کچھ عرصہ پہلے جب محمد سرور، برطانوی شہریت تیاگ کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر بنے تو انہوں نے اعلان کیا تھا ۔’’میں نے جو کچھ بھی برطانیہ میں سیکھا ہے ، علم اور اداروں کو چلانے کا طریقہ… وہ سب کچھ پاکستان کی بہتری کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہوں‘‘۔جناب محمد سرور نے برطانیہ میں اپنی سیاسی زندگی کے دوران یقینا نوٹ کیا ہوگا کہ ان کی پارٹی پر کسی مخصوص خاندان یا گروہ یا برادری کی اجارہ داری نہیں تھی۔ پاکستان میں مسلم لیگ کی قیادت جناب میاں محمد نوازشریف کے پاس جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد آئی۔ 1989ء میں وہ پارٹی کے بلاشرکت غیر ے رہنما بن چکے تھے ۔ اس وقت سے لے کر آج تک پارٹی کی سربراہی انہی کے پاس ہے۔ دوسری طرف ان پچیس سالوں کے دوران برطانوی لیبر پارٹی کی لیڈر شپ سات بار تبدیل ہوچکی ہے۔1989-90ء میں جب مسلم لیگ کی قیادت میاں صاحب نے سنبھالی تو لیبر پارٹی کی قیادت نیل کناک کے پاس تھی۔1992ء میں جان سمتھ پارٹی کے لیڈر بن گئے ۔ کچھ عرصہ قیادت مارگریٹ بیکیٹ کے ہاتھ میں رہی۔ 1994ء میں ٹونی بلیئر آئے۔ گیارہ سال بعد زمام اختیار انہوں نے گورڈن برائون کے ہاتھ میں تھمائی اور رخصت ہوگئے۔ تین سال بعد پھر تبدیلی آگئی۔ آج کل ملی بینڈ صاحب پارٹی کے رہنما ہیں۔
آپ کا کیا خیال ہے ،جناب محمد سرور اداروں کو چلانے کا یہ طریقہ پاکستان میں رائج کرنے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک دن وہ میاں صاحب کے پاس جائیں اور کہیں کہ جناب میاں صاحب ! پچیس سال سے پارٹی کی سربراہی آپ کے پاس ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ آزادانہ انتخابات کرائیں اور لیڈر شپ کسی اور کے پاس جانے دیں۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
جناب محمد سرور کی یہاں صرف مثال دی گئی ہے ،روئے سخن ان کی طرف نہیں۔اس تحریر کا موضوع یہ ہے کہ ہمارے تارکین وطن سیاسی میدان میں بھی دوغلے رویے کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس سلسلے کا یہ تیسرا اور آخری کالم ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ تارکین وطن ہماری بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ قاف لیگ کی بہت بڑی ہم نوائی جرمنی اور ہسپانیہ میں ہے۔ مسلم لیگ نون کے ہمدرد نیو جرسی سے لندن اور ناروے تک پھیلے ہوئے ہیں۔ ایم کیوایم کے سیاسی جسم کے تقریباً تمام اعضائے رئیسہ دساور میں مقیم ہیں۔ یہ لاکھوں تارکین وطن جہاں جہاں مقیم ہیں ، وہاں کے شہری ہیں۔ وہاں کے انتخابات میں ووٹ ڈالتے ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے نئے ملکوں میں سیاسی جماعتوں پر خاندانوں کی اجارہ داری کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔تارکین وطن کے پاس بیٹھیں تو گفتگو کے کسی نہ کسی موڑ پر وہ اپنے نئے وطن کی جمہوری قدروں کا ذکر خیر ضرور کریں گے۔ وہ تفصیل سے بتائیں گے کہ گورڈن برائون نے زمام اختیار کیسے اپنے جانشین کو سونپی اور جولیا گلرڈ کیسے منظر سے پس منظر کو سدھارگئی، لیکن جس طرح ہمارے پیارے تارکین وطن پی آئی اے کے جہاز میں قدم دھرتے ہی اصلی پاکستانی کا روپ دھار لیتے ہیں اور ہر بے قاعدگی کو روا گردانتے ہیں ، اسی طرح جب وہ اپنے اصلی وطن کی سیاست میں داخل ہوتے ہیں تو وہ ساری جمہوری قدریں ،جو انہوں نے ہجرت کے بعد نئے ملک میں سیکھی ہوتی ہیں ،بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔ اب وہ بھٹو خاندان کے وفادار بن جاتے ہیں یا شریف فیملی کے ثنا خواں یا گجرات کے چودھری خاندان کے حلقہ بگوش یا ایم کیوایم کے بجائے صرف الطاف حسین کے طرفدار! حافظ شیرازی نے جو تبرا اہل مذہب پر بھیجا تھا، وہ تارکین وطن پر بھی اس حوالے سے صادق آتا ہے:
واعظان کین جلوہ در محراب و منبر می کنند
چون بہ خلوت می روند آن کار دیگر می کنند
مشکلی دارم ز دانش مندِ مجلس باز پرس
توبہ فرمایاں چرا خود توبہ کمتر می کنند
(محراب و منبر پر کچھ اور ، خلوت میں کچھ اور، اس مشکل کا حل کسی عقل مند سے دریافت کیا جائے کہ توبہ کا حکم دینے والے خود توبہ کم ہی کرتے ہیں۔ آخر کیوں ؟)
یہاں جملۂ معترضہ کے طور پر ان بودے دلائل کا ذکر بھی کر ہی دیاجائے جو خاندانی تسلط کے درباری ہم نوا اکثر و بیشتر پیش کرتے ہیں۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ہم اتنی زیادہ جمہوریت کے لیے تیار نہیں کہ پارٹیوں کے اندر بھی الیکشن ہوں۔ کبھی یہ نکتہ پیش کیا جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے سارے ملکوں میں خاندانی سیاست ہی کارفرما ہے۔ دونوں دلیلیں بے سروپا ہیں۔ اصل جمہوریت کے لیے یہ ملک اب بھی تیار نہیں تو کب ہوگا؟ کبھی تو آغاز کرنا پڑے گا! کبھی تو عوام کی تربیت کرنا پڑے گی۔ رہی جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں کی مثال تو کیا پاکستان اب بنگلہ دیش کی پیروی کرے گا؟یہ بھی یاد رہے کہ راہول گاندھی نے سیاست نیچے سے یعنی گراس روٹس سے شروع کی ہے۔ وہ بلاول ، حمزہ شہباز یا مونس الٰہی کی طرح اچانک سینئر رہنمائوں کے سر پر نازل نہیں کیاگیا۔
سیاسی جماعتوں کا تارکین وطن پر بھاری انحصار ہے۔وسیع پیمانے پر بیرون ملک سے امداد لی جاتی ہے۔ یہ امداد دامے ، درمے بھی ہے اور سخنے بھی۔ رہنما جب باہر جاتے ہیں تو عظیم الشان تقاریب منعقد ہوتی ہیں۔ تعجب ہے کہ ان تقاریب میں تارکین وطن ، پاکستانی سیاسی لیڈروں کی شان میں زمین و آسمان کے وہ قلابے ملاتے ہیں جن کا ان کے نئے ملکوں میں تصور تک نہیں۔ آخر یہ دوغلا پن کیوں؟ اور یہ اندر اور باہر کا اور ظاہر اور باطن کا اور نئے اور پرانے ملکوں کا فرق کب تک ؟ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی جس جمہوریت کی وہ تعریفیں کرتے ہیں ، جمہوریت کے اسی برانڈ کا اپنے آبائی وطن میں کیوں نہیں پرچار کرتے ؟ تارکین وطن اپنے لیے ووٹ کا حق بھی مانگتے ہیں، اسمبلی کی ممبری، وزارتیں ، سفارتیں اور گورنریاں بھی چاہتے ہیں۔ یہ ملک ان کا ہر مطالبہ ماننے کے لیے تیار ہے لیکن وہ سیاسی رہنمائوں کے سامنے دست بستہ قیام اور رکوع چھوڑ دیں۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسی جمہوریت کا تقاضا کریں جو ان کے نئے ملکوں میں رائج ہے۔ اگر برطانیہ کی لیبر پارٹی پر ایک خاندان کی قیادت مسلط ہوتی تو کیا جناب محمد سرور اس پارٹی میں نیچے سے اوپر آسکتے تھے ؟ کیا وہ کونسلر سے سفر شروع کرکے پارلیمنٹ تک پہنچ سکتے تھے؟ نہیں ، کبھی نہیں!وہ ممبر بن سکتے تھے نہ انس سرور اور نہ ہی سعیدہ وارثی! جو سیاہی بیرون ملک زلف کی خوبصورتی کے لیے استعمال ہوسکتی ہے ،وہی سیاہی وطن کے اندر آکر اندھیرے کا سبب کیوں بن جاتی ہے؟ کیا اس ملک کے مجبور ، مظلوم ، مقہور اور معتوب باشندوں نے ہمیشہ غلام ہی رہنا ہے؟ کیا بھٹو خاندان ، زرداری خاندان ، شریف خاندان ، چودھری خاندان ، ولی خان خاندان اور مفتی محمود خاندان ہی پارٹیوں کی سربراہی کے لیے افرادی قوت مہیا کرتے رہیں گے؟ کیا خواجہ آصف ، چودھری نثار علی خان ، اعتزاز احسن ، رضا ربانی اور حافظ حسین احمد قیادت کے لیے نااہل ہیں۔ کیا یہ تقسیم آسمانوں سے اتری ہے اور کیا اس میں تبدیلی نہیں لائی جاسکتی ؟ ایک زمانہ تھا کہ پڑھے لکھے لوگ اپنی غربت کا جواز پیش کرتے ہوئے کہتے تھے ؎
رضینا قسمت الجبار فینا
لنا علم وللجُہال مال
(ہم خدائی تقسیم پر راضی ہوگئے۔ ہمارے لیے علم ہے اور جاہلوں کے لیے مال و دولت !)
کیا پڑھے لکھے سیاسی رہنما ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے اپنے دلوں کو سمجھا چکے ہیں کہ وہ پیروکار ہی رہیں گے اور شاہی خاندانوں کے ان نوجوانوں کی ماتحتی میں کام کریں گے جنہوں نے ان کی گودوں میں پرورش پائی ہے ؟
اس انقلاب کیلئے تارکین وطن اپنا کردار ادا کریں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ ہم صحرا میں یہ اذان اس امید پر دے رہے ہیں کہ شاید کوئی بندۂ خدا آجائے !
No comments:
Post a Comment