Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, November 29, 2011

فال اور اُلّو

اُس سے تعارف اُس وقت ہوا جب چھ سال پہلے میں کچھ عرصہ کیلئے انگلستان کے ایک خوبصورت قصبے گلو سٹر میں مقیم تھا۔پہلی دفعہ اسے مسجد میں دیکھا۔سفید فام انگریز! جسے ہم پاکستانی عام طور پر گورا کہتے ہیں۔وہ بہت انہماک سے نماز پڑھ رہا تھا۔ میں اسے ملا اور چند دنوں میں ہم دوست بن چکے تھے۔اکثر اسکی سفیدفام بیوی بھی مسجد میں اسکے ساتھ ہوتی۔اس نے بتایا کہ دونوں ایک ساتھ اسلام کی پناہ میں داخل ہوئے تھے۔ بیوی ڈاکٹر تھی اور وہ خود بزنس مین۔

ایک ماہ پہلے اس کا فون آیا کہ وہ دارالحکومت کے فلاں ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔میں نے اپنے گھر کا پتہ بتایا اور فوراَ  آنے کی فرمائش کی لیکن اس کا اصرار تھا کہ میں اسکے ہوٹل آﺅں کیونکہ اس کے پاس وقت کم تھا۔ شام کو اس کی فلائٹ تھی۔ وہ گلوسٹر واپس جارہا تھا۔میں تین گھنٹے اسکے پاس بیٹھا ۔ ہم نے دنیا جہان کی باتیں کیں۔ جب میں نے پوچھا کہ وہ پاکستان کیوں آیا تو پہلے تو وہ طرح دے گیا لیکن جب میں نے اصرار کیا اور اس نے  لگی لپٹی رکھے بغیر وجہ بتائی تو سچی بات یہ ہے کہ میرے ہوش اُڑ گئے ۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کہوں۔

اس نے بتایا کہ وہ پاکستان مستقل رہنے کےلئے آیا تھا۔ لیکن چھ ماہ یہاں گذارنے کے بعد اپنا ارادہ بدل کر واپس جا رہا ہے۔ ا سکی تفصیل یہ تھی کہ وہ کئی سال سے کسی مسلمان ملک میں آباد ہونے کا سوچ رہا تھا۔ اسکی نگاہِ انتخاب پاکستان پر اس لئے پڑی کہ یہ واحد مسلمان ملک تھا جو ایٹمی طاقت تھی۔ اس کا خیال تھا کہ اسلامی دنیا میں یہ ملک سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہو گا ۔ یہ ترقی اسکے اندازے کےمطابق ذ ہنی بھی ہوگی اور معاشی بھی۔

وہ یہاں آگیا۔ اس نے اپنا کاروبار بھی شروع کیا لیکن افسوس اسکے سارے اندازے غلط اور سارے خواب جھوٹے نکلے۔ جب وہ اپنی ناکامی کی داستان سنا رہا تھا تو مجھے نظیری نیشا پوری کا شعر یاد آرہا تھا :

یک فالِ خوب راست نہ شُد بر زبانِ ما

شومئی چغد ثابت و یُمنِ ہما غلط

یعنی کوئی ایک فال بھی درست نہ نکلی۔ اُلّو کی نحوست تو ثابت ہو گئی لیکن ہما کی برکت والی بات غلط تھی !

پہلا بڑا جھٹکا اُسے اُس وقت لگا جب اس نے اپنی بیوی کی ہمراہی میں لاہور سے پشاور تک سفر کیا۔ مسلمان ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی ترکی ، سعودی عرب اور چند دوسرے مسلمان ملکوں میں سیر و تفریح اور مشاہدے کیلئے گئے تھے۔ لیکن پاکستان میں یہ سفر ان کیلئے ایک عجیب و غریب تجربہ تھا جو دلچسپ تو خیر کیا ہونا تھا، خوفناک ضرور تھا جو انہی کی زبانی کچھ یوں تھا :

” ہم جس مسلمان ملک میں بھی گئے ، وہاں میری بیوی کو
 نماز پڑھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ترکی اور سعودی عرب میں میری بیوی مسجد ہی میں نمازیں پڑھتی تھی۔ دوسری خواتین بھی ہر نماز میں موجود ہوتی تھیں۔ برطانیہ کی مسجدوں میں بھی یہی معمول تھا۔ یہاں تک کہ قرطبہ اور غرناطہ کی مسجدوں میں بھی میری بیوی دوسری خواتین کےساتھ نمازیں ادا کرتی رہی۔ پاکستان میں جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا اس سے ہم سخت خوف زدہ ہو گئے۔ ہم نے لاہور سے پشاور تک جی ٹی روڈ پر سفر کیا۔ ہم یہ تاریخی شاہراہ دیکھنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے بزنس کیلئے کچھ مشاہدہ اور تجزیہ بھی کرنا چاہتے تھے۔ ظہر کی نماز کا وقت ہوا اور ہم ایک مسجد میں رکے ۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں خواتین کی نماز کا تصوّر ہی نہیں۔ وضو والی جگہ مردوں سے بھری ہوئی تھی۔ یہاں کسی عورت کا وضو کرنا ناممکن تھا۔ ہم یکے بعد دیگرے راستے میں سات مسجدوں میں رکے۔ کسی ایک میں بھی خواتین کیلئے نماز پڑھنے کی سہولت نہیں تھی ۔ ترکی میں خواتین مسجد کے ہال ہی میں مردوں کے پیچھے صفیں بنا لیتی ہیں لیکن یہاں وہ بھی ممکن نہ تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے ان مسجدوں میں سالہا سال سے کوئی عورت داخل نہیں ہوئی اور اگر ہو جائے تو یہ ایک عجوبہ ہو گا۔

رہے ریستورانوں کے باتھ روم تو وہ اس قدر گندے اور عفونت زدہ تھے کہ وہاں وضو کرنے کے تصور ہی سے روح کانپ جاتی تھی۔ اکثر باتھ روموں کے فرش پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فلش ٹوٹے ہوئے تھے اور جو سلامت تھے ان میں پانی نہیں تھا۔ کموڈ جن پر بیٹھا جانا تھا ان پر جوتوں کا کیچڑ لگا تھا۔ صاف معلوم ہو رہا تھا کہ ان پر پاﺅں کے بل بیٹھا جاتا رہا ہے حالانکہ اس مقصد کیلئے دیسی سٹائل کی ڈبلیو سی موجود تھیں ۔ دنیا کی واحد ایٹمی اسلامی طاقت میں صفائی کے اس ماتمی معیار پر ہمارا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ راولپنڈی گذری تو کچھ دیر کے بعد ہم نے اٹک کا پُل پار کیا۔ اٹک پُل سے لے کر پشاور تک میری بیوی کہیں بھی وضو نہ کر سکی اور تیمّم کر کے نماز گاڑی میں سیٹ پر بیٹھ کر پڑھتی رہی۔

یوں تو سارے سفر ہی کے دوران میری بیوی کو ہر جگہ انتہائی ” غور “ سے دیکھا جاتا رہا تاہم اٹک کے پار اس سرگرمی میں اضافہ ہو گیا۔ پشاور سے واپس ہم نے ہوائی جہاز سے آنا تھا۔ پی آئی اے کے ایک اہلکار سے ہم کوئی بات کر رہے تھے۔ آن کی آن میں ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہو گئے۔ وہ سب میری بیوی کو اور اسکے لباس کو اس قدر غور سے دیکھ رہے تھے کہ وہ سخت خوفزدہ ہوگئی۔ ایک سمجھ دار اہلکار کا بھلا ہو وہ اس صورت حال میں ہمارا خوف بھانپ گیا اور جلدی سے ہمیں ایک دفتر نما کمرے میں لے گیا۔

ہمیں انگلینڈ میں اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی ایک بات رہ رہ کر یاد آرہی تھی ۔ ہم نے جب اسلام قبول کیا تو بہت سوں نے کہا کہ ٹھیک ہے تم نے اسلام قرآن پڑھ کر قبول کیا ہے لیکن جب تم مسلمان ملکوں میں جاﺅ گے تو اکثر میں تمہارا تجربہ افسوسناک ہو گا۔

افسوس انکی یہ بات صحیح نکلی۔ ہم اپنا بزنس سنٹر اسلام آباد میں قائم کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے ایک عمارت اس مقصد کیلئے کرائے پر لی۔ اسکے بعد جو کچھ ہوا وہ اس قدر عجیب و غریب ہے کہ کبھی کبھی تو خود ہم میاں بیوی کو ناقابل یقین لگتا ہے۔ اگر ایک جملے میں اسے بیان کرنا پڑے تو وہ یہ ہے کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جو وعدہ پورا کرتا ہو یا سچ بولتا ہو۔ ہم نے اپنی عمارت میں جن لوگوں سے فرنیچر کا کام کرایا وہ وعدہ کرنے کے باوجود کئی کئی دن غائب ہوتے رہے۔ گارنٹی زبانی تھی۔ یہاں لکھ کر کوئی نہیں دیتا۔ فرنیچر کو چند ہفتوں میں ہی کیڑا لگ گیا۔ وہ لوگ کہتے رہے کہ آکر ٹھیک کر دینگے یا تبدیل کر دینگے لیکن کچھ بھی نہ ہوا۔ تنگ آ کر ہم نے کہنا ہی چھوڑ دیا۔ جس پارٹی نے لوہے کا کام کیا وہ مشہور لوگ ہیں اور ان کا بہت بڑا سیٹ اپ ہے۔ تینوں باپ بیٹے متشرّع ہیں۔ لیکن سارا کام ناقص نکلا۔ گیٹ، بل کھاتی سیڑھیاں، ریلنگ، کچھ بھی اسکے مطابق نہ تھا جو طے ہواتھا۔ پانچ بار آنے کا وعدہ کیا گیاکہ آ کر دیکھیں گے اور نقائص دور کرینگے ۔ لیکن نہ آئے۔ آخری بار میں خود انکے پاس گیا صرف یہ پوچھنے کہ کیا ان کا اس حدیث پر یقین ہے کہ لا ایمانَ لمن لا عہدَ لہُ۔ جو وعدہ خلافی کرے اس کا کوئی ایمان نہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ میری بات کو سنجیدگی سے سننے کے بجائے وہ لوگ صرف یہ کہتے رہے کہ کوئی بات نہیں دیر سویر ہو ہی جاتی ہے۔ جن ڈسٹری بیوٹرز نے ہمیں مال پہنچانا تھا ان میں سے سوائے ایک کے، کوئی بھی طے شدہ وقت پر نہیں آیا۔

گیس اور بجلی والے، کارپٹ والے، ائر کنڈیشننگ والے، کسی کے ہاں وقت کی پابندی کا تصور ہے نہ وعدہ ایفا کرنے کا۔ یہاں تک کہ نناوے فیصد لوگ ٹیلیفون کرنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ وہ طے شدہ وقت پر نہیں آئینگے اس لئے ان کا انتظار نہ کیا جائے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے والے اور وعدہ پورا نہ کرنےوالے ان لوگوں نے اپنی دکانوں کے اوپر کلمہ اور قرآنی آیات لکھ کر لٹکائی ہوئی ہیں اور ہاتھوں میں تسبیحیں پکڑی ہوئی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ جمعہ کے خطبات میں ان لوگوں کو معاملات اور حقوق العباد کے بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا جاتا۔ سارا زور اس بات پر ہے کہ ظاہری شکل و صورت اور لباس کیسا ہو۔ہمیں اس بات پر بھی سخت حیرت ہوئی کہ یہاں بھاری اکثریت مذہب کے معاملے میں سخت پُرجوش اور جذباتی ہے لیکن تقریباَ پچانوے فیصد لوگ قرآن پاک کے مطلب اور مفہوم سے مکمل طور پر نابلد ہیں بلکہ اکثریت پانچ وقت کی نماز میں جو کچھ پڑھتی ہے اس کا مطلب بھی نہیں سمجھتی ! “

میں نے کھانے کی دعوت دی لیکن اس نے ایک المناک اداسی کے ساتھ معذرت کر دی۔ ان کی پرواز کا وقت ہو رہا تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ جن کے اسلام میں صرف ظا ہر پر زور ہو اور باطن اسلام سے مکمل طور پر محروم ہو ان کے ہاں کھانا کھانا جائز ہی نہیں!

11 comments:

Anonymous said...

Izhar Sahib, the story reminds us, yet again, the persistent socio-economic and cultural problems which have existed in the Indian subcontinent for centuries. Concentrating on Pakistan only, the on-going poor political culture is responsible for poor governance ever since the early days after partition. Under the present day regime of thugs, the situation has gone from bad to worse.
The condition of washrooms in public places has to be relevant to the general living standards in the country. One cannot expect western styled clean public places in a country where 70% of the population cannot even write their own names and half the population lives on less than a dollar a day, unemployment and lawlessness is rampant.
Regarding the lack of facilities in the mosques for the women worshippers, it is nothing but the local traditions and the religious dogma supported by the local semi-literate mullahs.
Pakistan suffers not only due to the lack of general education, but also in the hands of the mullahs who have interpreted Islam according to their local social and cultural values. After having practiced the religion under such constraints, the norms tend to become what is called the religious dogma. The result is that in Pakistan, the mullahs do not encourage the women to go to the mosques or even the cemeteries.
The general education and proper religious education and training for the mullahs through some kind of regulatory body is essential but all that would be a wishful thinking without good economic conditions in the country and that is not possible without good governance.

Javed

Anonymous said...

I wonder, he is so right.

MAYA said...

It is really sad and true

Anonymous said...

So sad but so true.

Hamid Siraj said...

اظہارلحق صاحب ۔۔۔۔۔ امید ہے آپ خیریت سے ہوں گے ۔ کالم میں جو آپ نے کہا ۔۔۔۔ سچ کہا اور رلا دیا ۔ من حیث القوم ہمارا اخلاقی طور پر جنازہ نکل چکا ہے ۔ ہم روحانی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ ہمارا کعبہ صرف مادہ پرستی ہے۔ اللہ کریم ہمارے حال پر رحم کرے۔

Anonymous said...

Dear Izhar,
some times ago, europe was more ugly than us, than they adopted the basic Islamic laws and forced their colonies to such a situation.

Anonymous said...

Whatever is described in the article may be true to some extent, but any responsible should investigate the truth before further spreading this information and that is the Islamic law as well.

To me there seems much exaggeration in the whole story. I myself have traveled the mentioned route several times with my family but never felt extremes as detailed in the article. My wife and children are always welcomed in every masjid and provided the requisite privacy and facility for performing prayers. This is not only my family's experience but common to many others. Also my impression of the cleanliness is also not that bad, off-course as it is depicted in the article or may be it is because the writer has confirmed and spread his experience of one time as universal. Similarly the extreme examples are given for commitment and product delivery. I do not claim it to be false, but I believe it does not equal to the experiences of many of us and there are many examples exactly opposite to it too.

We have shifted to Islamabad from Karachi while our roots still there so we have traveled between these cities by all means of travel including our own car, but never faced an experience so bad. I wish this article is not to discourage the west to come to Islam or the Islamic cultures and countries. I have also lived in France for some time and have traveled the whole Europe by own car and have many experiences worse than the one detailed in this article.

I do not say we have adopted perfect Islam, but yes we are far more better than many in the west. Looking at some of their cultural values, I believe they have turned into creatures to an irreversible extent. I hope someone can share those experiences too and then compare ours with them to find the truth.

It's my view as a plain Muslim and a Pakistan and not necessarily be in line with the views of others'. Allah knows better and pardon me if I have exceeded ever.

Farid ALVI

Anonymous said...

Only there is one solution, Shoot all the mullah, who are totally hypocrate, what they teach and speech to others even they dont follow the same in their own life.

M.IMRAN ALAM
30th Jan 2012

Anonymous said...

It is some how true but not at all,i have travelled so many times with my mother and father from peshawar to lahore and we have found masajid where my mom can pray....about the bussiness dealing story he is correct because of all the people in catogaries they mentioned are almost uneducated and they dont not realize their responsibility as a muslim.and if we want to improve our image we must start with our selves and than the others.

Anonymous said...

jo aap ny calam likha hai wo thek hai yeh hum logoun ki gahlti hai hai jo hum asy hukamaranoun ko lay kar atein hein jo is k laik hi nahi hai us say zyaida hum hud hi nahi achy pata nai kab koi acha waqt ay ga PAKISTAN per

shouq said...

افسوس اسکے سارے اندازے غلط اور سارے خواب جھوٹے نکلے

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com