کیا آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟
وہاں سے تین بھیڑے اتر کر آئے ان میں سے دو تو لنڈورے تھے، ایک کی دم نہیں تھی! جس بھیڑیے کی دم نہیں تھی وہ تین دریاوں میں تیرتا تھا۔ ان میں سے دو دریا خشک تھے، تیسرے میں پانی ہی نہیں تھا۔ جس دریا میں پانی نہیں تھا اسکے کنارے تین شہر تھے۔ دو شہر اجڑے ہوئے تھے، تیسرا آباد ہی نہیں تھا۔ جو شہر آباد نہیں تھا‘ اس میں تین کمہار رہتے تھے، دو کمہار کبڑے تھے، ایک سیدھا ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ جو کمہار سیدھا نہیں کھڑا ہو سکتا تھا، اس نے تین ہانڈیاں بنائیں۔ دو ہانڈیاں ٹوٹی ہوئی تھیں، ایک کا پیندا ہی نہیں تھا۔ جس ہنڈیا کا پیندا نہیں تھا، اس میں چاول کے تین دانے پکائے گئے۔ دو دانے سخت نکلے ایک نرم ہی نہیں ہوا۔ چاول کا جو دانہ سخت تھا، اسے تین مہمانوں کو پیش کیا گیا۔ دو مہمان بھوکے رہے، ایک کا پیٹ ہی نہیں بھرا۔ جس مہمان کا پیٹ نہ بھر سکا اسکے پاس تین عدد گائے تھیں۔ دو بانجھ تھیں اور ایک دودھ ہی نہیں دیتی تھی۔ جو گائے دودھ نہیں دیتی تھیں اسے تین روپے میں فروخت کر دیا گیا، دو روپے کھوٹے تھے اور ایک کو لیتا ہی کوئی نہیں تھا۔ جس روپیہ کو کوئی نہیں قبول کرتا تھا، اسے چیک کرانے کیلئے سنار کی دکان پر لے گئے۔ وہاں تین سنار بیٹھے تھے دو تو اندھے تھے، ایک کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا۔ جس سنار کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا، اس نے سونے کی تین چوڑیاں بنائیں ان چوڑیوں میں سے تو تنگ تھیں ایک کلائی پر چڑھتی ہی نہیں تھی۔ جو چوڑی چڑھتی نہیں تھی، متھرو اسے خریدنا چاہتی تھی لیکن افسوس! گوپی خریدنے نہیں دیتا تھا!
یہ لوک کہانی میں نے بچپن میں اپنے والد کی نانی جان سے اور پھر اپنی دادی جان سے سنی اور بارہا سنی، میں اس وقت سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ یہ کہانی میرا وطن بن جائے گی اور میں اس کہانی میں زندگی گزار رہا ہوں گا!
آج میرے وطن میں بھیڑیے اترے ہوئے ہیں۔ امریکہ کا بھیڑیا، وکی لیکس کا بھیڑیا، کرپشن کا بھیڑیا، مہنگائی کا بھیڑیا، دہشت گردی کا بھیڑیا، انتہا پسندی کا بھیڑیا۔ ہمارے دریا کچھ تو خشک ہو گئے ہیں اور کچھ میں پانی ہی نہیں۔ کل جب بصرہ اور بغداد پر گدھ منڈلاتے تھے تو شاعر پکار اٹھا تھا :
ہمارے گھر ہمارے بصرہ و بغداد دیکھو
ہیں گرنے کو ستارے بصرہ و بغداد دیکھو
زمیں اور آسماں اور لامکاں سب دم بخود تھے
فرشتے جب پکارے بصرہ و بغداد دیکھو
فرات اور دجلہ کا پانی کہانی کہہ رہا ہے
کہانی کے کنارے بصرہ و بغداد دیکھو
آج ہمارا اپنا ہر شہر بصرہ اور بغداد بنا ہوا ہے۔ مسجدیں شہید ہو رہی ہیں، خانقاہیں اور مزار کھنڈر بنائے جا رہے ہیں، بچے اور عورتیں بھونی جا رہی ہیں، بغیر پائلٹ کے جہاز ہماری سرحدوں سے در آتے ہیں اور تباہی پھیلا کر اطمینان سے واپس چلے جاتے ہیں اور ہماری پارلیمنٹ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ”احتجاج“ کرتی ہے اور پہلے سے طے شدہ منصوبے کیمطابق ”بھول جاتی ہے“۔ ہمارے سیاستدان کچھ تو کبڑے ہیں اور جنہیں ہم سیدھا سمجھتے تھے، وکی لیکس والے بتاتے ہیں کہ ان کی تو کمر ہی نہیں ہے، وہ تو امریکیوں کو قائل کرتے رہے ہیں کہ وہ امریکہ نواز ہیں۔ ہمارے مذہبی رہنما مٹی کی ایسی ہانڈیاں ہیں جن کے پیندے ہی نہیں۔ یہ پرپیچ عمامے اور لمبی عبائیں امریکی سفیر کے آگے گڑگڑاتی رہیں کہ خدا کیلئے ہمیں وزارت عظمیٰ کی گدی پر بٹھاو اس لئے کہ ”پارلیمنٹ کے اکثر ارکان بکاو مال ہیں۔“ شاید شورش کاشمیری نے ایسے ہی ”رہنماوں“ کیلئے کہا تھا : ”جن کے دل خوف سے خالی ہیں بہ ایں ریشِ دراز! “
عوام کچھ تو بھوکے ہیں اور کچھ کا پیٹ خالی ہے۔ آٹا اور چینی غائب کرنیوالے اونچے ایوانوں میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ کوئی کابینہ میں بیٹھا ہے اور کوئی پارلیمنٹ میں، ان کا ایک ایک سوٹ لاکھوں کا ہے، لوگ بھوکے مر رہے ہیں، پیاز کی قیمت سو روپے فی کلو ہے، دوسری طرف آٹھ آٹھ لاکھ پاونڈ کا ایک ایک موبائل ہے جس میں ہیرے جڑے ہوئے ہیں، خلق خدا گیس اور پٹرول کیلئے اور چینی اور گڑ کیلئے قطاروں میں کھڑی ہے اور مٹی کو سرمہ کہہ کر بیچنے والے دانشور انہیں تسلی دے رہے ہیں کہ یہ ملک رمضان کی ستائیسویں کو بنا تھا اس لئے سب کچھ برداشت کرو اور اف تک نہ کرو اور یہ تو بالکل نہ کہو کہ بھارت میں حاجیوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، پاکستان کے حاجی اس کا سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے کہ جس حاجی کے جسم پر صرف جانگیا اور بنیان رہ گئی ہے، وہ سوچنے کی تاب ہی کہاں لا سکتا ہے، یوں بھی ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ جب وہ ملتان کے علاقے میں تھا تو اسے صابونی حلوہ کھلایا گیا، ایک بات ابن بطوطہ لکھنا بھول گیا کہ اس علاقے میں لوگوں نے پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں اور داڑھیاں سرخ کر کے صابونی حلوے کھایا کرتے تھے، ان کے جسموں سے بدبو کے بھبکے اٹھ رہے تھے کہ جس صابن کے ساتھ انہوں نے بنانا تھا، اسے بھی حلوہ سمجھ کر کھا رہے تھے۔ خزانے کے وزیر نے کئی بار بیانات دئیے ہیں جو بڑے لوگوں کیخلاف ہیں، لیکن کوئی ہے جو ان بڑے لوگوں سے ٹیکس وصول کرے؟ محلات کی کیا بات کرتے ہو، اب تو ان لوگوں نے اپنے الگ شہر بسا لئے ہیں، ایک ایک وزیر اعلیٰ نے چار چار رہائش گاہوں کو ”چیف منسٹر ہاوس“ قرار دیا ہوا ہے اور بات انقلاب کی کرتے ہیں۔ جیسے سننے والے بے وقوف ہی تو ہیں!
ہمارے کھوٹے سکے جانچ کون رہا ہے؟ غضب خدا کا! ایسے سنار، جو یا تو اندھے ہیں یا دیکھ ہی کچھ نہیں سکتے! یہ اندھے سنار طلائی چوڑیاں بنا رہے ہیں، خلقِ خدا تو یہ بھی کہتی ہے کہ سیروں اور منوں کے حساب سے سونا ملک سے باہر لے جایا گیا جب کہ کھیتوں اور کارخانوں میں کام کرنیوالی عورتوں کی انگلیوں پر انگوٹھیاں ہیں نہ کلائیوں پر چوڑیاں اور دوسری طرف وہ بھی ہیں جو دوپہر کی باقر خانیوں کیلئے الگ باورچی رکھتے ہیں اور شام کے کھانے کیلئے الگ اور ناشتہ بنانے کیلئے الگ، وہ جب عوام کو دستر خوان پر بٹھاتے ہیں تو انکے سامنے ایسے چاول رکھتے ہیں جو یا تو کچے ہوتے ہیں یا گلے ہوئے نہیں ہوتے اور تاریخ کی ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ باورچی رکھنے کیلئے واجد علی شاہ بدنام ہے! لیکن کیا آپ سامنے وہ اونچا میدان دیکھ رہے ہیں؟ دیکھئے، وہاں سے بھیڑیے اتر رہے ہیں!
3 comments:
Superb .... Kahani kia hey haqeeqat e haal hey.. Lakin hum in bheRiyun se kia gila karen jab hum khud hi in ka niwala banNey ke liey bey taab hein....
Shakeel Jazib
Well said, sir. Almost 175 million are blind while another 0.5 million are unable to see, so nobody is seeing even the raised plain what to talk of wolves that are descending.
This shows true picture of our situation which according to a Russian proverb is sort of "in between - worse than yesterday but better than tomorrow". M. Y. Tajik.
Post a Comment