ہانگ کانگ میں رہنے والے ہزاروں پاکستانی شکوہ کناں ہیں کہ پی آئی اے جیسی بھی تھی، ایمر جنسی میں میت تو مفت لے جاتی تھی۔ اب کسی پاکستانی کی وفات ہوتی ہے تو دوسری ائیر لائنیں اسّی نوے ہزار ہانگ کانگ ڈالر معاوضہ طلب کرتی ہیں‘ جس کا مطلب بارہ تیرہ لاکھ روپے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں اکثریت کے لیے میت وطن واپس لانا ممکن ہی نہیں۔
بنکاک میں صورتِ حال اور بھی درد ناک ہے۔ لا تعداد پاکستانی بنکاک میں رہتے ہیں جنہیں آئے دن پاکستان روانہ ہونا ہوتا ہے یا پاکستان سے واپس تھائی لینڈ پہنچنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بنکاک ایک بہت بڑا جنکشن ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ، جاپان، برونائی، فلپائن، کوریا، ویت نام اور انڈونیشیا سنگاپور سے لاکھوں مسافر پاکستان آنے کے لیے بنکاک اترتے ہیں۔ یہ ہزاروں لاکھوں مسافر پی آئی اے میں سفر کیا کرتے تھے۔ چونکہ ہم دن بدن زیادہ ’’ترقی‘‘ کر رہے ہیںاس لیے بنکاک سے بھی پی آئی اے کی پروازیں بند ہو گئی ہیں۔ جب بند نہیں ہوئی تھیں، ہمیشہ تاخیر سے آتی جاتی تھیں، اذیت ہوتی تھی لیکن پھر بھی اکثریت پی آئی اے کو صرف اس وجہ سے ترجیح دیتی تھی کہ جیسی بھی ہے اپنی ہے۔ ہم وطن میں رہنے والے لوگ، اس محبت کا اور اس پاکستانیت کا تصور بھی نہیں کر سکتے جو تارکین وطن کے دلوں میں موجزن ہے۔ اس جذباتی رشتے سے قطع نظر، لاکھوں کروڑوں ڈالر کے اُس بزنس کا تصویر کیجیے جس سے بنکاک کی پروازیں ختم ہونے کی وجہ سے پی آئی اے محروم ہو رہی ہے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا کبھی اس ملک میں کوئی ایسی عدالت لگے گی جس میں قومی جرائم کا ارتکاب کرنے والے معززین کٹہرے میں کھڑے ہوں گے؟ سالہا سال تک، عشروں پر محیط عرصے تک، پی آئی اے میں بھرتیوں کے لیے کوئی اشتہار نہیں چھپتا تھا۔ ساری تعیناتیاں، ترقیاں، تبادلے، سیاسی، شخصی اور عائلی بنیادوں پر ہوتے تھے۔ ان بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو ہتھکڑیاں کب لگیں گی؟
لوگ ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔ دور دور تک آثار نہیں کہ کوئی ان کی مدد کو پہنچے۔ یہاں ترجیحات ہی اور ہیں۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کو نشانِ عبرت بنا کر انتقام کی آگ ٹھنڈی کی جائے۔ کیا ستم ظریقی ہے کہ سالہا سال تک جرنیل کا دست و بازو بننے والے کابینہ میں تشریف فرما ہیں۔ کچھ پس ماندگان اب تک پارلیمنٹ میں داخل ہو کر ’’لیٹ‘‘ نکال رہے ہیں، اور کٹہرے میں صرف ایک شخص کھڑا ہے۔ بھلا کبھی کوئی فوجی آمر، اہلِ سیاست کی اشیرباد کے بغیر حکومت کر سکا ہے؟ جنرل پرویز مشرف سے شدید مخاصمت رکھنے والے بھی اسے عدل نہیں قرار دے سکتے۔ دس دس بار وردی میں منتخب کرانے والے، اسے سید کہہ کر فرطِ ادب سے آنکھوں کو بند کر لینے والے، زرعی زمینیں الاٹ کرانے والے، کمیٹیوں، کانفرنسوں‘ سرکاری دوروں کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے، سب نہا دھو کر پوتّر ہو گئے اور جرنیل ان سب کا حساب دے رہا ہے۔ واہ جی واہ! انصاف ہو تو ایسا کہ نظر بھی آئے اور اس میں کیا شک ہے کہ نظر آ رہا ہے۔ انجم رومانی نے خوب کہا تھا ؎
انجم غریب شہر تھے‘ اب تک اسیر ہیں
سارے ضمانتوں پہ رہا کر دیے گئے
ہماری ترجیحات اور ہیں۔ نصب العین یہ نہیں کہ ملک میں انفراسٹرکچر حقیقی معنوں میں تعمیر ہو، نصب العین یہ ہے کہ جو کچھ ہو، جلد ہوتا کہ واہ واہ ہو، دیر پا نہ ہو تو ہماری بلا سے۔ بچے کو بھی معلوم ہے کہ لاہور کراچی اور پنڈی اسلام آباد کی پبلک ٹرانسپورٹ کا واحد حل زیر زمین ریلوے کی تعمیر ہے۔ یہی مستقل اور دیر پا حل ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ دہلی گئے تو زیر زمین ریلوے کا مصروف ترین سٹیشن دیکھنے گئے۔ انہیں یقیناً بریفنگ دی گئی ہو گی۔ یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ دہلی زیر زمین ریلوے کا منصوبہ کم از کم وقت میں، ریکارڈ ٹائم میں، مکمل ہوا، یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ دہلی جو دُھند، Fogاور Smogمیں لپٹی رہتی تھی، زیر زمین ریلوے چلنے کے بعد کیسی صاف ستھری ہو گئی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایسا منصوبہ حکمرانوں کو اپیل نہیں کرتا؟ اس کی وجہ آخر اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے منصوبوں کے لیے جو ٹیمیں درکار ہوتی ہیں وہ میرٹ اور صرف میرٹ پر‘ اہلیت اور صرف اہلیت کی بنیاد پر بنائی جاتی ہیں۔ اس بنیاد پر نہیں بنائی جاتیں کہ کون کس شہر سے ہے اور کون کس برادری سے تعلق رکھتا ہے! قومی سطح کا کوئی ایک اخبار بھی ایسا نہیں جو مسلسل یہ نہ لکھ رہا ہو کہ وفاقی دارالحکومت کی بیورو کریسی پر ایک مخصوص گروپ کا غلبہ ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے حاصل کیا گیا ہے۔
یہ دو سال پہلے کی بات ہے، اس لکھنے والے نے تجویز پیش کی تھی کہ زیر زمین ریلوے کی تعمیر ہماری سیاست زدہ بیورو کریسی کے بس کی بات نہیں۔ اس سیاست زدہ بیورو کریسی نے برادری کی چادر اوڑھی ہوئی ہے اور سفارش کا گھونگٹ نکالا ہوا ہے۔ اس لیے یہ منصوبہ بحریہ کے ملک ریاض جیسے نجی شعبہ کے کسی ایسے ٹائی کُون کے حوالے کریں جو نتیجہ دکھا سکے۔ اگر تعمیر مکمل ہونے کے بعد، تین یا پانچ سال کی آمدنی، دینی بھی پڑ جائے تو سودا برا نہیں‘ لیکن یہاں بڑے بڑوں کی آواز کوئی نہیں سنتا، ایک کالم نگار کی بات پر کون کان دھرے گا۔
ہماری ترجیحات مختلف ہیں۔ ہم ابھی کچھ ضروری امور میں مصروف ہیں۔ ہم ابھی قائداعظم کو اپنی مرضی کی شکل و صورت میں دوبارہ ڈھال رہے ہیں۔ ہم قائداعظم کو اُن مقدس لوگوں کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو ہمیشہ ’’جناح صاحب‘‘ کہا ہے۔ ہم قائداعظم کی کسی ایسی تقریر کی تلاش میں ہیں جس کی رُو سے پاکستان میں شریعت بذریعہ بندوق نافذ کی جا سکے۔ ہمیں ان کی وہ تقریر بھی ڈھونڈنی ہے جس میں انہوں نے اقلیتوں کی عبادت گاہیں جلانے اور کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کو شریعت کے مطابق قرار دیا تھا! ہمیں ابھی ان کی وہ گفتگو بھی تلاش کرنی ہے جس میں انہوں نے اس بات پر اظہار مسرت کیا تھا کہ لاکھوں مدارس میں تحریک پاکستان اور قائداعظم کے بارے میں کچھ نہ پڑھایا جائے اور ان مدرسوں میں پڑھنے اور پڑھانے والے انہیں کبھی قائداعظم نہ کہیں! قائداعظم ہی نے تو حکم دیا تھا کہ عدلیہ کے متوازی جرگے اور پنچائتیں بھی کام کریں اور ستر ستر سا ل کے بوڑھوں کی ملکیت میں ونی ا ور سوارہ کے ذریعے چھ چھ سال کی بچیاں دے دی جائیں اور یہ ظلم اُن تہجد گزاروں کو نظر نہ آئے جو تکبر کے ساتھ یہ فیصلے کرتے ہیں کہ کون شہید ہے اور کون شہید نہیں! بس ابھی اتنا سا کام رہ گیا ہے کہ قائداعظم کا یہ گم شدہ حکم تلاش کرنا ہے۔
اقتصادی ترقی، سماجی انصاف، تعلیم اور صحت بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہیں لیکن ابھی اُن کی باری نہیں آئی۔ آخر جلدی بھی کیا ہے!
No comments:
Post a Comment