Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, January 04, 2011

گردنیں اور پائوں

دہشت کا یہ عالم تھا کہ ایک ایک نہتا تاتاری پندرہ پندرہ بیس بیس مسلمانوں کو ہانکتا تھا اور چُوں بھی کوئی نہیں کرتا تھا۔ آمو سے لیکر فرات تک بھیڑ بکریوں کا ایک ریوڑ تھا جسے تاتاری ہانکتے تھے اور جدھر چاہتے تھے لے جاتے تھے۔

سات صدیاں اور پچاس برس اُوپر ہوگئے ہیں اور آج اٹھارہ کروڑ بھیڑ بکریاں پھر ہانکی جارہی ہیں۔اب کے ہانکا لگانے والے تاتاری نہیں، بھارتی نہیں، امریکی بھی نہیں، ان بھیڑ بکریوں کے اپنے ملازم ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں ان ملازموں کو تنخواہیں دیتی ہیں۔تعیشات سے جگمگاتے محلات عطا کرتی ہیں۔پوشاکیں بخشتی ہیں۔ ان ملازموں کے خانوادوں کو مزے مزے کے راتب مہیا کرتی ہیں۔ پھر یہ ملازم ان بھیڑ بکریوں کو ہانکتے ہیں ان کی پیٹھوں پر کوڑے برساتے ہیں۔ انہیں پتھر مارتے ہیں ۔ان پر کتے چھوڑتے ہیں ، انہیں یوں مخاطب کرتے ہیں
…’’
 اوئے چتکبری، اوئے کالی کھال، اوئے سفید رنگ، تیرا گوشت کھائوں، تیری ہڈیاں ٹوکے سے ٹکڑے ٹکڑے کروں، تیری کھال کے جوتے بنائوں، تیری اُون سے کمبل بُنوں، اوئے چتکبری، اوئے کالی، اوئے تو شام سے پہلے مرے‘‘۔

دُور کیوں جاتے ہیں۔ دارالحکومت ہی کو دیکھ لیجئے۔ آپ راولپنڈی سے اسلام آباد میں داخل ہوتے ہیں چند گز کے بعد گاڑیوں کی طویل قطار کے پیچھے آپ کی گاڑی بھی رُک جاتی ہے۔ پانچ منٹ، پندرہ منٹ، آدھا گھنٹہ! جس رفتار سے بھی گاڑیاں حرکت کر رہی ہیں، چیونٹی اُس رفتار پر قہقہہ لگا دے۔ ان رُکی ہوئی گاڑیوں میں دل کے مریض بھی ہیں، ایمبولینسیں بھی ہیں، حاملہ عورتیں بھی ہیں جوموت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں اور ہسپتال پہنچنا چاہتی ہیں۔ ایسے طالب علم ہیں جنہوں نے کمرۂ امتحان میں وقت پر حاضر ہونا ہے۔ شاہراہ بند کردی گئی ہے۔ رکاوٹیں کھڑی ہیں۔ صرف اتنی جگہ خالی ہے جس میں سے ایک گاڑی مشکل سے گذر سکتی ہے۔ پولیس کا سپاہی کھڑا ہے اور صرف یہ دیکھ رہا ہے کہ گاڑیاں رینگ رینگ کر چلیں اگر رات کا وقت ہے تو وہ گاڑیوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے چہروں پر ٹارچ کی روشنی پھینکتا ہے۔ ان میں خواتین بھی ہیں۔ مرد دیکھ رہے ہیں کہ انکی عورتوں کے چہروں پر روشنی پھینکی جارہی ہے لیکن یہ کیسے مرد ہیں؟ خاموش،راضی برضا، زنخے!…نہیں، زنخے تو اب اپنے حقوق کیلئے احتجاج کرنے لگے ہیں، الماس بوبی اپنے گروہ کی نمائندگی بھرپور انداز میں کرتی ہے یا کرتا ہے۔ یہ لوگ جو گاڑیوں میں بیٹھے بے کسی اور بے بسی کی مجسم تصویریں بنی ہوئی ہیں یہ تو بھیڑ بکریاں ہیں۔

گاڑیاں رکاوٹوں سے نکلتی ہیں۔ زیرو پوائنٹ کراس کرتی ہیں، آگے پھر رکاوٹیں ہیں، پھر گاڑیاں رُک جاتی ہیں، دارالحکومت کے ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر، ہر حصے میں رکاوٹیں ہیں، کئی رکاوٹوں پر پولیس کے سپاہی موجود ہی نہیں، لیکن بھیڑ بکریاں پھر بھی رکی ہوئی ہیں،
 گاڑیاں روکی جاتی ہیں،
 گاڑیاں رینگتی ہیں،
گاڑیاں ہانکی جاتی ہیں،
 آج تک ایسا نہیں ہوا کہ رکاوٹوں کی وجہ سے کوئی دہشت گرد پکڑا گیا ہو، بم بلاسٹ ہورہے ہیں، خود کش دھماکے بھی جاری ہیں لیکن دارالحکومت کی بھیڑ بکریوں کو قدم قدم پر ،جگہ جگہ، ہر موڑ پر، ہر شاہراہ پر روکنا ضروری ہے۔ ہاں ایک کسر باقی ہے کہ پیشانیوں پر مُہریں نہیں لگائی جارہیں۔

بھیڑ بکریوں کے اس شہر میں جسے دارالحکومت کہا جاتا ہے اور جہاں رہائشی زمین کا نرخ تین کروڑ روپے فی کنال یا اس سے بھی زیادہ ہے ہاں! بھیڑ بکریوں کے اس قیمتی شہر میں ہر گلی میں پانی بہہ رہا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب قرطبہ اور غرناطہ کی گلیاں صاف ستھری تھیں، لندن اور پیرس کی گلیوں میں ٹخنوں تک پانی کھڑا رہتا تھا، آج لندن اور پیرس کی گلیاں صاف ستھری ہیں اور وہ ملک جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا،اُس ملک کا دارالحکومت گندگی کا ڈھیر ہے۔’’ صفائی نصف ایمان ہے‘‘۔ لیکن دارالحکومت میںنہیں، کروڑوں اربوں روپے ہڑپ کرنے والے ترقیاتی ادارے میں بیٹھے جُہلا کو یہ معلوم ہی نہیں کہ ہر گھر کے پورچ میں ایک گاڑی کھڑی ہے۔اس گاڑی کو ہر روز دھویا جاتا ہے۔ ہزاروں گاڑیوں کو دھونے کیلئے لاکھوں گیلن پانی ہر روز بہایا جاتا ہے اور اس پانی کے نکاس کا کوئی انتظام نہیں، یہ لاکھوں گیلن پانی پورچوں سے نکلتا ہے اور گلیوں اور سڑکوں میں بہنے لگتا ہے، پیدل چلنے والے پائنچے اُوپر چڑھا لیتے ہیں۔ گاڑیاں چھینٹے اُڑاتی ہیں، چھوٹے بچے گرتے ہیں گندے پانی میںلت پت ہوجاتے ہیں، لیکن بھیڑ بکریاں اُف تک نہیں کرتیں، ترقیاتی ادارے کو ٹیکس دئیے جارہی ہیں، صعوبتیں برداشت کر رہی ہیں۔
گندی گلیاں!
رکاوٹوں سے بھرپور شاہراہیں!
دفتروں میں بیٹھے ہوئے فرعون صفت اہلکار!
 رشوت لینے والے اژدہے! ۔…؎

ان موذیوں پہ قہرِ الٰہی کی شکل میں

نمرود سا بھی خانہ خراب آئے تو ہے کم

موروثی سیاست دانوں کو مژدہ ہو کہ ان بھیڑ بکریوں میں سکت ہے نہ ہمت، چوہدری ہیں یا شریف ، اے این پی پر حکومت کرنے والا خاندان ہے یا ڈیرے کے مولوی، بھٹو خاندان ہے یا بگتی اور مری سردار، کھوسے ہیں یا لغاری، گیلانی ہیں یا قریشی، پیر ہیں یا مخدوم، سب کو مژدہ ہو کہ بھیڑ بکریوں پر مشتمل اٹھارہ کروڑ کا یہ ریوڑ سر جھکا کر چلتا رہے گا، خانوادے سلامت رہیں گے،
 بلاول آئے گا پھر اُس کا نورِ نظر،
 مونس الٰہی حکومت کرے گا پھر اُس کا خلف الرشید،
 حمزہ شہباز تخت پر جلوہ افروز ہوگا پھر اُس کا لختِ جگر، طلال بگتی کے بعد شاہ زین ، پھر اُس کا وارث،
ایک احسن اقبال پر کیا گلہ اور ایک مشاہد حسین سے کیا شکوہ! کیا کوئی ایک بھی ہے جو اٹھ کہ کہہ دے کہ آخر ہم بھیڑ بکریوں کے بھی کچھ حقوق ہیں۔
کوئی احتجاج نہیں ۔کوئی شکایت نہیں۔احساس تک نہیں۔ یہ تو بجلی ،گیس اور پٹرول کا معاملہ ہے۔خدا کی قسم  آکسیجن بھی بند کر دیں تو بھیڑ بکریوں کے اس ریوڑ میں کوئی اضطراب نہیں پیدا ہو گا۔ اسی لیے تو پولیس کے ہزاروں ملازم اپنی کئی رہائش گاہوں پر مامور کرنے والا وزیر اعلی ا   خونی انقلاب کا مژدہ سناتا ہے اس لیے کہ مذاق کرنا وزیر اعلی ا   کا بھی حق ہے۔ کیسا خونی انقلاب  ؟  یہاں خون ہے نہ انقلاب۔ دس رائے ونڈ اور بنا دیں۔ ایک ""جاتی  عمرہ "" نہیں  بھارت سے بیس نام درآمد کر لیں ۔ افرادی قوّت تک وہاں سے لے آئیں، ہلکا سا ارتعاش بھی نہیں پیدا ہو گا۔  
فرغانہ کی مسجد میں نمازی سر بسجود تھے۔ روسی جرنیل نے ایک طرف سے گردنوں پر پائوں رکھ کر چلنا شروع کیا اور گردنوں پر پائوں رکھتا، صف کے آخر تک پہنچ گیا، آج اٹھارہ کروڑ افراد کی گردنوں پر ایک درجن (یا کم و بیش) خانوادوں کے پائوں ہیں اور اُف تک کی آواز نہیں آرہی۔ اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ مستقبل قریب میں گردنیں اس بوجھ سے آزاد ہوجائیں گی تو وہ اپنی بصارت اور بصیرت د ونوں کا علاج کرائے۔

3 comments:

Anonymous said...

Izhar Sahib, you are talking about a nation that has lost its dignity and self respect long time ago. The British Raj for a century and a half followed by the home grown feudal rulers for six decades has made the public numb and devoid of thinking for themselves, let alone standing up for their rights in an assertive manner. This is a dead nation – both emotionally and intellectually. At the next election this public is going to vote for the same clowns who have been tried so many times and have proved themselves to be useless every time. The government is not going to get better as long as the public is going to accept them at their face value.

The nation that knows nothing beyond burning tires for a protest is not going command any respect. Three years of the poorest governance has taught the public absolutely nothing. They cannot even stage a nation wide civil disobedience to protest against the useless government which happily allows the Americans to use drones creating a major reason for terrorism coming from Wazirestan.

We are looking at the government that misses no opportunity in criticizing the military rulers of the past, but has no courage to revise or repeal even the most draconian laws like blasphemy and apostasy, for example, which was put into the present form by the regime of Gen. Zia.

On top of all other dilemmas there are irresponsible fire brand Mullahs who misguide the illiterate public to an extent that they even assassinate the Punjab governor only because he had opposed the primitive blasphemy law, calling it the black law. With all this goings on, it is obvious that both the public and the government deserve each other.

Javed

جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین said...

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ اپنی بصارت اور بصیرت د ونوں کا علاج
کرائے۔

بصارت؟۔ بصیرت؟؟
علاج تو وہ کرائے جس کے پاس بصارت و بصریت نامی گوہر نایاب ہوگا تا نا۔ ہم بہ حیثیت قوم اس جوہر خاص سے محروم ہو چکے۔

اس میں کوئی شک نہیں۔ تحریر سے آپ کا دلی درد ٹپکتا ہے ۔ مگر بہتر ہوتا آپ اس پہ اپنی سی کوئی تجویز بھی دیتے۔ کوئی حل بیان کرتے کہ کچھ دن تو سچی جھوٹی تسلی رہتی۔

افتخار اجمل بھوپال said...

يہاں تو يہ حال ہے کہ کس کس کو روؤں ۔ کس کس کيلئے دعا کروں

Post a Comment

 

powered by worldwanders.com