Home | Columns | Poetry | Opinions | Biography | Photo Gallery | Contact

Tuesday, June 29, 2010

جیالوں کا خون

رہائش کیلئے مناسب ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر آنیوالے شہر میلبورن میں اور پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک خوبصورت مشابہت پائی جاتی ہے‘ اسلام آباد کے شمال میں مارگلہ پہاڑیوں کا دلفریب سلسلہ ہے‘ ان پہاڑیوں پر جنگلات ہیں‘ دامنِ کوہ سے ہوتی ہوئی ایک سڑک بلندی تک گئی ہے‘ جہاں ایک یا دو ریستوران ہیں‘ دامنِ کوہ کے نیچے چڑیا گھر ہے‘ پہلے تو تعطیل کے دن پاکستانی صرف دامنِ کوہ تک جاتے تھے لیکن جب سے تنورِ شکم بھرنے کا سامان چوٹی پر ہوا ہے‘ ’’سیاحوں‘‘ کے قافلے چوٹی تک جاتے ہیں۔ جب یہ ریستوران نہیں تھے‘ غیرملکی تب بھی ان پہاڑوں پر جاتے تھے‘ مرد بھی اور عورتیں بھی‘ مہم جوئی بھی کرتے تھے‘ وزرش بھی اور تفریح بھی‘ دامنِ کوہ اور پہاڑ کی چوٹی کے ایک طرف پرانا گائوں سیدپور ہے۔
 آسٹریلیا کے دوسرے بڑے شہر میلبورن کے مشرق میں بھی اسی طرح کا پہاڑی سلسلہ ہے‘ جو جنگلات سے اٹا ہوا ہے‘ اس سلسلے کو ’’ڈینڈی نانگ‘‘ کہا جاتا ہے‘ دامنِ کوہ کی طرح یہاں بھی اونچائی پر کھڑے ہو کر سیاح شہر کا نظارہ کرتے ہیں۔ سیدپور کی طرح یہاں بھی پہاڑوں کے دامن میں ایک گائوں ہے جس کا نام ’’سسا فراز‘‘ ہے لیکن میلبورن اور اسلام آباد کے درمیان خوبصورت مشابہت یہاں آکر ختم ہو جاتی ہے۔

ڈینڈی نانگ کے دلکش پہاڑی سلسلے کے دامن میں واقع بہترین سیکٹروں پر آسٹریلیا کی مسلح افواج نے قبضہ نہیں کیا‘ کیونکہ ان کا یہاں جی ایچ کیو بنانے کا کوئی پروگرام نہیں‘ میلبورن کے کاروباری اژدہوں کو ڈینڈی نانگ کے پہاڑی سلسلے میں نقب لگانے یعنی سرنگ بنانے کے وقتاً فوقتاً دورے نہیں پڑتے‘ یہاں کوئی کامران لاشاری یا سی ڈی اے نہیں جو اس پارک کا ایک قیمتی حصہ امریکی فاسٹ فوڈ کو کوڑیوں کے بھائو عنایت کردے اور عدالتِ عظمٰی کے حکم کے باوجود اس مجرمانہ غلطی کی تلافی نہ کرے۔ یہاں صرف ایک سڑک نہیں‘ جو دامن کوہ سے پیرسوہاوہ تک ہے‘ یہاں شاہراہوں کا جال بچھا ہے‘ یہاں کے ترقیاتی ادارے میں شاہراہیں تعمیر کرنے کے محکمے کو ’’سنہری‘‘ محکمہ (روڈ‘ از گولڈ) نہیں کہا جاتا‘ سڑکوں پر سفید نشانات لگے ہوئے ہیں‘ یہ آنے کا راستہ ہے‘ یہ جانے کا راستہ ہے‘ اس نشان کے اندر اندر گاڑی پارک کرنی ہے‘ اس نشان کے اوپر چل کر سڑک پارک کرنی ہے‘ چار پانچ گھنٹے کی سیر و تفریح کے دوران ٹریفک پولیس کا کوئی آدمی نظر نہیں آیا لیکن کسی ایک گاڑی نے بھی سڑکوں پر لگے ہوئے نشانات کی بال برابر خلاف ورزی نہیں کی۔ کسی جگہ کاغذ کا کوئی پرزا‘ سگریٹ کا کوئی ٹکڑا‘ کوئی تنکا‘کوئی شاپنگ بیگ‘ جوس کا کوئی خالی ڈبہ نہیں نظر آیا۔ ہر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر واش روم بنے ہوئے ہیں‘ کوئی شخص سڑک کے کنارے کھڑا ہو کر حاجاتِ ضرریہ کے بقایاجات سے نمٹتا نہیں دکھائی دیتا‘ اس کالم نگار نے بہت لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی معروف سیاست دان کسی بیورو کریٹ کی بیگم کے ساتھ یہاں کے پہاڑی سلسلے پر پکڑا گیا تھا یا نہیں؟ لیکن کسی نے کچھ نہیں بتایا۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دانوں کی ذاتی زندگی بھی محدب عدسے سے دیکھی جاتی ہے اور انکم ٹیکس کی چوری‘ سرمائے کا باہر بھیجنا‘ بیرون ملک جائیدادوں کی خرید و فروخت‘ شادی شدہ ہو کر ادھر ادھر منہ مارنا کچھ بھی معاف نہیں کیا جاتا۔

پچھلے پچاس سال کے دوران اسلام آباد کے چڑیا گھر سے لے کر پہاڑی سلسلے کی چوٹی تک صرف دو ریستوران وجود میں آئے ہیں‘ ان ریستوران کے مالکان چائے یا کھانے کا جو بھائو لگائیں‘ سیاح کچھ بھی نہیں کر سکتے‘ اس لئےکہ  ریستوران کھولنے کیلئے ترقیاتی ادارے کے درجنوں اہلکاروں اور افسروں کو راضی کرنا پڑتا ہے اور راضی کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ یہ طریقہ بہت کم بزنس مین برداشت کر سکتے ہیں۔ بھارت کے بارے میں غالباً مولانا امین احسن اصلاحی نے لکھا تھا کہ یہاں سانپ سے لے کر ہاتھی تک سینکڑوں دیوتا ہیں‘ ہمارے ترقیاتی اداروں میں نائب قاصد سے لے کر سربراہ تک سینکڑوں سانپ اور ہزاروں ہاتھی ہیں‘ سانپ دودھ مانگتے ہیں اور ہاتھی سونڈھیں لہراتے‘ مستی میں ڈوبے‘ دندناتے پھرتے ہیں‘
 میلبورن کی ان سیرگاہوں میں ریستورانوں‘ چائے خانوں‘ کافی گھروں اور تحائف بیچنے والی دکانوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ حیرت سے آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ سب سے زیادہ دلچسپ چائے خانے کا نام مس مارپل ہے۔ مس مارپل مشہور برطانوی ناول نگار اگاتھا کرسٹی کے ناولوں کا ایک خیالی کردار ہے‘ اگاتھا کرسٹی نے جرم و سزا اور جاسوسی کے موضوع پر ایک سو کے لگ ناول لکھے جو لاکھوں کی تعداد میں بکے۔ ان میں سے بارہ ناول ایسے ہیں جن میں سراغ رسانی کا کام مس مارپل نے کیا۔ وہ ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتی تھی اور باغوں اور کھیتوں میں اپنا معمول کا کام کرتی رہتی تھیں لیکن ہر آنے جانیوالے پر نظر رکھتی تھی اور گتھیاں سلجھاتی تھی۔ برطانیہ سے آنیوالی ایک کاروباری خاتون نے اس مس مارپل کے نام پر چائے خانہ کھولا جس میں چائے اور آئس کریم مہیا کی جاتی ہے لیکن اسکی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ میز محفوظ کرانے کے بعد گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ چائے خانے کے اندر دیواروں پر چاروں طرف سینکڑوں چینکیں پڑی ہیں‘ ہر زمانے کی اور ہر ساخت کی یہ چائے دانیاں صرف سجاوٹ کیلئے رکھی گئی ہیں۔

اس سارے علاقے کیلئے مقامی حکومت نے کچھ قوانین وضع کئے ہیں‘ مثلاً سیرگاہوں کی حدود کے اندر کتے بلی یا کسی بھی پالتو جانور کا داخلہ منع ہے‘ کوئی شخص اسلحہ کے ساتھ نہیں آسکتا‘ سڑکوں اور پگڈنڈیوں پر جو نشانات لگائے گئے ہیں‘ انکی خلاف ورزی ناقابل قبول ہو گی‘ کسی پودے‘ درخت‘ جھاڑی‘ پرندے یا جانور کو نہ تو چھیڑنے کی اجازت ہے نہ لے جانے کی‘ سارا کوڑا کرکٹ اپنے ساتھ واپس لے جانا ہو گا۔ کوئی کوڑے دان کہیں بھی نہیں رکھا گیا‘ نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ یہ قوانین ڈی آئی جی‘ ایس پی‘ ڈی سی‘ چودھری صاحب‘ سردار صاحب‘ میاں صاحب‘ لغاریوں‘ مخدموں‘ ہاشمیوں‘ گیلانیوں‘ مزاریوں‘ پیروں‘ مولانائوں‘ سب پر یکساں نافذ ہیں۔ خلاف ورزی کرنیوالا وزیر ہو یا اس کا صاحب زادہ‘ فورسٹار جنرل ہو‘ پچاس ستاروں والے افسر کی بیگم یا بیٹی پکڑی جائیگی اور سزا پائے گی۔

 یہ صرف ایک مارگلہ‘ ایک دامن کوہ‘ ایک ڈینڈی نانگ اور ایک مس مارپل کا قصہ نہیں‘ یہ تہذیبوں اور تمدنوں کا فرق ہے۔ جو معاشرتی قدریں اسلام لے کر آیا تھا‘ وہ ان ملکوں نے اپنا لیں اور سرخ رو ہوئے اور ہم نے ان قدروں سے منہ موڑکر صرف اس اسلام کو قبول کیا‘ جو ہمارے مفادات سے مناسبت رکھتا ہے۔ آسٹریلیا میں گزشتہ ہفتے تاریخ کی پہلی خاتون وزیراعظم نے حکومت سنبھالی‘ اسلئے کہ برسر اقتدار سیاسی جماعت کے اندر انتخابات کی وجہ سے پارٹی کا سربراہ اسے چنا گیا اور پہلے سربراہ کو اتار دیا گیا۔ خاتون وزیراعظم کا باپ دماغی امراض کے ہسپتال میں ایک عام ڈسپنسر تھا اور ماں بھی عام سی ملازمہ۔ وزیراعظم کی زندگی کا ساتھی حجام ہے‘ لیکن اس معاشرے میں ڈسپنسر ہونا یا حجام کا کام کرنا اتنا ہی باعزت ہے جتنا زمینداری کرنا یا شہزادہ ہونا۔ کیا اسلام نے مسلمانوں کو یہی نہیں سکھایا تھا؟

کالم یہاں تک لکھا تھا کہ کمپیوٹر نے تازہ ترین خبر دی ہے کہ بے نظیر بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر سندھ بھر میں پیپلز پارٹی کے جیالوں نے خون کے جو عطیات دیئے‘ ان میں سے کم از کم تیس فیصد ایسے ہیں جن میں ہیپاٹائٹس کے جراثیم ہیں‘ خون لینے سے پہلے جو ضروری چھان بین (سکریننگ) کرنا تھی‘ وہ نہیں کی گئی‘ خبر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ خون تھیلاسیمیا میں مبتلا بچوں اور جنگ میں زخمی ہونے والے فوجی جوانوں کو دیا جائیگا‘ یہ ہیں ہماری سیاسی جماعتیں جو زندگی کے بجائے موت بانٹتی پھر رہی ہیں لیکن پھر بھی… ہے کوئی ہم سا؟ ہم ساہو تو سامنے آئے۔

Wednesday, June 23, 2010

مناظر

پہلا منظر: … ایک بڑے ہال میں بہت سے نوجوان مرد اور عورتیں جمع ہیں سب شائستہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔انکے ہاتھوں میں ڈگریاں اور قلم ہیں۔ انکی آنکھوں میں چمک ہے۔ انکے چہروں پر فطانت ہے انکے ماتھے روشن ہیں لیکن انکے لباس معمولی ہیں۔ ان نوجوان مردوں اور عورتوں کے ساتھ کوئی نہیں‘ سب اپنے اپنے گھر سے اکیلے آئے ہیں۔

اچانک ایک طرف سے پردہ سرکنے لگتا ہے۔ایک بڑا سٹیج نظر آتا ہے جس پر دبیز خوبصورت قالین بچھے ہیں۔ زرنگار کرسیاں لگی ہیں۔ان پر کم خواب کی گدیاںہیں ۔کرسیوں پر جو نوجوان عورتیں اور مرد فروکش ہیں وہ بیش بہا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ہر نوجوان کی پشت پر ایک ایم این اے یا سینیٹر کھڑا ہے۔ایک خاتون مائک پر آتی ہے اور ہال میں موجود لوگوں سے خطاب کرتی ہے کہ جس کا کوئی قریبی عزیز منتخب نمائندہ یا منصب دار ہے ،وہ سٹیج پر آجائے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھتے ہیں ۔کوئی بھی سٹیج پر نہیں آتا۔
مائک پر دوبارہ اعلان ہوتا ہے۔سٹیج پر بیٹھے ہوئے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو بیرون ملک سفارت خانوں میں کمرشل قونصلر تعیناتی کے کاغذات دئیے جاتے ہیں۔

دوسرا منظر:… یہ جون2009ء ہے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن اخبارات میں اشتہار دیتا ہے کہ پنجاب میں چار پروفیسر آف میڈیسن درکار ہیں۔ نومبر میں انٹرویو کا نتیجہ سنایاجاتا ہے۔اب اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ اسامیاں صرف جنوبی پنجاب کے اداروں کیلئے ہیں۔ احتجاج کی آوازیں بلند ہوتی ہیں۔ اسمبلی میں سوال پوچھے جاتے ہیں۔پنجاب میں وزیر صحت کوئی نہیں،اس لئے سپیکر پنجاب اسمبلی وزیر قانون کو وضاحت کیلئے کہتے ہیں۔چار ماہ کے بعد تعیناتیوں کے احکام میں ترمیم کی جاتی ہے!جنوبی پنجاب کے ادارے میں چار آسامیوں پر چھ پروفیسر آف میڈیسن کام کر رہے ہیں۔اس سے کہیں زیادہ بڑے ادارے میں‘ جو جنوب میں نہیں ہے‘چار کام کر رہے ہیں اور کئی اداروں میں اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

جہاز اُڑتا ہے۔اس میں پاکستانی ڈاکٹر بھرے ہیں کچھ سعودی عرب اُتر جاتے ہیں جہاز دوبارہ پرواز کرتا ہے۔ڈاکٹر اُترتے جاتے ہیں۔لندن،نیو یارک، ہیوسٹن، غیر ملکی ادارے خوش آمدید کہتے ہیں اور میرٹ کی یقین دہانی کرتے ہیں۔لاہور اور ملتان کے اداروں میں کچھ لوگ بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ایک دوسرے کو مبارکبادیں دیتے ہیں۔ مریض ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے ہیں۔

تیسرا منظر:… پاکستان کا ساحلی شہر۔ گلیوں محلوں اور شاہراہوں پر لاشیں پڑی ہیں۔گورنر ہائوس میں اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوتا ہے۔اشیائے خوردونوش ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتی ہیں۔گورنر صاحب اعلان کرتے ہیں کہ غیر فعال دہشت گردی ایکٹ کو دوبارہ فعال کیاجائیگا۔ایک صاحب اُٹھ کر پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس ایکٹ کو غیر فعال کیوں کیا گیا تھالیکن انکی نظر اشیائے خوردونوش پر پڑتی ہے اور وہ خاموش رہتے ہیں۔اجلاس میں علماء کرام اور انتظامی اداروں کی مشاورت کے بعد اس بات پر اتفاق کیا جاتا ہے کہ ساحلی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور ملزمان کیخلاف بھرپور کارروائی کیلئے اُن پولیس افسران کو تعینات کیاجائیگا جو اچھی شہرت کے حامل ہیں۔اور اس حوالے سے اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔ ایک اور صاحب پوچھناچاہتے ہیں کہ اس کام کیلئے خراب شہرت کے حامل افسروں کو کیوں مامور کیا گیا اور یہ اچھی شہرت کے حامل اور مہارت رکھنے والے افسران اس وقت کون سی ڈیوٹی دے رہے ہیں لیکن انہیں یاد آتا ہے کہ اس قسم کے سوال کرنے کے بعد انہیں آئندہ یہاں نہیں بلایاجائیگا‘وہ خاموش رہتے ہیں۔ اجلاس میں فیصلہ کیاجاتا ہے کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں ملوث عناصر کی گرفتاری کیلئے ’’بلاامتیاز‘‘ کارروائی کی جائے۔اجلاس کے بعد پولیس کے سربراہ، اپنے ماتحتوں کا اجلاس بلاتے ہیں۔وہ پوچھتے ہیں کہ امتیاز نامی پولیس والا کون ہے؟ ایک صاحب ہاتھ کھڑا کرتے ہیں۔انہیں باہر نکال دیا جاتا ہے۔

چوتھا منظر: … صوبائی اسمبلی کا اجلاس ختم ہورہا ہے۔اسمبلی کی عمارت کے باہر سردار صاحب صحافیوں سے گفتگو کر رہے ہیں۔صحافی یاد کرتے ہیں کہ سردار صاحب کو سردار صاحب کہہ کہ مخاطب نہ کیاجائے تو انکی طبیعت ناساز ہوجاتی ہے۔وہ بتاتے ہیں کہ جنوبی پنجاب سے کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں میں سولہ ہزار سے بیس ہزار تنخواہ پر نوجوانوں کو بھرتی کیا جارہا ہے۔صحافی سوالات پوچھتے ہیں۔آخر جنوبی پنجاب ہی سے کیوں؟ اونٹوں کی دوڑ سے ہلاک ہونے والے بچے بھی جنوبی پنجاب ہی سے کیوں تعلق رکھتے ہیں؟سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کی تعداد بھی جنوبی پنجاب ہی میں کیوں کم ہے؟مدارس کی تعداد بھی وہاں کیوں زیادہ ہے؟ جدّی پُشتی جاگیردار بھی اسی علاقے میں ہیں۔کیا یہ ساری باتیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں؟نوجوان اگر کالعدم اور دہشت گرد تنظیموں میں بھرتی ہورہے ہیں تو اس کا مطلب واضح ہے کہ وہ بیروزگار ہیں۔کیا بیروزگاری کا سبب جنوبی پنجاب کا صدیوں پرانا جاگیردارانہ نظام ہے؟کسی سوال کا جواب نہیں ملتا۔

آخری منظر: … ایک صاحب۔جن کا انگریزی سوٹ اڑھائی لاکھ روپے کا ہے، جوتے پندرہ ہزار روپے کے ہیں، قمیض بیس ہزار روپے کی ہے ، نکٹائی پچیس ہزار روپے کی ہے اور گھڑی دس لاکھ روپے کی ہے۔ لائوڈ سپیکر پر تقریر کر رہے ہیں۔’’ اب تک آپ نے جتنے مناظر دیکھے ہیں وہ سب جعلی ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ ملک میں کوئی بے روزگار نہیں، ساری بھرتیاں میرٹ پر کی جارہی ہیں۔کسی کا کوئی رشتہ دار بیرون ملک تعینات نہیں کیاجارہا،زرعی اصلاحات کی کوئی ضرورت نہیں۔بجلی کی بچت کی جائے،ہم خوشحالی لے کر آئے ہیں۔ غربت کا خاتمہ ہوچکا ہے ہم نے کشکول توڑدیا ہے۔ آخر آپ لوگ صبح ناشتے میں پھلوں کا رس، انڈے، مکھن، آسٹریلیا کا شہد، برطانیہ کا مارملیڈ، برازیل کی کافی اور ڈنمارک کا کارن فلیک کیوں نہیں استعمال کرتے؟

Tuesday, June 15, 2010

ماں بھکارن اور بیٹا گھوڑوں کا خریدار

بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ ہم پاکستانی ساری زندگیاں ترقی یافتہ ملکوں کے ان معاشروں میں گزار دیتے ہیں جو نظم و ضبط، سچائی اور دیانت سے عبارت ہیں لیکن اپنا دامن بچا کر رکھتے ہیں۔ سچائی اور دیانت کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے۔ اس لئے کے بخت سیاہ ہو تو کچھ کام نہیں آتا۔ تعلیم نہ دولت۔ گرین کارڈ نہ کینیڈا کی شہریت!

فرض کریں میں آپ سے کہتا ہوں کہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے یا کراچی کے تاجروں کی انجمن نے پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو اپنی سالانہ تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر بلایا تو کیا آپ یقین کر لیں گے؟ کبھی نہیں۔ کوئی غیرت مند پاکستانی، یا پاکستانیوں کی کوئی انجمن، بقائمی ہوش و حواس، پلاسٹک کے وزیراعظم شوکت عزیز کو بلانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ یہ کام جن مرد کے بچوں نے کیا ہے وہ ہمارے تارکین وطن بھائی ہیں۔ کینیڈا پاکستان بزنس کونسل نے اپنی سالانہ تقریب میں شوکت عزیز کو مہمان خصوصی کا اعزاز دیا ۔

یہ شوکت عزیز وہی ہیں جو آٹھ سال تک اس ملک پر مسلط رہے‘ پہلے وزیر خزانہ کے طور پر اور بعد میں وزیراعظم کی صورت میں، وہی شوکت عزیز جنہوں نے لال مسجد ایکشن کی آخری فیصلہ کن رات کو خصوصی طور پر دکان کھلوا کر قلفیاں کھائی تھیں، وہی شوکت عزیز جن کے وزیرقانون کے صاحبزادے نے باپ کی موجودگی میں کراچی کے ہوائی اڈے پر ایک شریف شہری کو مار مار کر لہولہان کر دیا تھا اور وزیراعظم کے کان پر جوں رینگی نہ ماتھے پر شکن ابھری۔ وہی شوکت عزیز جس نے بدعنوان وزیروں کاساتھ دینے کیلئے دیانتدار افسروں کو سزائیں دیں۔ ان دیانت دار افسروں میں خواتین بھی شامل تھیں اور سب سے بڑھ کریہ کہ وہی شوکت عزیز جس کی آٹھ سالہ مہارت اور وزارت کا ثمر آج پاکستانی قوم کھا کر مزے کر رہی ہے۔ بجلی ناپید ہے۔ گیس کی راشن بندی ہے۔ امن و امان عنقا ہے۔ موت گلی گلی رقص کر رہی ہے اور شوکت عزیز برونائی اور عرب کے شہزادوں سے بھی زیادہ عیش و عشرت والی زندگی گزار رہا ہے۔ سفر کیلئے ذاتی جہاز خرید لیا ہے‘ کبھی امریکہ، کبھی کینیڈا اور کبھی برطانیہ! پنجابی کا محاورہ ہے کہ ماں پِنے تے پتر گھوڑے گھنے۔ ماں بھیک مانگ رہی اور بیٹا گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے۔ ملک کی اینٹ سے اینٹ بج رہی ہے۔ لوگ سسک رہے ہیں۔ بلک رہے ہیں اور شوکت عزیز ساری دنیا میں مشورے اور لیکچر دیتے پھر رہے ہیں۔
کینیڈا پاکستان بزنس کونسل کی سالانہ تقریب سے بطور مہمان خصوصی موصوف نے دو نکات پر بہت زور دیا۔ ایک یہ کہ ’’اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچا۔‘‘ شوکت عزیز کی اگر تربیت ہوئی ہوتی تو انہیں معلوم ہوتا کہ فرعون، ہامان، چنگیز، ہٹلر اور نظام سقہ ہر ایک کو یہی گمان بلکہ یقین تھا کہ اسکے اقتدار کے پیچھے دست غیب کی کارفرمائی ہے۔ یہ تو کوئی بھی نہیں کہتا کہ یہ قوم کے گناہوں کا بوجھ ہے یا اس کا اپنا امتحان ہے۔ شوکت عزیز کسی آزادانہ انتخابات کے نتیجے میں وزیراعظم بنے ہوتے تو کوئی بات بھی تھی۔ وہ ایک آمر کو پسند آئے اس لئے کہ آمر کو کٹھ پتلی درکار تھی اور شوکت عزیز بہترین کٹھ پتلی تھے۔ کسی کو شک ہو تو اقتدار کے آخری ایام میں انکی وہ تقریر سن لے جو انہوں نے ہزارہ میں عمر ایوب خان کے ساتھ کھڑے ہو کر کی تھی۔ اس تقریر کی وڈیو ضرور ٹی وی والوں کے پاس ہوگی اور وہ کسی بھی مزاحیہ پروگرام میں اسے دکھا سکتے ہیں۔ شوکت عزیز نہ صرف کٹھ پتلی بلکہ مداری لگ رہے تھے۔ دوسرا نکتہ جس پر انہوں نے زور دیا یہ ہے کہ ’’مجھے ساری دنیا میں لیکچرز اور مشوروں کیلئے بلایا جاتا ہے۔‘‘ چند بناسپتی قسم کے اداروں سے دعوت ہر ایک کو مل جاتی ہے۔ دنیا میں بے شمار ادارے ایسے ہیں جو اتنے ہی جعلی ہیں جتنے شوکت عزیز۔ وہ اگر اتنے ہی بڑے برزجمہر ہیں تو اپنے مشوروں سے پاکستان کے مسائل کیوں نہیں حل کر دیتے؟ سعدی نے اس جیسے کسی چھچھورے شخص ہی کو کہا تھا کہ …؎

تو کار زمین را نکو ساختی؟

کہ با آسمان نیز پرداختی؟

کیا تو زمین کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہو چکا ہے کہ آسمان کے کام کرنے کی ٹھان لی ہے؟ شوکت عزیز صاحب کرم فرمائیں اور پوری دنیا میں ’’پھر جانے‘‘ کے بجائے اس ملک ہی کے کام آ جائیں جسے وہ آٹھ سال تک دونوں ہاتھوں سے نوچتے رہے۔ اپنے دوستوں کو لٹاتے رہے اور کروڑوں روپے کے تحائف جو انہیں غیرملکی سرکاری دوروں میں پاکستان کی وجہ سے ملے تھے اور جو ریاست کی ملکیت تھے اٹھائی گیروں کی طرح سمیٹ کر رات کی تاریکی میں ملک سے بھاگ گئے۔ (ان تحائف کی تفصیل بمع مالیت میڈیا میں آ چکی ہے)

رہی کینیڈا پاکستان بزنس کونسل… تو تاجر، تاجر ہی ہوتا ہے۔ تاجروں سے کیا گلہ! تاجر برادری سے پیشگی معافی مانگتے ہوئے ہم صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کرینگے کہ اگر تاجر مخلص ہوتے تو ٹیکس کے اربوں روپے ناجائز جیبوں میں نہ جاتے، قومی خزانے میں جاتے۔ انکم ٹیکس اور کسٹم کے بدعنوان راشی افسروں کی دنیا کن کے سہارے آباد ہے؟ پورے پورے کنٹینروں کے سودے کون کرتا ہے؟ اور قانون سے بچنے کیلئے شٹر ڈائون ہڑتالوں کا کھڑاک کون کراتاہے؟

اصل قصہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی طرح پاکستانی تارکین وطن بھی دو حصوں میں منقسم ہیں۔ ایک عام لوگ جو مخلص ہیں، دردمند ہیں اور ملک کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار ہیں۔ دوسرے کھڑپینچ اور لیڈری چمکانے والے، جو سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔ یہ وہی حضرات ہیں جو پاکستان کے بدعنوان اور آمریت پسند سیاستدانوں کی بیرون ملک پذیرائی کرتے ہیں۔ تارکین وطن کے یہ ’’لیڈر‘‘ سیاسی جماعتوں کی بیرون ملک ’’شاخوں‘‘ کے انچارج بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان آتے ہیں تو ان کا عوام سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا حکمرانوں کے ساتھ تصویریں کھنچواتے ہیں، تمغہ امتیاز جیسے ایوارڈوں کیلئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور کسی نچلے درجے کے نامہ نگار کو انٹرویو دے کر ائرپورٹ کے وی آئی پی لائونج کے راستے واپس اپنی دنیا کوسدھار جاتے ہیں۔ ان تارکین وطن لیڈروں نے کبھی مطالبہ نہیں کیا کہ سیاستدان، سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات کرائیں اور ملک میں صحیح معنوں میں جمہوریت قائم ہو۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے ’’بطل جلیل‘‘ بھی تارکین وطن ہی کی کرم فرمائی سے امریکہ اور برطانیہ میں سرکس برپا کرتے پھرتے ہیں!

یہ درست ہے کہ کینیڈا پاکستان بزنس کونسل جیسے اداروں میں پاکستانیوں کیساتھ ساتھ مقامی لوگ بھی ہیں لیکن پاکستانی ارکان کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس قسم کے ادارے پاکستان کے بجٹ پر اپنی ماہرانہ پیشہ ورانہ رائے دیتے اور حکومت پر دبائو ڈالتے کہ عوام دشمن فیصلے نہ کئے جائیں۔ حالیہ بجٹ میں تعلیم کے شعبے کے سات ارب کم کر دئیے گئے۔ صحت کا بجٹ ستائیس فیصد کاٹ دیا گیا۔ ایوان صدر اور وزیراعظم کے دفتر اور محل کیلئے گذشتہ بجٹ کی نسبت کئی کروڑ روپے زائد مختص کئے گئے لیکن تارکین وطن کی پیشہ ورانہ تنظیموں نے احتجاج تو دور کی بات ہے اس ستم گری کا نوٹس تک نہیں لیا۔ یوں لگتا ہے ان کا مسلک اب یہ ہے …؎

میں نے جو آشیانہ چمن سے اٹھا لیا

میری بلا سے بوم بسے یا ہما رہے

Tuesday, June 08, 2010

نئی سازش کا خطرہ

اُس زمانے میں دہشت گرد تھے نہ اغواء کرنے والے۔ دیہات اس قدر محفوظ تھے کہ گھروں کے دروازے نہیں ہوتے تھے۔ جن حویلیوں میں مال مویشی باندھے جاتے تھے انکے بھی گیٹ نہیں رکھے جاتے تھے۔ گھروں میں داخل ہونے کے ان کْھلے راستوں کو مغربی پنجاب میں ’’درُنڈے‘‘ کہا جاتا تھا لیکن وہ زمانہ یوں ہوا کہ جیسے کبھی تھا ہی نہیں، اب تو دیواروں کے اوپر بھی خاردار تاروں کے جنگل اْگے ہیں۔مجھے میلبورن میں آئے پندرہ دن ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے اس دوسرے بڑے شہر میں اکثریت ایسے گھروں کی ہے جن کے گیٹ یا صدر دروازے نہیں ہیں۔ بس ’’درْنڈے‘‘ ہیں۔ اندر کاریں کھڑی نظر آ رہی ہیں۔ بہت سے گھر تو چار دیواری سے بھی بے نیاز ہیں۔

عالمی تحقیقی ادارے ہر سال ایک فہرست جاری کرتے ہیں کہ دنیا میں رہنے کیلئے بہترین شہر کون کون سے ہیں۔ گذشتہ کئی برس سے کینیڈا کا شہر وین کوور اور آسٹریلیا کا شہر میلبورن اس میں سرفہرست آ رہے ہیں اس سال آسٹریا کا شہر ویانا بھی ٹاپ پر آیا ہے۔ محفوظ ترین شہروں میں دبئی کا نام بھی آتا ہے۔ استنبول جدہ اور مدینہ منورہ بھی پہلے چالیس پچاس بہترین شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔ اس فہرست کی تیاری میں بہت سے عوامل کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ مثلاً سیاسی اور معاشرتی پہلو۔ دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات، قانون کے نفاذ کی حالت، عوام کتنے محفوظ ہیں؟ فرد کو کتنی آزادی میسر ہے؟ اور میڈیا کس قدر آزاد اور غیر جانبدار ہے؟ بہترین قرار دیئے جانے والے شہروں میں ’’سہولیات‘‘ کی فراہمی بھی جانچی جاتی ہے۔ علاج معالجہ کی سہولیات، پینے کا صاف پانی، گندے پانی اور کوڑے کرکٹ سے نجات، ٹریفک کی صورتحال، بجلی، ٹیلی فون، پبلک ٹرانسپورٹ، ڈاک کا انتظام، ان سب سہولیات کی موجودگی اور ہمہ وقت موجودگی کو دیکھا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ تفریح کتنی میسر ہے، ریستوران، جہاں دنیا کے مختلف کھانے دستیاب ہوں، سینما، تھیٹر، کھیل، اشیائے خوردو نوش کا معیار، گھروں کی تعمیر کا سسٹم، شاہراہوں کی صفائی مرمت کے نظام کی برق رفتاری۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آب و ہوا بہترین ہو اور قدرتی آفات کا ریکارڈ بھی نہ ہونے کے برابر ہو یا کم سے کم ہو۔

آپ غور کریں کہ اس کٹھن معیار پر صرف وہ ملک پورے اتر سکتے ہیں جہاں بدعنوانی کا نام و نشان نہ ہو۔ جن ملکوں کے شہر رہنے کیلئے بہترین قرار دئیے جاتے ہیں، یہ کم و بیش وہی ممالک ہیں جو کرپشن سے پاک تسلیم کئے جاتے ہیں۔ تین چیزیں فیصلہ کرتی ہیں کہ کوئی ملک بدعنوانی سے محفوظ ہے یا نہیں۔
-  آزاد و غیر جانبدار عدلیہ ۔-
 قانون کا زبردست نفاذ جس میں کسی کیلئے کوئی رعایت نہ ہو اور
  حکومتی شعبے کا مکمل اور کڑا احتساب ۔
 کینیڈا، آسٹریا، جرمنی سوئٹزر لینڈ، فن لینڈ، سنگاپور اور آسٹریلیا وہ ممالک ہیں جو بدعنوانی سے پاک ملکوں کی فہرست میں بھی ٹاپ کرتے ہیں۔ اس کی صرف ایک مثال ملاحظہ کریں کہ برائن مل نری 1984ء سے 1993ء تک کینیڈا کے وزیراعظم رہے۔ آج کل وہ ایک مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔ الزام یہ ہے کہ اسلحہ کے ایک تاجر سے انہوں نے چند خدمات کے عوض کچھ رقم قبول کی تھی‘ اگرچہ یہ رقم انہوں نے اس وقت لی تھی جب وہ وزیراعظم نہیں تھے لیکن رقم دینے والے کا مؤقف یہ ہے کہ وزارت عظمیٰ ختم ہونے میں ابھی دو دن باقی تھے کہ معاملات طے ہوگئے تھے۔ کینیڈا کے موجودہ وزیراعظم کا تعلق بھی اسی سیاسی جماعت سے ہے جس کے رکن برائن مل ہیں۔ دونوں سالہا سال سے ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ دونوں کا سیاسی مستقبل بھی ایک ہی جماعت سے وابستہ ہے لیکن موجودہ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سوال منصب کی حرمت کا ہے اس لئے تفتیش پوری ہوگی۔ مقدمے کی سماعت کرنے والے ججوں میں سے ایک نے یہ کہہ بھی دیا ہے کہ ملزم کا طرز عمل اسکے عہدے کی مناسبت سے درست نہیں تھا!
 اب کینیڈا میں میڈیا کی آزادی کی ایک مثال دیکھئے۔ معروف صحافی خاتون کیمرون نے چند دن پہلے ایک تقریر کی ہے جس میں اس نے دس وجوہات بیان کی ہیں جن کی بناء پر وہ ’’بدعنوان سیاست دانوں کی نسبت سیریل قاتلوں کو زیادہ پسند کرتی ہیں‘‘ اگر یہ دس وجوہ ساری بیان کی جائیں تو بات لمبی ہو جائیگی۔صرف ایک وجہ سن لیجئے اور وہ یہ کہ سیریل قاتلوں کے خفیہ بنک اکاؤنٹ نہیں ہوتے۔

حکومتی پارٹی میں سے کسی نے یہ نہیں کہاکہ برائن  کے خلاف مقدمہ سازش ہے یا پارٹی کو بدنام کرنے کیلئے گھڑا گیا ہے یا سسٹم تباہ ہو جائیگا یا میڈیا حکومت کا تختہ الٹنا چاہتا ہے یا صحافی اپنی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں۔ آج کل مغربی ممالک ’’ دہشت گردی‘‘ کیخلاف فوبیا کا شکار ہیں۔ اسکے باوجود برائن یا انکے کسی حمایتی نے یہ نہیں کہا کہ دہشت گردوں کی سازش ہے حالانکہ فضا اس قسم کا الزام عائد کرنے کیلئے بہت ہی مناسب تھی۔ ! سیدھی بات ہے کہ سابق وزیراعظم کیخلاف پوری تفتیش ہوگی۔ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگا اس پر سو فیصد عمل ہوگا۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر ایسا نہ ہو تو پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کا رخ کینیڈا کی طرف کیوں ہو؟
ہم میلبورن میں واپس آتے ہیں شہر میں سینکڑوں لائبریریاں ہیں جنہیں حکومت چلا رہی ہے۔ ہمارے محلے کی لائبریری میں سولہ کمپیوٹر نصب ہیں جن پر ہر وقت انٹرنیٹ کی سہولت میسر ہے۔ آپ بیک وقت تیس کتابیں پڑھنے کیلئے گھر لا سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ کتابیں آپ اپنے نام خود ہی جاری کرتے ہیں۔ فیکس کے سائز کی ایک مشین ہے۔ آپ منتخب کی ہوئی کتابیں اسکے سامنے رکھتے ہیں۔ اپنا لائبریری کارڈ، مشین پر، اوپر سے نیچے کی طرف کھینچتے ہیں‘ بٹن دباتے ہیں‘ مشین سے ایک رسید نکلتی ہے جس پر کتابوں کے عنوانات اور تاریخ لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ کتابیں واپس کرنے کیلئے بھی آپ کو کاؤنٹر پر جانے کی ضرورت نہیں۔ ایک مخصوص کھڑکی میں کتابیں ڈال دیجئے وہ ڈھلوان کی طرف سرکنا شروع کر دیں گی اور متعلقہ عملے کے پاس پہنچ جائیں گی۔ بوڑھوں بیماروں اور اپاہجوں کیلئے لائبریری انکے گھروں میں بھیجی جاتی ہے۔ وہ اپنی پسندیدہ کتابیں بستر پر بیٹھے بیٹھے چن سکتے ہیں۔ ٹرکوں اور بسوں میں بنی ہوئی ان متحرک لائبریریوں کو ’’موبائل لائبریری‘‘ کہا جاتا ہے۔

حال ہی میں ایک اور فہرست بھی سامنے آئی ہے۔ یہ ان دس شہروں کی ہے جو رہنے کیلئے دنیا کے خراب ترین شہر ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے ہمیں اس فہرست کی بھی تفصیلات میں جانا چاہئے؟ چھوڑیے! رہنے دیجئے! کہیں ہمیں کوئی نئی سازش نہ نظر آئے۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاست دان تو دنیا کے بہترین لوگ ہیں لیکن ہم کیا کریں، ہمارے خلاف سازشیں بہت ہوتی ہیں۔ ہمارا اپنا تو کوئی قصور ہی نہیں۔ ہے نا یہی بات؟

Tuesday, June 01, 2010

حکایت اور اس سے نکلنے والے نکتے

بچوں کی عام سی لڑائی تھی لیکن زمیندار آخر زمیندار تھا۔ یہ شجاع آباد کے نواح کا واقعہ ہے۔ زمیندار نے سات سالہ بچی اور تین سالہ بچے پر خونخوار کتا چھوڑ دیا۔ ہسپتال میں دوائیں نہیں تھیں۔ جراثیم نے اپنا کام کر ڈالا۔ دونوں بچوں نے پہلے ایک دوسرے کو اور پھر والدین کو کاٹنا شروع کر دیا۔ ڈاکٹروں نے بچوں کے والد کو ویکسین لانے کیلئے کہا۔ ویکسین ملتان میں مل سکتی تھی۔ والد کے پاس کرایہ ہی نہیں تھا انصاف کیلئے وہ تھانے گیا تو مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا گیا۔

فارسی کے کلاسیکی شعرا کا قاعدہ تھا کہ اخلاقیات اور تصوف کے موضوع پر لکھتے تو اپنا مافی الضمیر واضح کرنے کیلئے حکایت بیان کرتے پھر حکایت سے نتیجے نکالتے جاتے اور نتیجوں کی روشنی میں موضوع کے ایک ایک پہلو کو تفصیل سے بیان کرتے‘ پردے گرتے جاتے‘ حجابات اُٹھتے  جاتے اور پڑھنے والے کے دل میں اٹھتے ہوئے سوالات اپنے جواب پا لیتے۔ اس ملک کے مسائل‘ یوں لگتا ہے اتنے ہی مشکل ہو گئے ہیں۔ جتنے فلسفے اور اخلاقیات کے موضوع ہیں۔ یہ حکایت جو ہم نے اوپر بیان کی ہے اور جو پانچ دن پہلے کا واقعہ ہے‘ اپنے اندر بہت سے نکتے لئے ہوئے ہے۔ پہلا نکتہ کاٹنے کا ہے۔ کتے کے کاٹے ہوئے کو پیٹ میں سات ٹیکے نہ لگیں تو وہ پاگل ہو جاتا ہے اور جو سامنے آئے اسے کاٹ کھاتا ہے۔

امریکی امداد سے شمالی اتحاد نے شمالی افغانستان پر دوبارہ قبضہ کیا تھا تو ان دنوں کنٹینرز میں قیدیوں کو بند کر کے صحرا کی طرف لے جانے کا چلن عام تھا۔ لوہے کے ان کنٹینروں میں اس قدر شدید تپش ہوتی تھی اور وہ تپش صحرا کی گرمی سے مل کر ایسا جہنم تیار کرتی تھی کہ قیدیوں کے جسم سے پانی سوکھ کر ختم ہو جاتا تھا‘ وہ حواس کھو بیٹھتے تھے۔ پہلے تو ایک دوسرے کے کان چوسنے لگتے تھے اور پھر کاٹنا شروع کر دیتے تھے۔ کنٹینروں میں بند کر کے مارنے کا رواج سب سے پہلے کس نے شروع کیا تھا؟ چھوڑئیے جانے دیجئے…؎

افسوس!بے شمار سخن ہائے گفتنی

خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے

ہم تو حکایت کے اس حصے کی محض تشریح کر رہے تھے جس میں کاٹنے کا ذکر ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ پولیس اسی معاشرے کا حصہ ہے۔ جس علاقے میں نو منتخب رکن قومی اسمبلی ہسپتال پر فوج کشی کر کے ڈاکٹروں کو ’’کیفر کردار‘‘ تک پہنچا سکتا ہے۔ اس علاقے میں تھانیدار کو کون پوچھے گا؟ اگر وہ مقدمہ درج کر لے تو زمیندار کتوں کے ساتھ تھانے میں بھی پہنچ جائیگا۔یہ علاقہ خادم پنجاب کی حکومت میں ہے اور قاف لیگ کے ہم نوائوں کو توڑ کر ساتھ ملانا ہو تو قاعدہ قانون بالائے طاق بھی رکھا جا سکتا ہے۔ تیسرا نکتہ ہسپتال میں ویکسین کا نہ ہونا ہے۔ ورلڈ بنک نے پہلے ہی شکایت کی ہے کہ پنجاب کا صرف ایک شہر ساری نوازشات کا اور ساری مہربانیاں اپنے دامن میں سمیٹے جا رہا ہے لیکن اس نکتے سے ایک اور نکتہ نکلتا ہے اور وہ یہ کہ سگ گزیدہ کیلئے درکار ویکسین اسی شہر کے ہسپتالوں میں مہیا کی جائیگی۔ جہاں زیادہ ضرورت ہو گی یعنی جہاں کتوں کے کاٹے ہوئے لوگ زیادہ آئینگے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سگ گزیدہ اور مردم گزیدہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ثبوت میں غالب کا شعر پیش کیا جاتا ہے۔ غالب کے استدلال کو رد کرنے کی ہمت کس میں ہے؟

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

لیکن اس حکایت سے نکلنے والا اہم ترین نکتہ زمیندار اور زمینداری کے بار ے میں ہے۔ یہ واقعہ جنوبی پنجاب کا ہے۔ ذرا جنوبی پنجاب کے متعلق مختلف حقائق ایک جگہ جمع کرتے جائیں۔ یہ علاقہ غربت کا گڑھ ہے۔ سارے پاکستان میں ہیپا ٹائٹس بی اور سی کی مہلک بیماریاں یہاںسب سے زیادہ ہیں۔ یہاں مفت رہائش مفت کھانا اور مفت پڑھائی مہیا کرنیوالے مدارس سب سے زیادہ ہیں۔ پنجابی دہشت گردوں  یا نام نہاد پنجابی دہشت گردوں کی بڑی تعداد اسی علاقے سے تعلق رکھتی ہے۔متحدہ عرب امارات میں اونٹوں کی دوڑ میں
کام آنے والے معصوم بچوں کی اکثریت بھی یہیں سے ہے۔لیکن یہ سب توچھوٹی چھوٹی حقیقتیں ہیں۔حقیقتوں کی ماں تو ابھی آئی ہی نہیں اور وہ یہ یے کہ پورے پنجاب میں جاگیرداری سینکڑوں سال سے جوں کی توں صرف اسی علاقے میں قائم ہے۔تصوف پر منعقد  ہونے والی ایک حالیہ کانفرنس میں  ہمارے ایک دوست  نے جو معروف دانشور ہیں اپنا مضمون پڑھا تو کچھ اصحاب  "وفا " نےہنگامہ کرنے کی کوشش کی ۔مضمون میں  حقائق کی اسی ماں کا ذکر تھا۔    
جون 1857ء میں ملتان چھائونی میں پلاٹون نمبر69 نے انگریزوں کیخلاف بغاوت کر کے جنگ آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان تین سو مجاہدوں کو شہید کرنے کیلئے اپنے مریدوں کو ساتھ لیکر انگریز فوج کی مدد کس نے کی؟ موجودہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے جد امجد نے! جلال پور پیر والا کے ایم این اے ہوں یا سید فخر امام‘ سب انہیں زمینداروں اور گدی نشینوں کے پشتینی وارث ہیں جنہوں نے مجاہدین آزادی کے سروں کی قیمت جاگیروں کی صورت میں وصول کی تھی۔ بتائیے‘ حکایت کے اس آخری نکتے کے سارے پہلو واضح ہونے پر جو شکل ابھرتی ہے‘ وہ کیسی ہے؟ جناب محمد علی درانی اور انکی طرح دوسرے ’’معصوم‘‘ حضرات‘ جنوبی پنجاب کیلئے الگ صوبے کا مطالبہ کرینگے لیکن کبھی یہ نہیں کہیںگے کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو جاگیرداروں اور انکے کتوں سے بھی نجات دلائی جائے‘ اس لئے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار! سبحان اللہ!مسئلے کا مثالی حل تو یہی ہے کہ زمینداریاں اور جاگیریں جوں کی توں قائم رہیں اور کئی نسلوں سے ’’منتخب‘‘ہونیوالے سجادہ نشین اور زمیندار زادے جنوبی پنجاب کی الگ اسمبلی میں براجمان ہوں!

پاکستانی اخلاقیات کو واضح کرنے والی دوسری حکایت تو آپ سن ہی چکے ہوں گے۔ زبان زد خاص و عام ہے! نو منتخب رکن اسمبلی جناب جمشید دستی نے اپنے حامیوں کی قیادت کرتے ہوئے ایک ہسپتال کے ڈاکٹروں پر حملہ کیا اور یوں مسیحائوں کی مسیحائی کے مرتکب ہوئے۔ دستی کا اگر انگریزی ترجمہ کریں تو ’’ہینڈی‘‘ ہو گا۔ ’’ہینڈی مین‘‘ انگریزی میں اسے کہتے ہیں جو چھوٹے موٹے ہر قسم کے کام کر ڈالے۔ امریکہ اور کینیڈا میں ہینڈی مین کی گاڑی کی ڈگی میں دنیا بھر کے اوزار ہوتے ہیں۔ وہ ٹونٹی اور دروازہ ٹھیک کرنے سے لے کر ٹی وی‘ فریج اور باتھ روم کے شاور اور بجلی کے پلگ تک سارے کام کرتا ہے۔ ہمارے ایک دوست جو سندھ کے ایک مشہور و معروف اور انتہائی اہم ضلع کے ڈپٹی کمشنر تھے‘ ان دنوں امریکہ کے ایک شہر میں ہینڈی مین کا کام کر رہے ہیں۔ جب وہ ڈپٹی کمشنری کرنے کے بعد اسلام آباد میں جوائنٹ سیکرٹری تعینات ہوئے تو ان کی وزارت کے سیکرٹری نے … جو نوکر شاہی کے اسی ’’بادشاہ‘‘ اور بادشاہ گر‘‘ گروپ سے تعلق رکھتے تھے جس کے رکن جوائنٹ سیکرٹری بھی تھے۔ ان کا جینا دو بھر کر دیا۔ جوائنٹ سیکرٹری حلال کھانے اور ضمیر کی بات سننے پر یقین رکھتے تھے۔ تنگ آ کر ملک چھوڑ گئے اور ہینڈی مین بننا منظور کر لیا۔ جمشید دستی تو اس بادشاہ اور بادشاہ گر گروپ کے مقابلے میں معصوم لگتے ہیں۔ ہمیش خان کے انکشافات سنتے جائیے‘ چیف جسٹس نے کہاہے کہ مرکز میں بیٹھے ہوئے ایک اہم سیکرٹری کا نام بھی اس قصے میں آ گیا ہے۔ سبحان اللہ! کیا گروپ ہے ! غالب پھر یاد آگیا…؎

بھرم کھل جائے ظالم! تیرے قامت کی درازی کا

اگر اس طرہ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

جمشید دستی کا ذکر آیا تو اشہب فکر دوڑ کر ڈاکٹر قدیر خان کی طرف چلا گیا۔ دو دن پہلے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد ڈاکٹر صاحب اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے باتیں کر رہے تھے۔ ’’صرف جعلی ڈگریوں والے اور چوروں کو اس ملک میں امتیاز حاصل ہے۔ وہی بار بار منتخب ہوتے ہیں اور وہی مناصب حاصل کرتے ہیں‘‘ باسٹھ سال کی تاریخ کو ڈاکٹر صاحب نے ایک فقرے میں سمو دیا ہے۔ ڈاکٹر قدیر خان سے سمندِ خیال نے جست لگائی ہے اور بھارتی سائنس دان عبدالکلام پر جا رُکا ہے۔ جسے بھارت نے ایٹم بم بنانے کے عوض اس قدر تکریم دی کہ ایوان صدر میں لابٹھایا۔

روایت ہے کہ عبدالکلام جن دو اٹیچی کیسوں کے ساتھ ایوان صدر گئے تھے‘ چار سال بعد انہی کے ساتھ وہاں سے نکلے۔ عبدالکلام کی خود نوشت سوانح ونگز آف فائر(آگ کے پر) تیرہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکی ہے اور ان تیرہ زبانوں میں چینی زبان بھی شامل ہے! کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ڈاکٹر قدیر خان بھی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنی آپ بیتی لکھیں اور اگر اس میں کچھ پردہ نشینوں کے نام آتے ہیں تو ان کے چہروں سے نقاب الٹ دیں!!
 

powered by worldwanders.com