skip to main |
skip to sidebar
بھارت نے 26 جنوری 1950ء کو گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ (1935ء) ختم کر کے اپنے ملک میں نیا آئین نافذ کردیا تھا۔ اس حوالے سے 26 جنوری کو عام تعطیل ہوتی ہے اور یومِ جمہوریہ منایا جاتا ہے۔ دہلی میں عسکری پریڈ تقریبات کا حصہ ہوتی ہے۔ پریڈ میں ہر ریاست اپنی اپنی نمائندگی کرتی ہے۔ بڑی بڑی گاڑیوں پر ایسی یادگاریں یا امتیازی نشانات سوار کر کے پریڈ کے ساتھ پھرائے جاتے ہیں جو متعلقہ ریاست کی تاریخی‘ ثقافتی یا سماجی نمائندگی کرتے ہیں۔ اب کے 26 جنوری کی پریڈ میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کرناٹک کی ریاست نے پریڈ میں اپنی نمائندگی ٹیپو سلطان کے تابلو (Tableau) سے کی۔ ٹیپو کا بہت بڑا مجسمہ رکھا گیا جس میں وہ تلوار لہرا رہا تھا۔ ساتھ ہی شیر تھا جو ٹیپو کا نام بھی تھا اور نشان بھی۔ ساتھ اُس کے سپاہی تھے‘ جو اسی زمانے کا لباس پہنے تھے۔ کرناٹک کی ریاست کا اصل نام میسور تھا۔ 1973ء میں بھارتی سرکار نے اسے کرناٹک کا نام دے دیا۔ بنگلور اس کا دارالحکومت ہے جو آئی ٹی کا بہت بڑا مرکز ہے۔
پریڈ میں ٹیپو سلطان کے تابلو سے پورے بھارت میں ہلچل مچ گئی۔ اکثر بھارتیوں کے نزدیک ٹیپو کو بطور ہیرو قبول کرنا مشکل ہو گیا۔ میڈیا میں مباحثہ چھڑ گیا جو بڑھتے بڑھتے تلخ بحث کی شکل اختیار کر گیا۔ ٹوئٹر پر ایک طویل مناظرہ برپا ہو گیا جس کی گونج بھارتی میڈیا سے ہوتے ہوتے لندن میں بی بی سی تک سنائی دے رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق دس ہزار تبصرے اب تک درج ہو چکے ہیں۔ چند کمنٹ‘ مشتے‘ نمونہ ازخروارے‘ یہ ہیں:
ٹیپو واحد بادشاہ ہے جو میدانِ جنگ میں ختم ہوا۔ اس نے آزادی کے لیے اپنے بچے تک گروی رکھ دیے۔ وہ اصلی شیر ہے۔
………
حیدر علی ایران سے تھا اور حملہ آور تھا۔ ٹیپو اس کا بیٹا تھا۔ یہ لوگ ہندوستانی نہیں تھے۔ اگر ٹیپو کو ہیرو مان لیں تو پھر بابر‘ محمود غزنوی‘ نادرشاہ‘ غوری اور محمد بن قاسم سب کو ہیرو ماننا پڑے گا۔
………
جو ٹیپو کو ہیرو بنا کر پیش کر رہے ہیں انہیں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں معلوم! اس نے ہزاروں ہندوئوں کو قتل کیا۔ مندر جلا دیے اور آج ہم اُسے اس لیے ہیرو مان لیں کہ وہ تمہارے فرقے سے تھا؟
………
میں ایک سیدھا سا سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ جب اس ملک میں ہندوئوں کے ہیروز کی تعریف کی جاتی ہے تو کیا کبھی کسی مسلمان نے اعتراض کیا؟ جب کسی مسلمان کا نام لیا جاتا ہے تو کیوں پیشانیوں پر بل پڑ جاتے ہیں اور کیوں لیکچر دیے جاتے ہیں کہ مذہب سے بلند ہو کر سوچنا چاہیے؟ آخر دوہرا معیار کیوں؟ سارے ہیرو خواہ وہ ہندو ہیں یا مسلمان‘ سکھ ہیں یا عیسائی‘ ہمارے اپنے ہیرو ہیں!
………
تو کیا تمہیں تاریخ پی ٹی سکھانے والے استاد نے پڑھائی تھی؟
………
تم لوگ تاریخ نہیں بدل سکتے۔ ٹیپو اصل ہیرو ہے۔ اس نے مادرِ وطن کا دفاع کیا۔ اس کے برعکس نظام اور مرہٹے انگریزوں کا ساتھ دیتے رہے اور ان کی مدد سے انگریز قابض ہوئے۔ ٹیپو کی مخالفت کرنے والے بھارت کے غدار ہیں۔
………
احمق! ٹیپو نے کیرالہ کے تین ہزار سے زیادہ مندروں کو تباہ و برباد کیا اور لوٹا ہوا مال میسور روانہ کردیا۔
………
ٹیپو کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نے لاکھوں ہندوئوں کو زبردستی مسلمان بنایا۔ جنہوں نے مزاحمت کی‘ انہیں مار دیا گیا۔ حیرت ہے کہ کچھ لوگ اس ملک میں اب بھی اُس کی تعریف کرتے ہیں!
………
یہ بات خوش آئند ہے کہ کرناٹک کی حکومت نے ٹیپو کو اُس کا اصل مقام دیا۔
………
اور کرناٹک کی حکومت یہ بھول گئی کہ ٹیپو نے ہندوئوں پر ظلم ڈھائے۔
………
ٹیپو نے جہاں مسجدیں تعمیر کیں‘ وہاں مندر بھی بنائے۔
………
یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ ٹیپو نے کیرالہ میں ہندوئوں کو مارا لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اُس کی بہادری کی انگریز حکومت تک نے تعریف کی۔ اس نے دنیا میں سب سے پہلے راکٹ بنایا جس کی امریکیوں نے سول وار میں نقل کی۔
………
افسوس! ہم ٹیپو کو سلام کرنے کے لیے تیار نہیں‘ لیکن مودی کو ووٹ ڈال دیتے ہیں۔
………
مظلوم کون ہے؟ وہ جنہوں نے پہلے ٹرین کو آگ لگائی تھی یا وہ جنہوں نے ردعمل ظاہر کیا۔
………
یہ ایک لامتناہی بحث ہے جو گزشتہ پانچ دن سے بھارت میں چل رہی ہے۔ ہزاروں لوگ ٹویئٹر کے ذریعے اس میں شریک ہیں۔ ٹیپو کے حامی‘ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس یا پندرہ فی صد سے زیادہ نہیں۔ یہ ہے وہ عملی صورتِ حال جس کے متعلق قائداعظم نے تنبیہ کی تھی۔ 1940ء میں مسلم لیگ اجلاس کے صدارتی خطبے میں انہوں نے وہ نقشہ کھینچا جس کا بھارتی مسلمان آج سامنا کر رہے ہیں۔ قائداعظم نے کہا تھا: ’’ہندو اور مسلمان تاریخ کے جن سرچشموں سے قوت لیتے ہیں‘ وہ ایک دوسرے سے مکمل طور پر مختلف ہیں۔ اُن کے رزم نامے الگ ہیں۔ ہیرو الگ الگ ہیں اور واقعات الگ الگ ہیں۔ اکثر و بیشتر ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہے۔ اسی طرح ایک کی
فتح دوسرے کی شکست ہے‘‘۔
آج جو حضرات کہتے ہیں کہ پاکستان بنانے کی کیا ضرورت تھی‘ انہیں قائداعظم کی بصیرت اور دوراندیشی پر غور کرنا چاہیے۔ آج بھارت کے مسلمان بچے مجبور ہیں کہ شیواجی سندھیا اور انندپال کو ہیرو کے طور پر کتابوں میں پڑھیں اور ٹیپو اور محمود غزنوی کا ذکر غیر ملکی اور دشمن کے طور پر سنیں۔ یہ 1947ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کے درمیان ہونے والی کسی بحث کا تذکرہ نہیں۔ یہ آج کے بھارت کا واقعہ ہے۔ ٹیپو کو پورے بھارت کا تو کیا‘ ایک ریاست کا ہیرو بھی نہیں تسلیم کیا جا رہا!
لیکن اس آئینے میں ایک اور چہرہ بھی ابھرتا نظر آ رہا ہے۔ آج پاکستان میں بھی وہی صورتِ حال ہے جس کی طرف قائداعظم نے اشارہ کیا تھا۔ ہیرو اور ولن مختلف۔ ایک کی فتح‘ دوسرے کی شکست! ہم بھارتی مسلمانوں کی کیا اشک شوئی کریں گے‘ جب کہ یہاں قائداعظم کے پاکستان میں قائداعظم کو قائداعظم نہیں سمجھا جا رہا ؎
یہاں تو بھرتے نہیں زخم زار اپنے ہی
کسی کی زرد محبت کی کیا خبر لیتے
آج پاکستان دو گروہوں میں بٹ چکا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ حقیقت یہی ہے۔ ایک گروہ کے شہید الگ ہیں اور دوسرے کے الگ۔ ایک کے ہیرو دوسرے کے دشمن ہیں اور ایک کے دشمن دوسرے کے ہیرو۔ ایک کی وفاداریاں اس دھرتی سے اور اس دھرتی کی مٹی‘ چاندنی اور ہوا سے ہیں اور دوسرے کی وابستگیاں کہیں اور ہیں۔
افسوس! آج حسین احمد مدنی تو بہت ہیں‘ قائداعظم اور اقبال کوئی نہیں!
قافلہ دس تاجروں پر مشتمل تھا۔ کچھ کے کنبے بھی ساتھ تھے۔ اونٹوں پر تجارتی سامان تھا۔ مسافر بیل گاڑیوں پر سوار تھے۔ دو منزلوں کے بعد کچھ گھڑسوار نوجوان بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ دو دِن اس قافلے نے ایک بڑے شہر کے نواح میں پڑائو کیا۔ وہاں تین شخص ملے جن کی منزل وہی تھی جہاں قافلے نے جانا تھا۔ ان میں سے دو ادھیڑ عمر تھے اور ایک نسبتاً نوجوان۔نوجوان ہندو تھا اور باقی دو مسلمان۔ خوش اخلاق‘مودّب اور نرم گفتار۔ انہوں نے قافلے کے امیر سے بات کی کہ وہ تین اکیلے سفر کریں گے تو ڈاکوئوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر انہیں بھی قافلے میں شامل کر لیا جائے۔ امیر نے اپنے ساتھیوں سے سے مشورہ کیا اور انہیں شامل کر لیا۔
یہ تینوں افراد حسنِ اخلاق کا نمونہ تھے ۔جہاں کسی خاتون یا بزرگ کو کوئی کام پڑا‘ یہ دوڑ کر اُس کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ جہاں پڑائو ہوتا‘یہ خیمے لگاتے‘ راتوں کو پہرہ دیتے‘اگر شہر دور ہوتا تو اشیائے خورو نوش بھی یہی لاتے۔ کنوئوں سے پانی کے مشکیزے لاتے۔ ان میں سے ایک قصّہ گوئی میں بھی طاق تھا۔ خواتین اور بچّوں کو داستان سناتا تو سماں باندھ دیتا۔ دو ہفتے گزرے تو یہ پورے قافلے کی جان بن گئے۔ اکثر قافلے کے امیر اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ کھانا کھاتے۔ کئی دفعہ امیر نے انہیں بھاری رقم دے کر شہر بھیجا‘ کیا مجال جو ایک دمڑی کی کمی بیشی بھی کی ہو۔ ہر مسافر اپنے سامان‘اپنی قیمتی اشیا اور اگلے پڑائو کے بارے میں ان سے ضرور مشورہ کرتا۔
یہ جھٹپٹے کا وقت تھا۔سارا دن چل چل کر سب کا تھکاوٹ کے مارے برا حال تھا ۔دریا کاکنارہ نظر آیا۔ وسیع میدان۔پانی وافر‘یہیں پڑائو کرنے کا فیصلہ ہوا۔نصف کو س کے گھیر میں بیل گاڑیاں‘ اونٹ اور گھوڑے پھیل گئے۔ جس نے جو جگہ مناسب سمجھی‘خیمہ نصب کر لیا۔قافلے کے امیر کا‘ جو ایک خوشحال تاجر تھا‘خیمے کا رُخ دریا کی طرف تھا۔ کھانا کھانے کے بعد امیر قالین پر لیٹ گیا۔ اُن تین میں سے ایک شخص اندر آیا ‘ امیر اُٹھ بیٹھا‘آنے والے نے پوچھا‘میں سونے لگا تھا لیکن پھر سوچا کہ آپ سے پوچھ لوں کوئی کام تو نہیں‘ وہ امیر کی پشت پر کھڑا تھا۔ بجلی کی تیزی سے اس نے اپنے کندھے سے ریشمی رومال اتارا ‘امیر کے سر کے اوپر سے اُس کے گلے میں ڈالا اور رومال کے دونوں سروں کو پیچھے سے کس کر مروڑ نے لگ گیا۔ امیر کو چیخنے کا وقت بھی نہ ملا۔ اس نے پورے زور سے رومال کو کسا‘امیر گر پڑا‘اُس کے ہاتھ زور لگانے سے شل ہو رہے تھے لیکن اُس نے اُسی وقت گرفت ڈھیلی کی جب امیر کے مرنے کا یقین ہو گیا۔ اُس نے امیر کی کمر کے ساتھ بندھی ہمیانی سے سونے کے سکّے اور جواہرات نکال لیے‘ باقی دو بھی اپنے اپنے شکار کو مار چکے تھے۔ اُن کے پانچ اور ساتھی اِس دریا کے پاس پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ قافلے کے ساتھ ساتھ‘ ایک دو کوس کے فاصلے پر سفر کرتے رہے تھے اور جہاں پڑائو ہوتا‘ قریبی شہر یا قصبے کے بازار میں اپنے اجلاس منعقد کر لیتے‘دریا کے کنارے والا پڑائو‘آخری پڑائو قرار دیا گیا‘آٹھ ٹھگوں نے کمال مہارت سے پورے قافلے کو ٹھکانے لگایا۔ ان میں سے ایک گورکن تھا۔تدفین کے بعد‘ہموار’’قبروں‘‘ کے اوپر چولہے بنا کر لکڑیاں جلائی گئیں‘ اب کسی کو شک نہیں ہو سکتا تھا کہ یہاں زمین کھودی گئی ہے۔
یہ تھا اُن رسوائے زمانے ٹھگوں کا طریقِ واردات جنہوں نے انیسویں صدی کی پہلی تین دہائیوں میں تقریباً پورے ہندوستان کو آماجگاہ بنایا ہوا تھا۔ خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ لوگ ضروری سفر کرنے سے بھی گھبراتے تھے۔طریقِ واردات ایسا تھا کہ مسلّح محافظ بھی بے بس تھے۔ رومال یا پگڑی واحد ہتھیار تھا۔ چرب زبانی ایسی کہ ہوشیار سے ہوشیار مسافر بھی اعتبار کر لیتا۔ایک اندازے کے مطابق بیس لاکھ اور ایک اور حساب کی رو سے ایک لاکھ مسافر مارے گئے۔ بہرحال ‘تعداد جو بھی تھی‘تجارت جامد ہو گئی تھی۔ قافلے رک گئے تھے اور ہر شخص دوسرے سے خائف رہنے لگا تھا۔
1828ء میں ولیم بنٹنگ ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر ہوا۔ اُس نے ٹھگوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا اور ایک سول سرونٹ ہنری سِلیمن کو ‘ جو سابق جرنیل بھی تھا‘ اس مہم پر مامور کیا۔ اس مہم کو کامیاب کرنے کے لیے انگریز حکومت نے سائنسی بنیادوں پر کام کیا اور چار خاص تکنیک استعمال کیں۔ اوّل ‘ ہر پولیس چیف اور انتظامی سربراہ نے اپنے پڑوسی ضلع یا ریاست کو اپنے علاقے کے ٹھگوں کے طریقِ واردات اور دیگر تفصیلات سے پوری طرح آگاہ رکھا۔ یوں ہندوستان بھر میں مسافر خبردار ہو گئے ۔ دوم ۔ بڑے بڑے مجرموں کو ’’سلطانی گواہ‘‘ بنا کر خفیہ معلومات حاصل کر لی گئیں۔ سوم۔ ایسی مستعد پولیس فورس کھڑی کی گئی جس کی مثال خود برطانیہ میں نہ تھی۔ ٹھگی کا باقاعدہ محکمہ بنا اور مخصوص عدالتیں قائم کی گئیں۔ سفارش کا کوئی تصّور ہی نہ تھا۔ چہارم جاسوسی کا ایسا جال بچھایا گیا کہ ٹھگ بے بس ہو گئے۔ حملوں کا وقت‘تکنیک‘ ٹھگوں کی تعداد‘ ان کے حلیے‘واردات کے بعد ان کا طرزِ عمل اور آبادیوں سے گریز۔ان اطلاعات نے پولیس کا کام آسان کر دیا۔اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ ٹھگ صرف تاریخ میں باقی رہ گئے۔ ولیم بنٹنگ اور ہنری سِلیمن کا نام بھی تاریخ میں زندہ ہے لیکن ہیرو کے طور پر!!
آج ہم اہلِ پاکستان کو بالعموم اور اہلِ پنجاب کو بالخصوص اُسی صورتِ حال کا سامنا ہے۔ ٹھگوں کے بجائے ڈاکوئوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کسی کی کار محفوظ ہے نہ موٹر سائیکل نہ گھر‘ نہ سازو سامان ‘ نہ جان نہ عزت! امیر ہے یا غریب کروڑ پتی ہے یا مڈل کلاس‘ دکاندار ہے یا سرکاری ملازم‘ ڈاکٹر ہے یا صحافی‘ غیر محفوظ ہے۔ شروع شروع میں یہ تاثر تھا کہ بھتہ خور اور اغوا کار قبائلی علاقوں سے ہیں لیکن اب ہر کوئی اس میں شامل ہے۔ سابق سفیر اور کالم نگار جاوید حفیظ کے گھر ڈاکہ ڈالنے والے آزاد کشمیر سے تھے۔ سلیم صافی اور خورشید ندیم دونوں اپنی اپنی گاڑیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ گلی کوچوں کے سِروں پر زنجیریں بندھی ہیں۔ پرائیویٹ گارڈ مہّیا کرنا اربوں کا بزنس بن چکا ہے۔ پولیس کے افسر بے بس ہیں اور اہلکار ڈاکوئوں کے ساتھی۔ دن ہو یا رات‘ شام ہو یا دوپہر یا صبح‘کسی بھی گھر میں ڈاکو گُھس آتے ہیں ‘ اہلِ خانہ کو رسیوں سے باندھتے ہیں‘ آرام سے تلاشی لیتے ہیں ‘سامان باندھتے ہیں‘ کچن میں چائے بنا کر پیتے ہیں اور اطمینان سے چل دیتے ہیں۔ لاہور‘ فیصل آباد‘ گوجرانوالہ‘ راولپنڈی‘ ڈاکوئوں کے لیے جنت بنے ہوئے ہیں‘ انہیں معلوم ہے کہ پولیس ساری کی ساری وی آئی پی ڈیوٹی پرمامور ہے! وفاقی دارالحکومت سے اوسطاً تین یا چار گاڑیاں روزانہ چرائی جا رہی ہیں ۔ لاہور میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اِس ’’کاروبار‘‘ کے پھلنے پھولنے کا یہ عالم ہے کہ خریدار کار چوروں کو باقاعدہ ’’آرڈر‘‘ دیتے ہیں کہ فلاں ماڈل کی فلاں کار یا پجارو درکار ہے!
ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہو گی کہ حکومت‘ وفاقی ہے یا صوبائی‘ ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ اس کا سبب خدانخواستہ یہ نہیں ہے کہ حکومت نا اہل ہے یا غافل۔ ایسی کوئی بات نہیں۔حکومت کی مجبوری یہ ہے کہ وہ مصروف ہے۔ ڈاکوئوں ‘کار چوروں اور اغوا کاروں کے استیصال سے کہیں زیادہ اہم فرائض ہیں جن کی انجام دہی میں حکمران پھنسے ہوئے ہیں۔ اہم ترین کام یہ ہے کہ ‘انہوں نے پاکستان کو ترکی بنانا ہے۔ اس کے لیے آئے دن ترکی جانا اور اپنے ملک میں رہ کر ترک وزیروں افسروں تاجروں سے ملنا ازحد ضروری ہے۔ پھر بھارت میں کوڑے کرکٹ کو کھپانے والے کارخانوں اور دہلی کی میٹرو ریل کا مطالعہ ہے۔ شہروں میں میٹرو بسوں کے منصوبے ہیں جو ڈاکوئوں کے کام آئیں گے کیونکہ شہری تو اغوا ہو رہے ہیں یا لُٹنے کے بعد گداگر بن رہے ہیں اور گداگر میٹرو بسوں میں سوار نہیں ہوا کرتے۔ اس کے علاوہ ایک اور ضروری پراجیکٹ وفاقی کابینہ میں پنجاب کی نمائندگی کو ستّر فیصد سے بڑھا کر پچانوے فیصد کرنا ہے۔سندھی وزیروں کے مستعفی ہونے کے بعد یہ کام زیادہ ایمرجنسی کے ساتھ سر پر آن پڑا ہے۔زیادہ تر نوجوان لیپ ٹاپ ڈاکے مار کر حاصل کر رہے ہیں‘ جو رہ گئے ہیں انہیں لیپ ٹاپ حکومت نے مہیا کرنے ہیں۔پھر طالبان کا مسئلہ ہے جس میں حکومت الجھی ہوئی ہے۔ مذاکرات کرنے ہیں یا آپریشن، اس سوچ بچار میں کم از کم پندرہ سے بیس سال لگیں گے‘ یہ کوئی آسان مسئلہ نہیں کہ پانچ سات مہینوں میں فیصلہ ہو جائے۔
تو پھر ہم عوام کیا کریں؟ہمارے لیے ایک ہی حل رہ جاتا ہے کہ برطانوی حکومت سے فریاد کریں کہ ولیم بنٹنگ اور ہنری سِلیمن کی آل اولاد کو ہمارے ڈاکوئوں کے سدِّباب کے لیے بھیجے۔ولیم بنٹنگ اور ہنری سلیمن کے پڑپوتے ہماری آخری امید ہیں۔حکومت ہمیں ڈاکوئوں کا غلام بنانا چاہتی ہے لیکن اس سے بہتر ہے کہ ہم اپنے سابق آقائوں کے پڑپوتوں کے غلام بن جائیں۔
طالبان کے پاس ایک ایسا ہتھیار ہے جو پاکستانی حکومت کے پاس نہیںع
مرے پاس ایسا طلسم ہے جو کئی زمانوں کا اسم ہے
اور وہ ہے یونٹی آف کمانڈ۔فیصلہ اُن کے امیر نے کرنا ہے یا شوریٰ نے۔ اس کے علاوہ کوئی دُم ہے نہ پخ جو اُن کی قوتِ فیصلہ کو متاثر کرے اور فیصلہ ہو جانے کے بعد فیصلے کو غیر موثر کر دے۔ انہوں نے کسی فضل الرحمن کو خوش کرنا ہے نہ کسی منّور حسن کو ۔ کوئی اے پی سی نہیں جو انہیں زنجیر بہ پا کر دے۔ نہ ہی یہ کام‘ جو کچھ بھی یہ کام ہے‘ اُن کا جُزوقتی (پارٹ ٹائم) کام ہے اور نہ یہ کوئی بزنس ہے جو اُن کی ترجیحات پر شب خون مارے۔
اس کے مقابلے میں حکومتِ پاکستان نے ہر معاملے میں اتنے پیچ ڈالے ہوئے ہیں کہ ہر طرف پہیلیاں ہی پہیلیاں ہیں‘ کوئی منظر شفاف نہیں! کبھی کسی ایسے مولانا صاحب کو خوش کرنا ہے جو سر تاپا مفادات کی سیاست میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اخلاص سے ان کا صرف اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ سورہ اخلاص کی تلاوت کرتے ہیں۔ کبھی کسی ایسے مذہبی رہنما کو ساتھ ملانے کی فکر ہے جو تاریک قوتوں کی بھر پور نمائندگی کرتے ہیں اور شاید ہی کوئی بات انہوں نے کبھی منطقی اور معقول (Rational)کی ہو۔ایک مرحوم رہنما نے تو واضح طور پر اعلان کیا تھا کہ طالبان کسی بھی کارروائی کا بے شک اقرار کریں‘ ہم نہیں مانیں گے!
اے پی سی کیا ہے؟ذمّہ داری سے اغماض برتنے کا سیاسی حربہ۔ قوتِ فیصلہ کی کمی پر پردہ ڈالنے کی ایسی کوشش جو صاف بتا رہی ہے کہ اصل مقصد التوا ہے۔ ٹالتے رہو‘ ٹالتے رہو‘ تاوقتیکہ حالات کا ریلا خود ہی کسی سمت لے جائے۔ پہلے پاکستان اس غلطی کا خمیازہ بھگت رہا ہے کہ غیر ریاستی عناصر (نان سٹیٹ ایکٹرز) کی کفالت و پرورش کرتا رہا۔ اب یہ حکومت ایسے اداروں کو تقویت پہنچا رہی ہے جو ’’ماورائے پارلیمنٹ‘‘ ہیں۔ کیا دنیا میں دوسرے جمہوری ممالک معاملات طے کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے باہر اُن قوتوں کو اکٹھا کرتے پھرتے ہیں جو انتخابات میں مسترد ہو گئیں؟ حکومت کی مثال اُس شخص کی ہے جو طوفان کے بعد ایک درخت کی شاخ سے لٹکا ہوا تھا ۔نیچے متلاطم دریا تھا۔ اُس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ اُسے بچائے۔ فرشتے نے آواز دی کہ ٹہنی چھوڑ دو۔اُس شخص نے بلند آواز میں کہا۔’’کیا کوئی اور ہے؟‘‘عوام نے انتخابات میں مسلم لیگ کو مینڈیٹ دیا ہے۔ فیصلے کرنے کے لیے پارلیمنٹ موجود ہے۔ اب حکومت چیختی پھر رہی ہے کہ ’’کیا کوئی اور ہے؟‘‘ایک ایسی سیاسی جماعت جس کے پورے ملک میں بتیس ہزار سے زیادہ ممبر نہیں‘ اے پی سی پر زور نہ دے تو کیا کرے؟لیکن جس ملک کے وزیر اعظم چھ ماہ بعد پارلیمنٹ میں جلوہ افروز ہوں اور یہ بھی ایک ’’خبر‘‘ بن جائے اُس ملک میں پارلیمنٹ کی کیا قدرو قیمت ہو گی!
اب اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ مسلم لیگ نون کی حکومت کی ترجیحات میں بزنس ہے یا صوبہ پروری‘امن و امان ہرگز نہیں‘ نہ ہی طالبان کے مسئلے کو حل کرنا ہے۔ ہتھیلی پر بال اُگ سکتے ہیں‘ کبوتری انڈے دینے کی بجائے براہِ راست بچّے جَن سکتی ہے۔بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس ساری زمینی رکاوٹوں کو ہٹا کر ایک دوسرے سے گلے مل سکتے ہیں لیکن لاہور کے شاہی خاندان کا شاہانہ اسلوبِ حکومت نہیں بدل سکتا۔ جنرل پرویز مشرف نے تختہ الٹا تھا تو اخبارات کارناموں سے بھر گئے تھے۔ ایف آئی اے میں تیس اہلکار بھرتی ہوئے۔ اٹھائیس ایک شہر اور ایک گروہ سے تھے۔ چالیس سے زیادہ ازحد کلیدی اسامیوں پر ایک ہی شہر سے تعلق رکھنے والے بیورو کریٹ فائز تھے۔ پندرہ سال بعد کون سی تبدیلی آئی ہے؟اخبارات میں کھلم کھلا یہ خبر چھپ چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں تیس سے زیادہ خواتین کا تعلق ایک ہی شہر سے ہے۔ شیخ رشید نے دو دن پہلے کہا ہے کہ حکومت پر لاہور گروپ قابض ہے۔ یہ کالم نگار پہلا شخص تھا جس نے مہینوں پہلے لکھا تھا کہ مسلم لیگ کی حکومت وسطی پنجاب کے اردگرد گھومتی ہے اور چودھری نثار علی خان کے سوا تمام کے تمام اہم کردار اُس تنگ پٹی سے ہیں جو فیصل آباد سے شروع ہوتی ہے اور رائے ونڈ لاہور اور گوجرانوالہ کے نواح سے ہوتی ہوئی سیالکوٹ جا پہنچتی ہے۔ ان حضرات کا رجحان
مشرق کی طرف‘سرحد پار‘اُن علاقوں کی طرف ضرور ہے جہاں سے ان کے بزرگ آئے تھے۔ لیکن مغربی پنجاب اور جنوبی پنجاب صرف اس لیے ہیں کہ صوبے کا رقبہ اور آبادی بتانا ہو تو کام آئیں!قومی یکجہتی کے نکتۂ نظر سے یہ خبر کس قدر دلگداز ہے کہ سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ نون کے سیاستدان پارٹی چھوڑتے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے جب غوث علی شاہ نے پارٹی کو خدا حافظ کہا تو دو سو سے زیادہ ضلع اور تحصیل سطح کے عہدیدار بھی رخصت ہو گئے۔ لیاقت جتوئی شاکی ہیں کہ سندھ سے تعلق رکھنے والوں کی پارٹی میں کوئی اہمیت نہیں‘ شکایات لکھ کروزیر اعظم کو پیش کی گئیں لیکن کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ تھرپار کے ارباب ہیں یا نوشہرو فیروز کے جتوئی‘ شکار پور کے جتوئی ہیں یا ٹھٹھہ کے شیرازی‘ سب نالاں ہیں اور تغافل سے زخم زخم۔ پیپلز پارٹی لیاقت جتوئی کو اپنی طرف بلا رہی ہے۔ ممتاز بھٹو گروپ بھی مسلم لیگ نون سے فاصلے پر ہو گیا ہے۔ وزراء کی مشترکہ شکایت یہ ہے کہ انہیں سونپی گئی وزارتوں میں وہ اپنے آپ کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ جس اسلوبِ حکومت کے لیے شاہی خاندان معروف ہے‘ اُس پر غور کریں تو یہ شکایات چونکا دینے والی ہرگز نہیں!رسوائے زمانہ اسلوب یہ ہے کہ اپنے شہر کے‘ اپنے گروہ کے‘ اپنی قومیت کے مُہرے ہر جگہ اِس طرح بٹھا دیجیے کہ جو کچھ بھی ہونا ہو‘ انہی مُہروں کے ذریعے ہو۔ غلط ہیں وہ تجزیہ کار جو یہ کہتے ہیں کہ یہ خاندان حکومت اس طرح
چلاتا ہے جیسے کارخانے کو مالک چلاتا ہے یا کارپوریٹ سیکٹر میں ایم ڈی معاملات طے کرتا ہے۔ کارخانہ اور کارپوریٹ سیکٹر تو بہت ماڈرن صورتیں ہیں‘ یہاں تو حکومت یوں کی جا رہی ہے جیسے جاگیر ہو۔ اُس ننھے منے جزیرے کے سفید فام باشندے‘ جسے برطانیہ کہا جاتا ہے‘ اِسے Fiefdomکہتے ہیں!
اپنے شہر‘اپنے گروہ اور اپنی پٹی سے باہر نکلنے کے لیے ذہنی بلوغت درکار ہے اور مصیبت یہ ہے کہ ذہنی بلوغت بازار میں نہیں ملتی۔ انسانی آنکھ میں نقص ہے کہ دیوار کے پار نہیں دیکھ سکتی لیکن اگر کوئی دیوار کے اِس طرف بھی نہ دیکھنا چاہے تو کتنا بڑا المیہ ہو گا۔ قبیلہ پروری کی انتہا یہ ہے کہ پہلے طے کر لیا جاتا ہے کہ برادری کے فلاں رکن کو نوازناہے۔ پھر ’’کام‘‘کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کے لیے پہلے کوشش کی گئی کہ عبوری حکومت میں وزیر اعلیٰ ہو جائیں‘ اس میں کامیابی نہ ہوئی تو ایڈوائزر بنا دیا گیا۔ ایسی کئی مثالیں ہیں دوسری طرف چھوٹے صوبوں کے جو لوگ ساتھ آ ملے تھے‘ وہ بھی رو پیٹ کر واپس جا رہے ہیں ؎
ناوک نے تیرے صیدنہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
جہاں معمول کا کاروبارِ حکومت ابتری‘ گروہ پروری‘اور ’’کچن کیبنٹ‘‘کے ذریعے چل رہا ہو اور معاملات پارلیمنٹ سے باہر طے کرنا عام روٹین ہو‘وہاں طالبان جیسے ازحد پیچیدہ اور ہشت پہلو مسئلے سے کون نمٹے گا اور کیسے نمٹے گا؟ ؎
آرزوئے وصال کرتے ہو؟
یار تم بھی کمال کرتے ہو!
محمدﷺ تو یہ چاہتے تھے کہ بنی نوع انسان کو ایک اعلیٰ درجے کے کلچر اور تہذیب سے روشناس کرایا جائے۔ اگر مغربی معاشرے کی تعمیر اسلام کی بنیاد پر ہوتی تو یورپ میں دہریے ہوتے نہ سوشلسٹ!
عورت کی حیثیت ملکیت کی تھی۔ یہ محمدﷺ تھے جنہوں نے اسے مالک بنا دیا!
یہ اقتباسات جی ڈبلیو لائٹنر (G.W.Leitner) کی تحریروں سے ہیں۔ ہنگری میں پیدا ہونے والا لائٹنر یہودی الاصل تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں وہ قسطنطنیہ کے ایک مدرسہ میں داخل ہوا۔ دس سال کی عمر میں اسے ترکی اور عربی زبانوں پر عبور حاصل ہو چکا تھا۔ پندرہ سال کی عمر میں جب وہ برطانوی فوج میں ترجمان مقرر کیا گیا تو اس کا عہدہ کرنل کا تھا۔ پچاس زبانوں سے اس کا تعلق تھا جن میں بہت سی وہ روانی سے بولتا تھا۔ انیس برس کی عمر میں وہ عربی‘ ترکی اور جدید یونانی زبان کا لیکچرر ہو گیا۔ لندن کے کِنگز کالج میں جب وہ عربی اور اسلامی قانون کے شعبے میں فُل پروفیسر بنا تو 23 برس کا تھا!
یہ تھا گورنمنٹ کالج لاہور کا آغاز‘ کیونکہ یہی لائٹنر گورنمنٹ کالج لاہور کا پہلا پرنسپل تھا!
پنجاب یونیورسٹی کو بھی اُسی نے قائم کیا۔ اس نے لاتعداد ادبی اور علمی انجمنیں بنائیں۔ لائبریریوں کی بنیادیں رکھیں۔ تحقیقی جریدوں کا اجرا کیا۔ برصغیر کی زبانیں سیکھیں۔ اردو زبان میں دو جلدوں میں تاریخِ اسلام تصنیف کی۔ گورنمنٹ کالج اور پنجاب یونیورسٹی میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر سکالرز اور فضلا کو لایا۔ محمد حسین آزاد نے صرف اُس کے کہنے پر اورینٹل کالج میں پڑھانا شروع کیا۔ گھوڑے پر سوار ہو کر آتے تھے اور راہ چلتے‘ دونوں طرف شاگرد ہوتے جنہیں پڑھاتے جاتے۔
ایک ملٹری ڈکٹیٹر کا پوتا جب وزیر بنا تو ایک معروف کالم نگار نے دلچسپ تبصرہ کیا کہ موصوف تیسری نسل تک گھِستے گھِستے کیسے ہو گئے ہیں۔ یہی حال گورنمنٹ کالج لاہور کا ہوا ہے۔ کہاں جی ڈبلیو لائٹنر‘ محمد حسین آزاد‘ پروفیسر آرنلڈ‘ علامہ اقبال‘ پطرس بخاری اور کہاں زوال کی یہ کیفیت کہ یہ ادارہ حاکمِ وقت کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری عطا کر رہا ہے۔ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔ حالی نے مسدس کے آغاز میں یونہی تو نہیں کہا تھا ؎
مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جذر کے بعد
دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے
اس کارِ خیر کا آغاز کراچی یونیورسٹی نے گزشتہ حکومت کے دوران کیا‘ جب اُس وقت کے وزیرداخلہ کو‘ جن کا تعلیم سے اور تعلیمی اداروں سے ’’گہرا تعلق‘‘ ڈھکا چھپا نہیں تھا‘ ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے کہ جن کا تعلق دانش اور شاعری سے تھا‘ دانش اور شاعری دونوں کو ٹھوکر ماری اور ببانگِ دہل وزیر صاحب کو ڈاکٹر بنایا‘ صرف اس لیے کہ وزیر صاحب لندن میں مقیم ایک سیاستدان کی خدمت میں اکثر و بیشتر حاضری دیتے تھے۔ عصبیت بھی کیا شے ہے! اچھے اچھوں کو ہوش بھلا دیتی ہے!!
گورنمنٹ کالج لاہور نے پہلا تیر تو اپنے سینے پر یہ مارا کہ اپنے نام کو بیک وقت کالج اور یونیورسٹی میں تبدیل کردیا۔ یعنی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی۔ عقل مند اسے تناقض فی الاصطلاح کہتے ہیں یعنی Contradiction in Terms۔
ادارے کے سپوتوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ گورنمنٹ کالج لاہور کی اہمیت اس کے تاریخی ہونے میں ہے۔ روایت اور تاریخ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کئی یونیورسٹیاں بھی اس گورنمنٹ کالج کا مقابلہ نہیں کر سکتیں جو 1864ء میں قائم ہوا اور ایک روایت کی رُو سے موجودہ عمارت میں 1871ء میں منتقل ہوا۔ خیر گورنمنٹ کالج لاہور جانے اور اُس کے ورثا!
تاہم اتنا کہنے کی اجازت دی جائے کہ عظیم الشان ماضی رکھنے والے اس ادارے پر جو ادبار آیا ہے‘ اس کی ایک وجہ اس کے فارغ التحصیل حضرات کا عمومی تکبر اور نخوت بھی ہے۔ یہ حضرات کسی دوسرے ادارے کے فارغ التحصیل افراد کو‘ جہاں جہاں ان کا بس چلے‘ خاطر میں نہیں لاتے رہے۔ خاص طور پر
سول سروس میں… خواہ سول سروس کے امتحان اور انٹرویو تھے‘ یا بعد میں تعیناتیاں اور ترقیاں۔ اس مُک مکا اور تعصب میں ایک بڑے شہر کی وہ برادری بھی شامل ہو گئی جو کسی زمانے میں اٹک کے اُس پار سے آئی تھی اور جس کی قابلِ احترام خواتین‘ اندرونِ شہر‘ لڑائی جھگڑے کرنے کے لیے معروف تھیں! یہ ایک Unholy Alliance تھا جس نے پاکستان سول سروس کے تمام شعبوں کو اپنی گرفت میں لیے رکھا۔ یہ فقیر تو ڈھاکہ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہے جس پر اُسے فخر ہے کہ ہندو اسے تمسخر سے مکہ یونیورسٹی کہا کرتے تھے‘ ہم مشرقی پاکستان والوں کو تو یوں بھی کچھ نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس ادارے کے نام لیوائوں نے دوسرے اداروں سے تعلق رکھنے والوں سے بھی ہمیشہ تعصب ہی برتا۔ کراچی یونیورسٹی‘ پشاور یونیورسٹی‘ ایڈورڈ کالج‘ اسلامیہ کالج پشاور‘ گورنمنٹ کالج راولپنڈی‘ اسلامیہ کالج لاہور… ان تمام اداروں کے متعلقین سے‘ جہاں جہاں اونچی ذات والے بیٹھے تھے‘ خوب خوب ’’حسنِ سلوک‘‘ کیا گیا! نہ جانے واقعہ ہے یا لطیفہ کہ جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان پاکستان آئے اور کام شروع کیا تو ایک سی ایس پی کی بیوی نے اسلام آباد کلب میں بیٹھ کر تبصرہ کیا کہ سنا ہے‘ قدیر خان بہت لائق فائق ہے‘ اگر اتنا ہی لائق تھا تو سی ایس پی کیوں نہ بنا۔ یہاں بھی یہی حال تھا کہ فلاں اگر اتنا ہی لائق ہے تو گورنمنٹ کالج لاہور کا پڑھا ہوا کیوں نہیں؟
ضمیر جعفری نے کہا تھا ؎
کوئی رومی، کوئی غالبؔ، کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی اُن کے میناروں سے ہوتی ہے
گورنمنٹ کالج لاہور نے اگر اپنے کسی اولڈ بوائے کو اعزازی ڈاکٹریٹ دینا ہی تھی تو کیا صاحبِ اقتدار ہونا ہی معیار تھا؟ اس سے بہتر تھا کہ محترمہ بیگم صاحبہ کو اس اعزاز سے نوازا جاتا جن کا علم و ادب سے تعلق تو ہے!
نہیں معلوم یہ اعزاز پطرس کو دیا گیا تھا یا نہیں‘ جنہوں نے اس ادارے کی خدمت کرنے کے علاوہ سفارت کاری اور انگریزی اور اردو نثر نگاری میں جھنڈے گاڑے‘ ڈاکٹر محبوب الحق بھی… جن کی کتابیں دنیا کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں‘ مستحق نہ گردانے گئے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی خدمات سائنس میں بے مثال ہیں اور جسٹس ایم آر کیانی جنہوں نے اس وقت کلمۂ حق بلند کیا جب ایوب خان کی آمریت اور کالاباغ کی نوابی نے ہونٹ سی دیے تھے اور دماغ سُن کر دیے تھے۔ یہ سب لوگ گورنمنٹ کالج ہی سے تھے لیکن افسوس ان میں سے حکمران کوئی نہ تھا!
گورنمنٹ کالج لاہور کو یہ بھی معلوم نہیں کہ عہدِ حاضر میں اردو کا عظیم ترین غزل گو اسی ادارے میں پڑھتا رہا۔ حسد اور بے توفیقی اعتراف نہ کرنے دے تو الگ بات ہے ورنہ اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ ظفر اقبال اردو غزل کے زندہ لیجنڈ ہیں۔ اردو دنیا جہاں جہاں بھی ہے‘ ان کی مرہونِ احسان ہے۔ اقلیمِ سخن کا یہ بے تاج بادشاہ راوین ہے۔ کیا عجب ظفر اقبال حاکمِ وقت ہو جائیں تو ان کا گورنمنٹ کالج لاہور اُن کی عظمت کو تسلیم کر لے!
افسوس! میاں محمد نوازشریف کا کوئی خیرخواہ نہیں! اور وہ عورت سخت خطرے کا باعث ہے۔
ہائے افسوس! کسی کو میاں نوازشریف کی پروا نہیں! ہر کوئی اپنا پیچ درمیان میں رکھے ہوئے ہے۔ اکیلے رہ گئے! ہیہات! ہیہات! میاں صاحب اکیلے رہ گئے۔
ابھی کچھ ہی دیر میں وہ عورت خم ٹھونک کر میدان میں اترنے والی ہے۔ اس فقیر کو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سب اُن سے نظریں چرا رہے ہوں گے۔ اللہ نہ کرے‘ سودا گھاٹے کا سودا بن جائے۔
وہ عورت آنے والی ہے۔ نور فاطمہ بھی اس کے ساتھ ہے۔ خطرے کی گھنٹی بج رہی ہے۔ کسی کو پروا نہیں!
کابینہ کے ارکان کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے۔ انہیں مجبوری بھی کوئی نہیں کہ ساتھ دیں۔ یہ جو میاں صاحب کے بل بوتے پر عیاشیاں کر رہے ہیں اور اُڑتے پھر رہے ہیں‘ یہ سب غائب ہونے والے ہیں۔
اسحاق ڈار صاحب‘ جنہوں نے کروڑوں لوگوں کے گھروں میں چولہے بجھا دیے ہیں‘ جو کھرب پتی نہیں‘ کھرب ہا پتی ہیں‘ جو متحدہ عرب امارات کے ارد گرد کے سمندروں کو اپنے کوزے میں بھر سکتے ہیں‘ انہیں بھی غرض ہے نہ فکر کہ میاں صاحب کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔
عابد شیر علی جو زبان کھولتے ہیں تو لگتا ہے فضا میں کسی نے ہزاروں ٹن پٹرول پھیلا کر دیا سلائی دکھا دی ہے‘ جو حسنِ اخلاق اور حسنِ تکلم کا روئے زمین پر بہترین نمونہ ہیں‘ انہیں بھی میاں صاحب کی پروا نہیں‘ حالانکہ آج وہ جو کچھ بھی ہیں‘ اپنے قریبی رشتہ دار میاں نوازشریف ہی کی وجہ سے ہیں۔
جن تیس سے زیادہ خواتین کو میاں صاحب نے اپنے شہر سے پارلیمنٹ کے لیے نامزد کیا ہے وہ بھی کسی کام نہیں آنے والی!
صدر ممنون حسین ہی کو لے لیجیے! کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ وہ اس منصب پر فائز ہوں گے۔ کہاں بھارت‘ سنگاپور اور ایران کے صدور… جن کی زندگیاں سیاسی تجربوں اور علمی پس منظر سے بھری ہوئی ہوتی ہیں‘ جو غیر ملکی سفیروں سے بات کرتے ہیں تو اپنی ذہانت اور قادرالکلامی کی دھاک بٹھا دیتے ہیں اور کہاں ہمارے صدر جن کا کوئی Exposure ہے نہ ان کے تھیلے سے کوئی کبوتر یا خرگوش نکل سکتا ہے‘ ان کی صدارت پوری کی پوری‘ مکمل طور پر میاں صاحب کی شفقت اور کرم فرمائی کی مرہونِ منت ہے۔ کیا جناب ممنون حسین میاں صاحب کا احسان اُتار سکتے ہیں؟ کبھی نہیں! لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے‘ ابھی جب وہ عورت آئے گی تو جناب ممنون حسین بھی دوسری طرف دیکھنے لگ جائیں گے۔
میاں صاحب کا برادر زادہ جو میاں صاحب ہی کی مہربانی سے آج بغیر کسی استحقاق کے سب سے بڑے صوبے کا عملاً بادشاہ ہے۔
میاں صاحب کا جاں نثار بھائی جو پرویز مشرف کے بہلانے پھسلانے کے باوجود اپنے بھائی کا وفادار رہا اور جو آج ایک صوبے کا حکمران ہونے کے باوجود وفاقی معاملات میں‘ اپنے دیگر ہم منصبوں کے برعکس‘ پوری طرح دخیل ہے۔
میاں صاحب کی دخترِ نیک اختر اور ان کے سعادت مند اور فرماں بردار صاحبزادے!
سب سے بڑھ کر ان کی اہلیہ محترمہ‘ جو میاں صاحب کے ایامِ اسیری میں کمال جرأت سے میدان میں اتری تھیں‘ جن کی ساری زندگی اپنے نامور شوہر کی محبت اور اطاعت میں گزری ہے۔
افسوس! ان میں سے کوئی بھی میاں صاحب کے کام نہیں آنے والا۔
’’اُس روز آدمی اپنے بھائی اور اپنی ماں اور اپنے باپ اور اپنی بیوی اور اپنی اولاد سے بھاگے گا۔ ان میں سے ہر شخص پر اُس دن ایسا وقت آن پڑے گا کہ اُسے اپنے سوا کسی کا ہوش نہ ہوگا‘‘۔
ابھی کچھ ہی دیر میں جب میدان میں سب اکٹھے ہوں گے تو یہ عورت آ دھمکے گی۔ اسے ٹالنے کی‘ اسے روکنے کی کوئی صورت ہی نہیں۔ اس اڑتیس سالہ عورت کے ساتھ اس کی نوزائیدہ بچی نور فاطمہ ہوگی۔ یہ اُٹھ کر بلند آواز سے (واذالصحف نشرت۔ جب صحیفے نشر ہوں گے) اپنا معاملہ اٹھائے گی۔
’’میں نور فاطمہ کی ماں حاملہ تھی۔ میں نے اس بچی کو نو ماہ پیٹ میں رکھا۔ اُن تکلیفوں کا جو میں نے دورانِ حمل اٹھائیں‘ اللہ کی کتاب میں باقاعدہ ذکر کیا گیا ہے۔ جب وہ وقت قریب آیا کہ میں اس بچی کو جنم دوں‘ میرا میاں مجھے رکشے میں بٹھا کر ہسپتال لے جا رہا تھا۔ دردِ زِہ شروع ہو چکا تھا۔ درد… ایسا درد جو جسم کو شل اور دماغ کو سُن کر رہا تھا۔ یوں کہ کراہنے کی ہمت بھی نہ تھی۔ بس ایک ہی دُھن تھی کہ ہسپتال پہنچ جائوں اور ڈاکٹر میری زندگی کی اس مشکل ترین ساعت میں میری مدد کریں۔
لیکن ابھی ہم ہسپتال پہنچے نہ تھے کہ ہمیں راستے میں روک لیا گیا‘ ساری ٹریفک روک لی گئی۔ اسلامی مملکت پاکستان کے وزیراعظم جناب میاں محمد نوازشریف کی سواری گزرنے والی تھی۔ پولیس کے اُن اہلکاروں نے‘ جو میرے میاں کی حلال کی آمدنی سے کاٹے گئے ٹیکسوں سے تنخواہ پا رہے تھے‘ ہماری ایک نہ سنی۔ ہم ان کے آگے روئے‘ ہم گڑگڑائے ہم نے ہاتھ جوڑے لیکن حکمرانِ اعلیٰ کے مقابلے میں ہماری کیا حیثیت تھی۔ ہم کیڑے مکوڑوں سے بھی گئے گزرے تھے۔ ٹریفک وارڈن نے‘ جس کے سامنے ہم منت اور زاری کر رہے تھے‘ مدد کرنے کے بجائے ہمارے ہاتھ میں چالان پکڑا دیا۔ وہ چالان اب بھی میرے ہاتھ میں ہے۔ پھر مجھ پر وہ وقت آ پہنچا جو ایک بدّو کی بیوی پر آیا تھا تو امیر المومنین عمر فاروقؓ اس کی مدد کے لیے اپنی زوجہ محترمہ کو لے کر آ گئے تھے۔ وزیراعظم کی سواری جانے کس وقت گزری لیکن میں نے بچی کو سڑک کے کنارے سترہ جنوری 2014ء کو رکشے میں جنم دیا۔ رکشے میں جنم لینے والی بچی نور فاطمہ گواہی کے لیے موجود ہے‘‘۔
افسوس! میاں محمد نوازشریف کا کوئی خیرخواہ نہیں۔ یہ فقیر مسمی محمد اظہار الحق ولد حافظ محمد ظہور الحق قوم اعوان سکنہ جھنڈیال تحصیل فتح جنگ ضلع اٹک محترم میاں صاحب کو متنبہ کر رہا ہے کہ یہ عورت خطرے کا باعث ہے اور ٹلنے والی نہیں!
کالم اہلِ خراسان کی سرشت اور نفسیات پر لکھنا تھا کہ حکومت کو تو ان ’’فضول‘‘ موضوعات سے دلچسپی نہیں‘ شاید وزارت خارجہ کے صحرا ہی میں یہ اذان سن لی جائے جہاں ہر کاتبِ تقدیر یورپ اور امریکہ کی تاریخ کے پیچھے پڑا رہتا ہے کیونکہ اکثر و بیشتر کی ارضِ موعود (Promised Land) وہی ہے‘ لیکن دو دن پیشتر ایک ایسا خوشگوار واقعہ پیش آیا‘ ایک ایسی مثبت پیش رفت ہوئی کہ تحدیثِ نعمت کے طور پر اس کا ذکر زیادہ ضروری نظر آ رہا ہے۔
یہ واقعہ‘ یہ پیش رفت‘ اس مملکت کی تاریخ میں سنگِ میل ہے۔ امریکی ایسے مواقع پر واٹر شیڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پن دھارا‘ جس سے صحرا چمنستان بن جاتے ہیں‘ جس کے بعد حالات ایسا رُخ اختیار کرتے ہیں کہ اندرونی کے علاوہ بیرونی سمتیں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں۔
قدرت کی یہ کرم فرمائی اس مملکت کے لیے تو نعمتِ غیر مترقبہ ہے ہی‘ خود مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے بھی آسمانی مدد سے کم نہیں۔ تصور کیجیے‘ مسلم لیگ نون برس ہا برس کی ریاضت کے بعد‘ اپنے لاتعداد تھنک ٹینکوں کی محنتِ شاقہ کے بعد‘ اقتدار میں آئی ہے۔ وہ سنجیدہ ہے۔ اُسے وعدے ایفا کرنے ہیں‘ ملک کی حالت بدلنی ہے‘ فرسودہ سماجی ڈھانچے کی جگہ ایک ترقی پسند جدید‘ سٹرکچر وجود میں لانا ہے‘ معیشت کو نئی صورت عطا کرنی ہے‘ تعلیم کے میدان میں معجزے رونما کرنے ہیں۔ درست کہ زبیر عمر جیسے دانش ور‘ پاکستان کیا پورے ایشیا‘ ایشیا‘ کیا‘ پورے کرۂ ارض کو نئی شکل میں ڈھال سکتے ہیں‘ لیکن ایک کمی بہرطور تھی جسے نون لیگ کے اربابِ حل و عقد شدت سے محسوس کر رہے تھے۔ اس ملک میں دانش کے ایسے ذخیرے تھے جو نون لیگ کی دسترس سے دور لگ رہے تھے۔ رات دن پالیسی سازوں پر ایک ہی دھن سوار تھی کہ کسی نہ کسی طرح دانش کے ان اچھوتے‘ بے کنار‘ خزانوں تک رسائی ہو جائے‘ پھر ٹیم مکمل ہو جائے گی‘ پھر وعدے ایفا کرنے میں تاخیر نہ ہوگی‘ صحرا تاکستان بن جائیں گے‘ پہاڑیوں کی چوٹیوں پر آبادیاں سہولتوں سے مالا مال ہو جائیں گی‘ زیریں میدان زرخیزی سے اٹ جائیں گے‘ چلتے دریا رُخ تبدیل کر کے‘ بنجر زمینوں سے بغل گیر ہو جائیں گے‘ جنوبی ایشیا کو ایک نیا ستارا میسر آئے گا‘ ایک تابناک ستارہ‘ صبح کے ستارے کی طرح راہ نما۔ پورا خطہ خوشحالی اور عافیت کے اس جزیرے سے تمتّع اٹھائے گا!
بالآخر دعائیں سنی گئیں۔ آسمانوں میں ہلچل صاف دکھائی دینے لگی۔ یوں لگتا تھا غیر مرئی‘ غیبی‘ کارکنوں کو بتا دیا گیا ہے کہ اس ملک کو مالا مال کرنا ہے۔ وہ کام پر لگ گئے۔ دیر ہے‘ اندھیر نہیں۔ مسلم لیگ نون کی حکومت کے لیے‘ امکانات کے‘ کامرانیوں اور ظفریابیوں کے دروازے کھل گئے۔ ان گنت دروازے۔ بیجنگ میں واقع شہرِ ممنوعہ (Forbidden City) کی طرح۔ ایک محل کے بعد دوسرا محل۔ ایک کھلتا ہوا دروازہ۔ پھر ایک اور… پھر ایک اور۔
یہ حکومت ہی کی نہیں‘ ریاست ہی کی نہیں‘ پورے جنوبی ایشیا کی… پورے خطے کی بخت کُشائی ہے‘ الحمد للہ۔ جے یو آئی (ف) حکومت میں شامل ہو گئی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے انعام‘ اعزاز ہوتا ہے لیکن بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ انعام کے لیے اعزاز ثابت ہوتے ہیں۔ یہ خوش قسمتی جے یو آئی کے لیے نہیں‘ حکومت کے لیے ہے۔ ریاست کے لیے ہے۔ جے یو آئی تو اپنی جھونپڑی کے باہر مزے سے دھوپ میں بیٹھی تھی۔ اُس فقیر کی طرح جو دنیا کی آلائشوں سے بھاگ کر وہاں آ بیٹھا تھا۔ بادشاہ آیا۔ اُس نے فقیر کی خدمت میں عرض کیا۔ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ فقیر نے ایک شانِ بے اعتنائی سے کہا‘ تم میرے لیے کیا کر سکتے ہو۔ تم تو خود مانگتے پھرتے ہو‘ ہاں اتنا کر سکتے ہو کہ دھوپ چھوڑ دو۔
حکومت میں شامل کرنے کی بے تابی تو خود حکمران جماعت کو تھی۔ جے یو آئی تو اس بارِ گراں سے‘ بدنامی کی اس گھڑی سے بھاگ رہی تھی۔ لیکن تابکے؟ ریاست کی خاطر‘ عوام کی خاطر‘ اُسے یہ کانٹوں کا ہار گلے میں ڈالنا پڑا۔ اللہ اس قربانی کو قبول فرمائے۔
ہمارے دوست مسعود ملک نے چند مشکل وزارتوں کے لیے ’’چکنی‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چکنی وزارتیں چلانا سہل نہیں۔ لیکن یہ بارِ گراں ہمیشہ جے یو آئی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اُسے ہمیشہ ہی مشکل یعنی چکنی وزارتیں سنبھالنا پڑتی ہیں‘ جنوب کے ساحلی شہر کی ایک مڈل کلاس فیم جماعت بھی اپنی مشکل پسندی کی وجہ سے چکنی وزارتوں کی خواہاں رہتی ہے۔ ایک زمانے میں تو ہائوسنگ اور ورکس کی چکنی وزارت کے لیے اس جماعت اور جے یو آئی میں مقابلہ ہوا۔ اللہ نے سرخرو کیا۔ یہ وزارت طویل عرصہ کے لیے جے یو آئی کے نمائندے کے پاس رہی۔ وہی اس وزارت کا عہدِ زریں تھا۔ جے یو آئی کو جہاز رانی کی مشکل وزارت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ افغانستان کے کنٹینر اسی پورٹ اینڈ شپنگ وزارت کی تحویل میں ہوتے ہیں۔ قبائلی علاقوں میں جرگہ کے احیا کی کوششیں بھی تو جے یو آئی نے کی ہیں جو افغان اور طالبان مسئلہ کے حل کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ اگر پورٹ اینڈ شپنگ کی وزارت بھی مل جائے تو یہ ایک مکمل ٹول کِٹ ہوگی جس کی مدد سے
جے یو آئی ٹھوکا ٹھوکی کو منطقی انجام تک پہنچا سکے گی۔
دارالحکومت کے جنوب مغرب سے یہ جو برکھا‘ بارش سے لدے بادلوں کو اپنے جلو میں لیے‘ اُٹھی ہے‘ کیا ہی خوش بختی کی علامت ہے۔ اسلامی مشاورتی کونسل۔ کشمیر کمیٹی۔ وزارتِ مواصلات‘ جو ملنے کی توقع ہے‘ یہ ستون ہیں جن پر مسلم لیگ نون حکومت کی مضبوطی استوار ہوگی۔ اس میں ابھی چوتھا ستون بھی شامل ہونا ہے لیکن تادمِ تحریر‘ معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون سا ہوگا۔
اب تو مسلم لیگ نون کی وزارت کے پاس کوئی بہانہ ہی نہیں رہا۔ اُسے چاہیے کہ اب رفتار تیز تر کرے اور قوم کو منزل سے ہمکنار کرے ع
تیز ترک گام زن منزلِ ما دورنیست
جنوب میں جناب ممتاز بھٹو اور ان کے صاحبزادے پہلے ہی حکومت کے ہم قدم ہیں۔ ممتاز بھٹو فیوڈلزم کے سخت خلاف ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ ان کے دم کو غنیمت سمجھے اور ان سے زرعی اصلاحات پیش کرنے اور نافذ کرنے کا کام لے۔ اسی طرح جے یو آئی کے پاس نظامِ تعلیم کی بہتری کے لیے بہت کچھ ہے۔ مالیات پر بھی اس جماعت کی گہری نظر ہے۔ اگر وزارتِ خزانہ اسے سونپی جائے تو کیا عجب ملک میں اقتصادی انقلاب کروٹیں لیتا دکھائی دے۔
سائیں ظہور بھی کہاں یاد آ گیا ع
سامنے ہووے یار تے نچنا پیندا اے
ہزاروں کا مجمع تھا۔ایک نوجوان لائوڈ سپیکر پر بول رہا تھا:
’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’کیا یہ فیصلہ تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے؟‘‘ ڈاکٹر ذاکر نائک نے پوچھا۔
’’ہاں،اپنی مرضی سے کیا ہے‘‘۔
’’کیا اسلام قبول کرنے کے لیے تم پر کوئی دبائو ہے؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’کیا تمہیں کوئی مالی مجبوری ہے جس کے لیے اسلام قبول کر رہے ہو؟‘‘
’’نہیں‘‘۔
’’کیا یہ فیصلہ تم نے خوب سوچ سمجھ کر کیا ہے؟‘‘
’’ہاں! خوب سوچ سمجھ کرکیا ہے۔ اپنی مرضی سے کیا ہے لیکن ایک بات ہے ، بس ڈر سا لگ رہا ہے‘‘۔
’’کس کا ڈر؟ کس سے ڈر رہے ہو؟‘‘
’’دیوی‘ دیوتائوں سے‘ کہیں وہ نقصان نہ پہنچائیں‘‘۔
ڈاکٹر ذاکر نائک نے اس کا ڈردورکیا اور وہ مسلمان ہوگیا لیکن ہمارا موضوع صرف یہ ہے کہ وہ دیوی دیوتائوں سے ڈر رہا تھا!
ہم مسلمان کسی دیوی‘ دیوتا‘ بُت‘ مورتی‘ مجسمے سے نہیں ڈرتے۔ یہ ہم پر خالقِ کائنات کا بہت بڑا احسان ہے۔
لیکن کیا ہم فی الواقع خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم نے پتھر کی مورتیاں تو نہیں بنائیں‘ لیکن زندہ انسانوں کو دیوتا بنا رکھا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم صرف خدا سے نہیں ڈرتے اور باقی سب سے ڈرتے ہیں؟
ہم اس مخبوط الحواس اپاہج شخص سے ڈرتے ہیں جس کا سر اس لیے چھوٹا رہ گیا کہ جرائم پیشہ لوگوں نے اُسے آہنی ٹوپی پہنائے رکھی۔ اب وہ دولے شاہ کا چوہا کہلاتا ہے۔ اس نویسندہ نے اچھے بھلے بظاہر اعلیٰ تعلیم یافتہ مردوں عورتوں کو اس کے سامنے کانپتے دیکھا ہے کہ یہ کہیں نقصان نہ پہنچا دے۔
ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جس نے گلے میں مالا اور تن پر لمبا سبز چولا پہن رکھا ہو۔ ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جس نے سر پر سفید چادر اوڑھی ہوئی ہو۔ ہم میں سے بہت سوں کا ایمان ہے کہ وہ اولاد، صحت اور عزت دیتے ہیں۔
ہم ہر اس شخص سے ڈرتے ہیں جو تھری پیس انگریزی سوٹ پہن کر گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہے۔ یہ افسر ہے ، ہم اسے اپنی تقدیر کا مالک سمجھتے ہیں۔ ہم اس سے ڈرتے ہیں کہ یہ نقصان نہ پہنچا دے۔ افسر وزیر سے ڈرتا ہے کہ وزیر اُس کا کیریئر نہ خراب کردے۔ وزیر‘ وزیراعظم سے ڈرتا ہے کہ ناراض ہوا تو کابینہ سے نکال دے گا۔ یہ ڈر‘ یہ خدا کے سوا‘ دیوی دیوتائوں کا ڈر‘ یہ غیر اللہ کا ڈر بزدل بنا دیتا ہے۔ ماتحت، افسر کا غلط حکم مانتا ہے۔ افسر، وزیر کے ظالمانہ حکم کی تعمیل کرتا ہے۔ وزیر‘ وزیراعظم کی ناجائز خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم کرتا ہے۔ خدا کے سوا دوسروں سے ڈرنے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ سب ڈر کے مارے غلط کام کرتے ہیں اور ملک اور قوم کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔
یہ حقیقت کہ خدا کے سوا کوئی نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان‘ کوئی ہوائی تصور نہیں۔ یہ کوئی دیومالائی عقیدہ نہیں‘ اس حقیقت کا ہماری زندگیوں سے گہرا تعلق ہے۔اگر ہمارا یقین ہوگا کہ خالقِ کائنات کے سوا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا تو ہم کسی کا غلط حکم نہیں مانیں گے۔ جس قوم کے ہر شخص کا ایمان ہو کہ نقصان صرف خدا پہنچا سکتا ہے ، اس قوم میں کرپشن در آ سکتی ہے نہ بزدلی۔ آپ اندازہ لگایئے‘ فیصل صالح حیات سے لے کر شیخ رشید تک سب جنرل پرویز مشرف کے ہم نوا ہو گئے کہ جرنیل کہیں نقصان نہ پہنچائے۔ آج اگر ہم خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرتے تو ہماری قسمت سلمان فاروقیوں‘ سراج شمس الدینوں‘ لاشاریوں‘ سیٹھیوں‘ مسعود محمودوں اور زاہد حامدوں کے ہاتھ میں نہ ہوتی۔ ہمارے حکمرانوں کو خدا کے سوا کسی سے نہ ڈرنے والی افسر شاہی ملتی تو ہم پر لاہور گروپ حکومت کرتا نہ کراچی گروپ۔ ہماری حکومتوں کا ہر قدم درست سمت میں اٹھتا اور آج ہم اسفل السافلین کے پاتال میں گرے ہوئے نہ ہوتے۔
محمود لودھی یاد آ رہے ہیں۔ سول سروس میں آنے کے بعد امین احسن اصلاحی صاحب سے عربی زبان و ادب اور قرآن کے مطالب و معانی باقاعدہ زانوئے تلمذ تہ کر کے پڑھے۔ فرانسیسی زبان پر عبور تھا۔ انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکائونٹنسی سے فارغ التحصیل، کسی سے نہ ڈرنے والے ، سچائی کے معاملے میں برہنہ تلوار۔ نیشنل ڈیفنس کالج (اب یونیورسٹی) میں اعلیٰ تربیتی کورس کر رہے تھے۔ ملک کے صدر جنرل ضیاء الحق زیر تربیت فوجی اور سول افسروں سے خطاب کرنے آئے۔ خطاب کے بعد سوال جواب کی روایت ہے۔ ضیاء الحق کو پہلے ہی بریف کر دیا گیا کہ محمود لودھی نامی افسر خطرناک سوال پوچھ سکتا ہے۔ خطاب کرنے کے بعد صدر نے خود ہی کہا کہ پہلا سوال محمود لودھی پوچھیں گے۔ محمود لودھی اٹھے… ’’صدر صاحب! ہم سب جانتے ہیں کہ اقتدارکرپٹ کرتا ہے اور بے تحاشا اقتدار بے تحاشا کرپٹ کرتا ہے۔
Power tends to corrupt and absolute power corrupts absolutely.
آپ کے پاس بے تحاشا طاقت ہے تو کیا آپ بے تحاشا کرپشن کی طرف نہیں جا رہے؟‘‘
ہال میں سناٹا چھا گیا۔ ضیاء الحق کا چہرہ سرخ ہوگیا لیکن اس کا باطن ہمیشہ ظاہرکی مسکراہٹ کے پیچھے چھپا رہتا تھا۔اس نویسندہ کو یقین نہیں لیکن گمانِ غالب یہ ہے کہ رپورٹ منفی دی گئی تھی!
لاہور میں ملک بھر کے محکمۂ تعمیرات کے حسابات کے سربراہ تھے۔اس محکمۂ میں سڑکیں‘ پل‘ سرکاری عمارات سب کچھ شامل تھا۔ محمود لودھی نے مدتوں سے بیٹھی ہوئی کرپٹ بڑی مچھلیوں کو اکھاڑنا شروع کیا۔ دفتر سائیکل پر آتے تھے۔ دوپہر کا کھانا گھر سے ساتھ لاتے تھے۔ وزیر کا فون آیا کہ فلاں صاحب کو آپ نہیں چھیڑیں گے۔ محمود لودھی نے کہا کہ ہم ایک فارمولے، ایک نظام کے تحت تبادلے کر رہے ہیں، آپ کا حکم نہیں مانا جا سکتا۔ وزیر نے زور لگایا۔ لودھی ٹس سے مس نہ ہوئے۔ وزیر نے دھمکی دے کر کہ میں تمہیں دیکھ لیتا ہوں‘ فون پٹخ دیا۔ لودھی نے گھر فون کیا اور بیگم سے ہنستے مسکراتے کہا کہ سامان باندھنا شروع کردو‘ کہیں پھینکے جانے والے ہیں۔ دوسری صبح اخبارات میں وزیر صاحب کے اپنے تبادلے کی خبر تھی۔
محمود لودھی کی آڈیٹر جنرل آف پاکستان بننے کی باری تھی۔ بے نظیر بھٹو نے ذاتی احسان کا بدلہ چکانے کے لیے ایک ایسے وفادار اہلکار کو آڈیٹر جنرل بنا دیا جس کا شعبے سے تعلق تھا نہ اس فن سے۔ لودھی ریٹائر ہوکرگھر چلے گئے۔ انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا۔ ہاں جو نقصان ملک کو پہنچا اس کی بازپرس بے نظیر بھٹو سے بہت جلد ہوگی۔
ایک اور سینئر بیوروکریٹ یاد آ رہے ہیں۔ فقیر سے بے تکلفی ہے۔ ایک دن فرمانے لگے‘ یار‘ کل تمہارے علاقے میں گیا لیکن بہت خوار ہوا۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ موصوف فتح جنگ میں کسی بابا جی سے مستقبل کا حساب کتاب کرانے گئے تھے۔ وہاں ’’مسلمانوں‘‘ کا ہجوم تھا۔ انہیں دھوپ میں بہت دیرکھڑا ہوکر انتظارکرنا پڑا۔ان سے عرض کیا کہ یہ خواری‘ یہ ذلت‘ آپ نے اپنے اوپر خود مسلط کی۔ آپ کو اللہ نے ہر شے سے نوازا ہے، ہر بڑے شہر میں کوٹھی ہے‘ دلیا آپ امپورٹڈ کھاتے ہیں اور فرنیچر ’’ڈیزائنر‘‘ استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ بابا جی کے حساب کتاب سے ملا ہے؟‘‘ اصل قصہ یہ ہے کہ جب انسان اپنی باگ ڈور خدا کے علاوہ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتا ہے تو پھر ذلت کی انتہا نہیں رہتی۔اس کی تذکیرکلام پاک انوکھے پیرائے میں کرتا ہے: ’’اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا۔ اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اُڑ جائیں گے‘‘ (الحج۔ 31)۔ یہ مستقبل کا حساب کرنے والے‘ یہ زائچے بنانے والے‘ یہ ہاتھوں کی لکیروں میں الجھانے والے‘ یہ خدا کے سوا اپنے دروازوں پر جھکانے والے‘ یہی تو وہ پرندے ہیں جو اُچک لے جاتے ہیں اور نوچ کھاتے ہیں۔
ہم ہر بات پر قائداعظم اور اقبال کا حوالہ دیتے ہیں لیکن ہمیں اقبال کا یہ فرمان یاد نہیں رہتا ؎
ستارہ کیا تری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خوار و زبوں
اور یہ بھی کہ ؎
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا
ہے بندۂ آزاد خود اک زندہ کرامات
اللہ کے نیک بندوں کی کرامات برحق لیکن وہ تو اپنے آپ کو ظاہر ہی نہیں کرتے۔ وہ اپنی تشہیر کرتے ہیں نہ اپنی تصانیف کی مارکیٹنگ! دوسرے یہ کہ کسی کی کرامت بجا! حساب تو اپنے اپنے اعمال کا دینا ہے!
آپ کا کیا خیال ہے کہ اقبال آج ہوتے تو لاہور سے چل کر کسی بابے کے پاس جاتے اور پیٹھ پر چھڑیاں کھاتے؟ جیسے ہمارے ایک نہیں دو وزرائے اعظم نے کیا۔ اور قائداعظم ہوتے تو کیا سرکاری خزانے پر پلنے والے کسی پیر کے کہنے پر مہینوں پہاڑوں سے دور سمندر کے نزدیک رہتے؟ قرآن اور رسولؐ کے نام پر بننے والی مملکت کے یہ کیسے وزراء اور صدر ہیں؟ کہیں احمد جاوید نے انہی کے بارے میں تو نہیں کہا ؎
اک شخص بادشہ ہے تو اک شخص ہے وزیر
دونوں نہیں ہیں گویا ہماری قبیل سے
ان اہلِ اقتدار سے زیادہ توحید پرست تو وہ خراباتی شاعر جون ایلیا نکلا ؎
تیرے ہی در کے ہم ہیں سوالی‘ تیرا ہی در دل میں کھُلا ہے
شہرِ نظر در بند ہے سارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا، سینہ خالی کر ڈالا ہے
لے، میں اپنے سانس بھی ہارا، اللہ ہی دے گا مولا ہی دے گا
وہ یورپی ٹورسٹ یاد آ رہی ہے جو الحمرا کے Court of lions میں ملی تھی۔
الحمرا کی عمارتوں میں گھومتے گھومتے شام ہو چلی تھی۔ سورج غروب ہونے سے پہلے محراب سے جھانک رہا تھا۔ عجیب لمحے تھے۔ وقت رک گیا تھا۔ وہیں وہ اشعار ہوئے جنہیں سراج منیر مرحوم نے پڑھا تو بے اختیار ماتھے پر بوسہ ثبت کیا ؎
تیغ کی دھار میں الحمرا موتی کی آب میں الحمرا
اک محراب میں سورج ہے اور اک محراب میں الحمرا
زر اور مرمر حرف ہیں میرے وقت کی نوک قلم میرا
میں الہام ہوں میرے سب سے روشن باب میں الحمرا
سب زیتون کے باغ اس سے سارے شہروں میں چراغ اس سے
ہاتھ سمندر کی نبضوں پر، پائوں رکاب میں الحمرا
رستے زخم کی دو تصویریں اک میں دمک ہے اک میں کسک
سرخ لہو میں الحمرا ہے سرخ گلاب میں الحمرا
جس دن فلک پہ تارا ٹوٹا، سامنے آئے گی تعبیر
صدیوں پر پھیلی ہوئی رات کے سچے خواب میں الحمرا
کورٹ آف لائنز کے ارد گرد سیاحوں کا ہجوم تھا۔ شیروں کے دہانوں سے پانی کے فوارے ابل رہے تھے۔ غرناطہ کے سلطان محمد خامس نے یہ کورٹ یارڈ تعمیر کیا تھا جو صدیوں بعد بھی اسی طرح تھا۔
’’ لیکن اسلام میں مجسموں اور بتوں کی تو اجازت ہی نہیں‘‘
اچانک میرے ساتھ کھڑی ہوئی سفید فام خاتون نے مجھے مخاطب کرکے کہا: ’’تو پھر ان بادشاہوں نے یہ کیوں بنائے؟‘‘
ایک لمحے کے لیے چکرا گیا۔ پھر مارکسسٹوں کی تاریخ کام آگئی: ’’یہ بادشاہ Revisionist (ترمیم پسند) ہو گئے تھے!‘‘
اس نے تمسخر آمیز قہقہہ لگایا: ’’مسلمان ہوناں! ہر بات کے لیے تم لوگوں نے ایک دلیل گھڑ رکھی ہوتی ہے! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تمہاری زندگی تمہارے رسولﷺ کے احکامات کے اردگرد نہیںگھومتی!‘‘
طعنہ تھا یا ماتم، جو کچھ بھی تھا، دل میں تیر کی طرح پیوست ہو گیا۔ پاس ایک کیفے تھا۔ ہم ایک لکڑی کے بنچ پر جا بیٹھے۔
’’مادام! آپ کو کیا علم ہمارے رسولﷺ کے احکامات کیا ہیں اور ہماری زندگی ان کے گرد گھوم رہی ہے یا نہیں؟‘‘
وہ کئی برسوں سے حیات طیبہ کا مطالعہ کر رہی تھی۔ اب یاد نہیں، فرانس میں یا ہالینڈ میں انگریزی کی پروفیسر تھی۔ پاکستان سمیت کئی مسلمان ملکوں کو دیکھ چکی تھی اور صرف دیکھ نہیں چکی تھی، معاملے کی تہہ تک بھی پہنچ چکی تھی!
’’ تمہارے رسولﷺ کو اللہ نے اپنی کتاب میں رحمۃ اللعالمین قرار دیا ہے۔۔۔ سارے جہانوں کے لیے ساری دنیائوں کے لیے رحمت۔ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں! کیا تم نے کبھی اس کے مضمرات پر غور کیا ہے؟‘‘
میں نے سر افقی انداز میں ہلا دیا، غور کیا ہوتا تو کچھ کہہ سکتا!
’’کبھی غور کرو کہ آج کروڑوں مسلمان ہم غیرمسلموں کے ملکوں میں آکر آباد ہو رہے ہیں۔ کروڑوں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس، مغربی ملکوں سے کتنے لوگ مسلمان ملکوں میں جاکر بسنے کے آرزومند ہیں؟ ہمارے ملکوں کو جنت سمجھا جاتا ہے۔ کسی مسلمان ملک سے ایک نوجوان آتا ہے، پھر وہ اپنے بھائیوں بہنوں کو لاتا ہے، خاندان کے خاندان منتقل ہو جاتے ہیں۔ ہم مغربی ممالک والے منہ سے اقرار کریں یا نہ کریں، یہ سب اس لیے ہے کہ ہم نے تمہارے رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کیا۔ یہ دعویٰ تمہیں عجیب لگے گا کیونکہ ہم مسلمان نہیں نہ مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن جو احکام تمہارے رسولﷺ نے تمہیں دیے، انہی سے ہم اس سطح پر پہنچے کہ مسلمان ہماری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جس میں امانت کی خصلت نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں۔ ہم لوگ وعدہ پورا کرتے ہیں، امانت کی حفاظت کرتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے پاس سرکاری خزانہ امانت ہے اور ہم ان سے ایک ایک پائی کا حساب لیتے ہیں۔ پیغمبرﷺ سے پوچھا گیا مسلمان جھوٹا ہو سکتا ہے؟ فرمایا ’’نہیں‘ جھوٹ کی عادت ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی‘‘ ہم لوگ جھوٹ نہیں بولتے، ہمارے بچوں میں جھوٹ بولنے کا تصور ہی نہیں۔ پیغمبر اسلامﷺ نے محتاجوں، مسکینوں اور مفلسوں کی خبر گیری کا حکم دیا۔ ہمارے ملکوں میں ہر مسکین ہر بے روزگار کو ریاست مالی امداد بہم پہنچاتی ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے فراہم ہوتی ہے، یہاں تک کہ حکومت بے گھروں کو گھر بھی دیتی ہے۔ آج برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا میں مسلمانوں سمیت کتنے ہی لوگ سرکار کے مہیا کردہ گھروں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ تمہارے رسولﷺ نے ہدایت کی کہ جو دنیا میں نمائش اور شہرت کے کپڑے پہنے گا اسے قیامت کے دن ذلت و رسوائی کا لباس پہنایا جائے گا۔ ہمارے ملکوں کا اپنے ہاں سے موازنہ کر لو۔ ہمارے وزیر، افسر، بڑے بڑے ٹیکنوکریٹ، اسمبلیوں کے ممبر، بہت ہی خاص مواقع کو چھوڑ کر، سادہ ترین لباس میں ہوتے ہیں۔ وہ گرمیوں میں بنیان، عام سی پتلون یا نیکر اور چپل میں باہر جاتے ہیں اور سردیوں میں جیکٹ استعمال کرتے ہیں۔ تمہارے ہاں ایک ایک فرد کے درجنوں ملبوسات کم از کم ہیں۔ تم مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں کا لائف سٹائل دیکھو۔ ان کی قیمتی گاڑیوں کا ہمارے امیر ترین لوگ بھی نہیں مقابلہ کر سکتے‘ نہ کرنا چاہتے ہیں۔ تمہارے حکمرانوں کے محلات میں ٹونٹیاں، کنڈے،
تالے تک سونے کے ہوتے ہیں۔ تمہارے رسولﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’کسی نے کبھی کوئی کھانا اس سے بہتر نہیں کھایا کہ اپنے ہاتھوں کی محنت سے کما کے کھائے اور اللہ کے پیغمبر دائود ؑ اپنے ہاتھوں سے کام کرکے کھاتے تھے‘‘۔ ہر مسلمان کو یہ تو یاد ہے کہ ’’الکاسب حبیب اللہ‘‘ لیکن ہاتھ سے کام کرنے والے کو پست، کمی اور ادنیٰ سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں مالی، ویلڈنگ کرنے والا، گٹر صاف کرنے والا، جوتے مرمت کرنے والا، اسی سماجی حیثیت کا حامل ہے جس حیثیت کا کوئی بھی دوسرا شخص۔ خاکروب، پارلیمنٹ کے ممبر کا پڑوسی ہے اور ریستوران میں فرش پونچھنے والا جس قطار میں کھڑا ہو کر کھانا خریدتا ہے‘ اسی قطار میں وزیر بھی کھڑا ہوتا ہے۔ تمہارے رسولﷺ اپنے کپڑے خود دھوتے تھے اور جوتے خود مرمت کرتے تھے۔ ہم بھی ان کی خاک پا کے صدقے یہ کام خود کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ملازم نہیں ہوتے، بڑے سے بڑا شخص اپنے جوتے خود پالش کرتا ہے۔ کپڑے خود دھوتا ہے۔ استری خود کرتا ہے۔ اپنا کمرہ اور اپنا بیت الخلا خود صاف کرتا ہے۔ تمہارے رسولﷺ نے فرمایا: ’’جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ کیا نیوزی لینڈ سے لے کر بحرالکاہل کے مغربی ساحلوں تک کسی ملک میں ملاوٹ والی خوراک فروخت ہوتی ہے؟ نہیں! یہ صرف تمہارے ہاں ہو رہا ہے! تمہارے پیغمبر نے فرمایا کہ جس شخص نے کوئی عیب والی شے کسی کے ہاتھ فروخت کی اور خریدار کو وہ عیب نہیں بتلایا تو اللہ کے فرشتے ہمیشہ اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔ اپنے تاجروں اور ہمارے تاجروں کا موازنہ کر لو۔ ہمارے ہاں نقص والی شے بتائے بغیر فروخت کرنے کا تصور ہی مفقود ہے اور خریدی ہوئی شے واپس بھی ہو سکتی ہے اور تبدیل بھی! تمہارے پیغمبر کا ارشاد ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ تم صفائی میں اپنے بازاروں کا ہمارے بازاروں سے، اپنی شاہراہوں کا ہماری شاہراہوں سے، اپنے غسل خانوں کا
ہمارے غسل خانوں سے اور اپنے پارکوں اور سیرگاہوں کا ہمارے پارکوں اور سیرگاہوں سے موازنہ کرکے دیکھ لو کہ کون صاف ستھرا ہے اور کون میلا، گندا اور کثیف۔ تمہارے رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنے بوڑھوں اور ضعیفوں کا خیال رکھو کہ تمہیں انہی کی وجہ سے رزق بھی ملتا ہے اور نصرت بھی! ہم نے اپنے بوڑھوں کو مفت علاج، بس اور ٹرین میں مفت سفر اور انتہائی کم قیمت کے گھر فراہم کیے ہیں۔ ہمارے ’’اولڈ ہوم‘‘ فائیو سٹار ہوٹل کے معیار کے ہیں اور لاتعداد رضاکار صبح شام بوڑھوں کی مفت خدمت کر رہے ہیں۔ جو بوڑھے اپنے گھروں میں اکیلے ہیں رضا کار ان کے گھروں میں جا کر ان کا کام کرتے ہیں‘‘۔
’’ تمہاری دکانوں اور کارخانوں کی پیشانیوں پر کلمے اور درود لکھے ہیں اور اندر جھوٹ، وعدہ خلافی، ملاوٹ اور ٹیکس چوری کا کاروبار ہوتا ہے۔ تمہارے مکانوں پر’’ ہٰذا من فضل ربی‘‘ لکھا ہوتا ہے اور اندر نوکروں کو مارا پیٹا جاتا ہے، انہیں وہ کھانا دیا جاتا ہے جو خود تم نہیں کھاتے اور وہ پہننے کو دیا جاتا ہے جو خود تم نہیں پہننا پسند کرتے۔ تمہاری گاڑیوں میں سورہ یٰسین لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور تم ٹریفک کے ہر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہو۔ تم بارہ ربیع الاوّل منانے کے لیے کروڑوں خرچ کرتے ہو اور پورا سال اپنے رسولﷺ کی تعلیمات کو پس پشت ڈالتے ہو۔ ہمارا ہر دن بارہ ربیع الاوّل ہے۔ ہم جو کچھ بھی ہیں اس لیے ہیں کہ محمدﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں جو اس جہان کے لیے بھی رحمت ہیں جس میں ہم رہتے ہیں ۔ ہمیں امید ہے کہ محمدﷺ کا خدا ہمیں ایمان سے بھی سرفراز کرے گا۔ تم دیکھ لو، ہم میں سے جو مسلمان ہو رہے ہیں ان میں وہ برائیاں نہیں پائی جاتیں جن میں تم خاندانی مسلمان سر تا پا غرق ہو!‘‘
میں اس شام بس میں بیٹھ کر قرطبہ چلا گیا۔ نہیں معلوم وہ مسلمان تھی یا نہیں، گمان غالب یہ ہے کہ وہ مسلمان تھی یا کچھ عرصہ بعد مسلمان ہو گئی ہو گی‘ لیکن میں ہر بارہ ربیع الاوِّل کو سوچتا ہوں کہ مسلمان کہلوانے کے قابل ہوں یا نہیں!
اگر اب بھی مدارس کے مخالفین راہِ راست پر نہیں آتے تو پھر کیا وہ آسمان سے پتھروں کی بارش برسنے کے منتظر ہیں؟
اسلام کے دشمن چودھری اسلم ایس ایس پی کو ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ جان جوکھوں کا کام تھا۔ آخر یہ عظیم الشان کارنامہ مدرسہ ہی کے طالب نے سرانجام دیا ع
این کار از تو آید و مردان چنین کنند
اس خودکش بمبار کے بھائی نے دورانِ تفتیش بتایا کہ اس کے والد مدرسہ چلاتے ہیں۔ طالبان کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ ایک بھائی 2011ء میں خودکش حملہ کرنے کے لیے جا چکا ہے۔ یہ خودکش بمبار‘ جس نے چودھری اسلم کو ختم کیا‘ اپنے والد کی مدرسہ چلانے میں مدد کرتا تھا لیکن خود کسی اور مدرسہ میں زیر تعلیم تھا۔ وہ جس مدرسہ میں پڑھ رہا تھا‘ اس مدرسہ کے مالک (یا چلانے والے) کا صاحبزادہ بھی خودکش حملہ کر چکا ہے۔ خودکش بمبار کے بھائی نے مزید بتایا کہ اس کا ایک بھائی خودکش حملہ کرنے گیا تو اپنے دوسرے ساتھی کی گرفتاری سے خوف زدہ ہو کر واپس بھاگ آیا۔ اس پر مشن کی ناکامی کا الزام لگا اور وہ قتل کردیا گیا۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم کچھ تجاویز پیش کر رہے ہیں:
…ملک میں مدارس کی تعداد کو کئی گنا زیادہ کیا جائے۔ ایک ترکیب یہ ہے کہ تمام سرکاری سکولوں اور کالجوں کو ختم کر کے انہیں مدارس قرار دے دیا جائے اور علماء کرام سے درخواست کی جائے کہ وہ آ کر انتظام و انصرام سنبھالیں۔
…تمام یونیورسٹیوں کو ’’دارالعلوم‘‘ قرار دے دیا جائے۔ ان میں صرف وہ علوم پڑھائے جائیں جنہیں ہمارے علماء کرام منظور فرمائیں۔
…پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے تعلیمی ادارے فی الفور بند کر دیے جائیں۔ مالکان کو حکم دیا جائے کہ اداروں کی چابیاں علماء کرام کے سپرد کردیں۔
…پورے ملک میں پتلون‘ کالر والا کوٹ‘ نکٹائی اور تسموں والے جوتے پہننا خلافِ قانون قرار دیا جائے۔
…کھانا میز کرسی پر بیٹھ کر کھانے کو جرم قرار دیا جائے۔
…سرکاری دفاتر سے میز کرسیاں اٹھا لی جائیں۔ افسروں کو گائو تکیے مہیا کیے جائیں۔ وہ قالینوں پر بیٹھیں اور سامنے لکڑی کی چوکیاں رکھیں۔
…انگریزی زبان سیکھنے اور سکھانے والوں کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ سید سلیمان ندوی کی تصنیف خطباتِ مدراس (Madras) پر پابندی عائد کی جائے۔ اس کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ علماء کرام کے لیے انگریزی زبان کا سیکھنا فرض ہے۔ سید سلیمان ندوی پر بعداز مرگ مقدمہ چلا کر قرار واقعی سزا سنائی جائے۔
…چونکہ تمام اسلامی علوم اور تعلیمات کا منبع افغانستان ہے‘ اس لیے وہاں کے رسوم و رواج کو کلی طور پر رائج کیا جائے۔ بالخصوص:
…شٹل کاک (ٹوپی) برقع ہر پاکستانی عورت کے لیے لازمی قرار دیا جائے۔
… مردوں کے لیے پگڑی لازم قرار دی جائے۔ پگڑی باندھنے کا طریقہ بھی وہی ہو جو افغانستان میں رائج ہے۔ راجستھانی‘ پنجابی یا سندھی انداز میں پگڑی باندھنا جرم قرار دیا جائے۔
…ٹیکسلا کے عجائب گھر کو مسمار کر کے وہاں مدرسہ قائم کیا جائے۔
…بزرگ کبھی غلطی کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ ان کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے۔ ان کی اقتدا میں عورتوں کو پڑھنے کی اجازت تو دی جائے لیکن ان کے لیے لکھنا منع ہو۔ کسی لڑکی کو لکھائی سکھانے والے کو عبرت ناک سزا دی جائے۔
…تمام بینک اور دیگر مالی ادارے فی الفور بند کر دیے جائیں۔ مالیات و حسابات کا کام علماء کرام کے سپرد کیا جائے۔
…کسی ایسی شے کا استعمال سختی سے ممنوع قرار دیا جائے جس کا کسی یہودی‘ عیسائی‘ ہندو یا کسی بھی کافرانہ مذہب سے دور کا بھی تعلق ہو۔ چنانچہ کار‘ ہوائی جہاز‘ موبائل فون‘ ٹیلی ویژن‘ اے سی‘ ریفریجریٹر‘ لائف سیونگ ادویات‘ بائی پاس آپریشن‘ اینجیوپلاسٹی‘ انٹرنیٹ‘ بال پین‘ ہینگر‘ ایمبولینس‘ ٹرین‘ لائوڈ سپیکر وغیرہ چونکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی ایجادات ہیں‘ اس لیے ان کی درآمد‘ فروخت‘ خرید اور استعمال پر پابندی عائد کی جائے۔
…عدالتیں فی الفور بند کردی جائیں۔ ان کی جگہ جرگہ سسٹم اور پنچایت کا نظام نافذ کیا جائے۔
…پاسپورٹ سسٹم غیر اسلامی ہونے کی وجہ سے ختم کردیا جائے۔ کسی بھی مسلمان ملک سے جو لوگ‘ جتنی تعداد میں آنا چاہیں‘ انہیں آنے‘ آباد ہونے اور اسلحہ رکھنے کی اجازت دی جائے۔
…جو ممالک پاکستانیوں کو پاسپورٹ یا ویزا کے بغیر آنے کی اجازت نہ دیں‘ ان سے سفارتی تعلقات ختم کردیے جائیں۔
…تمام غیر ملکی قرضے‘ بشمول ورلڈ بینک‘ آئی ایم ایف‘ ایشیائی ترقیاتی بینک‘ یک طرفہ طور پر منسوخ کر دیے جائیں اور ادائیگی سے انکار کردیا جائے۔
…غیر مسلم ممالک پر ایٹم بم گرایا جائے۔
…صدر اور وزیراعظم کے لیے پگڑی‘ چُغہ اور ہوائی چپل سرکاری اور قومی لباس قرار دیا جائے۔
…ڈاکٹری (ایلوپیتھک طریقِ علاج) ممنوع قرار دے کر یونانی طریقِ علاج جاری کیا جائے اور اسے یونانی کے بجائے اسلامی کہا جائے۔
…نیزہ بازی‘ تیراندازی اور شمشیر زنی کے علاوہ تمام نام نہاد کھیلوں پر پابندی عاید کردی جائے۔ بُزکشی کو قومی کھیل قرار دیا جائے۔
…جانچ پڑتال کی جائے کہ ملک کی آبادی میں کتنے لوگ دائرۂ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں۔ ہر محلے میں علماء کرام کا بورڈ قائم کیا جائے۔ جو لوگ‘ دائرۂ اسلام سے باہر ثابت ہوں انہیں ذبح کیا جائے اور ان مناظر کی وڈیو جاری کی جائیں (چونکہ وڈیو کیمرے کفار کی ایجاد ہیں اس لیے علماء کرام سے درخواست کی جائے کہ وہ صرف اس مقصدِ جلیلہ کے لیے وڈیو کیمرے کی اجازت مرحمت فرمائیں)۔
…جمہوریت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔ الیکشن کمیشن‘ پارلیمنٹ‘ صوبائی اور مقامی جمہوری ادارے بند کر دیئے جائیں۔
یہ تمام اصلاحات اسی صورت میں ہو سکتی ہیں کہ ایک مقبولِ عام سیاست دان‘ جو جرگہ سسٹم کے پرانے مداح ہیں اور غازیانِ اسلام کے حامی‘ برسرِ اقتدار لائے جائیں‘ وفاق میں بھی ان کا اشتراک انہی قوتوں کے ساتھ ہو‘ جن کا ساتھ دینے کے لیے وہ معروف ہیں۔
مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ میں ایک کند ذہن شخص ہوں۔ اللہ کو جان دینی ہے۔ سچ بولنا چاہیے۔ اول تو معاملات سمجھ ہی میں نہیں آتے اور آئیں بھی تو بہت دیر سے آتے ہیں۔ میری مثال سچ پوچھیے تو اُس شخص کی ہے جو لطیفہ سنتا تھا تو دو بار ہنستا تھا۔ پہلی بار اس لیے کہ سب ہنستے تھے۔ دوسری بار تب جب اُسے لطیفہ سمجھ میں آ جاتا تھا۔
بتانا یہ چاہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کی قبولیتِ عامہ کا سبب ایک عرصہ تک سمجھ میں نہ آیا۔ حیران ہوتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اس نے پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ بلوچستان اور دیہی سندھ میں بڑے بڑے بُرج اُلٹ دیے۔ شہروں میں تو زبردست مقبولیت تھی ہی‘ چھوٹے چھوٹے قصبوں اور قریوں میں بھی ہر چوپال پر‘ ہر دکان پر‘ ہر دیوار پر قائدِ تحریک کی تصویر لگی نظر آتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ حق پرست تحریک برادری ازم کو کھا گئی۔ گجرات سے چودھری ایم کیو ایم کے امیدواروں کے ہاتھوں ہار گئے۔ رائے ونڈاور ماڈل ٹائون کی نشستیں بھی اس نے جیت لیں۔ چار سدہ سے ولی خان خاندان کی آبائی نشست بھی اس کے ہاتھ آئی۔ راولپنڈی سے شیخ رشید‘ مری سے خاقان عباسی‘ ڈی آئی خان سے مولانا فضل الرحمن‘ ملتان سے قریشی‘ ہاشمی اور گیلانی خانوادے… غرض سب پِٹ گئے۔ ہر طرف ایم کیو ایم ہے۔ جو لوگ اسے صرف کراچی اور حیدرآباد کی جماعت کا طعنہ دیتے تھے‘ انہوں نے منہ کی کھائی‘ رُسوا ہوئے اور جیتے جی گوشۂ گمنامی میں چلے گئے۔
یہ تو اب سالہا سال کے مشاہدے اور مطالعے کے بعد مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس جماعت کی پالیسیاں گہرے غوروفکر کے بعد بنائی جاتی ہیں۔ حکمت اور دانائی کے رموز ان پالیسیوں میں پوشیدہ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جماعت ہر صوبے‘ ہر خطے‘ ہر علاقے میں فتح کے پھریرے اڑاتے آ جاتی ہے۔ مخالفین انگاروں پر لوٹنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ جو ایم کیو ایم نے تازہ بیان دیا ہے‘ یہ ان کی حکمت اور دانائی سے لبا لب بھری پالیسیوں کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ ایم کیو ایم نے ملک کے بے خبر عوام کو اطلاع بہم پہنچائی ہے کہ جنرل پرویز مشرف پر اس لیے مقدمہ چلایا جا رہا ہے کہ وہ مہاجر ہیں‘ اس زبردست ناقابلِ تردید حقیقت کے انکشاف کے بعد ایم کیو ایم کے مخالفین میں صفِ ماتم بچھ گئی ہے۔ ان مخالفین کی رہی سہی چند نشستیں بھی ایم کیو ایم والے جیت جائیں گے۔
ایم کیو ایم نے بالکل سچ کہا ہے کہ پرویز مشرف بیچارے اس لیے تختۂ مشق بنائے جا رہے ہیں کہ وہ مہاجر ہیں اور ستم بالائے ستم دیکھیے کہ سارے مہاجروں کو ایک طرف کردیا گیا ہے تاکہ ان پر ظلم و ستم کرنے میں آسانی ہو۔ ان مہاجروں میں احمد رضا قصوری سے لے کر چودھری شجاعت حسین تک سب شامل ہیں۔ یہ مہاجر اگر پرویز مشرف کا ساتھ نہ دیتے تو خدا جانے بیچارے پرویز مشرف کا کیا حشر ہوتا۔ احمد رضا قصوری ہی کو لیجیے‘ پکے مہاجر ہیں۔ لکھنؤ میں پیدا ہوئے‘ دلی میں پلے بڑھے۔ قصوری نام کے ساتھ ضرور لکھتے ہیں لیکن اس کی نسبت اُس قصور سے نہیں جو پنجاب میں لاہور کے قریب واقع ہے۔ انہیں قصوری اس لیے کہتے ہیں کہ ان سے قصور بہت سرزد ہوتے ہیں۔ جنرل صاحب کے دوسرے وکیل جناب ابراہیم ستی بھی مہاجر ہیں۔ ستی قبیلہ مری کے قرب و جوار میں آباد ہے لیکن ابراہیم ستی رام پور کے ہیں۔ ہو سکتا ہے انہیں ستی اس لیے کہا جاتا ہو کہ ان کے بزرگوں نے ہندوئوں کی قبیح رسم ستی کی مخالفت کی تھی!
چودھری شجاعت صاحب ڈنکے کی چوٹ جنرل صاحب کی حمایت میں باہر نکلتے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ آئین شکنی اور غداری میں فرق ہونا چاہیے۔ چودھری صاحب یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر غداری کا مقدمہ پرویز مشرف صاحب پر چلانا ہے تو مجھ پر بھی چلایئے۔ آخر کوئی غیر مہاجر اتنی شدومد کے ساتھ ایک مہاجر کی ہم نوائی کیوں کر کر سکتا ہے؟ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ چودھری صاحب سکہ بند مہاجر ہیں۔ اصلاً پٹنہ سے ہیں‘ نستعلیق اردو بولتے ہیں۔ سالہا سال پنجاب میں رہنے کے باوجود پنجابی روانی سے نہیں بول پاتے۔
کچھ عقل کے اندھے اعتراض کر رہے ہیں کہ دس سال جب جنرل پرویز مشرف اس ملک میں سیاہ و سفید کے مالک رہے اور جو چاہا‘ کرتے رہے‘ تو اس وقت ایم کیو ایم نے ان کے مہاجر ہونے کا نعرہ کیوں نہیں لگایا۔ ان کم فہم حضرات سے کوئی پوچھے کہ بے وقوفو! اگر اس وقت ایم کیو ایم پرویز مشرف کے مہاجر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی تو عوام کو معلوم ہو جاتا کہ وہ مہاجر ہیں‘ اور یوں عوام اور سیاسی جماعتیں اُن کا اقتدار ختم کر دیتیں‘ ایک پورا عشرہ حکومت وہ اسی لیے کر گئے کہ ان کے مہاجر ہونے کا اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو علم ہی نہ تھا۔ صرف انہی کا کیا‘ ان کے تمام دوستوں کے مہاجر ہونے کا کسی کو علم نہ ہو سکا۔ یہ امیر مقام‘ یہ سمیرا ملک‘ یہ زاہد حامد‘ یہ فیصل صالح حیات‘ یہ ڈاکٹر شیرافگن نیازی‘ یہ چودھری پرویزالٰہی‘ یہ اعجاز الحق‘ یہ عمر ایوب خان۔ یہ سب جو اُن کے ساتھ تھے‘ مہاجر ہی تو تھے۔ پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں ایم کیو ایم
نے اس لیے چُپ سادھے رکھی کہ کہیں حقیقت کا علم ہونے پر ایک مہاجر کا اقتدار رخصت نہ ہو جائے۔
یہاں ایک راز کی بات یہ بھی بتا دوں کہ یہ جو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں ایم کیو ایم کی حمایت کی جاتی ہے تو یہ بھی مہاجر ہونے ہی کا شاخسانہ ہے۔ حسن نثار ایم کیو ایم کے حق میں لکھتے ہیں‘ اس لیے کہ پکے مہاجر ہیں۔ علی گڑھ میں پیدا ہوئے‘ جونپور میں تعلیم پائی۔ نذیر ناجی میرٹھ سے ہیں۔ ہارون الرشید آگرہ کے ہیں۔ گورکھپور میں پڑھتے رہے۔ اگر یہ لوگ پنجابی ہوتے تو ایم کیو ایم کے حق میں کبھی نہ لکھتے!
آج جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے بزرگ جنرل پرویز مشرف کی قسمت پر رشک کر رہے ہیں کہ ایم کیو ایم ان کی حمایت پر کمربستہ ہے۔ رشک بجا‘ لیکن اگر جنرل بیگ اورڈاکٹر اے کیو خان یہ کہیں کہ وہ بھی تو مہاجر تھے۔ ایم کیو ایم نے ان کی حمایت کیوں نہ کی؟ آخر جنرل بیگ کئی بار عدالتوں میں حاضر ہوئے۔ میڈیا نے بھی انہیں بہت پریشان کیا۔ ڈاکٹر خان سے بھی زیادتی ہوئی‘ انہیں نظر بند رکھا گیا اور قریبی اعزہ سے بھی ملنے نہ دیا گیا۔ تو ان بزرگوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ قطعاً مہاجر نہیں۔ مہاجر ہوتے تو ایم کیو ایم ان کے حوالے سے بھی مہاجر کارڈ نکال لیتی۔ جنرل مرزا اسلم بیگ صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ وہ تو چکوال کے ہیں۔ رہے ڈاکٹر خان تو اہلِ خبر کو معلوم ہے کہ ان کا تعلق ساہی وال سے ہے!
آخر شاہی خاندان کے ذہن میں مستقبل کا کیا نقشہ ہے؟ خاکم بدہن ، سوچنے ہی سے خوف آنے لگتا ہے!
اگر اسفند یار جلال آباد یا کابل جا کر اپنے دادا کے دوستوں کے خانوادوں کے ساتھ جپھیاں ڈالتے تو ڈیرہ اسماعیل خان سے لے کر بنی گالہ تک گرج چمک کے ساتھ طوفان بھی آ جاتا۔
وفاق خیبر پختونخوا کے مسئلوں سے یکسر بے نیاز ہے۔ ہزاروں افراد روزانہ طورخم کے آرپار آ جا رہے ہیں۔ سکیورٹی ہے نہ کسی سرحد کی حرمت۔ ایسے میں اگر پرویز خٹک صاحب میں خوداعتمادی ہوتی اور قوتِ فیصلہ بھی تو وہ کرزئی حکومت سے بات چیت کر کے اپنے دکھوں کا مداوا کرنے کی خود سعی کرتے، لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو پنجاب کی وزارت قانون سے لے کر وفاق کی وزارت اطلاعات تک ایمرجنسی کا نفاذ ہو جاتا۔ صوبے کے سب سے بڑے شہر کے سیوڈو دانشور مال روڈ کے چائے خانوں میں چکن سینڈوچ اور پیسٹریوں کی پلیٹوں پر ٹپ ٹپ آنسو گراتے اور ان کارخانوں میں رات دن شفٹیں چلا کر‘ پیداوار ڈبل کی جاتی جن میں دوسروں کو غدار ثابت کرنے کے لیے نٹ بولٹ اور گراریاں بنائی جاتی ہیں۔
سید قائم شاہ کی چیف منسٹری کے پیروں میں زنجیریں نہ ہوتیں اور وہ بلاول ہائوس کے بجائے صوبے کے عوام کو اپنے اقتدار کی بنیاد بناتے تو وفد لے کر احمد آباد یا گاندھی نگر جاتے اور تھرپارکر کے صحرا کو گل و گلزار بنانے کے لیے گجرات کے وزیراعلیٰ سے اقتصادی منصوبوں پر مذاکرات کرتے۔ سانگڑھ اور میرپور خاص کی پس ماندگی دور کرنے کے لیے سرحد پار
کرتے۔ جے پور جا کر راجستھان کے فلاحی اور معاشی منصوبوں کا مطالعہ کرتے اور عوام کا مقدر بدلنے کے لیے کچھ پیش قدمی کرتے۔ بھارت کی ان ریاستوں میں حکومتوں کے بیشتر کاروبار کمپیوٹر سے چل رہے ہیں۔ افسوس! عمر رسیدہ شاہ صاحب کو نوکری بچانے کے لیے ایسے ایسے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ راجستھان اور گجرات تو دور کی بات ہے‘ انہیں یہ جاننے کی بھی فرصت نہیں کہ اسلام آباد اور لاہور میں کیا ہو رہا ہے۔ لیکن فرض کیجیے کوئی پری، شاہ صاحب کی بند آنکھوں سے غفلت کی سوئیاں نکال دیتی ہے اور وہ احمد آباد یا جے پور چلے جاتے ہیں تو آپ کا کیا خیال ہے کیا ہوگا؟ لاہور کی ملتان روڈ پر زلزلہ آ جائے گا۔ پیپلزپارٹی کے بارے میں وہ وہ انکشافات کیے جائیں گے کہ فرشتوں کے علم میں بھی اضافہ ہوگا۔ میڈیا پر سازشی تھیوریوں کی آگ اگلنے والے نیکوکار جہنم کے داروغوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائیں گے۔
سعود عثمانی نے دیوبند کے قرب و جوار میں آبائی مکان دیکھے تو آنسو شعروں میں ڈھل گئے ؎
ہچکیوں نے کسی دیوار میں در رکھا تھا
میرے آبا نے جب اس خاک پہ سر رکھا تھا
دل تھے متروکہ مکانات کی صورت خالی
اور اسباب میں بچھڑا ہوا گھر رکھا تھا
جسم اجداد کی قبروں سے نکلتے ہی نہ تھے
نسل در نسل اسی خاک میں زر رکھا تھا
کون ہے جسے اپنے آباواجداد کے دالان اور ڈیوڑھیاں عزیز نہیں۔ اگر الطاف حسین اپنے چار پانچ ساتھیوں کے ساتھ یوپی اور بہار جا کر آبائی گلی کوچے ڈھونڈیں اور نئی نسل کو رُوٹس سے آشنا کرنے کے لیے چھوڑے ہوئے شہروں‘ قصبوں اور قریوں کی زیارت کریں تو غداری کے ساتھ ساتھ شاید کفر کے فتوے بھی لگ جائیں۔
لیکن یہ سب کچھ اگر وہاں ہو جہاں غدار بنانے کے ٹھپے پائے جاتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ انگشت نمائی کرے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھارت کا تفصیلی دورہ کرنے کے بعد ا ب وزارت خارجہ کے علاوہ باقی وفاقی وزارتوں کے فرائض بھی سرانجام دینے لگے ہیں۔ دو دن پیشتر بھارتی ہائی کمشنر سے اپنی راجدھانی میں انہوں نے ملاقات کی ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب سے دو اعلیٰ اختیاراتی وفود بھارت جا کر دونوں ’’ملکوں‘‘ میں تجارتی تعلقات کوصیقل کریں گے۔ صوبے کے وزیر زراعت وفود کی قیادت کریں گے اور بھارت کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ خبر کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ بھارت کے وزیراعظم کے ساتھ‘ وزیراعلیٰ نے جو ملاقات کی تھی‘ یہ سب کچھ اس کے نتائج میں شامل ہے۔
اس کو تو چھوڑ دیجیے کہ وزیراعظم کے بھائی واحد وزیراعلیٰ تھے جو ان کے ساتھ چین اور ترکی گئے۔ تازہ ترین مذاق ملاحظہ ہو۔۔۔ سعودی وزیر خارجہ کے ساتھ وزیراعظم کی سرکاری ملاقات میں پنجاب کے وزیراعلیٰ موجود ہیں اور وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں۔۔۔ Add insult to injury ۔۔۔تو طرفہ تماشا یہ ہے کہ مشیرِ خارجہ‘ وزیراعلیٰ کے بعد بٹھائے گئے ہیں۔ پوری دنیا کی حکومتوں کا پروٹوکول یہ ہے کہ جب سربراہ حکومت کوئی ملاقات کرتا ہے یا اجلاس بلاتا ہے تو متعلقہ وفاقی وزیر اس کے ساتھ بیٹھتا ہے ، لیکن یہاں ہر شے انوکھی ہے۔ وزیراعظم کے ساتھ وزیر خزانہ تشریف فرما ہیں جو سمدھی ہیں ، پھر وزیر داخلہ بیٹھے ہیں ، پھر ایک صوبے کے منتظم اعلیٰ‘ جو بھائی ہیں اور چوتھے نمبر پر مشیر خارجہ جن کی نشست اصولی طور پر وزیراعظم کے ساتھ رکھنی چاہیے تھی۔ دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ مشیر خارجہ ہیں تو پختون‘ لیکن سالہا سال سے اُس شہر میں رہ رہے ہیں جہاں کھابوں کے علاوہ پیش منظر پر سُبکی کیا، کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ اگر اپنے اصلی صوبے میں رہ رہے ہوتے تو یقیناً اس سُبکی کو برداشت نہ کرتے۔
صوبائی حدود توڑ کر وفاقی ذمہ داریاں خود سنبھال لینے کا اس سے بہتر موقع ملے گا بھی کہاں؟ کوئی احتجاج کرنے والا دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اس لیے اعتراض نہیں کر سکتے کہ اُن کے سر پر جو ہُما بیٹھا ہے‘ وہ اصلاً آیا ہی وہاں سے ہے! چوں چرا کریں گے تو ہُما اڈاری بھرے گا اور سوکھے ہوئے راوی کے کنارے جا بیٹھے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ رات دن ایک تنی ہوئی رسی پر چل رہے ہیں۔ ایک طرف مردان ہائوس ہے‘ دوسری طرف نائن زیرو ہے ، تیسری طرف بلاول ہائوس ہے اور چوتھی طرف دبئی ہے جہاں کسی بھی وقت طلب کیا جا سکتا ہے۔ اب بلاول بھی ان کے ’’کرم فرمائوں‘‘ میں شامل ہو گئے ہیں۔ منہ بولے بھائی تو پہلے ہی سے کرم فرما تھے۔ اس قابلِ رحم اور دردناک صورتِ حال میں بیبے شاہ صاحب کو شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ کسی ملک سے کوئی وزیر خارجہ آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ وفاق کی میٹنگ میں ایک صوبائی حاکم تشریف فرما ہے۔
رہے جناب پرویز خٹک، تو اُن کی حالت دیکھ کر اقبال کی نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ یاد آتی ہے۔ مومن کے بارے میں ابلیس اپنے مشیروں کو ہدایت کرتا ہے ؎
ہے یہی بہتر الٰہیّات میں الجھا رہے
یہ کتابُ اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
مست رکھو ذکر و فکرِ صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاجِ خانقاہی میں اسے
غصہ تو آتا ہوگا لیکن انگریزی بولنے والی بی بی اور وہ صاحب جن کے اڑن کھٹولے پر بڑے صاحب سواری کرتے ہیں‘ غالباً ابھی اجازت نہیں دے رہے کہ سب سے بڑے صوبے کی دھاندلی پر احتجاج کریں!
کئی سال پہلے اُس کی تصنیف ’’وائٹ مغلز‘‘ پڑھی۔ تب سے ولیم ڈال رمپل (Dalrymple)کے طرزِ نگارش نے اپنے سِحر میں جکڑ رکھا ہے۔
ثقافتی حوالے سے بّرِصغیر کے برطانوی دور کو دو حصّوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ 1800ء سے پہلے اور 1800ء کے بعد۔ 1798ء میں رچرڈ ولزلے ہندوستان کا گورنر جنرل بن کر آیا۔اس سے پہلے انگریز حکمرانوں اور ہندوستانی محکوموں میں آقا اور نوکر کا تعلق تو تھا۔ لیکن ابھی آقائوں کے رویّے میں رعونت اور فرعونیت نہیں آئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انگریز مقامی خواتین سے شادیاں کرتے تھے۔ ہندوستانی لباس اپناتے تھے۔ قالینوں پر بیٹھ کر حقہ نوشی کرتے تھے۔ پان کھاتے تھے اور ہندوستان کی ثقافتی تقریبات میں شرکت کیا کرتے تھے۔ ایسے انگریزوں کو جو ہندوستانی طرزِ زندگی اپنا لیتے تھے‘ وائٹ مغل کہا جاتا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق ہرتین میں سے ایک انگریز مقامی عورت سے شادی کرتا تھا۔
1798ء سے 1805ء تک کا عرصہ برطانوی حکمرانوں کا ایک نیا طرزِ عمل لایا۔ یہ رچرڈ ولزلے کی گورنری کا زمانہ ہے۔ اُس نے اپنے طرزِ حکومت سے‘ماتحت انگریزوں کو ہدایات سے‘تحریری فرامین سے۔ہر ممکن طریقے سے اِس دوستانہ رویے کو تبدیل کرایا اور انگریزوں کو‘خواہ وہ فوج میں تھے یا سول سروس میں‘ یا راجوں ، مہاراجوں اورنوابوں کے درباروں میں سفارت کاری کر رہے تھے‘ یہ احساس دلایا کہ ہندوستانی محکوم ہیں۔ ان سے وہی سلوک کرنا چاہیے جو آقا غلاموں سے کرتے ہیں؛ چنانچہ 1800ء کے بعد سفید فام آقائوں اور گندمی اور کالے مقامیوں میں فاصلے پیدا ہونے شروع ہو گئے۔شادیوں کا سلسلہ تھم گیا۔ حقّہ پینے‘قالینوں پر بیٹھنے اور انگرکھا ‘پاجامے اور دوپلّی ٹوپی پہننے والے انگریزوں کی تعداد بتدریج کم ہونے لگی۔ دو تین عشروں کے بعد وائٹ مغل ختم ہو گئے۔
ولیم ڈال رمپل کی ’’وائٹ مغلز‘‘ بظاہر تو ایک عشقیہ داستان ہے۔ نظام حیدر آباد کے دربار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا نمائندہ‘ جو ریذیڈنٹ کہلاتا ہے۔ مسلمان ہو جاتا ہے۔ اس کا نام کرک پیٹ رِک ہے۔ وہ ایک عالی نسب خاتون خیرالنساء سے محبت کرتا ہے۔ ان کی شادی ہو جاتی ہے۔ لیکن اصل میں یہ کتاب اُس وقت کے پورے بّرِ صغیر کی عسکری‘اقتصادی اور سماجی تاریخ ہے۔ سکّہ بند تدریسی کتابوں کو پڑھنے سے بّرِصغیر کی رسمی تاریخ سے تو آگاہی ہو جاتی ہے لیکن تہہ در تہہ جو مرئی اور غیر مرئی رویں چل رہی تھیں‘ اُن سے واقفیت اُسی صورت میں ہوتی ہے جب سماجی حوالے سے لکھی گئی تحریریں پڑھی جائیں۔ مثلاً مغلوں کے بارے میں بے شمار کتابیں لکھی گئی ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر میں وہی سٹائل ملتا ہے جو امتحان پاس کرنے کے لیے طالب علم اپناتے ہیں۔زوال کے اسباب کیا تھے؟ اور کارنامے کیا تھے؟ چنائی (مدراس) یونیورسٹی میں تاریخ پڑھانے والے ابراہام ایرالی نے مغلوں کی تاریخ کیا لکھی ہے‘ قلم توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ابراہام نام بتا رہا ہے کہ مصنف ہندو نہیں ہے۔ جزئیات لکھتے وقت یہاں تک بتاتا ہے کہ بابر نے آگرہ کے مضافات میں نئی آبادی کی داغ بیل ڈالی تو اس کا نام ’’کابل ‘‘ رکھا ۔ ایک عرصہ بعد کابل سے خربوزے آئے۔ خربوزہ کاٹتا جاتا تھا اور روتا جاتا تھا۔ابراہام ریلی ، واقعات کے ساتھ اقتصادی اور معاشرتی گتھیاں بھی سلجھاتا جاتا ہے، اور اعداد و شمار سے بتاتا ہے کہ مغلوں کا اقتدار جب نصف النہار پر تھا تو طبقاتی تقسیم اس قدر شدید تھی کہ ساری سلطنت کی ایک چوتھائی دولت پر چند سو افراد کا تصرف تھا۔
ولیم ڈال رمپل تاریخ کو فلسفۂ تاریخ بنانے میں ابراہام ایرالی کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ بّرِصغیر میں ڈال رمپل کی دلچسپی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کی پڑدادی یا مگردادی ہندوستان سے تھی ؛چنانچہ اُسکی رگوں میں ہندوستانی خون دوڑ رہا ہے۔ کیمبرج کا فارغ التحصیل پچاس سالہ ڈال رمپل پہلی بار 1984ء میں دہلی آیا اور پھر دہلی کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ پچیس سال سے وہیں رہ رہا ہے یہ اور بات کہ تابستان (گرمیاں ) لندن اور ایڈنبرا میں گزارتا ہے۔
ڈال رمپل کا اصل کمال یہ ہے کہ اُس کے مآخذ بالکل نئے اور اچھوتے ہیں۔اُس نے لندن‘دہلی اور لاہور کے آرکائیو چھان مارے ہیں۔
کسی بھی موضوع پر تحقیق کرتا ہے تو پامال حوالوں اور روایتی ذرائع کے قریب تک نہیںپھٹکتا ۔ اس نویسندہ نے جب اُس کی معرکہ آرا تصنیف’’لاسٹ مغل‘‘پڑھی تو حالت یہ تھی کہ ہفتوں یوں لگتا تھا دلّی میں بسیرا ہے۔ بہادر شاہ ظفر کی یہ داستان اُس جنگِ آزادی کی دردناک قندیل ہے جو بھڑکنے سے پہلے ہی بجھ گئی تھی۔ ڈال رمپل صرف انگریزوں کی ڈائریوں اورذاتی یادداشتوں کے حوالے نہیں دیتا بلکہ مسلمانوں اور ہندوئوں کے روزنامچوں سے بھی استفادہ کرتا
ہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ریذیڈنٹ مٹکاف اور اُس کے ماتحت اپنے اپنے دفتروں میں صبح سات بجے پہنچ جاتے تھے ۔گیارہ بجے تک کام کا بیشتر حصّہ نمٹا کر جب وہ گرمی کی شدت گزارنے کے لیے وقفہ کرنے، بیرکوں سے رہائش گاہوں کو پلٹ رہے ہوتے تھے تو شاہی قلعے میں شاہی خاندان کے چشم و چراغ بیدار ہونے کی کوشش کر رہے ہوتے تھے۔1875ء میں وہ وقت بھی آیا جب انگریز دہلی پر قبضہ کرنے میں ناکام ہو کر مایوس ہو نے لگے تھے۔ دہلی کے مسلمان اور ہندو یک جان دو قالب ہو کر سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے تھے۔ بہادر شاہ ظفر کا بیٹا کمان کر رہا تھا۔عیدالاضحی آ گئی۔ حالات اس قدر نازک اور فیصلہ کن تھے کہ بادشاہ نے رواداری کے نقطۂ نظر سے گائے کی قربانی اس سال نہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن ’’مرنے مارنے‘‘ والے اُس وقت بھی موجود تھے۔ شاہی فرمان کو دین میں مداخلت گردان کر ہنگامہ بپا کیا گیا۔ یہ وہ موڑ تھا جب جنگ نے کروٹ بدل لی۔ پانسہ پلٹ گیا۔ ہندو مسلم اختلافات نے لڑتی ہوئی صفوں میں رخنے پیدا کئے۔ دہلی پر نہ صرف انگریزوں کا قبضہ ہو گیا بلکہ حویلیوں پر ہل چلا دیے گئے‘ محلوں کے محلّے نابود ہو گئے اور درختوں کی شاخیں پھانسیاں دینے کے لیے کم پڑ گئیں۔
مگر ڈال رمپل کا اصل شہکار اُس کی تازہ ترین تحقیقی تخلیق۔Rerturn of a Kingہے ۔ یہ انگریزوں کی پہلی افغان جنگ پر طویل تحقیقی مقالہ ہے ع
ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیان اپنا
ڈال رمپل کی دُھلی دُھلائی شستہ
ادبی انگریزی‘ تحقیق گھاٹیوں سے گزرتی ہے اور پڑھنے والے کو اُس کے ماحول سے کاٹ کر قندھار کے انار کے باغوں‘غزنی کے مزاروں اور کابل کیشور بازار اور ’ ’ محلّہ عاشقان و عارفاں‘‘ میں لا بٹھاتی ہے اور پھر وہاں سے نکلنے نہیں دیتی۔ 1840-41ء میں انگریزوں نے شاہ شجاع کو کٹھ پتلی حکمران بناکر کابل کے تحت پر بٹھایا۔ انجام یہ ہوا کہ پوری انگریزی فوج سے صرف ایک شخص جان بچا کر کابل سے جلال آباد پہنچ سکا۔ اُسے بھی غالباً افغانوں نے اس لیے چھوڑ دیا کہ جا کر دوسروں کا انجام بتا سکے۔ یہاں بھی ڈال رمپل روایتی مآخذ سے جان بچا کر چلتا ہے۔ کابل میں جنگ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر روزانہ ڈائری لکھنے والی انگریز بیگمات سے لے کر منشی دوست محمد ہراتی اور موہن لال کشمیری تک۔سب کی یادداشتوں اور روزنامچوں سے استفادہ کرتا ہے۔
برطانوی ہند نے افغانستان سے تین جنگیں لڑیں۔ڈال رمپل طالبان کی حکومت پر امریکی حملے کو ’’مغرب کی چوتھی افغان جنگ‘‘ قرار دیتا ہے اور امریکہ کو باور کراتا ہے کہ اُس کا جیتنا امرِ محال ہے۔ ریٹرن آف اے کنگ پڑھ کر دو حقیقتوں کا ادراک شدت سے ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ جو حماقتیں انگریزوں نے افغانستان میں کی تھیں‘ وہی حماقتیں سو ڈیڑھ سو سال بعد امریکہ بھی کر رہا ہے۔ بالخصوص امریکہ کو بھی افغانستان میں اُسی احمق اور تنگ نظر بیورو کریسی نے تباہ کیا جس نے ہندوستان کی انگریزی حکومت کو افغانستان میں مروایا تھا۔ دوسری بات جو ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستی ہے یہ ہے کہ اس سارے عرصہ میں افغانوں کی تعلیمی‘سماجی‘ عسکری اور روایتی زندگی میں ذرّہ بھر تبدیلی نہیں پیدا ہو سکی ع
زمین جنبد‘ نہ جنبد گُل محمد
یہ گنہگار اُن لوگوں میں سے نہیں جو قائداعظم کو سیکولر قرار دینے پر مصر ہیں یا انہیں مولوی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ قائداعظم کو اپنے پسندیدہ خانوں میں فٹ کرنا اُن کی تو ہین ہے۔رہا پاکستان کا اسلامی تشخص تو اس کے بغیر چارہ ہی نہیں۔ بھارت سے الگ ہونے کا مطلب ہی یہ تھا کہ ہماری شناخت اسلام ہے۔ پاکستان اس لیے بنا تھا کہ یہاں اسلامی اخوت و مساوات اور اسلامی احکام کے مطابق عوام سے انصاف کیا جائے۔ ہمارے فاضل دوست جب اسلام کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو ہم ان سے اتفاق کرتے ہیں۔ ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ ہم اس جدوجہد میں حقائق کو مسخ نہ کریں۔ قائداعظم کے ساتھی بھی ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں۔ شہید ملت لیاقت علی خان کے بارے میں یہ تاثر دینا کہ وہ قادیانی وزیر خارجہ کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے‘ افسوس ناک ہے!
ہمارے فاضل دوست نے اپنے اٹھارہ مئی 2013ء کے کالم (جمہوریت کے اجارہ دار) میں تین دعوے کیے۔ اوّل: قائداعظم کی ہدایت پر لاہور میں علامہ اسد کی سربراہی میں ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم ہوا تھا۔ دوم: قائداعظم نے اسد کو ستمبر 1947ء میں ریڈیو پر تقاریر کرنے کی ہدایت کی۔ سوم: جب اسد کے محکمے نے اپنا تمام کام مکمل کیا تو وہ یہ سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ سر ظفر اللہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ 27 دسمبر 2013ء کے ایک انگریزی اور انہی کے اردو معاصر میں ہمارے فاضل دوست کے حوالے سے جو خبر چھاپی گئی اس میں دو دعوے کیے گئے۔ اوّل: پاکستان کے قیام کے بعد قائداعظم نے اپنے پہلے ایگزیکٹو اقدام کے طور پر ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن قائم کرنے کے لیے احکامات دیے تھے۔ دوم: قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ ظفر اللہ خان نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی‘‘۔
ہماری گزارش صرف یہ ہے کہ ان دعوئوں کے حق میں وہ کوئی حوالہ عنایت کردیں۔ کوئی ثبوت دے دیں۔ ہم نے اپنے کالموں میں جو 20 مئی‘ 23 مئی‘ 30 دسمبر اور 31 دسمبر کو شائع ہوئے علامہ اسد کی خودنوشت ’’ہوم کمنگ آف دی ہارٹ‘‘ کے حوالے مع صفحات نمبر دے کر تفصیل سے بتایا کہ یہ سارے دعوے حقیقت کے خلاف ہیں۔ ہمارے فاضل دوست نے اب تک الحمد للہ ہمارے کسی حوالے کو غلط نہیں قرار دیا! وہ کہتے ہیں کہ ’’تحقیق کے عالمی اصولوں کے مطابق یادداشتیں دوسرے درجے کا ماخذ تصور کی جاتی ہیں‘‘۔ لیکن انہوں نے پہلے درجے کا بھی کوئی حوالہ کوئی ثبوت نہیں دیا سوائے اس کے کہ ’’مرکزی حکومت کی منظوری قائداعظم کی منظوری تھی‘‘۔
اگر نواب آف ممدوٹ نے‘ جو قائداعظم کے سپاہی تھے‘ یہ کام سرانجام دیے تو تسلیم کرنے میں کیا برائی ہے؟ علامہ اسد کی خود نوشت کے مطابق یہ کام نواب آف ممدوٹ نے کیے تھے۔ ہمارے دوست نے خود ان کی خودنوشت کا اقتباس پیش کیا ہے جو یہ ہے۔ ’’جوں ہی میں ان کے دفتر میں داخل ہوا ممدوٹ صاحب رسمی تعلقات کی پروا کیے بغیر کہنے لگے میرے خیال میں اب نظریاتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدام کرنا چاہیے۔ آپ نے ان کے بارے میں تقریراً اور تحریراً بہت کچھ کیا۔ آپ کیا تجویز کرتے ہیں۔ کیا ہمیں وزیراعظم سے رجوع کرنا چاہیے‘‘۔ لیکن اس کے بعد جو کچھ علامہ اسد نے لکھا‘ اسے ہمارے دوست نے نہیں نقل کیا۔ علامہ اسد آگے لکھتے ہیں۔ ’’کئی روز سے مجھے ایسے سوال کا انتظار تھا چنانچہ میں نے پہلے ہی سے اس کا جواب سوچ رکھا تھا… ’’ابھی مرکزی حکومت نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا اس لیے نواب صاحب! آپ ہی اس ضمن میں پہل کیجیے۔ میری رائے میں آپ ہی کو پنجاب میں ایک ایسا خصوصی ادارہ قائم کرنا چاہیے جو ان نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے جن کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا ہے۔ خدا نے چاہا تو آئندہ مرکزی حکومت بھی اس اہم فریضے کی جانب متوجہ ہو گی۔ اس وقت وہ اپنی خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے میں مصروف ہے۔ ان حالات میں شاید وزیراعظم یا قائداعظم ادھر زیادہ توجہ نہ دے سکیں۔ نواب صاحب فوری قوت فیصلہ کی صلاحیت کے مالک تھے چنانچہ انہوں نے مجھ سے اتفاق کرتے ہوئے پوچھا ’’آپ کے اس مجوزہ ادارے کا نام کیا ہونا چاہیے؟‘‘ میں نے جواباً عرض کیا اس کا نام ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن ہونا چاہیے۔ ممدوٹ صاحب نے بلاتوقف کہا ’’بالکل درست ایسا ہی ہوگا۔ آپ اس ادارے کے قیام کا منصوبہ اور اخراجات کا تخمینہ تیار کیجیے۔ آپ کو سرکاری طور پر اس ادارے کا ناظم مقرر کیا جاتا ہے اور آپ کی ماہوار تنخواہ شعبۂ اطلاعات کے ناظم جتنی ہوگی۔ مجھے امید ہے آپ اسے قبول کر لیں گے‘‘۔ مجھے امید نہیں تھی کہ اتنی جلدی فیصلہ ہو جائے گا لیکن نواب ممدوٹ کے فیصلوں کا یہی انداز تھا (ہوم کمنگ آف دی ہارٹ۔ محمد اسد مطبوعہ 2009ء‘ صفحہ 111-112)
یہ محمد اسد کا اپنا بیان ہے۔ اس سے صریحاً واضح ہو رہا ہے کہ اس منصوبے میں وزیراعظم یا قائداعظم یا مرکزی حکومت کا کوئی دخل نہیں تھا اور ڈیپارٹمنٹ کا نام بھی محمد اسد نے خود تجویز کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا محمد اسد نے جھوٹ لکھا ہے؟
خدارا غور کیجیے کہ کیا قائداعظم اس بات کے محتاج ہیں کہ جو کچھ انہوں نے نہیں کیا‘ ان کے نام لگا دیا جائے؟ ایسا کرنے سے ان کی عظمت میں اضافہ نہیں ہوگا۔ کیا قیام پاکستان سے بڑا کارنامہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ آج ہم جو کچھ ہیں‘ پاکستان کی بدولت ہیں۔ اپنے فاضل دوست کے بارے میں‘ میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن جہاں تک اس گنہگار لکھاری کا تعلق ہے‘ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے دیا اور بچوں کو جس مقام پر پہنچایا‘ سب پاکستان کی بدولت ہے۔ یہ صدقۂ جاریہ قائداعظم کا کارنامہ ہے۔ اس کے بعد وہ ہمارے کسی خود ساختہ حوالے کے ہرگز محتاج نہیں!
ڈیپارٹمنٹ آف اسلامک ری کنسٹرکشن سے علامہ اسد کے وزارتِ خارجہ میں تبادلے کو ظفر اللہ خان کی کارروائی قرار دینا لیاقت علی خان کے ساتھ سخت ناانصافی ہے۔ علامہ اسد خود لکھتے ہیں کہ وزیراعظم نے انہیں جنوری 1948ء میں یعنی قائداعظم کی رحلت سے آٹھ ماہ قبل کراچی بلایا اور کہا… ’’آپ پاکستان کے ان معدودے چند لوگوں میں سے ہیں جو مشرق وسطیٰ کے حالات و واقعات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور یہ بھی مجھے معلوم ہے کہ آپ کو عربی اور فارسی پر کامل دسترس حاصل ہے۔ ہمیں وزارتِ خارجہ میں آپ جیسے شخص کی ضرورت ہے‘‘۔ کیا اب بھی کوئی شک باقی ہے کہ وزارت خارجہ میں علامہ اسد کا تبادلہ لیاقت علی خان نے خود کیا تھا؟ ہمارے فاضل دوست کہتے ہیں کہ ’’قائداعظم کی رحلت کے بعد اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ نے علامہ کا تبادلہ کرا دیا اور انہیں امور خارجہ سے وابستہ ملازمت دے دی‘‘۔ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے‘ اس کا فیصلہ قارئین خود کر لیں۔ ہم اپنے آخرِ دسمبر کے مضامین میں تفصیل سے بتا چکے ہیں کہ لیاقت علی خان نے وزارت خارجہ میں محمد اسد سے کیا کام لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ کھلوا کر علامہ اسد نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا تھا! ہمارے دوست کا یہ کہنا کہ ’’اسد سفارشات لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے۔ انہوں نے یہ سب کچھ اس وقت کے قادیانی وزیر خارجہ کے حوالے کیا جس نے انہیں ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا‘‘ شہیدِ ملت لیاقت علی خان پر ایک بہتان ہے جس کا بہتان لگانے والے کوئی ثبوت بھی نہیں پیش کر رہے!! لیاقت علی خان پر یہ تہمت لگانے سے پہلے اتنا تو سوچنا چاہیے کہ یہی لیاقت علی خان تھے جو قراردادِ مقاصد کی پشت پر تھے۔ دیانت ان کی قابلِ رشک تھی۔ شہید ہوتے وقت ان کے ہونٹوں پر پاکستان کا نام تھا۔
ہمارے فاضل دوست جب رونا روتے ہیں کہ علامہ اسد کی رخصتی کے بعد اسلامک ری کنسٹرکشن کے اغراض و مقاصد کو پسِ پشت ڈال دیا گیا تو اس رونے میں ہم اُن کے ساتھ شریک ہیں۔ آرکائیو میں آگ لگائی گئی‘ سازش ہوئی۔ سب درست ہے۔ ہم تو فقط قائداعظم اور محمد اسد کے حوالے سے جو کچھ وہ دعویٰ کرتے ہیں‘ اس کے ثبوت کے لیے التماس کرتے ہیں۔ جب وہ شکوہ کرتے ہیں کہ علامہ اسد کا نام کسی نصابی کتاب میں نہیں اور انہیں تحریک پاکستان کے رہنمائوں میں شامل نہیں کیا گیا‘ تم ہم اپنے دوست کا بھرپور اور پرزور ساتھ دیتے ہیں۔ اس نویسندہ نے اپنے 19 اکتوبر 2010ء کے کالم میں لکھا تھا…
’’پاکستان کے اس پہلے شہری کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ لاہور کی کسی شاہراہ اور اسلام آباد کے کسی خیابان کو محمد اسد کے نام کردیا جائے؟ اگر آپ اس خیال سے اتفاق کرتے ہیں تو آج ہی وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے نام الگ الگ خطوں میں یہ مطالبہ کریں۔ کیا عجب فوڈ سٹریٹ میں دلچسپی لینے والے حکمران ہمارے قارئین کا یہ مطالبہ مان لیں! اگرچہ ان سے چمٹی ہوئی ’’عالم فاضل‘‘ بیوروکریسی ضرور پوچھے گی کہ محمد اسد؟ کون محمد اسد؟‘‘
رہا ہمارے فاضل دوست کا ہمیں کج بحث قرار دینا اور طنز سے محمد اسد کی زندگی کا ’’ماہر‘‘ کہنا تو ہم خدا کی پناہ مانگتے ہیں اس بات سے کہ ایسا کوئی تیر اپنے دوست پر یا کسی بھی مسلمان بھائی پر چلائیں۔ وہ عمر میں چھوٹے سہی‘ علم اور نیکوکاری میں اس گنہگار سے کہیں برتر ہیں۔ یہ نویسندہ ماہر نہیں‘ علامہ اسد کی تحریروں کا فقط ایک ادنیٰ طالب علم ہے اور خدا کا شکر ادا کرتا ہے کہ علامہ اسد کو دیکھنے اور ملنے کا موقع ملا۔
یہ اس بحث کا ہماری طرف سے آخری مضمون ہے۔
اس قضیے میں اگر ہمارے کسی لفظ سے دوستِ عزیز کی دل آزاری ہوئی ہو تو ہم بصدقِ دل معذرت خواہ ہیں۔ ہمارا حال تو بقول سعدی یہ ہے کہ ؎
کفیتَ اذیً یا مَنْ تَعُدُّ مَحَاسِنی
علا نیتی ھذا و لَمْ تَدرِ ما بَطَن
آپ ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیں۔ دلچسپ پروگرام ہے۔ معلومات افزا ہے۔ آپ کے علم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دفعتاً پروگرام پیش کرنے والے صاحب ایسی بات کہہ جاتے ہیں جو علمی یا تحقیقی اعتبار سے قطعاً غلط ہے یا تاریخی لحاظ سے خلافِ واقعہ ہے۔ اس ضمن میں آپ نے بھی پڑھ رکھا ہے اور جان رکھا ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کہ ایک بات جو صریحاً غلط ہے‘ کتنے اعتماد کے ساتھ پیش کی جا رہی ہے اور پوری دنیا میں لاکھوں کروڑوں افراد اسے سن اور دیکھ رہے ہیں۔
آپ اضطراب میں پہلو بدلتے ہیں‘ مصمم ارادہ کرتے ہیں کہ اس کی نشاندہی کریں گے لیکن اصل صدمہ اس وقت پہنچتا ہے جب آپ پر یہ دردناک حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ آپ نشاندہی نہیں کر سکتے۔ آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پروگرام پیش کرنے والے ’’علامہ‘‘ صاحب کا فون نمبر آپ کو معلوم ہے نہ ای میل۔ اگر ٹیلی ویژن چینل کے نام خط لکھیں تو اول تو یہی نہیں معلوم کہ خط ٹی وی چینل کے کراچی آفس کو لکھنا ہے یا لاہور یا اسلام آباد یا دبئی؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ ’’علامہ‘‘ صاحب کس شہر میں ہیں۔ ہمارے ملک میں احساسِ ذمہ داری جس ’’بلند‘‘ سطح پر ہے‘ اس کے پیشِ نظر سو فی صد امکان اس بات کا ہے کہ یہ خط متعلقہ فرد تک پہنچ ہی نہیں پائے گا۔ آپ بے چینی میں پھر پہلو بدلتے ہیں‘ تھوڑی دیر بعد آپ راضی برضا ہو جاتے ہیں۔ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ متعلقہ چینل کو یا متعلقہ اینکر پرسن کو یا پروگرام کے میزبان کو یہ بتانے کا کوئی طریقہ ہی نہیں کہ جو کچھ فرمایا گیا ہے لاعلمی ہے یا جہالت یا جعل سازی!
یہ کربناک حقیقت ہے کہ میڈیا عفریت بن چکا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عفریت بلکہ فرعون بھی۔ جو بھی پردۂ سیمیں پر آتا ہے‘ یہ سوچ کر کہ اسے لاکھوں ناظرین دیکھ رہے ہیں‘ اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے لگتا ہے۔ پھر یہ کہ وہ سچ کی نشاندہی کرنے والوں سے اس طرح محفوظ ہے جیسے چوبیس دانتوں میں زبان! کسی کی اس تک رسائی ہی نہیں ہو سکتی اور اگر بفرضِ محال یہ اطلاع پہنچ بھی جائے کہ فلاں ارشاد غلط تھا‘ تو بہترین ردعمل یہ ہے کہ پی جائو۔ غلطی کا اعتراف کرنے کی یا ا پنی تصحیح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
جس ملک میں خواندگی کا تناسب بیس تیس فی صد سے زیادہ نہیں‘ وہاں تحقیق و جستجو کرنے والے کتنے ہوں گے؟ اس لیے جو کچھ کہنا چاہتے ہیں بلا کھٹکے کہہ ڈالیے۔ میڈیا کے گھوڑے پر آپ سوار ہیں‘ کسی کی مجال نہیں کہ آپ کی لگام پکڑ سکے۔ فارسی کا مشہور قطعہ ہے (بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ ابنِ یمینؔ طغرائی کا کلام ہے)
آنکس کہ بداند و بداند کہ بداند
اسپِ خرد از گنبدِ گردون بجہاند
آنکس کہ بداند و نداند کہ بداند
آگاہ نمایید کہ بس خفتہ نماند
آن کس کہ نداند و بداند کہ نداند
لنگان خرکِ خویش بہ منزل برساند
آن کس کہ نداند و نداند کہ نداند
در جہلِ مرکب ابدالدہر بماند
اس کا مفہوم یہ ہے کہ علم کے معاملے میں چار قسم کے افراد ہیں۔ ایک وہ ہے جو جانتا ہے اور اُسے معلوم ہے کہ وہ جانتا ہے۔ اس کا درجہ بلند ترین ہے۔ وہ کامیابیاں حاصل کرتا ہے۔ دوسرا وہ ہے جو علم رکھتا ہے لیکن اسے یہ معلوم ہی نہیں کہ اس کے پاس علم ہے۔ اسے بیدار کرنا چاہیے کہ اس لاعلمی میں اسے نقصان نہ پہنچے۔ تیسرا وہ ہے جسے علم نہیں لیکن اسے احساس ہے کہ وہ جاہل ہے۔ اس کا بھی کسی نہ کسی طرح گزارا ہو جائے گا کیونکہ وہ کسی جھوٹے زعم میں گرفتار نہیں۔ بدترین شخص چوتھا ہے۔ ایک تو وہ علم سے محروم ہے۔ اس پر طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسے اپنی جہالت کا علم ہی نہیں! وہ یہی سمجھتا ہے کہ نہیں! میں عالم فاضل ہوں۔ ایسا شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہلِ مرکب (Compoud ignorance) میں غرق رہتا ہے۔
ہم میں سے ہر شخص کو‘ بالخصوص میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کو… خواہ وہ پروگرام کرتے ہیں یا پرنٹ میڈیا میں لکھتے ہیں… کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارا تعلق چوتھی قسم سے نہ ہو کیونکہ اس میں ہلاکت کا امکان بہت زیادہ ہے۔
بعض اوقات غلطی صادر ہوتی ہے لیکن اس کی تہہ میں بدنیتی نہیں ہوتی‘ نہ ہی غلطی کا ارتکاب کرنے والا کسی بحث مباحثے میں جیتنے کے لیے ایسا کرتا ہے۔ تین چار دن پہلے ایک معروف ٹی وی پروگرام میں میزبان نے‘ جنہیں ادب سے شغف وراثت میں ملا ہے‘ ایک ایسی بات کہہ دی جو درست نہیں۔ دعویٰ کی دلیل میں کوئی حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ دعویٰ یہ تھا کہ ولیمہ دراصل وہ دعوت ہے جو لڑکی والے دیتے ہیں! جب کہ گزشتہ چودہ پندرہ سو برس سے ولیمہ اس دعوت کو کہتے ہیں جو دولہا کی طرف سے منعقد کی جاتی ہے۔ ہمارے سامنے اس وقت ’’معارف الحدیث‘‘ کا حصہ ہفتم ہے۔ احادیثِ نبویؐ کا یہ انتخاب مشہور و معروف عالمِ دین مولانا محمد منظور نعمانی نے کیا ہے اور پاکستان میں اسے ’’دارالاشاعت‘‘ کراچی نے شائع کیا ہے۔ سالِ اشاعت 2007ء ہے۔ صفحہ 461 پر یہ حدیث درج ہے۔ ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف (کے کپڑوں یا جسم) پر زردی کا کچھ اثر دیکھا تو پوچھا یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں نے ایک عورت سے شادی کی ہے اور اتنا مہر مقرر کیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا اللہ تمہیں مبارک کرے۔ ولیمہ کی دعوت کرو‘ اگرچہ پوری بکری کر ڈالو‘‘ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔ اس سے اگلے صفحہ پر ایک اور حدیث نقل کی گئی ہے۔ ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے اپنی کسی بیوی کے نکاح پر ایسا ولیمہ نہیں کیا جیسا کہ زینب
بنتِ جحش کے نکاح کے موقع پر کیا‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
ان دونوں احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ ولیمہ کی دعوت دولہا کی طرف ہی سے ہوتی ہے۔ اس موقع پر مولانا منظور نعمانی نے اپنی طرف سے جو نوٹ لکھا ہے اس میں بھی یہی وضاحت کی ہے۔ ’’ولیمہ میں یہ حکمت بھی ہے کہ اس کے ذریعہ شادی کرنے والے مرد اور اس کے گھرانے کی طرف سے خوبصورتی کے ساتھ اس کا اعلان و اظہار ہوتا ہے کہ اس رشتہ سے ہم کو اطمینان اور خوشی ہے‘‘۔ (صفحہ 461)
میڈیا کا زیادہ خطرناک پہلو اس وقت اجاگر ہوتا ہے جب کسی بحث میں اپنا پلہ بھاری کرنے کے لیے حقائق کی صورت بدل دی جائے۔ ہم نے کل ہی ایک فاضل دوست کی تحریر میں پڑھا ہے کہ ایران میں فارسی صرف 47 فی صد لوگوں کی مادری زبان ہے۔ ہم بہت ادب کے ساتھ اختلاف کرنے کی جسارت کرتے ہیں۔ 2001ء میں ایران کی مردم شماری کے مطابق 68 فیصد آبادی کی اولین زبان فارسی ہے۔ معروف محقق مہرداد ایزادی نے‘ جن کی تحقیق کولمبیا یونیورسٹی کی ویب سائٹ پر ہے‘ فارسی بولنے والوں کی تعداد 55.3 فی صد بتائی ہے (اس میں آزری‘ ماژندرانی اور دوسرے لہجے بولنے والے شامل نہیں ہیں)۔
لیکن سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ میڈیا سے کون جیت سکتا ہے؟ اسی کی سنی جائے گی جس کی آواز بلند ہے۔ ہم تو ظفرؔ اقبال کے الفاظ میں یہی کہہ سکتے ہیں ؎
دیکھ رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت‘ خاک اُڑا اور بہت
ہم سمندر کے کنارے ریت پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئے اور انتظار کرنے لگے۔ یہ پَو پھٹنے کا وقت تھا۔ ہم نئے سال کے پہلے سورج کی امید میں تھے۔
ہمارے پیچھے دکھوں کا جنگل تھا۔ آگے غموں کا سمندر تھا! ریت پر بچھانے کے لیے چیتھڑا تک نہ تھا۔ آنکھوں میں اڑتے ہوئے ذرے پڑ رہے تھے۔ تیز ہوا پھٹے ہوئے کپڑوں سے گزر کر سنسناتے ہوئے تیر کی طرح لگ رہی تھی۔ نظریں سمندر کے پار‘ افق پر تھیں۔ سورج نکلے گا۔ نئے سال کا پہلا سورج۔ سنہری کرنیں‘ سمندر کو عبور کر کے ہمیں آغوش میں لے لیں گی۔
کتنے سال ہو گئے‘ کتنے عشروں سے ہم ہر نئے سال کے پہلے سورج کے لیے ریت پر بیٹھتے چلے آ رہے ہیں۔ افسوس! صد افسوس! ہیہات! ہیہات! جب بھی نئے سال کا پہلا سورج طلوع ہوتا ہے‘ اس کی کرنیں ہم تک نہیں پہنچ پاتیں۔ ہمارے پیچھے جنگل کے درختوں پر مچانیں باندھ کر بیٹھے ہوئے تیرانداز‘ نئے سورج کی شعائوں کو اچک لیتے ہیں۔ ہمارے سامنے‘ پانیوں میں دندناتے گھڑیال‘ سنہری کرنوں کو جھپٹ لیتے ہیں‘ ہم تک کبھی کوئی کرن نہیں پہنچی۔ ہم نئے سال کا پہلا طلوع دیکھ کر… روتے ہیں‘ سسکیاں بھرتے ہیں‘ پھر بدن کے اوپر اور آنکھوں کے اندر ریت کے ذرے لیے‘ واپس اپنے گھروں کو پلٹ آتے ہیں۔ وہی چھوٹے چھوٹے تاریک گھروندے‘ غسل خانوں کے ٹوٹے ہوئے فرشوں پر پانی کی آدھی آدھی بالٹیاں‘ میلی دیواروں اور اکھڑتی ہوئی چھتوں والے کمروں میں ایک ایک بلب جن میں ایک گھنٹہ روشنی آتی ہے اور دو گھنٹے نہیں آتی۔ وہی کیچڑ میں جھپ جھپ کرتے کچے صحن‘ وہی دھوئیں سے بھرے ہوئے نیم روشن‘ نیم تاریک باورچی خانے‘ وہی چہروں اور ہاتھوں کو شل کرتے ٹھنڈے پانی‘ وہی گندی غلیظ گلیاں‘ وہی ٹھہرے ہوئے بدبودار پانی‘ وہی مچھروں کے غول‘ راتوں کے پچھلے پہر وہی آوارہ کتے‘ کھیل کے میدانوں کو ترستے ہوئے وہی بچے جو تھک ہار کر سائبر کیفوں میں پناہ لیتے ہیں۔ وہی کھؤں کھؤں کرتے بوڑھے جن کی قسمتوں میں علاج ہے نہ نگہداشت‘ وہی سیاہ بخت حاملہ عورتیں جو روٹ لگی ٹریفک کے درمیان بچے جنم دینے پر مجبور ہیں۔
کسی نئے سال کا سورج ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر سکا۔ کوئی نیا سال ہمارے لیے عزت نہ لایا۔ ہم اپنے ہی ملک میں ہمیشہ تیسرے درجے کے شہری رہے۔ ہمارے گائوں گرد میں چھپے ہی رہے‘ ہسپتال بنے نہ سکول‘ سڑکیں ٹوٹی ہی رہیں۔ ہمارے قصبے پتھر کے زمانوں سے باہر نہ نکل سکے۔ ہر نیا سال وہی آپشن لایا جو گزرے ہوئے برس لاتے رہے۔ آپشن… اختیار۔ ہاں تمہیں اختیار ہے۔ تم آزاد ہو‘ بلاول کو چُن لو یا مونس الٰہی کو یا حمزہ شہباز کو…
ہمارے پیچھے جنگل ہے۔ درختوں پر مچانیں باندھے‘ تیر انداز بیٹھے ہیں۔ سامنے سمندر میں گھڑیال ہیں۔ یہی آپشن ہیں۔ یہی اختیار ہے۔ یہی آزادی ہے۔ اُن سیاست دانوں کو چُن لیں جن کے ہاتھوں میں تیر ہیں۔ یا انہیں منتخب کر لیں جو گھڑیالوں جیسے جبڑے کھولے ساحلوں پر لیٹے ہیں۔
ہمیں کوئی ایسا لیڈر نہ مل سکا جو ہمارے جیسے گھروں میں‘ ہمارے محلّوں میں رہتا ہو۔ ہمارے ساتھ کریانے کی دکان پر کھڑا ہو۔ ہمارے ساتھ سی این جی کے لیے تین تین گھنٹے انتظار کرے۔ اس کے بچے انہی سکولوں میں پڑھتے ہوں جہاں ہمارے بچے جاتے ہیں۔ وہ انہی ہسپتالوں کے برآمدوں میں دوائی کے لیے قطار میں کھڑا ہو جہاں ہم اور ہماری بیویاں کھڑی ہوتی ہیں۔ ہمیں ملے تو وہ ملے جن کے محلاّت فرانس میں ہیں اور رہائش دبئی میں۔ جنہیں اپنے بیٹوں اور اپنی بہنوں کو حکمران بنانے کی فکر ہے۔ جو دن کے دو بجے اٹھتے ہیں‘ ٹیکس ایک پیسہ نہیں دیتے۔ بیٹیوں کو براہ راست پاکستانی سفارت خانوں میں سمندر پار افسر لگوا دیتے ہیں۔ یا وہ ملے جو سٹیل کے کارخانوں کو چارگنا کرنا چاہتے ہیں۔ جنہوں نے دودھ اور مرغبانی کی صنعتوں کو مٹھی میں لے لیا۔ جو اپنے خاندان اور اپنی ذات قبیلے سے باہر نکلنے کا تصور تک نہیں کر سکتے۔ جن کا پاکستان بھائی‘ بیٹی‘ بھتیجے‘ سمدھی اور بھانجے پر مشتمل ہے۔ یا ہماری قسمت میں وہ تھے جن کے فکر کی معراج کشمیر کمیٹی اور اسلامک آئیڈیالوجی کونسل تھی۔ جو اُڑتی چڑیا کے پر گِن سکتے ہیں لیکن عوام کے دکھوں کو شمار کرنے کے لیے ان کے ہاتھوں کو انگلیاں ہی نہیں مل سکیں۔
ہمارے بچوں نے سیب کھائے نہ انڈے۔ ہمارے بوڑھے دوائوں کو ترستے رہے۔ ہماری عورتیں بچوں کو پیٹوں میں لیے مزدوریاں کرتی رہیں اور دال کے ساتھ باسی روٹی کھاتی رہیں۔ ہماری بیٹیاں جہیز کے انتظار میں سروں سے چاندی جیسے سفید بال نکالتی رہیں۔ ہم سے بجلی چھین لی گئی‘ پانی لے لیا گیا‘ پٹرول کے کنستر آسمانوں پر کھینچ لیے گئے۔ لیکن کروڑ پتی دانشور ہمیں آئیڈیالوجی سے بھرے ہوئے تھیلے دیتے رہے۔ ہم سرخ سویرے کے سراب سے چھُوٹے تو قراردادِ مقاصد میں دھر لیے گئے۔ ہم کپڑوں اور دوائوں کو ترستے رہے لیکن ہمیں مسلکوں‘ فرقوں‘ نظریوں کی پُڑیاں دی جاتی رہیں۔ وہ بیوروکریٹ جو سرکاری گاڑیوں اور عہدوں سے نہیں اترتے‘ جو حکومتی بنگلوں میں ملازموں کے حصار میں رہتے ہیں‘ ہمیں ہر روز مذہب پڑھاتے ہیں۔ جن کی زندگیوں کا واحد مقصد پی آر اور میڈیا پر ظاہر ہونا ہے وہ ہمیں جعلی اعدادو شمار سے ماضی کا جاہ و جلال عطا کرتے ہیں۔ میڈیا کے وہ ملازم جو لاکھوں میں کھیلتے ہیں‘ ان میں سے بعض ہمیں ہر صبح ایک نئی سازش کی خوش خبری دیتے ہیں۔ ہماری چھوٹی چھوٹی بے بضاعت کاریں اور موٹر سائیکل چُرائے جا رہے ہیں‘ ہمارے گھروں میں ڈاکے پڑ رہے ہیں۔ لیکن یہ میڈیا کے سوداگر ہمیں ہر روز تلقین کرتے ہیں کہ ہم نظریات اوڑھیں‘ سازش کھائیں‘ مذہب کا وہ محلول پئیں جسے یہ صحیح سمجھتے ہیں۔ نعرے لگائیں۔ پھر گولی کھا کر مر جائیں تاکہ یہ سکرین پر ابھر کر ایک اور
تقریر کر سکیں۔ ان میں سے کوئی ہماری گلیوں بازاروں میں کبھی نظر نہیں آتا۔ یہ اس طبقے میں شمار ہوتے ہیں جو کُل آبادی کا ایک فی صد ہے لیکن چاہتے یہ ہیں کہ ننانوے فی صد لوگ خالی پیٹوں اور پھٹے ہوئے کپڑوں میں ان کی پسندیدہ آئیڈیالوجی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ بٹیروں کی طرح لڑیں اور میدانوں میں ڈھیر ہو جائیں۔
پھر کوئی آتا ہے اور تین سو کنال کے محل میں بیٹھ کر ہمیں خواب دکھانے لگتا ہے۔ اس کے آگے پیچھے کروڑ پتی ہیں۔ کسی کے پاس سواری کے لیے جہاز ہیں اور کسی کے امریکہ میں جہاز بنانے کے کارخانے۔
کاش! کوئی نیا سال ہمیں بھی اَروِند کجری وال جیسا لیڈر دیتا‘ جو اپنے وزیروں کے ساتھ‘ اقتدار کا حلف اٹھانے کے لیے بس اور انڈر گرائونڈ ریل سے آیا۔ جس نے سرکاری محل میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ جو سکیورٹی نہیں لے رہا۔ جس نے ایک ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور لوگوں سے کہا کہ ہم تمہارے مذہب یا دھرم کی بات نہیں کر رہے‘ نہ ہی تمہارے ملک کو دشمن کا خطرہ ہے۔ نہ ہمارا کسی آئیڈیالوجی سے تعلق ہے۔ ہمیں صرف مسائل بتائو۔ جس نے حلف اٹھانے کے بعد اپنا وعدہ پورا کیا اور دہلی کے ہر گھر کو سات سو لیٹر روزانہ مفت پانی مہیا کر رہا ہے۔ جس کے وزیر رکشے اور بس میں آتے ہیں اور جو بدستور چوتھی منزل کے عام فلیٹ میں رہ رہا ہے۔
کاش! کوئی نیا سال ہمیں بھی ایسا رہنما دے جو چھوٹے گھر میں رہتا ہو۔ جو دکان سے چینی‘ گھی اور پتی خود خریدتا ہو اور جو ہمیں لِٹا کر‘ ہماری چھاتی پر گھٹنے رکھ کر‘ ہمارے گلے سے آئیڈیالوجی نہ اتار رہا ہو۔
powered by
worldwanders.com