کئی سال پہلے اُس کی تصنیف ’’وائٹ مغلز‘‘ پڑھی۔ تب سے ولیم ڈال رمپل (Dalrymple)کے طرزِ نگارش نے اپنے سِحر میں جکڑ رکھا ہے۔
ثقافتی حوالے سے بّرِصغیر کے برطانوی دور کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1800ء سے پہلے اور 1800ء کے بعد۔ 1798ء میں رچرڈ ولزلے ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا۔اس سے پہلے انگریز حکمرانوں اور ہندوستانی محکوموں میں آقا اور نوکر کا تعلق تو تھا۔ لیکن ابھی آقائوں کے رویّے میں رعونت اور فرعونیت نہیں آئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز مقامی خواتین سے شادیاں کرتے تھے۔ ہندوستانی لباس اپناتے تھے۔ قالینوں پر بیٹھ کر حقہ نوشی کرتے تھے۔ پان کھاتے تھے اور ہندوستان کی ثقافتی تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ایسے انگریزوں کو جو ہندوستانی طرزِ زندگی اپنا لیتے تھے‘ وائٹ مغل کہا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہرتین میں سے ایک انگریز مقامی عورت سے شادی کرتا تھا۔
1798ء سے 1805ء تک کا عرصہ برطانوی حکمرانوں کا ایک نیا طرزِ عمل لایا۔ یہ رچرڈ ولزلے کی گورنری کا زمانہ ہے۔ اُس نے اپنے طرزِ حکومت سے‘ماتحت انگریزوں کو ہدایات سے‘تحریری فرامین سے۔ہر ممکن طریقے سے اِس دوستانہ رویے کو تبدیل کرایا اور انگریزوں کو‘خواہ وہ فوج میں تھے یا سول سروس میں‘ یا راجوں ، مہاراجوں اورنوابوں کے درباروں میں سفارت کاری کر رہے تھے‘ یہ احساس دلایا کہ ہندوستانی محکوم ہیں۔ ان سے وہی سلوک کرنا چاہیے جو آقا غلاموں سے کرتے ہیں؛ چنانچہ 1800ء کے بعد سفید فام آقائوں اور گندمی اور کالے مقامیوں میں فاصلے پیدا ہونے شروع ہو گئے۔شادیوں کا سلسلہ تھم گیا۔ حقّہ پینے‘قالینوں پر بیٹھنے اور انگرکھا ‘پاجامے اور دوپلّی ٹوپی پہننے والے انگریزوں کی تعداد بتدریج کم ہونے لگی۔ دو تین عشروں کے بعد وائٹ مغل ختم ہو گئے۔
ولیم ڈال رمپل کی ’’وائٹ مغلز‘‘ بظاہر تو ایک عشقیہ داستان ہے۔ نظام حیدر آباد کے دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ‘ جو ریذیڈنٹ کہلاتا ہے۔ مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس کا نام کرک پیٹ رِک ہے۔ وہ ایک عالی نسب خاتون خیرالنساء سے محبت کرتا ہے۔ ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ کتاب اُس وقت کے پورے بّرِ صغیر کی عسکری‘اقتصادی اور سماجی تاریخ ہے۔ سکّہ بند تدریسی کتابوں کو پڑھنے سے بّرِصغیر کی رسمی تاریخ سے تو آگاہی ہو جاتی ہے لیکن تہہ در تہہ جو مرئی اور غیر مرئی رویں چل رہی تھیں‘ اُن سے واقفیت اُسی صورت میں ہوتی ہے جب سماجی حوالے سے لکھی گئی تحریریں پڑھی جائیں۔ مثلاً مغلوں کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر میں وہی سٹائل ملتا ہے جو امتحان پاس کرنے کے لیے طالب علم اپناتے ہیں۔زوال کے اسباب کیا تھے؟ اور کارنامے کیا تھے؟ چنائی (مدراس) یونیورسٹی میں تاریخ پڑھانے والے ابراہام ایرالی نے مغلوں کی تاریخ کیا لکھی ہے‘ قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ابراہام نام بتا رہا ہے کہ مصنف ہندو نہیں ہے۔ جزئیات لکھتے وقت یہاں تک بتاتا ہے کہ بابر نے آگرہ کے مضافات میں نئی آبادی کی داغ بیل ڈالی تو اس کا نام ’’کابل ‘‘ رکھا ۔ ایک عرصہ بعد کابل سے خربوزے آئے۔ خربوزہ کاٹتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ابراہام ریلی ، واقعات کے ساتھ اقتصادی اور معاشرتی گتھیاں بھی سلجھاتا جاتا ہے، اور اعداد و شمار سے بتاتا ہے کہ مغلوں کا اقتدار جب نصف النہار پر تھا تو طبقاتی تقسیم اس قدر شدید تھی کہ ساری سلطنت کی ایک چوتھائی دولت پر چند سو افراد کا تصرف تھا۔
ولیم ڈال رمپل تاریخ کو فلسفۂ تاریخ بنانے میں ابراہام ایرالی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ بّرِصغیر میں ڈال رمپل کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی پڑدادی یا مگردادی ہندوستان سے تھی ؛چنانچہ اُسکی رگوں میں ہندوستانی خون دوڑ رہا ہے۔ کیمبرج کا فارغ التحصیل پچاس سالہ ڈال رمپل پہلی بار 1984ء میں دہلی آیا اور پھر دہلی کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ پچیس سال سے وہیں رہ رہا ہے یہ اور بات کہ تابستان (گرمیاں ) لندن اور ایڈنبرا میں گزارتا ہے۔
ڈال رمپل کا اصل کمال یہ ہے کہ اُس کے مآخذ بالکل نئے اور اچھوتے ہیں۔اُس نے لندن‘دہلی اور لاہور کے آرکائیو چھان مارے ہیں۔
کسی بھی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو پامال حوالوں اور روایتی ذرائع کے قریب تک نہیںپھٹکتا ۔ اس نویسندہ نے جب اُس کی معرکہ آرا تصنیف’’لاسٹ مغل‘‘پڑھی تو حالت یہ تھی کہ ہفتوں یوں لگتا تھا دلّی میں بسیرا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی یہ داستان اُس جنگِ آزادی کی دردناک قندیل ہے جو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئی تھی۔ ڈال رمپل صرف انگریزوں کی ڈائریوں اورذاتی یادداشتوں کے حوالے نہیں دیتا بلکہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے روزنامچوں سے بھی استفادہ کرتا
ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ریذیڈنٹ مٹکاف اور اُس کے ماتحت اپنے اپنے دفتروں میں صبح سات بجے پہنچ جاتے تھے ۔گیارہ بجے تک کام کا بیشتر حصّہ نمٹا کر جب وہ گرمی کی شدت گزارنے کے لیے وقفہ کرنے، بیرکوں سے رہائش گاہوں کو پلٹ رہے ہوتے تھے تو شاہی قلعے میں شاہی خاندان کے چشم و چراغ بیدار ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔1875ء میں وہ وقت بھی آیا جب انگریز دہلی پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو کر مایوس ہو نے لگے تھے۔ دہلی کے مسلمان اور ہندو یک جان دو قالب ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کا بیٹا کمان کر رہا تھا۔عیدالاضحی آ گئی۔ حالات اس قدر نازک اور فیصلہ کن تھے کہ بادشاہ نے رواداری کے نقطۂ نظر سے گائے کی قربانی اس سال نہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن ’’مرنے مارنے‘‘ والے اُس وقت بھی موجود تھے۔ شاہی فرمان کو دین میں مداخلت گردان کر ہنگامہ بپا کیا گیا۔ یہ وہ موڑ تھا جب جنگ نے کروٹ بدل لی۔ پانسہ پلٹ گیا۔ ہندو مسلم اختلافات نے لڑتی ہوئی صفوں میں رخنے پیدا کئے۔ دہلی پر نہ صرف انگریزوں کا قبضہ ہو گیا بلکہ حویلیوں پر ہل چلا دیے گئے‘ محلوں کے محلّے نابود ہو گئے اور درختوں کی شاخیں پھانسیاں دینے کے لیے کم پڑ گئیں۔
مگر ڈال رمپل کا اصل شہکار اُس کی تازہ ترین تحقیقی تخلیق۔Rerturn of a Kingہے ۔ یہ انگریزوں کی پہلی افغان جنگ پر طویل تحقیقی مقالہ ہے ع
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
ڈال رمپل کی دُھلی دُھلائی شستہ
ادبی انگریزی‘ تحقیق گھاٹیوں سے گزرتی ہے اور پڑھنے والے کو اُس کے ماحول سے کاٹ کر قندھار کے انار کے باغوں‘غزنی کے مزاروں اور کابل کیشور بازار اور ’ ’ محلّہ عاشقان و عارفاں‘‘ میں لا بٹھاتی ہے اور پھر وہاں سے نکلنے نہیں دیتی۔ 1840-41ء میں انگریزوں نے شاہ شجاع کو کٹھ پتلی حکمران بناکر کابل کے تحت پر بٹھایا۔ انجام یہ ہوا کہ پوری انگریزی فوج سے صرف ایک شخص جان بچا کر کابل سے جلال آباد پہنچ سکا۔ اُسے بھی غالباً افغانوں نے اس لیے چھوڑ دیا کہ جا کر دوسروں کا انجام بتا سکے۔ یہاں بھی ڈال رمپل روایتی مآخذ سے جان بچا کر چلتا ہے۔ کابل میں جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر روزانہ ڈائری لکھنے والی انگریز بیگمات سے لے کر منشی دوست محمد ہراتی اور موہن لال کشمیری تک۔سب کی یادداشتوں اور روزنامچوں سے استفادہ کرتا ہے۔
برطانوی ہند نے افغانستان سے تین جنگیں لڑیں۔ڈال رمپل طالبان کی حکومت پر امریکی حملے کو ’’مغرب کی چوتھی افغان جنگ‘‘ قرار دیتا ہے اور امریکہ کو باور کراتا ہے کہ اُس کا جیتنا امرِ محال ہے۔ ریٹرن آف اے کنگ پڑھ کر دو حقیقتوں کا ادراک شدت سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ جو حماقتیں انگریزوں نے افغانستان میں کی تھیں‘ وہی حماقتیں سو ڈیڑھ سو سال بعد امریکہ بھی کر رہا ہے۔ بالخصوص امریکہ کو بھی افغانستان میں اُسی احمق اور تنگ نظر بیورو کریسی نے تباہ کیا جس نے ہندوستان کی انگریزی حکومت کو افغانستان میں مروایا تھا۔ دوسری بات جو ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے یہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں افغانوں کی تعلیمی‘سماجی‘ عسکری اور روایتی زندگی میں ذرّہ بھر تبدیلی نہیں پیدا ہو سکی ع
زمین جنبد‘ نہ جنبد گُل محمد
1 comment:
خوشی ھوئی کہ آپ بھی ولیم ڈیلریمپل کے لکھنے کے سٹائل کے مداح ہیں۔
ایک تصیح۔ آپ نے بھی وہی صرف ایک لشکری صاحب کے بچ کر آنے کی بات لکھی۔ ڈیلرمپل کی کتاب کے مطابق ایسا نہیں تھا۔ بچ کر واپس آنے والے ہزاروں کی تعداد میں تھے۔ یہ اور بات کہ سب کا حال ابتر تھا۔
اس فتح کے پیچھے افغانوں کی چالاکی و ھوشیاری نہیں، بلکہ انگریزوں کی بیوقوفی تھی، جنہوں نے کابل میں ایک انتہائی نامناسب جگہ پر اپنا کینٹونمنٹ بنایا اور پھر اس کا دفاع نہ کر سکے۔
آج کا زمانہ مختلف ہے۔
انگریزوں کے پاس مالی بحران کی وجہ سے جنگ کے لیے پیسے مک گئے، ورنہ افغانوں اور بعد ازاں پاکستانیوں کی مت مار کر رکھ دیتے۔
لیکن خیر اب طالبان مت ماریں گے پاکستانیوں کی۔
یاد رکھیے گا۔
طالبان پاکستان پر قابض ہو کر رہیں گے۔
Post a Comment