’’ حکمرانوں کی کرپشن ملک کے لیے بھارت سے زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہے۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری کیوں ہے ؟55لاکھ بچے سکول نہیں جاتے۔ بچہ بچہ ورلڈ بینک کا مقروض کیوں ہے؟ انسان نے چاند پر قدم رکھ دیا ہے مگر پھول جیسے لاکھوں بچے غربت کی وجہ سے سائیکلوں کی دکانوں پر پنکچر لگارہے ہیں۔ ہمارے پاس پانچ دریا ہیں پھر بھی ملک میں اندھیرا اور لوڈشیڈنگ ہے۔ ملک میں سونا موجود ہے تو غربت کیوں ہے ؟ بجلی کا بل ادا نہ کرنے پر میٹر اتارکر لے جاتے ہیں مگر کارخانہ دار اور مل مالکان کروڑوں روپے کے بل ادا نہ کریں تو واپڈا کچھ نہیں کہتا۔ ہم امیر غریب کے لیے ایک نظام چاہتے ہیں۔ اس وقت پانچ فیصد اشرافیہ 95فیصد وسائل پر قبضہ کیے ہوئے ہے جو عوام کو مزارع اور غلام سمجھتی ہے اور ان سے کیڑے مکوڑوں جیسا سلوک کرتی ہے۔ اشرافیہ نے انگریز کی حکومت کی خدمت کے عوض بڑی بڑی جاگیریں لیں اور محنت کے بغیر بڑی سیٹوں پر قبضہ کیا اور پھر اثرورسوخ سے بنکوں سے اربوں کے قرضے لے کر بیرون ملک منتقل کردیے۔ ہم حیران ہیں کہ ڈالر اوپر جائے تو ان کے وارے نیارے اور کمی آئے تو بھی ان کے وارے نیارے ۔ پھر کہتے ہیں کہ مزید کم نہ کریں سرخ بتی کا احترام صرف عوام کے لیے ہے ، حکمرانوں کے لیے نہیں!‘‘
آپ کا کیال خیال ہے کہ یہ باتیں کس نے کہی ہوں گی؟
کسی سوشلسٹ پارٹی کے لیڈر نے؟ کسی مزدور رہنما نے ؟ لیبر یونین کے کسی عہدیدار نے؟نہیں ! ایسی کوئی بات نہیں۔ یہ گفتگو جماعت اسلامی کے نو منتخب امیر سراج الحق صاحب نے کی ہے۔ یوں لگتا ہے جماعت کے بند دروازوں پر حالات جو دستک دے رہے تھے ، سراج الحق صاحب نے اگر پورا دروازہ نہیں بھی کھولا تو کم از کم کھڑکی ضرور کھولی ہے۔آدھی کھڑکی سہی ، لیکن سرباہر نکال کر دستک دینے والوں سے بات تو کی ہے!جماعت کس المیہ سے دو چار رہی، اس کا کیا ذکر کیا جائے اور کتنا کیاجائے! جتنا کم ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔ جن لوگوں کو ماہر نفسیات کے کلینک کی انتظار گاہ میں بیٹھنا چاہیے، کبھی کبھی تاریخ کی ستم ظریفی انہیں مسندوں پر بٹھا دیتی ہے۔ ع
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
موصوف امریکہ تشریف لے گئے تو وہاں کیا ہوا اور پزیرائی کرنے والے کس درجہ بددل ہوئے ، یہ داستان پھر کبھی سہی۔
مذہب کو سیاست میں لانے کی مخالفت جب کی جاتی ہے تواس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ سیاست کو مذہبی چولا پہنا کر مذموم مقاصد کی تکمیل کی جاتی ہے۔ مراعات یافتہ طبقات کوتحفظ دیا جاتا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال ہماری حالیہ تاریخ میں موجود ہے۔ زرعی اصلاحات کی بات چلی تو نواب زادہ نصراللہ خان اور ان کے ساتھی جاگیرداروں نے ’’ تحفظ حقوق زمینداران تحت الشریعہ‘‘ قسم کی تنظیم بنالی! ماضی بعیدکی تاریخ میں مذہب کو سیاست میں گھسیٹ کر بالائی طبقات کی خدمت تو عام سی بات تھی! جو بادشاہ جتنا ظالم ہوتا تھا، عباسی خلیفہ کی اشیرباد لینا اتنا ہی ضروری سمجھتا تھا۔ دین الٰہی کی پشت پر وہ علما ہی تو تھے جو سیاست کررہے تھے ۔ بادشاہ کو سجدہ کرنے کا جواز پیش کرنے والے بھی وہی علما تھے جو مذہب کے نام پر سیاست کررہے تھے۔ دین کی خدمت تو وہ کررہے تھے جو سیاست سے دور، روکھی سوکھی کھا کر ، چٹائیوں پر بیٹھ کر قال اللہ اور قال الرسول کہہ رہے تھے ۔ اقبال نے انہی کے بارے میں کہا ہے ؎
قوموں کی تقدیر وہ مردِ درویش
جس نے نہ ڈھونڈی سلطاں کی درگاہ
علمائے حق جب بھی سیاست میں آئے ، غریب کی آواز بن کر آئے۔ مناظر احسن گیلانی نے کمال کی کتاب لکھی ہے۔ ’’ امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی‘‘۔ انسان ورطۂ حیرت میں گم ہوتا ہے۔ ریشم کی تجارت کرنے والے امیر کبیر ابو حنیفہ ؒ، چھپ کر سادات کی تحریک کی مالی خدمت کرتے تھے ؛تاکہ امویوں اور پھر عباسیوں کی بادشاہت سے نجات ملے۔ یہی تو اصل غصہ تھا جو بنو عباس کے ظالم بادشاہوں نے (تعجب ہے انہیں خلیفہ کہا جاتا ہے!) امام ابو حنیفہؒ پر اتارا، انہیں زہر دیاگیا، کوڑے مارے گئے یہاں تک کے انہوں نے جان زنداں ہی میں اللہ کے سپرد کردی۔ بظاہر یہ کہا گیا کہ چیف جسٹس کا عہدہ قبول نہیں کررہے !
کوئی نہ مانے تو اور بات ہے مگر سورج سے زیادہ چمکدار حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عوام ان علما سے نفرت اور شدید نفرت کرتے ہیں جو مذہب کو سیاست میں مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بھلا ان مذہبی رہنمائوں کی عزت کون کرسکتا ہے جو مخصوص وزارتوں کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے ہیں، پروٹوکول کے بھوکے ہیں اورسرکاری ہیلی کاپٹروں پر سفر کرنا جن کے لیے عزت کی معراج ہے۔
سراج الحق صاحب نے جو باتیں کی ہیں وہ اس ناکامی کا ازالہ کرسکتی ہیں جو جماعت کو انتخابات میں درپیش آرہی ہے۔ جماعت یہ بھول گئی تھی کہ ؎
شب جو عقدِ نماز می بندم
چہ خورد بامداد فرزندم
رات کو تہجد پڑھتے وقت یہ فکر لاحق ہونا کہ صبح بچے کیا کھائیں گے، فطری ہے۔ اسلام عوام کی بتوں ، قبروں ، راہبوں جوگیوں ، پنڈتوں ، جوتشیوں اور پیروں کی غلامی ہی سے نہیں ، اقتصادی فرعونوں سے بھی نجات دلانے کے لیے آیا ہے! آخر جاگیرداری اور سرداری کی اسلام میں کیا گنجائش ہوسکتی ہے اور اسلامی ریاست سرمایہ داروں کو شتربے مہار ہونے کی اجازت کیسے دے سکتی ہے! بہت کم لوگوں کو معلوم ہے اور اکثر کو یہ جان کر تعجب ہوگا کہ 1967ء میں جماعت کی مجلس شوریٰ نے ایک اقتصادی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی تیار کردہ رپورٹ جماعت کے شعبہ نشرو اشاعت نے 1969ء میں شائع کی تھی۔ جماعت اگر اس الماری کو کسی طرح کھولے جسے مقفل کرکے چابی وزیرستان کے پہاڑوں میں پھینک دی گئی ہے تو یہ رپورٹ کسی گرد آلود شیلف میں ضرور مل جائے گی۔ اس رپورٹ میں ارتکاز دولت کو روکنے کے یے اصول تحدید (Limitization)تک پیش کردیا گیا تھا جس کی رو سے ’’ اسلام میں ہر ملکیت محدود ہے‘‘۔
اس رپورٹ میں مکانوں کا سائز مقرر کرنے کی بات کی گئی۔ املاک کی مناسب تحدید (یعنی حد مقرر کرنا) تجویز کی گئی۔ منافع کی حد بھی مقرر کرنے کی بات کی گئی تاکہ منافع خوری بے لگام نہ ہو۔ اس رپورٹ میں لکھا گیا ’’ افراد کو بڑی بڑی زمینیں خرید کر ایک طرح اجارہ دارانہ مقام حاصل نہ کرنے دیا جائے بلکہ مفاد عامہ کے لیے زرعی املاک حاصل کرنے کی تحدید (Limit) کردی جائے۔‘‘
قانون تحدید کے ساتھ ساتھ اس رپورٹ میں ’’ قانون حجر‘‘ کی وکالت بھی کی گئی۔ فقہ میں اس قانون کا مطلب ہے کہ مالک اگر اپنے مال میں ایسے تصرفات کرے جوتبذیر اور اسراف کے تحت آتے ہوں یا مال کو ضائع کرنے کے مترادف ہوں تو ریاست اس کے مالکانہ تصرفات پر پابندی عاید کرسکتی ہے۔ یہی وہ قوانین ہیں جن کی رو سے حضرت عمر فاروق ؓ نے کوفہ بساتے وقت پابندی لگادی کہ کوئی شخص تین سے زیادہ مکانات تعمیر نہ کرے۔ شاہ ولی اللہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’ اگر تاجروں کی طرف سے علانیہ ظلم معلوم ہو جو ہر طرح کے شک و شبہ سے بالا ہوتو اس کو بدلنا جائز ہے۔ کیوں کہ اس میں ملک کی بربادی ہے۔‘‘
سراج الحق صاحب اگر اپنی قیادت میں جماعت کو (جسے بدقسمتی سے ایک مخصوص مسلک کا اٹیچی کیس بنا دیاگیا ہے) عوام کی خوشحالی اور سرمایہ دارانہ نظام کی بیخ کنی کا نیا منشور دیں تو اس میں سب کا بھلا ہوگا۔ ان کا یہ اعلان کہ ’’ ہم نے افغانستان ،عراق ، کشمیر ،ایران، سوڈان کا ساتھ دینا ہے لیکن اس سے پہلے اپنے ملک کے عوام کو ظلم سے نجات دلانی ہے۔‘‘ایک خوش آئند ، منطقی طور پر درست اورعادلانہ فیصلہ ہے۔ ماں اپنی گلی میں بھیک مانگ رہی ہو اور بیٹا بازاروں میں گھوڑوں کی خریداری کرتا پھر رہا ہو تو لوگ تو ہنسیں گے ہی ، ماں کی بددعا بھی لگے گی!
No comments:
Post a Comment