نہیں جا سکتا تھا۔دو چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تھیں جو آدھی کھلی تھیں۔غالباً بند نہیں ہو سکتی تھیں۔
’’سکول‘‘کے اندر داخل ہوا تو منظر عجیب و غریب تھا۔بچے دیواروں کے ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔میں نے نوٹ کیا کہ وہ ٹاٹ پر نہیں بیٹھے تھے۔ہر لڑکا ایک بوری نما کپڑا اپنے نیچے رکھے تھا‘ جو وہ اپنے گھر سے لاتا تھا۔ ایک چالیس سالہ شخص کرسی پر بیٹھا تھا۔کرسی کی ایک سائیڈ جس پر بازو رکھا جا سکے‘سلامت تھی لیکن دوسری غائب تھی ۔کرسی کے آگے میز نہیں تھا۔میں نے سلام کیا۔ماسٹر صاحب بہت احترام سے ملے۔ہو سکتا ہے انہوں نے سمجھا ہو کوئی انسپکٹر معائنہ کے لیے آیا ہے۔تعارف کرایا تو وہ تھوڑے سے ریلیکس ہو گئے۔بچوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے الگ الگ ’’کلاسوں‘‘ کی تفصیل بتائی۔پانچ کی پانچ جماعتیں اسی کمرے میں تھیں۔ماسٹر صاحب نے بتایا کہ ایک اور استاد بھی ہونا چاہیے لیکن دو سال پہلے اس کا تبادلہ ہوا تو اس کا نعم البدل ابھی تک تعینات نہیں ہوا۔ایک طرف پانی کا گھڑا گیلی ریت پر پڑا تھا۔گھڑے کی گردن سے پتلی سی زنجیر بندھی تھی جس کے دوسرے سرے پر ایلومینیم کا گلاس تھا۔میں نے اپنے ہاتھوں سے گھڑے سے پانی ایلومینیم کے گلاس میں ڈالا‘پانی میں مٹی اور ریت تھی جو کافی دیر کے بعد نیچے بیٹھی۔میں نے آنکھیں بند کر کے دو گھونٹ بھرے۔
لڑکے کو ساتھ لے کر میں واپس اپنی گاڑی تک پہنچا۔رخصت ہوتے وقت میں نے اسے پانچ سو روپے دینے کی کوشش کی لیکن اس نے انکار کر دیا ۔اس نے پوچھا ’’یہ رقم کیوں دے رہے ہو؟‘‘اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
میں نے اپنا سفر دوبارہ شروع کیا۔پاکستان میں ایسے کتنے ’’سکول‘‘ ہیں‘پتھروں کے بنے ہوئے کمروں پر مشتمل‘ جن میں پوری پوری پانچ اور آٹھ آٹھ جماعتیں پڑھائی جا رہی ہیں؟ شاید کسی سرکاری فائل میں یہ تعداد نہ ملے۔
چودہ سو سال سے اسلام کے دشمن جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ خواب اب انہیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔
چودہ صدیوں سے پروپیگنڈہ ہو رہا تھا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔ اسلام میں عورتوں کا کوئی مقام نہیں۔ مسلمان عورتوں کی تعلیم کے دشمن ہیں۔ اسلام میں غلامی ایک باقاعدہ ادارہ ہے۔ لونڈیوں کی ریل پیل ہوتی ہے۔ ہر بات کا فیصلہ تلوار کرتی ہے۔ اختلافِ رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا۔ اقلیتوں کو مار دیا جاتا ہے۔
چودہ صدیوں سے اسلام کے سکالر ان اعتراضات کا جواب دے رہے تھے۔ تقریروں‘ خطبوں‘ کتابوں کے ذریعے پروپیگنڈے کا توڑ کر رہے تھے۔ ثابت کر رہے تھے کہ اسلام میں قتل و غارت کیسے جائز ہو سکتی ہے جب کہ لشکروں کو اجازت ہی نہیں کہ بچوں‘ عورتوں اور لڑائی میں شریک نہ ہونے والے دشمنوں کو قتل کریں۔ انسانوں کا قتل تو دور کی بات ہے‘ درختوں‘ فصلوں اور روئیدگی تک کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ کھیت سے خوشہ توڑنے والے لشکری کا کان شیر شاہ سوری نے کاٹ کر‘ کان کٹے لشکری کو پورے پڑائو میں پھرایا تھا۔ ترک سلطان نے بغیر اجازت شلغم نکالنے والے سپاہی کو پھانسی دے دی تھی اور پھر صدیوں تک کسی لشکری کو ہمت نہ ہوئی کہ کسی کے کھیت پر بُری نظر ڈالے۔ سکالر رات دن بتاتے رہے کہ عورتوں کی تعلیم اتنی ہی ضروری ہے جتنی مردوں کی۔ ’’علم کی طلب ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے‘‘۔ اور یہ کہ علم علم ہے‘ اسلام میں دینی اور غیر دینی علوم کی تفریق کا کوئی ثبوت نہیں۔ علم جہاں بھی ہے اور جس قبیل کا بھی ہے‘ مومن کی میراث ہے۔ سکالر حوالوں سے‘ حقائق سے اور مثالوں سے ثابت کرتے رہے کہ اسلام جس برداشت کی تلقین کرتا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں۔ وہ تو غیر مسلموں کے عبادت خانوں کی حفاظت کی گارنٹی دیتا ہے اور ان کے طرزِ زندگی‘ طرزِ عبادت سے کوئی تعرض نہیں کرتا۔
اس سارے عرصہ میں اسلام کے دشمنوں کا پروپیگنڈہ مجموعی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔ اس لیے کہ یہ محض کتابوں میں تھا اور محض تقریروں کے ذریعے پھیلایا جاتا تھا۔ کتابیں پڑھنے والے دنیا میں ہمیشہ اقلیت میں رہے ہیں۔ تقریریں صرف وہی سنتے تھے جو موجود ہوتے تھے؛ چنانچہ یہ پروپیگنڈہ اپنی موت آپ مرتا رہا۔ جس کسی نے کوئی کتاب پڑھی‘ دشمنانِ اسلام کی خرافات سے آگاہ ہوا۔ جو کسی آگ اگلنے والے مقرر کے دائرۂ سماعت میں ہوا‘ اس نے تقریر سنی اور بس۔
قتل و غارت کرنے والا اور قتل و غارت کو جائز سمجھنے والا پہلا گروہ خارجیوں کا تھا۔ نہروان کی لڑائی میں امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان کا خاتمہ کیا۔ اٹھارہ سو میں سے صرف نو بچ پائے۔ یہ اور بات کہ مدتوں کہیں نہ کہیں ظاہر ہوتے رہے اور عقائد تو مرتے ہی نہیں‘ تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں اور کوئی بھی‘ کسی بھی وقت‘ ان عقائد کو اپنا سکتا ہے!
دوسرا بڑا گروہ قتل و غارت کو اپنا اسلوبِ زندگی بنانے والا حسن بن صباح کے فدائیوں کا تھا۔ البرز کے پہاڑوں میں‘ تین دہائیوں سے زیادہ عرصہ‘ وہ الموت کے قلعہ ہی میں رہا اور اس کے فدائی مسلمانوں کو قتل کرتے رہے۔ پھر وہ تاریخ کے آرکائیو میں چلے گئے۔
بیسویں صدی کا آخری ربع۔ مواصلات میں ایسا انقلاب لایا کہ دنیا ششدر رہ گئی۔ اخبارات‘ ریڈیو‘ ٹیلی ویژن اور موبائل فون نے دنیا کے ہر حصے کو دوسرے سے ملا دیا۔ اوقیانوس کے اُس پار سی این این‘ پردۂ سیمیں پر جو کچھ دکھاتا تھا‘ ہزاروں میل دور‘ ڈِش کی مدد سے لوگ دیکھ لیتے تھے۔ لیکن اصل میں زمین اس وقت سُکڑی جب انٹرنیٹ آیا۔ زمین کیا سکڑی‘ بچے کی ہتھیلی سے بھی زیادہ چھوٹی ہو گئی۔ ای میل‘ کرۂ ارض کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ثانیوں میں پہنچنے لگی۔ ویب سائٹس نے ایک ایک فرد اور ایک ایک گروہ کو اتنی قوت بخشی کہ پوری پوری سلطنتیں سینکڑوں برسوں تک اتنی قوت نہ مہیا کر سکیں۔ اس قوت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ ایک فرد‘ صرف ایک فرد نے وکی لیکس کے ذریعے کرۂ ارض کی عظیم ترین طاقت کو ہلا کر رکھ دیا۔ چھوٹی سی کوٹھری کیا‘ غار میں بیٹھ کر دنیا بھر کو اپنی مٹھی میں لپیٹا جا سکتا ہے!
مسلمانوں کی بدقسمتی کہ ایک بار پھر وہ گروہ پیدا ہو گئے جو خارجیوں اور فدائیوں کے نقشِ قدم پر چل کر مسلمانوں کو قتل کرنے لگے۔ ان کی تبلیغ بھی بندوق سے ہے‘ فقہ بھی بندوق سے‘ تعلیم بھی بندوق سے اور مجوزہ حکومت بھی بندوق سے۔ سکولوں‘ مدرسوں‘ بازاروں‘ مزاروں کو انہوں نے قتل و غارت کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں سکول جلا کر خاکستر کردیے۔ عورتوں کو تعلیم کیا‘ ان کا گھر سے نکلنا بند کردیا۔ صحافیوں اور صحافتی اداروں پر حملے کیے۔ گویا یہ سب کچھ ناکافی تھا۔ سینکڑوں طالبات کو قید کر کے لونڈیاں قرار دیا اور فروخت کرنا شروع کردیا!
چودہ سو سال سے اسلام کے دشمن جو خواب دیکھ رہے تھے‘ وہ خواب اب انہیں جیتی جاگتی شکل میں نظر آنے لگا ہے۔ اب ان کا انحصار لائبریریوں میں دھری کتابوں پر ہے‘ نہ محدود دائروں میں سنی جانے والی تقریروں پر۔ اب وہ پوری دنیا کو یوٹیوب کے ذریعے‘ فیس بک کے ذریعے‘ ٹوئٹر کے ذریعے اور لاکھوں کروڑوں ویب سائٹوں کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ اسلام قتل و غارت کا مذہب ہے۔ مسلمان مسلمانوں ہی کے پرخچے اڑا رہے ہیں۔ قبروں سے لاشیں نکال کر چوراہوں پر لٹکا رہے ہیں۔ عورتوں کو مار رہے ہیں۔ چرچ جلا کر اعلان کرتے ہیں کہ یہ شریعت کے مطابق ہے۔
غیر مسلم ٹیلی ویژن چینلوں اور ویب سائٹوں کی پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہیں۔ ان کی چاندی ہو گئی ہے۔ وہ قتل و غارت کرنے والی اِن ’’مسلمان‘‘ تنظیموں کے سربراہوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔ ان کے انٹرویو لے کر سینکڑوں بار نشر کرتے ہیں۔ ان کی فلاسفی کی تشہیر کرتے ہیں۔ وہ غاروں میں ہیں یا پہاڑوں کی چوٹیوں پر‘ نشرواشاعت کے غیر مسلم ادارے ان تک پہنچ جاتے ہیں اور خوب خوب کوریج دیتے ہیں۔ صرف ایک مثال اس سارے تماشے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ نائیجیریا کی تشدد پسند تنظیم ’’بوکوحرام‘‘ کے سرغنہ محمد یوسف کا بی بی سی نے 2009ء میں انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو میں محمد یوسف نے کہا کہ زمین گول ہونے کا تصور اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس نے انٹرویو میں یہ بھی کہا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ سورج کی حرارت سے پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے اور پھر بارش کی صورت میں برستا ہے‘ ہم اس سے بھی انکار کرتے ہیں کیونکہ یہ اسلام کے خلاف ہے۔ یہ انٹرویو کروڑوں اربوں افراد کو دکھایا اور سنایا گیا۔ پھر ویب سائٹس پر چڑھایا گیا۔ ہر روز اسے کروڑوں لوگ آج بھی دیکھتے ہیں اور مسلمانوں اور اسلام کے بارے میں ایسی رائے قائم کرتے ہیں جو مرتے دم تک تبدیل نہیں ہوتی۔ آسٹریلیا کی صرف ایک ویب سائٹ پر کروڑوں لوگ یہ خبر‘ مع تصاویر‘ پڑھ چکے ہیں کہ ’’بوکو حرام نے جن طالبات کو اغوا کر رکھا ہے‘ انہیں بارہ بارہ ڈالر میں بوکو حرام کی بجائے عسکریت پسند خرید رہے ہیں‘‘!
اسلام کے دشمنوں کا اب ایک اور مزا بھی ہے۔ اس سے پہلے جب بھی تشدد پسند گروہ مسلمانوں میں اٹھتے تھے تو مسلمان سکالر بیک آواز انہیں رد کرتے تھے۔ اب کے یہ ہوا کہ تشدد پسند گروہوں کی پشت پر ایک طاقت ور مکتب فکر ہے جو ان کی تردید تو کیا کرے گا‘ ان کی تائید کر رہا ہے۔ یہ تائید ’’خاموشی نیم رضا‘‘ کی صورت میں بھی ہے اور ببانگِ دہل بھی! اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ جب چرچ جلا کر اسے شریعت کے مطابق قرار دیا گیا تو مخصوص مکتبِ فکر کے کسی ایک عالم نے بھی اس کی تردید نہیں کی۔ اسی طرح جب لاشیں قبروں سے نکالی گئیں تو ہم نوائی کرنے والے علما خاموش رہے! ان میں سے کچھ تو جان کے خوف سے منقار زیر پر ہیں لیکن اکثریت تشدد پسندوں کے عقائد‘ حکمت عملی اور قتل و غارت سے اتفاق کرتی ہے!
غنی کاشمیری کا شعر خون کے آنسو رلاتا ہے ؎
غنیؔ روزِ سیاہِ پیرِ کنعان را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشمِ زلیخا را
کنعان کے بوڑھے شخص کی بھی عجیب قسمت تھی!
روشنی اس کی آنکھوں کی تھی‘ نورِ چشم اُس کا تھا لیکن تابندگی اُس سے زلیخا کی آنکھیں حاصل کر رہی تھیں!
مارگلہ کے کوہستانی سلسلے پربادل ہیں۔بارش تھم بھی جائے تو ہوا ان دنوں خوشگوار ہے۔ کیا خوبصورت شہر تھا جسے ہوس پرست سیاست دانوں اور بے ضمیر بیورو کریسی نے برباد کرکے رکھ دیا۔ حافظ شیرازی نے محبوبہ سے التماس کی تھی۔ ع
زلف بر باد منہ تا نہ کنی بربادم
زلف ہوا کے دوش پر نہ اڑا۔ میں برباد ہوجائوں گا۔
یہاں تو ظلم کی انتہا یہ ہوئی کہ زلف بھی نہ اڑی اور بربادی بھی ہوگئی۔ ایوب خان کے زمانے میں صدر مقام کراچی سے شمال کو منتقل ہوا تو کسی دل جلے نے کہا ۔ سمندر بھی اٹھا کے لے جائو !آج کے اقتدار کے بس میں ہوتا تواسلام آباد سے مارگلہ اور بادل تک چھین لیتے۔ نااہلی، انتہا کی نااہلی، کوتاہ اندیشی ، وژن کی کمی اور ابتذال کے لیے معذرت، دھنیا پی کر سوجانے کی لت ! عمران خان الیکشن کمیشن کو رو رہے ہیں۔ صاحب! الیکشن کمیشن کا ارتقا، ارتفاع اور نظافت تو دور کی بات ہے بہت دور کی بات ! جن ارباب اختیار سے اپنے وزیراعظم کے پسندیدہ شہر کی طرف جانے والا راستہ آوارہ مویشیوں سے صاف نہ ہوسکے ، وہ ارفع اداروں کو کیا خاک اجالیں گے ! وزیراعظم کے پسندیدہ شہر کا ذکر ایک اور شہر آشوب کا متقاضی ہے۔ وزیراعظم آئے دن مری کا رخ کرتے ہیں لیکن یہ نہ ہوسکا کہ اس سابق پہاڑی صحت افزا مقام کو منصوبہ بندی کے ذریعے زوال سے بچانے کا حیلہ کریں ! سابق صحت افزا مقام !! جی ہاں ! اس لیے کہ اب یہاں سیمنٹ،سریے اور اینٹوں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ انسانوں کو کھانے والے دیو آکر نعرہ لگاتے تھے آدم بو، آدم بو، زمین ہڑپ کرنے والے دیو کوہستان مری کا رخ کرتے ہیں تو ان کی بھوک… جوع الارض… اور تیز ہوجاتی ہے۔ جس معاشرے میں عزت، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کے بجائے ٹھیکیداروں کو منتقل ہوجائے، اس میں ٹھیکیداروں کو کون روک سکتا ہے۔ جمال احسانی مرحوم نے کیا خوب استعجاب کیا تھا ؎
جہاں بدلنے کا وہ بھی گمان ر کھتے ہیں
جو گھر کے نقشے میں پہلے دکان رکھتے ہیں
ایک پوری کتاب چاہیے مری اور ایبٹ آباد کی تباہی کی داستان لکھنے کے لیے۔ اس تباہی کا خفیف سا اندازہ اس سے کیجیے کہ پوری دنیا کے مہذب ملکوں میں جنگلات کا تناسب ایک خاص حد سے کم نہیں ہونے دیا جاتا، یہاں اس تناسب کے گردے اور انتڑیاں نکال کر پراپرٹی ڈیلروں کی دکانوں پر لٹکا دیئے گئے ہیں۔ جن شہروں کا رخ کرتے وقت جون جولائی میں سویٹر اور جیکٹس سامان میں رکھی جاتی تھیں، وہاں اب پہنچتے ہی پنکھے اور ائرکنڈیشنر چلائے جاتے ہیں۔
وزیراعظم اپنے پسندیدہ شہر کا سفر جس شاہراہ پر کرتے ہیں، وہاں پہلے تو گائے،بیل ،بھینسیں اور بکریاں شاہراہ کے درمیان آرام کرتی تھیں، اب کچھ گھوڑے بھی آگئے ہیں۔ ایک خاص شہر سے درآمد کی ہوئی بیورو کریسی شاید اس خوش فہمی میں ہے کہ وزیراعظم کی سواری کنونشن سنٹر اور لیک ویو سے گزرے گی تو مویشی اور گھوڑے فرطِ ادب سے شاہراہ چھوڑ کر کنارے پر آجائیں گے۔ ویسے تعجب ہے کہ وزیراعظم اکثر و بیشتر مری جاتے ہوئے بارہ کہو کے غلیظ ، بے ہنگم اور پریشان کن بازار سے گزرتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ سب نہیں تو کم از کم وہ شاہراہیں ہی تنظیم سے آشنا کردی جائیں جہاں سے وہ گزرتے ہیں ، لیکن دل میں آرزو مغل بادشاہ بننے کی ہو تو اپنے ارد گرد مغلوں کے زمانے کی آبادیاں ہی اچھی لگتی ہیں۔ وہی بدنظمی، وہی ہڑبونگ، گدھوں ، گھوڑوں اور بیلوں کی وہی آمدورفت ! شاہ جہان اور اورنگزیب تو کبھی کبھی شکار کو نکلتے تھے، ایک لاکھ افراد ہمراہ ہوتے تھے۔ جہاں پڑائو ہوتا تھا، دھوئیں اور گرد سے وہ عالم ہوتا تھا جسے نظامی گنجوی نے کمال بلاغت سے بیان کیا تھا ؎
ز سم ستوران درآن پہن دشت
زمین شش شد و آسمان گشت ہشت
یعنی اتنے بڑے علاقے میں بھی گھوڑوں کے سموں سے دھول اڑی تو زمین گرد میں تبدیل ہوکر آسمان سے جاملی۔ یوں آسمان سات سے آٹھ ہوگئے اور زمینیں سات سے چھ رہ گئیں۔ لیکن شاہ جہان اور اورنگزیب کے شاہانہ زمانوں میں یہ صورت حال کبھی کبھار وجود میں آتی تھی، اب جمہوری زمانے میں یہ صورت حال مستقل ہے۔ حکمران جس ریڈ زون میں محصور ہیں، اس کے چارو ںطرف ترنول، روات اور بارہ کہوہے، جہاں رات دن آسمان آٹھ ہورہے ہیں اور زمینیں چھ ہوتی جارہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے ٹی وی پر شیخ رشید ،اپنے شہر کی جو حالت زار ، اغوا برائے تاوان کے حوالے سے بتارہے تھے ، اسے سن کر افغانستان ، صومالیہ اور عراق محفوظ تر نظر آرہے تھے لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے ، ریت پر ’’پانی‘‘ کی دھار گرانا بے سود ہے۔ شکیب جلالی نے اشکوں کی کاٹ سے اپنے چہرے کے زخمی ہونے کی بات کی تھی تو مثال پتھر کی دی تھی ؎
کیا کہوں دیدۂ تر! یہ تو مرا چہرہ ہے!
سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے
لیکن اب ایک خاص پٹی سے اٹھے ہوئے حکمران اور ایک خاص شہر سے آئی ہوئی نوکر شاہی ایسی مٹی سے بنی ہوئی ہے کہ اشک اثر کرتے ہیں نہ پانی کی دھار! انتہا کی یہ بے حسی تلوار کی دھار تک پہنچا دیتی ہے اور خدانخواستہ تلوار کی دھار آگئی تو پھر آہ و زاری اور نالہ و فغاں سب بیکار ہوگا۔ تب نہ ہی ان مولانائوں سے ختم پڑھوانے کا کوئی فائدہ ہوگا جنہیں وزارتوں کے برابر مناصب دے کر وزراء کی خیمہ گاہوں میں طنابیں الاٹ کی گئی ہیں!
بات اس خوبصورت موسم سے آغاز ہوئی تھی جو ان دنوں دارالحکومت کے امیروں اور غریبوں کو بلاتخصیص مسرت بہم پہنچا رہا ہے۔ یہ موسم ان خوبصورت نظموں کا تقاضا کرتا ہے جو حالی اور محمد حسین آزاد نے ( افسوس! جنہیںہم فراموش کیے جارہے ہیں) انجمن پنجاب کے مشاعروں میں پڑھنا شروع کی تھیں اور اردو شاعری کو نیا رخ عطا کیا تھا۔ ایک پوری نسل نے مناظر فطرت نظمائے اور سماں باندھ دیے۔ آندھی کا ذکر آیا تو کہا ؎
وہ گرد کا پہاڑ اٹھا پھر شمال سے
بالیدگی میں دو قدم آگے خیال سے
بارش ہوئی تو پکار اٹھے ؎
سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لائی ہے صبا گنگا جل
جوگی والی نظم میں خوشی محمد ناظر نے جو تصویر کشی اس شعر سے شروع کی ؎
کل صبح کے مطلع تاباں سے جب عالم بقعۂ نور ہوا
سب چاند ستارے ماند ہوئے، خورشید کا نور ظہور ہوا
اسے نظم کے آخر تک اس عروج پر لے گئے کہ تاریخ ادب میں اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جلی حروف میں لکھوا دیا۔
مستانہ ہوائے گلشن تھی، جانانہ ادائے گلبن تھی
ہر وادی وادی ایمن تھی، ہر کوہ پہ جلوہ طور ہوا
جب باد صبا مضراب بنی، ہر شاخ نہال رباب بنی
شمشاد و چنار ستار ہوئے، ہر سرو وسمن طنبور ہوا
یہ بھی نہیں کہ نظموں میں یہ منظر نگاری پہلی بار پیش کی گئی۔ نظیر اکبر آبادی اپنی ذات میں پورے ادارے کا کام کرگئے تھے۔ میر انیس نے مراثی میں جو منظر نگاری کر چھوڑی تھی، اس کا بھی جواب نہیں تھا، لیکن آزاد، حالی اور ان کے رفقائے کرام نے ایک منظم تحریک کی صورت میں جدید نظم کو پیش منظر پر لاکھڑا کیا۔
ہے کوئی دارالحکومت کے دلربا موسم اورکیف انگیز ہوائوں پر نظم لکھنے والا۔ اس سے پہلے کہ سیمنٹ اور سریے کا عفریت، پہاڑیوں پر نظر آنے والی نرم روئیدگی کو ہڑپ کرجائے!!
لطیفہ پامال ہو چکا ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ صورت احوال پر اطلاق اسی کا ہو رہا ہے۔میرا سی کا لڑکا شہر سے پڑھ لکھ کر آیا تو اعلان کر دیا کہ شادی چودھری کی بیٹی ہی سے کرے گا ورنہ نہیں کرے گا۔مرتا کیا نہ کرتا‘میراسی چودھری کی خدمت میں حاضر ہوا اور بیٹے کو فرزندی کے لیے پیش کر دیا۔چودھری غصے سے لال بھبوکا ہو گیا۔خاص کارندوں کو بلایا اور حکم دیا کہ میراسی کا دماغ ٹھکانے لگایا جائے۔مکے‘ٹھڈے اور چانٹے پڑ رہے تھے تو میراسی کی پگڑی گر کر کھل گئی ۔مار پیٹ ختم ہوئی تو میراسی اٹھا اور پگڑی لپیٹتے ہوئے بولا ’’تو پھر چودھری صاحب!آپ کی طرف سے میں انکار ہی سمجھوں؟‘‘
پیپلز پارٹی پہلی بار اقتدار میں آئی تو چند دن کے بعد ہی اس کا بائیں بازو سے تعلق ٹوٹ گیا؛ تاہم ہماری ایک سینئر بی بی کو‘ کہ لکھاری ہیں‘ اس کے بارے میں اب معلوم ہوا ہے۔پیپلز پارٹی‘ کے فیصلہ سازوں نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ اب پارٹی بائیں بازو کی سیاست نہیں کرے گی‘ تو بی بی نے پگڑی باندھتے ہوئے پوچھا ہے کہ کیا اسے انکار ہی سمجھا جائے؟
معصوم عوام کو جن بہت سی فریب کاریوں میں الجھایا گیا ہے‘ ان میں دائیں اور بائیں بازو کی تفریق بھی سرفہرست ہے۔سچ یہ ہے کہ کائیاں حضرات کو شروع ہی سے معلوم ہے کہ دایاں اور بایاں بازو سب کہنے کی باتیں ہیں۔کمٹ منٹ کسی کی کسی بازو کے ساتھ بھی نہیں!اصل وابستگی اقتدار اور اختیار کے ساتھ ہے ؎
کوئی ہرجائی نہیں‘کوئی وفادار نہیں
سب گرفتار ہیں ہر لحظہ دھڑکتے دل کے
پیپلز پارٹی نے بائیں بازو کو سرکاری طور پر طلاق دی ہے تو جو سیاپا کرنے بیٹھ گئے ہیں‘ یا تو وہ بچے ہیں یا دوسروں کو بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔پیپلز پارٹی بائیں بازو سے اس وقت ہی نکل گئی تھی جب وڈیرے ذوالفقار علی بھٹو نے جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ساتھ ملا کر ایسی حکومت بنائی جو دائیں بازو سے زیادہ دائیں بازو کی تھی۔کراچی میں مشاعرہ ہو رہا تھا تو جمال احسانی مرحوم نے کمپیئر کو ایک شاعر کے بارے میں تجویز پیش کی کہ اسے سب سے پہلے پڑھوایا جائے۔کمپیئر نے کہا کہ سب سے پہلے ہی پڑھ رہا ہے۔جمال احسانی کہنے لگے‘اسے مزید پہلے پڑھوائیں۔
تو پیپلز پارٹی کی حکومتیں دائیں بازو سے کہیں زیادہ دائیں بازو کی رہی ہیں۔یہ جو بھٹو صاحب نے ایئر مارشل اصغر خان کا دل لبھانے کی کوشش کی تھی کہ آئو تم اور میں اس……قوم پر بیس سال تک حکومت کریں تو کیا یہ بائیں بازو کی سیاست تھی؟دلائی کیمپ بنا‘سیاست دانوں کو چن چن کر قتل کیا گیا‘ ولی خان لیاقت باغ سے لاشیں لے کر واپس پشاور گئے۔بلوچستان کے سرداری نظام اور سندھ اور جنوبی پنجاب کے ظالمانہ جاگیرداری سسٹم کو ہاتھ تک نہ لگایا گیا۔پیپلز پارٹی کی ہر حکومت میں مولانا فضل الرحمن جیسے سیاست دانوں نے عروج حاصل کیا۔کیا یہ بایاں بازو تھا؟جیل کے ساتھیوں کے سامنے ملک یوں پھینکا گیا جیسے درندوں کے سامنے مردار بھیڑ بکریاں ڈالی جاتی ہیں۔ کیا راجہ پرویز اشرف اور ضیاء الحق کی شوریٰ میں بیٹھنے والے یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمیٰ بائیں بازو کی سیاست تھی؟اور انگلستان اور فرانس کے محلات اور سوئٹزر لینڈ میں رکھی ہوئی دولت اور بے نظیر بھٹو کا دبئی میں پرستانوں جیسا محل ۔کیا یہ سب بائیں بازو کے کرشمے تھے؟اور کیا انجم نیاز نے جھوٹ لکھا تھا کہ بے نظیر بھٹو نے نیو یارک مین ہٹن (524 EAST 72)میں ناقابل یقین قیمت پر سیما بوسکی سے پینٹ ہائوس خریدا تھا اور بدشگونی کو درست کرنے کے لیے اس میں داخل ہونے کے دروازوں کے رخ بدلوائے تھے اور پھر اس پینٹ ہائوس کے پہلے خریداروں کی طرح جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئیں‘ کیا یہ سب بائیں بازو کی سیاست تھی؟اور ’’کوثر نیازی اور مولویوں کی باتوں میں آ کر ‘‘ جمعہ کی چھٹی اور شراب پر پابندی بائیں بازو کا کرشمہ تھا یا بزدلی اور منافقت تھی؟
کوئی دایاں بازو ہے نہ یہاں بایاں بازو‘سب فریب ہے اور دجل ہے۔نوسر بازی ہے۔بائیں بازو والے بھی اتنے ہی اقتدار پرست اور خود غرض ہیں جتنے دائیں بازو کے علم بردار جو مذہب کو سیاست تجارت اور معاش کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔احمد ندیم قاسمی کے بقول ؎
ہنسی آتی ہے مجھ کو امتیاز دشت و گلشن پر
گھٹا کعبے سے اٹھتی ہے برستی ہے برہمن پر
جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں سب سے زیادہ فائدے اٹھانے والے بائیں بازو کے وہی ابن الوقت تھے جو ضیاء الحق سے پہلے بھی پیپلز پارٹی میں رہے اور اس کے بعد بھی پیپلز پارٹی میں واپس آئے۔
یہ ملک چراگاہ ہے ۔عوام بھیڑ بکریاں ہیں اور ملکیت دائیں اور بائیں دونوں بازوئوں کے آہنی پنجوں میں ہے۔جن طالبان کو نام نہاد بائیں بازو کی پیپلز پارٹی کے جنرل نصیر اللہ بابر نے اپنے بچے کہا تھا اب انہی طالبان کے سرپرست‘دائیں بازو کا لبادہ اوڑھ کر عوام اور افواج پاکستان کے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔کوئی کہتا ہے پیس زون بنا کر تحفے میں پیش کرو اور کوئی نصیحت کرتا ہے کہ سو بار بھی مذاکرات ناکام ہو جائیں تو پھر بھی مذاکرات کرو۔ دوسرے لفظوں میں پچاس ہزار افراد مزید مار دیے جائیں تب بھی مذاکرات کرو!
کون سا دایاں بازو اور کون سا بایاں بازو؟مائی فٹ!بھارت کے ساتھ تجارت کا نام لیا جائے تو اہل مذہب آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں لیکن پکے پکے ملاّ صحافی امن کی آشا کے پھریرے لہرائیں تو بات بات پر بائیں بازو کا طعنہ دینے والے رائٹسٹ منقار زیرِ پَر ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اصل میں سارے ایک ہیں۔بورژوا طرزِ زندگی گزارنے والے۔ ’’انقلابی‘‘ شاعروں کا کلام اقبال بانو ہزار سال بھی گاتی رہے تو انقلاب نہیں آتے۔ انقلاب اس وقت آتے ہیں جب دائیں بازو کا لبادہ اوڑھ کر مذہب کو مفادات کے لیے استعمال کرنے والے دغاباز ٹھکانے لگ جائیں اور بائیں بازو کا نعرہ لگانے والے شعبدہ باز عیار بھی اپنے انجام کو پہنچ جائیں۔
پیپلز پارٹی کے بانی کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ’’وراثت‘‘ بیگم صاحبہ کے حصے میں آئی۔پھر بیٹی وارث بنی۔وہ رخصت ہوئیں تو شوہر نے پارٹی
کی زمام سنبھالی اور عملی طور پر اختیارات بہنوں کے سپرد کر دیے۔اب صاحبزادے جوان ہو گئے ہیں تو و ہ مالک و مختار بن رہے ہیں۔کوئی بتائے کہ اس میں بایاں بازو کہاں سے آ گیا ہے ؟ ؎
گر نہ بیند بروز شپرہ چشم
چشمہ آفتاب راچہ گناہ
دھوپ نکلی ہوئی ہے‘چمگادڑوں کو دکھائی نہیں دیتا سورج کا کیا قصور ہے؟
لیکن ٹھہریے!کہیں بائیں بازو سے مراد وہ بازو تو نہیں جو دائیں کندھے کے ساتھ جڑا ہوا ہے؟ ؎
لغت میں ہجر کا معنی بدل ڈالا کسی نے
کہ اب کے وصل میں اظہار تنہائی بہت ہے
پنجاب کے موجودہ گورنر جناب محمد سرور 1952ء میں فیصل آباد کے ایک چھوٹے سے گائوں میں پیدا ہوئے۔ یہ گائوں پاکستان کی لاکھوں بستیوں کی طرح نکاس اور پینے کے صاف پانی سے محروم تھا۔1976ء میں محمد سرور برطانیہ ہجرت کرگئے اور سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میں مقیم ہوگئے۔ ہزاروں لاکھوں پاکستانیوں کی طرح وہ بھی خالی ہاتھ گئے تھے۔ انہوں نے کاروبار شروع کیا۔ خدا نے برکت ڈالی۔ ان کا ’’کیش اینڈ کیری‘‘ کا بزنس چمک اٹھا۔ پھروہ سیاست میں آئے۔ لیبر پارٹی میں شامل ہوگئے۔ کونسلر منتخب ہوئے اور پھر ایک دن برطانیہ کی پارلیمنٹ میں پہنچ گئے۔ یہ پہلے مسلمان رکن تھے اور پہلے رکن تھے جنہوں نے قرآن پاک پر حلف اٹھایا۔ یہ گلاسگو کے دو مختلف حلقوں سے چودہ سال تک پارلیمنٹ کے ممبر رہے۔ 1997ء سے 2005ء تک اور پھر 2005ء سے 2010ء تک۔ اسی اثناء میں ان کی سیاسی جماعت (لیبر پارٹی) پر دو سیاست دانوں کی قیادت کارفرما رہی۔ 1994ء سے 2007ء تک ٹونی بلیئر لیبر پارٹی کے سربراہ رہے ۔پھر گورڈن برائون نے لیبر پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2010ء تک پارٹی کے لیڈر رہے۔
کچھ عرصہ پہلے جب محمد سرور، برطانوی شہریت تیاگ کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بنے تو انہوں نے اعلان کیا تھا ۔’’میں نے جو کچھ بھی برطانیہ میں سیکھا ہے ، علم اور اداروں کو چلانے کا طریقہ… وہ سب کچھ پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں‘‘۔جناب محمد سرور نے برطانیہ میں اپنی سیاسی زندگی کے دوران یقینا نوٹ کیا ہوگا کہ ان کی پارٹی پر کسی مخصوص خاندان یا گروہ یا برادری کی اجارہ داری نہیں تھی۔ پاکستان میں مسلم لیگ کی قیادت جناب میاں محمد نوازشریف کے پاس جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد آئی۔ 1989ء میں وہ پارٹی کے بلاشرکت غیر ے رہنما بن چکے تھے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک پارٹی کی سربراہی انہی کے پاس ہے۔ دوسری طرف ان پچیس سالوں کے دوران برطانوی لیبر پارٹی کی لیڈر شپ سات بار تبدیل ہوچکی ہے۔1989-90ء میں جب مسلم لیگ کی قیادت میاں صاحب نے سنبھالی تو لیبر پارٹی کی قیادت نیل کناک کے پاس تھی۔1992ء میں جان سمتھ پارٹی کے لیڈر بن گئے ۔ کچھ عرصہ قیادت مارگریٹ بیکیٹ کے ہاتھ میں رہی۔ 1994ء میں ٹونی بلیئر آئے۔ گیارہ سال بعد زمام اختیار انہوں نے گورڈن برائون کے ہاتھ میں تھمائی اور رخصت ہوگئے۔ تین سال بعد پھر تبدیلی آگئی۔ آج کل ملی بینڈ صاحب پارٹی کے رہنما ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے ،جناب محمد سرور اداروں کو چلانے کا یہ طریقہ پاکستان میں رائج کرنے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ میاں صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ جناب میاں صاحب ! پچیس سال سے پارٹی کی سربراہی آپ کے پاس ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ آزادانہ انتخابات کرائیں اور لیڈر شپ کسی اور کے پاس جانے دیں۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
جناب محمد سرور کی یہاں صرف مثال دی گئی ہے ،روئے سخن ان کی طرف نہیں۔اس تحریر کا موضوع یہ ہے کہ ہمارے تارکین وطن سیاسی میدان میں بھی دوغلے رویے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس سلسلے کا یہ تیسرا اور آخری کالم ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تارکین وطن ہماری بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ قاف لیگ کی بہت بڑی ہم نوائی جرمنی اور ہسپانیہ میں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ہمدرد نیو جرسی سے لندن اور ناروے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایم کیوایم کے سیاسی جسم کے تقریباً تمام اعضائے رئیسہ دساور میں مقیم ہیں۔ یہ لاکھوں تارکین وطن جہاں جہاں مقیم ہیں ، وہاں کے شہری ہیں۔ وہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے نئے ملکوں میں سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔تارکین وطن کے پاس بیٹھیں تو گفتگو کے کسی نہ کسی موڑ پر وہ اپنے نئے وطن کی جمہوری قدروں کا ذکر خیر ضرور کریں گے۔ وہ تفصیل سے بتائیں گے کہ گورڈن برائون نے زمام اختیار کیسے اپنے جانشین کو سونپی اور جولیا گلرڈ کیسے منظر سے پس منظر کو سدھارگئی، لیکن جس طرح ہمارے پیارے تارکین وطن پی آئی اے کے جہاز میں قدم دھرتے ہی اصلی پاکستانی کا روپ دھار لیتے ہیں اور ہر بے قاعدگی کو روا گردانتے ہیں ، اسی طرح جب وہ اپنے اصلی وطن کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ساری جمہوری قدریں ،جو انہوں نے ہجرت کے بعد نئے ملک میں سیکھی ہوتی ہیں ،بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ اب وہ بھٹو خاندان کے وفادار بن جاتے ہیں یا شریف فیملی کے ثنا خواں یا گجرات کے چودھری خاندان کے حلقہ بگوش یا ایم کیوایم کے بجائے صرف الطاف حسین کے طرفدار! حافظ شیرازی نے جو تبرا اہل مذہب پر بھیجا تھا، وہ تارکین وطن پر بھی اس حوالے سے صادق آتا ہے:
واعظان کین جلوہ در محراب و منبر می کنند
چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند
مشکلی دارم ز دانش مندِ مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
(محراب و منبر پر کچھ اور ، خلوت میں کچھ اور، اس مشکل کا حل کسی عقل مند سے دریافت کیا جائے کہ توبہ کا حکم دینے والے خود توبہ کم ہی کرتے ہیں۔ آخر کیوں ؟)
یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر ان بودے دلائل کا ذکر بھی کر ہی دیاجائے جو خاندانی تسلط کے درباری ہم نوا اکثر و بیشتر پیش کرتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم اتنی زیادہ جمہوریت کے لیے تیار نہیں کہ پارٹیوں کے اندر بھی الیکشن ہوں۔ کبھی یہ نکتہ پیش کیا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے سارے ملکوں میں خاندانی سیاست ہی کارفرما ہے۔ دونوں دلیلیں بے سروپا ہیں۔ اصل جمہوریت کے لیے یہ ملک اب بھی تیار نہیں تو کب ہوگا؟ کبھی تو آغاز کرنا پڑے گا! کبھی تو عوام کی تربیت کرنا پڑے گی۔ رہی جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی مثال تو کیا پاکستان اب بنگلہ دیش کی پیروی کرے گا؟یہ بھی یاد رہے کہ راہول گاندھی نے سیاست نیچے سے یعنی گراس روٹس سے شروع کی ہے۔ وہ بلاول ، حمزہ شہباز یا مونس الٰہی کی طرح اچانک سینئر رہنمائوں کے سر پر نازل نہیں کیاگیا۔
سیاسی جماعتوں کا تارکین وطن پر بھاری انحصار ہے۔وسیع پیمانے پر بیرون ملک سے امداد لی جاتی ہے۔ یہ امداد دامے ، درمے بھی ہے اور سخنے بھی۔ رہنما جب باہر جاتے ہیں تو عظیم الشان تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ تعجب ہے کہ ان تقاریب میں تارکین وطن ، پاکستانی سیاسی لیڈروں کی شان میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملاتے ہیں جن کا ان کے نئے ملکوں میں تصور تک نہیں۔ آخر یہ دوغلا پن کیوں؟ اور یہ اندر اور باہر کا اور ظاہر اور باطن کا اور نئے اور پرانے ملکوں کا فرق کب تک ؟ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی جس جمہوریت کی وہ تعریفیں کرتے ہیں ، جمہوریت کے اسی برانڈ کا اپنے آبائی وطن میں کیوں نہیں پرچار کرتے ؟ تارکین وطن اپنے لیے ووٹ کا حق بھی مانگتے ہیں، اسمبلی کی ممبری، وزارتیں ، سفارتیں اور گورنریاں بھی چاہتے ہیں۔ یہ ملک ان کا ہر مطالبہ ماننے کے لیے تیار ہے لیکن وہ سیاسی رہنمائوں کے سامنے دست بستہ قیام اور رکوع چھوڑ دیں۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسی جمہوریت کا تقاضا کریں جو ان کے نئے ملکوں میں رائج ہے۔ اگر برطانیہ کی لیبر پارٹی پر ایک خاندان کی قیادت مسلط ہوتی تو کیا جناب محمد سرور اس پارٹی میں نیچے سے اوپر آسکتے تھے ؟ کیا وہ کونسلر سے سفر شروع کرکے پارلیمنٹ تک پہنچ سکتے تھے؟ نہیں ، کبھی نہیں!وہ ممبر بن سکتے تھے نہ انس سرور اور نہ ہی سعیدہ وارثی! جو سیاہی بیرون ملک زلف کی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوسکتی ہے ،وہی سیاہی وطن کے اندر آکر اندھیرے کا سبب کیوں بن جاتی ہے؟ کیا اس ملک کے مجبور ، مظلوم ، مقہور اور معتوب باشندوں نے ہمیشہ غلام ہی رہنا ہے؟ کیا بھٹو خاندان ، زرداری خاندان ، شریف خاندان ، چودھری خاندان ، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان ہی پارٹیوں کی سربراہی کے لیے افرادی قوت مہیا کرتے رہیں گے؟ کیا خواجہ آصف ، چودھری نثار علی خان ، اعتزاز احسن ، رضا ربانی اور حافظ حسین احمد قیادت کے لیے نااہل ہیں۔ کیا یہ تقسیم آسمانوں سے اتری ہے اور کیا اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ؟ ایک زمانہ تھا کہ پڑھے لکھے لوگ اپنی غربت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے تھے ؎
رضینا قسمت الجبار فینا
لنا علم وللجُہال مال
(ہم خدائی تقسیم پر راضی ہوگئے۔ ہمارے لیے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال و دولت !)
کیا پڑھے لکھے سیاسی رہنما ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اپنے دلوں کو سمجھا چکے ہیں کہ وہ پیروکار ہی رہیں گے اور شاہی خاندانوں کے ان نوجوانوں کی ماتحتی میں کام کریں گے جنہوں نے ان کی گودوں میں پرورش پائی ہے ؟
اس انقلاب کیلئے تارکین وطن اپنا کردار ادا کریں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ہم صحرا میں یہ اذان اس امید پر دے رہے ہیں کہ شاید کوئی بندۂ خدا آجائے !
پچاس پچپن کے پیٹے میں یہ شخص حواس باختہ تھا۔ جس ادارے میں اس کا بیٹا افسر تھا‘وہ ادارہ اپنے ملازموں کو غائب ہونے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔یہ جرم تھا اس کی سزا ملتی تھی۔امریکہ سے واپس آیا تو انہوں نے پکڑ لیا۔اب باپ پریشان تھا۔مقدمہ چلے گا اور سزا کچھ بھی ہو سکتی ہے۔پراگندہ خاطر باپ سے پوچھا:
’’کیا آپ کو معلوم نہ تھا کہ لڑکی امریکہ میں مقیم ہے اور آپ کے بیٹے کا کیریئر حساس ہے اور قیمتی بھی۔‘‘
مجبور شخص کی آنکھوں میں ستارے جھلکنے لگے۔
’’مجھ بدبخت کو تو معلوم ہی نہ تھا کہ و ہ شادی کر رہا ہے۔ امریکی لڑکی دیکھ کر وہ سب کچھ بھول گیا۔لڑکی والوں کو تو پاکستانی لڑکا مطلوب تھا۔شادی کے بعد یہ وہاں دو سال رہا۔ یہاں غیر حاضری لگتی رہی!‘‘
دوسرا واقعہ اس سے بھی زیادہ دلدوز ہے۔حمید (اصل نام نہیں)ہجرت کر کے شکاگو گیا تو بیٹی تین چار سال کی تھی۔وہیں پلی بڑھی‘ وہیں یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی۔ماں باپ بہلا پھسلا کر پاکستان لائے اور خالہ زاد سے شادی کر دی۔کچھ دن تو اس نے گزار لیے پھر واپس جانے کے خواب دیکھنے لگی۔احمق باپ نے داماد کو ’’نصیحت‘‘ کی کہ اس کا پاسپورٹ لے کر چھپا دو۔لڑکی کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو اس نے آخری وارننگ دی کہ پاسپورٹ دو ورنہ نتائج کی ذمہ داری مجھ پر نہ ہو گی۔جیسے ہی موقع ملا‘وہ بیک ہوم‘یعنی امریکہ واپس چلی گئی۔اب ایک بچہ بھی تھا۔ماں بچے کے ساتھ شکاگو میں‘ میاں کراچی میں۔میاں صرف میاں نہ تھا‘بیوہ ماں اور مطلقہ بہن کا واحد کفیل بھی تھا۔لیکن اولاد کی کشش ظالم ہوتی ہے ۔سب کچھ چھوڑ کر بچے کی خاطر امریکہ چلا آیا۔یہاں دنیا ہی اور تھی۔اسے یہاں کا کچھ بھی اتا پتا نہ تھا۔ بیوی گائیڈ کرنے کے ساتھ باسنگ بھی کرنے لگی۔آخری نتیجہ وہی ہوا جو خود غرضی کا ہوتا ہے۔طلاق!
سو فیصد سچے یہ دونوں واقعات تارکین وطن کے ایک افسوسناک رجحان کی نشاندہی کرتے ہیں۔اولین پہلو خود غرضی کا ہے۔جس معاشرے میں رہنے کے لیے خود وطن کی مٹی‘ ماں باپ‘ اقارب احباب سب کچھ قربان کر دیتے ہیں‘بیٹی کو وہاں نہیں رہنے دیتے۔کسی اور کی بیٹی کو اپنی بیوی بنایا تھا تو اسے تو وہیں رکھا تھا!اپنی بیٹی کو کیوں وہاں سے نکالتے ہیں؟پہلے اسے وہاں بڑا ہونے دیا۔ جب وہ اس ماحول ‘وہاں کے طرز معاشرت اور سہولیات کی عادی ہو گئی تو زبردستی وطن رہنے پر مجبور کرنے لگے۔اگر وہ معاشرہ اتنا ہی خراب تھا تو گئے ہی کیوں؟یا پرورش و تربیت اس انداز سے کرتے کہ وہاں کے منفی پہلوئوں سے بیٹی بچی رہتی۔ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بیٹیوں کی تربیت اس انداز میں کی گئی کہ وہ ’’بوائے فرینڈ‘‘ والے کلچر سے محفوظ رہیں‘لیکن ظاہر ہے ایسی مثالیں کم ہیں۔دوسرا پہلو سنگدلی کا ہے۔داماد
درآمد کرتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ جس نوجوان کی آنکھوں پر امریکہ کی پٹی باندھنے لگے ہیں‘اس کے ماں باپ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ یا یہ کہ وہ بیوہ ماں کا واحد سہارا ہے۔ امریکہ یا یورپ میں پلی بڑھی پڑھی لڑکی کو ایک ایسے نوجوان کے پلے باندھنا جو وطن سے درآمد ہوا‘اور کسی لحاظ سے لڑکی کا ہم پلہ نہیں‘نرم ترین لفظوں میں بھی غیر دانش مندانہ اقدام ہے!درآمد شدہ داماد (یا شوہر)آتے ہی احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔اور پھر جب وقت آتا ہے تو بھیانک انتقام لیتا ہے۔
تیسرا پہلو منافقت کا ہے۔ولایت پہنچے تو خود خوب عیاشی کی۔جو مرضی ہے کھایا‘جو دل چاہا پیا‘جہاں ہوس لے گئی‘رات گزاری‘بیوی بھی اسی رنگ میں رنگی گئی‘دوست احباب بھی اسی قماش کے بنے۔لیکن بیٹی جوان ہوئی تو غیرت بھی جاگ اٹھی اور سوکھا ہوا ایمان بھی ہرا ہو گیا۔اب منصوبے بننے لگے کہ اسے اس معاشرے سے بچانا ہے۔پہلے اسے بہلایا پھسلایا ‘وہ پاکستان جانے اور رہنے پر تیار نہ ہوئی تو دھمکیاں دیں ۔یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی تو سیرو تفریح اور دادی سے ملنے کے بہانے واپس لائے اور زبردستی نکاح کرا دیا۔اخبار بین حضرات کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ کئی واقعات میں برطانیہ‘ فرانس اور دوسرے ملکوں کے سفارتخانوں کو اپنے ’’شہریوں‘‘ کی حفاظت اور واپسی کے لیے مداخلت کرنا پڑی۔ جب ایک امریکی یا یورپی شہری اپنے سفارتخانے کو آگاہ کرتا ہے کہ وہ حبس بے جا میں ہے تو سفارت خانے کا فرض ہے کہ اس کی مدد کرے اور اسے حبس بے جا سے چھڑوا کر واپس ’’وطن‘‘ پہنچائے۔ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ’’غیرت مند‘‘ ماں باپ نے ’’بے راہرو‘‘ بیٹی کو جان ہی سے مار دیا۔
یہ درد مندانہ سطورکسی خیالی یا افسانوی بنیاد پر نہیں لکھی جا رہیں۔ ایسے سینکڑوں حادثات اور ہزاروں واقعات پیش آئے ہیں اور آ رہے ہیں‘کچھ پریس میں رپورٹ ہوئے اور زیادہ نہیں ہوئے۔تارکین وطن پر لازم ہے کہ وہ اس رویے پر نظر ثانی کریں۔ یہ رویہ خود غرضی‘منافقت اور سنگدلی کا رویہ ہے۔ اگر اپنی معاشرت ‘اپنا انداز زیست‘اپنا دین‘ایمان عزیز ہے تو وطن ہی میں رہیں۔روکھی سوکھی کھائیں‘چٹنی اور پیاز والا نوالہ حلق سے نہیں اترتا تو ساتھ پانی کا گھونٹ بھریں۔پھر اگر ہجرت کی فکر نہیں تو بچوں کی خاطر ہی محتاط زندگی گزاریں۔لندن ہو یا شکاگو‘کراچی ہو یا جہلم یا مانسہرہ‘ بچوں پر سب سے زیادہ اثر اپنے گھر کے ماحول اور اپنے ماں باپ کی نیکی یا بدی کا پڑتا ہے۔جھوٹے‘وعدہ خلاف اور اکلِ حرام کھانے والے والدین کے بچے مسجد کی بغل میں رہ کر بھی ناسور ہی بنیں گے اور منافقت سے پاک والدین کی اولاد لاس اینجلس میں رہ کر بھی قابل رشک صورت اختیار کرے گی۔
اگر یہ دونوں کام نہیں ہوئے۔ہجرت بھی کر لی اور زندگی اپنی مرضی سے بھی گزاری تو اب گنڈیریوں کو گنا بنانے کی کوشش نہ کیجیے۔ایک صبح بیدار ہو کر اچانک نادرشاہی حکم نہ دیجیے کہ بیٹی آج سے حجاب کرے اور جین نہ پہنے۔یہ جبر واکراہ کا معاملہ نہیں ؎
پیر فقیر اوراد وظائف اس بارے میں عاجز ہیں
ہجر و وصال کے باب میں اب تک حکم چلا ہے ستاروں کا
یہ حکمت‘تدریج ‘نرمی‘دھیمے پن صبراور دعا کا مقام ہے‘ مار دھاڑ اور دجل و فریب کارگر نہیں ہوتا۔یوں بھی بیٹی پاکستان کے کسی دور افتادہ قصبے میں ہے یا پیرس میں ‘شادی کے لیے اس کی رضا مندی اور بغیر جبر رضا مندی کی شرط اس کے مذہب میں درج ہے۔اس کا حق ہے کہ وہ زبردستی کی شادی سے انکار کرے۔یہ حق اسے اسلام نے دیا ہے۔ اگر ہمارے اہل مذہب اس حق کا پرچار نہیں کرتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ حق سلب ہو چکا ہے!
ایسی ہی دوغلی پالیسی تارکین وطن کی اکثریت نے بچوں کے ساتھ زبان کے معاملے میں بھی روا رکھی ہوئی ہے۔بچے اردو سے‘ یا اپنی مادری زبان سے کیوں نابلد نکلتے ہیں؟ اس پر روشنی اگلی نشست میں ڈالی جائے گی۔
بینردیکھ کرآنکھیں چھلک اٹھیں
’’ہم اپنی مسلح افواج کے ساتھ ہیں‘‘سوچا، ان اہل تجارت کی کیا دلچسپی ہے مسلح افواج کے ساتھ ! یہ بازار میں بیٹھے لوگ جو ہر وقت کیلکولیٹر پر جمع اور تفریق کرتے رہتے ہیں اور زیادہ دلچسپی ضرب دینے میں رکھتے ہیں، انہیں کسی نے مجبور تو نہیں کیا کہ افواج پاکستان کے حق میں بینر لگائیں! لیکن جس بازار سے گزریں جڑواں شہروں میں بینر بہار دکھا رہے ہیں۔
اس خدا کی قسم ! جو عالم اسلام کی سب سے بڑی فوج کی حفاظت کرنے والا ہے، سینکڑوں بار یہ سطرسنی ہوگی ع
عدو شری بر انگیز کہ خیر ما درآن باشد
مخالف شر انگیزی کرتا ہے لیکن خدا اس میں ہمارے لیے خیر کا سامان رکھ دیتا ہے۔ سینکڑوں بار یہ مصرع سنا، بیسیوں بار لکھا لیکن مفہوم اب سمجھ میں آیا۔ میڈیا گروپ سے غلطی ہوئی یا اس نے غلط حساب (Miscalculate)کیا، جو کچھ ہوا، اللہ نے اس میں خیر کا سامان رکھا۔ اس سانحہ سے ایک بار پھر ثابت ہوگیا کہ قوم سارے گناہوں کے باوجود ایک گناہ نہیں کرسکتی۔ وہ اپنی مسلح افواج سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے اور یہ محبت ترک نہیں کرسکتی۔
یہ جو پوری قوم بیک آواز اپنی افواج قاہرہ کی ہم نوائی میں رطب اللسان ہے ، یہ جو ہرشخص ،ہر گروہ ، ہر کمیونٹی، عقیدے ، زبان اورزمین سے قطع نظر کسی ابہام ، کسی دورنگی کے بغیر اپنے عساکر کا ساتھ دے رہی ہے تو دشمن کو جان لینا چاہیے کہ پاکستان کی مسلح افواج کو خاکم بدہن ، نقصان پہنچانے سے پہلے اسے ایک ایک پاکستانی سے ٹکر لینا پڑے گی!
دشمن کون ہے؟ جو دشمن ملک سے باہر ہیں، انہیں سب جانتے ہیں۔ جو ہمارے جرنیل کو شہید کرنے کے بعد بڑہانکتا ہے کہ ہمارا اگلا ہدف آرمی چیف ہے اور پشاور کا کور کمانڈر ۔اس دشمن کو بھی سب جانتے ہیں جو علی الاعلان کہتے ہیں اور پچاس بار کہہ چکے ہیں کہ ہماری دشمنی پاکستانی فوج کے ساتھ ہے ، ان کی رو سیاہی بھی کسی سے پوشیدہ نہیں، یہ تو دشمن ہیں ہی ، لیکن اصل دشمن وہ ہیں جو ہماری صفوں کے درمیان ہیں۔ اصل دشمن وہ ہیں جو یہ کہنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ پاکستانی افواج کے شہید (نعوذباللہ) شہید نہیں، اصل دشمن وہ ہیں جو برملا کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے ، پیس زون دے دو ، علاقہ خالی کردو، فوج کو وہاں سے واپس بلالو۔ اصل دشمن وہ ہیں جو دہشت گردوں کو ہماری مقدس افواج کے ساتھ ، ایک سطح پر ، بٹھانا چاہتے ہیں اور پھر کہتے ہیں دونوں اپنی بندوقیں نیچے کرلو، اصل دشمن وہ ہیں جو مذاکرات کے مخالفین پر شراب نوشی، قادیانیوں کی ہم نوائی اور ڈالر لینے کی تہمت لگاتے پھرتے ہیں۔ مذاکرات کی حمایت کرنے والے محب وطن ہیں تو مخالفت کرنے والے شراب نوش کیسے ہوگئے ؟ یہ عقل کے اندھے خود اس ملک کے دشمن ہیں۔ جب دشمن علی الاعلان کہتا ہے کہ ہمارا اگلا ٹارگٹ آرمی چیف اور پشاور کا کور کمانڈر ہے تو میڈیا کی صف میں گھسے ہوئے یہ بھیڑیے ، جنہوں نے بکریوں کی کھالیں اوڑھی ہوئی ہیں، اس دشمن سے لاتعلقی کا اعلان کیوں
نہیں کرتے؟ یہ ان کی شان میں قصیدے کیوں لکھتے ہیں؟ ان کی زبانوں اور ان کے قلم سے ہماری افواج قاہرہ کے حق میں لفظ تو کیا حرف تک نہیں نکلتا۔ لاریب! یہ ہمارے دشمن ہیں۔ بلاشک و شبہ دہشت گردوں کی پشتیبانی کرنے والے ہمارے شہیدوں کے پاک لہو سے غداری کرنے والے ہیں۔
ہماری مسلح افواج کے دشمن ہمیشہ خائب و خاسر ہوئے۔ انہیں خدا کے ازلی ابدی اٹل نظام نے اس دنیا ہی میں رسوا کیا۔ اس شخص کا انجام دیکھیے جس نے بیس کروڑ افراد میں یہ جسارت کی کہ ہمارے شہیدوں کو شہید ماننے سے انکار کیا، اس شخص کو اس کے اپنے حواریوں نے مسترد کردیا ،وہ تاریخ کے کوڑے دان کا حصہ ہوچکا ہے۔ اب اس کے ہمدرد بھی ایسی ذومعنی تحریریں زیب اشاعت کررہے ہیں جو گونگلوئوں (شلغم) سے مٹی اتار رہی ہیں!
ہاں! ہماری مسلح افواج فرشتوں پر مشتمل نہیں۔ وہ گوشت پوست کے انسان ہیں، لیکن خدا کی قسم! وہ بیس کروڑ افراد میں بہترین انسان ہیں اس لیے کہ وہ ہمہ وقت شہادت کے لیے سربکف ہیں۔ ہمارے دشمن ، ہمارے اعلانیہ اور ہمارے نہفتہ دشمن جان لیں کہ ہمارے فوجیوں کی مائیں مصلّوں پر بیٹھی ہیں۔ ان کی بہنیں صبح و شام ان کے حق میں تسبیح خوانی کرتی ہیں۔ ان کی بیویاں انہیں خدا کے اور موت کے اور جنت کے سپرد کرچکی ہیں۔ ان کے بچے فخر سے کہتے ہیں کہ وہ مجاہدوں کے لخت جگر ہیں۔ کیا آج تک کسی دہشت گرد کی ماں نے کہا ہے کہ میرا ایک بیٹا اور ہوتا تو میں اسے بھی دہشت گرد بناتی ؟ پاکستان کی افواج کے شہیدوں کی مائیں دہشت گردوں کی خودکش جیکٹوں کے سامنے ، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتی ہیں کہ میرے اور بیٹے ہوتے تو وہ بھی پاکستان کی خاطر قربان کردیتی !
پہاڑوں میں چھپے ہوئے دہشت گردوں اور میڈیا میں بیٹھے ہوئے ان کے ایجنٹوں کو اندازہ ہی نہیں کہ ان کا سابقہ کس قوم سے پڑا ہے۔ یہ وہی مائیں ہیں جن کے بیٹے چونڈہ کے کارزار میں ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے تھے۔ انڈونیشیا سے لے کر مراکش کے مغربی ساحلوں تک ، یہ واحد فوج ہے جس سے اسلام کے دشمن لرزہ براندام ہیں۔ اسی لیے انہوں نے دہشت گردوں کو خرید کر اس فوج کے پیچھے لگادیا۔ دشمن کو معلوم ہے کہ یہی فوج ہے جس نے شیوا جی کے جانشینوں کو نکیل ڈالی ہوئی ہے، ورنہ رام رام کرنے والے یہ سبزی خور مشرق وسطیٰ کے میدان میں دندنا رہے ہوتے۔ یہ فوج مقدس ہے، اس کے سپاہی اور اس کے افسر اکل حلال سے اپنے بچوں کے منہ میں چوگ ڈالتے ہیں۔ معصوم تاجروں کو اغوا کرکے تاوان وصول کرنے والے دہشت گرد اور ان کے ہم نوا اکل حلال کا مقابلہ قیامت تک نہیں کرسکتے۔
گائوں کا وہ بزرگ یاد آرہا ہے جس کے ایک عزیز نے کوئی غلط کام کیا تھا۔ کسی نے کہا کہ ہم اس عزیز کو مزہ چکھا دیں گے۔ بزرگ اٹھا اوربولا۔ ہاں۔ ہمارے عزیز سے غلطی ہوئی ہے لیکن تم یہ نہ سمجھنا کہ وہ اکیلا ہے۔ اس سے پہلے کہ تمہارے ہاتھ اس کی طرف بڑھیں ، ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے۔ ہاں ! ہماری فوج کے افراد سے غلطیاں ہوئیں لیکن کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہماری فوج مصیبت کے وقت تنہا رہ جائے گی! جو ہاتھ ہماری فوج کی طرف بڑھیں گے ہم وہ ہاتھ کاٹ ڈالیں گے۔ جو میلی آنکھ ہمارے لشکروں کی طرف اٹھے گی ہم وہ آنکھ نکال دیں گے:
سرِ شام جب مری سرحدوں پہ سپاہ تھی
ترا اسم قلعہ تھا ذات شہر پناہ تھی
ترے آسمان مری فصیل کے برج تھے
تری خلق روئے زمیں پہ میری گواہ تھی
مرے لشکروں کو دعائیں میرے نبیؐ کی تھیں
مری بستیوں پہ ترے کرم کی نگاہ تھی
ٹوٹی ہوئی کشتی کا صرف ایک تختہ بچا ہے جس پر وہ بیٹھا ہے۔ بدن پر جانگیہ رہ گیا ہے۔ باقی سب کچھ سمندر کی نذر ہو گیا ہے۔ تختہ بہہ رہا ہے۔ اسے یقین نہیں کہ وہ خشکی تک پہنچ پائے گا۔ سمندر کا پانی ایک لمبی پٹی کی صورت زمین کے اندر تک چلا گیا ہے۔ پٹی کے دونوں طرف ویرانہ ہے۔ جنگلی جانور صاف نظر آ رہے ہیں ؎
آبنائے خوف کے چاروں طرف ہے دشتِ مرگ
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں
کون ہے یہ شخص؟ آپ اگر ابھی تک اسے نہیں پہچان پائے تو یا تو آپ تارکینِ وطن میں سے ہیں یا آبادی کی اس دو فی صد خوش قسمت اقلیت میں سے جو مراعات یافتہ تو ہے ہی‘ اس کے اردگرد حفاظتی حصار بھی قائم ہے۔ تارکینِ وطن کی اکثریت جسمانی طور پر دساور میں اور ذہنی طور پر پاکستان میں قیام پذیر ہے۔ جب پاکستان کے مسائل کا ذکر کیا جائے تو انہیں برا لگتا ہے اس لیے کہ جس جنت میں وہ رہتے ہیں‘ وہاں صرف خوشگوار ہوا‘ بہتے پانی اور رنگین پھولوں کی باتیں دل کو بھاتی ہیں۔ ایک صاحب نے کینیڈا سے لکھا ہے‘ لکھا کیا ہے‘ ڈانٹ پلائی ہے کہ تم کالم نگاروں نے ہماری زندگیوں کو جہنم بنا رکھا ہے۔ ہر وقت مسائل کا ذکر! کیا تم لوگ اچھی اچھی باتیں نہیں لکھ سکتے؟ عام طور پر اس قسم کی ای میلوں کا جواب نہ دینا ہی دانش مندی ہے لیکن وقت کا ضیاع کر کے انہیں لکھا کہ حضرت! آپ جن وجوہ کی بنا پر اس ملک سے رخصت ہو گئے ہیں‘ وہ وجوہ ہی تو ہم بیان کرتے ہیں۔ آپ واپس تشریف لے آیئے‘ یہاں چھ مہینے ایک سال گزاریے‘ پھر جو آپ حکم دیں گے‘ ہم بسرو چشم لکھیں گے!
تارکینِ وطن سے جو شکوے ہیں‘ ان پر ایک نہیں‘ کئی کالم بنتے ہیں‘ کبھی یہ حساب بھی برابر کرنا ہوگا!
کون ہے یہ شخص؟ جانگیہ پہنے‘ لکڑی کے ٹوٹے ہوئے تختے پر‘ جنگلی درندوں‘ نہنگوں‘ مچھروں اور شارک مچھلیوں کے درمیان؟ کون ہے یہ بدبخت جس کے چاروں طرف موت دیوانہ وار قہقہے لگا رہی ہے اور ناچ رہی ہے؟ یہ عام پاکستانی ہے اور خدا اور اس کے رسولؐ کی قسم لے لیجیے‘ اس عام پاکستانی کو بچانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے!
مئی کے اس فلک بوس ٹمپریچر میں سی این جی کے لیے یہ ایک طویل قطار میں کھڑا ہے۔ اس کی ٹیکسی‘ ویگن اور سوزوکی کار ایک ایک انچ آگے بڑھتی ہے۔ ایک‘ دو‘ تین نہیں چار یا پانچ گھنٹے اسی حالت میں کٹتے ہیں‘ بلا کی پیاس‘ بھوک‘ گھر کا کام ہو سکتا ہے نہ روزگار کا بندوبست… کہاں ہیں آئے دن لندن اور بیجنگ میں پاکستان کی ترقی پر تقریریں کرنے والے حکمران؟ قسم ہے خدا اور رسولؐ کی‘ اُن کے جوتے کی نوک کو بھی اس عام پاکستانی کی پروا نہیں۔ ایک صاحب پانچ سال کالے بکروں کو ذبح کراتے رہے اور لٹیروں کو وزارتیں دیتے رہے۔ اب ایک اور گروہ پانچ سال ترکی‘ چین اور برطانیہ کے سینکڑوں دورے کرے گا‘ ہر دورے میں ان کے
حسنِ انتظام کی تعریفیں ہوں گی‘ ہر تقریر میں ’’ہم اندھیرے ختم کریں گے اور ہمارے دور میں ایسا نہیں ہوگا‘‘ کی گیدڑ بھبکیاں دی جائیں گی! یہ سلسلہ پانچ سال چلے گا۔ پھر ایک اور مافیا آ جائے گا۔
یہ عام پاکستانی صرف بھتہ خوروں اور اغواکاروں کے مہیب جبڑوں میں نہیں جکڑا ہوا‘ یہ ان بھتہ خوروں کو بھی بھگت رہا ہے جنہوں نے کوٹ پتلونیں پہنی ہوئی ہیں اور نکٹائیاں لگائی ہوئی ہیں۔قسم قسم کی کمپنیاں اس عام پاکستانی کو دونوں ہاتھوں سے نوچ رہی ہیں اور ان دانتوں سے‘ جو بھیڑیے کے دانتوں جیسے ہیں‘ بھنبھوڑ رہی ہیں۔ دبئی‘ سعودی عرب کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔وہاں جو کچھ کہا جاتا ہے وہی فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں نجی کمپنیوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں‘ اس لیے یہ پاکستانیوں کے کپڑے اتارنے کے بعد اب ان کے جسموں سے گوشت کے ٹکڑے بھی کاٹنے لگی ہیں۔ ان کمپنیوں کو مانیٹر کرنے والے ادارے اور افسر بھی نا اہل ہیں۔ سالہا سال تک تو اہم سرکاری اداروں میں سربراہ اور ممبروں کی اسامیاں ہی خالی رہتی ہیں‘ یوں بھی ایسی کمپنیوں کو کنٹرول کرنے والے سرکاری ادارے پاکستانیوں کے نہیں‘ کمپنیوں کے خیرخواہ ہوتے ہیں یا پھر اپنی ذاتی فلاح و بہبود ان کی ترجیح نمبر ایک ہوتی ہے۔ یہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ عوام خالص چیز کے پیسے دے رہے ہیں لیکن پیکنگ پر شے کے بارے میں جو کچھ درج ہوتا ہے‘ اس کا عشر عشیر بھی اس شے میں موجود نہیں ہوتا۔یہ کسی ایک کمپنی کی بات نہیں۔ سینکڑوں ایسی کمپنیاں اربوں کھربوں روپے اس بدقسمت ملک کے بھوکے ننگے عوام کی جیبوں سے نکالتی ہیں اور اپنے اپنے ملکوں کو بھیج دیتی ہیں۔ کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں اور کسی کو دلچسپی نہیں کہ لکڑی کے تختے پر بیٹھے ہوئے خوف زدہ پاکستانی کی جان بچ جائے!
اس ملک میں غریب عوام کی جیبوں پر کس کس طرح ڈاکے مارے جا رہے ہیں اور کیا کیا نئے نئے طریقے آزمائے جا رہے ہیں‘ سن کر اور پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس طرح تو مانے ہوئے نوسر باز بھی نہیں کرتے! خبر پڑھیے اور ہو سکے تو سر پر دو تھپڑ ماریے۔ بال کھول لیجیے اور ماتم کیجیے۔
’’محکمۂ تعلیم ضلع راولپنڈی نے ضلع کے تمام تعلیمی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ……نامی چار کتابیں خریدیں۔ یہ چار کتابیں ایک ہی مصنف کی ہیں۔ ان کی قیمت بائیس سو روپے ہے جو ’’فروغِ تعلیم فنڈ‘‘ سے ادا کرنے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سکولوں کی لائبریریوں میں پہلے ہی بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم نے ان چاروں کتابوں کو بچوں کے معیار سے بہت بلند قرار دیا‘‘۔
یہ ’’فروغِ تعلیم فنڈ‘‘ کیا ہے؟ یہ فنڈ بھی والدین کی جیبوں سے نکالا جا رہا ہے۔ ہر طالب علم سے بیس روپے ماہانہ زبردستی وصول کیے جاتے ہیں۔ اس فنڈ کو ان کتابوں کی خرید کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کے مصنف سفارش یا روابط سے محکمۂ تعلیم کے بزرجمہروں تک پہنچ جاتے ہیں اور اپنی کتابیں زبردستی چھوٹے چھوٹے بچوں پر ٹھونستے ہیں۔
بڑے پیمانے پر یہ کام جنرل ضیاء الحق نے شروع کیا تھا۔ انہوں نے بادشاہی حکم جاری کیا کہ سرکاری ملازم کون کون سی کتابیں پڑھیں گے؟ اس کا فیصلہ وہ کریں گے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک کلب نما ادارہ قائم کیا اور یہ کام حساس اداروں پر مسلط کردیا جن کا اصل فرض ملک کا عسکری دفاع تھا۔ ہر سرکاری ملازم کی تنخواہ سے زبردستی سالانہ کٹوتی کی جاتی تھی اور اسے سال میں تین چار کتابیں دی جاتی تھیں۔ ترسیل کا سلسلہ یوں تھا کہ کسی کو ملتی تھیں کسی کو نہیں‘ بڑے بڑے پڑھے لکھے پی ایچ ڈی حضرات کو بتایا جاتا تھا کہ میاں! تم نے یہ کتابیں پڑھنی ہیں۔ محمود احمد لودھی اس وقت دفاعی وزارت خزانہ میں ایڈیشنل سیکرٹری تھے وہ واحد بیوروکریٹ تھے جنہوں نے اس پر برملا اعتراض کیا۔ لیکن یہ آواز نقارخانے میں طوطی کی آواز تھی!
آیئے! دعا کے لیے ہاتھ اٹھائیں‘ یہ بدبخت شخص جس کے جسم پر صرف جانگیہ رہ گیا ہے‘ کسی طرح بچ جائے!
روفی سے عزیز داری تھی۔ لائق لڑکا تھا۔ پڑھنے لکھنے والا۔ خطاط بھی تھا اور یہ طے ہے کہ خطاط اور کچھ ہو نہ ہو‘ ذہین ضرور ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں زیادہ پڑھنے لکھنے کی روایت نہیں تھی لیکن جب ایک دن معلوم ہوا کہ روفی ماشاء اللہ لاہور کے ہیلی کالج آف کامرس میں پہنچ گیا ہے تو متاثر ہونا لازم تھا۔ وہ کامرس میں ماسٹرز کی ڈگری کے لیے پڑھ رہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو اسے ایک ہی بات کہی۔ دیکھو… ٹارگٹ بلند رکھنا۔ لیکچرر شپ سے کم کا کبھی نہ سوچنا۔ ساری راہیں اسی سے پھوٹتی ہیں۔ مقابلے کا امتحان وہیں سے دیا جاتا ہے۔ پی ایچ ڈی کی صورت وہیں سے نکلتی ہے۔ نجی شعبے میں جانا ہو تو کمپنیوں والے جوہرِ قابل کو وہیں تلاش کرتے ہیں۔
ایک دن معلوم ہوا کہ روفی نے ماسٹرز کی ڈگری ادھوری چھوڑ دی اور ملازمت اختیار کرلی۔ پوچھنے پر وحشت اثر خبر یہ ملی کہ اکائونٹنٹ جنرل پنجاب کے دفتر نے آڈیٹر (کلرک) کی اسامیاں مشتہر کی تھیں۔ روفی نے درخواست دے دی اور اب وہ آڈیٹر بھرتی ہو گیا ہے۔ یہ صدمے والی خبر تھی۔ ایک جوہرِ قابل ضائع ہو گیا۔ ایک اچھا پی ایچ ڈی پروفیسر‘ ایک ہونہار چارٹرڈ اکائونٹنٹ‘ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کے حسابات کا بلند مرتبہ انچارج‘ سارے امکانات خاک میں مل گئے۔ اُس دن کے بعد روفی کے بارے میں پوچھا‘ نہ اُس کی کسی خبر میں دلچسپی لی۔
انسان بظاہر ایک سے ہوتے ہیں۔ چہروں کو غور سے دیکھیے۔ کان اور ناک کے درمیان۔ آنکھ اور ہونٹ کے درمیان کم و بیش یکساں فاصلے ہیں۔ سب کے بال سر ہی سے اُگتے ہیں۔ کسی کی ہتھیلی پر کوئی شے نہیں اُگتی۔ عملِ انہضام ایک ہی طرح کام کرتا ہے لیکن وہ عضو جو سر کے اندر‘ دو کانوں کے بیچ اور پیشانی کی پشت پر ہے‘ سب کا مختلف ہے۔ ایک ہی گھر میں پرورش پانے والے دو بھائیوں میں ایک کا نصب العین صرف دکانداری کرنا اور دوسرے کا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا سربراہ بننا ہوتا ہے۔ ایک شخص سپاہی بھرتی ہوتا ہے اور نصب العین یہ ہے کہ صوبیدار ہو کر ریٹائر ہو جائوں‘ دوسرا کمیشن حاصل کرتا ہے اور سپاہی سے جنرل موسیٰ خان بن جاتا ہے۔ بظاہر ایک جیسے انسانوں میں ٹارگٹ کا فرق ہے۔ ٹارگٹ کا انحصار سوچ کی سطح پر ہے۔ سوچ بلند ہوگی تو ٹارگٹ اونچا ہوگا۔ سوچ پست ہوگی تو نصب العین بھی چھوٹا ہوگا۔
پاکستان دنیا کے اُن ملکوں میں سرِ فہرست ہے جہاں عمودی تبدیلی (Vertical mobility) کی شرح پریشان کن حد تک پست ہے۔ کسان کا بچہ کسان‘ کلرک کا بچہ کلرک‘ دکاندار کا بچہ دکاندار اور جلد ساز کا بچہ جلد ساز بنتا ہے۔ بہت تیر مارا تو تبدیلی افقی ہوگئی‘ یعنی (Horizontal mobility) کسان کا بچہ کلرک بن گیا اور کلرک کا بچہ جلد ساز ہو گیا۔ جس زمانے میں ذات پات کی زنجیریں مضبوط تھیں‘ اور درباروں کے ارد گرد ذاتوں کے لحاظ سے محلے آباد کیے جاتے تھے‘ اس زمانے میں تو یہ جمود فطری تھا اور جبر کا شاخسانہ تھا۔ شاعر بھی یہی کہتے تھے ؎
مرے بلخ میرے ہرات شاد رہیں سدا
مرے کوزہ گر مرے زین ساز سدا رہیں
لیکن اب وہ زمانہ نہیں رہا جب دارالحکومتوں میں بتیس ذاتوں کی الگ الگ آبادیاں ہوں۔ ذات پات کے پرخچے اُڑ چکے ہیں۔ جو چند لوگ بیٹیوں کی شادیاں اس لیے نہیں کر پاتے کہ مغل یا راجپوت یا اعوان نہیں مل رہے‘ وہ چراغِ آخرِ شب ہیں۔ جس قدر جلد بجھ جائیں‘ اچھا ہے۔ اب عمودی تبدیلی میں رکاوٹ سوچ کی سطح ہے‘ ترقی کا راز خدا نے اپنی کتاب میں بیان کردیا اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حرفِ آخر ہے۔ ’’انسان کے لیے وہی کچھ ہے جس کے لیے اُس نے سعی کی‘‘۔ اور سعی وہ اسی چیز کے لیے کرے گا جو اس کی سوچ کے حصار میں آئے گی۔ اگر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہے تو بے شک وہ پروفیسر ہی کیوں نہ ہو اور لاکھوں دوسرے پروفیسروں جیسا ہی کیوں نہ ہو‘ اوباما کی طرح امریکہ کا صدر ضرور بنے گا۔ لیس للانسان الّا ما سعیٰ۔
یہ درست ہے کہ پاکستان جیسے ملکوں میں عمودی تبدیلی کا راستہ رکاوٹوں سے اٹا پڑا ہے۔ سندھ اور جنوبی پنجاب فیوڈلزم کی کڑی گرفت میں ہیں۔ بلوچستان شرم ناک سرداری نظام میں بری طرح جکڑا ہوا ہے اور سردار کبھی نہیں برداشت کر سکتا کہ اس کے قبیلے کا ایک عام نوجوان‘ جو اس کی رعایا ہے‘ عمودی ترقی کرے۔ سفارش‘ اقربا پروری اور رشوت ستانی کا کلچر بھی زوروں پر ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسی خاک میں ہیرے اور لعل بھی ہیں اور انہیں چمکنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اگر غربت سدِ راہ ہے تو لاتعداد فلاحی ادارے لائق طلبہ کی تلاش میں ہیں۔ اندرونِ ملک سے کتنے ہی مفلوک الحال نوجوان بڑے شہروں میں آ کر زندگیوں کو تبدیل کر چکے ہیں۔ راستے سارے کھلے ہیں۔ صرف ان چند جھاڑیوں کو کاٹنا ہوتا ہے جو راستے کے آغاز میں کانٹے لے کر بیٹھی ہوتی ہیں۔ اس کے بعد کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آتی۔
اعداد و شمار اور مطالعہ و مشاہدہ گواہی دیتے ہیں کہ عام طور پر خاندان کا ایک فرد عمودی تبدیلی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس کا اثر کئی خاندانوں پر پڑتا ہے اور اوسطاً پانچ چھ خاندانوں کے بچے مثبت لحاظ سے متاثر ہوتے ہیں۔ سڑک کے کنارے بیٹھ کر جوتے مرمت کرنے والے موچی کا بیٹا اگر دفتر میں کلرک بھرتی ہو جائے تو اس کے تین یا چار بیٹے بیٹیاں بی اے اور ایم اے تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہ اپنے بھتیجوں اور بھانجوں کو پڑھنے لکھنے‘ محنت کرنے اور سوچ کو بلند رکھنے کا مشورہ دے سکتا ہے اور مشورہ قبول کرنے کے لیے اثرورسوخ اور ڈانٹ ڈپٹ کا راستہ اختیار کر سکتا ہے۔ اندازہ لگائیے، کم ازکم ایک درجن خاندان ترقی کے راستے پر رواں ہو سکتے ہیں اور اگر ایسا نہ ہو تو یہی خاندان اُسی ڈھرے پر چلتے رہیں گے جس پر اُن کے باپ دادا چلتے آئے ہیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں عمودی تبدیلی کا ایک راز جغرافیائی نقل وحرکت بھی ہے۔ ماں باپ اگر نیویارک میں ہیں تو بیٹا بہتر مستقبل کے لیے ہزاروں میل دُور، چار ٹائم زون پار کر کے لاس اینجلس پہنچ جائے گا۔ ماں رو رو کر روکے گی نہ باپ آبائی وطن کے واسطے دے گا۔ لندن کے نوجوان اٹلی میں اور ٹورنٹو کے نوجوان کسی جھجک اور خوف کے بغیر ہسپانیہ میں تعلیم حاصل کرنے اور ملازمت کرنے کے لیے تیار ہیں اور خوشی سے تیار ہیں۔ جغرافیائی نقل و حرکت میں یہ چُستی عمودی ترقی کا سبب بنتی ہے، اور خاندانوں نے خاندان معاشرے کے زیریں حصے سے اُٹھ کر بالائی سطح پر پہنچ جاتے ہیں۔
سوچ کی سطح ہی پست ہو تو دنیا کی کوئی طاقت نیچے سے اوپر نہیں لا سکتی۔
powered by
worldwanders.com