کالم اہلِ خراسان کی سرشت اور نفسیات پر لکھنا تھا کہ حکومت کو تو ان ’’فضول‘‘ موضوعات سے دلچسپی نہیں‘ شاید وزارت خارجہ کے صحرا ہی میں یہ اذان سن لی جائے جہاں ہر کاتبِ تقدیر یورپ اور امریکہ کی تاریخ کے پیچھے پڑا رہتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر کی ارضِ موعود (Promised Land) وہی ہے‘ لیکن دو دن پیشتر ایک ایسا خوشگوار واقعہ پیش آیا‘ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہوئی کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر اس کا ذکر زیادہ ضروری نظر آ رہا ہے۔
یہ واقعہ‘ یہ پیش رفت‘ اس مملکت کی تاریخ میں سنگِ میل ہے۔ امریکی ایسے مواقع پر واٹر شیڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پن دھارا‘ جس سے صحرا چمنستان بن جاتے ہیں‘ جس کے بعد حالات ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں کہ اندرونی کے علاوہ بیرونی سمتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔
قدرت کی یہ کرم فرمائی اس مملکت کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہے ہی‘ خود مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے بھی آسمانی مدد سے کم نہیں۔ تصور کیجیے‘ مسلم لیگ نون برس ہا برس کی ریاضت کے بعد‘ اپنے لاتعداد تھنک ٹینکوں کی محنتِ شاقہ کے بعد‘ اقتدار میں آئی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے۔ اُسے وعدے ایفا کرنے ہیں‘ ملک کی حالت بدلنی ہے‘ فرسودہ سماجی ڈھانچے کی جگہ ایک ترقی پسند جدید‘ سٹرکچر وجود میں لانا ہے‘ معیشت کو نئی صورت عطا کرنی ہے‘ تعلیم کے میدان میں معجزے رونما کرنے ہیں۔ درست کہ زبیر عمر جیسے دانش ور‘ پاکستان کیا پورے ایشیا‘ ایشیا‘ کیا‘ پورے کرۂ ارض کو نئی شکل میں ڈھال سکتے ہیں‘ لیکن ایک کمی بہرطور تھی جسے نون لیگ کے اربابِ حل و عقد شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اس ملک میں دانش کے ایسے ذخیرے تھے جو نون لیگ کی دسترس سے دور لگ رہے تھے۔ رات دن پالیسی سازوں پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی نہ کسی طرح دانش کے ان اچھوتے‘ بے کنار‘ خزانوں تک رسائی ہو جائے‘ پھر ٹیم مکمل ہو جائے گی‘ پھر وعدے ایفا کرنے میں تاخیر نہ ہوگی‘ صحرا تاکستان بن جائیں گے‘ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر آبادیاں سہولتوں سے مالا مال ہو جائیں گی‘ زیریں میدان زرخیزی سے اٹ جائیں گے‘ چلتے دریا رُخ تبدیل کر کے‘ بنجر زمینوں سے بغل گیر ہو جائیں گے‘ جنوبی ایشیا کو ایک نیا ستارا میسر آئے گا‘ ایک تابناک ستارہ‘ صبح کے ستارے کی طرح راہ نما۔ پورا خطہ خوشحالی اور عافیت کے اس جزیرے سے تمتّع اٹھائے گا!
بالآخر دعائیں سنی گئیں۔ آسمانوں میں ہلچل صاف دکھائی دینے لگی۔ یوں لگتا تھا غیر مرئی‘ غیبی‘ کارکنوں کو بتا دیا گیا ہے کہ اس ملک کو مالا مال کرنا ہے۔ وہ کام پر لگ گئے۔ دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے‘ امکانات کے‘ کامرانیوں اور ظفریابیوں کے دروازے کھل گئے۔ ان گنت دروازے۔ بیجنگ میں واقع شہرِ ممنوعہ (Forbidden City) کی طرح۔ ایک محل کے بعد دوسرا محل۔ ایک کھلتا ہوا دروازہ۔ پھر ایک اور… پھر ایک اور۔
یہ حکومت ہی کی نہیں‘ ریاست ہی کی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا کی… پورے خطے کی بخت کُشائی ہے‘ الحمد للہ۔ جے یو آئی (ف) حکومت میں شامل ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے انعام‘ اعزاز ہوتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انعام کے لیے اعزاز ثابت ہوتے ہیں۔ یہ خوش قسمتی جے یو آئی کے لیے نہیں‘ حکومت کے لیے ہے۔ ریاست کے لیے ہے۔ جے یو آئی تو اپنی جھونپڑی کے باہر مزے سے دھوپ میں بیٹھی تھی۔ اُس فقیر کی طرح جو دنیا کی آلائشوں سے بھاگ کر وہاں آ بیٹھا تھا۔ بادشاہ آیا۔ اُس نے فقیر کی خدمت میں عرض کیا۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ فقیر نے ایک شانِ بے اعتنائی سے کہا‘ تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو۔ تم تو خود مانگتے پھرتے ہو‘ ہاں اتنا کر سکتے ہو کہ دھوپ چھوڑ دو۔
حکومت میں شامل کرنے کی بے تابی تو خود حکمران جماعت کو تھی۔ جے یو آئی تو اس بارِ گراں سے‘ بدنامی کی اس گھڑی سے بھاگ رہی تھی۔ لیکن تابکے؟ ریاست کی خاطر‘ عوام کی خاطر‘ اُسے یہ کانٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا پڑا۔ اللہ اس قربانی کو قبول فرمائے۔
ہمارے دوست مسعود ملک نے چند مشکل وزارتوں کے لیے ’’چکنی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چکنی وزارتیں چلانا سہل نہیں۔ لیکن یہ بارِ گراں ہمیشہ جے یو آئی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اُسے ہمیشہ ہی مشکل یعنی چکنی وزارتیں سنبھالنا پڑتی ہیں‘ جنوب کے ساحلی شہر کی ایک مڈل کلاس فیم جماعت بھی اپنی مشکل پسندی کی وجہ سے چکنی وزارتوں کی خواہاں رہتی ہے۔ ایک زمانے میں تو ہائوسنگ اور ورکس کی چکنی وزارت کے لیے اس جماعت اور جے یو آئی میں مقابلہ ہوا۔ اللہ نے سرخرو کیا۔ یہ وزارت طویل عرصہ کے لیے جے یو آئی کے نمائندے کے پاس رہی۔ وہی اس وزارت کا عہدِ زریں تھا۔ جے یو آئی کو جہاز رانی کی مشکل وزارت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ افغانستان کے کنٹینر اسی پورٹ اینڈ شپنگ وزارت کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جرگہ کے احیا کی کوششیں بھی تو جے یو آئی نے کی ہیں جو افغان اور طالبان مسئلہ کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اگر پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت بھی مل جائے تو یہ ایک مکمل ٹول کِٹ ہوگی جس کی مدد سے
جے یو آئی ٹھوکا ٹھوکی کو منطقی انجام تک پہنچا سکے گی۔
دارالحکومت کے جنوب مغرب سے یہ جو برکھا‘ بارش سے لدے بادلوں کو اپنے جلو میں لیے‘ اُٹھی ہے‘ کیا ہی خوش بختی کی علامت ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل۔ کشمیر کمیٹی۔ وزارتِ مواصلات‘ جو ملنے کی توقع ہے‘ یہ ستون ہیں جن پر مسلم لیگ نون حکومت کی مضبوطی استوار ہوگی۔ اس میں ابھی چوتھا ستون بھی شامل ہونا ہے لیکن تادمِ تحریر‘ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سا ہوگا۔
اب تو مسلم لیگ نون کی وزارت کے پاس کوئی بہانہ ہی نہیں رہا۔ اُسے چاہیے کہ اب رفتار تیز تر کرے اور قوم کو منزل سے ہمکنار کرے ع
تیز ترک گام زن منزلِ ما دورنیست
جنوب میں جناب ممتاز بھٹو اور ان کے صاحبزادے پہلے ہی حکومت کے ہم قدم ہیں۔ ممتاز بھٹو فیوڈلزم کے سخت خلاف ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے دم کو غنیمت سمجھے اور ان سے زرعی اصلاحات پیش کرنے اور نافذ کرنے کا کام لے۔ اسی طرح جے یو آئی کے پاس نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے بہت کچھ ہے۔ مالیات پر بھی اس جماعت کی گہری نظر ہے۔ اگر وزارتِ خزانہ اسے سونپی جائے تو کیا عجب ملک میں اقتصادی انقلاب کروٹیں لیتا دکھائی دے۔
سائیں ظہور بھی کہاں یاد آ گیا ع
سامنے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
یہ واقعہ‘ یہ پیش رفت‘ اس مملکت کی تاریخ میں سنگِ میل ہے۔ امریکی ایسے مواقع پر واٹر شیڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پن دھارا‘ جس سے صحرا چمنستان بن جاتے ہیں‘ جس کے بعد حالات ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں کہ اندرونی کے علاوہ بیرونی سمتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔
قدرت کی یہ کرم فرمائی اس مملکت کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہے ہی‘ خود مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے بھی آسمانی مدد سے کم نہیں۔ تصور کیجیے‘ مسلم لیگ نون برس ہا برس کی ریاضت کے بعد‘ اپنے لاتعداد تھنک ٹینکوں کی محنتِ شاقہ کے بعد‘ اقتدار میں آئی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے۔ اُسے وعدے ایفا کرنے ہیں‘ ملک کی حالت بدلنی ہے‘ فرسودہ سماجی ڈھانچے کی جگہ ایک ترقی پسند جدید‘ سٹرکچر وجود میں لانا ہے‘ معیشت کو نئی صورت عطا کرنی ہے‘ تعلیم کے میدان میں معجزے رونما کرنے ہیں۔ درست کہ زبیر عمر جیسے دانش ور‘ پاکستان کیا پورے ایشیا‘ ایشیا‘ کیا‘ پورے کرۂ ارض کو نئی شکل میں ڈھال سکتے ہیں‘ لیکن ایک کمی بہرطور تھی جسے نون لیگ کے اربابِ حل و عقد شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اس ملک میں دانش کے ایسے ذخیرے تھے جو نون لیگ کی دسترس سے دور لگ رہے تھے۔ رات دن پالیسی سازوں پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی نہ کسی طرح دانش کے ان اچھوتے‘ بے کنار‘ خزانوں تک رسائی ہو جائے‘ پھر ٹیم مکمل ہو جائے گی‘ پھر وعدے ایفا کرنے میں تاخیر نہ ہوگی‘ صحرا تاکستان بن جائیں گے‘ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر آبادیاں سہولتوں سے مالا مال ہو جائیں گی‘ زیریں میدان زرخیزی سے اٹ جائیں گے‘ چلتے دریا رُخ تبدیل کر کے‘ بنجر زمینوں سے بغل گیر ہو جائیں گے‘ جنوبی ایشیا کو ایک نیا ستارا میسر آئے گا‘ ایک تابناک ستارہ‘ صبح کے ستارے کی طرح راہ نما۔ پورا خطہ خوشحالی اور عافیت کے اس جزیرے سے تمتّع اٹھائے گا!
بالآخر دعائیں سنی گئیں۔ آسمانوں میں ہلچل صاف دکھائی دینے لگی۔ یوں لگتا تھا غیر مرئی‘ غیبی‘ کارکنوں کو بتا دیا گیا ہے کہ اس ملک کو مالا مال کرنا ہے۔ وہ کام پر لگ گئے۔ دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے‘ امکانات کے‘ کامرانیوں اور ظفریابیوں کے دروازے کھل گئے۔ ان گنت دروازے۔ بیجنگ میں واقع شہرِ ممنوعہ (Forbidden City) کی طرح۔ ایک محل کے بعد دوسرا محل۔ ایک کھلتا ہوا دروازہ۔ پھر ایک اور… پھر ایک اور۔
یہ حکومت ہی کی نہیں‘ ریاست ہی کی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا کی… پورے خطے کی بخت کُشائی ہے‘ الحمد للہ۔ جے یو آئی (ف) حکومت میں شامل ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے انعام‘ اعزاز ہوتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انعام کے لیے اعزاز ثابت ہوتے ہیں۔ یہ خوش قسمتی جے یو آئی کے لیے نہیں‘ حکومت کے لیے ہے۔ ریاست کے لیے ہے۔ جے یو آئی تو اپنی جھونپڑی کے باہر مزے سے دھوپ میں بیٹھی تھی۔ اُس فقیر کی طرح جو دنیا کی آلائشوں سے بھاگ کر وہاں آ بیٹھا تھا۔ بادشاہ آیا۔ اُس نے فقیر کی خدمت میں عرض کیا۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ فقیر نے ایک شانِ بے اعتنائی سے کہا‘ تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو۔ تم تو خود مانگتے پھرتے ہو‘ ہاں اتنا کر سکتے ہو کہ دھوپ چھوڑ دو۔
حکومت میں شامل کرنے کی بے تابی تو خود حکمران جماعت کو تھی۔ جے یو آئی تو اس بارِ گراں سے‘ بدنامی کی اس گھڑی سے بھاگ رہی تھی۔ لیکن تابکے؟ ریاست کی خاطر‘ عوام کی خاطر‘ اُسے یہ کانٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا پڑا۔ اللہ اس قربانی کو قبول فرمائے۔
ہمارے دوست مسعود ملک نے چند مشکل وزارتوں کے لیے ’’چکنی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چکنی وزارتیں چلانا سہل نہیں۔ لیکن یہ بارِ گراں ہمیشہ جے یو آئی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اُسے ہمیشہ ہی مشکل یعنی چکنی وزارتیں سنبھالنا پڑتی ہیں‘ جنوب کے ساحلی شہر کی ایک مڈل کلاس فیم جماعت بھی اپنی مشکل پسندی کی وجہ سے چکنی وزارتوں کی خواہاں رہتی ہے۔ ایک زمانے میں تو ہائوسنگ اور ورکس کی چکنی وزارت کے لیے اس جماعت اور جے یو آئی میں مقابلہ ہوا۔ اللہ نے سرخرو کیا۔ یہ وزارت طویل عرصہ کے لیے جے یو آئی کے نمائندے کے پاس رہی۔ وہی اس وزارت کا عہدِ زریں تھا۔ جے یو آئی کو جہاز رانی کی مشکل وزارت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ افغانستان کے کنٹینر اسی پورٹ اینڈ شپنگ وزارت کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جرگہ کے احیا کی کوششیں بھی تو جے یو آئی نے کی ہیں جو افغان اور طالبان مسئلہ کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اگر پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت بھی مل جائے تو یہ ایک مکمل ٹول کِٹ ہوگی جس کی مدد سے
جے یو آئی ٹھوکا ٹھوکی کو منطقی انجام تک پہنچا سکے گی۔
دارالحکومت کے جنوب مغرب سے یہ جو برکھا‘ بارش سے لدے بادلوں کو اپنے جلو میں لیے‘ اُٹھی ہے‘ کیا ہی خوش بختی کی علامت ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل۔ کشمیر کمیٹی۔ وزارتِ مواصلات‘ جو ملنے کی توقع ہے‘ یہ ستون ہیں جن پر مسلم لیگ نون حکومت کی مضبوطی استوار ہوگی۔ اس میں ابھی چوتھا ستون بھی شامل ہونا ہے لیکن تادمِ تحریر‘ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سا ہوگا۔
اب تو مسلم لیگ نون کی وزارت کے پاس کوئی بہانہ ہی نہیں رہا۔ اُسے چاہیے کہ اب رفتار تیز تر کرے اور قوم کو منزل سے ہمکنار کرے ع
تیز ترک گام زن منزلِ ما دورنیست
جنوب میں جناب ممتاز بھٹو اور ان کے صاحبزادے پہلے ہی حکومت کے ہم قدم ہیں۔ ممتاز بھٹو فیوڈلزم کے سخت خلاف ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے دم کو غنیمت سمجھے اور ان سے زرعی اصلاحات پیش کرنے اور نافذ کرنے کا کام لے۔ اسی طرح جے یو آئی کے پاس نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے بہت کچھ ہے۔ مالیات پر بھی اس جماعت کی گہری نظر ہے۔ اگر وزارتِ خزانہ اسے سونپی جائے تو کیا عجب ملک میں اقتصادی انقلاب کروٹیں لیتا دکھائی دے۔
سائیں ظہور بھی کہاں یاد آ گیا ع
سامنے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
No comments:
Post a Comment