Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 21, 2011

وہ کافر بچّہ

      ڈاکٹر نے اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ پاکستان کے وزیراعظم ہیں!    
وزیراعظم ہسپتال کے دورے پر تھے‘ انکے ساتھ وزیر صحت بھی تھے‘ وزیراعظم وارڈ میں ایک مریض کے پلنگ کےساتھ کھڑے اسکی عیادت کر رہے تھے‘ ٹیلی ویژن کی ٹیم بھی موجود تھی‘ وزیراعظم کے دورے کو فلمایا جا رہا تھا‘ اتنے میں سرجن اندر داخل ہوا‘ اس نے دیکھا کہ ہسپتال کے قانون کی خلاف ورزی ہو رہی ہے‘ اس نے وزیراعظم سمیت سب کو ڈانٹا کہ پوری آستینوں کے ساتھ اور نکٹائیوں کےساتھ یہ لوگ وارڈ میں کیوں داخل ہوئے ہیں۔ یہ طریقہ جراثیم کے نکتئہ نظر سے نقصان دہ ہے۔ سرجن باقاعدہ دھاڑ رہا تھا‘ وزیراعظم نے ٹیلی ویژن والوں کو باہر جانے کا اشارہ کیا اور سرجن کو آہستگی سے بتایا کہ ہم نے تو نکٹائی اتاری ہوئی ہے‘ اس پر سرجن وزیراعظم کو کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وزیراعظم نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے۔ میں آپکی بات مانتا ہوں اور وزیراعظم وارڈ سے نکل گئے۔
اسکے مقابلے میں برطانیہ میں کیا ہوا‘ سنیئے! وزیراعظم برطانیہ نے اپنے قریبی عزیز کو گریڈ اکیس سے بائیس میں ترقی دیکر قومی اسمبلی میں سپیشل سیکرٹری مقرر کردیا ہے‘ یہ صاحب اس سے پہلے قومی اسمبلی میں گریڈ بیس کے افسر تھے‘ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے چیئرمین انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ اس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ اکیس میں ترقی دی اور ڈویژن کا سیکرٹری انچارج مقرر کردیا! اس اقربا پروری پر برطانیہ میں کسی نے چوں تک نہیں کی۔
آپ پریشان ہو رہے ہیں تو ازراہِ کرم خاطر جمع رکھیے۔ یہ دونوں خبریں درست نہیں‘ اصل خبریں اس طرح ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون لندن کے ایک ہسپتال میں گئے‘ انکے  ڈپٹی پرائم منسٹر  اور وزیر صحت بھی ہمراہ تھے‘ وزیراعظم اور انکے دونوں ساتھی مریضوں کے ساتھ تصویریں بنوا رہے تھے کہ متعلقہ سرجن آیا اور دھاڑا کہ وارڈ کے قوانین کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ اس نے یہ تک کہا:
I am not having it, now out
”میرے لئے یہ ناقابل برداشت ہے‘ تم لوگ یہاں سے چلے جاﺅ“۔
اور برطانیہ کا وزیراعظم‘ اپنے نائب اور اپنے وزیر صحت کے ساتھ اور ٹیلی ویژن کی پوری ٹیم کے ساتھ باہر نکل جاتا ہے۔
آپ کاکیا خیال ہے کہ یہ واقعہ اگر پاکستان میں پیش آتا تو کیا ہوتا؟ اول تو کوئی ڈاکٹر ایسی قانون پسندی کا سوچ بھی نہیں سکتا اور اگر بفرض محال کوئی بہادر ڈاکٹر ایسا کر گزرتا تو شام سے پہلے‘ اگر گرفتار نہ بھی ہوتا تو ملازمت سے ضرور فارغ ہو جاتا۔
اب دوسری خبر بھی درست کر لیجئے‘ وزیراعظم پاکستان نے اپنے بہنوئی کو ترقی دیکر قومی اسمبلی میں خصوصی سیکرٹری لگا دیا ہے‘ خصوصی اس لئے کہ ایک سیکرٹری پہلے سے وہاں موجود ہے‘ لیکن اس خبر کے ساتھ اخبار نے جو ایک اور خبر دی ہے‘ اس کا جواب نہیں۔

”اس سے قبل وہ قومی اسمبلی میں پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کے گریڈ بیس میں جوائنٹ سیکرٹری تھے‘ تاہم چیئرمین پی اے سی چودھری نثار علی خان انکی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے‘ جس پر وزیراعظم نے انہیں گریڈ 21 میں ترقی دیکر وزارت کلچر کا سیکرٹری انچارج مقرر کر دیا تھا اور وہ ان 54 افسران میں بھی شامل تھے‘ جن کو وزیراعظم کی طرف سے ترقی دی گئی تھی اور سپریم کورٹ نے ان ترقیوں کو کالعدم قرار دیا تھا۔

آپ کا کیا خیال ہے‘ اگر برطانیہ کا وزیراعظم اس طرح کرتا تو کیا ہوتا؟ اول تو وہ اقرباپروری کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘ بفرض محال اگر ایسا ہوتا تو قیامت آجاتی۔ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن وزیراعظم کا حکم ماننے سے انکار کر دیتا‘ اپوزیشن اسے اتنا بڑا معاملہ بناتی کہ وزیراعظم کو مستعفی ہونا پڑتا‘ ان ”کافر“ ملکوں میں ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا میں ایک وزیر کو اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کہ اس نے ذاتی سفارش کیلئے سرکاری لیٹر پیڈ استعمال کیا تھا۔ ڈنمارک کی ایک وزیر نے رات کے وقت سائیکل پر گھر جاتے ہوئے چوک کی سرخ بتی کا خیال نہ کیا‘ کیمرے نے یہ ”غیرقانونی“ حرکت محفوظ کرلی‘ دوسرے دن دوپہر تک موصوفہ کو وزارت چھوڑنا پڑی۔
یہ ہے ترقی یافتہ اور غیرترقی یافتہ ملکوں کا اصل فرق۔ دولت اور آسائش میں مشرق وسطیٰ کے مسلمان ممالک مغربی ملکوں سے کسی طور پیچھے نہیں‘ لیکن مساوات‘ قانون کی حکمرانی اور حکمرانوں کا محاسبہ.... یہ ہیں وہ صفات جو مغربی ملکوں کو صحیح معنوں میں ترقی یافتہ بناتی ہیں۔ آپ ذرا موازنہ کیجئے‘ ایک طرف برطانیہ کا وزیراعظم چوں کئے بغیر سرجن کے سامنے سرتسلیم خم کردیتا ہے‘ اس لئے کہ قانون اور ادارے وزیراعظم سے بالاتر ہیں‘ دوسری طرف پاکستان کا وزیراعظم ملک کو اپنی جاگیر سمجھتا ہے۔ پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کا چیئرمین.... جو ایک منتخب رکن اسمبلی ہے‘ ایک افسر کی کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ وزیراعظم اسے وہاں سے صرف ہٹاتے نہیں‘ ہٹاتے وقت ترقی بھی دے دیتے ہیں اور کوئی چوں نہیں کرتا‘ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کا سیکرٹری جو 35 سال ملازمت کرنے کے بعد اس اعلیٰ عہدے پر پہنچا ہے‘ ایک غلام کی طرح حکم کی تعمیل کرتا ہے اور اگر وہ اس حکم کی تعمیل سے انکار کر دیتا تو اسے سزا ملتی اور پورے سرکاری سیٹ اپ میں کوئی اسکی مدد کو نہ پہنچتا۔
یہ ہے وہ صورتحال جو اس ملک کو گھن کی طرح کھا رہی ہے‘ ایک طبقہ جو قانون سے ماورا ہے‘ اس ملک کی تباہی کا ذمہ دار ہے اور اس طبقے میں بدقسمتی سے حکومت کے عمائدین اور منتخب ارکان سرفہرست ہیں۔ قانون کو لونڈی سمجھنے کی یہ روایت جب تک ختم نہیں ہوتی‘ کوئی ترکیب کارگر نہیں ہو گی۔ آپ پورے ملک کو کوٹ‘ پتلون پہنا دیں یا اٹھارہ کروڑ کو لمبے کُرتے اور ٹخنوں سے اوپر شلواریں پہنا دیں‘ آپ دھماکے کریں‘ امریکہ کو للکاریں‘ یہود و ہنود کو تباہ کرنے کا اعلان کریں‘ ملک وہیں کا وہیں رہے گا اور جب تک برطانوی وزیراعظم ایک معمولی سرجن کا حکم مانتا رہے گا اور جب تک امریکی صدر ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا رہے گا‘ کوئی ان ملکوں کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ آپ اس ملک میں قانون کی بے بسی دیکھئے کہ وزیر خزانہ ارکان پارلیمنٹ کی منت سماجت کر رہے ہیں کہ وہ ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں‘ جبکہ وزیر خزانہ کی ماتحتی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو جیسا عظیم الجثہ ادارہ موجود ہے اور اس ادارے کو اور وزیر خزانہ کو بھی معلوم ہے کہ ارکان کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کررہی‘ آپ وزیر خزانہ اور انکی وزارت کی بے بسی دیکھئے کہ نجکاری کمیشن وزیراعظم کے سیلاب فنڈ میں ستائیس کروڑ روپے دیتا ہے اور اس میں سے چھبیس کروڑ اشتہار بازی پر خرچ کر دیتا ہے اور وزیر خزانہ کچھ نہیں کرسکتے۔ آپ وزارت خزانہ کی بے بسی دیکھئے کہ اسکے ایک ماتحت ادارے نیشنل بنک میں ویلفیئر فنڈ کے دو ارب روپے خردبرد کرلئے جاتے ہیں اور سپریم کورٹ اس معاملے میں پڑتی ہے‘ گویا فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور وزارت خزانہ کا وجود ہی نہیں ہے۔ اور وزیرخزانہ اتنے بڑے منصب پر بیٹھ کر مراعات یافتہ طبقے کے سامنے بے بس ہیں اور جو کام انہیں کرنا چاہیے تھا‘ وہ سپریم کورٹ کر رہی ہے۔
کاش! اس کافر بچے ڈیوڈ کیمرون ہی سے ہم کچھ سیکھ لیتے!

5 comments:

Anonymous said...

Nicely written column, Izhar Sahib. But there is one problem – who is paying a heed? In Pakistan there are two types of people, those who rule and those who are ruled. The rulers have learned from their masters who used to come from England to rule over them or their forefathers. As I have said repeatedly before, since the Pakistani rulers are often not highly educated or sophisticated themselves, they are only trying to rule as they have been ruled in the past. That is the only way they know. Moreover, they are not going hang around in Pakistan because all their loot is outside the country. With their low IQ and limited imagination, they are sure that is the way to go.

The other type of people, who are being ruled are quite used to the way things are. It does not really matter their rulers are white, black or brown, they have spent a few centuries practicing how to lick the boots of the powerful.

Today, Pakistan is a mess because the combined IQ of its PM and the president may be lower than the British PM’s chauffer. But just look at the arrogance of these guys in Islamabad. Many of them have actually started believing that they are some kind of leaders. They may be the leaders of the looters and thieves, that is about it.

Pakistan is in a hole because of its rulers. That goes for the army chief as well who takes orders from Washington to kill his own people in Wazirestan, who in turn, cause the mayhem all over Pakistan. Is any one out there listening? Pakistan cannot survive with those clowns at the helm.

Javed

افتخار اجمل بھوپال said...

افسوس تو اسی بات کا ہے کہ غيروں نے اپنائيں ہيں اسلام کی باتيں اور ہم کرتے ہيں صرف باتيں
اپنوں نے غم ديئے تو ہميں ياد آ گيا
اِک اجنبی جو غير تھا پر غمگسار تھا

fikrepakistan said...

بہت اچھی تحریر ہے اظہار صاحب، قومیں ایمانداری، ویژن، محنت، انصاف، مساوات، علم، تحقیق، تدبر اور تفکر سے ترقی کرتی ہیں، دھرنوں ریلیوں اور ہڑتالوں سے نہیں، یہاں وہ لوگ جنہیں علم کے عین کا بھی پتہ وہ عالم بنے بیٹھے ہیں، جنہیں اپنا نام ٹھیک سے لکھنا نہیں آتا وہ سیاستدان بنے بیٹھے ہیں، ہمارے سیاستدانوں اور مذہب فروش دینی طبقے نے پوری قوم کو دھرنوں ریلویوں اور ہڑتالوں پر ہی لگایا ہوا ہے قوم ان جانوروں کے چنگل سے نکلے تو اس طرف سوچے جس طرف آپ نے اشارہ کیا ہے۔ یہ کمین لوگ کفار کو گالیاں ہی دے سکتے ہیں بس، جبکہ حقیقت یہ ہے کے اگر ان کے درمیان صرف کلمہ رکھہ دیا جائے تو ان سے بڑا مومن کوئی نہیں ہے آج کرہ ارض پر۔ مگر یہ سیاسی اور مذہبی جانور آج بھی پوری قوم کو یہ ہی انجیکشن لگتاتے پھر رہے ہیں کے تم عظیم ہو، تم مومن ہو، تم سب سے برتر ہو، جس قوم کے سربراہ جس قوم کے علماء ہی جاہل اور مذہب فروش ہونگے اس قوم کا حشر ایسا ہی ہونا ہے۔

fikrepakistan said...

خود تو یہ مذہب فروش جاہل ہیں ہی پوری قوم کو بھی جاہل ہی رکھنا چاہتے ہیں، تعلیم کی طرف آنے نہیں دیتے کے جدید تعلیم کفر ہے، علم تو صرف دین کا ہوتا ہے دنیا کا تو ہنر ہوتا ہے۔ جہاں ایسی غلیظ سوچ کے مذہب فروش مذہبی معاملات چلائیں گے وہ قوم کیا خھاک ترقی کرے گی، انکے پیچھے چلتے رہے تو یہ جانور پھر سے پتھروں کے دور میں لے جائیں گے پوری قوم کو، اور نعرے تو سنو ان جانورں کے، اسلام کا غلبہ پوری دنیا پر کر کے رہیں گے، ساری دنیا پر مسلمانوں کی حکومت قائم کریں گے۔ جانوروں سے اپنا گھر سنبھل نہیں رہا، علم و تحقیق کو کفر کہتے ہیں ٹیکنالوجی کو کفر قرار دیتے ہیں، غلیل سے شیر کا شکار کرنا چاہتے ہیں یہ جانور، ابھی امریکہ ایک ایک کر کے انکی ایسی تیسی پھیر رہا ہے پھر بھی سمجھہ نہیں آرہی انکی کے جیت جذبات سے نہیں علم سے طاقت سے ملتی ہے، اللہ کا شکر ہے کے اب قوم کی سمجھہ میں معاملات آرہے ہیں اور اب لوگ انکے چنگل سے نکل رہے ہیں وہ وقت دور نہیں کے ان مذہب فروشوں کے سر چھپانے کی بھی جگہ نہیں ملے گی انشاءاللہ۔ کتے کی موت مریں گے یہ سب جنہوں نے قوم کو اسکی اصل منزل سے دور رکھہ کر دھرنوں ریلیوں اور ہٹرتالوں میں لگایا ہوا ہے۔

فریدون said...

السلام علیکم اظہار صاحب

اقبال کے اس مصراع کو ذرا وسیع تناظر میں لیجئیے

پاسباں مل کعبے کو صنم خانے سے۔۔

مجھے زیادہ کوفت اس بات پہ ہوتی ہے کہ ایسی خبریں ہمارے مزاجوں پہ ڈیڑھ دو گرام سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتیں۔۔ جو دو ایک دن کے میڈیا ٹرائل کے بعد ختم ہو جاتا ہے۔۔ اس کے بعد کونسی خبر کیسی خبر؟

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com